شادی کے بعد والے دنوں میں معیز اس پر پوری طرح سے آشکار ہوچکا تھا— وہ جانتی بھی نہیں تھی کہ وہ اس سے اتنی محبت کرتا ہے— وہ اپنی ماں سے بھی بہت محبت کرتا تھا— رشتے داروں کے ساتھ اسکا حسن سلوک, خوش اخلاقی سب مثالی تھا مگر جنت کی آنکھوں پر آئیڈئیلائزم کی پٹی بندھی تھی یہ وہ زندگی نہیں تھی جسے جینا کا اس نے تصور کر رکھا تھا— شادی کے نئے نئے دنوں میں بھی وہ اس سے دور بھاگنے کے بہانے سوچتی وہ اسکے پیچھے ایک کمرے سے دوسرے کمرے, اوپر والے پورشن سے نیچے والے پورشن پر چکر لگاتا رہتا— وہ جتنا اسے نظرانداز کرتی وہ اتنا اسے گھیرے رکھتا— جنت کو غصہ آتا,الجھن ہوتی کئی بار چڑچڑی سی ہو کر مخاطب ہوتی وہ اسکی گال پر چٹکی کاٹ کر بات ہوا میں اُڑا دیتا— “آفس کی چھٹیاں ختم ہوگئیں ہیں—مجھے دوبارہ آفس جوائن کرنا ہے— سوری میں تمہیں کہیں گھمانے نہیں لے کر گیا—” وہ اسے اور حسنہ کو میکڈونلڈز پر ڈنر کروا کر آیا تھا— جنت چینج کر کے آئی تھی الماری میں کپڑے ہینگ کر رہی تھی جب وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھا اسکی پُشت پر بھیگے بال دیکھتا بولا “میں بھی کل سے آفس جارہی ہوں” جنت الماری بند کر کے اب ڈریسنگ کے سامنے کھڑی بالوں کو کنڈیشنر لگا رہی تھی
“تمہیں آفس جانے کی کیا ضرورت ہے” معیز نے نا سمجھی سے گردن ہلا کر پوچھا— جنت اسکی جانب پلٹی
“اس سوال کا کیا مقصد بنتا ہے؟؟؟ میں لیو پر تھی ریزائن نہیں کیا” جنت کی تیوری چڑھ گئی تھی
“ریزائگنیشن لیٹر سینڈ کردو— میں نہیں چاہتا میری بیوی جاب کرے—جب میں گھر کے اخراجات پورے کررہا ہوں تو کیا ضرورت ہے تمہیں اپنا آپ خوار کرنے کی
” وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا “کون سی ضرورتیں پوری ہورہی ہیں؟؟؟ گھمانے نہیں لے جاسکتا, ولیمے کا سوٹ پہنچ میں نہیں ہے, رونمائی کا تحفہ بھی سڑا ہوا— میں اپنی ہر چیز کیلیے آپ کی منتیں نہیں کرسکتی مجھے dependent نہ کریں” جنت کا گستاخانہ لہجہ چند لمحے کیلیے اسے گنگ کرگیا
“جنت کچھ وقت کیلیے برداشت کرلو” وہ پھر بھی تحمل سے مخاطب تھا
“نہیں ہے مجھ میں برداشت, تنگ آگئی ہوں میں برداشت کر کر کے—- مجھے اپنی خواہشیں خود پوری کرنی ہیں—آپ بے فکر رہیں میں آفس کے ساتھ ساتھ گھر کے کام بھی دیکھ لوں گی” معیز نے اسکی آنکھوں میں نمی اُترتی محسوس کی
“ادھر آؤ” معیز نے اپنے پہلو میں اشارہ کیا
“کام کررہی ہوں” وہ رُخ موڑ کر یونہی بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی
“جنت” معیز نے کچھ سخت لہجے میں پکارا تو وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ بیڈ کی دوسری طرف آکر بیٹھ گئی
“میں نے کہا ہے ادھر آؤ” معیز نے اپنے قریب اشارہ کیا
“آپ بس اپنا حکم چلاتے ہیں” معیز کی توقع کے عین مطابق وہ بڑے بڑے آنسو نکالتی اسکے پاس آکر بیٹھ گئی
“میں کیا تم پر حکم نہیں چلا سکتا؟؟؟” معیز نے جھک کر اسکے چہرے کو دیکھتے پوچھا—جنت نے آنسو پونچھتے نفی میں سرہلایا
“کیوں؟؟؟” وہ ہنس کر اسکی ٹھوڑی پکڑ کر چہرہ اونچا کرتے پوچھنے لگا
“میں نے کبھی آپ پر حکم چلایا ہے؟؟؟” اس نے معیز کا ہاتھ جھٹکا
“تو چلایا کرو نا میں نے کبھی منع کیا ہے؟؟؟” اسکے ہاتھ کو اپنی مٹھی میں دبا کر پھر اپنے گال پر رکھتا بولا– ہلکی ہلکی بڑھی شیو کی چبھن جنت کو اپنی ہتھیلی پر محسوس ہونے لگی— اس نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ کھینچا
“مجھے کوئی شوق نہیں ہے کسی پر پابندیاں عائد کرنے کا اور نہ میں خود پابندیاں برداشت کرنے کی قائل ہوں” معیز کے چہرے پر سختی چھا گئی
“تمہیں میری بات سمجھ نہیں آرہی؟؟؟” اس نے جنت کا بازو پکڑ کر کا اپنی جانب گھسیٹا
“میں نے تمہیں کہا تھا نا میں تم سے زیادہ ضدی ہوں” اس کی آنکھوں میں سرد سا تاثر لیے وہ براہِ راست اسکی آنکھوں میں جھانک رہا تھا— جنت نے اپنے بازو کو جھٹکا دے کر اسکی فولادی گرفت سے آزاد کیا— پھر اسکے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر اسے دور دھکیلا اور بیڈ سے چھلانگ مارتی کمرے سے بھاگ گئی
“جنت” معیز غصے سے چیخا—پھر ہونٹ بھینچتے تکیہ اٹھا کر قالین پر دے مارا— اسی غصے سے اسکے پیچھے گیا تھا— وہ حسنہ بیگم کے کمرے میں تھی— گھر میں ان دونوں کے علاوہ وہی تھیں— معیز اندر داخل ہوا تو اسے حسنہ بیگم کے گلے لگے بلک بلک کر روتے دیکھا
“معیز کیا کہا ہے تم نے میری بچی کو؟؟؟” اسے اندر آتا دیکھ کر مما خفگی سے بولیں— جنت مزید ان کے اندر گھس گئی
“ڈرامے کررہی ہے مما— میں نے اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا” وہ جھنجھلا کر بولا
“جنت مما کو تنگ مت کرو روم میں جاؤ” ان کے سینے سے لگی وہ اسکی جانب دیکھے بغیر نفی میں سر ہلانے لگی
“بری بات ہے معیز— یہ سکھایا تھا میں نے تمہیں— ابھی شادی کو دن ہی کتنے ہوئے ہیں تم بہو پر چیخنے چلانے لگے ہو” جنت کو تھپکی دیتے بولیں
“امی اس کے بھلے کیلیے کہہ رہا ہوں— جب میں ہوں تو اسے کیا ضرورت ہے خوار ہونے کی” وہ کھڑے کھڑے ہی مخاطب تھا
“اسکا شوق ہے تم کر لینے دو جاب اور تمہارے ہی دفتر میں کرتی ہے پھر مسئلہ کیا ہے؟؟؟” انہوں نے گھور کر پوچھا “مرضی ہے اسکی میں کون ہوتا ہوں کچھ کہنے والا” دونوں پر خفگی سے بھرپور نظر ڈال کر وہ غصے سے واک آؤٹ کرگیا
کمرے میں ملگجا سا اندھیرا پھیلا ہوا تھا کھٹ پٹ کی آواز پر اسکی آنکھ کھلی مگر پاس پڑا کشن کان پر رکھ کر آواز کو دبایا تبھی کسی نے آگے بڑھ کر کشن اسکی گرفت سے کھینچ لیا وہ جو اوندھے منہ لیٹی تھی غصے سے پلٹی مگر معیز کو کشن پکڑے اپنی جانب دیکھتے فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی پھر الارم کلاک پر نظر دوڑائی جو بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پر دھرا تھا— پانچ پچس ہورہے تھے
“اور کتنا سونا ہے نماز آپ پر فرض نہیں ہوئی کیا؟؟؟ دودھ کے دانت گر چکے ہیں؟؟؟”
وہ جب تک اٹھی نہیں معیز یونہی طعنے مارتا رہا—سفید کلف لگے کرتا شلوار میں وہ ابھی باجماعت نماز ادا کر کے مسجد سے آرہا تھا اسے اٹھا کر اب ہینڈ فری لگائے قاری باسط کی آواز میں سورۃ رحمٰن سُن رہا تھا—جنت واش روم سے وضو کر کے نکلی گلابی اور آتشی رنگ کے دوپٹے کو چہرے کے گرد نماز کے اسٹائل میں باندھ رکھا تھا شادی سے پہلے بھی وہ نماز کی پابند رہی تھی مگر عشاء اور فجر میں کئی بار نیند کے باعث کوتاہی کردیتی تھی مگر معیز نماز کا پابند تھا اور شادی کے بعد سے یہی روٹین تھی ان کی— چھ سے سات بجے تک وہ جاگنگ کیلیے قریبی پارک جاتا تھا جبکہ جنت دوبارہ سوجاتی تھی—جنت کی آواز معیز کو بےحد پسند تھی وہ شادی سے پہلے بھی اسکی آواز کی تعریف کر چکا تھا مگر شادی کے بعد اس نے دو تین بار اپنی خواہش پر جنت سے فجر کی نماز کے بعد سورۃ رحمٰن سنی تھی کل اس نے سورۃ یٰس کی تلاوت کی تھی مگر آج معیز نے اسے مخاطب ہی نہیں کیا تھا جنت قرآن پاک لے کر آئی تو وہ جاگنگ کیلیے چلا گیا— جنت سمجھ گئی وہ اسکے آفس دوبارہ جوائن کرنے والی بات پر نالاں ہے “اسلام وعلیکم امی” جنت نے میز پر جوس کا جگ رکھتے سلام کیا معیز کو صبح فریش جوس پینے کی عادت تھی—حسنہ بیگم کرسی کھینچ کر بیٹھ گئیں—چار کرسیوں والا چھوٹا سا سیٹ تھا
“معیز نہیں آیا ابھی تک؟؟؟” ویسے وہ جلدی آجاتا تھا حسنہ بیگم کی مدد کرتا تھا ناشتہ لگانے میں—جنت نے کندھے اچکائے
“اور تم کیوں لگی ہو کچن میں؟؟؟” انہوں نے گھوری سے نوازا
“بس آج نیند نہیں آرہی تھی تو میں نے سوچا آج میں ناشتہ بنا لوں” وہ خوش مزاجی سے بولی “مگر بیٹا تم نے ابھی میٹھا نہیں بنایا” انہیں پرانی رسم یاد آئی
“میں نے سب سے پہلے جوس ہی بنایا ہے” وہ کچن کاؤنٹر سے آملیٹ کی پلیٹ اٹھا کر لارہی تھی— حسنہ بیگم مسکرا دیں
“میں چائے ڈالتی ہوں تم معیز کو بلا کر لاؤ” جنت کیبنٹ سے تھرمس نکال رہی تھی حسنہ بیگم کرسی چھوڑ کر کچن میں چلی آئیں—جنت کو مجبوراً اوپر جانا پڑا—وہ کمرے میں آئی تو معیز کو ڈریسنگ کے سامنے کھڑے پرفیوم اسپرے کرتے دیکھا پھر بیڈ سے ٹائی اٹھا کر لگانے لگا وہ جتنی بھی آئیڈئلزم کا شکار ہو مگر یہ بات اس نے معیز سے پہلی ملاقات میں ہی تسلیم کرلی تھی کہ وہ ایک پُرکشش شخصیت کا مالک تھا— اور اس فارمل ڈریسنگ میں تو غضب کا لگتا تھا— سر پر خوب گھنے بال تھے—فولڈڈسلیوس میں سے جھانکتے سفید بالوں سے بھرے مضبوط کسرتی بازو لڑکیوں کی بڑی کمزوری تھی—آفس میں بھی سب اسے ستائشی نظروں سے دیکھتی تھیں اور اسکی بھی سب کے ساتھ اچھی علیک سلیک تھی
“ناشتہ لگادیا ہے میں نے” جنت نے بیڈ پر سے اسکا کوٹ اٹھا کر اپنے بازو پر ڈال لیا— جنت نے اسکی تیاری میں کبھی اسکی مدد نہیں کی تھی وہ بھی اسے تنگ نہیں کرتا تھا اسے اپنے کام خود کرنے کی عادت تھی
“میں لیٹ ہورہا ہوں” اس نے جنت کی جانب دیکھے بغیر اس سے کوٹ پکڑ لیا—ابھی شادی کو ہفتہ بھر ہی تو ہوا تھا جنت نے ہمیشہ اسے خوشگوار اور رومینٹک موڈ میں ہی دیکھا تھا مگر آج وہ بےحد سنجیدہ نظر آرہا تھا
“آپ جاگنگ سے اتنا لیٹ—” وہ بول ہی رہی تھی جب معیز اپنا لیپ ٹاپ بیگ لے کر کمرے سے نکل گیا—جنت نے غصے سے اسکی پُشت کو گھورا
“غبارے جیسا منہ بنا رکھا ہے بدتمیز انسان نے— شوہر بن گیا ہے تو کیا سر پر چڑھا لوں” جنت آپ ہی بڑبڑاتی بیڈ پر بیٹھ گئی پھر جلتی کڑھتی نیچے آگئی
“اسے کیا ہوا ہے ناشتہ کیے بغیر ہی چلا گیا— پہلی بار ہوا ہے ایسا” جنت کو میز کے پاس آتا دیکھ کر حسنہ بیگم نے پریشانی سے کہا جنے نے گہرا سانس بھرا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی
“مجھے لگتا ہے یہ کل والی بات پر ہی ناراض ہے” حسنہ بیگم نے اسکی جانب سے کوئی جواب نہ پاکر جاب والی بات کی جانب اشارہ کیا
“میں آفس جارہی ہوں” جنت نے بریڈ کا ایک پیس چائے کے ساتھ نگلا اور کھڑی ہوگئی—چینج وہ کرچکی تھی بس بال بنا کر تھوڑا منہ سنوارنا تھا—حسنہ بیگم میز پر اکیلی بیٹھی رہ گئیں—انہیں لگ رہا تھا کہ بہو کا ساتھ دے کر انہوں نے غلطی کی ہے
*************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...