آج سنڈے تھا جنت نے مشین لگا رکھی تھی حسنہ بیگم آلو چھیلتے ہوئے ٹی وی دیکھ رہی تھیں— وہ بہت اچھی عادت و اطوار کی مالک تھیں—نماز قرآن کی پابند فارغ وقت میں ٹی وی لگالیتیں گھر کے بھی سارے کاموں میں جنت کا ہاتھ بٹاتیں خاص کر کچن کی ذمہ داری انہوں نے لے رکھی تھی—صبح کے وقت وہ اسکے اُٹھنے سے پہلے ہی ناشتے کیلیے کچن میں حاضر ہوجاتیں اور رات کا سالن بھی بنادیتیں— معیز اپنے کپڑے خود پریس کرتا تھا— جنت کے کئی بار حسنہ بیگم پریس کر کے رکھ دیتیں—جنت کو گھر کی صفائی پر تھوڑی توجہ دینی پڑتی تھی اور ہر اتوار مشین لگانا اسکی ذمے داری تھی اسکی تھکن کا احساس کرتے اتوار کو معیز کھانا باہر سے لے آتا—اتوار کی شام میں چائے بھی خود بناتا تھا—اپنے کمرے کی الماری صاف کرنا شوز ریک صاف کرنا جنت کو بہت سہولت تھی تبھی آفس جوائن کرنے کے باوجود اسکی لائف روٹین اتنی ٹف نہیں تھی—اوپر چھت پر ہی ایک طرف کپڑے دھونے والی جگہ بنی تھی— واش روم بھی تھا— جنت واشنگ مشین سے سرف والے کپڑے نچوڑ نچوڑ کر نکال رہی تھی جب معیز دندناتا ہوا اپنے کمرے سے نکل کر چھت کی طرف آیا—سامنے ہی جنت ٹپ میں کپڑے رکھ رہی تھی—دوپٹہ ندارد تھا بالوں کا جوڑا کھلنے کے قریب تھا—کپڑے بھیگے ہوئے تھے
“یہ کیا ہے؟؟؟” اس نے جنت کا سمارٹ فون اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا جس پر کسی کمپنی کی آفیشل میل تھی جس میں اسے اگلے مہینے سے جوائن کرنے کا عندیہ سنایا گیا تھا—میل پڑتے ہی جنت کے چہرے پر خوشی جھلکنے لگی ہاتھ میں پکڑا دوپٹہ ٹپ میں پھینکتے اسے دیکھا
“میں نے پارٹ ٹائم جاب کیلیے اپلائی کیا تھا اُسی کی میل ہے” اسکی آواز میں موجود کھنک اسکی مسرت و شادمانی کو عیاں کررہی تھی معیز کے ماتھے پر ناگوار لکیریں جمع ہوگئیں
“کیا ضرورت ہے اسکی؟؟؟ ایک جاب کافی ہے—آپولوجائیز کرلو ان سے” اس نے بےلچک انداز میں کہتے اسکا سمارٹ فون آف کردیا
“ضرورت ہے اور میں کروں گی” جنت ہٹ دھرمی سے بولی تو معیز غصے میں اسکی جانب گھوما
“میں نے اگر تمہیں پارٹ ٹائم کی پرمیشن دینے ہی تھی تو سر سے ارجنٹ میں گرافک ڈیزائینر ہائر کرنے کو نہیں کہتا؟ پہلے تمہارے ورکنگ آرز کم کروائے ہیں تم نے نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے—سکون ہے تمہیں کہ نہیں؟؟؟”
“پانچ بجے میرا آف ہوجاتا ہے پھر یہ آفس ہمارے قریب ہی ہے نو بجے تک یہاں سے بھی واپسی ہوجائے گی— فارغ رہنے سے اچھا ہے بندہ کام کر لے چار پیسے تو آئیں گے” وہ اپنے دفاع میں بولی
“نہیں چاہیے مجھے تمہارے چار پیسے— جلدی گھر آؤ گی کچھ آرام کرنا, مما کے ساتھ ٹائم سپینڈ کرنا” اس نے سمجھانا چاہا
“مجھے تو چاہیے ہیں نا— میری سیلری بہت کم ہے میرا گزارا نہیں ہوتا” وہ بھی بحث کررہی تھی
“تمہارے کپڑوں سے سیلون تک, گھر کے بلز سے راشن تک سب میں کرتا ہوں تمہاری سیلری بینک میں جاتی ہے پھر کونسا گزارا نہیں ہورہا تمہارا مجھے بھی پتا چلے” معیز نے غصے سے کپڑے مشین سے نکال نکال کر پٹختی جنت کو بازو سے پکڑ کر اپنی جانب متوجہ کیا
“آپ کیا چاہتے ہیں اپنی سیلری سے اپنے اخراجات اُٹھاؤں تو ٹھیک ہے آئندہ ایک روپے نہیں دیجیے گا مجھے” جنت نم آنکھوں سے بولی—بازو کہنیوں تک سرف صابن سے لتھڑے پڑے تھے
“میں نے ایسا کب کہا ہے” معیز عاجز آتے بولا
“ایک تو تم بات بے بات رونے لگتی ہو” اسکی نم پلکوں کو انگوٹھے سے صاف کیا
“آپ رُلاتے ہیں تو روتی ہوں میرا دماغ خراب ہے جو فضول میں آنسو بہاتی پھروں” اسکی گرفت سے اپنا بازو نکالتے خفگی سے کہا
“دماغ ہی تو خراب ہے تمہارا— لڑکیاں اس اسٹیج پر زندگی کا لطف لیتی ہیں خوب آرام کرتی ہیں, شوہر کیلیے اچھے اچھے کھانے بناتی ہیں, اسکے لیے سجتی سنورتی ہیں اور ایک میری بیوی ہے جسے اپنا بینک بیلنس انکریز کرنے کا جنون ہوچلا ہے” وہ پیار سے اس پر چوٹ کررہا تھا
“اس دنیا میں سب کو پیسہ چاہیے معیز اور پیسہ درختوں پر تو لگا نہیں ہوتا کام کریں گے, محنت کریں گے تو کچھ ملے گا” جنت نے یاسیت بھرے لہجے میں کہا—ساتھ ساتھ اپنے کام میں بھی مصروف تھی
“کیا چاہیے میری بیوی کو مجھے بتائے میں لا کر دوں گا” معیز نے اسکے ہاتھ سے کپڑے لے کر دور اُچھالتے اسکے دونوں ہاتھ پکڑ کر قریب کھینچا
“کچھ نہیں” جنت نے ہاتھ اسکی گرفت سے نکالنے کی کوشش کرتے کہا
“اوں ہوں” معیز نے اسکے ہاتھ اپنی کمر کے گرد باندھ لیے—اسکی شرٹ پر بھی صابن سرف لگ چکا تھا
“بولو” اپنے مضبوط بازو اسکی مرمریں کمر میں ڈالتے مزید قریب کرتے گھمبیر بوجھل لہجے میں پوچھا—جنت کا دماغ سنسنا اُٹھا—واشنگ مشین کی ہلکی ہلکی آواز کے سوا جنت کی دھڑکنوں کا شور تھا بس
“مم–معیز آپکی شرٹ خراب ہوگئی ہے” اسکے حصار میں قید وہ منمنائی—معیز کا حصار مزید تنگ ہوگیا—جنت بھول گئی تھی وہ کس بات پر بحث کررہے تھے
“ہولینے دو” جنت کا دل سینے میں ٹکریں مار رہا تھا—اس نے معیز کے گرد بندھے اپنے ہاتھ ہٹالیے
“I wanna feel you”
جذبات سے بوجھل آواز جنت کے کانوں سے ٹکرائی—اسکی جھکی لرزتی پلکوں کو بےانتہا قریب سے دیکھتے وہ جیسے دیوانہ سا ہوگیا تھا— اسے وہ ہر جگہ ہر حلیے میں پری پیکر لگتی تھی—اسکی ساحرہ وہ اسے موقع ہی نہیں دیتی تھی کہ وہ اس پر اپنی محبتوں کے خزانے لٹا سکے جنہیں صرف اسکے لیے سینت سینت کر رکھا تھا اس نے— وہ اپنے حسن و جمال کے باوجود کردرا کا پکا اور حلال حرام کا فرق کرنے والوں میں سے تھا
“کام کرنے دیں مجھے” اسکے کپکپاتے لبوں سے بمشکل نکلا—وہ نظر اُٹھا کر اسے دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی “ابھی بھی تمہارے پاس میرے لیے وقت نہیں ہوتا—پارٹ ٹائم جاب کروگی تو تمہاری شکل دیکھنے کو ترس جاؤں گا” اسکے لہجے کی بےقراری اور تڑپ نے چند لمحے کیلیے جنت کو پیشمان کردیا
“دیتی تو ہوں ٹائم” اسکے کشادہ سینے پر کپکپاتے ہاتھ رکھتے اسے تھوڑا فاصلے پر رکھنے کی سعی کرنے لگی—معیز اسکی حرکات و سکنات کو بغور ملاحظہ کرتے مسکرایا—آج وہ بری پھنسی تھی
“جھوٹ بولنے والے کا رنگ کالا ہوجاتا ہے” اسکے ماتھے سے اپنا سر ٹکراتے ہنس کر بولا تو جنت نے گھور کر دیکھا “اچھا پلیز اب ہٹیں مجھے کپڑے دھونے دیں” اسے دور دھکیلیتے جھنجھلا رہی تھی
“بس بس دھکے تو مت دو” اسے چھوڑ کر ہاتھ اوپر اٹھاتے بولا—جنت پھر سے کام میں مصروف ہوگئی
“تم کوئی پارٹ ٹائم نہیں کررہی اوکے؟؟؟” اُنگلی اُٹھا کر اسے وارن کیا
“بعد میں بات کرتے ہیں” جنت نے ٹالا تو معیز نے پانی بھرے ٹپ میں ہاتھ ڈال کر کافی سارا پانی جنت کے منہ پر پھینکا “معیززززز” وہ چیخی جبکہ وہ ہنستا ہوا چلا گیا
**************
وہ آفس سے آیا تو حسنہ بیگم کو کچن میں توٹیاں پکاتے دیکھا ورنہ وہ لانج میں ٹی وی دیکھتی نظر آتی تھیں اسے—ہلکے آسمانی رنگ کی ڈریس شرٹ میں ڈارک بلیو ٹائی لگائے—گھنے بالوں کو سلیقے سے ایک طرف جمائے وہ آج کافی فریش دکھائی دے رہا تھا
“خیریت آج آپ کی بہو نے کھانا بنانے سے انکار کردیا کیا؟؟؟ میرے پیچھے میری مما پر ظلم کرتی ہے— ہے کہاں یہ؟؟؟” اس نے پیچھے سے ان کی گردن میں بانہیں ڈالتے لطیف سا طنز کیا
“وہ آج دیر سے آنے کا کہہ کر گئی تھی” انہوں نے پیچھے مڑ کر اسکے گال چومتے پیار کیا
“دیر سے؟؟؟ آٹھ تو بجنے والے ہیں” معیز کا سات بجے آف ہوتا تھا جبکہ جنت پانچ بجے فری ہوجاتی تھی جاتے دونوں ساتھ تھے مگر واپسی پر جنت جلدی آجاتی تھی
“ساڑھے نو تک کا کہہ رہی تھی شاید دس بج جائیں” انہوں نے ساتھ والے چولہے پر پڑی ہانڈی میں چمچ ہلاتے کہا
“اچھا میں پتا کرتا ہوں” معیز نے پینٹ کی پاکٹ سے سمارٹ فون نکال کر جنت کو کال ملائی—وہ بار بار کینسل کررہی تھی—پھر مسیج کیا دس بجے تک آجاؤں گی
“ہو کہاں؟؟؟” اس نے ٹائپ کیا مگر کوئی جواب نہ آیا—وہ فریش ہو کر آیا تو حسنہ بیگم نیوز چینل لگا کر بیٹھی تھیں
“آجاؤ معیز—جنت کو کال کر کے پوچھو کتنا وقت ہے میز لگاؤں میں” معیز سنگل صوفے پر آکر بیٹھ گیا
“آجائے گی” اب انہیں کیا بتاتا کہ وہ کال اٹھا نہیں رہی اور پیغام کا جواب نہیں دے رہی— نو بج کر چالیس منٹ پر وہ گھر میں داخل ہوئی تھکن زدہ چہرے پر مسکراہٹ سجاِ اس نے سلام کرتے اپنا لیپ ٹاپ اور ہینڈ بیگ میز پر رکھا “فریش ہوجاؤ بیٹا میں میز لگاتی ہوں” اسکے پاس سے گزر کر اسکا گال تھپک کر کہتی چلی گئیں—معیز آگے کو جھک کر گھٹنوں پر کہنیاں ٹکائے اسے دیکھنے لگا
“کہاں تھی تم؟؟؟” آرام سے پوچھا البتہ آنکھیں ناراض تھیں
“بتایا تو تھا آپ کو کہ میں نے پارٹ ٹائم جاب کیلیے اپلائی کیا ہے” اسکے سرسری سے انداز میں کہنے پر معیز کو چھت والا قصہ یاد آیا
“میں نے تمہیں منع کیا تھا” معیز ایک ایک لفظ پر زور دیتا بولا اسے اپنے غصے پر بہت کنٹرول تھا— شاید جنت اسی کا فائدہ اٹھاتی تھی
“پہلے وہ ایٹ تھاؤزنڈ دے رہے تھے پھر ایلاون کردی میرا پورٹ فولیو دیکھ کر” جنت زبردستی مسکرا کر بتارہی تھی “یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے” وہ اب بھی سنجیدہ تھا “کیا میرا اپنی زندگی پر کوئی اختیار نہیں ہے ایک چھوٹا سا فیصلہ بھی میں اپنی مرضی سے نہیں لے سکتی؟؟؟” کچن تک ان کی آوازیں جارہی تھیں حسنہ بیگم وہیں کھڑی سنتی رہیں
“ٹھیک ہے تمہاری زندگی ہے تم جیسے مرضی جیو— میری کیا اوقات ہے کہ میں دخل اندازی کرسکوں یا کوئی رائے دے سکوں” معیز ٹیبل سے اپنا سمارٹ فون اٹھا کر اپنے فلور کی سیڑھیاں چڑھنے لگا— حسنہ بیگم نے افسردگی سے اسکی پُشت کو دیکھا وہ پہلے اسکا انتظار کرتا رہا کہ آئے گی تو کھائیں گے اور اب بھوکا جارہا تھا—جنت اور حسنہ بیگم نے بھی چند نوالے زہر مار کیے جنت منتظر ہی رہی کہ شاید وہ خود معیز کو بلا لائیں مگر انہوں نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ ان دونوں کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گی
**************
جنت کمرے میں داخل ہوئی تو گہرے اندھیرے نے اسکا استقبال کیا—جنت نے ہاتھ میں تھامی کھانے کی ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر جلدی سے لائٹ آن کی اور اسے دیکھنے لگی جو بنیان اور ٹراؤزر میں ملبوس اوندھے منہ لیٹا تھا—سر تکیے پر تھا اور بازو ان کے آس پاس اوپر کو گھیرے میں پڑے تھے “معیز” جنت نے کھڑے کھڑے پکارا “معیز” پھر اس سے کچھ فاصلے پر ہی بیٹھ گئی—اسکا بازو ہلایا—وہ ہمیشہ بھوک ہڑتال کر کے اپنی بات منواتی تھی اور معیز ناراضگی کا اظہار کرنے کو کھانا چھوڑ دیتا تھا “معیز کھانا کھالیں” جنت نے پہلی بار اسے اتنے پیار سے مخاطب کرتے اسکے گھنے بالوں میں اپنی مخروطی اُنگلیاں چلائیں تھیں—معیز نے اسکا ہاتھ جھٹکتے چہرہ دوسری جانب موڑ لیا
“ناراضگی مجھ سے ہے نا پھر کھانا کیوں چھوڑا ہے؟؟؟ اللہ تعالٰی کی نعمت کو ایسے ٹھکراتے ہیں؟؟؟” وہ اب بھی اسکے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی
“معیز اُٹھیں نا” جنت نے اسے زور سے ہلایا—معیز جھٹکے سے اٹھ بیٹھا جنت ڈر کے دور ہونے لگی مگر وہ اسکا بازو پکڑ کر اپنے قریب گھسیٹ چکا تھا
“جس طرح تمہاری زندگی ہے تمہیں حق ہے تم ایک جاب کرو, دو کرو, اپنے لائف پارٹنر سے محبت کرو نہ کرو, اُسے کوئی ویلیو دو نہ دو اسی طرح میری بھی مرضی ہے میں کھانا کھاؤں یا نہ کھاؤں” جنت سر اٹھا کر اسکی جانب دیکھ رہی تھی جو سخت ناراض لگ رہا تھا وہ جانے انجانے میں اسے بری طرح ہرٹ کرچکی تھی
“جتنا تم نے مجھے ہرٹ کیا ہے نا جنت خدا کی قسم آج تک زندگی میں کسی نے نہیں کیا” اسکی آواز میں دل چیرتی نمی تھی—آنکھیں بےتحاشا شکایتیں لیے جنت کے نقوش چوم رہی تھیں
“تمہارے نزدیک میری کوئی اہمیت نہیں ہے,کوئی حیثیت نہیں ہے— تم مجھ سے محبت بھی نہیں کرتی—تمہاری زندگی میں صرف پیسہ ہے میں تو کہیں نہیں ہو” آمنے سامنے بیٹھے وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھ رہے تھے—معیز نے وہ سب کہہ دیا تھا جو اس نے جنت کے مزاج سے اُخذ کیا تھا
“ااا—ایسا نہیں ہے” بہت دیر بعد جنت کی نم آواز کمرے کے سکوت کو چیرتی معیز کی سماعت سے ٹکرائی
“پھیر کیسا ہے تم ہی بتادو” معیز سنجیدگی سے کہتا اسکا چہرہ دیکھنے لگا
“آپ کی اپنی جگہ ہے اور میرا کریئر—”
“کریئر نہیں بینک بیلنس” معیز نے سختی سے اسکی بات کاٹی
“آپ جو بھی سمجھیں میں اپنے خواب پورے کرنے کیلیے دن رات ایک کرسکتی ہوں” اب کی بار وہ لاپرواہی سے مخاطب تھی
“میرا بھی خواب ہے کہ میں اپنی بیوی کی ہر خواہش پوری کروں اُسے چند ہزاروں کیلیے رات گئے تک خوار ہوتا نہیں دیکھ سکتا میں” معیز نے اسکے چہرے پر آئے چند بال کانوں کے پیچھے اُڑیستے محبت سے کہا
“اب یہ تو آپ کا قصور ہے نا کہ آپ میری خواہشات پوری نہیں کرسکتے ایک قصور معاف کردیا ہے تو آپ دوسری غلطی مت کریں مجھے میرے خواب پورے کرنے سے مت روکیں” جنت نے بھی کھل کر بات کہہ ڈالی یہ سوچے بغیر کہ ایک شوہر پر کیا گزرتی ہے جب وہ اپنی بیوی کو اپنی استطاعت سے بڑھ کر نوازے پھر بھی وہ کہے کہ وہ اس سے ناخوش ہے وہ اسکی خواہشات نہیں پوری کرسکتا
“تمہیں کیا چاہیے؟؟؟”
“کچھ نہیں” جنت بیڈ سے اُترنے لگی مگر معیز نے ایک جھٹکے سے پھر اپنے مقابل کرلیا
“صاف جواب دو” وہ قدرے سختی سے بولا
“مرسیڈیز؟؟؟ شاہی محل؟؟؟” اس نے اندازہ لگایا جو اتنا غلط بھی نہیں تھا
“میں ایک عام انسان ہوں جنت ستار— بل گیٹس نہیں ہوں میں” اس نے جنت کا بازو ایک جھٹکے سے چھوڑا غصے سے دہکتی نگاہیں اسکے سراپے سے لپٹ گئیں
“کم از کم آپ مجھے ایک گاڑی تو دلا سکتے تھے— خود آپ کار میں آتے جاتے ہیں اور مجھے بس سے سفر کرنا پڑتا ہے— آفس کا پارکنگ ائیریا بھرا پڑا ہوتا ہے ہر ورکنگ لیڈی کار میں جارہی ہے ایک میں ہی غریب ہوں پیدا ہی دھکے کھانے کیلیے ہوئی ہوں—بائیس سالہ زندگی میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب مجھے افسوس نہ ہوا ہو اپنی غربت کا—مگر آپ کیلیے یہ باتیں معنی نہیں رکھتیں کیوں کہ آپ جتنا کمالیا اُتنا کھالیا والا کام کرتے ہیں لیکن مجھے جمع کرنا ہے خوب محنت کرنی ہے ایک دن میرے نام کا بھی بنگلہ ہوگا—میں بھی برانڈڈ پہنوں گی— میرے آگے پیچھے گارڈز ہوں گے—میں بھی مرسیڈیز میں سفر کروں گی” جنت پھٹ پڑی تھی—معیز متحیر سا اسکی فیری ٹیل کا تصور کررہا تھا—پھر اپنا سر پکڑ لیا
“تمہیں گاڑی چاہیے؟؟؟ میری لے لو—میں بس سے آجایا کروں گا” اس نے جنت کو کہا تھا وہ ٹیکسی لے کر جایا کرے مگر اسے سیونگز کا بھی جنون تھا
“نہیں چاہیے مجھے آپ کی کھٹارا اور گاڑی کے ساتھ ڈرائیور بھی ہونا چاہیے مجھے ڈرائیونگ نہیں آتی” اس نے معیز کی آفر رد کردی
“یاالٰہی مجھے پاگل ہونے سے بچالے” معیز نے چھت کی جانب ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتے آمین کیا
“تمہیں گاڑی میں لے کردوں گا صرف دو مہینے صبر کرلو اور اچھی لے کردوں گا—اچھی سے مراد مرسیڈیز نہیں ہے— بس تم پارٹ ٹائم جاب نہیں کروگی” معیز نے اسکی شکل کی جانب دیکھا جو سوچ میں پڑگئی تھی
“اگر تم نہ مانی تو اپنے آفس سے تمہاری چھٹی کروانا مشکل نہیں ہے میرے لیے” بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے اس نے کافی مغرورانہ لہجے میں اپنے عہدے کا روعب جھاڑا
“آپ آپ—” جنت نے جو کشن تکیہ ہاتھ میں آیا اسے دے مارا— وہ مزے سے اسکی مار کھاتا رہا پھر اسے اپنے حصار میں لیتے مسکرانے لگا
“میرے بغیر ہی کھانا کھالیا تم نے” اسے اب ایک اور شکایت یاد آگئی تھی—جنت اسکی مضبوط گرفت میں دبکی اسکا حق جتانا محسوس کررہی تھی
تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں
میرے دل سے بوجھ اتار دو ۔۔۔
میں بہت دنوں سے اداس ہوں
مجھے کوئی شام ادھار دو !
مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ
چمک سکیں میرے خال و خد۔۔۔
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو
میرے سارے زنگ اتار دو !
کسی اور کو میرے حال سے
نہ غرض ہے کوئی نہ واسطہ ۔۔۔
میں بکھر گیا ہوں سمیٹ لو ،
میں بگڑ گیا ہوں سنوار دو !
میری وحشتوں کو بڑھا دیا ہے
جدائیوں کے عزاب نے
میرے دل پہ ہاتھ رکھو ذرا
میری دھڑکنوں کو قرار دو !
تمہیں صبح کیسی لگی کہو
میری خواہشوں کے دیار کی ۔۔۔
جو بھلے لگی تو یہیں رہو
اسے چاہتوں سے نکھار دو !
وہاں گھر میں کون ہے منتطر
کہ ہو فکر دیر سویر کی ۔۔۔
بڑی مختصر سی یہ رات ہے
اسے چاندنی میں گزار دو !
کوئی بات کرنی ہے چاند سے،
کسی شاخسار کی اوٹ میں۔
۔ مجھے راستے میں یہیں کہیں
کسی کنج گل میں اتار دو
*************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...