رات کی نیند لینے کے بعد صبح چائے/کافی کے ساتھ رفریشمنٹ کے بعد انہیں کانفرنس روم میں بلایا گیا تھا جو کہ ہاٹل کی جانب سے ایک بڑی سہولت تھی— فلاٹ لارج اسکرین ٹی وی بھی ہر روم میں موجود تھا–
کنفرنس روم میں دو گھنٹے کی طویل میٹنگ میں آدھے گھنٹے کا لیکچر خاص طور پر جنت کیلیے تھا حالانکہ اس نے اپنے کسی انداز سے ظاہر نہیں کروایا تھا کہ وہ ان بلند عمارتوں اور اس شاہی انداز سے مرعوب ہورہی ہے مگر اسکی کلاس کو وہاں موجود ہر بندہ بخوبی جانتا تھا— اسے خاص طور تحریم نے ایک ہفتہ پہلے سے ہی انگلش ایکسنٹ کی کلاسز دینا شروع کردی تھیں— وہ انگریزی اچھی بول لیتی تھی مگر ایکسنٹ پر کمال نہیں تھا مگر اب تو یہ مرحلہ بھی سر ہوچکا تھا— بلاشبہ اس کمپنی نے جنت ستار کو اچھا خاصا پالش کردیا تھا
“اٹس ڈن, اینی کوئیریز؟” باس نے تمام گروپ میمبرز پر ایک ایک نگاہ ڈالی سب کے نفی میں سرہلانے پر میٹنگ برخاست کردی گئی تھی—
کنونشن کا وقت صبح گیارہ سے شام سات بجے تک تھا— ابھی نو ہورہے تھے ایک گھنٹے تک انہیں نکلنا تھا— جنت کو کل سے اپنے فون کا ہوش نہیں تھا— وہ معیز سے مسینجر پر رابطے میں رہنے کا وعدہ کر کے آئی تھی— وائی فائی کی سہولت موجود تھی مگر اس نے ابھی تک کنیکٹ نہیں کیا تھا جسکی وجہ سے اسے معیز کی کالز کی نوٹیفکیشنز موصول نہیں ہوئیں تھیں—
“جنت!” وہ کنونشن پر پہننے کیلیے اپنا خاص خریدہ لباس نکال رہی تھی جب تحریم نے روم میں داخل ہوتے اسے آواز لگائی
“یس” جنت نے لباس بیڈ پر رکھتے اسے دیکھا—تحریم کے ہاتھ میں دو آؤٹ فٹس تھے جس میں سے ایک اس نے جنت کو تھمایا— وہ نیا پیک سیاہ رنگ کا پینٹ کوٹ تھا
“what is it??? ”
جنت نے ناسمجھی سے دریافت کیا
“یہ تمہارا ڈریس ہے کنونشن کیلیے” انگریزی میں جواب آیا
“مگر کیوں؟ میں نے تو اپنا ڈریس خرید لیا تھا— یہ کس نے بھجوایا ہے؟” جنت نے غصہ ضبط کرتے پوچھا
“یہ میں نے خریدا ہے تمہاری ذمہ داری میری ہے— مجھے پتا تھا تم ایشین ڈریس ہی سیلکٹ کرو گی خیر جلدی سے چینج کرلو ہمیں دیر ہورہی ہے” اپنے ازلی بےنیاز انداز میں اسے حکم دیا
“sorry! I can’t wear this dress”
جنت نے سوٹ بیڈ پر ڈالتے کہا
“ریزن؟” ایک ابرو اُٹھاتے پوچھا
“میں مغربی لباس نہیں پہنتی اور اتنی بولڈ ڈریسنگ—-”
“It’s formal”
تحریم نے اسکی بات کاٹی
“آپ آرگیو کر کے ٹائم ویسٹ کررہی ہیں مس تحریم, میں یہ ڈریس کوڈ فالو نہیں کرسکتی” تحریم کو اب غصہ آنے لگا
“ایکسکیوزمی مس جنت! یہ کس ٹون میں بات کررہی ہیں آپ مجھ سے؟” جب بات نہ بن پائی تو انہوں نے اپنے عہدے کا روعب جھاڑنا چاہا
“بات فائنل ہے مس تحریم میں یہ ڈریس نہیں پہنوں گی— آپ باس سے بات کرلیں—” جنت اپنا لباس اُٹھا کر واش روم میں گھس گئی– تحریم نے غصے سے اپنے کرل لگے بالوں میں سے بڑے بڑے کرل نکال کر ڈریسنگ پر پٹخنا شروع کیے—
“اب جنت اس حلیے میں کنونشن اٹینڈ کرے گی؟ کتنی شرمندگی ہوگی” تحریم کو سخت کوفت ہورہی تھی اسے اندازہ نہیں تھا کہ جنت اس طرح کی کوئی حرکت بھی کرسکتی ہے اُسے خود اندازہ ہونا چاہیے تھاکہ وہ کہاں جارہی ہے اور کسے پریزنٹ کررہی ہے—
جنت سیاہ رنگ کے کھلے اسٹائلش فلازو پر گھٹنے سے اوپر اسی رنگ کی قمیض زیب تن کیے ہوئے تھے— ٹشو کے کپڑے کے پھولوں کی ٹیڑھی سی بیل شرٹ پر بنی تھی— دائیں کندھے پر سادہ شیفون کا سیاہ رنگ کا دوپٹہ ڈال رکھا تھا جسکے کناروں پر کروشیہ ہوا تھا—ڈریس تو یہ بھی برا نہیں تھا مگر وہی اگر فارمل نظر آنا ہے تو انگریزوں کی طرح پینٹ کوٹ لازمی ہے
“ہونہہ, تم پاکستانی شادی اٹینڈ کرنے نہیں جارہی جنت” تحریم نے اس پر طنز کیا جسے جنت نے بالکل نظرانداز کرتے اپنا اُترا ہوا لباس تہہ لگانا شروع کردیا
**************
طحٰہ نے ان دونوں کو پِک اپ کرنا تھا—وہ یہاں سے سیدھا
Grand hayatt dubai convention centre
پہنچے تھے— اس فائیو سٹار ونیو میں تقریباً پانچ ہزار سکوائر کلو میٹرز پر مشتمل ایک وسیع میٹنگ روم میں داخل ہوتے تک جنت کی نظریں بس عمارت کے انٹریئر, آرکیٹیکچر, کلر اسکیم کو ہی سراہتی رہی تھیں— مکمل ائیر کنڈیشنر کنونشن سینٹر کو سیاہ اور ہلکے سکن کلر کی تھیم سے ڈیکوریٹ کررکھا تھا— ترتیب میں لگی سیاہ رنگ کی کرسیاں اور ڈارک براؤن, سکن انٹریئر بہت بھلا لگ رہا تھا— طحٰہ نے دو تین بار تعجب سے جنت کو اس مشرقی لباس میں دیکھا تھا جبکہ آنے والی مہمان خواتین میں سے چند عورتیں برقعے پہنے ہوئے تھیں اور کچھ مرد حضرات پینٹ کوٹ کے بجائے سفید لمبا چوغہ پہنے ہوئے تھے عورتوں نے اسکارف لیے تھے جبکہ ان کے مرد سرخ چیک والا رومال غترہ اوڑھے ہوئے تھے لیکن زیادہ تعداد بیرون ممالک کے سافٹ وئیر کمپنیز کی تھیں جو نئی نئی ڈیجیٹل مارکٹنگ کو فروغ دے رہی تھیں— زیادہ تر لیڈیز نے سیاہ رنگ کے پینٹ کوٹ ہی پہن رکھے تھے تحریم کی طرح— جبکہ اٹینڈیز میں بھانت بھانت کی بولیوں والے رنگ برنگے ملبوسات میں آن موجود تھے— لیکن جنت ان سب میں واضح تھی اپنے مشرقی حسن و انفرادیت کی بناء پر—
دبئی کے لوگ عربی بولتے ہیں جبکہ انگریزی سمجھنے اور بولنے والوں کی تعداد بھی لگ بھگ اتنی ہی ہے—
دوسری کمپنیز کی برینڈ امبیسیڈز کو دیکھ دیکھ کر تحریم کا بی پی لو ہوا جارہا تھا– کانفیڈنٹ انداز اور ہر کسی سے بےتکلفی سے ہم کلام ہوتیں خواتین جلد ہی اپنی کمپنیز کا تعارف کرواچکی تھیں ایک جنت ہی کرسی سے چپک کر بیٹھی تھی—تحریم کو بےتحاشا غصہ چڑھ رہا تھا—
“طحٰہ سر کب تک آئیں گے؟” تحریم نے انتظامات سنبھالتے طحٰہ کو مخاطب کرتے کہا جو اپنے فوٹوگرافر کو ہدایات دے رہا تھا
“بس تشریف لاتے ہوں گی— آپ ذرا ہیلو ہائے تو کریں سب سے–” طحٰہ نے بھی جنت کی احمقانہ حرکت محسوس کی تھی
“کیا ہیلو ہائے کروں؟ اس کا اٹیٹیوڈ دیکھا ہے باس نے؟ یہ یہاں کرنے کیا آئی ہے اسے کچھ نہیں پتا—” تحریم دبے دبے غصے میں کہہ رپی تھی
“آپ گائیڈ کریں کہ اٹینڈیز کے ساتھ انٹریکشن ڈولپ کرے” طحٰہ نے اسے مفت مشورے سے نوازا— تحریم تیسری قطار میں لگی کرسیوں میں سے ایک پر براجمان جنت کے پاس آئی جو آس پاس نظریں گھمائے تقریب میں شرکت کرنے والے لوگوں کو دیکھ رہی تھی
“تم پاکستان کی ایک بڑی ملٹی نیشنل ڈیجیٹل میڈیا کمپنی کی برانڈ امبیسیڈر ہو— شاید تم اپنا یہاں آنے کا مقصد بھول گئی ہو” تحریم نے کچھ کھردرے لہجے میں کہا
“ابھی کنونشن سٹارٹ کہاں ہوئی ہے—” جنت ناسمجھی سے بولی
“تمہیں یہاں سپیچ نہیں دینی— یہاں اٹینڈیز سے بات کرنی ہے اپنی کمپنی کو پروموٹ کرنا ہے اور اٹھو اب جہاں گروپس میں لوگوں کو بات کرتے دیکھو گھس جاؤ اور اپنی کمپنی کو متعارف کرواؤ— میری ٹاک سے پہلے تک سب کو یہاں ہماری کمپنی کا نام حفظ ہوجانا چاہیے اوکے؟” تحریم نے وہی سب دھرایا جو وہ کل سے جنت کو بتارہے تھے—جنت کچھ نروس سی اپنی سیٹ چھوڑ کر کھڑی ہوئی
“میں تو ان کو جانتی بھی نہیں ہوں کیسے ان میں گھس جاؤں؟” اس نے سامنے سات آٹھ پروفیشنلز کے گروپ کو کسی بات پر بحث و تکرار کرتے دیکھ کر سوچا
“جاؤ” تحریم نے آنکھیں نکالیں—
جنت چیونٹی کی رفتار سے اس ٹولے کے پاس پہنچی— جہاں ایک تیس پنتس سالہ سنہری بالوں والی انگریز عورت اپنی سافٹ ویئر کمپنی کو پروموٹ کررہی تھی—اسکے آتے ہی ایک آدمی نے گروپ میں اسکے کھڑے ہونے کی بھی جگہ بنائی تو وہ راویتی مسکراہٹ سے اسکا شکریہ ادا کرتی عورت کو سننے لگی تب اسے پتا چلا وہ ملائشیا سے آئی ہے—بات سے بات نکلی جنت نے بھی مارکٹنگ میں اپنی کمپنی کے کارنامے سُرخ کرنے شروع کیے— پہلے وہ گھبرائی تھی مگر پھر ان کے ساتھ نے بتایا وہ کسی اور ملک سے تعلق رکھتے ہیں, سیارے سے نہیں—
ایک کے بعد ایک گروپ کے ساتھ بات چیت میں پروموشن بھی کی اور نالج بھی بہت اکٹھی کی تھی اس نے— کنونشن اپنے عروج پر تھی تحریم نے مارکٹنگ کے حوالے سے اپنی کمپنی کی ڈیمانڈز کو کافی بڑھا چڑھا کر بتایا تھا—جنت بغور اسے سُن رہی تھی جب طحٰہ نے باس کا پیغام دیا کہ وہ اسے دائیں طرف والی دوسری قطار میں بلارہے ہیں جنت اپنا دوپٹہ سنبھالتی سر ہلا کر اُٹھ گئی— باس نے پہلے تو اسے سر سے پیر تک ناگواری سے دیکھا پھر اپنے پہلو میں پڑی خالی نشست پر بیٹھنے کا اشارہ کیا— سامنے تحریم کی ٹاک سنتے ہی انہوں نے جنت سے وہاں موجود کمپنیز کی ڈیٹیلز نکلوا لی تھیں— جو کی پوائنٹس جنت نے انہیں بتائے تھے وہ ان کا سٹریس لیول بڑھانے کیلیے کافی تھے– ان کی سڑی شکل جنت کا بھی بی پی لو کیے دے رہی تھی—
تحریم اپنی ٹاک مکمل کرکے ہٹی تھی حاظرین اس سے سوال و جواب کررہے تھے کہ اسی دوران تمام فوٹوگرافرز انٹرنس کی جانب بڑھنے لگے—
سامنے سے ہی چالیس سال کی عمر کے لگ بھگ ایک پرکشش و سمارٹ شخصیت کا مالک شخص اپنی ٹیم کے ساتھ اندر داخل ہورہا تھا اسکے آس پاس موجود مرد حضرات بھی سیاہ پینٹ کوٹ میں ملبوس تھے—
“سر! ابراہیم حسین” طحٰہ تیزی سے باس کے پاس آیا—وہ سیٹ سے کھڑے ہوگئے پلٹ کر دیکھا فوٹوگرافرز تیزی سے کھٹاکھٹ تصویریں اُتار رہے تھے
ابراہیم حسین مہر بےنیازی سے دائیں طرف موجود پہلی قطار میں آکر بیٹھ گیا— اسکے مینجر سے جنت کی پہلے ہی ملاقات ہوچکی تھی
“تو یہ ہے ابراہیم حسین مہر” جنت کے ذہن میں ایک ساٹھ سالہ بڑے سے پیٹ کا شخص تھا جبکہ حقیقت میں وہ ایک سوٹڈ بوٹڈ اور پرکشش شخصیت کا مالک تھا—اسکی رنگت بہت زیادہ صاف تھی—جب ٹی ٹائم ہوا تو اسکے باس نے کہا
“Lets go jannat you have to met with Ibrahim hussain”
وہ تیزی سے اپنی نشست چھوڑ کر کھڑے ہوئے جنت بھی ان کے پیچھے تیزی سے چل دی— اس سے پہلے کہ کوئی اور ابراہیم حسین کی کرسی تک پہنچتا اسکے باس نے اسے گھیر لیا— بہت ہی فرینک انداز میں سلام دعا کرنے لگے— جنت ان کے ساتھ ہی کھڑی تھی— ابراہیم حسین تیس سیکنڈ میں تین بار جنت کی جانب دیکھ چکا تھا–
“She’s jannat, our brand ambassador”
باس کے تعارف کروانے پر جنت نے مسکان لبوں پر سجائی جبکہ ابراہیم حسین نے مصافحے کیلیے ہاتھ بڑھا دیا—جنت شش و پنج میں مبتلا اسے دیکھنے لگی پھر وقت و جگہ کا احساس کر کے اس نے بمشکل دو انگلیاں مقابل کے بھرپور مردانہ ہاتھوں سے ٹچ کیں
“Nice to see you girl”
ہلکی ہلکی سیاہ مونچھوں تلے ہونٹ مسکرائے— جنت کو اسکے دیکھنے سے عجیب اُلجھن ہورہی تھی—
“آپ ہمارے بینک ایڈز میں کیوں نہیں آتیں؟” وہ مسکراتے ہوئے پوچھ رہا تھا— جنت کو اس عجیب سوال کی منطق سمجھ نہیں آئی جبکہ باس قہقہہ لگاتے ہنسنے لگا
“Seriously! We need such pretty faces”
ابراہیم حسین نے اسکے باس کی جانب دیکھتے اپنی بات پر زور دیتے کہا— جنت نے ہاتھ مسلے
“what’s your thoughts about it?”
اب وہ براہِ راست جنت سے مخاطب تھا– جسکی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ وہ اسے کیا آفر کرنا چاہ رہا تھا
“She’s a conservative girl.”
باس کے غیر سنجیدہ انداز پر ابراہیم حسین نے گہری تنقیدی نگاہیں اسکے سراپے کے آر پار کیں–
“I see”
“سر!” ابراہیم حسین کے مینجر نے اسکے قریب ہوتے کچھ کہا تو وہ ایکسکیوز کرتا دوسری جانب کھڑے کچھ ڈیجیٹل مارکٹنگ کی کمپنیز کے سی ای اوز سے ملنے لگا—
جنت نے باس کی جانب دیکھا جن کی کچھ دیر پہلے والی سڑی شکل پر اب اطمینان سا رینگ رہا تھا پھر جنت کو مخاطب کیے بغیر وہ طحٰہ کے ساتھ رفریشمنٹ ایریا کی جانب چل دیے— جنت بھی تحریم کے ساتھ اُسی طرف چل دی—
ٹی ٹائم کے دوران ہی جنت نے اپنے باس کو ایک بار پھر ابراہیم حسین سے گفتگو کرتے دیکھا تھا
**************
ہوٹل پہنچتے ہی جنت نے شاور لیا اور بستر میں گھس گئی—اچانک ہی اسے معیز کا خیال آیا تھا کل سے وہ اتنے مصروف تھے کہ اسکے دماغ نے اتنا بھی کام نہ کیا کہ وہ اسے اپنے خیریت سے پہنچنے کی اطلاع دے دے— معیز نے جس گروپ کے حوالے اسے کیا تھا وہ کسی اور ہوٹل میں ٹہرے تھے— جنت نے تحریم سے نیٹ کا پاسورڈ معلوم کیا اور مسینجر چیک کرنے لگی— معیز کی لاتعداد کالز تھیں—مسیجز بھی تھے
اس نے تیزی سے وائز کال بھیجی—دبئی اور پاکستان کی ٹائمنگ میں ایک گھنٹے کا فرق تھا اگر یہاں آٹھ ہورہے تھے تو وہاں یقیناً نو بج رہے ہوں گے—وہ گھر پہنچ چکا ہوگا شاید نماز—- جنت کے لب ہولے سے ہِلے
“نمااااز—” اس نے اپنے ماتھے پر دھپ رسید کی کل سے اس نے ایک بھی نماز نہیں پڑھی تھی اور حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے اپنے ساتھ موجود افراد میں سے کسی کو نماز پڑھتے یا نماز کیلیے فکر مند ہوتے بھی نہیں دیکھا تھا— اسے اپنی غفلت پر شدید شرمندگی ہوئی بیس منٹ بعد معیز کی کال آنے لگی— جنت نے لیٹے لیٹے ہی کال اٹینڈ کی—
“ہیلو جنت؟” بےقراری سے پوچھا گیا—پورے ایک دن بعد جنت اسکی آواز سُن رہی تھی
“اسلام و علیکم! کیسے ہیں آپ؟” جنت نے ہونٹ کاٹتے پوچھا
“اُداس–” صاف و کھرا جواب آیا تھا ہمیشہ کی طرح
“امی کیسی ہیں؟” جنت نے پہلو بچایا
“مما؟ ٹھیک ہیں— تمہیں یاد کررہی تھیں— آج شام کی چائے بھی نہیں پی اُنہوں نے تمہارے بغیر—” وہ بوجھل آواز کہہ رہا تھا
“بس دو دن کی ہی تو بات ہے” جنت نے دلاسا دیا
“کانفرنس ہوگئی؟”
“دو دن کی کانفرنس ہے— ایک آج کا دن تھا اور ایک کل—” جنت نے بتایا
“پھر تین دن کا سٹے کیوں؟” اس نے اپنے مطلب کی بات پوچھی
“ایک دن کلائنڈ سے ملنے کا رکھا ہے مے بی” جنت نے اندازہ لگایا
“اُفففف آئی رئیلی مِس یو– ” معیز اپنے کمرے میں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتا بولا—شادی کے بعد یہ پہلا اتفاق تھا کہ معیز نے اسکے بغیر رات گزاری تھی
“میں کیا کرسکتی ہوں اب؟” وہ اُنگلیاں مروڑتی بولی جیسے وہ اسکے سامنے بیٹھا کہہ رہا ہو
“مجھے مِس تو کرسکتی ہو نا یا اُس کیلیے بھی وقت نہیں ہے تمہارے پاس؟” اسکی شکوہ کناں آواز جنت کی سماعت سے ٹکرائی
“ہیلو! ” کافی دیر تک کوئی جواب نہ پاکر معیز نے دوبارہ پکارا
“جی؟ جی جی سُن رہی ہوں–” جنت گڑبڑائی
“کیا ہوا؟ کہاں گم ہوگئی؟” معیز نے پوچھا—جنت جو کروٹ کے بل لیٹی تھی سیدھی لیٹ کر چھت کو گھورنے لگی
“سوچ رہی ہوں کاش میں دبئی گھوم سکتی—” معیز سوچتا ہی رہ گیا کہ اُس نے یہ کیوں نہیں کہا کہ کاش میں آپ کے ساتھ دبئی گھوم سکتی— اسے دبئی گھومنا تھا وہ کسی کے ساتھ بھی گھوم سکتی تھی—
“اب بھی دبئی ہی گھوم رہی ہو” معیز نے کچھ طنزیہ انداز میں کہا
“ہونہہ, کیسا گھومنا آج بھی پورا دن کانفرنس, کل بھی اور تیسرے دن بھی کوئی نہ کوئی کام یا ایونٹ—آپ تو یوں کہہ رہے ہیں جیسے میں یہاں وکیشنز گزارنے آئی ہوں–” جنت کلس کر بولی
“اب کیا کروں میں؟ اپنا گُردہ بیچ دوں تمہیں دبئی گھمانے کیلیے؟” معیز نے تپ کر پوچھا
“اُس سے بھی کچھ نہیں ہونے والا—” جنت بڑبڑائی
“کیا کہہ رہی ہو؟” معیز اسکی بڑبڑاہٹ پر چڑ کر بولا
“پوچھ رہی تھی کراچی کا موسم کیسا ہے؟” جنت گڑبڑا کر بولی
“برف باری ہورہی ہے کچھ دیر میں اولے پڑنے لگیں گے” اسکے جلے سڑے جواب پر وہ پریشان سی بولی
“سویٹر پہن کر باہر جائیے گا— ٹھنڈ نہ لگ جائے—”
“جنت !” معیز چیخا
“جی—” شیریں لہجے میں بولی
“تم نے بات کرنی ہے کہ نہیں؟”
“پچھلے دس منٹ سے میں کیا کررہی ہوں؟” جنت نے خفگی سے پوچھا
“بکواس–” دوسری جانب سے جو جواب آیا تھا وہ اسکے لیے بالکل غیر متوقع تھا
“کیا؟ مم—میں—اب تو بالکل نہیں کررہی بات–” اس نے فون کان سے دور لے جانا چاہا کہ وہ فوراً بول پڑا
“یار تنگ نہیں کرو— قسم سے بہت مس کررہا ہوں تمہیں— پلیز بات کرو مگر صرف اپنی اور میری, مجھے نہیں سننا دبئی کا سفر نامہ” بہت بےبس سے انداز میں روٹھے بچے کی طرح کہہ رہا تھا وہ–
پھر ایک گھنٹے تک وہ اسے بتاتا رہا کہ اس کے فون نہ کرنے پر اس نے کس کس سے رابطہ کیا؟ کتنا پریشان رہا اور رات کو اسے کتنا مس کیا—
“معیز اب سوجائیں— صبح آفس بھی جانا ہے آپ کو–” جنت نے لمبی جمائی لیتے کہا
“تمہیں نیند آرہی ہے؟”
“جی اور ابھی نماز بھی پڑھنی ہے”
“صبح فجر کے بعد کال کروں گا میں اوکے؟”
“ٹھیک ہے—” جنت نے ایک اور جمائی لی
کال کاٹ کر جنت شیطان کے بہکانے پر دو حرف بھیجتی نماز کیلیے بیڈ سے اُترنے لگی— تحریم چہرے پر ماسک لگائے صوفے پر آنکھیں موندے پڑی تھی
جنت نماز پڑھ کر فارغ ہوئی— ارادہ سونے کا تھا جب معیز کی کال آنے لگی— اتنے میں طحٰہ بھی دروازے پر آگیا— دو کھانے کے ڈسپوزبیل ڈبے تحریم کو دے کر واپس چلا گیا
“اب کیا ہوا؟” جنت نے فون اُٹھاتے بےزاری سے پوچھا
“فجر کب ہوگی؟” دوسری جانب سے پوچھے گئے سوال پر جنت اپنا سر پیٹ لیا
“نہیں سونے دینا آپ نے؟” وہ خفا سی پوچھ رہی تھی
“نیند مجھ سے زیادہ پیاری ہے؟” وہ جانے کن خوش فہمیوں کا شکار تھا
“نیند ضروری ہے—” جنت ضروری پر زور دے کر بولی
“اور میں؟ میری باتیں؟” وہ کیوں ایسے سوال کرتا تھا— جنت نے گہرا سانس لیا
“معیز ہم صبح بات کرتے ہیں نا” اس نے آخری کوشش کی
“نہیں— ہم ابھی بات کریں گے” تحریم اب اپنے باکس سے سینڈوچ نکال کر کھارہی تھی ساتھ اسے بھی گھور رہی تھی– جنت نے اپنا باکس اُٹھایا پھر کھانا کھاتے کھاتے معیز سے بات کرتی رہی— آدھے گھنٹے بعد اس نے فون بند کیا اور بیڈ پر گرگئی—
************
صبح کا یاد سے الارم لگا رکھا تھا اس نے— فجر ادا کرکے ہٹی تو معیز کی پھر کال آگئی
“کیا کررہے ہیں؟”
“ناشتہ بنانے کا سوچ رہا ہوں مگر سمجھ نہیں آرہی کیا بناؤں اور تمہارے ہاتھ کا آملیٹ کھانے کی تو ایسی عادت پڑی ہے کہ اس کے بغیر ناشتہ کرنے کا دل نہیں چاہ رہا–” وہ سلیولس ہوڈی اور ٹراؤز میں ملبوس کچن کاؤنٹر سے کمر ٹکائے اس سے محوِ گفتگو تھا
“بالکل بچوں والی حرکتیں ہیں آپ کی— شرافت سے بریک فاسٹ کریں اور آفس پہنچیں” فون کندھے اور کان میں دبائے وہ سائیڈ ڈرار سے اپنا لیپ ٹاپ نکال رہی تھی
“آہ– بچہ ہی بنا دیا ہے تم نے— ساری عادتیں بگاڑ دی ہیں— شروع سے اپنے سارے کام خود کرتا تھا— اب بہن کوئی تھی نہیں اور مما ورکنگ وومن, مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ ایگ فرائی کرنا بھی بھول گیا ہوں—” وہ فریج سے دھنیہ, انڈے, بریڈ نکال نکال کر کاؤنٹر پر رکھ رہا تھا— جنت مسلسل مسکرا رہی تھی
“کئی بار میں سوچتا ہوں کہ کوئی تین چار ماہ میں کسی کا اتنا عادی کیسے ہوسکتا ہے؟”
“ایک دن میں آپ کا یہ حال ہوگیا ہے اگر کبھی زیادہ عرصے کیلیے کہیں چلی گئی تو کیا کریں گے؟” وہ کھکھلا کر پوچھ رہی تھی—معیز کے ہاتھ سے انڈہ چھوٹ گیا—کچن کی ٹائلز آلودہ ہوگئیں
“تم صبح صبح کوئی اچھی بات نہیں کرسکتی؟” سخت ناراضگی سے بولا
“آئندہ میں تمہیں ایک دن کیلیے بھی کہیں نہیں بھیجوں گا— دیٹس فائنل” وہ دودھ اُبلنے کو رکھ کر آملیٹ کیلیے سبزی کی ٹوکری سے پیاز نکالنے لگا
“یہ کیا بات ہوئی بھلا؟” جنت نے منہ بگاڑا
“بس یہی بات ہے— تم بہت بدتمیز ہوگئی ہو” لیپ ٹاپ کا پاسورڈ ڈالتی جنت کا منہ کھل گیا
“کیاااا؟ میں نے کیا کیا ہے؟” وہ دبے دبے لہجے میں چیخی
“وہ تو تم واپس آؤ گی تب بتاؤں گا— ” وہ باقاعدہ اسے دھمکیاں دے رہا تھا
“استغفراللہ! ایسے ارادے ظاہر کریں گے تو تین دن سے زیادہ سٹے کرنا پڑ جائے گا مجھے—” وہ اب جان بوجھ کر اسکی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ رہی تھی
“تم مجھے غصہ دلا رہی ہو جنت—” جنت نے نچلے ہونٹ کا کونہ دانت میں دبایا جیسے قہقہہ روکنا چاہا ہو
“کیا کررہے ہو معیز؟” حسنہ بیگم کچن میں داخل ہوئیں
“بریک فاسٹ بنارہا ہوں–” جنت سمجھ گئی وہ کس سے مخاطب ہے
“جنت سے بات کریں گی؟” اس نے فون ان کی جانب بڑھادیا
“ہیلو جنت بیٹا! “—-
****************
آج کنونشن کا دوسرا دن تھا— ابرہیم حسین آج نہیں آیا تھا— جنت کو لاشعوری طور پر اسکا انتظار تھا— کل کی ملاقات میں وہ اسکی نظریں سمجھ نہیں پائی تھی مگر ہاں وہ اسے مسلسل دیکھتا رہا تھا یہ بات اس نے محسوس کی تھی— کنونشن سے واپسی پر سر لغاری انہیں absolute barbecues لے گئے طحٰہ اور تحریم بھی ساتھ تھے—انہیں اچھا سا ڈنر کروا کر وہ انہیں سٹی سینٹر دیرۃ لے گئے— یہ دبئی کا بہت پرانا شاپنگ مال ہے مگر یہاں کی نیو کلیکشنز اور ہر ضرورت کی اشیاء کی موجودگی سیاحوں و مسافروں کو یہاں کا رُخ کرنے پر مجبور کردیتی ہے— سفید جگمگاتی ٹائلز اور روشنیوں کے انبار کے ساتھ شاپنگ سینٹر کے وسط میں لگے کھجور کے درختوں نے بھی ان کا بھرپور استقبال کیا تھا— مہرون رنگ کے سائن بورڈ پر سفید جگمگاتا کاٹن آن لکھا نظر آیا تو تحریم فوراً کپڑوں کی کلیکشن دیکھنے اندر گھس گئی— طحٰہ پولو کلب میں گھس گیا تو جنت اور سر لغاری کنونشن کی ٹاکس ڈسکس کرتے مال گھومنے لگے– رات دس بجے ان کی واپسی ہوئی— مال اور ریسٹورینٹ دونوں ہی ہوٹل کے بہت قریب تھے— طحٰہ نے جنت کو باس کا پیغام بھی دیا تھا کہ صبح آٹھ بجے اسے کانفرنس روم میں موجود ہونا چاہیے— سونے سے پہلے معیز سے آدھا گھنٹہ بات کر کے اس نے سیل فون آف کردیا– جانتی تھی کچھ دیر بعد اُس نے پھر کال کھڑکا دینی تھی— آئی مس یو, نیند نہیں آرہی بلا بلا—
************