آنکھوں کے آگے سب کچھ دھندلا نظر آ رہا تھا ۔مبہم اور غیر واضح ۔اسنے اپنی آنکھیں کھول کر آس پاس دیکھنے کی کوشش کی ۔سبز آنکھوں والی لڑکی اسکے چہرے پر جھکی بھیگے نرم کپڑے سے اسکے زخم صاف کر رہی تھی۔سخت اور کھردرے چہرے والے کرنل صفدر اسکے پیر کی ڈریسنگ کر رہے تھے ۔اسنے دھیمے سے کراہ کر دوبارہ آنکھیں بند کر لیں۔ذہن ایک دفعہ پھر نیم بے ہوشی میں ڈوبتا چلا گیا تھا ۔پھر نہ جانے کتنے گھنٹوں کے بعد تاریکی میں ڈوبا ذہن جاگنے لگا تھا۔اسنے اپنے بھاری ہوتے پپوٹوں کو بمشکل اوپر اٹھایا ۔اسنے دائیں ہاتھ پر ایک نرم سا لمس محسوس کیا تھا۔الماس اسکا دایاں ہاتھ پکڑے اسکے بستر کے سرہانے لگی کرسی پر بیٹھے بیٹھے سو گئی تھی۔اسنے بیحد احتیاط سے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے آزاد کرایا اور دایاں پیر موڑ کر اٹھنے کی کوشش کی ۔اسے اپنا پورا جسم دکھتا ہوا پھوڑا محسوس ہو رہا تھا ۔پیر ہلانے کی کوشش میں تیز ٹیس پورے جسم میں دوڑ گئی ۔بمشکل اسنے اپنا پیر بستر سے نیچے اتارا ۔
“کیا کر رہے ہو؟ زخم کھل جائیگا تو خون روکنا مشکل ہوگا۔” الماس نے نیم غنودہ لہجے میں اسے روکا۔
“میری شرٹ کہاں ہے؟” اسنے نقاہت زدہ آواز میں کہا ۔اسکے جسم پر اس وقت دوسرے کپڑے تھے۔
“بابا نے اسے دھل کر سوکھنے کے لئے پھیلا دیا ہے ۔”
“اوہ گاڈ!” اسنے اپنا سر پکڑ لیا ۔” میں اسے لے کر آتا ہوں ۔”اسنے اٹھنے کی کوشش کی ۔
“کہیں تم یہ تو نہیں ڈھونڈ رہے ۔” الماس نے اپنی ہتھیلی آگے کی۔اس پر ایک ننھا سا بٹن کیمرہ چمک رہا تھا ۔حسن مجتبٰی نے سکون کی سانس لی اور اسکی ہتھیلی سے کیمرہ اٹھا کر اسے الٹ پلٹ کر دیکھا ۔
“اب مجھے بتاؤ کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اور تمہاری یہ حالت کس نے کی؟” الماس کی سبز آنکھوں میں تفتیشی انداز تھا۔
“کچھ خاص نہیں ۔دو گروہوں کی فائرنگ میں ایک بلٹ مجھے لگ گئی تھی اور بس…” اسکا انداز ٹالنے والا تھا ۔
“اب تم مجھ سے باتیں بھی چھپایا کروگے؟” اسکے چہرے پر خفگی آئی۔” جھوٹ بولنے سے پہلے تمہیں یہ سوچ لینا چاہیے کہ میں اس کیمرے کی ریکارڈنگ دیکھ چکی ہوں ۔”
“جب سب کچھ جانتی ہو تو پھر کیوں پوچھ رہی ہو؟ “اسنے اپنی بھوری آنکھیں اسکے چہرے سے ہٹائیں اور دوسری طرف دیکھنے لگا ۔
” میں نے تمہیں بہت دفعہ منع کیا تھا کہ انتقام کے خونی راستے پر مت چلو۔اس میں نقصان صرف تمہارا اور تم سے جڑے رشتوں کا ہوگا۔اگر.. اگر آج تمہیں کچھ ہو جاتا تو… “اسنے بھیگے لہجے میں اپنی بات ادھوری چھوڑی۔
“اب اس خونی راستے کا اختتام صرف میری کامیابی یا میری موت پر ہوگا ۔”اسنے بے رحم لہجے میں کہا ۔الماس پوری جان سے کانپ کر وہ گئی۔آج تو اسنے اسکے خوفزدہ ہونے پر تسلی بھی نہیں دی تھی۔کیا وہ اتنا ٹوٹ گیا تھا؟ کیا وہ اتنا زیادہ ہار چکا تھا؟
“مجتبٰی! میں تمہارے لئے کچھ کھانے کو لاؤں؟ “اسنے دانستہ منظر سے غائب ہونے کی کوشش کی ۔
” نہیں! ابھی کچھ دیر میں سونا چاہتا ہوں ۔مجھے سونے دو۔” اسنے لیٹ کر بازو آنکھوں پر رکھ لیا کہ کوئی اسکی آنکھوں سے جھلکتا کرب بوجھ نہ لے۔
وہ چند لمحے وہیں کھڑی رہی پھر اپنی کرسی اسکے بستر سے زرا فاصلے پر رکھ کر بیٹھ گئی تھی ۔اسکی آنکھوں سے موٹے موٹے قطرے گرتے جا رہے تھے ۔
– – – – – – – – –
دوبارہ جب اسکی آنکھ کھلی تو روشن صبح اس لکڑیوں والے مکان پر پوری طرح طلوع ہو چکی تھی ۔نیم وا کھڑکیوں کے پٹ سے صبح کی نرم دھوپ بستر تک آ رہی تھی ۔وہ بستر سے اٹھ کر لنگڑاتا کمرے سے باہر آیا۔دم پر رکھی چائے اور ٹوسٹ ہوتے بریڈ کی خوشگوار خوشبو پورے گھر میں چکرا رہی تھی ۔دیوار کا سہارا لے کر چلتا وہ کرنل صفدر کے کمرے تک آ کر بے اختیاری کی کیفیت میں رک گیا ۔کمرے کے اندر سے آتی الماس اور کرنل صفدر کی تیز آوازوں میں اپنا نام سن کر وہ چونک گیا تھا ۔
“بابا! میں ایک دفعہ پھر آپ سے کہہ رہی ہوں کہ وہ تصویریں مجتبٰی کو دے دیں ۔وہ پوری طرح بکھر چکا ہے ۔آپ نے دیکھا نہیں کہ افہام کے فعل نے اسے کتنا توڑ دیا ہے ۔میں اسے اس طرح نہیں دیکھ سکتی۔”
“وہ تصویریں میں اس لڑکے کو ہی دونگا۔میرے اب کسی کام کی نہیں رہی ہے ۔مگر اسکے لئے اسے اسکی قیمت ادا کرنی ہوگی ۔”
” آپ یہ کس قسم کی باتیں کر رہے ہیں؟ آپ اس انسان سے قیمت لینگے جو آپ کو اپنے بیٹے کی طرح عزیز ہے۔”الماس نے حیرانگی سے کہا۔
” اپنی جان خطرے میں ڈال کر میں نے وہ تصویریں لی تھیں اور تم کہتی ہو کہ میں اسے یونہی دے دوں ۔ہاں وہ مجھے میرے بیٹے کی طرح عزیز ہے۔مجھے اس سے بہت محبت ہے مگر اس کے پہلے میری سگی بیٹی بھی ہے جسکے مستقبل کے لئے مجھے سوچنا ہے۔”وہ اپنی بات پر اٹل تھے۔
“میں آپ کی بات بالکل نہیں سمجھ پا رہی ہوں ۔ان تصویروں کے عوض آپ مجتبٰی سے کیا چاہتے ہیں؟ ”
” اسے تم سے شادی کرنی ہوگی ۔”انکے سپاٹ جملے نے الماس اور حسن دونوں کے پیروں تلے زمین کھینچ لی تھی۔
” بابا…. “وہ اپنے لب پر ہاتھ رکھے حق و دق رہ گئی ۔
“تمہیں کیا لگا تھا کہ تم ہر رشتے سے انکار کرتی رہوگی اور میں کبھی تمہاری آنکھوں میں تمہاری خواہشیں نہیں پڑھ پاؤنگا؟ میں تمہارا باپ ہوں اور تمہیں یہ خوشی دینا چاہتا ہوں ۔”
“بابا رشتوں میں سودے بازیاں نہیں ہوتیں ۔مجبوری کے بوجھ تلے دبے تعلق کبھی پائیدار نہیں ہوتے ہیں ۔اس نے اگر دباؤ کی وجہ سے ہاں کہہ بھی دی تو ہم دونوں کبھی خوش نہیں رہ پائینگے۔میں زندگی بھر شرمندگی کی وجہ سے اس سے نظریں نہیں ملا پاؤنگی۔”وہ ضد پر اڑے باپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
” مجھے ان فلسفوں کی سمجھ نہیں ہے۔”انہوں نے اسکی بات کو ناک پر بیٹھی مکھی کی طرح اڑائی۔
” مجتبٰی تم…. “یکدم الماس نے کہا ۔وہ سامنے آئینے میں ابھرتے عکس کو دیکھ چکی تھی۔وہ لب بھینچے سرخ آنکھوں کے ساتھ لڑکھڑاتا اندر آ رہا تھا ۔
“تم اپنے پیر کو اتنی حرکت مت دو ورنہ زخم خراب ہو جائیگا۔”وہ تیزی سے اسکے پاس آئی اور اسکا بازو تھام کر اسے سہارا دینا چاہا۔
” مجھے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہے ۔” اسنے ٹھنڈے لہجے میں کہتے ہوئے اسے خود سے دور کیا۔اور آگے بڑھ کر میز پر ایک رکھا پرانا سا لفافہ اٹھا لیا ۔اس میں رکھی تصویریں بہت صاف اور واضح تھیں ۔اس میں داور کی پسٹل کا رخ فرش پر خون میں لت پت پڑے فہد ندیم کی طرف تھا اور ساتھ ہی واضح نظر آتا کریم یزدانی کا چہرہ بھی تھا۔اور چند تصویروں میں اسد خان کے داور اور کریم یزدانی کے ساتھ شاٹس تھے۔تصویروں کو واپس لفافے میں ڈال کر اسنے اسے واپس میز پر رکھا اور وضاحت طلب نظروں سے کرنل صفدر کا چہرہ دیکھا ۔
“جس دن تمہارے باپ کا قتل ہوا تھا اس دن میں داور کو ٹریس کرتا ہوا وہاں پہنچ گیا تھا ۔مجھے داور سے اپنی بیوی کا انتقام لینا تھا اسلئے اسکے جرم کے ثبوت میں میں نے وہ تصویر لے لی۔”
“تو آپ نے پولیس کو اطلاع کیوں نہیں دی؟” اسکا لہجہ سرد تھا۔
“اسد خان کے قبول جرم کے بعد میں ڈر گیا تھا. مجھے اپنی بیٹی کی فکر تھی۔اگر مجھے کچھ ہو جاتا تو اسے کون دیکھتا؟ ”
” آپ نے اس تصویر کو مجھ سے کیوں چھپایا؟ اتنے سالوں تک آپ کے پاس آتا رہا، آپ کے سامنے رہا مگر ایک دفعہ بھی آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟ پاگلوں کی طرح اسد خان کے جیل سے نکلنے کا انتظار کرتا رہا کہ وہ مجھے میرے باپ کے قاتل کا پتہ بتائیگا۔آپ سب کچھ خاموشی سے دیکھتے رہے۔مگر آپ… آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟ “سرد لہجے میں کپکپاہٹ، تاسف اور بے یقینی تھی ۔
” مجھے خوف تھا کہ تم اپنے جذباتی پن میں خود کو کوئی نقصان پہنچا لوگے۔”لہجہ دفاعی تھا۔
” میں پندرہ سال کی عمر میں جذباتی ہو سکتا تھا، بیس کی عمر میں بھی ہو سکتا تھا ۔مگر اس دن جب میں آپ سے پلان ڈسکس کرنے آیا اور آپ نے مجھے داور کے پیچھے لگایا تب بھی آپ نے مجھے اندھیرے میں رکھا۔”آواز کی لرزش الماس نے بخوبی سنی تھی۔
” ہاں میں نے تمہیں اندھیرے میں رکھا۔تمہیں کچھ نہیں بتایا۔کیونکہ اس وقت تک میں اپنی بیٹی کی آنکھوں میں تمہیں دیکھ چکا تھا ۔میرے لئے سب سے پہلے میری بیٹی ہے اسکے بعد کوئی اور… “لہجے میں ترشی تھی۔حسن مجتبٰی نے گردن موڑ کر الماس کی جانب دیکھا جسکا جھکا سر مزید جھک گیا تھا ۔وہ اپنی محبت کی اس طرح رسوائی تو نہیں چاہتی تھی ۔
” اگر آپ کے لئے آپکی بیٹی ہی سب کچھ تھی تو پھر سالوں تک آپ مجھ سے جھوٹی شفقت کا کھیل کیوں کھیلتے رہے؟ میرا ہاتھ تھام کر مجھے چلنا کیوں سکھایا؟مجھے زمانے سے لڑنا کیوں سکھایا؟ مجھے دھوکہ کیوں دیتے رہے؟ کیوں؟” اسنے مٹھیاں بھینچ کر بلند آواز میں کہا ۔آنکھوں میں خون اتر آیا تھا ۔الماس نے بے بسی سے اسے دیکھا ۔وہ جانتی تھی کہ اسکے الفاظ سے اسکا باپ ٹوٹ چکا ہوگا۔
” ابھی اسی وقت میرے گھر سے نکل جاؤ۔”جواباََ وہ بھی چیخے ۔” میرے ہی گھر میں کھڑے ہو کر میری محبتوں اور عنایتوں پر شک کر رہے ہو؟ حالانکہ اس بات سے تمہارا دل ہی واقف ہوگا کہ اگر میں تمہیں نا ملتا تو تم وہ نا ہوتے جو آج ہو۔”
“ہاں آپ سچ کہہ رہے ہیں ۔” اسنے بھیگتی آنکھوں سے سر ہلایا۔” میں اگر آپ سے نہ ملتا تو نہ جانے آج میں کیا ہوتا؟ مگر اپنی غرض کو عنایتوں اور محبتوں کا نام مت دیں ۔آپ نے مجھے ہمیشہ اپنا ہتھیار سمجھا اور مجھے اپنے ہتھیار کی طرح تربیت دی اور آخر میں استعمال بھی کر لیا۔آپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ آپ داور سے نہیں لڑ سکتے۔اسلئے اپنی بیوی کا انتقام لینے کے لئے آپ نے میرا اپنی مرضی سے استعمال کیا اور میں پاگلوں کی طرح آنکھیں بند کیے آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا گیا۔آج آپ نے اپنی خود غرضی اور مطلب پرستی سے اپنے سارے احسانات اور ساتھ ہی میری دوست کو بھی میرے سامنے ہلکا کر دیا ہے ۔”اسنے بائیں ہتھیلی سے آنکھیں رگڑیں جس سے بغیر رکے آنسو کی لیکر بہہ رہی تھی ۔اسکے جملے سے الماس کا جھکا سر شرمندگی سے سرخ ہو گیا ۔
” تمہاری اتنی اثر انگیز تقریر کے جواب میں میرے پاس صرف ایک جملہ ہے۔الماس کو ہمیشہ خوش رکھنے کا وعدہ کرو اور یہ تصویریں لے جاؤ۔”کرنل صفدر کی آواز بے لچک تھی۔
الماس نے بے بس نظروں سے پہلے اپنے باپ اور پھر مجتبٰی کو دیکھا ۔وہ دونوں ہی اسے بہت عزیز تھے اور ان دونوں کے سامنے وہ اپنی ذات کو بے وقعت محسوس کر رہی تھی ۔
” میں حسن مجتبٰی ہوں ۔میرے پاس صرف پلان اے ہوتا ہے اس میں پلان بی، سی، ڈی کی جگہ نہیں ہوتی ۔اگر آج سے پہلے مجھے اس تصویر کے متعلق نہیں معلوم تھا تو میں اب بھی یہی سمجھونگا کہ تصویر کا کوئی وجود نہیں ہے ۔” وہ بھیگے ٹھنڈے لہجے میں کہہ رہا تھا ۔اسکے جملے میں کوئی غرور، کوئی زعم نہیں تھا۔بس وہ انکے سامنے ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ انکے بغیر بھی اتنا ہی مضبوط ہے۔
وہ لڑکھڑاتا دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔اسے کسی نے روکنے کی کوشش نہیں کی ۔کرنل صفدر اپنا سر جھٹک کر کمرے سے منسلک واش روم میں چلے گئے اور الماس وہ خاموشی سے حسن مجتبٰی کے پیچھے بڑھ گئی ۔
لکڑی کے برآمدے کو پار کرتا وہ پیر میں اٹھتی ٹیس کو نظر انداز کئے بیرونی دروازہ کھول رہا تھا ۔الماس نے بسی سے اسے جاتا دیکھ رہی تھی ۔یہ احساس ہی اسکے لئے تکلیف دہ تھا کہ وہ اسکے گھر سے زخمی حالت میں، بھوکا اور سب سے بڑھ کر ناراض ہو کر جا رہا ہے ۔
– – – – – – – – – –
اس نیم روشن کمرے میں دیوار پر لگی گھڑی اور پینٹنگ کے علاوہ کوئی دوسری آرائشی مصنوعات نہیں تھی۔کمرے میں رکھی چند کرسیوں میں سے ایک پر وہ گھٹنوں پر کہنیاں رکھے، اس پر اپنا سر ٹکائے بیٹھا تھا ۔بائیں پنڈلی میں ابھی تازہ پٹی کی گئی تھی ۔اسکے سامنے کرسی پر پروسیکیوٹر عبدالقیوم بیٹھے تھے ۔وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ انکے پاس کیوں آیا ہے ۔شاید اسلئے کہ اسے ایک سامع چاہیے تھا یا اسے ہمدرد چاہیے تھا ۔وہ انہیں شروع سے لے کر آخر تک سب کچھ بتاتا چلا گیا ۔کچھ بھی مخفی نہیں رکھا ۔اپنے باپ کی موت کے بعد سے اب تک کی زندگی اس نے انکے سامنے کھول کر رکھ دی تھی ۔
“کیا کسی انسان کا خون اتنا سستا ہوتا ہے کہ ہزار کوششوں کے باوجود بھی وہ رائگاں چلا جائے؟ میں نے ہر ممکن کوشش کر لی، ساری حدوں تک جا کر دیکھ لیا، اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کی ۔مگر ان سب کے عوض میں نے کیا حاصل کیا؟ نا امیدی، فریب، رشتوں کا کھوکھلا پن اور کچھ نہیں ۔میں کہاں غلط تھا؟ میں کب غلط تھا؟ “اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ بے بسی سے کہہ رہا تھا ۔عبدالقیوم کی آنکھوں میں اسکے لئے نا کوئی افسوس تھا اور نا ہی ترحم۔وہ بس سپاٹ انداز میں اسے دیکھ رہے تھے ۔
” کیا میرا اپنے باپ کے لئے لڑنا غلط تھا؟کیا میرا اصل مجرم کا پتہ لگانا صحیح نہیں تھا؟ کیا مجھے اس بات کا یقین کر کے بیٹھ جانا چاہیے تھا کہ مجرم کو اسکی سزا مل چکی ہے؟ شاید میں ایسا کرتا تو ریت کی طرح سارے رشتے میری مٹھی سے نہیں پھسلتے۔” اسنے تاسف سے کہا۔اسکی آنکھوں میں انابہ، افہام، کرنل صفدر بیک وقت اترے تھے۔سختی سے آنکھیں بند کر کے اسنے انکے تصور کو زائل کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔
” تم بالکل غلط نہیں تھے اور نا ہی تمہارا اپنے باپ کے لئے لڑنا غلط تھا۔اور کسی انسان کا خون اتنا سستا نہیں ہوتا کہ اسے یونہی رائگاں جانے دیا جائے ۔کبھی بھی نہیں.. ہاں مگر تمہاری نیت غلط تھی، تمہارا مقصد غلط تھا۔تمہارا ارادہ غلط تھا۔” وہ ٹھہرے ہوئے انداز میں کہہ رہے تھے ۔حسن مجتبٰی نے یکلخت اپنا سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔جیسے اسے یقین نہیں آیا تھا کہ وہ اسے صحیح کہتے ہوئے بھی غلط گردان رہے تھے ۔
” میں کب غلط تھا؟ میں کہاں غلط تھا؟ “اسنے زیرِ لب اپنی بات دہرائی۔
” تم ہر اس جگہ غلط تھے جہاں تم نے انصاف کی بجائے انتقام کا لفظ استعمال کیا ۔ہر اس جگہ تمہارا مقصد غلط تھا جہاں تم نے اپنے باپ کے انصاف کی بجائے اسکے لئے انتقام کا سوچا۔تم اس وقت غلط تھے جب تم نے اپنے غصے میں نفرت کی آگ شامل کی اور انصاف کی حدود پھلانگتے ہوئے انتقام تک چلے گئے ۔”
” انصاف اور انتقام میں کیا فرق ہوتا ہے؟ “اسنے الجھے ہوئے انداز میں سوال کیا ۔
” ان دونوں میں نا محسوس سا فرق ہوتا ہے ۔انصاف آنکھ کے بدلے آنکھ، جان کے بدلے جان کو کہتے ہیں جبکہ انتقام ایک آنکھ کے بدلے پوری جان لینا ہوتا ہے ۔انصاف یا قصاص میں زندگی ہے جبکہ انتقام انسانیت کی موت کو کہتے ہیں ۔تمہارے باپ کا مجرم کریم یزدانی تھا تمہیں صرف اسے سزا دلانے کے متعلق سوچنا چاہیے تھا مگر تم نے اس سے جڑے رشتوں کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ۔تمہیں اسکی بیٹی کی زندگی برباد کرنے کی کوشش کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ایک بے قصور لڑکی کو اپنے انتقام کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کے بعد تمہیں لگتا تھا کہ تم خوش رہ لوگے؟ کریم یزدانی کے بیٹے کا بھی تمہارے معاملے میں کوئی قصور نہیں تھا۔تم نے محض کریم کو تکلیف پہنچانے کے لئے اسے نا حق ضرر پہنچانا چاہا۔اور تم ڈی ڈی کمپنی کو کیوں تباہ کرنا چاہتے تھے؟ وہ صرف کریم یزدانی کی کمپنی نہیں تھی۔ہزاروں لوگ جنکا تمہارے باپ سے کوئی واسطہ نہیں تھا وہ بھی تو اس سے جڑے ہوئے تھے۔”
” خیر ڈی ڈی کمپنی کی غیر قانونی حرکات اسکی بربادی کو جسٹیفائی کر سکتی ہیں ۔”اسنے انہیں روک کر وضاحت کی ۔
انکے سخت چہرے پر بے شمار بل پڑے ۔” میری آنکھوں میں دیکھ کر بتاؤ حسن مجتبٰی کہ کمپنی کو برباد کرنے کا مقصد اسکی غیر قانونی حرکات تھیں یا تم اسے کریم یزدانی کی وجہ سے الٹنا چاہتے تھے؟ “انہوں نے سخت لہجے میں پوچھا تو وہ اپنی بھوری آنکھیں جھکا کر رہ گیا تھا۔
“تمہیں معلوم ہے نا کہ اگر کسی کام کے پیچھے نیت صحیح نا ہو تو اسکا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلتا۔”انہوں نے مزید کہا ۔
” اب میں کیا کروں؟ انتقام کے راستے کو چھوڑ دوں؟ اپنے پپّا کے قتل کو بھول جاؤں؟ سکون سے اپنی جاب کروں اور بس؟ لیکن آپ کو معلوم نہیں ہے کہ ایسا کر کے کبھی میں سکون سے نہیں رہ پاؤنگا۔جب بھی اس شخص کو دیکھونگا میرے اندر کی آگ مجھے جلا کر خاکستر کرنے لگے گی۔اسکی کامیابی مجھے اپنی بزدلی اور ٹھنڈے خون کا احساس دلائیگی۔تب زندگی بہت مشکل ہو جائیگی ۔سکون تو دور سانس لینا بھی دشوار ہو جائیگا۔”وہ ٹوٹے لہجے میں اپنی کیفیت بتانے لگا۔
” اگر تم ایسا کروگے تو واقعی تم سے بڑا بزدل کوئی نہیں ہوگا۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ تم فہد ندیم کے قاتل کو سکون سے بیٹھنے دو۔تم بس اپنا طریقہ بدل دو۔اپنی نیت بدل ڈالو۔اس دفعہ ہم انصاف کے لئے لڑینگے ۔ہم اصل مجرم کو سزا دلائینگے۔” انکے ‘ہم’ کہنے پر وہ چونکا۔
“ہاں میں فہد کا کیس لڑونگا۔تم نے ہماری پہلی ملاقات میں کہا تھا کہ میں نے خاموش رہ کر اپنے پیشے سے غداری کی ہے تو یہ سمجھ لو کہ مجھے اپنے پیشے سے انصاف کرنا ہے ۔تم کیس کو ری اوپن کرنے کی عرضی دو میں تمہاری طرف سے تمہارا کیس لڑنے کے لئے تیار ہوں ۔” عبدالقیوم کے لہجے سے دبا دبا جوش ظاہر ہو رہا تھا ۔
” آپ کو معلوم ہے نا کہ پپّا کے قتل کا کوئی ثبوت اپنی اصل حالت میں موجود نہیں ہے ۔اور میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے میں انہیں انصاف دلا سکوں۔”انکے برعکس اسکے لہجے میں کوئی جوش نہیں تھا۔مایوسی اپنی چادر پھیلائے اسے اپنے حصار میں لے چکی تھی ۔
“کوئی نا کوئی طریقہ ضرور ہوگا بیٹا۔آج سے پہلے تم نے اس کیس کو عدالت میں لے جانے کے متعلق نہیں سوچا ہوگا ۔مگر جب اس نظریے سے ہم دوبارہ تفتیش شروع کرینگے تو ثبوت بھی ملیگا اور گواہ بھی ملیگا۔” انہوں نے کہا تو حسن مجتبٰی کے ذہن میں جویریہ کا تصور آیا تھا ۔وہ گواہ بن سکتی تھی مگر پھر اس نے اپنا سر جھٹک دیا۔وہ جانتا تھا کہ وہ اسکے لئے کبھی تیار نہیں ہوگی۔
” آپ بھی کوشش کر کے دیکھ لیں ۔مجھے تو کوئی امید نہیں نظر آ رہی ہے ۔”وہ بد دلی سے کہتا کھڑا ہو گیا ۔
– – – – – – – – –