اپنے سیدھے بال بائیں جانب ڈالے آبش کریم کا چہرہ ضبط سے سرخ پڑ رہا تھا ۔اسکی غلافی آنکھوں میں غصہ اور بے بسی بھری ہوئی تھی ۔مٹھیاں بھینچ کر اپنے غصے کو دباتی وہ اپنے باپ کی جانب متوجہ تھی جو اتنے ہی غصے میں لگ رہے تھے ۔سفید دیواروں اور گولڈن پردے والے اس کمرے میں بہت کشیدگی تھی۔
“آبی! آخری دفعہ سن لو کہ تمہاری شادی اسی ہفتے ہے اور اسی انسان کے ساتھ ہوگی جسکے ساتھ میں نے طے کی ہے۔” انہوں نے کرختگی سے کہا۔
“ڈیڈی! آپ میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟” اسنے بمشکل خود کو بھڑکنے سے روکا۔
“میں باپ ہوں تمہارا ۔تمہارے متعلق فیصلے لینے کا مجھے پورا حق ہے اور جس انسان کے ساتھ میں تمہاری شادی کر رہا ہوں وہ بہت قابل ہے اور تمہارے معیار کا ہے۔اسکے علاوہ اس شادی کے نتیجے میں مَیں اگلے الیکشن میں دوبارہ چئیرمین بن پاؤنگا۔”
“تو آپ مجھے اپنی بزنس ڈیل میں استعمال کر رہے ہیں؟ “وہ تلخ ہوئی۔
” ہاں کر رہا ہوں. “انہوں نے اعتراف کیا ۔” اور غلط بھی نہیں کر رہا۔اس شادی سے صرف میرا ہی نہیں بلکہ تمہارا بھی فائدہ ہوگا۔وہ تمہارے لئے دنیا کی ہر چیز تمہیں لا کر دے سکتا ہے ۔تمہارے سارے مہنگے شوق، ورلڈ ٹورز… ”
” مجھے یہ سب نہیں چاہئے ڈیڈی! “وہ چلائی ۔”مجھے یہ سب نہیں چاہئے۔مجھے بس اپنی محبت چاہیے ۔میں اسی سے شادی کرونگی جسے میں چاہتی ہوں ۔آپکی کسی ڈیل کی وجہ سے میں اپنی محبت سے دستبردار نہیں ہو سکتی۔”
” اچھا! “انہوں نے اپنے ابرو اچکائے۔” کیا وہ میری کمپنی سے ہے؟ ”
آبش نے نفی میں سر ہلایا۔
” کیا وہ کسی دوسری کمپنی میں کسی اہم پوسٹ پر ہے؟ ”
اسنے دوبارہ نفی میں سر ہلایا۔
” کیا اسکی وجہ سے مجھے کچھ فائدہ ہو سکتا ہے؟ ”
اس دفعہ وہ بے بسی سے اپنے باپ کو دیکھے گئی۔انہوں نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ وہ کون تھا؟ انہیں بس اس سے مطلب تھا کہ وہ کیا ہے؟
” ڈیڈی پلیز آپ ایک دفعہ مل تو لیں… “اسکی چمکتی آنکھیں آنسوؤں سے دھندلی ہونے لگیں ۔
” آبی! اب تم جا سکتی ہو۔اور اپنی پچیس سالہ زندگی میں تمہیں اچھی طرح سمجھ میں آ گیا ہوگا کہ میں اپنے فیصلے نہیں بدلتا۔” انہوں نے سنجیدگی سے کہہ کر اسکی طرف سے نظریں پھیر لیں جو اس بات کا اشارہ تھا کہ اب وہ اسکی کوئی بات نہیں سننا چاہتے۔وہ بھاری قدموں اور گیلے چہرے کے ساتھ وہاں سے نکلی تھی ۔
وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی کہ مخالف سمت سے آتے افہام سے ٹکرا گئی ۔وہ اسکا رویا رویا چہرہ دیکھ کر چونکا۔
“آبش! کیا ہوا ہے؟” وہ اسکا بازو تھامتے ہوئے بولا۔
“میرا ہاتھ چھوڑو ۔” آنسوؤں سے گیلی ہوتی آواز میں وہ سرد مہری نہیں تھی جو افہام کے لئے مخصوص تھی۔
“ہم کبھی دوست بھی تھے۔” اسنے اسے یاد دلایا ۔”تم اگر رو رہی ہو تو وجہ جانے بغیر میں تمہیں یونہی کس طرح جانے دے سکتا ہوں؟ ”
” افہام….” اسنے آنسو سے بھری آنکھیں اوپر اٹھائیں ۔
” ہاں آبی بولو۔” اسنے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے حوصلہ دیا۔اور آبش نے اپنے آبی کہے جانے کا بھی اعتراض نہیں کیا تھا۔اسے شاید اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ ایک دوست اور سامع کی تھی۔اور افہام حیدر یہ رول ادا کرنے کے لئے تیار تھا۔
آبش اسے سب کچھ بتاتی چلی گئی ۔وہ دونوں اب لان میں کھلنے والے اونچے دروازے کے زینے پر بیٹھے ہوئے تھے ۔
“تم اس سے جتنی محبت کرتی ہو کیا وہ بھی تم سے اتنی ہی محبت کرتا ہے؟”
“ہاں! مجھے یقین ہے ۔وہ مجھے دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی کہتا ہے ۔وہ دوسروں کے لئے بہت سرد ہے مگر میرے لئے بہت نرم ہے بہت سوفٹ سا۔” یہ کہتے ہوئے اسکی آنکھوں میں یقین در آیا تو ایک لمحہ کے لئے افہام حیدر نے اسے غور سے دیکھا تھا۔
” اب تم مجھے بتاؤ کہ میں کیا کروں؟ ڈیڈی تو اپنا فیصلہ کبھی نہیں بدلینگے ۔”وہ اب پر سکون تھی اور اسکے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا تھا ۔
” تم ‘اس’ سے بات کرو اور دیکھو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔اگر وہ تمہارے لئے سنجیدہ ہوا تو مجھے یقین ہے کہ وہ تمہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑیگا۔”اسنے بے حد مخلص انداز میں کہا ۔
” تھینکس افام۔”آبش نے مسکرا کر کہا تھا ۔تو اسے یاد آیا کہ وہ بچپن میں اسے افام ہی کہا کرتی تھی۔وہ دھیرے سے ہنس دیا تھا۔
– – – – – – – – –
‘یزدانی مینشن’ پر دوپہر کی پر تپش دھوپ اب ٹھنڈی شام میں تبدیل ہو رہی تھی ۔وسیع لان میں اس وقت غیر معمولی سر گرمی نظر آ رہی تھی ۔ایونٹ منیجمنٹ ٹیم لان کو رات میں ہونے والے فنکشن کے لئے سجانے میں مصروف تھی۔اور وہیں سیڑھیوں پر کھڑا افہام ٹیم لیڈر کے ساتھ کھڑا کام جلدی ختم کرنے کو کہہ رہا تھا ۔اندر ہال میں آنے والی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے کریم یزدانی کے کان سے موبائل لگا ہوا تھا ۔وہ وزیر اعلیٰ کو بصد اصرار فنکشن میں آنے کے لئے کہہ رہے تھے ۔پھر دوسری جانب سے شاید مثبت جواب دیا گیا ۔انہوں نے مسکراتے ہوئے موبائل بند کیا اور نیچے آ گئے ۔
“کیا ہوا؟ وزیر اعلیٰ راضی ہوئے؟” صوفے پر بیٹھی ہوئی مسز یزدانی نے بے چینی سے پوچھا۔
“راضی کیوں نہیں ہونگے؟ آخر کریم یزدانی کی اکلوتی بیٹی کی شادی ہے۔تم دیکھنا آج ہمارے گھر پر جب پورا کیبنٹ اٹھ کر آ جائیگا تب لوگوں کو ہماری طاقت کا مزید اندازہ ہوگا۔میں نے اس شادی کی کوریج کے لئے تمام بڑے نیوز چینلز اور اخبارات کے نمائندوں کو مدعو کر لیا ہے ۔”انکے لہجے میں غرور سما گیا ۔
” آبی کہاں ہے؟ “انہوں نے پوچھا ۔
” وہ اپنی دوست کے ساتھ پارلر گئی ہے ۔”
اس اونچے محل سے قدرے دور واقع اس عمارت کی دوسری منزل پر موجود بیوٹی پارلر میں کئی دلہنیں تیار کی جا رہی تھیں ۔کارنر میں بنے اس علیحدہ کمرے میں اکیلی وہی بیوٹیشین کے ساتھ موجود تھی۔اسے تیار ہونے میں دو گھنٹے لگنے تھے ۔اسلئے اسکے ساتھ آئی اسکی دوست کانوں میں ائیر فون لگائے موبائل پر فلم دیکھنے میں مصروف ہو گئی تھی ۔دلہن نے سِلور کام والا سیاہ لہنگا پہنا ہوا تھا ۔اسنے بیوٹیشین سے ضد کر کے بے حد ہلکا میک اپ کرایا۔اب وہ سیاہ نگوں والی جیولری اور کلائیوں میں چوڑیوں کی بجائے پلیٹنم بریسلٹ پہنے پوری طرح تیار تھی۔وہ ایک گھنٹے پہلے ہی تیار ہو گئی تھی ۔آئینے پر رکھا اسکا موبائل بجا۔موبائل پر میسج پڑھ کر اسکے لبوں پر مسکراہٹ آئی اور وہ لہنگے کے گھیر کو دونوں پہلوؤں سے اٹھاتی کھڑی ہو گئی ۔باہر نکلنے سے پہلے اسنے گھونگھٹ کھینچ کر پورا چہرہ کَور کیا اور تیز رفتاری سے چلتی پچھلے زینے سے اترتی ہوئی سڑک کے دوسری جانب اتر گئی تھی ۔وہاں ایک سفید کار کھڑی تھی ۔وہ ایک لمحے کا توقف کئے بغیر پچھلا دروازہ کھولتی کار میں بیٹھ گئی۔
یزدانی مینشن میں اب شام جگمگاتی ہوئی رات میں بدل رہی تھی ۔لان میں مہمان اب آنے شروع ہو گئے تھے۔ویٹرز ادھر اُدھر پھرتے ہوئے مہمانوں کو اسٹارٹر سرو کر رہے تھے ۔مگر محل کے اندر کریم یزدانی قدرے پریشان کھڑے ہوئے تھے ۔انکے گرد داور کے علاوہ سیاہ ڈنر سوٹ میں ملبوس افہام حیدر بھی مظرب سا کھڑا تھا۔
“داور! پتہ کرو کہ وہ پارلر سے نکل کر کہاں گئی؟ میرے خدا اسے غائب ہوئے تین گھنٹے ہونے کو آ رہے ہیں ۔”
“باس! آپ فکر نہ کریں ۔میں نے اپنے لڑکوں کو آس پاس کے سارے علاقوں کو کھنگالنے کے لئے کہہ دیا ہے ۔”
“ماموں! میں وہاں جا کر پارلر سے معلوم کروں؟ شاید اس بیوٹیشین سے کچھ معلوم ہو جائے کہ وہ کہاں جا سکتی ہے؟” افہام نے کہا تو وہ چونک کر اسکی طرف مڑے۔
” ہاں افہام! جاؤ میری بیٹی کو ڈھونڈ کر لاؤ۔”انہوں نے کہا تو وہ دروازے کی طرف مڑ گیا تھا ۔
سفید کار آدھے گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد ایک ویران سے وئیر ہاؤس کے پاس رکی تھی۔وہ قدرے اشتیاق اور گھبراہٹ کی ملی جلی کیفیت میں گھری کار سے اتری۔ڈرائیور نے اسے اندر جانے کو کہا تھا ۔وہ اپنے سیاہ لہنگے کو چٹکیوں سے سنبھالی مکان کے اندر گئی تھی ۔اب اسنے اپنے سلور کنارے والے دوپٹے کو سرکا کر ماتھے تک کر لیا ۔اسکے دل کی دھڑکنیں بے حد منتشر ہو رہی تھیں ۔بڑی بڑی پلکوں والی آنکھوں میں ایک الوہی سی چمک تھی۔مغرور شہزادی کو آج اپنے خوابوں کا شہزادہ ملنے والا تھا ۔وہ دھیمے دھیمے چلتی حسن مجتبٰی کو اپنی متلاشی نظروں سے ڈھونڈتی ایک کمرے میں آئی۔کمرے کے وسط میں کھڑی وہ حیران نظروں سے کچھ دیر تک دیکھتی رہی ۔پھر اسے خیال آیا کہ اسے اسکو کال کرنا چاہیے ۔مگر یکدم اسکا دل انجانے خوف سے دھڑک اٹھا ۔وہ اپنا موبائل کار میں ہی چھوڑ آئی تھی۔کوئی اسکے اندر چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اسے یہاں مزید نہیں رکنا چاہیے ۔وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی مگر اسنے کافی دیر کر دی تھی۔دروازہ ایک زور دار آواز کے ساتھ بند ہو چکا تھا ۔اسکی آنکھیں خوف اور بے یقینی سے پھیل گئیں اور چہرہ ہراس سے پیلا پڑ گیا تھا۔
“ہیلو ماموں! وہ بیوٹیشین تو غائب ہے اور پارلر کے عقب کی سڑک کا سی سی ٹی وی کیمرہ بھی بہت دنوں سے خراب ہے ۔میں اور دوسری جگہوں پر آبش کو دیکھ لیتا ہوں ۔” موبائل کان سے لگائے افہام کے لہجے میں بیحد پریشانی تھی۔دوسری طرف سے کریم یزدانی نے اسے اپنی تلاش جاری رکھنے کو کہا ۔فون کان سے ہٹاتے ہوئے افہام نے پر سوچ انداز میں سر کو جنبش دی ۔وہ جانتا تھا کہ اسے کہاں جانا ہے؟
اس ویران وئیر ہاؤس کے باہری ہال میں وہ آرام کرسی پر نیم دراز مگن سے انداز میں بیٹھا تھا ۔اسکے ہاتھ میں کسی سوفٹ ڈرنک کی بوتل تھی جس سے وہ وقفے وقفے سے گھونٹ لے رہا تھا ۔اسکے چہرے پر رقص کرتی پر مطمئن مسکراہٹ یہ بتانے کے لئے کافی تھی کہ اس وقت وہ کس ذہنی سکون میں تھا۔یکدم آواز کے ساتھ کسی نے دروازہ کھولا تھا ۔آنے والے شخص کو دیکھ کر اسنے بوتل زمین پر رکھی اور سیدھا بیٹھ گیا ۔نووارد تیزی سے اسکی طرف آیا اور اسکی شرٹ کی کالر کو پکڑ کر جھٹکا دیا۔
“آبش کہاں ہے؟” اسنے قہر انگیز انداز میں پوچھا ۔
“اندر ایک کمرے میں ہے۔” اسنے بیٹھے ہی بیٹھے اطمینان سے جواب دیا ۔نووارد چند لمحے اسکی طرف دیکھے گیا پھر دفعتاً قہقہہ لگا کر ہنس پڑا ۔
“اندر کمرے میں وہ کیا کر رہی ہے وکی؟” افہام نے بوتل اٹھا کر لبوں سے لگائی اور دوسری کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا ۔
“کافی دیر رونے اور چیخنے کے بعد شاید اب تھک کر خاموش ہو گئی ہے ۔” اسنے لاپروائی سے کہا۔اسکی بھوری آنکھیں چمک رہی تھیں۔
“ہوں گڈ!” افہام مسکرایا ۔”میں تمہیں بتا نہیں سکتا کہ آج میں کتنا خوش ہوں ۔”
“تمہارے ماموں کے گھر پر کیا ہو رہا ہے؟” حسن نے پوچھا۔
“سات بج چکے ہیں ۔آٹھ بجے بارات آنے والی ہے ۔مجھے گیس کرنے دو۔ابھی اس وقت ماموں پاگل ہو رہے ہونگے اور داور آبش کی تلاش میں بھٹک رہا ہوگا۔بس دو گھنٹے اور… اور اسکے بعد اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہوگا۔”اسنے اپنے سر کے نیچے دایاں بازو رکھتے ہوئے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لیا۔
” افہام! جب پھپو کو اغوا کیا گیا ہوگا تب وہ بھی اتنی شاکڈ ہونگی نا. انہوں نے بھی اسی طرح رحم کی بھیک مانگی ہوگی، روئی ہونگی، تڑپی ہونگی ہے نا۔جب آبش کی بارات واپس جائیگی اور وہ صبح اپنے گھر پہنچیگی تب کریم یزدانی کے حصے میں بھی اتنی ہی ذلت اور رسوائی آئیگی نا جتنی ہم نے اٹھائی تھی۔”اسنے کہا۔اسکی نظریں خلا میں کسی نکتے پر مرکوز تھیں ۔اور بھوری آنکھیں سوگوار ہو گئی تھیں ۔
” ریلیکس یار! یہ ہمارے پلان کا پہلا اسٹیپ تھا اور وہی ہوگا جیسا ہم نے پلان کیا ہے ۔آگے دیکھنا ہم کریم یزدانی کی عزت، دولت، مقام سب مٹی میں ملا دینگے۔”افہام نے کہا اور اسکے کندھے کو ہمت دینے والے انداز میں تھپھپایا۔
وہ دونوں اپنے انتقام میں جلتے جانے کس راستے پر جا رہے تھے ۔
– – – – – – – – –
وہ ایک چھوٹے مگر آراستہ کمرے میں داخل ہوا ۔اسکے ہاتھ میں ایک شاپر بھی تھا۔وہ چلتا ہوا بیڈ کے قریب پہنچا جہاں تکیے سے ٹیک لگائے کتاب ہاتھ میں تھامے اسکی ماں اتنی محو تھی کہ اسے اسکے آنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔
“ماما!” اسنے اسکے ہاتھ سے کتاب لے کر کنارے رکھ دی۔
“ارے حمزہ!” وہ چونک کر سیدھی ہوئی اور آنکھوں میں خوشگوار سا تاثر لئے اسے دیکھا۔
“میرا ینگ بوائے تو آج بہت ہینڈسم لگ رہا ہے ۔” وہ اسکے کندھے پر دونوں ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔حمزہ کے ماتھے پر شکنیں ابھریں اور اسنے بیحد خفگی سے دیکھا۔
“مگر میری اولڈ ماما بالکل اچھی نہیں لگ رہی ہیں ۔” اسنے خفگی سے کہتے ہوئے ہاتھ میں پکڑا شاپر بیڈ پر رکھا ۔
“واقعی؟ “اسنے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا ۔
” ماما آپکی عمر کیا ہے؟”
“اڑتیس ۔” اسکی ماں نے بے حد سنجیدگی سے جواب دیا ۔
“مگر آپ پچاس سے کم کی نہیں لگتیں۔” اسنے مبالغہ آرائی کی ۔” آپ سے ینگ تو بڑی ماما لگتی ہیں ۔اب بھی نیچے اتنی ٹینشن ہے مگر وہ کتنی کول لگ رہی ہیں ۔”
” اچھا! کیسی ٹینشن؟” اسنے چونک کر پوچھا ۔
” ارے آپ کو نہیں معلوم ۔مگر آپ اپنے کمرے سے باہر آئیں تب کچھ معلوم ہو ناں ۔”
” ہاں تو بیٹا بتاؤ نا کہ کیا ہوا ہے؟”
“وہ آبی آپی پارلر سے اب تک نہیں آئی ہیں۔پارلر میں بھی وہ نہیں ہیں ۔ڈیڈی کہہ رہے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی نے انہیں اغوا کر لیا ہو مگر داور کا خیال ہے کہ شاید وہ اپنی مرضی سے کہیں گئی ہیں ۔”اسنے لاپرواہ سے انداز میں کہا ۔
” اوہ! “اسکی ماں نے اپنے لب سکوڑے۔” بارات آ گئی کیا؟ “اسنے دلچسپی سے پوچھا۔
” نہیں ۔اب تک تو نہیں آئی ہے ۔”حمزہ نے بتایا تو اسکی آنکھوں میں تھوڑی مایوسی آئی۔
” ماما میں آپ کے لئے یہ لایا تھا۔”وہ اب شاپر سے ایک ڈیزائنر ڈریس نکال کر اسے دکھانے لگا۔
“تمہارے ڈیڈی تو بہت پریشان ہونگے۔” وہ لمبی قمیص میں لگی موتیوں پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی۔
” ظاہر ہے ۔آپی کے غائب ہوئے چار گھنٹے ہو گئے ہیں ۔اچھا آپ بتائیں آپ کو یہ ڈریس کیسی لگی؟ ”
” امیزنگ! “اسنے یک لفظی ستائش کی۔
“چلیں تو اسے پہن کر باہر آ جائیں ۔” اسنے تاکیدی انداز میں کہا اور کھڑا ہو گیا ۔
“حمزہ جب بھی تمہاری آپی واپس آئے تو مجھے بلا لینا۔میں بھی سب دیکھنا چاہونگی ۔”اسنے کہا۔
حمزہ نے اثبات میں سر ہلایا اور واپس مڑ گیا ۔مگر وہ اپنی ماں کی مسکراہٹ اور اسکے انداز پر الجھ گیا تھا ۔وہ اسے خوش لگ رہی تھی مگر کیوں؟ پھر اپنا سر جھٹکتا وہ باہر نکل گیا۔
اندر کمرے میں جویریہ آئینے کے سامنے کھڑی خود پر قمیص لگائے اپنی بے اختیار ہنسی کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔
– – – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...