ماضی
شام کی نیلگوں سیاہی آسمان پہ چھائی تھی۔۔ اس خوبصورت پرتعیش عمارت کے پہلو میں دو سے تین گھر چھوڑ کر وہ پرتعیش گھر واقع تھا جس کی کھڑکیوں سے پردے ہٹے تھے۔۔ شام کی گہری ہوتی سیاہی کھڑکیوں سے رینگتی کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔۔
اوٹ سے جھانکو تو ایک نوجوان مقابل صوفے پہ براجمان تھا۔۔ اس کے ہمراہ ایمان بھی کمرے میں موجود تھی جس کی ان کھڑکیوں کی جانب پشت تھی۔۔ وہ سخت لہجہ اپنائے اس سے مخاطب تھے۔۔
“جاؤ۔۔ اب جا کر شاہان سے نوٹ بک لے کر آؤ۔۔ اور آئندہ کوئی لاپرواہی نہیں۔۔ آپ کو پتا ہے کہ ایک دن چھٹی کرنے سے کتنا برڈن پڑھ جاتا ہے۔۔ جلدی جاؤ اب۔۔” تحکم آمیز لہجہ اپنائے وہ اس سے مخاطب تھے جس نے بےیقینی سے وآپس انہیں دیکھا تھا۔۔
تو اب دشمن کے پنجرے میں اس کی مدد مانگنے جانا تھا۔۔ حلق میں گلٹی سی اٹکی۔۔ پچھلے گزرے ماہ کی سب غلطیاں، شرارتیں ایک ساتھ حملہ آور ہوئیں۔۔ اگر اس نے انکار کر دیا؟؟ اسے کیسے انکار کریگا۔۔ اس کی تو اسی کی تیسی۔۔ نہیں بھی دیا تو فاطمہ آنٹی ہیں نہ۔۔
دل ہی دل میں دعائیں مگتی وہ خودکلامی کرتی اس کے گھر کی جانب رواں دواں تھی۔۔ “ایمان تجھے اس سے بات نہیں کرنی۔۔ اسے مخاطب نہیں کرنا۔۔” ناک چڑھا کر کہتی وہ انگلیاں باہم پھنسائے اضطراب کی کیفیت سے دو چار چلتی جا رہی تھی۔۔
مطلوبہ جگہ آ چکی تھی۔۔ تھوک نگلتے بیل کی گھنٹی بجائے رک کر کھڑی وہ دروازہ کھلنے کی منتظر تھی۔۔ ساتھ ہی ساتھ فاطمہ انٹی کے گھر پہ موجود ہونے کی زیرلب دعائیں بھی مانگ رہی تھی۔۔
ٹھیک دو منٹ کی دیری کے بعد دروازہ کھلا۔۔وہ دشمن اس کے مقابل کھڑا تھا۔۔۔ چبھتی نگاہیں ایمان کے چہرے پہ ٹکیں تھیں۔۔ “وہ۔۔ فاطمہ آنٹی۔۔ ہیں گھر پہ؟؟؟”
“نہیں۔۔” سپاٹ سے لہجے میں کہا گیا۔۔ راہ گزر روکے کھڑا وہ اس کے بولنے کا منتظر تھا جو اب خاموشی سے شاہان کے عقب میں نظر آتے ڈرائنگ روم میں جھانک رہی تھی۔۔ “جاؤ۔۔ لے لو جو لینا ہے۔۔”
چوکھٹ سے سرک کر اک جانب ہوتا وہ بولا تھا۔۔ “وہ۔۔ تمہاری اردو کی نوٹ بک چاہئے تھی۔۔” بلآخر ایمان نے کہا۔۔۔
“واٹ؟؟؟؟؟” حیرت زدہ ہونے کا دکھاوا کرتا وہ ابرو اچکاتے پوچھ رہا تھا۔۔
“میں چھٹی پہ تھی تو تبھی تمہاری کاپی چاہئے۔۔”
“کیوں میرا ہوم ورک تم کر کہ دوگی؟؟؟” وہ موقع سے فائدہ اٹھاتا اسے لتاڑ رہا تھا۔۔ ایمان کو شدید غصہ آیا مگر ضبط کرتے چہرے پہ رسمی مسکراہٹ سجائے کہنے لگی۔۔ “نہیں۔۔ نہیں۔۔ بس دو منٹ میں دے جاؤں گی۔۔”
شاہان نے محض ہنکار بھرا۔۔ اپنے پیچھے گھر کا دروازہ بند کرتا وہ اسے لئے اندر داخل ہوا۔۔ ڈرائنگ روم میں کھڑے اس کی نگاہ ٹی وی کی جانب اٹھیں جہاں pokimon کارٹون لگے تھے۔۔ یقیناً وہ یہیں مصروف تھا۔۔
“خود بھی pokimon ہی ہے۔۔” ایمان نے زیرِلب تبصرہ کیا۔۔ شاہان ٹھٹک کر رکا۔۔ رخ پھیرے اچھنبے سے اسے دیکھا۔۔ “واٹ؟؟؟” ابرو اچکائے پوچھا۔۔۔
“کچھ نہیں۔۔ کاپی۔۔۔” سر کو جنبش دیتا وہ اپنے سکول بیگ سے کاپی نکالنے لگا۔
* * * * * * *
حال
“میں کاپی لیتے وہاں سے رفوچکر ہو گئی۔۔۔ اس کا کیا بھروسہ تھا کہ موڈ بدل جاتا۔۔” ایمان کا لہجہ نارمل تھا۔۔ وہ پہلے کی برعکس بہتر لگتی تھی۔۔ شاید شاہان کے ذکر پہ اسکا چہرہ کھل اٹھتا تھا مگر وہیں جانے کس سوچ کے تحت اس کی ساری مسکراہٹ یکسر سنجیدگی میں تبدیل ہو جاتی تھی۔۔
“پھر؟؟؟ کیا آپ نے کاپی وآپس کی؟؟؟” میں نے چھوٹتے ہی پوچھا، مبادہ کہیں وہ پھر سے خاموش نہ ہو جاتی۔۔
“نہیں۔۔ کیوں کہ میں جانتی تھی، وہ ہوم ورک کر چکا ہے۔۔ تبھی کارٹون دیکھنے میں مگن تھا۔۔” وہ دھیما سا ہنسی تھی۔۔ اس کے گالوں میں پڑتا ڈمپل اسی لمحے واضح ہوا تھا۔۔ وہ مسکراتے خاصی خوبصورت لگتی تھی۔۔ کانچ سی بھوری آنکھوں میں نمی تیرتی محسوس ہوتی تھی۔۔ دودھیا رنگت اب زرد پڑھ چکی تھی۔۔ گلابی ہونٹ سوکھ چکے تھے جن پہ وہ وقتاً فوقتا زبان پھیرتی جیسے آنکھوں کے گوشوں میں اٹکے آنسو ضبط کرتی ہو۔۔ یقینا وہ خاصی خوبصورت تھی مگر جانے کس وجہ سے اس کی خوبصورتی کھو چکی تھی؟؟؟
“پھر؟؟؟ پھر کیا ہوا؟؟؟” قلم بند کرتے میں نے پوچھا۔۔۔
* * * * * * *
ماضی
لاہور کے پوش علاقہ میں وہ اس لگژری اپارٹمنٹ سے برآمد ہو رہی تھی۔۔ دوپہر ڈھل چکی تھی۔۔ سورج بادلوں میں منہ چھپائے دبک کر بیٹھا تھا۔۔ تبھی اس نے سائکلنگ کا پروگرام ترتیب دیا تھا۔۔
گیٹ کے سامنے اپنی خوبصورت سے نئی سائیکل پہ سوار ہوتی وہ منزل کی جانب بڑھی۔۔ یہ ایمان کی خالہ زاد کا گھر تھا۔۔ چند دن میں گرمیوں کی چھٹیاں اختتام کو پہنچنے والی تھیں۔۔ جبھی وہ یہاں چھٹیاں گزارنے آئی تھی۔۔نویں جماعت کی طالب علم ایمان اس لمحے سڑکوں پہ پھرتی قہقے لگائے اپنی سہیلی سے باتوں میں محو تھی۔۔
باتوں میں مگن وہ سڑک پہ آتی جاتی ٹریفک کو مکمل فراموش کر چکی تھی۔۔ دفعتاً ہانی کی نگاہ مقابل اٹھی، جہاں سے ایک ٹرک برق رفتاری سے ایمان کی جانب آتا دکھائی دے رہا تھا۔۔
“ایمان۔۔ ٹرک۔۔” وہ باآواز بلند حلق کے بل چلائی۔۔ ایمان نے اس کی نگاہوں کی سدھ میں دیکھا۔۔ وہ ٹرک برق رفتاری سے اس کے مزید قریب آ چکا تھا۔۔ بروقت موڑ کاٹتے ٹرک سے تو بچاؤ ہو گیا مگر سائیکل پہ بیٹھی ایمان اپنا توازن برقرار نہ رکھ پائی۔۔ اسی اثناء میں وہ اوندھے منہ زمین پہ جا گری۔۔ سر پتھر سے ٹکرایا۔۔ خون کی بوندیں رستی زمین کو اپنے رنگ میں رنگنے لگیں۔۔ اس پہ غنودگی چھانے لگی۔۔
بیٹی کے ایکسیڈنٹ کی خبر جونہی احمد صاحب تک پہنچی، وہ سب کام ترک کئے لاہور کے لئے روانہ ہوئے۔۔ لاہور سے گجرانوالہ محض ڈھائی گھنٹے کے فاصلے پہ واقع تھا۔۔ ہسپتال پہنچ کر ایمان کو لیا اور وآپسی کی راہ لی۔۔ اسے عین آنکھ کے قریب چھوٹ لگی تھی۔۔ صدشکر کے آنکھ بچ گؤی تھی۔۔ انجکشن کے ڈر سے وہ جلد ازجلد احمد صاحب کے ہمراہ گھر کو لوٹی تھی وگرنہ شاید ڈاکٹر اسے مزید رکنے کی تلقین کرتے۔۔
“تم دونوں نے کوئی پلاننگ کی تھی کیا؟؟؟” فاطمہ اس کے قریب بستر پہ بیٹھی دلچسپی سے پوچھ رہی تھیں۔۔ ایمان نے اچھنبے سے انہیں دیکھا۔۔ جانے کیا کہنا چاہ رہی تھیں؟ ایمان نے کس کے ساتھ پلاننگ کی تھی؟؟؟
اس سے قبل کہ وہ ان سے وضاحت مانگتی، شاہان اس کے کمرے میں آ دھمکا۔۔ “دوائی کھا لی؟؟؟” فاطمہ نے چھوٹتے ہی پوچھا۔۔ شاہان نے سر اثبات میں ہلایا۔۔ ایمان نے دروازے سے داخل ہونے والے نوجوان لڑکے کی جانب دیکھا تو منہ حیرت کے مارے کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔
شاہان کی داہنی آنکھ کے قریب بینڈیج لگی تھی۔۔ وہ بمشکل اپنی داہنی آنکھ کھلی رکھے تھا۔۔ فاطمہ اسے ایمان کے پاس بیٹھ، اسے کمپنی دینے کو کہتی کمرے سے روانہ ہو گئیں۔۔ ان کا رخ کچن کی جانب تھا جہاں طاہرہ بیگم کام کرنے میں مگن تھیں۔۔
“کیسی ہو؟؟؟؟” اطراف کا جائزہ لیتے وہ اپنا انداز سرسری سا رکھتا دریافت کر رہا تھا۔۔
“ٹھیک ہوں۔۔”
“عجوبہ لگ رہی ہو۔۔” سر جھٹکتے اس نے ایمان کے چہرے پہ بندھی پٹی کو دیکھ تبصرہ کیا۔۔ ایمان کی پیشانی سلوٹ زدہ ہوئی۔۔ پشت پہ پڑے کشن کو پوری قوت سے شاہان کی جانب پھینکا۔۔ وہ بروقت اک طرف ہٹتا اس کے نشانے کو ناکامیاب بنا گیا۔۔
“تم تو کسی فلم کے ہیرو لگ رہے ہو نہ۔۔” پرتپش نگاہوں سے اسے گھورتے کہا۔۔۔ وہ مسکرایا۔۔ مسکراہٹ ہنسی میں تبدیل ہوئی۔۔ ایمان بھی سر جھٹکتی ہنسنے لگی۔۔ وہ دونوں مقابل بیٹھے اک دوجے کے چہرے کو دیکھ ہنستے دوہرے ہو رہے تھے۔۔ کیا اتفاق تھا کہ دونوں کو ایک ہی جگہ چوٹ لگی۔۔ اور اس سے بڑا اتفاق یہ کہ دونوں ہی عجوبہ لگ رہے تھے مگر خود کو کسی ڈرامے کا ہیرو ہیروئن گردانتے ہنستے جا رہے تھے۔۔
* * * * * * *
حال
“آپ کی residence کہاں ہے؟؟؟” مسودے سے نگاہیں پھیرتے، قلم روکے میں نے دریافت کیا۔۔
“گجرانوالہ۔۔ کینٹ ائیریا۔۔” ایمان کی بجائے جواب طاہرہ آنٹی کی جانب سے موصول ہوا تھا۔۔ ایمان پہ نیند کا غلبہ طاری ہونے لگا۔۔ نیم غنودگی کی حالت میں اس نے میری جانب دیکھا تھا۔۔ “محبت بہت تکلیف دیتی ہے۔۔ یہ انسان کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔۔ وہ لوگ بہت خوش قسمت ہوتے ہیں جنہیں ان کی محبت کا ساتھ حاصل ہوتا ہے۔۔ کاش میرا شمار بھی انہی خوش نصیبوں کی فہرست میں ہوتا۔۔ کاش!!!!”
یہ وہ آخری الفاظ تھے جو اس نے نیند کی وادیوں میں کھونے سے قبل استعمال کئے تھے۔۔ نیند واحد ذریعہ تھی ان تکلیفوں سے نجات حاصل کرنے کا۔۔ چند لمحوں کیلئے ہی سہی مگر اسے سکون میسر تھا۔۔ طاہرہ آنٹی کی نگاہیں ایمان کے چہرے پہ ٹکیں تھیں۔۔
میں نے اس ہسپتال کے کمرے کا جائزہ لینا شروع کیا۔۔ نگاہیں ہر ہر شے سے ٹکراتیں دروازے کی جانب ٹک گئیں۔۔ اک نوجوان پچیس، چھبیس کے لگ بھگ عمر کا مرر ڈور کے پار سٹریچر پہ لیٹی ایمان کو ٹٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔۔ دور سے بھی اس کے چہرے پہ بکھرا کرب میں دیکھ سکتی تھی۔۔ اچھا تو یہ شاہان تھا؟ لیکن اگر وہ شاہان تھا تو ایمان اس سے خفا کیوںکر تھی۔۔ شاید جھگڑا، مگر محض جھگڑے کے باعث اس حالت کو پہنچنا۔۔؟ کوئی ایک بھی کڑی جڑ نہ رہی تھی۔۔ سو فلوقت مجھے ایمان کے نیند سے جاگنے کا انتظار کرنا تھا۔۔ دروازے کا پار اب وہ نوجوان غائب ہو چکا تھا۔۔
کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔۔ طاہرہ آنٹی نگاہیں ملائے بغیر کمرے سے روانہ ہو گئیں تھیں شاید آنسو چھپا رہی تھیں۔۔۔
* * * * * * *
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...