ٹرتھ مرر سے باہر نکل کر اپنے دونوں ہاتھ جینز کی جیبوں میں ڈالے وہ اسی طرح بے مقصد فٹ پاتھ پر بس چلتا جا رہا تھا ۔کسی راہی کی طرح جو اپنا راستہ بھول گیا ہو یا کسی فارغ آوارہ گرد کی طرح جسکا مقصد بس سڑکیں ناپنا ہوتا ہے، نہ کہ کسی منزل تک پہنچنے کی لگن نا کسی نشان تک آنے کی دھن۔کاش وقت سات برس پیچھے چلا جائے وہ اُس دن میں واپس جا کر انابہ کو اپنے وعدے کی زنجیر سے باندھ آئے۔کاش وہ اس دن یونہی سلمان منزل سے واپس نہ آ گیا ہوتا۔اسنے اس لمحے کو اپنی مٹھی سے ریت کی طرح پھسلنے دیا تھا جب وہ اور انابہ ایک دوسرے کے زیادہ قریب تھے، جب ان دونوں کے درمیان کوئی وکی نہیں تھا۔اسنے گہرے ملال میں اپنا سر جھٹکا۔اسکا دل چاہ رہا تھا کہ اس وقت وہ پوری دنیا کو آگ لگا دے۔اور کرہ ارض اسکی دوستی، محبت، جذبات اور ناکامی و نامرادی سمیت جل کر خاک ہو جائے۔تہی دامنی اسکے حصے میں ہی کیوں آتی ہے؟ اسنے رک کر شکوہ کرتی نظروں سے آسمان کو دیکھا ۔سیاہ بادلوں نے سورج کو پوری طرح گرفتار کر لیا تھا ۔وہ چلتا ہوا تھکے تھکے انداز میں اسٹریٹ لائٹ کے پاس بنی سنگی بینچ پر بیٹھ گیا ۔دونوں کہنیاں گھٹنے پر ٹکائے اور ہتھیلیوں میں اپنا سر تھامے وہ سارے زمانے سے ہارا ہوا لگتا تھا ۔اسنے اپنی زندگی صفر سے شروع کی تھی ۔انابہ اسکی زندگی کا عروج تھی۔اسے عروج تک پہنچنا تھا ۔اسے عروج کی خواہش تھی۔مگر ایک جھٹکے میں زندگی زوال پذیر ہو کر پھر صفر تک جا رہی تھی ۔عروج بہت دور نظر آ رہا تھا ۔وہ شاید کسی اور کا مقدر تھا ۔اس نے ہتھیلیوں پر رکھا اپنا سر اٹھایا اور اپنے ہاتھ کی لکیروں کو دیکھا ۔ان لکیروں میں انابہ تھی بھی یا نہیں؟ بارش کی پہلی بوند اسکی ہتھیلی پر گری۔پھر دوسری بوند اور پھر تیسری۔دیکھتے ہی دیکھتے اسکی ہتھیلی گیلی ہو گئی۔وہ کیوں ان لکیروں کا پابند رہے؟ اسے تمام بند راستوں میں سے اپنا راستہ خود تلاش کرنا ہے ۔اسے اندھیری گلی میں چراغ جلا کر منزل تک پہنچنا ہے ۔اسنے دائیں ہاتھ کی مٹھی بند کی۔مگر انابہ تک جانے کا راستہ کون سا تھا؟ راستہ کہاں تھا؟ اسنے بھیگے بالوں پر مضطربانہ انداز میں ہاتھ پھیرا۔راستہ یہیں تھا… اسکے سامنے… اسکی دسترس میں… مگر فیصلہ کرنا دشوار ترین تھا۔اسنے بائیں جیب کو تھپتھپا کر پین ڈرائیو کو محسوس کیا اور وہ دو دن پیچھے چلا گیا تھا ۔جب رات کے قریب گیارہ بجے وہ اپنے کمرے میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا ۔
– – – – – – – – – –
اسکے کمرے میں دستک دینے کے بعد کریم یزدانی اندر داخل ہو رہے تھے ۔انہیں اندر آتا دیکھ کر اسنے پلیٹ کنارے رکھی اور ٹشو پیپر سے ہاتھ صاف کرتا کھڑا ہو گیا ۔اسے بیٹھنے کا اشارہ کر کے وہ اسکے سامنے بیڈ پر بیٹھ گئے ۔افہام نے متذبذب نظروں سے انہیں دیکھا ۔وہ جانتا تھا کہ وہ اسکے کمرے میں اسکی خیریت دریافت کرنے کے لئے تو نہیں آ سکتے۔
“اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟” انہوں نے اسکی جانب ٹیبلٹ بڑھایا جسکی اسکرین پر افہام کمپیوٹر کے سامنے کھڑا نظر آ رہا تھا ۔افہام نے لب بھینچے ایک نظر اسکرین پر ڈالی۔
“ہاں یہ میں ہی ہوں ۔” اسنے خود اعتمادی کے ساتھ جواب دیا ۔کریم یزدانی جو اسکی وضاحتوں اور اڑی رنگت کے منتظر تھے اسکے جواب پر حیران رہ گئے ۔
“فہد ندیم کے بیٹے کو کہہ دینا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔” اپنی حیرت پر قابو پا کر انہوں نے کہا۔افہام کے لبوں پر استہزائیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
“کیا کرینگے ماموں آپ؟ اس دفعہ آپ حسن مجتبٰی کی بہن کو اغوا کر لینگے اور اسکے ذریعے حسن سے آپ اپنی فائل حاصل کرینگے۔پھر چونکہ وہ آپکا راز جان چکا ہوگا اسلئے آپ اسے قتل کر دینگے اور مجھے اسکے قتل کے الزام میں فریم کر دینگے کیونکہ اسنے میری ہی مدد سے آپ کے راز حاصل کئے ہیں ۔مگر اس دفعہ نئی تاریخ رقم ہوگی۔اس دفعہ آپ ہم دونوں کو توڑ نہیں پائینگے۔اس بار آپکا غرور ٹوٹیگا، آپکا پندار فنا ہوگا اور آپکے جرائم دنیا کے سامنے ہونگے ۔ہاں مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ مجھے شرم سے سر جھکا کر کہنا ہوگا کہ آپ میرے ماموں ہیں ۔”اسنے تنفر سے کہتے ہوئے اپنا سر جھٹکا۔
” اتنی بڑی بڑی باتیں مت کرو افہام حیدر! بغیر خونی کھیل کھیلے ہوئے بھی میں اپنا ڈیٹا حاصل کر سکتا ہوں ۔مگر تم اتنی بڑی باتیں مت کرو ۔بات جب اپنی بقا کی آتی ہے، جب خود کے لئے لڑنے کی آتی ہے تو انسان وہ سب کچھ کر گزرتا ہے جو اسنے کبھی سوچا بھی نا ہو۔تم پر بھی ایسا وقت آئے اور تم اپنی غرض کو پس پشت ڈال کر فیصلہ لو تب میں تمہیں دیکھونگا ۔”
” میں آپکی طرح نہیں ہوں۔”اسنے تندی سے کہا۔
” اٹھارہ سال… اٹھارہ سال تم نے یزدانی مینش میں ہمارے درمیان رہتے گزارے ہیں تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ تم میری طرح نہیں ہوگے؟ “انہوں نے ہاتھ بڑھا کر اسکا شانہ تھپکا۔
” میں آپکا یہ اندازہ غلط ثابت کر دونگا۔”اسنے مضبوط لہجے میں کہا ۔
” خیر…” انہوں نے گہری سانس لی۔” میں تمہیں اس وقت کچھ حقائق دکھانے آیا ہوں ۔تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو اس سے تمہیں کیا حاصل ہوگا؟ میں جانتا ہوں کہ تمہیں اپنے باپ کی پراپرٹی واپس چاہیے مگر یاد رکھنا جب مجھ پر کیس چل رہا ہوگا تو میری ساری پراپرٹی سمیت تمہارے باپ کی پراپرٹی بھی ضبط کر لی جائیگی ۔کیس سالوں چلتا رہیگا اور تمہارے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا۔ہاں ان سب چیزوں میں اگر کسی کو فائدہ ہوگا تو وہ تمہارا دوست ہوگا ۔انتقام اسکا پورا ہوگا، شہرت اسے ملیگی،میڈیا میں عزت اسکی بڑھیگی ۔تمہیں کیا ملیگا افہام؟ “وہ ایک ایک کر کے اسکے سامنے پتے پھینک رہے تھے ۔
” آپ کیا چاہنا چاہتے ہیں؟ “اسنے الجھتے ہوئے پوچھا ۔
” تم میری مرحومہ بہن کے بیٹے ہو۔میرا خون ہو۔اسلئے تم سے تمہارے فائدے کی بات کر رہا ہوں ۔وہ فائل مجھے دے دو اور میں وہ سب کچھ تمہیں دونگا جو تم چاہتے ہو ۔اور ہاں میں سلمان سے تمہارے لئے انابہ کا رشتہ مانگنے خود جاؤنگا۔اسے پسند کرتے ہو نا تم۔”ترپ کا پتہ پھینکا گیا تھا ۔افہام جھٹکے سے کھڑا ہو گیا ۔اپنے لرزتے ہوئے ہاتھوں کی مٹھیاں بند کر کے وہ انکی طرف مڑا۔
” میں آپکی طرح نہیں ہوں ماموں ۔”اسکے لہجے میں استقلال تھا۔
– – – – – – – – –
بارش مزید تیزی سے ہونے لگی تھی ۔وہ پوری طرح بھیگ چکا تھا ۔زندگی میں ہم کئی دفعہ ایسے موڑ پر آ جاتے ہیں جہاں ہمیں آگے یا پیچھے جانے کے لئے محض ایک فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔ایک مشکل اور دشوار فیصلہ پوری زندگی بدل دیتا ہے ۔افہام حیدر کھونے اور پانے کے درمیان کھڑا تھا۔اسے بھی ایک فیصلہ کرنا تھا۔اور اسنے وہ فیصلہ کر لیا تھا۔
– – – – – – – – – – –
پھولوں سے ڈھکے اس سادہ ریستوران میں گھڑی اس وقت سات بجا رہی تھی ۔ہال میں پھیلی بھینی بھینی مختلف پھولوں کی خوشبو اور نیم روشن لائٹس ماحول کو خوابناک بنا رہی تھیں ۔بے شمار گلابی کور والی سفید میزوں اور اسکے گرد لگی کرسیوں میں سے قدے گوشے میں واقع اس میز پر حسن مجتبٰی ابھی ابھی آ کر بیٹھا تھا ۔ہاتھ میں پکڑے دفتی کے چھوٹے سے شاپر کو اپنے پیروں کے پاس رکھ کر اسنے دونوں کہنیاں میز پر رکھ لیں ۔کھڑے کالر والی سفید شرٹ کی آستینیں کہنیوں تک فولڈ کئے اور اس پر سیاہ جینز پہنے گہری بھوری آنکھوں والے حسن مجتبٰی کو ہزاروں لڑکیاں ایک دفعہ رک کر ضرور دیکھتی تھیں ۔مگر وہ آج اپنے دل میں سنبھال کر رکھے قیمتی جذبات کو صرف ایک لڑکی کے نام کرنے آیا تھا ۔اسنے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی ۔سوا سات بجے رہے تھے ۔انابہ نے آٹھ بجے آنے کا وعدہ کیا تھا ۔ایک جھینپی مسکراہٹ اسکے لبوں پر پھیل گئی ۔وہ ایک گھنٹے پہلے ہی وہاں آ گیا تھا ۔
‘سلمان منزل’ کی سفید ماربل والی سیڑھیاں چڑھنے کے بعد جو پہلا کمرہ پڑتا تھا وہ انابہ سلمان کا تھا۔اپنے کمرے میں وہ آئینے کے سامنے کھڑی ٹاپس پہن رہی تھی ۔ٹاپس پہن کر اسنے اپنے کندھے تک آگے بالوں پر برش پھیرا اور آئینے میں دیکھا ۔گرے لمبی قمیض اور پلازو میں ملبوس اسکا وجود آئینے کو سر جھکا کر داد دینے پر مجبور کر گیا تھا ۔آئینے کے سامنے سے ہٹتے ہوئے اسنے وال کلاک پر نظر ڈالی۔سات بج چکے تھے ۔ایک خوبصورت مسکراہٹ اسکے لبوں پر ٹھہر گئی۔اس نے اس سے آٹھ بجے ملنے کا وعدہ کیا تھا ۔اس دفعہ کی سالگرہ بے حد خاص تھی۔اسنے اپنی برتھ ڈے پارٹی بھی کینسل کر دی تھی۔اپنی پیشانی پر گرنے والے بالوں کو اسنے شہادت کی انگلی سے پیچھے کیا اور اپنے موبائل کی جانب متوجہ ہوئی جس پر پے در پے کئی میسج آ رہے تھے ۔صوفے پر بیٹھتے ہوئے اسنے موبائل آن کیا۔اسکرین پر جوں جوں اسکی نظر پھسلتی گئی اسکے چہرے کا رنگ بدلتا گیا تھا ۔پہلے بے یقینی پھیلی، پھر مزید بے یقینی ۔ایک شاک کی کیفیت میں موبائل اپنی گود میں رکھتے ہوئے اسنے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا۔جھکا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا تھا ۔
موبائل اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے افہام حیدر سفید دیواروں اور گولڈن پردے والے کمرے میں داخل ہوا جہاں سینٹر صوفے پر بیٹھے کریم یزدانی اسکا انتظار کر رہے تھے ۔وہ مضمحل قدموں سے چلتا انکے بائیں ہاتھ والے صوفے پر بیٹھ گیا ۔اسکا چہرہ ستا ہوا تھا اور آنکھوں کے گرد حلقے تھے جیسے کئی راتیں اس نے جاگ کر گزاری ہوں ۔کریم یزدانی اپنے سامنے رکھی فائلوں پر یکے بعد دیگرے سائن کرتے جا رہے تھے اور وہ تھوڑی تلے ہاتھ رکھے اداس نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا ۔ان فائلوں میں اسکی قسمت تھی، اسکا عروج تھا ۔سائن کرنے کے بعد انہوں نے فائل اسکی جانب کھسکائی۔شرٹ کی جیب میں اٹکے پین کو نکال کر وہ لرزتے ہوئے ہاتھوں سے فائل پر دستخط کرنے لگا۔ہر دستخط کے ساتھ وہ کسی کو کھونے کے قریب ہو رہا تھا ۔ہر فائل کے ساتھ وہ کسی کو پانے کے قریب پہنچ رہا تھا ۔جو وہ کھو رہا تھا وہ زیادہ قیمتی تھا یا جو وہ پا رہا تھا وہ زیادہ انمول تھا ۔سر جھٹک کر وہ اور تیزی سے سائن کرنے لگا۔
حسن مجتبٰی نے اپنی رسٹ واچ پر نظر ڈالی ۔آٹھ بس بجنے والے ہی تھے۔اسنے یونیفارم میں پھرنے والے ویٹر کو اشارہ کیا ۔ویٹر نے ایک چھوٹا مگر خوبصورت چاکلیٹ اسفنج کیک لا کر میز پر رکھ دیا تھا۔رسٹ واچ پر ایک مرتبہ پھر نظر ڈالنے کے بعد وہ منتظر نظروں سے داخلی دروازے کی جانب دیکھنے لگا۔وہ پوری شدت سے انابہ سلمان کا انتظار کر رہا تھا ۔انتظار کا لمحہ صبر آزما بھی ہوتا ہے اور بہت خوبصورت بھی ۔
فرش پر بیٹھی انابہ کا سر صوفے پر ٹکا ہوا تھا ۔آنکھیں دیر تک رونے سے بے تحاشا سرخ ہو چکی تھیں ۔ان سرخ آنکھوں میں زخمی محبت کی کرچیاں بے طرح تکلیف سے رہی تھیں ۔اسنے اپنے بائیں پہلو پر ہاتھ رکھا۔دل میں شدت کا درد ابھرا تھا۔صحیح کہتی تھی ریشم کہ اسے حسن مجتبٰی کے نام پر بیوقوف بنانا بہت آسان ہے ۔حسن مجتبٰی نے بھی یہی کہا۔اسے بیوقوف پر بیوقوف بناتا گیا اور وہ پاگلوں کی طرح آنکھیں بند کر کے اسکی ہر بات پر عمل کرتی گئی، اس پر اعتبار کرتی رہی۔وہ اسکے لئے کبھی کچھ تھی ہی نہیں ۔وہ اسکے سامنے محض ایک آلہ کار کی حیثیت رکھتی تھی۔وہ بس اپنے مقصد کے لئے اسے استعمال کر رہا تھا ۔دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں سے بالوں کو جکڑتے ہوئے وہ ایک دفعہ پھر رونے لگی تھی ۔
افہام حیدر کپکپاتے ہاتھوں سے سفید کور والی پین ڈرائیو کریم یزدانی کی طرف بڑھا رہا تھا ۔انہوں نے مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ سے پین ڈرائیو لے کر اسے میز کی دراز میں ڈال دی۔کل صبح اٹھتے ہی سب سے پہلے جو کام انہیں کرنا تھا وہ اس پین ڈرائیو سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا۔
“مبارک ہو افہام! آج سے تم ڈی ڈی کمپنی کے پچیس فیصد شئیر کے مالک ہو گئے ہو اور ساتھ ہی تمہاری شرط کے مطابق میں نے تمہارے باپ کی پراپرٹی بھی تمہیں واپس کر دی ہے ۔” انہوں نے اسے کہا تھا۔وہ بغیر کچھ جواب دئیے کھڑا ہو گیا تھا ۔
“ایک منٹ رکو!” انہوں نے اسے روکا اور صوفے سے اٹھ کر اسکے قریب آئے۔
” کل ڈی ڈی کمپنی کا سویرا نئے سی ای او کے ساتھ ہوگا! یہ تمہارے لئے میری جانب سے ایک تحفہ ہے ۔”انہوں نے اسکا شانہ تھپکتے ہوئے کہا ۔افہام بے بے یقینی سے انکی جانب دیکھا۔پوری دنیا اسکے قدموں میں لا کر ڈالی جا رہی تھی ۔عروج کی خواہش تھی اور عروج اب اسکی مٹھیوں میں تھا۔زندگی ایک خوبصورت خواب کی مانند لگ رہی تھی۔اگر یہ خواب تھا تو وہ ساری عمر اسی خواب میں گزارنا چاہتا تھا ۔سب کچھ تو اسکی دسترس میں آ ہی چکا تھا۔مگر….. ہر دفعہ ساری سوچیں اسی ‘مگر’ ہر جا کر کیوں ختم ہو رہی تھیں؟
حسن مجتبٰی کی بے قرار نگاہیں بار بار داخلی دروازے کا طواف کر رہی تھیں ۔نو بج چکے تھے اور انابہ اب تک نہیں آئی تھی ۔پریشانی اور اضطراب اسکے چہرے سے جھلک رہا تھا ۔انابہ کا بند جاتا فون اسے مزید فکر مند کر رہا تھا ۔اپنے پیروں کے پاس رکھا شاپر اٹھا کر اسنے میز پر رکھا اور موبائل اٹھایا ۔انتظار کی حد ختم ہو چکی تھی اور اب وہ انابہ کہ خیریت کے لئے فکر مند ہو رہا تھا ۔وہ افہام کا نمبر ملانے جا رہا تھا کہ اس پر انابہ کی کال آنے لگی ۔چہرے کا اضطراب تھوڑا کم ہوا اور دل کی دھڑکین معمول پر آئی تھیں ۔
“ہیلو انابہ؟” اسنے موبائل کان سے لگایا ۔
“آبش سے آپکا کیا تعلق تھا؟” دوسری جانب سے انابہ کی بھرائی آواز آئی تھی ۔حسن کو ایک لمحے کے لئے واقعی کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا ۔
“انابہ تم کہاں ہو؟ تم ٹھیک تو ہو نا؟”
“مجھے میرے سوالوں کے جواب دیں۔آبش اپنی شادی پر اسلئے تاخیر سے پہنچی تھی کیونکہ وہ آپ کے ساتھ شادی کرنے کے لئے پارلر سے چلی گئی تھی نا؟” وہ اسکے جملے کو قطعی نظر انداز کرتی ہوئی بولی۔
“انابہ…..” وہ اکسے سوال پر اتنا شاکڈ رہ گیا تھا کہ کچھ کہہ ہی نہیں سکا۔
” ہاں یا ناں… آسان سا سوال ہے اور جواب بھی ایک لفظی ہے۔مجھے بتائیں کیا اپنے فادر کا انتقام لینے کے لئے آپ ڈی ڈی کمپنی کو الٹنا چاہتے تھے؟اور انکل کو دنیا کے سامنے رسوا کرنے کے لئے آپ نے ایک معصوم لڑکی کے جذبات کا استعمال کر کے اسے اتنا بڑا قدم اٹھانے پر مجبور کیا تھا؟ اور… اور محض اپنے انتقام کے لئے آپ نے داور کو گرفتار کرانے کے لئے میرا استعمال چارے کے طور پر کیا تھا نا؟ مجھے صرف ہاں یا نہیں میں جواب دیں۔”وہ اس پر ایک ایک کر کے فرد جرم عائد کرتی گئی۔وہ اتنے سارے الزامات کا جواب ایک لفظ میں کس طرح سے سکتا تھا؟
” انابہ! اس طرح فون پر بات نہیں سمجھائی جا سکتی ہے ۔تم مجھے بتاؤ کہ تم کہاں ہو؟ میں وہاں آ جاتا ہوں ۔ہم بیٹھ کر سکون سے بات کرینگے۔”وہ اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
“مجھے صرف ہاں یا نا میں جواب چاہیے حسن مجتبٰی!” وہ مزید بھڑک گئی۔”اگر آپ نے انکار کیا تو پھر میں آپ سے کوئی سوال نہیں کرونگی۔”
” میں تمہیں سب کچھ بتانے والا تھا ۔ایک دفعہ معاملہ حل ہو جاتا تو میں تمہیں سب کچھ بتا دیتا۔ایک دفعہ میری بات سن لو۔کیا مجھے صفائی کا بھی موقع نہیں مل سکتا؟ “اسے صفائیاں دینے سے نفرت تھی اور آج تک اس نے اپنے کسی فعل کی صفائی پیش نہیں کی تھی۔اسلئے انابہ کو وضاحتیں کرتا وہ چڑ رہا تھا ۔ناراض ہو رہا تھا ۔اٹک رہا تھا ۔
” بس کر دیں۔اگر آپ کو واقعی میری پروا ہوتی تو آپ نے مجھے کبھی اندھیرے میں نہیں رکھا ہوتا ۔یو نو واٹ! مجھے لگتا ہے کہ آپ نے آبش کی طرح میرے بھی جذبات کا استعمال کیا ہے ۔اگر میں ہیکر نا ہوتی، آپکی مدد کرنے کے قابل نا ہوتی ۔میں صرف ایک عام سی لڑکی ہوتی تو آپ تو میری طرف دیکھتے بھی نہیں ۔” اسکے لہجے میں بدگمانی اور بے اعتباری انتہا کی تھی ۔
” انابہ! تمہیں مجھ پر زرا سا بھی اعتبار نہیں ہے؟ “اسنے بے بسی سے پوچھا۔اگر فون کے دوسری طرف انابہ کے بجائے کوئی اور ہوتا تو وہ ایک لمحے کے لئے بھی اسکی بکواس نا سنتا۔مگر اس لمحے اسکا دل یہی چاہ رہا تھا کہ ابھی جا کر ماتھے پر کٹے بالوں والی کے دل سے اپنے لئے موجود ساری بدگمانیاں مٹا ڈالے ۔
” میں اعتبار کرتی تھی تب ہی اتنی آسانی سے دھوکہ کھا گئی۔” انابہ نے بکھرے لہجے میں کہا ۔
“ہم مل کر بات کرتے ہیں ۔” اسنے اسکی طرف صلح کا سرا بڑھایا۔
“ہم اب کبھی نہیں ملینگے۔” ایک جھٹکے سے رشتے توڑے گئے۔
“انابہ! ایک دفعہ مجھ سے مل لو۔” التجا کی گئی۔
“میں اب آپ سے ملنا ضروری نہیں سمجھتی ۔”التجا بے دردی سے ٹھکرائی گئی۔
اپنی بالکونی میں کھڑا افہام ریلنگ سے ٹیک لگائے اندھیرے میں نا جانے کیا تلاش کر رہا تھا ۔شاید اپنے فعل کی وضاحت یا اپنے عمل کی توجیح۔وکی کے پاس محبت کرنے والے بہت سارے لوگ ہیں. اسکا سپورٹ کرنے والی اسکی فیملی ہے، کرنل صفدر ہیں، اسکی بچپن کی دوست الماس ہے۔معاشرے میں اسکی عزت ہے، اسکا مقام ہے ۔ایک دنیا اسے جانتی ہے، ایک دنیا اسے پہچانتی ہے۔مگر وہ تو بالکل تنہا تھا۔محبت کرنے والے رشتوں کے نام پر خالی ہاتھ، خالی دامن۔انابہ اسے ملنی چاہیے تھی۔انابہ کی ضرورت اسے تھی۔اپنا مقام اسے بھی بنانا تھا۔کامیابی اسے بھی چاہیے تھی ۔دوستی اور محبت میں محبت کا انتخاب کر کے وہ مطمئن تھا یا غیر مطمئن، پر سکون تھا یا بے سکون۔یہ فیصلہ کرنا افہام کے لئے بھی مشکل تھا۔
موبائل فرش پر رکھے دونوں گھٹنوں کو موڑے اس پر اپنا سر رکھے انابہ کی سسکیاں اندھیرے کمرے میں گونج رہی تھیں ۔
لبوں کو کاٹتے ضبط سے سرخ ہوتی آنکھوں کے ساتھ حسن مجتبٰی ریسٹورنٹ سے نکل کر اپنی کار کی طرف جا رہا تھا ۔
– – – – – – – – – – –