صبح وہ آفس پہنچی تو معیز کو معمول کی طرح اپنی کرسی پر بیٹھے کام کرتے پایا— اپنا ہینڈ بیگ اپنے کیبن میں رکھ کر وہ اسکے سر پر پہنچ گئی “اسلام و علیکم” بہت ہی سنجیدہ انداز میں اس نے سلام کیا— معیز نے فقط سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا— ٹائپنگ سپیڈ مزید بڑھ گئی سر اٹھا کر بھی جنت کو نہیں دیکھا “مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی تھی” جنت اب بھی اسے دیکھ رہی تھی– گھنے سیاہ بالوں والا سر اسکے سامنے تھا— معیز نے کوئی جواب نہ دیا “معیز میں آپ سے بات کررہی ہوں” جنت نے ضبط سے کام لیا “جی سُن رہا ہوں میں” اسکی لمبی لمبی اُنگلیاں کی بورڈ پر تیزی سے حرکت کررہی تھیں— پاس ایک فائل کھلی پڑی تھی— وہ پوری طرح سے اپنے کام میں مصروف تھا یا اسے ظاہر کررہا تھا “آ—- آپ آپ” جنت کی سمجھ میں نہیں آیا کیسے بات کرے “آپ اچھے انسان ہیں” اس نے میز کی سطح پر ہاتھوں سے دباؤ ڈالا “تو؟؟؟” معیز نے سر اُٹھا کر اسے دیکھا— جنت ہونٹ چبانے لگی “آپ کو اپنی امی کو ہمارے گھر نہیں بھیجنا چاہیے تھا” آخر کار اس نے وہ بات چھیڑ ہی دی تھی جس سے معیز دامن بچارہا تھا “کیوں؟؟؟” اسکے ماتھے پر بل پڑگئے “کیا مطلب کیوں, آپ کو میری بات سمجھ نہیں آرہی؟؟؟” جنت کی آواز میں غصہ جھلکنے لگا “بالکل نہیں” معیز بھی دوبدو بولا تھا “میں آپ کو انکار کررہی ہوں” جنت نے تیکھے لہجے میں کہا—-کچھ دیر معیز اسکی شکل دیکھتا رہا پھر سنجیدگی سے بولا “یہ انکار آپ کو اپنی فیملی کو کرنا چاہیے” چیئر موڑ کر پھر سے اپنے کام میں جُت گیا “مجھے معلوم ہے وہ انکار نہیں کریں گے” جنت نے اب کی بار بےچارگی سے کہا “پھر میں کیا کرسکتا ہوں” معیز نے ایسے شانے اچکائے جیسے اس مسئلے میں اسکا کوئی کردار ہی نہ ہو—جنت کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا— آگے بڑھ کر اسکے سامنے سے فائل اٹھالی تاکہ وہ اسکی طرف مکمل توجہ کرے “آپ انکار کریں” “کیوں” معیز نے آبرو اُٹھاتے پوچھا “کیونکہ—” جنت اٹکی “کیونکہ میں کہہ رہی ہوں” “میں تمہارے حکم کا غلام نہیں ہوں اپنے فیصلے خود کرتا ہوں اور جو فیصلہ کرلوں اس پر آخری سانس تک ڈٹے رہتا ہوں” ایک ایک لفظ پر زور دیتے اس نے تھوڑا آگے کو ہوتے فائل جنت کے ہاتھ سے کھینچ لی “زیادہ ڈائیلاگ مارنے کی ضرورت نہیں ہے— اچھے خاصے ہیں کوئی بھی لڑکی مل جائے گی آپ کو” جنت پہلے تڑخ کر بولی تھی مگر دوسرے جملے میں فوراً خوشامد کرنے لگی “مگر مجھے تو جنت ہی چاہیے” معیز نے اسکی ناراض آنکھوں میں دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا—جنت کے ماتھے پر شکنیں اُبھرنے لگیں “دوزخ کے لائق ہیں آپ اور فرمائشیں دیکھو جنت چاہیے” جنت نے آخری جملے میں اسکی نقل اُتاری– معیز کا قہقہہ بلند ہوا “جہنم میں جائیں” جنت پیر پٹختی اپنے حصے میں آگئ “جنت کے ساتھ جاوں گا” اپنے پیچھے اسے معیز کی ہنستی آواز آئی تھی *****************
“تمہارے ابو سے بات کرچکی ہوں میں— اُنہوں نے کہا ہے چھان بین کر کے جواب دیتے ہیں— لڑکا تو ماشاءاللہ بہت خوبصورت ہے” امی ہاتھ میں معیز کی تصویر پکڑے بیٹھی تھیں جس میں سفید شرٹ پر بلیک ٹائی لگا رکھی تھی اس نے اور ایک بازو پر کوٹ ڈالا ہوا تھا دوسرا ہاتھ جیب میں گھسائے کھڑا تھا— بہت ہی صوبر اور وجیہہ دکھ رہا تھا “امی ہینڈسم کہیں ہینڈسم” حمنہ اُچھل کر بیڈ پر چڑھی “جاہل ہو تمیز نہیں ہے بیٹھنے کی” جنت جو کب سے اپنے اندر غبار لیے امی کی تعریفیں سُن رہی تھی حمنہ پر اُلٹ پڑی “جنت” امی نے گھرکا وہ پھر سے سامنے رکھے لیپ ٹاپ پر مصروف ہوگئی “میں سوچ رہی ہوں منگنی کے جھنجھٹ میں پڑنے سے بہتر ہے شادی کی تیاریاں کریں” انہوں نے تو ہتھیلی پر سرسوں جما رکھی تھی “کیوں؟؟؟” جنت نے لیپ ٹاپ بند کر کے پوچھا “شادی کی تیاریاں چھوڑیں آپ ابھی معیز کو فون کریں اور مجھے اُسکے ساتھ دفع کردیں— ایک بار ہی سکون حاصل کرلیں جو میرے اس گھر میں رہنے سے برباد ہوا پڑا ہے—- کتنا کھالیتی ہوں آپ کا جو آپ مجھے گھر سے باہر نکالنے کے درپے ہیں” “جنت بدتمیزی مت کرو امی سے” “تم اپنی بکواس بند رکھو” اس نے حمنہ کو چیخ کر کہا “جب کہہ دیا ہے نہیں کرنی مجھے ان کنگلوں سے شادی تو پھر کیوں دوسرے دن میرے سر پر سوار ہوجاتی ہیں— پہلے ترس ترس کر زندگی گزاری ہے اب وقت آیا ہے اپنے آپ کو تراشنے کا تو ڈولی چڑھادو بلکہ سولی— میری زندگی ہے میری مرضی نہیں کرنی مجھے شادی” بولتے بولتے اسکا گلا رندھ گیا “امی دماغ خراب ہوگیا ہے اسکا— اچھا خاصا رشتہ ہے— آسمان سے شہزادہ آئے گا اسکے لیے جسکے انتظار میں ہر رشتے کو لات مار دیتی ہے” حمنہ نے امی سے کہا جو غصے سے بھری بیٹھی تھیں اب جوان اولاد اگر آپے سے باہر ہوجائے تو والدین کو ہی برداشت کرلینا چاہیے “جو کوئی بھی ہے اسے کہو کل ہی اپنے والدین کو لے کر آئے نہیں تو ہم معیز کے رشتے کیلیے ہاں کردیں گے” وہ بیڈ سے اٹھتے بولیں “امی نہیں ہے کوئی— مجھے بس شادی نہیں کرنی” جنت کے آنسو نکلنے لگے– آنکھیں دھندلا گئیں “کیوں نہیں کرنی شادی؟؟؟” امی کے پوچھنے پر جنت لاجواب ہوگئی “اگر نہیں بتانا تو ہم ہاں کررہے ہیں” اگر ان کی جگہ کوئی اور ماں ہوتی تو جنت کی اس بدتمیزی پر چماٹ لگا کر خاموش کروا دیتی مگر سمجھداری اسی میں تھی کہ وہ اپنی بیٹی کے دل کا حال جانتیں کہ وہ کیوں ہر آنے والے رشتے پر اتنا واویلا کرتی ہے “امی معیز کے پاس وہ ساری آسائشیں نہیں ہیں جن کی میں خواہش رکھتی ہو— پڑھی لکھی ہوں, خوبصورت ہوں, ایک سوشل سرکل ہے میرا— مجھے کوئی بھی امیر آدمی مل سکتا ہے شادی کیلیے میں کیوں جلدی کے چکر میں اپنا مستقبل خراب کروں” جنت اب ہلکی آواز میں آرام سے بتارہی تھی “امی کو یہ بھی بتاؤ کہ کتنا امیر چاہیے تمہیں؟؟؟” حمنہ انتہائی ترش لہجے میں بولی “بل گیٹس چاہیے آپ کی بیٹی کو—اتنے چھوٹے خواب نہیں ہیں اس اطمینان میں مت بیٹھیے گا کہ کوئی امیر زادہ آجائے گا-
اول تو آئے گا نہیں اور اگر آ بھی گیا تو یہ اُسے بھی یہ کہہ کر منع کردے گی کہ امیر چاہئے— معیز بھائی کون سا سڑکوں پر بھیک مانگتے پھررہے ہیں— اپنا گھر ہے اکلوتے ہیں جاب کرتے ہیں اور سب سے اچھی بات اپنی پسند سے اس سے شادی کررہے ہیں اور کیا چاہیے اسے” حمنہ نے معیز کی تمام خوبیاں گنوائیں “بل گیٹس چاہیے— سُن لیا اب منہ بند رکھو اپنا— اگر اتنا اچھا ہے معیز تو تم کرلو اُس سے شادی” لگتا تھا جنت ابھی ہوش میں نہیں تھی اتنا تو وہ کبھی نہیں بولی تھی “چٹاخ” جنت نے دائیں گال پر ہاتھ رکھتے بےیقینی سے انہیں دیکھا “مجھے تمہاری شادی اُسی ویلڈنگ والے سے کردینی چاہیے تھی کیوں کہ تم نے تو ناشکری ہی کرنی ہے جتنا اچھا ملے گا اُس سے مزید اچھے کی فرمائش کرنا تمہاری فطرت بنتی جارہی ہے” انہیں آج پتا چلا تھا کہ ان کی بیٹی تو دولت پر مرمٹنے والی ہے—پیسے کی دیوانی ہے— پیسے کا جنون, اسٹیٹس کا نشہ آپ سے کچھ بھی کروالیتا ہے کچھ بھی— حلال حرام کا فرق مٹادیتی ہے دولت کی لالچ —- جنت پر مزید اعتبار کرنا انہیں خطرے سے خالی نہیں لگا تھا— کل کلاں کو کوئی بھی امیر شخص اسے آسانی سے ٹریپ کرسکتا ہے محض نوٹوں کی کشش دکھا کر
****************
“امی بلا رہی ہیں آ کر کھانا کھاؤ” حمنہ نے کمرے میں جھانک کر آرڈر دیا— جنت بیڈ پر اوندھی لیٹی رو رہی تھی— رات کے کھانے کا وقت ہوچکا تھا مگر وہ کمرے سے نہیں نکلی “نہیں کھانا مجھے” جنت کی روتی اور چیختی آواز آئی— حمنہ چلی گئی پھر دو منٹ بعد واپس آئی “امی کہہ رہی ہیں تم آتی ہو کہ میں آؤں” حمنہ نے خبریں پہنچانے کا کام اپنے ذمے لے رکھا تھا— جنت ڈھیٹوں کی طرح پڑی رہی “امی نہیں آرہی وہ” حمنہ چٹائی پر لگے دستر خوان پر بیٹھتے بولی “کیا ہوا ہے جنت کو طبیعت ٹھیک ہے؟؟؟” ستار صاحب نے بڑا سا نوالہ منہ میں رکھتے پوچھا “دماغ خراب ہوگیا ہے اسکا— خود ہی ٹھکانے پر آجائے گا—آپ کھانا کھائیں” جنت نے کیا معیز کا دماغ ٹھکانے لگانا تھا اسکی امی نے اسکا دماغ درست کردیا تھا رات تین بجے جنت اٹھی تو گھر بھر میں اندھیرا تھا— صبح کے ناشتے کے بعد سے اس نے پانی بھی خود پر حرام کر رکھا تھا اپنی ہر ضد وہ بھوک ہڑتال کر کے پوری کرتی تھی اور سب سے زیادہ بھوک کی ہی کچی تھی— کمرے سے دبے پیر نکل کر اس نے اپنے سیل فون کی روشنی کچن پر ڈالی اندر داخل ہوئی— خالی پتیلی منہ چڑھا رہی تھی— شاید امی نے سارا کھانا فریج میں رکھ دیا تھا اور فریج ان کے کمرے میں تھی اسے بسکٹ کے ایک دو پیکٹ ملے جو کسی مہمان کے آنے کی غرض سے منگوا کر رکھے ہوتے تھے اس نے وہی کھا کر پانی پی لیا— ساتھ ساتھ روتی بھی رہی جیسے اس پر بہت ظلم ہوا ہو دوسرے دن وہ آفس بھی نہیں گئی ناشتہ بھی نہیں کیا ستار صاحب صبح ہوتے دکان پر چلے جاتے انہیں جنت کی ضد سے لاعلم رکھا گیا تھا— وہ معیز کے بارے میں بہت اچھے سے معلومات اکٹھی کررہے تھے ہر چیز تسلی بخش تھی— جنت کا آج کا پورا دن بھی ہڑتال کرتے گزرگیا بھوک سے اسکی جان جارہی تھی ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے آنتیں سُکڑ کر رہ گئی ہوں— رو رو کر اس نے پیوٹے سجا لیے تھے— حمنہ کو اس پر ترس بھی آرہا تھا اور غصہ بھی— آخر امیر شخص سے شادی کرنا ہی تو ہر مسئلے کا حل نہیں ہے نا رات کو وہ پھر کچن میں آئی میں آئی آج سالن کی پتیلی چولہے پر ہی تھی اور آلو انڈے دیکھ کر جنت کی بھوک مزید بڑھ گئ جلدی سے چولہا جلا کر سالن ہلکی آنچ پر گرم ہونے کیلیے رکھ دیا پھر ہاٹ پاٹ دیکھا ایک بھی روٹی نہیں تھی اسے پھر رونا آنے لگا— موبائل کی ٹارچ شیڈ پر ڈالتے آٹے والا ڈبہ ڈھونڈ رہی تھی جب کسی نے لائٹ آن کردی— جنت کی آنے والے کی جانب پشت تھی ہاتھ سست پڑ چکے تھے مُڑ کر دیکھا امی آٹے والا ڈبہ کھول کر شیڈ پر رکھ چکی تھیں— توا دھو کر چولہے پر رکھا— جنت کشمکش میں مبتلا یونہی کھڑی رہی انہوں نے تازہ گرم گرم روٹی اُتار کر پلیٹ میں سالن ڈال کر اسکے سامنے رکھا تو جنت کو لگا دنیا میں اس سے زیادہ ذائقے دار کھانا کوئی نہیں ہوگا “زنگر کھانے کے چکر میں گھر کی دال سبزی سے بھی ہاتھ نہ گنوا بیٹھنا” وہ کمرے میں بیٹھی کھارہی تھی جب گرم دودھ پتی کا مگ اسکے پاس رکھتی وہ بولیں— جنت کے حلق میں نوالہ اٹک گیا
*****************
جنت آج آفس یہ سوچ کر آئی تھی کہ معیز کو صاف صاف اسکی اوقات بتا دے گی کہ وہ اسکی خواہشات اسکا طرزِزندگی افورڈ نہیں کرسکتا— یہ سب سوچتے وہ یہ بھول گئی تھی کہ فی الحال معیز کا طرزِزندگی اس سے کئی گنا بہتر تھا “مس جنت آفس کے کچھ رولز ہیں آپ کو آف کرنے سے پہلے مجھے انفارم کرنا چاہیے تھا” معیز اسکو دیکھتے ہی برس پڑا— جنت نے اطمینان سے اپنی کرسی کھینچی اور بیٹھ گئی “ہمارا پرسنل میٹر جو بھی ہو آفس ورک کو اس سے علیحدہ رکھیں” وہ اسے غصے یا ناراضگی میں مس جنت کہہ کر مخاطب کرتا تھا— جنت نے اب بھی کوئی جواب نہیں دیا تھا اسکی آنکھیں رتجگے کا غماز تھیں عجیب سی سوگواری چھائی ہوئی تھی اسکے چہرے پر معیز مزید کوئی بات کہے بغیر جا چکا گیا— لنچ ٹائم میں جب وہ کینٹین میں بیٹھی چائے پی رہی تھی تب معیز اپنے لیے جوس لے کر اسکی ٹیبل پر بیٹھ گیا جہاں سے کچھ دیر پہلے حرا اور ایمن اٹھ کر گئیں تھیں “ہائے” معیز خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتا بولا— جنت نے کوئی جواب نہیں دیا “ایوری تھنگ از اوکے نا” معیز نے جھک کر اسکا چہرہ دیکھتے پوچھا— وہ ہنس رہا تھا شاید تناؤ کم کرنے کی کوشش تھی جسے جنت کا رویہ مزید بڑھا رہا تھا “نتھنگ از فائن مسٹر معیز” جنت جب بولی تو انگارے چباتی محسوس ہوئی “میں نے آپ سے کچھ کہا تھا اگر آپ کو یاد ہو تو” وہ اب بھی تھیکے لہجے میں بول رہی تھی “نالائق سا بندہ ہوں کہاں یاد رہتا ہے کچھ” وہ جوس ہونٹوں سے لگاتے بولا “اتنے معصوم نہ بنیں آپ” کینٹین میں رش بہت کم تھا وہ پھر بھی دبے دبے لہجے میں پھنکاری “یہ معصومیت تو بچپن سے ہی میری نیچر کا حصہ رہی ہے— اس میں بننے کی کیا بات ہے” وہ بلا وجہ ہنس رہا تھا
“آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو؟؟؟ بل گیٹس ہیں جس کے رشتے کو میں منع نہیں کروں گی” جنت بھڑک کر بولی “اگر بل گیٹس سمجھتا تو کبھی رشتہ نہیں بھیجتا— آخر کو تم کسی بڈھے سے تو شادی کرنے سے رہی” معیز اسکی بات ابھی بھی مزاق میں اُڑا رہا تھا “میرے لیے ایج معنی نہیں رکھتی اگر کوئی میری خواہشات پوری کر سکتا ہے تو وہ جتنی بھی عمر کا ہو مجھے فرق نہیں پڑتا” جنت کا انداز مضبوط اور پختہ تھا “تمہاری ہر خواہش سر آنکھوں پر تم لسٹ دو بس” معیز کی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی— لسٹ لینے کو ہاتھ بھی آگے بڑھا چکا تھا— جنت طنزیہ مسکرائی “میری بس ایک ہی خواہش ہے اور وہ آپ پوری نہیں کرسکتے” “تم بول کر تو دیکھو—” “marry to a Millionaire” اس نے جنت کو ایسے دیکھا جیسے اسکی دماغی حالت پر شبہ ہو— پھر مسکرایا پھر قہقہہ لگایا “اچھا مزاق کرلیتی ہو—” وہ ہنس ہنس کر بے حال ہورہا تھا— آس پاس موجود امپلائز بھی ان کی جانب متوجہ ہوگئے— جنت نے دانت پر دانت جما رکھے تھے پھر چائے کا مگ وہیں چھوڑ کر غصے سے نکل گئی جبکہ معیز ہنستا رہ گیا
**************
پھر جنت کی ضد, ہٹ دھرمی, بھوک ہڑتال, معیز سے انکار سب بیکار رہا اور ستار صاحب نے بڑے ہی انداز سے اسے رام کرلیا— ان کے جذباتی کرنے پر وہ رونے کے سوا کچھ نہیں کرسکی— وہ اسے کہنے لگے کہ وہ اگر ان کی اچھی بیٹی ہے ان پر بھروسہ رکھتی ہے ان سے محبت کرتی ہے تو ان کے فیصلے کو مقدم جانے گی— ماں سے تو ضد لگائی جاسکتی ہے مگر باپ کے آگے باغی بن کر کھڑے ہونے کیلیے آپ کا بےحس ہونا ضروری ہے— ستار صاحب نے اس سے کہا تھا کہ اگر وہ معیز میں ایک بھی برائی ڈھونڈ دیتی ہے تو وہ خود جا کر انکار کردیں گے مگر پیسے کی کمی ستار صاحب کی نظر میں کوئی برائی نہیں تھی اور معیز جیسا رشتہ ملنا آج کل کے دور میں ناممکنات میں سے تھا معیز ان سے اسٹیٹس میں بھی بہتر تھا اور تعلیم بھی جنت سے زیادہ تھی— وجیہہ صورت اور خوش اخلاقی کے ساتھ وہ ایک مکمل پیکج تھا جنت کیلیے جنت آفس باقاعدگی سے جارہی تھی— ستار صاحب تنگ نظر اور پست ذہن نہیں تھے— جنت کو رشتہ طے ہونے کے بعد بھی نہ معیز کی والدہ کی جانب سے کسی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا نہ ستار صاحب نے اس کے آفس جانے پر کوئی پابندی عائد کی تھی دوسری جانب جنت تو پتھر کی ہوگئی تھی— معیز اس سے مخاطب ہوتا تو صرف اُس بات کا جواب دیتی جسکا تعلق اسکے کام سے ہوتا— شام پانچ بجے اسکا آف ہوجاتا تھا مگر اس نے پارٹ ٹائم گرافکس ورک بھی شروع کردیا تھا— نیٹ ایڈورٹائزنگ میں اسکا گرافکس کا کام بھی استعمال ہوجاتا تھا— معیز چھ بجے چلا جاتا تھا “جنت آج تمہارا ہاف ڈے ہے” بارہ بجے کے قریب معیز دو فائلیں اسکی میز پر رکھنے آیا تھا “کیوں؟؟؟” جنت نے سنجیدگی سے پوچھا “ہمیں شاپنگ پر جانا ہے— ولیمے کیلیے تمہارا ڈریس لینا ہے— مما چاہ رہی ہیں کہ تم اپنی پسند کا لے لو” معیز نے نرمی سے بتایا “آپ نے مجھ سے اجازت لی؟؟؟” “میں آنٹی کو انفارم کرچکا ہوں” معیز آنٹی پر زور دے کر بولا “تو آنٹی کے ساتھ ہی چلے جائیں” وہ واپس اپنے کمپیوٹر کی طرف متوجہ ہوگئی “ولیمے کا ڈریس تمہارا لینا ہے” معیز نے تمہارا پر زور دے کر کہا “تو اجازت بھی مجھ سے لینی چاہیے تھی” جنت بھی اسی کے انداز میں بولی “شادی کے کارڈز میں آفس میں سب کو دے چکا ہوں ابھی باس کو بھی دے کر آیا ہوں ساتھ ہی بتا آیا ہوں تم کل سے پندرہ دن کی لیو پر ہو— مزید یہ کہ جب ان سب کاموں میں مجھے تمہاری اجازت کی ضرورت نہیں پڑی تو اس کام کیلیے بھی مجھے تمہیں درخواست لکھنے کی کیا پڑی تھی— ایک بجے تک کام ختم کرلینا” حیرت سے جنت کے دیدے پھیل کر کانوں تک پہنچ گئے—پھر ہٹ دھرمی سے بولی “میں کہیں نہیں جارہی” “ٹھیک ہے میں اٹھا کر لے جاؤں گا— آفس والوں کو بھی پتا چلے میری ہونی والی بیوی جتنی ضدی ہے اُس سے کئی زیادہ ضدی ہوں میں” اسکی آنکھوں میں دیکھتا وہ چیلنج کرنے والے انداز میں بولا تو جنت مٹھیاں بھینچ کر رہ گئی
اسکی دھمکی کام آ گئی تھی وہ اسکے ساتھ چلنے کو تیار تھی— سفید رنگ کی سزوکی کلٹس کھڑی تھی معیز نے ہارن دیا وہ غصے سے پھولا چہرہ لے کر اندر بیٹھی—- دروازہ ٹھک کر کے بند کیا “غریب سا بندہ ہوں سالوں کی کمائی سے چھوٹی سی گاڑی خریدی ہے رحم کرو یار” معیز کے ہونٹوں کی تراش میں مسکراہٹ کھلی تھی— وہ ایک کٹیلی نظر اس پر ڈال کر دروازے سے چپک کر بیٹھ گئی— معیز کا فون بجنے لگا “اسلام و علیکم” “جی ہم نکل گئے ہیں” “آپ بےفکر رہیں آنٹی میں انہیں خود گھر ڈراپ کردوں گا–” جنت کو پتا لگ گیا تھا کہ دوسری جانب کون ہے “نہیں مما کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی وہ ساتھ نہیں جارہیں—” معیز نے جنت کی جانب دیکھا وہ اس سے نظر ہٹا کر اب کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی تھی “جی بہتر” “اللہ حافظ” معیز نے فون بند کر کے مسکراتے ہوئے اسکے بےنیاز چہرے کو دیکھا— جنت کو کوفت ہوتی تھی وہ بات بے بات مسکراتا رہتا تھا— بندہ اب اتنا بھی خوش اخلاق نہ ہو— معیز اسے جمع کلاتھ مارکیٹ لے آیا تھا—- (شادی تو ایک بار ہوتی ہے اور میں اپنی زندگی کے اتنے اہم موقع پر بھی ڈیزائینر ڈریس نہیں پہن سکتی میرا ہونے والا شوہر مجھے ایک قیمتی لباس بھی نہیں لے کر دے سکتا)جنت نے تلخی سے سوچا “یہ کلر تم پر بہت اچھا لگے گا” معیز نے سٹیل گرے لہنگا پسند کیا— اس پر بہت نفیس و باریک کام تھا— دوپٹہ ہلکا تھا وہ ولیمے کے لحاظ سے بہترین سوٹ تھا “ٹھیک ہے” جنت کے گلے میں نمکین پانی جمع ہونے لگا کیا کیا خواب نہیں دیکھے تھے اس دن کے حوالے سے ڈیزائینر ڈریسز — بینکوٹ ہال— مرسیڈیز اور ملا کیا؟؟؟ جامع کلاتھ اور سزوکی؟؟؟ “تمہیں کوئی اور پسند ہے تو بتادو— نہیں تو کسی اور مارکیٹ چل لیتے ہیں— تمہاری پسند کا ڈریس لینے آئے ہیں اور تم انٹرسٹ ہی شو نہیں کررہی” معیز نے تنگ آکر کہا “جب ہزبینڈ میں انٹرسٹ نہیں ہے تو ڈریس میں خاک شو کروں” جنت پھاڑ کھانے والے انداز میں بولی
“پھر کس میں انٹرسٹ ہے؟؟؟” معیز خطرناک حد تک سنجیدہ تھا— جنت کو اسکی انکھوں میں غصہ صاف نظر آرہا تھا “میں نے ایسا کچھ نہیں کہا” جنت نے اپنا دھیان کپڑوں کی جانب کردیا— معیز کوئی بھی بات کیے بنا شاپ سے نکل گیا— جس طرح وہ گیا تھا جنت اسکے غصے کا بخوبی اندازہ لگاسکتی تھی— اسے پتا تھا کہ ابھی گھر جا کر امی نے اس سے طرح طرح کے سوال کرنے ہیں حمنہ بھی پوچھے گی اگر وہ خالی ہاتھ گئی تو ایک اور تماشا اسکا منتظر ہوگا ایک پریشر سا تھا فیملی کی جانب سے جو عموماً لڑکیوں پر ہوتا ہے کہ سسرال والے جب کہیں تب سانس لینا— جنت کی آنکھوں میں نمی سی اُبھرنے لگی— وہ بھی دکان سے باہر نکل کر اُس طرف آگئی جہاں معیز نے کار پارک کی تھی— جنت چپ چاپ کار میں بیٹھ گئی— نا چاہتے ہوئے بھی اسے شدت سے رونا آرہا تھا— اپنے دل کے ساتھ زبردستی کرنا آسان نہیں ہوتا وہ کام کرنا کتنا مشکل ہے جس کیلیے آپ کا دل آپ کا دماغ راضی نہ ہوں— رشتے کئی بار انسان کو بےبس کردیتے ہیں— جنت اسکی جانب سے چہرہ موڑ کر بیٹھی تھی— وہ نہیں چاہتی تھی کہ آنسوؤں کا ٹوٹتا بند معیز دیکھے— آنسو صاف کرتے کرتے اسے ہچکی لگ گئی— معیز نے کار سائیڈ پر روکی “جنت آر یو اوکے؟؟؟” اسکی آواز میں پریشانی جھلک رہی تھی— جنت نے چہرہ اسکی جانب سے مزید موڑ لیا “جنت” اسے بری طرح ہچکی لگ چکی تھی— معیز تیزی سے کار سے نکلا اور بھاگ کر پانی اور جوس کی بوتل لے آیا— جب تک وہ واپس آیا جنت رو دھو کر اب اپنے دوپٹے سے اپنا چہرہ صاف کررہی تھی “پانی پیو” اس نے منرل واٹر کی بوتل اسکی جانب بڑھائی— جنت نے ایک زخمی نگاہ اس پر ڈالی اور بوتل پکڑے بغیر مڑ کر بیٹھ گئی “رو کیوں رہی ہو یار” معیز پورا اسکی جانب گھوما ہوا تھا— جنت گاڑی کا درواہ کھولنے لگی— معیز نے بازو سے پکڑ کر اسے کھینچا “آئی ایم سوری پلیز” اس کا انداز اتنا ملتجی تھا کہ جنت چاہ کر بھی اسکا ہاتھ نہ جھٹک سکی “سوری؟؟؟ یہ اچھا طریقہ ہے پہلے انسان کو بےعزت کر کے دوکوڑی کا کر کے رکھ دو پھر کہہ دو سوری” جنت نے اسکے شکنجے سے اپنا بازا نکالا “مجھے غصہ آگیا تھا یار—” “مجھے بھی غصہ آرہا ہے— آپ پر, گھر والوں پر اور اور اس شادی پر ہر چیز پر غصہ آرہا ہے میں بھی تو برداشت کررہی ہوں نا” جنت کی آنکھیں پھر بھیگنے لگیں “کون ظالم کہہ رہا ہے برداشت کرو— غصہ و ناراضگی دل میں نہیں رکھتے— دل سیاہ اور چھوٹے ہونے لگتے ہیں— تمہیں غصہ ہے نا مجھ پر نکال لو—– میری کون سی بات بری لگی ہے تمہیں؟؟؟” وہ بہت پیار سے پوچھ رہا تھا (تم پورے کے پورے ہی برے لگتے ہو مجھے) “بتاؤ میں برا نہیں مانوں گا” (کبھی نہیں بتاؤں گی) “جنت” اسے خاموشی سے اپنی جانب تکتے پا کر اس نے پکارا “جی” وہ چونکی “بتاؤ تمہیں کیسا ڈریس لینا ہے— جیسا کہو گی جو کہو گی لے دوں گا” “سوچ لیں” “دل دیتے نہیں سوچا اب کیا سوچوں؟؟؟ پیارا ہے تو بھی ہمارا ہے, خسارا ہے تو بھی اپنا” معیز نے مسکرا کر کہا— جنت سے شرمانے کی توقع رکھنا فضول تھا “تو پھر کہاں چل رہے ہیں ہم” معیز نے پوچھا “کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے” جنت بولی “کیوں؟؟؟ میں نے کہا نا تمہاری پسند کا خریدوں گا” معیز پریشان ہوتے بولا “اُس کیلیے ہمیں آرڈر کرنا ہوگا— برائیڈل کاؤچر میں ڈیزائینر زینب چوتانی کے ملبوسات مجھے بہت پسند آئے تھے” اس نے اتنے آرام سے پاکستان کی ایک مشہور ینگ ڈیزائینر کا نام لیا—معیز نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا “I’m not Millionaire” معیز نے جبڑے بھینچتے بہت تحمل سے جواب دیا “میں نے اپنی پسند بتائی تھی— آپ افورڈ نہیں کرسکتے تو یہ میری غلطی نہیں ہے” جنت نے بھی تیکھے پن سے جواب دیا “اوہ مائی گاڈ” معیز نے اپنا سر آہستگی سے دو تین بار اسٹیرنگ پر مارا “تم مجھے پاگل کردوگی” “آپ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرلیں” “مشورے کا شکریہ” معیز نے کار اسٹارٹ کردی “ابھی نہ چھیڑ محبت کے گیت اے مطرب” “ابھی حیات کا ماحول خوش گوار نہیں”
*************