کریم یزدانی صوفے پر بیٹھے اپنا موبائل دیکھ رہے تھے جب آبش نے دروازہ کھولا ۔انہوں نے اپنا سر اٹھا کر اسے دیکھا اور مسکرانے کی کوشش کی ۔وہ اپنے ہاتھ میں کافی کی ٹرے لئے صوفے تک آئی۔ٹرے میز پر رکھ کر وہ انکے ساتھ ہی بیٹھ گئی تھی۔
“ڈیڈی! آپ پریشان ہیں؟” اس نے کافی کا کپ انکی طرف بڑھایا۔
اثبات میں اپنا سر ہلاتے ہوئے انہوں نے موبائل کی اسکرین اسکے سامنے کی جس میں اندھیرے کمرے میں افہام حیدر کمپیوٹر کے پاس جھکا کھڑا تھا۔وہ مال وئیر انسٹال کرتے ہوئے فوٹو فریم کے اوپر لگے خفیہ کیمرے میں قید ہو چکا تھا ۔
” یہ یہاں کیا کر رہا ہے؟” آبش نے حیرانی سے کہا۔
“یہ لڑکا…” انہوں نے مٹھیاں بھینچ کر غصے کو دبانے کی کوشش کی ۔”یہ لڑکا کمپنی کا سارا ڈیٹا چرا کر جا چکا ہے ۔میں کبھی یہ اندازہ نہیں لگا پایا کہ اس لڑکے میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ مجھے دھوکہ دینے کی کوشش کرے۔اسے میں نے کیا نہیں دیا ۔اسے اپنے گھر میں اپنے خاندان کا حصہ بنا کر رکھا، تعلیم دی، اچھی زندگی دی مگر وہ میری ناک کے نیچے میرے خلاف سازشیں کرتا رہا اور میں بے خبر رہا۔”شدید غصے نے انکے چہرے کے زاویے بگاڑ دئیے تھے۔
” ڈیڈی! مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے۔”آبش نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا ۔
” آبی! ابھی میں تمہاری کوئی پرابلم نہیں سن سکتا کیونکہ تم خود دیکھ رہی ہو کہ فی الحال میری زندگی کتنی مشکل میں پھنسی ہوئی ہے ۔این سی پی پارٹی اپوزیشن میں آ گئی ہے ۔داور جیل جا چکا ہے ۔اس افہام نے میری نیند اڑا دی ہے ۔تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے کہ وہ میرے ڈیٹا کو کس طرح استعمال کر سکتا ہے۔میرے خدا میں کیا کروں؟ “انہوں نے پریشانی سے کہا۔
” میں آپ کو جو بتانا چاہتی ہوں وہ بھی بہت اہم ہے ۔آپ ایک دفعہ میری بات سن لیں ۔”اسنے کہا تھا۔اسکے چہرے پر بھی الجھن تھی جیسے اسے اندازہ نہیں تھا کہ کریم پر اسکی بات کا رد عمل کیا ہوگا۔
” بولو میں سن رہا ہوں لیکن پلیز وہ بات کم از کم تمہارے شوہر کی شکایت نہیں ہونی چاہیے ۔”وہ بادل ناخواستہ تیار ہوئے ۔
” میری شادی کے وقت… “وہ ہچکچائی۔
“آبی میرے پاس وقت بالکل نہیں ہے ۔ابھی آدھے گھنٹے بعد میں یہاں سے نکل جاؤنگا ۔مجھے فلائٹ لینی ہے ۔”
“ڈیڈی میں اپنی شادی کے دن کسی دوست کو دیکھنے ہاسپٹل نہیں گئی تھی۔”اسنے رک رک کر بتایا۔
” تو پھر کہاں تھیں تم؟” وہ حیران ہوئے۔
” میں… اس… اس دن…” وہ ہکلانے لگی۔
“کہاں گئیں تھیں تم؟ “انکی آواز بلند ہو گئی۔
آبش نے سر جھکائے بغیر ان سے آنکھیں ملائے ساری بات بتا دی تھی۔”ڈیڈی! مجھے حسن مجتبٰی نے ایسا کرنے کو کہا تھا اور میں نے یہ بات افہام سے بھی ڈسکس کی ۔اسنے کہا کہ اگر وہ میرے لیے اتنا سنجیدہ ہے تو مجھے بھی اسکا ساتھ دینا چاہیے ۔آئی ایم سوری! مجھے معاف کر دیں ۔مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی تھی ۔” وہ رونے لگی۔
انکے اوپر اسکے آنسوؤں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔” حسن مجتبٰی… وہ رپورٹر؟ تم نے اُس وقت مجھے یہ سب کیوں نہیں بتایا؟ “وہ چیخے ۔
” میں بہت ڈر گئی تھی ۔مجھے افہام نے دھمکیاں دی تھیں کہ اگر میں نے اس بارے میں کسی کو کچھ بتایا تو پھر میرے لیے اسکے نتائج اچھے نہیں ہونگے۔اگر اس وقت میں نے اسکی بات نا مانی ہوتی تو آج ہم سر اٹھانے کے قابل نہیں ہوتے ڈیڈی۔”وہ ہنوز روتی ہوئی بولی۔
” اوکے… جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے ۔”انہوں نے خود پر قابو پا کر اسکا شانہ تھپکا۔” تم جاؤ۔میرا دماغ چکرا کر رہ گیا ہے ۔میں سکون سے کچھ سوچنا چاہتا ہوں ۔”انہوں نے اسے جانے کا اشارہ کیا ۔وہ لرزتے قدموں سے اٹھ کر باہر چلی گئی تھی ۔اسکے جاتے ہی کریم پاگل ہونے لگے۔انکا دل چاہ رہا تھا کہ ابھی جا کر وہ اس لڑکے کو شوٹ کر دیں ۔پورا کمرہ حبس زدہ ہونے لگا تھا۔کھڑکی سے پردے ہٹاتے ہوئے انہوں نے سلائیڈز کھولے اور چہرے کا رخ کھڑکی کی جانب کر کے گہری گہری سانسیں لیں۔یوں جیسے تازہ آکسیجن لینا چاہ رہے ہوں ۔پر تپش دھوپ میں لپٹی گرم ہوا انکے چہرے سے ٹکرائی۔مگر وہ اسی طرح کھڑے رہے۔پچھلے کچھ مہینوں سے رونما ہونے والے واقعات بری طرح انکے ذہن میں چکرانے لگے۔آبش کی ان سے کی گئی گفتگو، داور کا اچانک گرفتار ہونا اور اسکی وجہ افہام کا ہونا۔انہوں نے افہام کے کہنے پر ہی ایس پی کو اسکے ساتھ بھیجا تھا ۔اور یہ چیز انہیں بعد میں معلوم ہوئی کہ انابہ کے ساتھ معروف رپورٹر حسن کو بھی وہاں سے ریسکیو کیا گیا تھا ۔ان دو واقعات میں مماثلت حسن اور افہام کی بلا واسطہ یا بالواسطہ شمولیت تھی۔اسکے بعد این سی پی پارٹی کا الیکشن ہار جانا اور وہ لوگ مسلسل یہی کہہ رہے تھے کہ انکی ہار کی وجہ حسن مجتبٰی ہے۔اور اب کمپنی کا سارا ڈیٹا لیک ہو چکا تھا اور لیک کرنے والا کوئی دوسرا نہیں افہام ہی تھا۔انکے سامنے پزل کے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے ۔افہام اور حسن مجتبٰی میں کیا تعلق ہو سکتا تھا؟ ان دونوں کا مقصد انہیں غیر واضح نظر آ رہا تھا ۔اس جگسا پزل کے کچھ ٹکڑے غائب تھے اور وہ انہیں ڈھونڈ کر پزل کو پورا کرنا تھا۔کھڑکیاں بند کرتے ہوئے وہ واپس صوفے تک آئے اور موبائل پر نمبر ملایا۔
“ہیلو؟ مجھے حسن مجتبٰی کی ڈٹیلس چاہیے ۔ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ۔اور ہاں ساتھ میں اسکا افہام سے کیا تعلق ہے، اسکا جواب بھی مجھے واضح چاہیے ۔ایک گھنٹے کے اندر۔فوراً ۔” انہوں نے تحکمانہ لہجے میں کہا تھا۔
– – – – – – – – – – –
فرنچ ونڈو کے سامنے سے پردے ہٹے ہوئے تھے۔بادلوں سے لکا چھپی کرتے سورج کی نرم شعائیں شیشے سے چھن کر اندر آ رہی تھیں ۔اپنی مخصوص میز پر بیٹھا حسن مجتبٰی اس وقت کافی ریلیکس تھا جیسے بہت عرصے بعد عجلت بھری زندگی سے لمحے بھر کا سکون نصیب ہوا ہے ۔اسکی بھوری آنکھیں نرمی کا تاثر لئے اپنے سامنے بیٹھے افہام حیدر پر مرکوز تھیں جو اسکے برعکس تھوڑا مضطرب نظر آ رہا تھا ۔اسکے چہرے پر ذہنی انتشار تھا اور آنکھوں میں شدید الجھن ۔جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہوا مگر کچھ خیالات مانع آ رہے ہوں ۔
“افہام! اسے تم اپنے پاس رکھو ۔ایک ہفتے کے بعد میں اسے تم سے لے لونگا۔” اسنے سفید پین ڈرائیو اسکی جانب بڑھائی۔افہام نے پین ڈرائیو پکڑتے ہوئے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا ۔اس میں کریم یزدانی کے سلش اکاؤنٹ، پیپر کمپنی اور بلیک منی کا پورا کچا چٹھا تھا۔اور ساتھ ہی اس میں اس بات کے بھی ثبوت تھے کہ وہ عرصے سے اپنی انرجی ڈرنک میں ان اجزاء کا استعمال کر رہے ہیں جو انسانی صحت کے لئے مضر ہے ۔
“آر یو شیور یہ ساری فائلیں کام کرینگی؟” افہام نے استفسار کیا ۔
“ڈیم شیور۔” حسن مجتبٰی نے اپنا سر ہلایا۔”ایک ہفتے کے بعد تم ڈی ڈی کمپنی کو ٹوٹتے دیکھو گے اور کریم یزدانی اپنے سارے غرور اور طاقت کے ساتھ سلاخوں کے پیچھے ہوگا۔” یہ کہتے ہوئے اسکے لہجے میں انجانے میں ہی فتح کا زعم سما گیا ۔
” اسکے بعد کیا ہوگا؟” افہام نے پوچھا۔اسکے لہجے میں تجسس نہیں تھا بس ایک الجھن تھی۔
” تمہارے ماموں پر کیس چلیگا۔انکی ساری پراپرٹی سیز کر لی جائیگی۔انکے متعلق اور گہرائی سے تفتیش کی جائیگی تب میں اسد خان کے بیان والا ٹیپ تفتیشی ٹیم کو دونگا۔حکومت اس وقت میرے ساتھ ہے اسلئے انہیں سزا سے کوئی نہیں بچا پائیگا۔” وہ تفصیل سے بتاتا گیا۔افہام کی آنکھوں کی بے چینی مزید بڑھی۔
” ساری پراپرٹی سے تمہارا مطلب ہے کہ میرے پاپا کے فارم ہاؤز، پلاٹ اور فیکٹری جو انکے قبضہ میں ہیں وہ بھی سیز کر لی جائینگی؟ ”
” شاید ہاں…. مگر تم پریشان مت ہو۔زیادہ عرصہ نہیں لگیگا اور ہم یہ ثابت کر دینگے کہ متعلقہ پراپرٹی کے مالک وہ نہیں ہیں بلکہ تم ہو۔اور ان پروپرٹیز پر تصرف کے اختیارات تمہیں ایک ڈیڑھ سال کے اندر مل جائینگے ۔”اسنے تسلی دینے والے انداز میں کہا ۔
” تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ “افہام کے لہجے میں گلہ نہیں تھا بس ایک سوال تھا۔
” یار! کیوں پریشان ہو رہے ہو؟ اس چیز کی طرف پہلے میرا بھی دھیان نہیں تھا۔مگر میرا نہیں خیال کہ تمہیں اپنے وکی کے ہوتے اپنے مستقبل کے لئے فکرمند ہونا چاہیے ۔تمہیں مجھ پر اعتبار تو ہے نا؟ “حسن مجتبٰی کو افہام کی عدم اطمینانی نے پریشان کر دیا تھا۔
“پوری دنیا میں صرف تم پر ہی تو اعتبار کرتا ہوں ۔”اسنے جواب دیا ۔
اسکی بات سن کر وہ کھل کر مسکرایا ۔” سیم ہئیر۔اسی لئے پین ڈرائیو کو تمہارے پاس رکھنے کو دیا ہے کیونکہ کم از کم ایک ہفتے تک ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا ہے۔ممی اور پری کو میں نے شہر کے باہر بھیج دیا ہے تاکہ انکا استعمال کر کے کریم یزدانی مجھے پریشرائز نہ کر سکیں ۔میں اپنی فیملی کی حفاظت سے کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا ۔تمہیں پین ڈرائیو کو ایک ہفتے تک سنبھال کر رکھنا ہے ۔”
” اوکے! میں خیال رکھو گا۔”اسنے جواب دیا.” سنو وکی! مجھے…” وہ کچھ کہنا چاہتا تھا کہ حسن مجتبٰی نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا ۔
” اب باقی باتیں بعد میں ہونگی ۔”اسنے اسکی بات کاٹی اور اپنی راکنگ چئیر کو زرا سا پیچھے کھسکا کر میز کا ڈیسک کھولا تھا۔اور اس سے سیاہ مخمل کا کیس نکال کر میز پر رکھا ۔
“یہ کیا ہے؟ “افہام کے لہجے میں استعجاب تھا۔وکی نے مسکرا کر آنکھ سے اشارہ کیا جیسے کہہ رہا ہو کہ خود دیکھ لو۔
افہام نے دائیں ہاتھ سے ڈبہ اٹھایا اور بائیں ہاتھ سے اس پر لگے سرخ ربن کا سرا کھینچا ۔ربن کھلتے ہی کیس کا کَور کھل گیا تھا ۔اندر رکھے سنہری چین میں پرویا ڈائمنڈ شیپ کا لاکٹ اسے پل بھر کے لئے مبہوت کر گیا ۔
“امیزنگ!” اسنے بے اختیار ستائش کی۔”یہ کس کے لئے ہے؟” اسنے ڈبہ واپس بند کر کے اسے میز پر رکھا۔حسن مجتبٰی کے لبوں کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی اور بھوری آنکھوں میں چمک آئی۔
“انابہ سلمان کے لئے ہے۔” اسنے سادگی سے بتایا۔اور اسے یہ کہتے ہوئے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کسی کی دنیا پل بھر میں اندھیری کر چکا ہے ۔
“انابہ…انابہ سلمان کے لئے….” افہام کے لب کپکپائے۔
“ہاں… کہتے ہیں نا کہ اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے تحائف بہترین ذریعہ ہوتے ہیں ۔میں اسے اسکی سالگرہ پر پرسوں یہ تحفہ دینا چاہتا ہوں ۔مجھے معلوم ہے کہ یہ پینڈنٹ انابہ سے زیادہ خوبصورت تو نہیں ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ اسے یہ اچھا لگیگا۔” وہ اسکے جذبات سے بے خبر چمکتی آنکھوں سے کہے جا رہا تھا ۔افہام نے کانپتے ہوئے لب بھینچے اور وکی کو دیکھا۔اسکی بھوری آنکھوں کی چمک نظریں خیرہ کرنے والی تھیں ۔اسے یہ سمجھ نہیں آیا کہ سچے موتیوں کی چمک زیادہ ہوتی ہے یا وکی کی آنکھوں کی؟ وہ اس لمحے وکی کے چہرے پر نظر آنے والے جذبوں کو پہلی دفعہ دریافت کر رہا تھا یا پھر پہلے کبھی وہ پہچان ہی نہیں پایا تھا۔ جو بھی تھا حسن مجتبٰی کی آنکھوں سے جھانکتے سچے اور کھروں جذبوں نے افہام حیدر کی زندگی سے ساری مسرتوں کو چھین لیا تھا۔اسکی رنگت سفید ہوئی اور آنکھوں میں خالی پن اترنے لگا۔امیدیں اس طرح بھی کوئی توڑ سکتا ہے، خوابوں کو اس طرح بھی کوئی آنکھوں سے نوچ کر لے جا سکتا ہے یہ آج افہام نے پہلی دفعہ جانا تھا۔اور ان سب کا قصوروار کوئی دوسرا نہیں بلکہ اسکا جان سے عزیز دوست وکی تھا۔اس لمحے اسکا دل چاہا کہ وہ اسکے ہی کندھے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دے اور پوچھے کہ انابہ ہی کیوں؟ بچپن سے اسکے ہر مسئلے کو حل کرنا وکی کا کام تھا۔اسے تکلیف پہنچانے والی ساری چیزوں کو اس سے دور کرنا وہ اپنا فرض سمجھتا تھا ۔وہ اسکا ہم عمر تھا پھر بھی اسکا خیال رکھنا وہ اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا ۔تو آج اسکی زندگی کی واحد خوشی، اسکی محبت وہ کیوں چھین رہا تھا؟ کاش وہ ایک دفعہ افہام کی آنکھوں کو پڑھ لیتا کہ انابہ اسکے لئے کیا تھی؟
“میں اب جاؤں؟” وہ زرد رنگت کے ساتھ کھڑا ہوا۔
“اتنی جلدی…” حسن نے اسے چونک کر دیکھا۔”میں نے تو سوچا تھا کہ ہم اچھا سا لنچ ساتھ میں کرینگے۔”
“مجھے بھوک نہیں ہے ۔” اسنے کرسی دھکیلی۔
“افہام! کیا تم ٹھیک ہو؟” اسنے اسکی سرخ ہوتی آنکھوں کو بغور دیکھا۔
“اپنا کام کرو اور میری فکر چھوڑ دو۔” وہ آنکھیں چراتا دروازے کی جانب بڑھ گیا تھا ۔
– – – – – – – – – –
سات برس قبل:-
نیلی ٹی شرٹ اور کریم جینز میں ملبوس افہام حیدر ‘سلمان منزل’ کے لاؤنج میں کھڑا تھا۔اسکے ہلکے گیلے بال پیشانی پر گرے تھے اور چہرے پر کم عمری کا معصوم تاثر تھا۔اس نے دائیں ہاتھ میں سرخ گلاب کی ایک کلی پکڑی ہوئی تھی اور دوسرے ہاتھ میں پیک کیا ہوا ایک چھوٹا سا گفٹ۔آنکھوں میں ابھرتے پس و پیش کے ساتھ وہ سوچ رہا تھا کہ انابہ کے کمرے میں جائے یا نہیں ۔آج اسکی برتھ ڈے تھی اور اسلئے وہ اسے ایک خاص طریقہ سے وش کرنا چاہتا تھا ۔ساتھ ہی اسے بتانا چاہتا تھا کہ وہ کس طرح اسکی زندگی کا اہم ترین جزو بن چکی ہے ۔کیا پتہ وہ اسکی بات سے کیا نتیجہ اخذ کر لے یا پھر شاید ناراض ہو جائے ۔اوہو کوئی بات نہیں اگر وہ ناراض ہوگی تو وہ اسے منا لیگا۔انابہ سلمان کی ناراضگی دیر پا نہیں ہو سکتی تھی ۔اسنے سر جھٹک کر لاؤنج سے باہر جانے والے دروازے کا ہینڈل گھمایا اور اندر آتے سلمان ماموں سے ٹکرا گیا تھا ۔سنبھل کر افہام نے فوراً اپنا گلاب والا ہاتھ پیچھے کر لیا۔مگر اسکے چہرے کے بوکھلائے تاثرات انکی زیرک نگاہوں سے چھپ نہیں سکے تھے۔
“کیا چھپا رہے ہو؟” انہوں نے سخت تیوروں سے پوچھا تو وہ مزید گھبرایا ۔
“کک… کچھ نہیں ماموں ۔” وہ ہکلایا۔
“ادھر اپنا ہاتھ دکھاؤ مجھے ۔” انہوں نے کہا تو افہام نے اپنا گلاب والا ہاتھ آگے کیا اور ساتھ ہی اپنا سر بھی جھکا لیا تھا۔سلمان کی نظر گفٹ پر بھی پڑ چکی تھی ۔دونوں چیزوں کو اسکے ہاتھ سے چھیننے کے انداز میں لیتے ہوئے انہوں نے میز پر رکھا اور خود جا کر صوفے پر بیٹھ گئے ۔اور ساتھ ہی اسے بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا ۔افہام گردن نیچی کئے انکے سامنے بیٹھ گیا ۔اسکا دل بری طرح دھڑک رہا تھا خشک ہوتے لبوں کے ساتھ وہ انکا متوقع رد عمل سوچ کر ہی خوفزدہ ہو گیا تھا ۔
“یہ سب کیا ہے؟” انہوں نے میز پر رکھے گفٹ اور پھول کی طرف اشارہ کیا ۔
“ماموں! آج انابہ کہ برتھ ڈے تھی اسلئے میں نے سوچا کہ…” وہ ہمت کر کے وضاحتیں دینے لگا۔
“شٹ اپ افہام!” انہوں نے اسے جھڑک کر خاموش کرا دیا ۔”میں اس وقت صرف سچ سننا چاہتا ہوں ۔”
“میں سچ کہہ رہا ہوں ۔”اسنے دھیمے لہجے میں کہا ۔
“سر اونچا کر کے میری طرف دیکھو۔” انہوں نے کہا تو اسنے اپنا جھکا سر اٹھایا تھا۔
” انابہ کو پسند کرتے ہو تم؟” سلمان کے جملے نے افہام کے ہوش و حواس گم کر دئیے تھے۔وہ دوبارہ اپنا سر جھکا گیا۔رہی سہی ہمت بھی ختم ہو گئی تھی ۔
” اپنے جذبات کو اون کرنا سیکھو افہام حیدر! “انہوں نے تاسف سے اپنے بھانجے کو دیکھتے ہوئے کہا ۔اب انہوں نے گفٹ پیک اٹھا کر اسے کھولنا شروع کر دیا تھا۔اسکے اندر سے نکلے ایک کم قیمت کے بریسلٹ کو انہوں نے میز پر پھینکنے کے انداز میں رکھا ۔
“یہ دینا چاہتے ہو تم میری بیٹی کو۔اگر یہ محض سالگرہ کا ایک تحفہ ہوتا تو شاید قابل قبول تھا ۔مگر تمہارا یہ تحفہ ایک وعدے کی طرح ہے کہ تم اسے اپنی زندگی میں شامل کرنے کا وعدہ کر رہے ہو۔میری بیٹی ایسی چیزیں تو اپنے ملازموں کو بھی نہیں دیتی ہے ۔” انکے لہجے میں تحقیر تھی۔افہام کا جھکا سر مزید جھک گیا ۔اسنے بڑی دقتوں سے اس بریسلٹ کو خریدنے کے لئے پیسے جمع کئے تھے اور اسے بہت دل سے خریدا تھا۔اور ماموں کے سفاک الفاظ نے بے رحمی سے اسکے جذبات کا قتل کر دیا تھا۔
” تم اچھی طرح جانتے ہو کہ آنے والے سالوں میں انابہ کے مستقل کا فیصلہ مجھے ہی کرنا ہے اور میں ایک ایسے انسان کے ہاتھ میں اپنی بیٹی کا ہاتھ نہیں دے سکتا جو اسکی حیثیت کا نا ہو۔جو اسکے معیار کے مطابق زندگی دینے کے قابل نہ ہو۔جو اسکی خواہشیں کیا ضرورتیں تک نا پوری کر سکتا ہے ۔”وہ اسکی عزت نفس کو بری طرح ادھیڑ رہے تھے ۔
” ماموں! میں…. میں بہت محنت کرونگا اور انابہ کو وہ سب کچھ دونگا جو وہ ڈیزرو کرتی ہے ۔”اسنے جھکے سر کے ساتھ وعدہ کیا ۔
” ٹھیک ہے افہام! پہلے تم اپنی زندگی بناؤ، خود کو انابہ کے لائق بناؤ اور اسکے بعد ہی اس مقصد کے لئے سلمان منزل کے اندر قدم رکھوگے اور تب تک تم انابہ سے اسکے متعلق کوئی بات نہیں کروگے۔یہی میری شرط ہے ۔اسکے بعد ہی میں انابہ کے لئے ایک آپشن کے طور پر تمہارے بارے میں سوچ سکتا ہوں ۔”انہوں نے کہا تھا ۔وہ اپنے یتیم اور کنگال بھانجے کے ہاتھ میں یونہی اپنی انمول بیٹی کی زندگی سپرد نہیں کر سکتے تھے ۔
” میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک میں انابہ کے قابل خود کو نہیں بنا لیتا تب تک میں اس سے کوئی بات نہیں کرونگا۔”اسنے کہا تھا ۔وہ پر امید تھا کیونکہ ماموں نے اسکے منہ پر انکار نہیں دے مارا تھا بلکہ اسے یہ امید تھمائی تھی کہ اگر وہ کوشش کرے تو انابہ اسے مل سکتی تھی ۔
اس دن کے بعد سے افہام حیدر نے سلمان منزل جانا چھوڑ دیا تھا ۔کیونکہ اسکے اندر ماموں کی جتاتی نظروں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔
– – – – – – – – – –