اگلی صبح بہت روشن اور حسین مہکتی سی تھی— معیز آفس کیلیے تیار ہورہا تھا جنت اسکا کوٹ لیے کھڑی تھی—اسکے چہرے پر اب بھی سنجیدگی چھائی ہوئی تھی—اس نے پرفیوم کی شیشی اٹھائی جنت تھوڑے فاصلے پر کھڑی ہوگئی وہ پرفیوم استعمال کرنے کا عادی تھا مگر بہت تیز یا زیادہ تب ہی اسپرے کرتا جب کوئی خاص فنکشن یا میٹنگ ہوتی آج اس نے خوب پرفیوم اسپرے کیا تھا. جنت سانس روکے کھڑی تھی پھر برداشت نہیں ہوا تو اسکا کوٹ بیڈ پر رکھ کر ہی باہر نکل گئی—معیز کے لبوں پر تبسم بکھر گیا
جب وہ ناشتے کیلیے نیچے آیا تو حسنہ بیگم میز پر موجود تھیں جنت کچن میں آملیٹ بنا رہی تھی وہ اپنا کوٹ چیئر پر رکھ کر کچن میں ہی چلا آیا— سامنے پڑے باکس میں سے مونگ پھلی کے چند دانے نکال کر منہ میں ڈالے—جنت انڈے پھینٹ رہی تھی اسے معیز کی نظریں اپنے چہرے پر پھسلتی محسوس ہوئیں—معیز آہستہ آہستہ چلتا ہوا اسکے بالکل پیچھے آکر کھڑا ہوگیا—اسکی کمر کے گرد اپنے مضبوط مردانہ بازوؤں کا حصار بنا لیا—جنت کیلیے اسکا یہ عمل بالکل اچانک تھا—وہ اسکے بال کان سے ہٹاتا اسکے کان کے قریب جھکا—جنت برف کا مجسمہ بن چکی تھی—انڈے پھینٹتا ہاتھ بالکل رُک چکا تھا–پلکیں تک ہلنے سے انکاری تھیں—پورا وجود کان بنا اسے سننے کو ترس رہا تھا —اسکے تیز پرفیوم کی خوشبو —جنت نے چھینک کے ڈر سے سانس تک روک رکھا تھا–
“رات کو خواب میں ایک چڑیل لو یو سو مچ کہہ رہی تھی—لگتا ہے میں آیتہ الکرسی پڑھنا بھول گیا تھا—کل سے یاد کروا دوگی مجھے؟؟؟” جنت نے زور سے آنکھیں میچ لیں جبکہ اسکے ہونٹ مسکرا رہے تھے
“بولو نا” اسکے بالوں پر اپنا سر رکھتے کہہ رہا تھا جنت کے ہونٹوں پر مکڑی کا جالا بن چکا تھا
“مراقبے میں چلی گئی ہو کیا؟؟؟” وہ چڑ کر بولا
“معیز بیٹا ناشتہ ٹھنڈا ہورہا ہے” حسنہ بیگم کی آواز پر وہ جنت سے دور ہٹ گیا
“آرہا ہوں مما” جنت نے سکھ کا سانس لیا
“تم نے مجھے ابھی تک وش نہیں کیا” اسکے چہرے کی طرف دیکھتے مصنوعی ناراضگی سے بولا
“اُس چڑیل کا دوسرا جملہ سنا تھا تو پہلے پر بھی کان دہر لیا ہوا تھا” جنت نے آملیٹ کا مٹیریل فرائی پین میں اُنڈیلتے مسکراہٹ دبا کر کہا
“آفس سے آکر تمہاری خبر لیتا ہوں” اسکی ناگن جیسی بل کھاتی چٹیا کو ہلکے سے کھینچ کر دھمکاتا ہوا نکل گیا—جنت مسکرا کر رہ گئی
تعلقات میں ایسا بھی ایک موڑ آیا کہ
قربتوں پہ بھی دل کو گمان دوری تھا
**************
جنت نے اسکے آفس مہکتے گلابوں کا بکے بھجوایا ساتھ ہی کارڈ بھی لکھ کر لگایا تھا اسے ڈنر کیلیے انوائٹ کیا تھا—معیز اتنے مہنگے ریسٹورینٹ کا نام دیکھ کر کچھ چونک سا گیا تھا مگر پھر کندھے اُچکا دیے اتنا تو دونوں کما رہے تھے کہ آسانی سے اس عیاشی کو افورڈ کرلیتے مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ جنت کی گاڑی کیلیے سیونگز کررہے تھے—جنت نے اسکے ساتھ ایک خوبصورت شام گزاری تھی وہ بہت اچھا لگتا سفید ڈریس شرٹ میں—اتنا ہینڈسم کے جنت کو کئی بار ڈر لگتا اپنی نظر لگ جانے سے—ساتھ والے ٹیبل پر چار لڑکیوں کا گروپ تھا مسلسل انہیں دیکھ رہی تھیں–جنت کو تو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے معیز کو دیکھ رہی ہیں—ایک نے معیز کی تصویر بھی کھینچ لی تھی وہ بھی ان کی حرکتیں سمجھ رہا تھا مگر نظرانداز کررہا تھا—جنت مسلسل اسکا ہاتھ پکڑے بیٹھی رہی جیسے وہ لڑکیاں اسے اُٹھا کر لے جائیں گی—معیز کو اسکا جیلس ہونا مزہ دے گیا تھا
“جنت تم نے کبھی اپنی ڈریسنگ چینج کرنے کا نہیں سوچا؟؟؟ اب تو اتنی اچھی پوسٹ ہوگئی ہے تمہاری ” معیز کے اس عجیب و غریب سوال پر جنت نے سوالیہ انداز میں اسکی جانب دیکھا
“جینز ٹاپ؟؟؟ سلیولیس کے بارے میں کیا خیال ہے؟؟؟ اُس لڑکی کو دیکھو کتنی اچھی لگ رہی ہے” معیز نے اُسی کی جانب اشارہ کیا جس نے اسکی تصویر کھینچی تھی
“زہر لگ رہی ہے خبردار جو آپ نے دوبارہ اُسکی جانب دیکھا تو” جنت نے اسکے ہاتھ پر ناخن چبھوئے
“سسی” معیز نے ہاتھ کھینچا
“اُفففف مائی اینگری لیڈی نشان ڈال دیا” جنت کو مطلق پرواہ نہ گزری
“اسکیوز می” وہی لڑکی اپنا ٹیبل چھوڑ کر ان کے پاس آ کھڑی ہوئی اس نے معیز کو مخاطب کیا تھا
“جی؟؟؟” معیز نے اسکی جانب سنجیدگی سے دیکھتے پوچھا
“آپ سر معیز ہیں نا؟؟؟ آئی ٹی میں ڈیجیٹل مارکٹنگ کی کلاسز دیتے ہیں؟؟؟” وہ کافی پرجوش تھی اور معیز حیران! وہ ایک ذہین انسان تھا اپنے اسٹوڈنٹس کی شکلیں تو کم از کم اسے یاد رہتی تھیں اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا جنت بول پڑی
“نہیں— یہ وہ نہیں ہیں” جنت نے زبردستی مسکرا کر کہا “اچھا— مجھے لگا” لڑکی کچھ مایوس سی ہوگئی تھی
“آپ کو غلط لگا” جنت فوراً بولی
“سوری” اب کی بار اس نے معیز سے معذرت کی
“اٹس اوکے” بولی جنت ہی تھی وہ لڑکی برا سا منہ بنا کر چل دی
“اللہ کتنی جھوٹی ہو تم” معیز نے توبہ کی
“آپ کو افسوس ہو رہا ہوگا راہ و رسم نہیں بڑھے” جنت جل کر بولی
“کم آن شی از ناٹ مائی ٹائپ” معیز نے لاپرواہی سے کہتے آرڈر لاتے ویٹر کے لیے میز پر جگہ بنائی—ویٹر کھانا رکھ کر چلا گیا
“پھر کیا ہے آپ کی ٹائپ؟؟؟ ڈریسنگ تو بہت پسند آرہی تھی اُسکی” جنت سادہ سے آف وائٹ امبریلا فراک اور چوڑی دار پجامے میں ملبوس تھی ساتھ گاجری رنگ کا دوپٹہ لے رکھ تھا–بالوں کی کھجوری چوٹی بنارکھی تھی کانوں میں چھوٹی چھوٹی جھمکیاں تھیں—دودھیاں رنگت پر تیکھے نقوش معیز کی جان لیتے تھے
“میری ٹائپ کی اس دنیا میں صرف ایک ہی لڑکی ہے اور وہ میرے سامنے بیٹھی ایک فضول سی لڑکی کی وجہ سے جیلس ہو کر ہمارا ڈنر خراب کررہی ہے” وہ نرمی سے بولا “شروع آپ نے کیا تھا”
“غلطی ہوگئی ملکہ عالیہ” وہ ہنسا جنت بھی مسکرا دی
***************
رات کو وہ لیپ ٹاپ لے کر بیٹھی تو معیز اچانک بولا “تمہاری جگہ نیو انٹری آئی ہے” اس نے جنت کی طرف دیکھے بغیر سرسری انداز میں کہا
“آج سلیولس پہن کر آئی تھی وہ اور ہیئر کٹ بھی چینج تھا— کریمل براؤن کلر کے بال بھی کسی کسی پر سوٹ کرتے ہیں—کاش تم پہلے آفس چھوڑ دیتی کم از کم میرے ورکنگ آرز اتنے بورنگ تو نہ گزرتے–” اس نے موبائل اسکرین سے نظر ہٹا کر ترچھی نگاہ سے جنت کو دیکھا جسکی کی پیڈ پر متحرک اُنگلیاں ایک دم تھم سی گئیں تھیں
“آج ہم نے کے ایف سی میں ڈنر کیا تھا صنم نے مجھے آفر ہی ایسے انداز میں کی میں انکار نہیں کرسکا— صنم” جنت نے مسکرا کر میٹھے سے انداز میں صنم کہتے معیز کو گھورا
“کتنا خوبصورت نام ہے— صنم ” اسکرین پر نگاہیں جمائے وہ دھپ سے تکیے پر سر رکھتا ہولے سے مسکرایا— جنت دھڑکتے بھڑکتے دل کے ساتھ اسکی سُن رہی تھی
“او صنم او صنم” معیز گنگنایا اور یہیں جنت کی ہمت ختم ہوگئی اس نے اپنے پاس پڑا کشن معیز کے منہ پر مارا— سیل فون اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر بیڈ پر گر گیا— جنت کی جانب دیکھا جو آنکھوں میں نمی لیے غصے سے تمتماتا چہرہ لیے اسے گھور رہی تھی—ایک اور کشن اسے مارا اور لیپ ٹاپ گود سے اُتار کر بیڈ سے کھڑی ہوگئی
“میں امی کو بتاتی ہوں اتنی خوبصورت بیوی ہونے کے باوجود آفس میں لڑکیوں کے ساتھ فلرٹ کرتے ہیں آپ” وہ اسے دھمکی دیتی کمرے سے باہر نکلنے لگی تھی جب معیز بیڈ سے چھلانگ مارتا ایک ہی جست میں اسے اپنی گرفت میں لے چکا تھا
“مذاق کررہا تھا یار” ایک ہاتھ سے اسکا بازو پکڑ رکھا تھا دوسرے سے اپنا کان— جنت نم آنکھوں سے گھورتی رہ گئی
“میرا دل ڈوب گیا تھا اور آپ کہہ رہے ہیں مذاق تھا” جنت نے برہمی سے بازو چھڑایا
“تو واپس اپنی جگہ آجاؤ نہ وائف بہت ویران لگتا ہے تمہارے بنا اپنا کیبن” معیز نے اسے اپنے حصار میں لیتے سرگوشی میں گزارش کی
“بہت خراب ہیں آپ” اسکی اموشنل بلیک میلنگ پر ایک مکا اسکے سینے پر رسید کیا.
میری دعاوں میں ایک تم ہی خاص دعا ہو
میں اپنی دعاوں کو کبھی خود سے الگ نہیں کرتی
اب تم تم نہیں میری جان ہو تم
میں خود کو تم سے ُجدا اپنا تصویر نہیں کرتی
تمہارے راہوں میں ہوسکتا ہیں ہوں ہزاروں
مجھ جیسے لکی مگر جس مقام پے ہو تم میرے لیے
میں ُاس مقام پے کسی کی بات بھی نہیں کرتی
***************************
زندگی پھر ویسے ہی مصروف ہوگئی تھی— معیز کو اگر اپنی فیلڈ سے محبت نہ ہوتی اس کام میں مزہ نہ آتا تو شاید وہ اُکتا جاتا یا جنت کو بلیم کرتا کہ اُسکی خواہشات پر اُسے دو دو نوکریاں کرنی پڑ رہی ہیں مگر چونکہ اکیڈمی میں اسکے اسٹوڈنٹس اسکے فین تھے— ہر وقت سر سر کرتے , اسکے پڑھانے کے اسٹائل کو پسند کرتے. لڑکیاں بھی اسکو خاصا پسند کرتی تھیں مگر وہ ان سے اُتنا بےتکلف نہیں ہوتا جتنا کلاس کے لڑکوں سے—اسٹوڈنٹس اسکے آفیشلز اکاؤنٹس پر ایڈ ہوچکے تھے—ایک ایسا فیز تھا معیز کیلیے جہاں اسکو شہرت اور بہت عزت سے نوازا گیا تھا— دوسری کلاسز بھی اس سے پڑھنا چاہتی تھیں اسکا اکیڈمی کا وقت مزید بڑھ گیا تھا—تبھی اسے جنت کا فری لانسنگ جوائن کرنے کا نہیں پتا تھا
وہ پورا سنڈے اور آفس سے واپس سارا وقت اُسے دیتی— گھر کے کاموں سے اس نے بالکل ہاتھ کھینچ لیا تھا آفس سے آکر ہمت نہیں ہوتی کچھ کرنے کی صبح میں آملیٹ بنالیا, ناشتہ لگالیا بس— اتوار کو کپڑے دھو لیتی تھی—
آج سنڈے تھا مگر اکیڈمی کے ایڈمنسٹریٹر کی والدہ کی ڈیتھ ہوچکی تھی تبھی اکیڈمی بند ہوگئی تھی وہ بارہ بجے کے قریب گھر آیا تو حسنہ بیگم کمروں سے جھاڑو نکال کر اب لانج میں لگی تھیں—معیز کچھ دن پہلے ہی ڈاکٹر سے ان کا چیک اپ کروا کر لایا تھا ان کی کمر میں بہت درد تھا ڈاکٹر نے ایک ہفتے کا ریسٹ کہا تھا جنت نے ایک دن تو گھر کا سارا کام کیا مگر اگلے دن سے پھر آن لائن ورک پر بیٹھ گئی—وہ کسی کلائنڈ کو ریجکٹ نہیں کرتی پہلے دو گھنٹے کام کرتی تھی پھر لالچ بڑھا تین ہوگئے پھر چار پھر پورا پورا اتوار چلا جاتا—
معیز نے اندر آکر فروٹ ڈائننگ ٹیبل پر رکھا اور ان کی طرف متوجہ ہوا
“مما ڈاکٹر نے آپ کو منع کیا تھا—آپ پھر کیوں لگی ہیں؟؟؟” قدرے خفگی سے بولا
“بیٹا گھر گندا اچھا لگتا ہے بھلا؟؟؟ صفائی تو نصف ایمان ہے” انہوں نے کچرے والے پاٹ میں کچرا اکٹھا کر لیا اور باہر لگی ڈسٹ بین میں پھینکنے چلی گئیں
“جنت کہاں ہے اُسی کہا کریں ایسے کام” وہ اب بھی خفا تھا “وہ تو صبح سے جو لیپ ٹاپ پر کام کرنے لگتی ہے شام ہوجاتی ہے—پھر اس نے مشین بھی لگائی تھی صبح میں” وہ واپس آتے بولیں—
معیز اوپر اپنے پورشن میں آگیا—جنت لیپ ٹاپ پر کام کررہی تھی
“کیا کررہی ہو؟؟؟” اس نے سلام کے بغیر کہا
“کام” جنت مختصر بولی—توجہ کا مرکز اب بھی لیپ ٹاپ ہی تھا
“کونسا ایسا آفس ہے جس میں ڈیجیٹل مارکٹنگ مینجر کی پوسٹ پر بھی گھر کیلیے اتنااااا کام ملتا ہے؟؟؟” معیز اسی کی فیلڈ کا تھا شک صحیح گزرا تھا اُسکا کہ جنت آن لائن ورک کررہی ہے
“وہ میں نے فری لانسنگ—-” ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ معیز نے ٹھک سے اسکی گود میں رکھا لیپ ٹاپ بند کیا پھر ہاتھ مار کر اسکی گود سے بیڈ پر گرا دیا—جنت کو اب سمجھ آئی تھی کہ وہ غصے میں ہے اسے بازو سے پکڑ کر ڈریسنگ کے سامنے لا کھڑا کیا
“چہرہ دیکھا ہے اپنا؟؟؟ آنکھوں کے گرد ڈارک سرکلز دیکھو— بالوں کا حشر اور یہ کپڑے؟؟؟ یہ کل آفس سے آکر اب تک نہیں بدلے حالانکہ تم واشنگ مشین لگا کر ہٹی ہو—صبح سے منہ تک نہیں دھویا تم نے اپنا” وہ واقع ہی صحیح کہہ رہا تھا اسکی آنکھوں کے پیوٹے تک سوجے ہوئے تھے جانے کتنی راتوں سے ڈھنگ کی نیند نہیں لی تھی
“اب ادھر دیکھو” اس نے ڈریسنگ کی سطح پر ہاتھ مارا جہاں گرد اٹی تھی—
“بیڈ کی چادر کتنے دنوں سے تبدیل نہیں کی؟؟؟ کمرے میں جھاڑو, ڈسٹنگ کچھ نہیں کیا” جنت لب کاٹنے لگی
“نیچے مما اکیلی لگی ہیں—صبح کا بریک فاسٹ, رات کا کھانا, گھر کی صفائی تم نے سب اُن کے ذمے لگایا ہوا ہے وہ کچھ نہیں کہتیں تو تم سر چڑھتی جارہی ہو—تم مجھے کہہ دیتی تم سے یہ سب نہیں ہوتا تو میں میڈ کا انتظام کرلیتا مگر تمہیں اُس سے بھی مسئلہ ہوگا سیلری نکلے گی اُسکی— تمہیں میں نے کہا تھا کہ میں تمہیں کار لے دوں گا ابھی دو مہینے ہی ہوئے ہیں مگر تم میں صبر ہی نہیں ہے—لگی ہوئی ہو اپنے دن رات حرام کرنے—ساری لائف ڈسٹرب کر رکھی ہے تم نے” معیز کے اندر نجانے کتنے دنوں سے یہ بھڑاس بھری پڑی تھی جو اچانک ہی نکلی تھی—جنت گھبرا سی گئی تھی— منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا دفعہ تین سو دو کے مجرم کی طرح سزا کیلیے تیار کھڑی تھی
“جاؤ جا کر پہلے مما کی ہیلپ کرو پھر حلیہ درست کرو اپنا اور بند کرو یہ فری لانسنگ اور جو بھی آن لائن کام کررہی ہو نہیں تو تمہارا لیپ ٹاپ اُٹھا کر باہر دے ماروں گا میں” اسکا اشتعال انگیز رویہ جنت کی زبان تالو سے لگا چکا تھا—کسی چابی کی گڑیا کی طرح وہ اسکے حکم پر نیچے چلی گئی—جو بھی صفائی کا کام رہتا تھا وہ مکمل کیا—حسنہ بیگم کو میڈیسن دے کر ان کا کچھ دیر سر دباتی رہی ان کو سلا کر— سوکھے ہوئے کپڑے اُتارے کچھ تہہ لگائے کچھ استری کیے—
شام کی چائے کا وقت ہوگیا وہ کمرے میں آئی تو واش روم سے پانی گرنے کی آواز آنے لگی—معیز سو کر اٹھا تھا اب فریش ہونے گیا تھا—جنت نے بیڈ کی چادر اُتاری—جھاڑو نکالا, ڈسٹنگ کر کے چادر بدلی—معیز اُسی وقت باہر نکلا وہ اسکی شیلف سیٹ کررہی تھی
“تم ابھی تک اُسی حلیے میں گھوم رہی ہو” معیز کے تو آج انداز ہی بدلے ہوئے تھے کیئرنگ اور لونگ ہسبینڈ کے بجائے وہ بالکل پاکستانی مردوں کی طرح روعب و حکم جھاڑ رہا تھا—جنت کو اب رونا آنے لگا—صبح فجر کے بعد سے مشین کا کام پھر رات بھی دیر سے سوئی تھی اور اب صبح سے کام پر لگی تھی
“شوق سے تو نہیں گھوم رہی ہزار کام بکھرے پڑے تھے” تیز لہجے میں بولی
“پہلے یاد نہیں آئے تھے یہ کام؟؟؟” اس نے طنز کیا
“ہٹو میں یہ سیٹ کرتا ہوں تم جا کر کپڑے بدلو—مجھے بالکل نہیں پسند اس طرح گندے لباس میں گھومنے والے لوگ” جنت جانتی تھی وہ بہت صفائی پسند ہے—وہ بھی صاف ستھری رہتی تھی بس یہ کچھ ہی دنوں سے غفلت برت رہی تھی—معیز بکس سیٹ کرنے لگا وہ الماری سے اپنے لیے لباس منتخب کرتی واش روم میں گھس گئی—
فریش ہو کر نیچے آئی معیز شام کی چائے کیلیے میز لگا رہا تھا—-چائے کے ساتھ فرائز بھی تھے جو اس نے شاید ابھی بنائے تھے جنت کو فرائز بہت پسند تھے اور معیز کے ہاتھ کی چائے کا ذائقہ تو زندگی میں شاید ہی وہ کبھی بھول سکے—-اسکے گھر ہونے پر روٹین جیسے لائن پر آجاتی تھی— جنت کو پہلے اس پر غصہ تھا کہ وہ بھی عام مردوں کی طرح بیوی کو ہی گھر کے تمام کاموں کا ذمہ دار سمجھتا ہے مگر اب جب وہ اس کے ساتھ کچن میں کھڑا وائٹ چکن کڑاہی بنا رہا تھا تو جنت کو اپنے خیالات تبدیل کرنے پڑے “جنت کڑاہی میں نے دم پر رکھ دی ہے—تم برتن تیار کرو میں بس بھاگ کر چپاتی لایا” کچن میں اسٹینڈ پر لٹکے تولیے سے ہاتھ صاف کرتا برتن دھوتی جنت سے بولا
“میں بنادیتی ہوں” وہ جلدی سے بولی
“نہیں یار تم تھک جاؤ گی” وہ سرسری سے انداز میں کتنے اہم جملے بول جاتا تھا اسے احساس بھی نہیں ہوتا تھا
رات کو کافی دنوں بعد دونوں میں سے کسی نے لیپ ٹاپ نہیں اٹھایا تھا—جنت آنکھیں موندے لیٹی تھی اسے زبردست قسم کی نیند آرہی تھی جب معیز نے اسکی طرف کروٹ لی
“جنت”
اسکا چہرہ بالکل معیز کے سامنے کچھ فاصلے پر جگمگا رہا تھا—بیڈ پر پڑے اسکے ہاتھ کو اپنی ہتھیلی میں قید کرتے پھر پکارا
“اٹھو نہ یار” ہاتھ کو جھٹکا دیا—جنت نے بے چینی سے ہاتھ کھینچنا چاہا نیند اس پر مہربان ہورہی تھی
“ایک بہت اچھی خبر ہے تمہارے لیے—سنو گی تو جھوم اُٹھو گی” اسکے ہاتھ کی تیسری اُنگلی میں موجود انگوٹھی کو آگے پیچھے کرتا وہ محو گفتگو تھا
“معیز مجھے بہت سخت نیند آرہا ہے” وہ غنودگی میں بول رہی تھی
“میں نے تمہاری کار کے لیے پیسے کلکٹ کرلیے ہیں کل شو روم چلیں؟؟؟ تم ہاف ڈے کرلو” جنت نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں
“سچی؟؟؟” وہ ساتھ ہی اٹھ بیٹھی تھی
“بالکل” وہ اسکے چہرے کی مسکراہٹ اسکی خوشی دیکھ کر ہی جیسے اپنی تمام محنت اور تھکن کا معاوضہ وصول کرگیا تھا
“لیکن میں نے ابھی تک ڈرائیونگ نہیں سیکھی” اسکا منہ لٹک گیا وہ اب تک بیٹھی ہوئی تھی جبکہ معیز اس سے کچھ فاصلے پر دراز تھا
“یہ بندہ کس لیے ہے جناب” اسکے ہاتھ کو جھٹکا دے کر اپنے پاس گراتے اسکا سر اٹھا کر اپنے سینے پر رکھ لیا—رات دھیرے دھیرے سرک رہی تھی
*****************
جتنی معیز کی رینج تھی جنت کو کوئی کار پسند نہیں آرہی تھی اور سیکنڈ ہینڈ وہ لینا نہیں چاہ رہی تھی پھر بینک گئے اس نے اپنے اکاؤنٹ سے اپنی جمع شدہ رقم نکلوائی جو تقریباً تین لاکھ تھے—معیز نے اپنے سات لاکھ ملائے—دس لاکھ میں بھی اسے کرولا یا سوک نہیں مل سکتی تھی—اسے چاہیے تھی تو کرولا معیز نے بہت سمجھایا مگر وہ اسکی سننے کو تیار ہی نہیں تھی
“میری اتنی سی حیثیت نہیں ہے کہ میں ایک اچھی کار لے سکوں اوپر سے آپ مجھے جان بوجھ کر اتنے اکسپینوسو (مہنگے/قیمتی) شو روم میں لے آئے تاکہ مجھے جتا سکیں کہ میری کیا اوقات ہے” معیز تو اسے رونے کیلیے تیار کھڑا دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا—
پھر مجبوراً اسے گھر آنا پڑا—دو دن میں آفس سے دو لاکھ لون لیا, تیرہ سو سی سی کی گرے کلر کی دو ہزار پانچ کے ماڈل کی ہونڈا لے کر کچھ پرسکون ہوا اس وقت جنت اسکے ساتھ نہیں تھی گھر جاکر وہ اسے سرپرائز دینا چاہتا تھا—سرخ گلابوں کا بُکے اور چاکلیٹ کیک لے کر وہ گھر روانہ ہوا
*********
“مس جنت آپ کو باس اپنے آفس میں بلا رہے ہیں” اپنی ایک کولیگ کی اطلاع پر وہ سر ہلاتی اپنی کرسی سے اُٹھ گئی—اپنے کیبن سے نکلتے بس یہی سوچ رہی تھی کہ کون سا کام غلط کردیا ہے بےعزت نہ ہونا پڑے—باس کے روم تک پہنچتے اس نے گہرا سانس لے کر خود کو ریلیکس کیا اور اُنگلیاں موڑ کر گلاس ڈور پر دستک دی
“کم ان” اندر سے اجازت ملتے ہی وہ دروازہ کھول کر ان کے سامنے حاضر ہوگئے
“ہئے مس جنت, کم اِن کم اِن,ہیو آ سیٹ پلیز” ان کی اس خوش اخلاقی کے پیچھے بڑا مقصد چھپا ہوتا تھا وہ سمجھ گئی اب باس کو اس سے کوئی اہم کام ہے اس نے ان کے سامنے والی کرسی سنبھال لی
“Jannat you’re so talented and hard working—I’m really satisfy with your work and I know you’ll do something unbelievable for my company”
” اور کتنا مکھن لگائیں گے انکل” جنت نے ان کی لمبی تہمید پر ان کے سفید بال دیکھتے بیزاری سے سوچا
“It’s my job sir”
وہ زبردستی مسکرائی
“ایکچوئلی مس جنت ہماری برانڈ امبسیڈر ہیں مس کنول شی از اکسپیکٹنگ وہ ٹرویول نہیں کرسکتیں—ہماری دبئی میں ایک اہم کانفرنس ہے اور برانڈ امبسیڈر کے بغیر شرکت تو بالکل ممکن نہیں— آپ مارکٹنگ کرتی رہی ہیں آپ کو کلائنڈ کو ہینڈل کرنا اُن کا مائنڈ پڑھنا آتا ہے
And your way of taking is very impressive, your body language, your voice—-you have all those Components that any brand ambassador should have—I believe that you can do”
انہوں نے لگے ہاتھوں اسکی تعریف بھی کردی اور یہ تعریف بےجا نہیں تھی اسکے بات کرنے کا پروفیشنل انداز واقع قابل تعریف تھا وہ کوئی دبو سی لڑکی نہیں تھی—ہر کلائنڈ سے آئی کانٹیکٹ کر کے مکمل اعتماد سے جواب دیتی اگر کوئی اسکا اعتماد چھینتا تھا تو وہ معیز کا گھمبیر لہجہ “بٹ سر میں؟؟؟ دبئی؟؟؟ میں کبھی آؤٹ آف کنٹری نہیں گئی میرا پاسپورٹ بھی نہیں بنا” س نے اپنی پریشانی بتائی
“وہ سب میری ذمے داری ہے اور کانفرنس میں ابھی پورا ایک مہینہ ہے آپ مجھے تسلی سے جواب دے دیں—مگر ایک چیز ایسے گولڈن چانسز بار بار نہیں آتے اگر آپ سے ہماری کمپنی کو فائدہ ہوگا تو ہم آپ کو بھی پروفٹ میں رکھیں گے اور جنہوں نے ترقی کے خواب دیکھے ہوں مس جنت وہ ملک در ملک سفر کرلیتے ہیں یہ تو پھر دبئی ہے— تمام بڑے بڑے بزنس مین وہاں آئیں گے اور قوی امکان ہے کہ مسٹر ابراہیم حسین مہر بھی تشریف لائیں—وہ ایک ملٹی نیشنل بینک کے سی ای او اور پریزیڈنٹ ہیں— اس بینک کی سترہ سو برانچز پچس ملکوں میں پھیلی ہوئی ہیں—ان کا ہیڈ کواٹر پاکستان میں ہے—وہ ابراہیم گروپ آف انڈسٹریز کے مالک ہیں—انہیں دو ہزار چار میں ستارہِ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا— پاکستان کی پانچ امیر ترین شخصیات میں ان کا نام سر فہرست ہے—ان کے پاس اس وقت سات بلین ڈالر کے اثاثہِ جات ہیں—کل اگر ان کے ساتھ مارکٹنگ کا ایک بھی پروجیکٹ سائن ہوگیا تو کمپنی کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی اور آپ کو بھی پہنچا دے گی” انہوں نے جنت کو وہی خواب دکھائے جنہیں وہ دن رات صبح شام کھلی آنکھوں سے دیکھتی رہتی تھی—پھر اتنا بہترین موقعہ وہ کیسے گنوا سکتی تھی؟؟؟
***************
جنت اپنے کیبن میں آئی تو مسلسل بجتے فون پر کوفت بھری نظر دالی پھر معیز کا نام جگمگاتے دیکھ کر اٹینڈ کیا “ہیلو”
“جنت جلدی گھر پہنچو ایمرجنسی ہے” معیز کا سانس پھولا ہوا تھا کچھ بدحواس سا لگ رہا تھا—جنت کا دل سمند کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گیا— ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی
“سسس—سب ٹھیک ہے نا معیز؟؟؟” بہت مشکل سے اسکے لبوں سے یہ جملہ نکلا
“تم پہنچو پھر بتاتا ہوں” اسکی آواز میں بوکھلاہٹ تھی وہ جلدی سے ایم ڈی کو ایمرجنسی کا کہہ کر آفس سے نکل گئی—رکشہ لیا گھر پہنچی—اندر داخل ہوتے ہی اسے گیراج میں ایک گاڑی کھڑی نظر آئی جس پر بی بی پنک کلر کا ریبن لگا ہوا تھا—وہ متحیر سی رہ گئی اس نے گیٹ ایمرجنسی کیلیے اپنے پاس رکھی کیز سے کھولا تھا—
اتنے میں معیز لانج کے دروازے سے باہر آیا اور سینے پر بازو باندھ کر اسے دیکھنے لگا—جنت نے کار کی جانب اُنگلی سے اشارہ کرتے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا
“سرپرائز” وہ مسکرایا—جنت نے دونوں ہاتھ لبوں پر رکھ کر اپنی مسکراہٹ دبائی یا خوشی کے مارے گلے سے نکلنے والے چیخ—لب تو ڈھانپ لیے تھے مگر اسکی آنکھوں میں جلتی قندیلیں اسکی خوشی کا صاف پتا دے رہی تھیں اسے خوش دیکھ کر معیز کا ڈھیروں خون بڑھ گیا تھا—
جنت نے اپنا ہینڈ بیگ اُتار کر معیز کی کار کے بونٹ پر رکھا اور اپنی کار کی ونڈ اسکرین کو اپنے ہاتھ سے چھو کر دیکھا جیسے کوئی خواب دیکھ رہی ہو—چمچماتی ہوئی کار اسے اپنا کوئی خواب لگ رہا تھا—سالوں پرانا ماڈل تھا وہ پھر بھی خوش تھی درحقیقت اسے بس اچھی گاڑی چاہیے تھی اور وہ اسے مل گئی تھی—
برانڈ نیو کار, جنت ستار اب اپنی کار میں آفس جایا کریں گی واہ!
“کیسی لگی؟؟؟” معیز اسکے پاس چلا آیا—حسنہ بیگم بھی اندر سے آگئیں
“جنت بیٹا پسند آئی کار” اسکی جانب دیکھتے ہی وہ اسکے گالوں سے پھوٹتی خوشی محسوس کرگئیں تھیں
“بہت اچھی ہے امی” وہ بچوں کی طرح بولی جیسے بچے نیا کھلونا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں
“میں چائے دیکھ آؤں” وہ واپس اندر چلی گئیں
“ہممم تو وائف کو گفٹ پسند آ ہی گیا” اسکی گردن میں بازو حمائل کرتے اپنے قریب گھسیٹتے بولا—جنت سر جھکا کر رہ گئی شرمیلی مسکراہٹ نے اسکے لبوں کا احاطہ کیا “اب مجھے بھی کوئی تحفہ دے دو” اسکی زلفوں سے چھیڑخانیاں کرتے بوجھل لہجے میں فرمائش کی
“معیز ہم گیراج میں کھڑے ہیں” وہ ہلکی سی آواز میں بولی
“چلو اوپر چلتے ہیں” بازو اسکی گردن سے ہٹا کر ہاتھ تھامتے جلدی سے بولا
“نہیں— ہم ابھی لانگ ڈرائیو پر جائیں گے—مجھے اندر بیٹھ کر تو دیکھ لینے دیں” جنت جلدی سے بولی—ساتھ اپنا ہاتھ بھی کھینچ کیا
“پہلے میرا گفٹ—پھر باقی سب کچھ” وہ اس معاملے میں بہت ضدی تھا
“یہ کیا بات ہوئی” جنت نے منہ بسورا—معیز نے لاپرواہی سے کندھے اُچکائے
“مجھے کار کی چابی دیں میں نے اندر سے تو دیکھی ہی نہیں ہے” وہ اسکے سامنے ہاتھ پھیلاتے بچوں کے طرح ضد کرنے لگی—معیز نے شریر سی مسکان کے ساتھ چابی اسکے سامنے لہرائی
“لے لو” جنت نے ہاتھ آگے بڑھایا اس نے ہاتھ اوپر کر لیا جنت اُچھلی اس نے چابی دوسرے ہاتھ میں منتقل کرلی
“معیز” وہ جھنجھلا کر چیخی
“میں تو نہیں دے رہا” لاپرواہی سے کہتے وہ اندر چلا گیا جنت اسکے پیچھے بھاگی
“امی انہیں کہیں میری گاڑی کی چابی دے دیں” اسے سیڑھیاں چڑھتا دیکھ کر وہ کچن میں کھڑی حسنہ بیگم سے بولی— وہ وہیں سیڑھیوں کی دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا اسے دیکھنے لگا
“تم میری لے لو یہ تو میں اپنے لیے لایا ہوں” وہ چابی کو مزے سے اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ڈالتا اسے جلا کر راکھ کر گیا
“امییییی” اس نے مدد طلب نظروں سے انہیں دیکھا وہ کچن سے باہر نکل آئیں
“معیز مت تنگ کرو” شیشے کے گلاس میز پر رکھتیں اسے سیڑھیوں پر کھڑا دیکھ کر سرزنش کرنے لگیں—وہ قہقہہ لگا کر ہنسا
“میں سچ کہہ رہا ہوں یہ میری گاڑی ہے” اسکے کہنے کی دیر تھی جنت تیزی سے سیڑھیاں چڑھی وہ اسکے آگے چھلانگیں مارتا اپنے پورشن میں اپنے کمرے میں گھس گیا
“معیز چابی دے دیں” وہ کمرے میں گھستی سختی سے بولی—وہ ہنوز اسے تنگ کرنے کے موڈ میں کہنی کے بل بیڈ پر لیٹا تھا–پھر اپنی پاکٹ سے چابی نکال کر اسکے سامنے لہرائی—جنت غصے میں آگے بڑھی چابی اسکے ہاتھ سے کھینچی
“ہونہہ” چابی لے کر ایسی اکڑ سے اسکی جانب دیکھا جیسے ورلڈ کپ جیت لائی ہو—دروازے سے باہر نکلی پھر اچانک مُڑ کر واپس آئی اور چابی اسے دے ماری معیز نے سر جھکا لیا وہ پیچھے دیواد پر لگی
“یہ آپ کی گاڑی کی چابی ہے—مجھے میری گاڑی کی چابی چاہیے” وہ اسکے پاس کھڑی اب سچ مچ غصہ کرنے لگی—معیز اٹھا اور بُک شیلف کے اوپر بڑا بُکے اُٹھا کر لایا
“Its for you my love”
بُکے اسے پکڑایا—جسے بغیر کسی خوشی کے جنت نے پکڑ کر بیڈ پر رکھ دیا اور سفید نازک ہتھیلی اسکے سامنے پھیلا دی—معیز نے اسکی ہتھیلی پر اپنا ہاتھ رکھا جنت نے غصیلی نگاہوں سے گھورتے اسکا ہاتھ ہٹایا
“keys”
اسکی ایک ہی رٹ تھی
“یہ لو بھئی” معیز نے اپنی پینٹ کی پاکٹ سے چابیاں نکال کر اسکے سامنے کیں—جنت نے اُچک کر لینی چاہیں تو وہ پیچھے ہٹ گیا
“معیز” دونوں مٹھیاں بھینچ کر آنکھیں میچ لیں
“لے لو” پھر وہ آگے آگے تھا اور جنت اسکے پیچھے پیچھے—معیز بیڈ پر چڑھ گیا—جنت نیچے کھڑی تھی وہ دائیں طرف ہوتی تو وہ بائیں طرف سے اُترنے لگتا—وہ بائیں طرف ہوتی تو وہ دائیں سائیڈ سے جانے کو تیار ہوجاتا—پھر وہ بیڈ پر تھی اور وہ نیچے جنت نے ایک ایک کشن اُٹھا کر اسے مارا— وہ انہیں کیچ کرتا اور واپس اسکی جانب اُچھال دیتا
“ہار مانی؟؟؟” اسے تھکا ہوا دیکھ کر بڑی ہی دلیرانہ اور فاتحانہ مسکراہٹ سے پوچھا
“مجھے نہیں چاہیے چابی” وہ روٹھ کر بیٹھ گئی
“ایز یو وش” بیڈ پر گرنے کے انداز میں لیٹ گیا اسکے پاس بڑا تکیہ اُٹھا کر سر کے نیچے رکھا
“I really hate you”
وہ اُنگلی اُٹھا کر بولی
“I hate you too even more than you”
تکیہ سے اسکی گود میں سر شفٹ کرتے بہت سنجیدگی سے بولا
“میں ناراض ہوں آپ سے” اسکا سر گود سے ہٹانا چاہا جو اُٹھ کے نہیں دے رہا تھا
“میں بھی” سکون سے آنکھیں موندے بولا
“آپ بہت برے ہیں” اسکے بال مٹھی میں لیتے کھینچے
“تم بھی” وہ اب بھی مطمئن تھا جنت کا دل چاہا اپنا سر پھاڑ لے
“میں کل امی کے گھر جارہی ہوں” اسنے اپنی پونی سے نکلتے بال کان کے پیچھے کرتے کہا
“میں بھی ساتھ چلوں گا” مطلب کسی بات کا اثر نہیں ہورہا
“کیا چاہتے ہیں آپ؟؟؟” وہ جھنجھلائی
“تمہیں” اس نے آنکھیں کھول کر جنت کو دیکھا
“میں آپ کے پاس ہی تو ہوں” معیز نے اسکا ہاتھ تھام لیا
“اور تم ہمیشہ میرے پاس رہو گی, ساری زندگی, ہر دن, ہر لمحہ” معیز نے اسکی ہتھیلی اپنے لبوں پر رکھ لی
“you’re very special to me, you’re my breath, my world, my wife, my love, my everything”
اسکے ہاتھ کو اپنے گال پر رکھتے جذبوں سے چور لہجے میں اظہار کررہا تھا یہ اسکی دیوانگی نہیں تو کیا تھی جنت نے اسے ہمیشہ اپنے حق میں بہتر سے زیادہ بہترین پایا تھا
“what I’m for you???”
معیز نے نگاہ اُٹھا کر اسکی جانب دیکھا جو کھوئی کھوئی سی کیفیت میں اسکے رخسار پر رکھے اپنے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی
“چائے کا وقت ہوگیا ہے امی انتظار کررہی ہوں گی” وہ اٹھنے کی تیاری کرتی بولی
“پہلے میری بات کا جواب دو” معیز نے اسکی کلائی تھام کر روکا
“کیا جواب دوں؟؟؟ ویسے بھی لڑکیاں اظہار کرتی اچھی نہیں لگتیں” اس کے جواب نے معیز کا سارا موڈ بگاڑ دی
“یہ کس جاہل نے کہا تم سے؟؟؟ اب فیلینگز بیان کرنے میں بھی gender discrimination؟؟؟ عجیب بات ہے جب ایک شوہر اپنی بیوی سے اظہار محبت کرسکتا ہے اور بیوی چاہتی ہے وہ ہر دن اس سے اپنی محبت بیان کرے تو شوہر کیوں نہیں چاہیں گے کہ ان کی وائف انہیں بتائے کہ وہ ان کیلیے کتنے اہم ہیں؟؟؟ یہ فلسفیانہ باتیں ہیں کہ اظہار کو زبان کی ضرورت نہیں ہوتی, جب آپ کو درد ہوتا ہے آپ بتاتے ہیں, جب آپ ہرٹ ہوتے ہیں شیئر کرتے ہیں تو جب آپ محبت کرتے ہیں تو اسکا اظہار کیوں نہیں کرتے؟؟؟ یہاں آکر آپ کہتے ہیں کہ رویے سے جج کی جائے محبت— نصف سے زائد رشتے پیار و محبت کا اظہار نہ ملنے پر ہی اپنی کشش کھو دیتے ہیں پھر ایک مرجھائے ہوئے پھول کی مانند روندے چلے جاتے ہیں” معیز نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا
“جاؤ” تکیے میں منہ دے کر اوندھا کو کر لیٹ گیا وہی ضدی بچوں والا انداز
“میں نے تو نارمل سی بات کی تھی” جنت تذبذب کا شکار کھڑی رہ گئی—معیز کے تکیے کے پاس پڑی چابی پر اسکی نظر پڑی فوراً جھک کر اٹھا لی—ساتھ ہی اسکے کان کے پاس ہونٹ لا کر دھیمی سی آواز میں بولی
” you are mine and I’ll never leave you ,never ever”
اسکی خوبصورت آواز اور یہ جملے اسکی زندگی کا حسین ترین لمحہ تھا—جنت کہہ کر بھاگنے کو تھی مگر اسکا دوپٹہ معیز کے ہاتھ آگیا—اسے اپنے قریب کھینچ لیا—جنت کے سارے بال آگے کو جھک آئے—معیز اسکے بےحد قریب تھا وہ نظر اُٹھا کر اسکا ایک ایک نقش بغور دیکھ سکتی تھی—معیز نے آہستگی سے اپنی اُنگلیوں سے اسکے چہرے کے اطراف میں بکھرے بال سمیٹے—ایک فسوں خیز لمحہ تھا دونوں کو جکڑے, اپنے سحر میں جذبات کے سمندر کی تہہ در تہہ سفر کررہا تھا
“I’ll never let you go”
اسکے قریب جھکتے بوجھل سی آواز میں کہہ رہا تھا—وہ کہہ رہی تھی وہ اسے کبھی چھوڑ کر نہیں جائیں گی اور وہ کہہ رہا تھا وہ اسے کبھی جانے نہیں دے گا اور وقت؟؟؟ دریچے سے جھانکتے وعدہ و پیماں بانددھتے دونوں نفوس کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا—قسمت جیسے امتحان لینے کو تیار کھڑی تھی
****************
اسکے باس نے دوسرے دن اس سے پوچھا تو وہ بہانے سے ٹال گئی مگر آج اسے لازمی معیز سے بات کرنی تھی وہ پورا دن اتنا مصروف رہتا تھا کہ جنت اسے کال تک نہیں کرسکتی تھی یہ مصروفیت بھی تو جنت کو اعلٰی طرزِ زندگی فراہم کرنے کیلیے تھی—آج رات جب وہ اکیڈمی کیلیے لیکچر تیار کررہا تھا تو جنت اسکے لیے کافی کا مگ لیے اندر آئی
“تھینک یو” اسکے ٹرے رکھتے ہی وہ عاجزی سے مسکرایا “معیز ایک ضروری بات کرنی تھی آپ سے” وہ دوسری طرف سے آکر بیڈ پر بیٹھ گئی—معیز ٹانگیں لمبی کر کے ان پر لیپ ٹاپ رکھے ہوئے تھا
“ہاں کہو” وہ ہنوز مصروف تھا—جنت نے اسے ساری بات بتادی جیسے جیسے وہ بولتی جارہی تھی معیز کا دھیان کام سے ہٹتا جارہا تھا
“سوری بٹ میں تمہیں بالکل یہ کام تجویز نہیں کروں گا برانڈ امبسیڈر کوئی اچھا کام نہیں ہے میری نظر میں— تم اپنی فیلڈ تک محدود رہو” معیز نے صاف انکار کردیا تھا “مگر—–” جنت نے اسے راضی کرنے کیلیے اب بحث تو کرنی ہی تھی
“تم اگر یہ سوچ رہی ہو کہ جیسے پہلے ہماری کمپنی کیلیے تم نے ایک سپیچ دے دی تھی تو اب بھی یہی کرو گی تو یہ تمہاری احمقانہ سوچ کے سواء کچھ نہیں ہے—برانڈ امبسیڈر کا کام ایونٹ پر اپنی کمپنی کو رپرزنٹ کرنا ہوتا ہے اور جس ایونٹ کی تم بات کررہی ہو وہاں تم بالکل اپنا یہ مشرقی لباس نہیں پہن سکتی اور اُن کا ڈریس کوڈ مغربی طرز کا ہوگا— نہ تمہیں میلز کے ساتھ فرینک ہونے کی عادت ہے یہ تمہارے ٹائپ کا کام نہیں ہے—تم صاف منع کردو اپنے باس کو” اس نے سنجیدگی سے اختلاف کیا
“میرا ویزہ لگ جائے گا اور opportunities بھی مل سکتی ہیں— نیٹ ورک بڑھ جائے گا پھر باس کہہ رہے ہیں کہ جتنی پروموشن ہوگی اتنا مجھے کمیشن ملے گا” جنت ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھی
“اور پھر تمہیں ہوگیا پیسے کا لالچ” معیز نے کاٹ دار نظروں سے اسکی جانب دیکھا
“سو جاؤ خاموشی سی ہر دوسرے دن میرا دماغ خراب کرنے بیٹھ جاتی ہو—- پاگل ہوں جو ایسے ہی اپنی بیوی کو اُن کے ساتھ بھیج دوں بھلا کوئی فراڈ نکلے—ایک تو خوبصورت بیویوں کے بھی بڑے نقصان ہیں” جنت نے گھور کر اسے دیکھا
“بہت حور پری ہوں میں, نیلی آنکھیں سنہری بال ہیں جو میرے ساتھ ہی فراڈ کریں گے وہ— مجھ سے زیادہ خوبصورت اور بولڈ گرلز ہیں آفس میں” اس نے ناک چڑھا کر تنک کر جواب دیا
“تو باس کو کہنا اُن میں سے ہی کسی ایک کو منتخب کرلیں” معیز نے لاپرواہی سے کہا
“معیز سوچیں تو” جنت نے اصرار کیا
“جنت چپ ہوجاؤ” وہ اب کی بار سختی سے بولا تو جنت منہ لٹکا کر اپنے تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گئی
اگلے دن اس نے شام کو معیز کو کال کر کے اپنے آفس بلایا کہ اسے ارجنٹ کام ہے وہ ابھی بھی اپنی گاڑی نہیں لاتی تھی—معیز آیا تو جنت کے باس نے اسے اندر بلا لیا پھر اپنا پورا پلان اسکے سامنے رکھا کہ وہ تین دن کا سٹے کریں گے بس اور کون کون سی نامور شخصیات آرہی ہیں اسکے ساتھ انہوں نے اسے ایک لیڈی سے ملوایا جس نے جنت کی پوری ذمہ داری لی تھی— وہ کاروباری بندہ تھا معیز کو کنوینس کر کے ہی دم لیا پھر جنت کا پھولا منہ اور اسکی ضد سے تو وہ واقف ہی تھا
***********
نادر کاکوروی اور آئرلینڈی شاعر تھامس مور کی نظم نگاری کا تقابلی مطالعہ
نادؔر کاکوروی اردو کے ممتاز شاعر اور تھامس مور آئرلینڈ کے انگریزی زبان کے شاعر ہیں، دونوں شعرا کی شاعری...