نیشنل میڈیا فورم کے زیر اہتمام منعقدہ پروگرام میں وہ بھی موجود تھا۔سفید ٹی شرٹ پر سیاہ کوٹ اور جینز میں ملبوس وہ اپنی میز پر تنہا تھا۔اس پروگرام میں وہ اپنے چینل کی جانب سے نمائندے کی حیثیت سے آیا تھا اور وہ ہمیشہ کی طرح بور ہو رہا تھا ۔پارٹیز میں اسے کبھی کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ اس قسم کی پارٹی سے تو دور بھاگتا تھا ۔اس پارٹی میں سیاسی میدان کے کھلاڑی، گلیمر کی دنیا کے بڑے نام سمیت بزنس ورلڈ کے طاقتور نام بھی موجود تھے ۔یہ خالصتاََ ہائی پروفائل پارٹی تھی۔
اسنے بیزاری سے اپنے چاروں طرف دیکھا اور ٹھنڈے پانی کا گلاس لبوں سے لگاتے ہوئے اپنا موبائل آن کر لیا۔
تب ہی اسنے اپنے اطراف ایک شور سا ہوتا محسوس کیا یوں جیسے کسی مہمان خصوصی کی آمد ہوئی ہو کیونکہ ایونٹ آرگنائزر تک داخلی دروازے تک دوڑ گیا تھا ۔وہاں موجود لوگ جیسے جلدی میں نظر آنے لگے۔انہیں بھی اس مہمان خصوصی کی نظروں میں آنا تھا۔مگر وہ اسی طرح چہرے پر سنجیدگی طاری کئے بیٹھا رہا۔تھوڑی دیر بعد وہ تب چونکا جب اسے ایک دوسرے چینل کی جرنلسٹ عافیہ، کریم یزدانی کے ساتھ اس کی میز تک آتی نظر آئی ۔اسکے لب بھنچے اور بھوری آنکھوں میں ڈھیروں حیرت اتر آئی۔
“ہیلو حسن مجتبٰی!” عافیہ نے قریب آ کر ہاتھ ہلایا اور ساتھ ہی کریم یزدانی کو بیٹھنے کو کہا۔
اسنے جواب طلب نظروں سے عافیہ کی جانب دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو کہ اسکا مقصد کیا ہے؟
“بھئی! مہمان خصوصی سے تمہیں ملانے کے لئے لے کر آئی ہوں اور تمہاری شہرت اتنی زیادہ ہے کہ وہ خود بھی تم سے ملنا چاہ رہے تھے ۔” اسنے بیٹھتے ہوئے استفسار کیا ۔
“مجھے تم سے مل کر خوشی ہوئی ۔” کریم یزدانی نے مسکرا کر کہتے ہوئے اسکی جانب اپنا دایاں ہاتھ بڑھایا۔
حسن مجتبٰی کی بھوری آنکھوں میں چنگاریاں سی بھر گئیں. اور چہرے پر اذیت اور درد کی چادر پھیل گئی ۔کریم یزدانی کو اپنے سامنے دیکھ کر اسے بہت کچھ یاد آ گیا تھا ۔اسنے بڑی مشکل سے اپنے جذبات پر قابو پایا ۔ورنہ اسکا دل تو یہی چاہ رہا تھا کہ وہ یہیں سب کے سامنے انکی حقیقت دنیا کے سامنے لا دے۔
“سیم ہئیر۔” اسنے بے تاثر انداز میں انکا ہاتھ لمحے بھر کو تھاما اور پھر چھوڑ دیا ۔
“مجھے تم جیسے رپورٹر بہت پسند ہیں جو شہرت اور امارت کے آگے بچھ نہیں جاتے۔تمہاری عمر میں ان چیزوں سے متاثر نہ ہونا واقعی ایک خوبی ہے ۔” کریم یزدانی نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے شتائشی انداز میں کہا ۔
“اگر آپ مجھے متاثر کرنے کے لئے میری تعریف کر رہے ہیں تو معذرت کے ساتھ شہرت، امارت اور جھوٹی تعریف سے میں دور رہنا پسند کرتا ہوں ۔”اسنے تیکھے انداز میں کہا ۔
کریم یزدانی بے ساختہ ہنس پڑے اور تائیدی انداز میں اپنا سر ہلایا۔
“آئی لائک یور ایٹی ٹیوڈ! مگر اس وقت میں تم سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تم لوگ ہم جیسوں کی اچھائیوں کو کَور کرنا پسند نہیں کرتے کیا؟ آف کورس ہم بزنس مینوں سے غلطیاں ہوتی ہیں مگر کئی دفعہ ہم اچھے کام بھی کرتے ہیں.”
“شیور! کسی دن واقعی آپ میری نظروں میں اچھا کام کریں تو میں خود آپ کے پاس آپکا انٹرویو لینے آؤنگا۔مگر شرط یہی ہے کہ آپکا کام محض کیمرے کی نظر میں آنے کے لئے نہیں ہونا چاہیے ۔”
” حسن! کیا کر رہے ہو؟ “عافیہ نے اسکے سخت لہجے پر بے اختیار اسے ٹوکا۔” میڈیا اور بزنس ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں ۔ہم چینل والوں کو ان لوگوں کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے ۔”
” مس عافیہ! ضرورت سودا کرنے والوں کو رہتی ہے اور میں قابل فروخت نہیں ہوں۔مجھے کم از کم کریم یزدانی کی بیساکھی کی ضرورت نہیں ہے ۔” اسنے قطعی لہجے میں کہا ۔
“بہت آگ ہے تمہارے اندر! “کریم یزدانی ٹھنڈے انداز میں مسکرائے.” کہیں یہ آگ تمہیں ہی نا راکھ کر دے۔تمہاری طرح کئی گردنوں کو میں نے جھکتے دیکھا ہے ۔”
” یہ تو وقت بتائیگا کہ کس کی گردن جھکیگی اور کون سر اٹھا کر کھڑا رہیگا۔”وہ جواباََ تیکھا سا مسکرایا۔اسکے لہجے میں سرد آگ تھی جسکی تپش کریم یزدانی نے بھی محسوس کی۔
“کیا ایسا ہوگا؟ “انہوں نے سنبھل کر کہا۔
” ہو نوز؟ “جواباََ بے پروا سے انداز میں کہتا ہوا اٹھ گیا ۔
– – – – – – – –
قدیم طرز کا وہ لکڑیوں کا مکان نیم اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔شام پر غالب ہوتی تاریکی بھری نیلگوں روشنی ہر سو پھیل رہی تھی ۔مکان کے اندر لکڑی کے زینے پر ہو دونوں بیٹھے ہوئے تھے ۔انکے درمیان پلیٹ تھی جس میں فرائڈ چپس رکھے تھے ۔وہ وقفہ وقفہ سے اس سے چپس اٹھا کر کھانے کے ساتھ باتیں بھی کر رہے تھے ۔زینے کے نیچے چوکور برآمدے میں جلتی ہوئی موم بتیوں کی مدھم روشنی ان کے چہرے کو نیم واضح کر رہی تھی۔
“تو آخر کار تمہیں معلوم ہو گیا کہ تمہارے باپ کو کس نے قتل کیا تھا؟” سبز آنکھوں والی الماس نے ایک بڑا چپس اٹھا کر اسکا کونہ دانتوں ست کترا تھا۔
“ہاں معلوم بھی ہو گیا اور میں انہیں دیکھ بھی آیا کہ دوسروں کی زندگیوں سے کھیلنے کے باوجود آج وہ کتنے خوش اور مطمئن ہیں ۔”اسکے لہجے میں تلخی عود کر آئی۔
” تم دس سال کے تھے اس وقت جب یہ حادثہ ہوا تھا ۔آج اس سانحے کو اٹھارہ سال گزر چکے ہیں تو کیا اتنا عرصہ کافی نہیں ہے کسی غم کو بھلانے کے لئے؟ ”
” لوگ کہتے ہیں کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے ۔تو غلط بھی نہیں کہتے مگر یہ مرہم صرف زخموں کو کم کر دیتا ہے اسے پوری طرح ٹھیک نہیں کر سکتا ۔دس سالہ یتیم وکی مجھ میں آج بھی زندہ ہے اور میں اسے کبھی مرنے بھی نہیں دینا چاہتا ۔کم از کم تب تک جب تک میرا مقصد پورا نہیں ہو جاتا ۔میں کریم یزدانی کو اسکے بزنس ایمپائر سمیت برباد نہیں کر دیتا تب تک میں اسے جینے دینا چاہتا ہوں ۔”یہ سب کہتے ہوئے اسکی گہری بھوری آنکھوں میں اتنی سرخی تھی کہ اس پر لہو کا گمان ہوتا تھا ۔الماس نے خوف سے اسکی طرف سے اپنا رخ پھیر لیا۔
“مجتبٰی مجھے ڈر لگتا ہے ۔”اسنے مدھم لہجے میں کہا ۔
” کس سے؟ مجھ سے؟ “وہ کہتا ہوا تکان سے مسکرایا۔
” نہیں ۔”اسنے نفی میں اپنا سر ہلایا۔”اس بات سے کہ کہیں تمہیں کچھ ہو نہ جائے ۔”
“ریلیکس۔کچھ نہیں ہوگا۔میرے ساتھ تم ہو، کرنل ہیں، افہام ہے۔مجھے کچھ نہیں ہو سکتا ۔”
الماس نے آہستہ سے اپنا سر جھٹکا۔کاش اسکے بجائے وہ یہ کہتا کہ الماس تم میرے ساتھ ہو تو مجھے خوف آتا ہے کہ کہیں مجھے کچھ ہو نہ جائے ۔میرے بغیر تمہارا کیا ہوگا۔مگر وہ کچھ کہتا ہی تو نہیں تھا۔آٹھ سالوں سے ایکطرفہ عشق کی آگ میں جلتی وہ راکھ کا ڈھیر بنتی جا رہی تھی ۔
“اور اس دفعہ تم نے اتنے دنوں بعد چکر لگایا ہے ۔شاید تمہارے آفس میں مجھ سے زیادہ خوبصورت لڑکیاں آ گئی ہیں ۔” الماس نے سہولت سے بات تبدیل کر دی۔
وہ ہنسنے لگا۔”اسی لئے تو کہتا ہوں کہ تم میرے آفس میں جاب کر لو۔”
اسی وقت نیچے چوکور برآمدے سے کرنل صفدر نے انہیں آواز دی تھی ۔
” تم بابا سے باتیں کرو۔تب تک میں رات کے کھانے کی تیاری کر لیتی ہوں ۔”وہ کھڑی ہو گئی ۔
اثباتی انداز میں سر کو جنبش دیتا وہ نیچے برآمدے میں آ گیا اور الماس کچن میں چلی گئی تھی ۔
لکڑی کے فرش پر بچھے میٹ پر وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھ گئے ۔حسن مجتبٰی نے ایک پھولا ہوا خاکی لفافہ انکے سامنے رکھا اور اس میں رکھی ساری تصویریں کرنل صفدر کے سامنے الٹ دی تھیں ۔
“یہ کریم یزدانی کے قریبی لوگوں کی تصویریں ہیں. افہام کی مدد سے میں نے انہیں تین گروپوں میں تقسیم کیا ہے ۔یہ کریم یزدانی کی فیملی ہے۔دو بچے اور انکی وائف۔” اسنے تصویر پر اشارہ کیا ۔”اور دوسرے گروپ میں مَیں نے انکے فائنینشیلی کاںٹیکٹس کو رکھا ہے ۔اس میں انکی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر، شئیر ہولڈرز اور این سی پی پارٹی کے کئی اہم رہنما شامل ہیں ۔این سی پی پارٹی اور ڈی ڈی کمپنی میں کس نوعیت کا تعلق ہے میں اب تک اسکا اندازہ نہیں کر پایا ہوں ۔مگر امید ہے کہ تھوڑی سی انویسٹیگیشن کے بعد یہ واضح ہو جائیگا۔”اسنے چند تصویریں اٹھا کر ایک ساتھ رکھیں ۔
” اور تیسرا گروپ؟ ”
” تیسرا گروپ میرے خیال میں اہم نہیں ہے ۔نہ جانے کیوں افہام نے اسے رکھا ہے ۔”اسنے کچھ تصویریں اٹھائیں ۔” یہ ڈی ڈی کمپنی کی سیکیورٹی ایجنسی ہے ۔داور اس ایجنسی کا چیف ہے۔”اسنے قدرے غیر دلچسپی سے بتایا۔مگر کرنل صفدر نے ساری تصویروں کو پرے ہٹاتے ہوئے صرف ایک تصویر اٹھائی ۔
” وکی!! وکی!! ہمارا کام بن گیا ۔یہ داور صوف سیکیورٹی ایجنسی کا چیف نہیں ہے بلکہ وہ کریم یزادنی کا دایاں بازو ہے ۔اگر تم نے اسے راستے سے ہٹا دیا تو تمہارا ہدف بہت آسان ہو جائیگا۔منزل بالکل قریب ہو جائیگی۔” کرنل صفدر بے حد پر جوش تھے اور وہ انہیں حیرت سے دیکھ رہا تھا ۔
” اف وکی! تم نہیں جانتے کہ داور نے ہمارے لئے کتنا سنہرا موقع فراہم کیا ہے۔”
“کرنل!سوری مگر میں آپکی بات نہیں سمجھ پا رہا ہوں ۔”وہ اس بات سے الجھ رہا تھا کہ کرنل صفدر بار بار لفظ ‘ہمارے’ کیوں استعمال کر رہے تھے ۔
“یہ شخص داور الماس کی ماں کا قاتل ہے ۔” انہوں نے جیسے اسکے سر پر بم پھوڑا تھا۔وہ ہکا بکا سا انکا چہرہ دیکھنے لگا۔
” ہم دونوں ایک ہی ریجیمنٹ میں تھے۔وہ مجھ سے کم رینک پر تھا۔خدا معلوم وہ کس طرح ایک فرض شناس فوجی سے ہائرڈ کِلر بن گیا ۔میری بے گناہ بیوی کا اسنے کسی اور عورت کے دھوکے میں قتل کر دیا تھا۔پھر وہ وہاں سے بھاگ گیا۔فوج میں اسے وانٹڈ لسٹ میں ڈال دیا گیا. اسکے بعد سے اسے کہیں نہیں دیکھا گیا ۔میں ہمیشہ تڑپتا رہا کہ اپنی بیوی کو انصاف کس طرح دلاؤں ۔مگر تمہاری وجہ سے مجھے آج یہ موقع ملا ہے ۔”وہ یاسیت سے ڈوبی آواز میں کہہ رہے تھے ۔
” تو یہ ہماری تقدیر تھی نا کرنل! میرے ذریعے سے قدرت نے آپکی بیوی کا انصاف کرنا تھا۔”اسکے لہجے میں تھوڑی الجھن تھی۔جواباََ انہوں نے اثبات میں اپنا سر ہلایا۔
” میں نے سوچ لیا ہے کہ داور تک پہنچنے کے لئے مجھے کیا کرنا ہے؟ وہ ہمیں اپنے جرم کا ثبوت خود دیگا۔میں کل ہی افہام سے اسکی مزید تفصیلات مانگ لونگا۔”اسنے ساری تصویروں کو سمیٹ کر لفافے میں ڈالا۔
“وہ لڑکا افہام… تم اس پر اعتبار کرتے ہو؟”
لفافے کو سیل کرتے اسکے ہاتھ تھمے اور اسنے اپنا سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔” اگر میں اپنے علاوہ کسی اور پر اندھوں کی طرح اعتبار کرتا ہوں تو وہ افہام ہے۔اگر آپ مجھ پر اعتماد کرتے ہیں تو آپ کو افہام پر بھی اعتبار کرنا ہوگا۔”
” ٹھیک ہے۔”انہوں نے اپنا سر ہلایا۔” الماس نے کھانا لگا دیا ہے ۔چلو کھانا کھاتے ہیں ۔”
وہ دونوں اٹھ گئے تھے ۔
– – – – – – – – – – –
پرپل ٹی شرٹ کے نیچے سیاہ جینز میں ملبوس افہام حیدر کافی دیر سے سڑک کنارے اپنی کار روکے کھڑا تھا۔اسکی متلاشی نظریں بار بار یونیورسٹی گیٹ تک جا کر لوٹ آتی تھیں ۔کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے اسنے اپنا موبائل آن کیا۔اس پر وکی کے پے در پے کئی پیغام پڑے تھے۔
“کیا ہوا؟ تم انابہ سے ملے؟”
“تم نے اس سے بات کی؟”
“تم نے اب تک جواب کیوں نہیں دیا ہے؟”
“اپنی کزن کے ساتھ ہینگ آؤٹ تو نہیں کرنے لگے؟”
افہام بے اختیار مسکرایا۔”بندہ ذرا صبر سے کام لیتا ہے، تھوڑا انتظار کرتا ہے تو نتیجہ مثبت ملتا ہے ۔کیا میں اسے اسکی کلاس سے باہر کھینچ لاؤں؟ “وہ ٹائپ کرنے لگا۔
” ہاں کھینچ لاؤ۔آفٹر آل تمہاری کزن ہے۔’اسے فوراً جواب دیا گیا۔
“یہ بار بار لفظ کزن تم طنزاً استعمال کر رہے ہو یا تعارفاََ؟” اسنے دوبارہ ٹائپ کیا ۔
“طنزاً ہی سمجھ لو۔میری زندگی میں اتنے سارے یزدانیز آ چکے ہیں کہ ہینڈل کرنا مشکل ہو رہا ہے ۔”
” خیال رہے کہ میں بھی آدھا یزدانی ہوں ۔”
“ہاں تمہیں تو عرصے سے ہینڈل کر رہا ہوں۔”
اسکا جواب پڑھ کر افہام دھیرے سے ہنسا.” اوکے وکی بعد میں بات کرتے ہیں۔میرے خیال میں ایم اے انگلش کے طلبہ باہر آ رہے ہیں ۔”موبائل بند کر کے اسنے ڈیش بورڈ میں ڈالا اور باہر دیکھنے لگا۔وہ اسے گیٹ سے باہر نکلتی نظر آ گئی تھی ۔سیاہ کرتی پر سگریٹ پینٹس میں ملبوس، ماتھے پر کٹے بالوں کو بے نیازی سے اپنی انگلی سے پیچھے کرتی وہ ریشم کے ساتھ باہر نکل رہی تھی ۔وہ کار کا دروازہ کھولتا اسکے پاس پہنچا۔
“ہیلو انابہ!” اسنے اسے متوجہ کیا ۔
انابہ کے چہرے پر اسے دیکھ کر بے تحاشا حیرت پھیلی ۔
“اوہ افہام تم!”
اسے خوشی ہوئی کہ وہ اسکا نام نہیں بھولی تھی۔
“کیا ہم تھوڑی دیر بات کر سکتے ہیں؟” افہام نے کہا۔اسے یقین نہیں تھا کہ وہ اس سے بات کرنے کے لئے تیار ہوگی۔
“شیور! مگر تم مجھے گھر بھی ڈراپ کر دینا۔میں ڈرائیور کو کہہ کر اپنی کار واپس بھیج رہی ہوں ۔”اسنے جواب دیا اور ریشم سے الوداعی مصافحہ کرتی افہام کی کار کی طرف بڑھ گئی۔اور کار کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھنے تک اسنے ڈرائیور کو میسج بھی کر دیا تھا۔ورطہ حیرت میں پڑے افہام نے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرا اور ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا ۔
” اوکے! تو آج تمہیں یاد آ گیا کہ اس دنیا میں آبش کے علاوہ بھی تمہاری کوئی کزن ہے اور وہ زندہ ہے۔مائی گاڈ افہام حیدر آج مجھ سے ملنے آیا ہے ۔میں تو سمجھی تھی کہ تم نے دوبارہ کبھی مجھے اپنی شکل نہیں دکھانی ہے۔” اسے سانس لینے کا موقع دیئے بغیر وہ شروع ہو چکی تھی ۔
” انابہ! ایک منٹ… “اسنے ہاتھ اٹھا کر بولنے کی کوشش کی ۔
” نہیں… مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی ہے۔کیونکہ مجھے تمہاری توجیحات پر یقین نہیں ہے۔”اسنے تیزی سے اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔
” ٹھیک ہے ۔میں کچھ نہیں کہہ رہا ۔لیکن یار انابہ! ہم اتنے سالوں بعد ملے ہیں اور تم نے مجھ سے لڑائی کرنی شروع کردی ۔” اسنے اسٹیرنگ پر ہاتھ رکھے ہوئے کہا۔
” اچھا چلو یہ بتاؤ کہ تم نے ہمارے گھر آنا کیوں چھوڑ دیا؟ ”
اسکے سوال پر نا محسوس انداز میں افہام کے ہاتھ اسٹیرنگ سے ہٹے اور وہ دوسری طرف دیکھنے لگا ۔
” افہام کچھ پوچھا ہے میں نے ۔”انابہ نے اسے ٹوکا۔
دائیں ہاتھ کی مٹھی بھینچتے ہوئے وہ زبردستی مسکرایا ۔وہ اب انابہ کے گھر کیوں نہیں جاتا تھا؟ اس سوال کا جواب دینا اسکے لئے بے حد تکلیف دہ تھا۔
“تم بھی تو اب یزدانی مینشن نہیں آتیں؟” اسنے بات کا رخ موڑنے کی کوشش کی ۔
” تم جانتے ہو نا ہمارے ٹرمز اب کریم انکل کے ساتھ اچھے نہیں ہیں ۔جب سے انہوں نے ڈیڈ کو کمپنی کے شئیرز بیچنے پر مجبور کیا ہے تب سے ہمارے تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے. اسلئے کیا فائدہ اب اس گھر میں جانے کا؟ “اسنے افہام کی کوشش کو کامیاب کرنے میں اسکی مدد کی ۔وہ سمجھ چکی تھی کہ وہ اسکے سوال کا جواب نہیں دینا چاہ رہا ہے ۔
” انابہ! میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں ۔”
” ہاں پوچھو۔”وہ نرمی سے مسکرائی۔اسکی مسکراہٹ میں حوصلہ افزائی کرنے کا انداز تھا۔بالکل اسی طرح جب وہ اپنے بچپن میں یزدانی مینشن جاتی تھی تو ڈرے سہمے افہام کو وہ اپنی نرم مسکراہٹ سے بات کرنے کے لئے مجبور کرتی تھی۔
“تم ٹرتھ مرر میں کام کرتی ہو نا؟ ”
” ہاں بس چھ مہینوں کی جاب ہے۔مگر اب سوچ رہی ہوں کہ ماسٹرز کے بعد وہیں مستقل جاب کر لوں ۔” اسکے چہرے پر ہلکی حیرانی آئی تھی۔یوں جیسے وہ ٹرتھ مرر کے متعلق سوال کرنے پر حیران ہوئی ہو۔
“اصل میں وکی… میرا مطلب ہے کہ حسن میرا بیسٹ فرینڈ ہے۔اسنے شاید تم سے ڈی ڈی کمپنی کے متعلق کوئی بات کی ہے؟ “اسنے سوالیہ انداز میں اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
” آئی گیس… یہ معاملہ محض پروفیشنل نہیں ہے بلکہ اس میں ذاتیات بھی انوالوڈ ہیں ۔” انابہ نے معنی خیز انداز میں اسے دیکھا۔افہام نے اسکی بات کی تردید نہیں کی. لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وکی نے انابہ کو کتنا اور کیا بتایا ہوگا۔
“مجھے وکی کا تو پتہ نہیں مگر میری شمولیت بالکل ذاتی ہے۔”
” ڈونٹ ٹیل می افہام کہ تم انکل کی کمپنی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہو ۔” اسنے انگلی سے ماتھے پر گرنے والے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے اسے بغور دیکھا ۔
افہام دھیرے سے اپنا سر جھٹک کر مسکرایا ۔اسکی آنکھوں میں اذیت ابھری تھی۔
” میں ماموں کی کمپنی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا ہوں ۔بس اپنا حق واپس لینا چاہتا ہوں. “اسنے کہا ۔
انابہ چند لمحے اسکی طرف دیکھتی رہی۔اور وہ شاید اسکی آنکھوں کی اذیت پڑھ چکی تھی تب ہی ایک نرم مسکراہٹ اسکے لبوں پر پھیل گئی ۔
“اٹس اوکے افہام! صحیح ہے ۔تمہیں اپنے حق کے لئے لڑنا چاہئے۔”
” انابہ! میں تم پر اعتبار کرتا ہوں اسی لئے میں نے تم سے کچھ نہیں چھپایا۔اسلئے اب تم بتاؤ کہ تم کبھی مجھے اور وکی کو ڈبل کراس کرنے کی کوشش تو نہیں کروگی؟” اسنے یکدم سنجیدگی سے سوال کیا ۔
انابہ نے بے اختیار گہری سانس لی۔اور اسکی پیشانی پر شکنیں نمودار ہوئیں ۔
” افہام پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ تمہارا دوست پہلے سی آئی ڈی سے تو تعلق نہیں رکھتا تھا؟ ‘اسنے اسکی طرف اپنی گردن موڑ کر بے حد سنجیدہ انداز میں سوال کیا ۔
“کیا مطلب؟ “وہ اپنی بات کے جواب میں احمقانہ سوال سن کر حیران ہوا۔
” اُس بندے کو مجھ پر زرا سا بھی اعتبار نہیں ہے ۔میں نے اسی دن اس سے کہا تھا کہ میں اسے اور اسکے کام کو نقصان پہنچانے کی بالکل کوشش نہیں کرونگی ۔مگر پھر بھی…” وہ لب بھینچے ہر لفظ چبا چبا کر ادا کر رہی تھی۔”مگر پھر بھی اس نے تمہیں کنفرم کرنے کے لئے بھیج دیا ۔”
” ارے ایسی بات نہیں ہے انابہ! وہ ایسا نہیں ہے ۔اگر ایک دفعہ وہ کسی پر بھروسہ کر لے تو زندگی بھر اس پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کرتا ہے ۔اور تم تو اتنی سویٹ ہو ۔اگر اسنے تم پر اعتبار کرنا شروع کر دیا تو…” افہام حیدر اپنے دوست کی سائڈ لینے کے لئے بغیر رکے دیر تک بول سکتا تھا ۔
“میں سمجھ گئی۔تم اپنے بیسٹ فرینڈ کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتے ۔” اسنے نروٹھے انداز میں کہا ۔
“اچھا اب تم ناراض تو مت ہو۔” اسنے اسے منانے کی کوشش کی ۔
“تم بس اس سے یہ کہہ دینا کہ انابہ سلمان جھوٹ نہیں بولتی۔اور ہاں اس سے یہ بھی کہہ دینا کہ اسکا نام وکی جتنا سویٹ ہے کاش وہ خود بھی اتنا سویٹ ہوتا۔اور اس سے یہ کہنا کہ دن میں ایک دفعہ مسکرا کیا کرے کیونکہ مسکرانے میں کوئی دفعہ لاگو نہیں ہوتی۔” اسنے سینے پر بازو لپیٹے خفگی سے کہا ۔
” وکی تو بہت سویٹ ہے اور وہ تو مسکراتا بھی ہے ۔”افہام نے سادگی سے کہا تھا اور انابہ نے اپنا شولڈر بیگ اٹھا کر اسکے سر پر دے مارا ۔
– – – – – – – – – – –
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...