سوری مجھے امی زیادہ موبائل استعمال نہیں کرنے دیتی ہیں
فارم ہاؤس کے دوسرے دن کا آغاز ہو چکا تھا ۔ صبح صبح ہی سبکو ملازمہ کی گمشدگی کی خبر مل چکی تھی ۔ جسکی وجہ سے سب لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں ۔ سعد اور رضی تمام کارروائی سے واقف تھے لہٰذا انہوں نے یہی بتایا کہ اسے کسی ضروری کام کی وجہ سے شہر واپس بھیج دیا گیا ۔ حنا بیگم کو ایک عجیب سی چپ لگ چکی تھی۔ جسے سرمد آغا واضح طور پر محسوس کر رہے تھے ۔ صبح ناشتے کے بعد سب بارات کے استقبال کی تیاریاں کرنے لگے ۔
فارم ہاؤس کے ملازمین انتہائی خوش دکھائی دے رھے تھے ۔ ملازمین میں سے کسی نے بھی شادی کے کھانے کو چکھا بھی نہیں ۔
اس وقت فارم ہاؤس میں کافی تعداد میں لوگ موجود تھے ۔ جگہ بہت کھلی اور کمرے بیشمار تھے ۔ فارم ہاؤس میں سب کچھ موجود تھا سوائے آئینے کے ۔ لڑکیوں کو تیار ہونے کیلیے آئینے کی جب ضرورت پڑی تو پورے فارم ہاؤس میں کوئی آئینہ نظر نہیں آہا ۔
رمشہ نے ملازم کو بلا کر آئینہ ما نگا تو اس نے کہا ۔ بی بئی جی یہاں کے تمام آئینے وقت گررنے ساتھ اندھے ہو چکے ہیں ۔
لڑکیاں یونہی اندازے سے تیار ہوئیں ۔ آج زرین کی نکاح کی رسم تھی ۔ بارات اپنے ٹائم پر ہی پہنچ گئی ۔ سب نے باراتیوں کا شاندار استقبال کیا ۔
پروگرام کے مطابق نکاح کی رسم کھانے سے پہلے ہی ادا ہونا تھی ۔ اور دوری کی وجہ سے آج کی رات باراتیوں کو یہیں رکنا تھا اور اگلی صبح سویرے واپس چلے جانا تھا ۔
کچھ وقت آرام کرنے کے بعد دولہا کے والد نے کہا کہ اب نکاح پڑھوا دینا چاہئے ۔
سب کی رضا مند ی سے مولوی صاحب نے کارروائی شروع کی ۔
دولہا سمیع اور دلہن کو الگ الگ کمروں میں بٹھایا گیا تھا ۔ مولوی صاحب نے کہا کہ وہ سب سے پہلے دلہن سے رضامندی لینا چاہیں گے اور دلہن کے کمرے تک پہنچ گئے ۔ انہوں نے زرین سے اجازت لی تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔
زرین کی یہ حرکت سبکو بیحد عجیب اور معیوب سی لگی ۔ زرین کی اجازت لیکر مولوی صاحب نے نکاح شروع کر دیا اور آخر میں نکاح نامہ پر زرین کے دستخط کروائے ۔ زرین نے مختلف جگہوں پر خوشی خوشی دستخط کر دییے ۔ مولوی صاحب زرین کے کمرے سے اٹھ کر دولہا کے کمرے میں آ گئے اور چھ کلمے اور کچھ دعائیں پڑھنے کے بعد سمیع کو نکاح نامہ پر دولہا والی جگہ پر دستخط کرنے کو کہا ۔ سمیع اور مولوی صاحب نے دیکھا جہاں دولہے نے دستخط کرنے تھے وہاں کسی اور کے دستخط نمودار ہو گئے اور سمیع کے دستخط کرنے کی کوئی جگہ باقی نہیں تھی ۔
سمیع حیران و پریشان ہو کر بولا ۔مولوی صاحب یہ کس کے دستخط ہیں ۔ یہاں تو مجھے دستخط کرنے تھے ۔ مولوی صاحب بھی پریشان ہو گئے کہ ایسا کب ہوا کہ کسی اورنے دستخط کب کے ۔ مولوی صاحب نے سوچا ہو سکتا ھے نکاح نامہ پر پہلے سی کسی نے سائن کے ہوں اور میں نے دیکھا نا ہو ۔ انہوں نے زرین کے کمرے میں جاکر نئے فارم پر زرین سے دوبارہ سائن کروائے اور وہاں سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں جہاں سب مرد حضرات بیٹھے تھے آئے اور جب دوبارہ سمیع کو سائن کرنے کو کہا تو پھر سیے وہی سائن دوبارہ نمودار ہو گئے ۔ نکاح کی تقریب میں موجود سب لوگوں کو باری باری نکاح نامہ دکھایا کہ دلہن کے نکاح کے بعد یہ سائن کاغذ پر خود بخود نمودار ہو رھے ہیں ۔اور ایسا دوسری مرتبہ ہوا ۔
تقریب میں شریک سب لوگوں نے نکاح نامہ کو باری باری دیکھنا شروع کر دیا ۔ اور پریشان ہو گئے کہ یہ کیا ماجرا ہوا ۔ نکاح نامہ کی رو سے تو زرین کا نکاح اس سائن والے سے ہو چکا ہے ۔مولوی صاحب نے حیرانی سے کہا ۔ اور ایسا ایک مرتبہ نہیں دو مرتبہ ہوا ۔ اور زرین کسی اندیکھی مخلوق کے نکاح میں آ چکی ۔ سرمد آغا یہ خبر سنکر غش کھا کر گر گئے ۔ صمد اور سلمان آغا نے اگے بڑھ کر انھیں سنبھالا اور تقریب میں موجود سب لوگوں کو فارم ہاؤس میں ہونے والی تمام باتیں شروع سے آخر تک بتا دیں ۔ کہ انکے یہاں پہنچنے سے پہلے پرانے اور قدیم فارم ہاؤس کو دلہن کی طرح سجا پایا ۔ فارم ہاؤس میں اتے ہوۓ ایک عورت کو دیکھا جو بار بار انکے سامنے آتی رہی ۔ اور اسکا کہنا یہی تھا کہ شادی تو یہیں ہوگی ۔ پھر فارم ہاؤس میں ہی ایک کمرے میں زرین کی بچپن سے اب تک کی تمام یادداشتیں بمہ تصویروں کے دیوار پر چسپاں تھیں ۔ زرین کی ابٹن کی رسم میں اس عورت کا زرین اور نا معلوم دولہے کو سمیع کے خون سے ابٹن لگانا یہ سب واقعات ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں ۔ ہمیں معلوم ھے کہ یہ ایسی باتیں ہیں جنکو ماننا سب کیلیے ناممکن ھے ۔ پر ایسا ہی ہوا ۔
سرمد آغا نے سب سے التجا کی کہ ابھی اسی وقت ہم سبکو فارم ہاؤس سے نکل جانا چاهیے اور ہم شہر جا کر زرین کا دوبارہ سے نکاح کروائیں گے ۔ سب نے سرمد آغا کی بات سے اتفاق کیا اور جانے کی تیاری کرنے لگے ۔ ایک ہی گھنٹے میں جانے کی تیاری مکمل ہو گئی اور سب گاڑیوں میں بیٹھ گئے ۔ سرمد آغا نے زرین کو اپنی گاڑی میں اپنے ساتھ ہی بٹھانا چاہا تو وہ اسے لینے کمرے میں پہنچے تو زرین غائب تھی ۔ پورے فارم ہاؤس میں زرین کا نام و نشان بھی نظر نہیں آ رہا تھا ۔