جیل کے ملاقاتی کمرے میں وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے ۔اٹھارہ سالہ حمزہ کے ہاتھ میں آئی ایس سی کی مارک شیٹ تھی۔آنکھوں میں اترتے آنسوؤں کو بار بار روکنے کی کوشش کرتا وہ بے بس نظروں سے سامنے بیٹھے باپ کو دیکھ رہا تھا جنکے چہرے پر کچھ ماہ کے اندر ہی ڈھیروں جھریاں پڑ گئی تھیں اور وہ بہت بوڑھے لگنے لگے تھے۔وہ آدھے گھنٹے سے بلا تکان بول رہے تھے ۔اور وہ صبر سے انکے خاموش ہونے کا انتظار کر رہا تھا تاکہ وہ ایک دفعہ پر سکون ہو جائیں تو وہ انہیں اپنا ریزلٹ دکھا سکے ۔
“ڈیڈی….” اسنے روہانسی آواز میں انہیں اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی ۔
“حمزہ! اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا کہ تمہارا باپ کبھی غلط نہیں تھا۔اسنے جو بھی کیا تھا اپنی کمپنی کی حفاظت کے لئے کیا تھا۔جس طرح ایک باپ اپنی اولاد کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے اسی طرح اپنی سالوں کی محنت سے کھڑی گئی کمپنی کو بچانے کے لئے میں آخری حد تک جانے پر مجبور تھا۔وہ کمپنی کل تمہیں سنبھالنی ہے۔اسکی سیٹ پر کل تمہیں بیٹھنا ہے ۔اسلئے اس سیٹ پر جو ہاتھ بڑھے اسے کاٹ ڈالو، جو زبان اسکے خلاف زہر اگلے اسے گدی سے کھینچ لو۔جو آنکھ اسکی طرف نظر اٹھا کر دیکھے اسے اندھا کر ڈالو۔”
” ڈیڈی پلیز… “انکی باتوں سے وحشت زدہ ہو کر حمزہ نے انکی بات کاٹی۔
کریم یزدانی نے اپنی دھندلی آنکھوں سے اسے دیکھا اور اب کہ انکی آواز بھرائی ہوئی تھی ۔
” یاد رکھو تمہارے باپ نے تم لوگوں کو آسائش دینے کے لئے، بہتر مستقبل کے لئے کئی قدم اٹھائے ہیں ۔اسنے صرف تم لوگوں کے لئے جرائم کئے، خطرناک لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کر کے رکھا، دشمنیاں مول لیں اور آج جیل کی سزا کاٹ رہا ہے ۔اسلئے اسے کبھی لغط مت سمجھنا۔اس سے کبھی نفرت مت کرنا۔اسے کبھی اکیلا مت چھوڑنا۔”وہ اب دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپائے سسکیاں لینے لگے۔
کرسی دھکیل کر کھڑے ہوتے ہوئے حمزہ نے ایک خاموش نگاہ ان پر ڈالی اور جانے کے لئے مڑ گیا۔ملاقات کا وقت ختم ہو گیا تھا اور وہ انہیں اپنی مارک شیٹ نہیں دکھا پایا تھا۔
” حمزہ!! حمزہ!! بیٹا مجھے ان تاریک کوٹھریوں میں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو؟ یہاں بہت مچھر ہوتے ہیں ۔کھانا بھی اچھا نہیں ملتا۔فرش پر میری پیٹھ اکڑ جاتی ہے ۔حمزہ! رکو!! مجھے چھوڑ کر مت جاؤ۔” کریم یزدانی روتے ہوئے اسے آوازیں لگا رہے تھے ۔لب بھینچے سرخ آنکھوں کے ساتھ حمزہ باہر آ گیا۔اسکی سانسیں بہت تیزی سے چل رہی تھی ۔اور خون جیسے کنپٹیوں میں ٹھوکر ما رہا تھا ۔باہر کھڑی اسکا انتظار کرتی جویریہ اسے دیکھ کر تیزی سے اسکے پاس آئی۔
” حمزہ! بیٹا کیا ہوا ہے؟ تم نے ڈیڈی کو اپنا ریزلٹ دکھایا؟” وہ اسے دیکھ کر پریشان ہو گئی۔
“ماما! میں حسن مجتبٰی کو جان سے مار دونگا۔اسنے میرے ڈیڈی کے ساتھ بہت غلط کیا ہے ۔میں اسے کبھی خوش نہیں رہنے دونگا۔” اس نے غصے کی زیادتی کے باعث ہانپتے ہوئے کہا۔
جویریہ نے چونک کر اسے دیکھا ۔وہ اسکی آنکھوں میں انتقام کی جلتی آگ دیکھ کر لرز گئی۔اسے اس آگ کو شعلہ بننے سے پہلے بجھا دینا تھا ۔
” حمزہ! ادھر آؤ۔”وہ اسکا بازو پکڑے بینچ تک لائی اور اسے بٹھایا۔
پھر آہستہ آہستہ اسکا سر سہلاتے ہوئے وہ اسے پر سکون کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
“تمہارے ڈیڈی کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہوا ہے بیٹا! انہیں بس اسکی سزا ملی ہے جو انہوں نے دوسروں کے ساتھ کیا تھا۔اور مجرم کو سزا سے بچا کر یا اسے سزا دلانے والے انسان سے انتقام لے کر ہم خود مجرم کے ساتھ غلط کرتے ہیں ۔”
“یہ قانونِ فطرت ہے کہ جس نے جو بھی کیا ہے اسے اسکے عمل کے مطابق سزا یا انعام ملے۔جب تمہارے ڈیڈی نے وکی کے پاپا کو قتل کیا تھا تو وہ محض دس سال کا تھا۔اور تم خود سوچ لو کہ جس عمر میں بچوں کو اپنے باپ کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور اسی عمر میں اگر کسی کا باپ اس سے چھین لیا جائے تو اسکی زندگی کتنی مشکل ہوگی؟ آج تمہارے ڈیڈی بھلے تمہارے ساتھ نہیں ہیں مگر تم جب چاہو ان سے مل سکتے ہو ۔انہیں دیکھ سکتے ہو ۔ان سے اپنے دل کی بات کر سکتے ہو ۔انہوں نے تمہارے محفوظ مستقبل کے لئے ایک کمپنی چھوڑی ہے ۔مگر زرا اس بچے کی اذیت کو محسوس کرنے کی کوشش کرو جو اپنے باپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہو، انکے ساتھ سونا چاہتا ہو، جسکے پاس ڈھیروں مسئلے ہوں جنکے حل صرف اسکے باپ کے پاس ہو سکتے ہیں مگر اسکے باپ وہاں چلے گئے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آ سکتا ۔اسے اب پیروں پر خود کھڑا ہونا ہے، اسے اپنا مستقبل خود بنانا ہے ۔اس بے رحم دنیا سے مقابلہ اسے خود ہی کرنا ہے ۔حالات کے سرد و گرم سے اسے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔”
“حمزہ! تمہیں اپنے ڈیڈی کی طرح نہیں بننا ۔انہوں نے جو غلطی کی تمہیں وہ نہیں دہرانی ۔تم اپنے مفاد کے لئے دوسروں کو نقصان نہیں پہنچاؤگے۔انتقام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔اس سے دوسروں سے زیادہ خود کو تکلیف پہنچتی ہے ۔”اسنے اسے نرمی اور محبت سے سمجھایا۔اسکے کندھے کو دھیرے دھیرے تھپکتے ہوئے وہ اسکا اشتعال کم کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔
حمزہ کی آنکھوں میں جلتی لو آہستہ آہستہ کم ہوئی وہ اسکے کندھے پر سر رکھے رونے لگا ۔
” میں ہوں نا تمہارے ساتھ ۔تمہاری ماما تمہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑیگی۔اور اب ڈیڈی کی باتوں میں آ کر تک تم جذباتی نہیں ہوگے۔ٹھیک؟” اپنے قد سے اونچے آتے بیٹے کو اپنے بازوؤں کے حصار میں لئے وہ خود بھی رو رہی تھی ۔
– – – – – – – – –
” ایک بات غور سے سن لیں احمد صاحب! میرے لئے سب سے اہم کلائنٹ کا اطمینان ہے ۔اگر وہ ہماری سروس سے خوش ہے تو معمولی سے نقصان سے ہم کمپرومائز کر سکتے ہیں ۔” موبائل کان سے لگائے افہام حیدر اپنے آفس کا دروازہ دھکیلتا اندر داخل ہوا اور وہ کچھ کہتے کہتے رکا۔وہ شدتِ حیرت سے اپنے اگلے الفاظ بھول گیا تھا ۔اندر اپنی کرسی پر بے حد ریلیکس انداز میں آنکھیں بند کیے بیٹھے حسن مجتبٰی کو دیکھ کر اسکا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا ۔
“اوہ! جی احمد صاحب! میں آپ سے تھوڑی دیر کے بعد بات کرتا ہوں ۔” وہ چونک کر فون پر متوجہ ہوا اور الوداعی کلمات کہتے ہوئے موبائل بند کر دیا ۔
اپنے لبوں پر ابھرتی شرارت بھری مسکراہٹ کو دبائے وہ میز تک آیا اور ایک کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔
چند لمحے اسنے اسکے چہرے کو دیکھا جس پر سکون اور ایک ٹھنڈا سا خوشگوار سا احساس طاری تھا ۔پھر اسنے اپنی انگلیوں کی پشت سے میز بجائی اور اپنا بازو سر کے نیچے رکھے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لیا ۔
حسن نے چند لمحوں کے بعد اپنی بھوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور سیدھا بیٹھ گیا ۔
“ہمارے رپورٹر صاحب آج ‘حیدر ایڈورٹائزنگ کمپنی’ میں کیا کرنے آئے ہیں؟ ڈونٹ ٹیل می کہ یہاں کسی اسٹوری کی تلاش آپ کو کھینچ لائی ہے۔اور اگر واقعی آپ کا مقصد یہی ہے تو یہ جان کر آپ کو مایوسی ہوگی کہ یہ افہام کی کمپنی ہے اور یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا جسے آپ ٹی وی پر چلا سکیں ۔”وہ اپنی آنکھوں میں شرارت لئے اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔
” یار! تمہارے متعلق اسٹوری دکھا کر کیا کرونگا؟ وہ تو تم ایک ہفتے سے میرے ہاتھ نہیں لگ رہے تھے تو میں نے سوچا کہ تمہارے آفس ہی آ کر تم سے مل لوں ۔”
” اصل میں میں یہاں تھا ہی نہیں ۔ایک ہفتے کے ٹور کے بعد آج ہی واپس آیا ہوں ۔خیر کافی پیوگے یا کوئی کولڈ ڈرنک لوگے؟ “اسنے فون کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔
” نہیں رہنے دو۔”اسنے ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کیا۔” تم جب میٹنگ میں تھے تب تمہارا انتظار کرتے ہوئے میں تین کپ کافی کے پی چکا ہوں ۔”
” واؤ! “افہام نے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کر کے جیسے اسے داد دی۔” بھئی! یہ غلطی سے میں تمہارے آفس میں تو نہیں بیٹھا ہوں ۔عجیب نا معقول اسٹاف سے میرا پالا پڑا ہے ۔مطلب حد ہو گئی ۔انہوں نے پہلی غلطی یہ کی کہ کسی کو میرے آفس میں لا کر بٹھا دیا اور پھر اسکے بعد تمہارے آرڈر پر عمل بھی کیا۔پہلی فرصت میں میں سارے اسٹاف کو تبدیل کرونگا۔”اسنے مصنوعی نا خوشی کا اظہار کیا ۔
“تم اپنے دوست کو سمجھتے کیا ہو افہام حیدر!”وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو باہم پھنسائے آگے کو ہوا۔” ایک دنیا میرے نام کو جانتی ہے۔مجھے دیکھ کر لوگوں کی نظروں میں خود بخود احترام اور پسندیدگی آ جاتی ہے ۔ہزاروں کی تعداد میں میرے فینز موجود ہیں ۔تو پھر تمہارے آفس میں آ کر تمہاری سیٹ پر بیٹھ کر تمہارا انتظار کرنا میرے لئے کوئی مشکل نہیں ہے ۔آئی سمجھ؟” اسنے اسے تپانے کی کوشش کی اور وہ اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہو گیا۔
” اچھا تو مجھے ایک بات بتاؤ۔دَ موسٹ فیمس اور بزی رپورٹر میرے آفس میں بیٹھ کر میرا انتظار کیوں کر رہا ہے؟ تم اتنے بیکار تو کبھی نہیں ہوتے ہو کہ دو گھنٹے تک میرا انتظار کرتے رہو اور وہ بھی ورکنگ آورز میں؟” اسنے حیرت کا اظہار کیا ۔”کیوں؟ جاب سے نکال دیا گیا ہے؟ یا کوئی اسٹوری نہیں مل رہی ہے؟یا پھر دنیا میں اب جرائم بند ہو گئے ہیں کیونکہ تم نیوز والوں کو کوئی مثبت چیز کبھی دکھانی نہیں ہے ۔”
اسکے کہنے پر وہ بے اختیار ہنسا۔” اب ایسا بھی برا وقت مجھ پر نہیں آیا ہے ۔ٹرتھ مرر مجھے نکالنے کی ہمت کر سکتا ہے کیا؟” اسنے سوالیہ انداز میں کہا ۔
” مطلب تم اتنے بھی فارغ نہیں ہو جتنا میں تمہیں سمجھ رہا ہوں ۔”
” نہیں یار! فارغ ہی سمجھ لو۔پچھلے ایک مہینے سے ‘لیٹس فائنڈ ٹرتھ وِد حسن’ کو ٹیلی کاسٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔”اسنے مایوسی سے بتایا۔
” کیوں؟ ٹی آر پی کم ہو گئی تھی کیا؟ ”
جواباً اسنے نفی میں اپنا سر ہلایا۔” مسئلہ یہ ہے کہ جو سیاستدان بھی انٹرویو کے لئے آ رہا ہے وہ اپنے سوالات خود طے کرنا چاہ رہا ہے اور یہ میرے اصولوں کے خلاف ہے ۔کیونکہ میں عوام کو سچ دکھانا چاہتا ہوں اور اسکرپٹڈ انٹرویو سے وہی چیز لوگ دیکھ پائینگے جو وہ سیاستدان انہیں دکھانا چاہ رہا ہے ۔اسلئے میں نے پروگرام کرنے سے منع کر دیا ہے ۔بس اسی لیے فارغ پھر رہا ہوں آج کل۔”
افہام نے اثبات میں اپنا سر ہلایا۔” وکی! تمہیں میرے ہوتے ہوئے پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے ۔اب تمہارا دوست تمہیں ایک نیوز چینل کھول کر دیگا۔اور تم اس میں اپنی مرضی سے اپنا پروگرام کر پاؤگے۔”اسنے شاہانہ انداز میں کہا تھا ۔
” ہاں کیوں نہیں؟ میں مروت میں بھی انکار نہیں کرونگا۔مجھے واقعی ایسی آفر اچھی لگی ہے ۔”
” چلو تم بھی یاد کروگے کہ کس سخی دوست سے واسطہ پڑا تھا ۔”افہام نے کہا تھا ۔
” اوکے چلو اب تم فٹا فٹ اٹھو اور مجھے ایک اچھا سا لنچ کرانا ابھی تمہاری ذمہ داری ہے ۔” حسن اٹھ کر کھڑا ہو گیا ۔
افہام نے اپنا منہ کھول کر اسے دیکھا ۔” کیسا لنچ بھائی! ایک آفر کیا کر دی تم تو مجھے حاتم طائی کا جانشین سمجھنے لگے۔”
” چلو! ابھی کوئی لفاظی مجھ پر اثر نہیں کرنے والی ہے۔تم نے اپنا نیا گھر خریدا ہے اتنی بڑی کمپنی کے مالک ہو گئے ہو ۔اس خوشی کی ٹریٹ کون دیگا؟” وہ گھوم کر اسکے سامنے آیا ۔
افہام نے مسمسی سی صورت بنا کر اسکے خوفناک تیور دیکھے اور کھڑا ہو گیا ۔” میں تمہارا مقابلہ بھلا کر سکتا ہوں کیا؟ ایسی زبردستی کی ٹریٹ سے اللہ سب کو محفوظ رکھے۔”وہ بڑبڑاتا کھڑا ہو گیا ۔
” یہ ساسوں کی طرح طعنے دینا بند کرو اور خاموشی سے میرے پیچھے آؤ۔” حسن نے اسکا بازو پکڑ کر اسے آگے بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔
– – – – – – – –
آفتاب اپنی ساری رعنائیوں، نارنجی شعاعوں اور تپش کو سمندر کی اتھاہ گہرائیوں کی نذر کرتا خود بھی غروب ہو رہا تھا ۔شفق پر نارنجی نما سرخی پھیلتی جا رہی تھی جیسے کسی حسین دوشیزہ نے اپنا سرخ آنچل پھیلا دیا ہو۔ساحل کی ریت پر ٹولیوں کی شکل میں پھرتے سیاح، ریت کا گھروندا بنا کر کھیلتے بچے اور کہیں کہیں آگ جلا کر کھانا پکاتے لوگوں نے سمندر کے کنارے رونق لگا رکھی تھی ۔
انہیں میں وہ چاروں بھی تھے۔ریت پر اینٹوں کی مدد سے بنائے چولہے پر سرخ انگاروں کی آنچ میں دھیمے دھیمے پکتے سیخ کبابوں کی خوشبو فضا میں پھیل رہی تھی ۔چولہے کے سامنے بیٹھی انابہ کی آنکھیں دھوئیں کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں ۔اسنے اپنے ماتھے پر کٹے بالوں کو چھوڑ کر باقی بالوں کو جوڑے میں قید کر رکھا تھا ۔اسکی گردن میں روپہلی چین میں پرویا ڈائمنڈ شیپ لاکٹ بے حد نمایاں تھا۔الماس اسکے قریب بیٹھی آخری کی چند سیخوں میں کباب پرو رہی تھی ۔وہ انابہ کی دگرگوں ہوتی حالت دیکھ کر اسے بار بار وہاں سے ہٹنے کو کہہ رہی تھی ۔مگر وہ بضد تھی کہ کباب تو آج وہی تیار کریگی۔
“انابہ! آپ رہنے دیں ۔میں یہ کر لیتی ہوں ۔” الماس نے پر خلوص لہجے میں ایک دفعہ پھر اپنی مدد کی پیشکش کی ۔
“اونہوں”اسنے اپنی گردن دائیں بائیں ہلائی۔”مجھے بھی یہ سب سیکھنا ہے ۔آخر ثمرین آنٹی کب تک حسن کے لئے کھانا پکاتی رہینگی ۔” اسنے کہتے ہوئے اپنے ہاتھ میں پکڑے پنکھے سے آنچ کو ہوا دی۔
ان دونوں کے بالکل قریب پکنک میٹ بچھا ہوا تھا ۔جس پر بیٹھا حسن مجتبٰی اپنے موبائل پر اسکرولنگ کر رہا تھا اور وہ گاہے بگاہے نظر اٹھا کر انابہ کو بھی دیکھ لیتا جیسے سوچ رہا ہو کہ آگے اسکا کیا ہوگا؟ اسکے ساتھ ہی میٹ پر افہام حیدر بھی موجود تھا جو اپنے گلے میں لٹکے ڈیجیٹل کیمرے سے تصویریں بنا رہا تھا ۔
انابہ نے سیخ کی سائڈ بدلتے ہوئے پنکھے سے ایک دفعہ پھر زور کی ہوا دی اور دھوئیں کا مرغولہ سیدھا اسکے منہ پر آیا تھا ۔وہ کھانستی ہوئی دوہری ہونے لگی ۔اسکی آنکھوں سے اب پانی باہر آنے لگا تھا ۔پنکھا زمین پر رکھتے ہوئے وہ اپنا ہاتھ چہرے کے قریب لے گئی تاکہ آنکھ سے نکلتا پانی صاف کر سکے۔مگر قبل اس کے کہ اسکا ہاتھ اسکے چہرے کو چھو پاتا موبائل پر مصروف حسن نے یکدم اپنا ہاتھ بڑھا کر اسکی کلائی پکڑ لی تھی۔
“تمہارا چہرہ خراب ہو جائے گا ۔” اسنے کہتے ہوئے اسکے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا جس پر کوئلے کی کالک لگی تھی ۔
پھر اسنے بغیر کچھ کہے میٹ پر رکھا صاف تولیہ اٹھایا اور نرمی سے اسکے رخسار صاف کرنے لگا۔
“کیوں خود کو پریشان کر رہی ہو؟ میں اتنا فوڈی نہیں ہوں اسلئے میرے لئے خود کو تکلیف پہنچانے کی ضرورت نہیں ہے ۔” وہ خفگی بھرے لہجے میں کہتا اب اسکے ہاتھ پر لگی کالک صاف کر رہا تھا ۔
“اتنی معمولی سی بات سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔” وہ کہتی ہوئی سیخوں سے کباب نکال کر پلیٹ میں ڈالنے لگی۔گرم گرم خستہ کبابوں سے اشتہا انگیز خوشبو آ رہی تھی ۔
” چلیں ٹیسٹ کر کے بتائیں کہ کباب کیسے ہوئے ہیں؟” اسنے ایک چھوٹا سا ٹکڑا حسن کے منہ میں ڈالا۔اسی لمحے افہام کے کیمرے کا رخ ان دونوں کی جانب ہو گیا تھا ۔اسکے کیمرے نے بے خیالی میں یہ منظر قید کر لیا ۔افہام کے دل نے اسی دم ایک پر زور فریاد کی ۔کیا وہ واقعی ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر زندہ رہ لیگا؟ جواباً اسنے اپنے نادان دل کو سختی سے ڈپٹا(جو چیز ہاتھ کی لکیروں میں تھی ہی نہیں اسکے لئے کڑھ کر کیا فائدہ؟) لیکن کیا وہ سچ مچ رہ پائیگا؟
الماس نے کنکھیوں سے حسن اور انابہ کو دیکھا اور اپنا جھکا سر مزید جھکا لیا۔(جس انسان سے آپ کو محبت ہو اور وہ آپکی بجائے کسی دوسرے شخص کے ساتھ خوش نظر آئے تو دکھ تو ہوتا ہے ناں؟)
“یہ بہت لذیذ ہے مگر پھر بھی میں سختی سے کہہ رہا ہوں انابہ کہ مجھے صرف زبان کے ذائقے کے لئے فضول تمہیں پریشان نہیں کر سکتا ۔سمجھیں تم؟” حسن نے تنبیہی انداز میں کہا ۔
“روجر باس!” جواباً انابہ نے ہنستے ہوئے ماتھے تک ہاتھ لے جا اپنے سر کو تسلیمی انداز میں خم دیا اور باقی سیخوں کو آنچ پر رکھنے لگی۔
” افہام! تم کب مجھے اس سیکرٹ گرل سے ملوا رہے ہو؟ “حسن کو یکدم ہی یاد آیا اور وہ افہام سے پوچھنے لگا۔
افہام کا چہرہ پھیکا پڑا اور کیمرے پر موجود اسکے دونوں ہاتھ آہستہ سے ہٹے۔
“اوہ!” انابہ نے دلچسپی سے ہونٹوں کو گول کر کے شرارتی انداز میں افہام کی طرف دیکھا ۔” شاید میں جانتی ہوں کہ افہام کی سیکرٹ گرل کون ہے؟”
انابہ کے جملے نے افہام کے پیروں تلے زمین کھینچ لی اور وہ ساکت سا اسے دیکھنے لگا۔
حسن نے الجھ کر افہام کے تاثرات اور پھر انابہ کو دیکھا ۔”افہام! میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے۔”
اسکے کہنے پر وہ چونکا اور چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ طاری کرتے ہوئے اسے دیکھا۔
” میری زندگی میں کوئی سیکرٹ گرل نہیں ہے ۔بس وہ میری فینٹسی تھی۔میرا تصور یا پھر آئیڈیل کہہ لو۔” اسکی بھوری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اسنے جھوٹ بولا اور پہلی دفعہ افہام حیدر نے حسن مجتبٰی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کامیابی سے جھوٹ بولا تھا ۔
“اوہ!” حسن ٹھٹکا،چونکا اور اسکے جھوٹ پر یقین نہ کرتے ہوئے بھی یقین کر لیا ۔کیونکہ اسکے تاثرات التجا کر رہے تھے کہ وہ اس جھوٹ پر یقین کر لے اور کوئی سوال نہ کرے ۔
“افہام! تمہیں یقین ہے کہ تم سچ کہہ رہے ہو؟” انابہ نے ایک دفعہ پھر اسکے پیروں تلے زمین کھسکانے کی کوشش کی ۔
افہام خاموش رہا۔
“یاد ہے جب تم نویں کلاس میں تھے اور اپنی ایک کلاس میٹ کو لیٹر لکھتے وقت پکڑے گئے تھے اور اسی کلاس میں پڑھنے والے لڑکی کے بھائی نے تمہاری خاصی پٹائی کر دی تھی۔”انابہ نے شرارت سے کہا۔افہام کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔
“فار گاڈ سیک انابہ! میں نے تمہیں کتنی دفعہ بتایا ہے کہ لیٹر پر کسی نے مجھے پھنسانے کے لئے میرا نام لکھا تھا ۔”اسنے احتجاج کیا ۔
” تم جو بھی کہو۔مجھے یقین ہے کہ وہ لیٹر تم نے ہی لکھا ہوگا۔”
” اسٹاپ اٹ یار!” حسن نے انابہ کو روکا۔”اگر وہ کہہ رہا ہے کہ اسنے نہیں لکھا تو اسنے نہیں لکھا ہوگا۔”
انابہ کے چہرے پر خفگی آئی۔” حسن تھوڑی دیر کے لئے بھی افہام کے سامنے میرا ساتھ نہیں دے سکتے ۔مجھے لگتا ہے کہ ساری زندگی میں افہام سے اسی بات پر جیلس ہوتی رہونگی کہ حسن کو مجھ سے زیادہ محبت ہے یا افہام سے؟ “اسنے الماس کی طرف جھک کر سرگوشی کی۔الماس بے اختیار ہی ہنس پڑی تھی ۔افہام نے چونک کر اسے دیکھا ۔اسکی ہنسی اگر اتنی خوبصورت تھی تو وہ چھپا کر کیوں رکھتی تھی؟
کباب اب لگ بھگ تیار ہو گئے تھے ۔” الماس! تم باقی کباب دیکھ لوگی؟ “انابہ نے اسے کہا تو اسنے اثبات میں اپنا سر ہلا دیا ۔وہ پنکھا اسے پکڑاتی کھڑی ہو گئی ۔
“حسن! ہم واک پر چلیں؟” انابہ کے کہنے پر وہ اسکی جانب متوجہ ہوا اور کھڑے ہوتے ہوئے افہام کے گلے سے لٹکا کیمرہ نکال لیا. افہام اپنا منہ کھول کر رہ گیا تھا ۔
” تمہاری ہی کزن کی تصویریں کھینچنے لے جا رہا ہوں ۔” اسنے جاتے ہوئے کہا تھا ۔
سمندر کے بالکل کنارے کھڑے ہوکر انابہ کوئی پوز دیتی اور جیسے ہی وہ فوٹو کلک کرنے لگتا وہ ہل جاتی تھی ۔وہ چہرے پر رقص کرتی خوشی کے ساتھ ساحل پر دوڑتی جا رہی تھی اور حسن اسکے پیچھے بھاگتا اسے رکنے کو کہہ رہا تھا ۔انکے زندگی سے بھرپور بلند قہقہے یہ باور کرا رہے تھے کہ محبت کی بعض کہانیوں کو تقدیر نے بڑے مکمل انداز میں لکھا ہوتا ہے ۔کیمرے میں قید ہوتے رینڈم شاٹ دنیا میں اعلان کر رہے تھے کہ اللہ نے انہیں ہی ایک دوسرے کے لئے بنایا تھا ۔
گردن موڑ کر انہیں دیکھتے افہام اور الماس نے ایک ساتھ واپس نگاہ کا رخ پھیرا اور ایک دوسرے کی طرف دیکھا تھا۔افہام نے محسوس کیا کہ الماس کی آنکھوں میں ٹوٹے خوابوں کی اتنی ہی کرچیاں تھیں جتنی اسکی اپنی آنکھوں میں ۔
“الماس آپ کو ریت کے قلعے بنانے آتے ہیں؟” افہام نے اسکی سبز آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
“یہ تو بچوں کے کھیل ہیں۔” وہ کہتے ہوئے مسکرائی۔
“تو چلیں آج ہم اپنے بچپن کو دوبارہ جی لیتے ہیں ۔” وہ کہتے ہوئے کھڑا ہوا اور اسکی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔اسکے انداز میں دوستی اور اپنائیت کے خوبصورت جذبے تھے۔ الماس نے اسکے بڑھے ہاتھ کو دیکھا اور اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا ۔
محبت کی ساری کہانیاں امر نہیں ہوتیں اور نا ہی ساری مکمل ہوتی ہیں ۔بعض ادھوری رہنے کے لئے لکھی جاتی ہیں ۔ادھورے خواب، ادھوری باتیں، ادھوری خواہشیں اور ادھوری کہانیاں ۔ہاں ادھوری کہانیوں کو چھوڑ کر نئی کہانی لکھنے کی شروعات ضرور کی جا سکتی ہے ۔
– – – – ختم شد – – – – –