وہ اپنے آفس کا گلاس ڈور کھولتا اندر داخل ہوا ۔وہ اس وقت بے حد تھکا ہوا تھا. نرم بال پیشانی پر گرے ہوئے تھے اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی ہو کر سینے تک آ رہی تھی ۔دن بھر کے ٹف شیڈول نے اسے تھکا کر رکھ دیا تھا۔اپنی میز کی طرف جاتے ہوئے اسکی نظریں انابہ کی میز کی طرف چلی گئیں ۔اسکی گہری بھوری آنکھوں میں شدید حیرت آئی اور ساتھ ہی لبوں پر ایک بے اختیار مسکراہٹ ابھری تھی۔کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے انابہ بیحد گہری نیند سو رہی تھی ۔وہ بلا ارادہ ہی اسکی طرف بڑھتا چلا گیا ۔چند لمحے وہ اسے وہیں کھڑا دیکھتا رہا۔اسے ابھی انابہ سے ایک ضروری بات کرنی تھی مگر سوتی ہوئی انابہ کے چہرے پر اتنی کشش تھی کہ وہ اسے ختم کرنے کی ہمت نہیں کر پایا ۔اسکا ایک ہاتھ کرسی سے نیچے لٹک رہا تھا ۔اس نے آہستہ سے اسکا ہاتھ تھام کر اسکی گود میں رکھا اور کرسی کا لیور دبا کر اسکی پشت کو پیچھے کیا تھا۔وہاں سے ہٹتے ہوئے اسنے فرنچ ونڈو پر پڑا پردہ کھسکا کر برابر کیا اور واپس اپنی جگہ پر آ کر بیٹھ گیا ۔لیپ ٹاپ آن کرنے تک سب کچھ نارمل تھا مگر اس نے جیسے ہی کی پیڈ پر انگلیاں رکھیں اسکی نظریں بھٹک کر اس سے کچھ فاصلے پر سوتی لڑکی کی طرف جانے لگیں ۔اسکی بھوری آنکھوں میں بار بار انابہ سلمان کا مدھم عکس ابھرنے لگا۔پھر اس مدھم سے بننے والے عکس نے اسے ڈسٹرب کرنا شروع کر دیا ۔وہ بار بار سر جھٹک کر اپنی توجہ اسکرین پر مرکوز کرنے کی کوشش کرنے لگا۔اپنی اس کیفیت پر جھنجھلا کر اسنے اسکرین فولڈ کر دی۔پھر انجانے میں ہی میز پر کوہنی ٹکائے ہتھیلی پر تھوڑی رکھے وہ کب انابہ سلمان کو محویت سے دیکھنے لگا اسے اندازہ ہی نہیں ہوا۔اسکی بند آنکھیں، ایک لے میں چلتی گہری سانسیں اور اسکی پیشانی پر گرنے والے بال اسے اپنا اسیر بنا رہے تھے ۔وہ نہیں جانتا تھا کہ محبت کیا ہوتی ہے؟ اس جذبے کا قیدی ہونا کسی کہتے ہیں؟ مگر پھر بھی وہ ایک ان کہا سا احساس اپنے رگ و پے میں سرایت کرتا محسوس کر رہا تھا ۔ان چھوا سا خوبصورت جذبہ اسکے دل میں اترتا جا رہا تھا ۔وہ اس لمحے جس کیفیت میں تھا اس میں وہ گھنٹوں اسی طرح اسی پوزیشن میں بیٹھے ہوئے گہری نیند میں ڈوبی انابہ کو دیکھتے ہوئے گزار سکتا تھا ۔یکدم آواز کے ساتھ گلاس ڈور کھلا تھا اور اسکا اسسٹنٹ فیصل اندر داخل ہوا ۔حسن مجتبٰی کا سارا ارتکاز پل بھر میں ٹوٹا تھا ۔اس لمحے پھیلا ہوا فسوں تیزی سے زائل ہوا۔وہ اپنی نگاہیں انابہ سے ہٹاتے ہوئے فیصل کی جانب متوجہ ہوا۔
“یہ تمہاری کل کے شو کی آؤٹ لائن ہے۔ایک بار چیک کر لو۔” وہ ایک ہاتھ میں فائل پکڑے اسکی طرف آیا۔اسکی آواز اتنی بلند تھی کہ انابہ کی نیند ڈسٹرب ہونے لگی۔اسکی بند پلکوں میں دھیمی لرزش ہوئی تھی ۔
حسن مجتبٰی نے بے اختیار لبوں پر انگلی رکھ کر فیصل کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا ۔
” کیوں؟ کیا ہوا ہے؟ “وہ نا سمجھی سے بولا۔اور اس دفعہ انابہ کی آنکھ پوری طرح کھل گئی۔اور وہ قدرے بوکھلا کر سیدھی بیٹھ گئی تھی ۔اپنے سامنے ان دونوں کو دیکھ کر اسکے چہرے پر شرمندگی آ گئی تھی ۔
“فائن!” حسن کو یکدم ڈھیروں ہی غصہ آیا ۔”میں دیکھ لونگا۔” اسنے اسکے ہاتھ سے فائل پکڑ لی۔
فیصل نے حیرانی سے اسے دیکھا۔اسے سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ کس بات پر اتنا ناراض ہو رہا ہے ۔پھر وہ باہر چلا گیا تھا ۔
“آئی ایم سوری سر! اصل میں آج کل میرے سمسٹر ہو رہے ہیں ۔اسی وجہ سے میں رات کو سو نہیں پاتی۔”وہ شرمندہ لہجے میں وضاحت کرنے لگی۔
“اٹس اوکے انابہ! آفس ٹائم میں سونے کی بھرپور اجازت ہے۔” وہ لیپ ٹاپ آن کرتا ہوا بولا۔
اور انابہ کو سمجھ نہیں آیا کہ واقعی یہ اجازت تھی یا اسنے طنز کیا تھا ۔
” اگر آپ کہیں تو میں اپنے سمسٹر ختم ہونے تک لیو لے لیتی ہوں ۔”
” نہیں آپ لیو نہیں لے سکتیں۔” وہ ایک جھٹکے سے لیپ ٹاپ فولڈ کرتا ہوا بولا۔اسکے لہجے میں اتنی بے اختیاری تھی کہ انابہ حیران رہ گئی ۔
حسن نے یکدم خفت محسوس کی تھی۔”میرا مطلب ہے کہ اگر تم چاہو تو آفس ٹائم میں آدھے گھنٹے کی نیند لے سکتی ہو۔”وہ کہنا کچھ اور چاہتا تھا اور کہہ کچھ اور گیا تھا ۔
انابہ نے اپنی پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا ۔یہ سامنے بیٹھا بندہ افہام کا سویٹ وکی تھا یا روڈ حسن مجتبٰی ۔
“میڈم اگر آپ کی نیند پوری ہو چکی ہو تو کچھ کام کی باتیں کر لیں ۔”اسکی بے تاثر آواز انابہ کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔وہ گہری سانس لیتی کھڑی ہوئی اور اسکے سامنے رکھی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔وہ روڈ حسن مجتبٰی ہی تھا سویٹ تو بس وہ افہام کے لئے تھا۔
“اس ای میل ایڈریس پر تم نے ہر دو دن کے وقفے پر ایک میل کرنی ہے ۔”وہ اسے داور کا ای میل ایڈریس بتاتا ہوا بولا۔
“اوکے مگر میسج کیا کرنا ہے؟” اسنے پوچھا۔
“پہلے تم اپنے امتحان سے فارغ ہو جاؤ۔اسکے بعد ہی پورے سکون سے یہ کام کرنا۔مگر اسکے لئے تم اپنی آئی ڈی استعمال مت کرنا۔تم میل کرنے کے لئے کسی فرضی آئی ڈی کا استعمال کروگی۔اور میسج میں تمہیں یہ لکھنا ہے کہ….” وہ اسے بتانے لگا تھا۔مگر وہ دانستہ انابہ کے چہرے کی طرف دیکھنے سے احتراز برت رہا تھا ۔نہ جانے کیوں اسکے ذہن کے پردے پر اسکی بند پلکیں اور گہری سانسیں بار بار اتر آتی تھیں ۔
– – – – – – – – – – –
لوہے کی زنگ آلود سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسکے چہرے پر امید و ناامیدی کی ملی جلی کیفیت تھی۔وہ اس وقت ایک اوسط درجہ کے علاقے میں واقع ایک چھوٹے سے فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا ۔سیڑھیوں کے نیچے اسکی کار پارک تھی جس میں افہام حیدر اسکا انتظار کر رہا تھا ۔وہ آج اس فلیٹ میں تیسری مرتبہ آ رہا تھا ۔پچھلی دونوں دفعہ دروازے پر اپنا تعارف کرانے کے بعد اسے واپس بھیج دیا گیا تھا ۔آخری سیڑھی پر پہنچ کر اسنے مدھم پیلے بلب کی روشنی میں نیم پلیٹ کو دیکھا۔”عبدالقیوم۔” وہ وہی پروسیکیوٹر تھے جو اسکے باپ کا کیس پراسیکیوٹ کر رہے تھے ۔مگر پھر پہلی سماعت کے پہلے ہی انہوں نے کیس سے اپنا نام واپس لے لیا تھا اور ساتھ ہی وکالت کا پیشہ بھی ترک کر دیا تھا۔ایک گہری سانس لے کر وہ دروازے تک آیا اور دھیمی دستک دی۔
“کون ہے؟ “اندر سے نسوانی آواز آئی تھی ۔
“میں فہد ندیم کا بیٹا ہوں ۔پلیز دروازہ کھول دیں ۔” اسکی آواز میں منت تھی ۔
“یہاں تم سے کوئی ملنا نہیں چاہتا۔بہتر ہوگا کہ واپس چلے جاؤ۔ورنہ اگلی دفعہ میں پولیس کو بلا لونگی۔” عبدالقیوم کی بیوی نے کرخت لہجے میں کہا ۔
“ایک دفعہ مجھے ان سے بات کرنے دیں ۔صرف ایک دفعہ ۔”اسنے نرم لہجے میں کہا ۔عبدالقیوم کو وہ اسد خان کے بیٹے کی طرح ٹریٹ نہیں کر سکتا تھا ۔وہ اسے دو چار مکے مار کر حقیقت نہیں اگلوا سکتا تھا ۔وہ ایک پراسیکیوٹر تھا جس کے پاس ہتھیار کے طور پر زبان ہوتی ہے ۔حسن مجتبٰی کو بھی اپنی زبان کی مدد سے اسے کنونس کرنا تھا۔
“کیوں ہماری زندگیوں کو عذاب بنانا چاہتے ہو؟ چلے جاؤ یہاں سے ۔”
“پلیز! میں صرف دس منٹ ان سے بات کرونگا۔گیارہویں منٹ آپ بے شک پولیس کو کال کر لیں ۔میں ان سے صرف بات کرنے آیا ہوں ۔میرا یقین کریں اسکے علاوہ میرا کوئی مقصد نہیں ہے ۔”
اندر خاموشی چھا گئی تھی ۔
“مسز قیوم! میں دوبارہ آپ لوگوں کو پریشان کرنے نہیں آؤنگا۔آپ لوگ میرے پپّا سے واقف تھے۔اسی وجہ سے میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔”اسنے مدھم مگر مضبوط لہجے میں کہا ۔وہ آج یہاں سے خالی ہاتھ نہیں جانا چاہتا تھا ۔
دروازہ جھٹکے سے کھلا اور اسے اندر آنے کو کہا گیا۔وہ خاموشی سے اندر آ گیا۔ایک بے حد عام سے کمرے میں رکھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھتے ہوئے اسنے اطراف کا جائزہ لیا ۔دیوار پر لگی گھڑی اور ایک پینٹنگ کے علاوہ کوئی دوسری آرائشی چیز وہاں نہیں تھی۔
“تمہارے دس منٹ شروع ہو گئے ہیں ۔” اندرونی کمرے کا دروازہ کھولتا ایک آدمی سامنے آیا تھا ۔اسکے سیاہ بالوں میں سفیدی نمایاں ہو رہی تھی ۔آنکھوں میں سخت سا تاثر لیے وہ اسے دیکھ رہا تھا ۔
“السلام علیکم ۔” حسن مجتبٰی نے اٹھ کر مصافحہ کے لئے اسکی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔
” ان تکلفات میں وقت ضائع مت کرو۔” اسکے بڑھے ہاتھ کو نظر انداز کر کے وہ کرسی پر بیٹھ گیا ۔
“اوکے۔” وہ سنجیدگی سے سر ہلاتا واپس کرسی پر بیٹھا ۔”اسد خان کے کیس کو آپ نے پراسیکیوٹ کرنا کیوں چھوڑ دیا؟” اسنے بلا تمہید سوال کیا۔
“میری کچھ ذاتی وجوہات تھیں ۔”
“کیا میں جان سکتا ہوں کہ وہ وجوہات کیا تھیں جسکی بنا پر آپ نے وکالت ہی چھوڑ دی اور اس طرح خاموشی کی زندگی گزارنے لگے؟”
“پہلی بات تو یہ ہے کہ میں تمہیں اپنے مسائل بتانے کا پابند نہیں ہوں اور دوسری بات کہ اگر میرے خاموشی کی زندگی گزارنے پر تمہیں کوئی اسٹوری نظر آتی ہے یا یہ کوئی جرم ہے تو اپنے چینل پر اسکے متعلق ایک رپورٹ چلا دو۔”عبدالقیوم نے سپاٹ لہجے میں کہا ۔
” مشورے کا شکریہ ۔اور صحیح کہہ رہے ہیں آپ کہ خاموشی کی زندگی گزارنا کوئی جرم نہیں ہے۔جرم تو سچائی کو چھپانا ہوتا ہے ۔غلط لوگوں کا ساتھ دینا جرم ہوتا ہے ۔اصل مجرم کی پردہ پوشی کرنا جرم ہوتا ہے ۔صحیح راستے سے فرار حاصل کرنا جرم ہے ۔لیکن بے فکر رہیں میں اسکے متعلق اپنے چینل پر کوئی اسٹوری نہیں دکھاؤنگا۔”وہ آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا اور قیوم کے سپاٹ چہرے پر سرخی پھیل رہی تھی ۔یکدم وہ کرسی کے ہتھے پر ہاتھ مارتا کھڑا ہو گیا ۔
” تمہارے دس منٹ ختم ہوئے۔”وہ کہتا ہوا دروازے کی طرف مڑا۔اسکے پیچھے حسن مجتبٰی بھی کھڑا ہوا اور اسکی تیکھی نگاہیں عبدالقیوم کی پشت پر تھیں ۔
“میں عبدالقیوم، قسم کھاتا ہوں کہ میں پوری ایمانداری اور غیر جانبداری سے….” حسن کی دھیمی مگر ٹھہری ہوئی آواز گونجی۔عبدالقیوم کے قدم زنجیر ہو گئے۔”اپنی پوری صلاحیتوں کے مطابق….” اسکے جسم کا رواں رواں کھڑا ہو گیا ۔”بغیر کسی کے دباؤ میں آئے وکیل استغاثہ کا فرض ادا کرونگا۔”اسکی آواز تھمی اور عبدالقیوم ایڑیوں کے بل اسکی جانب گھوما۔اسکی نگاہ حسن کے چہرے پر پڑی جسکی بھوری آنکھوں میں اسکے لئے افسوس تھا۔
“آپ نے یہی حلف اٹھایا تھا نا؟ “اسنے ٹھنڈی آواز میں پوچھا تو وہ مزید اسکی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں کر سکا۔اسے معلوم تھا کہ ایک نا ایک دن فہد ندیم کا بیٹا اسے ڈھونڈتا ہوا اسکے پاس پینچیگا۔لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ اُس دن اسکے پاس اسکے سوالات کے جواب نہیں ہونگے۔
” میں نے اپنے پیشے سے غداری نہیں کی۔اس کیس میں مزید میں جھوٹ کو پروان چڑھتا نہیں دیکھ سکتا تھا ۔اسلئے میں کیس سے الگ ہو گیا۔” اسنے نظریں جھکائے ہوئے کہا ۔
حسن ہموار قدموں سے چلتا اسکے نزدیک آیا۔”میں جانتا ہوں کہ آپ نے اپنے پیشے سے غداری نہیں کی۔” وہ لمحے کو رکا۔” آپ نے اپنے ضمیر کو دھوکہ دیا ہے ۔اسی ضمیر کی ملامت سے بچنے کے لئے آپ نے وکالت چھوڑ دی۔گمنامی کی زندگی بسر کرنے لگے. مگر اسکا کیا فائدہ ہوا؟ کیا آپ کو کبھی اس بوجھ سے نجات ملی؟ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے ایسا کیا ۔اس طرح کیس سے الگ ہو جانا، حقائق کی طرف سے آنکھیں بند کر لینا، اپنے نام کے آگے سے لفظ پراسیکیوٹر ہٹا لینا، اگر آپ کی نظروں میں اپنے کام سے انصاف تھا تو آپ غلط تھے۔کسی غلط چیز سے کنارہ کر لینا بجائے اسکے کہ دنیا کے سامنے سچ لایا جائے تو یہ آپ کو ان سے الگ نہیں کرتا جو یہ غلط کام کر رہے ہیں ۔”وہ اپنے ازلی ٹھہرے ہوئے انداز میں کہہ رہا تھا ۔
تھوڑی دیر کے بعد جب حسن مجتبٰی لوہے کی سیڑھیاں اتر رہا تھا تو اسکے چہرے پر سکون تھا۔وہ چلتا ہوا کار کے پاس آیا اور دروازہ کھولتا اندر بیٹھ گیا ۔
” کیا رہا؟ “افہام نے بے چین لہجے میں پوچھا ۔
جواباََ اسنے اسے وکٹری سائن دکھایا تو اسنے ایک سکون بھری سانس لی تھی۔
“پراسیکیوٹر عبدالقیوم نے مجھے وہ ریکارڈنگ دی ہے جس میں اسد خان نے یہ اعتراف کیا ہے کہ وہ قاتل نہیں ہے بلکہ اسے فریمڈ کیا گیا تھا اور ساتھ ہی اسنے یہ کہا کہ اس قتل میں ڈی ڈی کمپنی ملوث ہے۔” اسنے جوش سے بتایا ۔
“وکی! تو پھر اس ریکارڈنگ کی مدد سے ہم تمہارے پپّا کا کیس ری اوپن کر سکتے ہیں ۔”
” نہیں یار! اس اکیلے ریکارڈنگ سے تمہارے ماموں کا ہاتھ ثابت نہیں ہوتا ہے ۔اور پھر اگر تفتیش شروع ہوئی تو کریم یزدانی کا کچھ نہیں بگڑیگا۔ہمیں تو انہیں ہر جانب سے کمزور کرنا ہے ۔جب وہ کمزور پڑ جائیں تو یہ ریکارڈنگ بھی انہیں منہ کے بل گرانے کے قابل ہوگی۔اور ہمارا مقصد تو یہی ہے کہ کریم یزدانی کو پوری طرح توڑ کر رکھ دیں اور ساتھ ہی تمہارا حق بھی تمہیں واپس مل جائے ۔”
” تم صحیح کہہ رہے ہو ۔”اسنے اثبات میں سر ہلایا۔” میں نے آفس میں نظر رکھنی شروع کر دی ہے اور کچھ دنوں میں ہی معلوم ہو جائیگا کہ کمپنی کا سارا ڈیٹا بیس کہاں محفوظ ہے پھر ہمارے پاس انابہ سلمان جیسی ہیکر موجود ہی ہے ۔انشاء اللہ تم دیکھنا سب کچھ آسانی سے ہو جائیگا۔”افہام کے لہجے سے دبا دبا جوش ظاہر ہو رہا تھا ۔
” انشاء اللہ ۔اور کمپنی کے اندر کا کام تو تمہیں ہی کرنا ہے ۔باقی باہر کے معاملات میں دیکھ لونگا ۔مجھے تم پر بھروسہ ہے ۔”
” یار وکی! انابہ کہہ رہی تھی کہ تم اس پر اعتبار نہیں کرتے۔”افہام نے کہا تو وہ بے اختیار جھلایا۔
“اوہ کم آن! تمہاری کزن نے تم سے میری شکایت بھی کر دی ۔اسلئے مجھے اس پر بھروسہ نہیں ہے ۔”
” نہیں یار! وہ تو شکایت نہیں کر رہی تھی۔بس یونہی… “وہ سادگی سے انابہ کی طرفداری کرنے لگا تو اسنے ڈیش بورڈ پر رکھا رول اٹھا کر اسکے کندھے پر دے مارا تھا۔
– – – – – – – – –
شاندار آفس رات کے اندھیرے میں روشنیوں سے جگمگا رہا تھا ۔سفید روشنی سے نہایا ہوا وہ ڈی ڈی کمپنی کے چیف سیکیورٹی آفیسر کا تھا۔اپنی کرسی پر ٹیک لگائے داور اپنے ماتحت لڑکوں کو سی سی ٹی وی کیمرے پر نظر رکھنے کی ہدایت دے کر اب اطمینان سے بیٹھا تھا ۔تب ہی اسکے موبائل پر پیغام آنے کی اطلاع نے اسے چونکایا۔پیشانی پر بل ڈالے اسنے موبائل اٹھایا ۔وہی ای میل ایک دفعہ پھر اسے موصول ہوا تھا ۔پیغام کی عبارت ہر بار ایک ہی ہوتی تھی ۔اس میں اسے دھمکی دی جاتی کہ جلد ہی اسکے سارے گناہوں کا پردہ فاش کیا جائیگا۔خاص طور پر اس قتل کا راز جو اسنے سالوں پہلے بطور ہایرڈ کِلر کیا تھا۔اسنے موبائل واپس میز پر رکھتے ہوئے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔کون تھا جو گڑے مردے اکھاڑنے کی کوشش کر رہا تھا ۔کہیں کرنل صفدر تو اپنی بیوی کا انتقام لینے تو نہیں اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔اگر ایسا تھا تو یہ بہت پریشانی کی وجہ تھی۔کیونکہ وہ اسکا چہرہ دیکھ چکا تھا ۔یا پھر کوئی اسے بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔جو بھی تھا وہ زیادہ دنوں تک داور سے کھیلنے کی جرات نہیں کریگا۔وہ جلد ہی یہ پتہ لگا لیگا کہ کون یہ حرکت کر رہا ہے ۔
– – – – – – – – – –
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...