کریم ٹی شرٹ اور سیاہ جینز میں ملبوس افہام حیدر فٹبال اسٹیڈیم میں داخل ہوا جہاں اسکولی سطح کا ایک میچ ہو رہا تھا ۔لبوں پر مسکراہٹ لئے وہ سب سے اونچی نشست کی طرف بڑھ گیا ۔اسے معلوم تھا کہ وہ وہیں ہوگا کیونکہ اسے بلندی پسند تھی ۔اور حسبِ توقع وہ اسے ایک الگ تھلگ نشست پر بیٹھا مل گیا۔
“وکی!” اسنے قریب جا کر اسے آواز دی۔
وکی نے گردن موڑ کر اسے دیکھا ۔اسکے چہرے پر اسے دیکھ کر نرمی پھیل گئی ۔
“کیسے ہو؟” افہام اسکی ساتھ والی خالی سیٹ پر بیٹھتا ہوا بولا ۔
“ناراض ہوں تم سے۔” اسکی آنکھوں میں دھیمی خفگی آئی۔
“کیوں؟” اسنے پوچھا ۔حالانکہ وجہ اسے اچھی طرح معلوم تھی۔
“اور کب تک تم اپنا غصہ بے جان چیزوں کو توڑ کر اور خود کو چوٹ پہنچا کر نکالتے رہوگے؟” وہ اسکی دائیں ہتھیلی کی پشت پر لگے بینڈیج کو دیکھتا ہوا بولا۔
“سوری۔”افہام نے خفیف انداز میں کہا ۔
“واٹ سوری؟” اسکی خفگی سوا ہوئی۔”اچھی طرح جانتے ہو کہ تمہیں تکلیف میں دیکھ کر مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے ۔”
” وکی! “اسنے پچکارنے والے انداز میں اسے پکارا۔” تم مجھ سے ناراض ہو رہے ہو؟”
وکی نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے اپنا سر جھٹکا۔” کیا کروں چاہ کر بھی تم پر غصہ ہی تو نہیں آتا ہے ۔ہماری بچپن کی دوستی ہے مگر میں تمہیں یہ نہیں سکھا پایا کہ اپنے غصے کو ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے صحیح وقت اور صحیح جگہ پر استعمال کر کے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لینا چاہیے ۔”
“نہیں یار! آج تمہارے سامنے جو ہنستا ہوا افہام کھڑا ہے تو صرف اس وجہ سے کہ تم نے مجھے ہنسنا سکھایا ہے، مجھے لڑنا سکھایا ہے اور مجھے دنیا کے سامنے سر اٹھانے کا حوصلہ دیا ہے۔”وہ جذباتی ہو گیا۔
وکی نے اپنا ہاتھ ہلایا یوں جیسے اپنی تعریف سے کچھ خاص محفوظ نہیں ہوا ہو۔” چھوڑو ان باتوں کو ۔میں نے تمہیں کچھ اہم دکھانے کے لئے یہاں بلایا تھا۔”
” ہاں تم تو اسد خان کے پیچھے تھے پھر اسکا کیا بنا؟ “وہ سنجیدہ ہوا۔
وکی نے اپنی جیب سے اپنا موبائل نکالا اور اس میں سے اسد خان کی بیوی والی آڈیو کلپ اسے سنانے لگا۔
افہام دم سادھے وہ کلپ سنتا رہا اور کلپ ختم ہونے پر اسے منہ سے ایک طویل سانس خارج ہوئی ۔
” میں یقین نہیں کر سکتا کہ ماموں قتل بھی کر سکتے ہیں ۔”اسنے جھرجھری سی لی۔”آئی ڈونٹ بلیو۔۔۔”
“کیا یہ عجیب اتفاق نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہی انسان کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوئے ہیں ۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم دونوں اپنے ساتھ ہونے والی ساری ناانصافیوں کا انتقام لیں۔مگر کیا تم میرے ساتھ ہو؟ آف کورس وہ تمہاری فیملی ہے۔”
” فیملی!” افہام نے تلخی سے اپنا سر جھٹکا۔”ان لوگوں سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے ۔میں غیر مشروط طور پر تمہارے ساتھ ہوں اور اپنی آخری سانس تک تمہارے ساتھ رہو گا ۔چاہے اسکے لئے مجھے کچھ بھی گنوانا پڑے۔تم اس خاندان کے ساتھ کچھ بھی کرو میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں۔”اسنے پورے مان سے اپبے دوست کو یقین دلایا ۔
وکی کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی۔اسنے ہاتھ بڑھا کر اسکا شانہ تھپکا جیسے اسکے ساتھ کا شکریہ ادا کر رہا ہو۔پھر اسنے اپنے موبائل کی اسکرین افہام کے سامنے کی۔” اسے جانتے ہو؟ ”
افہام نے چونک کر ایک نظر اسکرین پر اور دوسری وکی پر ڈالی۔ایک پینٹنگ کے سامنے کھڑی آبش کریم کو وہ اچھی طرح پہچانتا تھا۔
“یہ ماموں کی بیٹی ہے۔مگر۔۔۔۔”
“تم مجھے یہ بتاؤ کہ اس لڑکی کو پہنچنے والی معمولی سی بھی تکلیف کا تمہارے ماموں پر کیا اثر ہوگا؟ “وکی نے اسکی بات کاٹی۔
“وہ انکی اکلوتی بیٹی ہے۔آف کورس وہ بری طرح ٹوٹ جائینگے ۔مگر تم کیا کرنے والے ہو؟”
“میرے ذہن میں کئی پلانز ہیں ۔وقت آنے پر میں تمہیں سب بتاؤنگا۔فی الحال آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ اس لڑکی تک اپنے دل کی بات کب پہچانے والے ہیں جس کے لئے آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں؟” اسنے یکدم بات بدلتے ہوئے کہا ۔
” جب تک میں معاشرے میں اپنا مقام نہیں بنا لیتا تب تک میں اس سے کچھ نہیں کہونگا۔تاکہ اگر وہ انکار بھی کرنا چاہے تو اسکے پاس کوئی وجہ نہ ہو۔”اسکے چہرے پر محبت کی روشنی جگمگانے لگی تھی ۔
وکی نے مسکرا کر اسکی حوصلہ افزائی کی اور میچ دیکھنے لگا جس میں پینالٹی شوٹ ہو رہی تھی ۔
– – – – – – – – –
فرنچ ونڈو پر پڑے دبیز پردوں نے دھوپ کا راستہ روک رکھا تھا ۔کمرے میں جلتی دودھیا روشنی اندر کے منظر کو واضح کر رہی تھی۔اپنی میز پر بیٹھے تیکھی آنکھوں والے حسن مجتبٰی کے سامنے ایک فائل کھلی ہوئی تھی ۔اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑے مارکر سے اس نے کاغذ پر ڈی ڈی کمپنی بڑے بڑے حروف میں لکھا اور فائل میں لگے پیپرز کو یونہی الٹنے لگا۔مختلف اخبارات کے تراشے، رنگین چٹ نوٹس اور بہت سارے لوگوں کی تصویروں سے وہ فائل بھری ہوئی تھی ۔فائل کے صفحے پلٹتا وہ ایک جگہ رکا اور جھک کر بغور نظر ڈالی۔”پروسیکیوٹر عبدالقیوم ۔” اسنے مدھم آواز میں دہرایا اور مارکر سے اس نام پر دائرہ بنا دیا ۔اسے اس شخص کو چیک کرنا تھا مگر اب وہ کہاں رہتا تھا، کیا کرتا تھا، زندہ تھا بھی یا نہیں ۔اسے اسکا کوئی اندازہ نہیں تھا ۔ان سب چیزوں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے اسے کسی کی مدد کی ضرورت تھی کیونکہ اسکے پاس خود بالکل وقت نہیں تھا۔اسنے گہری سانس لے کر فائل بند کی۔فائل کی پیشانی پر جلی حروف میں “فہد ندیم” لکھا ہوا تھا ۔فائل واپس ڈیسک میں رکھتے ہوئے اسنے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی اور کچھ سوچتے ہوئے یکدم سیدھا ہوا۔اسکی بھوری آنکھوں میں ایک گہری چمک آئی تھی۔ڈیسک واپس کھولتے ہوئے اسنے اسنے اس میں سے ایک کاغذ نکالا تھا۔یہ کاغذ اسے انابہ نے دیا تھا۔
اسنے اسے وزیر معاشیات کے متعلق رپورٹ تیار کرنے کو کہا تھا ۔اور انابہ نے پچھلے پانچ سالوں میں اسکی کارکردگی کے علاوہ کچھ چیزیں ایسی بھی لکھی تھیں جو بےحد کانفیڈینشیل ہوتی ہیں ۔مثلاً اسکی اگلے ایک ہفتے کے شیڈول وغیرہ۔اور ساتھ ہی اس شخص کی ڈی ڈی کمپنی کے ساتھ اگلے مہینے ہونے والی میٹنگ۔لب بھینچے کاغذ واپس رکھتے ہوئے وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔اسے انابہ سے ملنا تھا۔یہ لڑکی اسکے لئے کارآمد ثابت ہو سکتی تھی ۔
“مس انابہ کدھر ہیں؟” اسنے عجلت سے دوسری میز پر بیٹھے فیصل کو مخاطب کیا۔
“ابھی کچھ دیر پہلے وہ باہر نکلی ہیں ۔میرے خیال میں…” اسنے اسے بتایا ۔مگر وہ اسکا جملہ مکمل ہونے سے پہلے گلاس ڈور کھولتا باہر بھاگا تھا ۔وہ لفٹ میں آ کر رکا اور ‘جی’ پر اپنی انگلی رکھ دی۔لفٹ گراؤنڈ فلور پر آ کر رکی اور سلائڈ ہوتا ہوا دروازہ کھل گیا ۔باہر آتے ہوئے اسنے اطراف میں اپنی نظریں دوڑائیں۔وہ یہاں نہیں تھی۔گہری سانس لیتے ہوئے وہ باہر پارکنگ میں آیا۔بالآخر وہ اسے سلور کار کا دروازہ کھولتی نظر آ گئی تھی ۔تیزی سے چلتا ہوا وہ اسکے پیچھے آیا اور کار کے بند ہوتے دروازے کو دائیں ہاتھ سے روکا۔
“مس سلمان! کیا ہم بات کر سکتے ہیں؟” کار کی چھت پر دوسرا ہاتھ رکھتے ہوئے اسنے جھک کر پوچھا ۔
ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی انابہ کے چہرے پر تحیر امڈ آیا۔اب اسنے اپنے کام میں کون سی گڑبڑ کر دی تھی جسکے لئے اسنے دوسرے دن کا بھی انتظار نہیں کیا تھا ۔
“شیور!”چہرے پر بشاشت طاری کرتی وہ باہر نکل آئی۔
” وزیر معاشیات کے متعلق رپورٹ آپ نے خود تیار کی تھی؟” حسن مجتبٰی کو تمہید باندھنا نہیں آتا تھا.
انابہ سلمان نے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے ماتھے پر گرنے والے بالوں کو پیچھے کرنے کی کوشش کی اور اپنی ذہانت سے چمکتی آنکھوں سے نیلے کوٹ کے ساتھ سفید شرٹ پہنے حسن کو دیکھا۔اسنے چہرے پر دن بھر کی تھکان تھی اور ٹائی ڈھیلی ہو کر سینے تک آ رہی تھی ۔اسکی گہری بھوری آنکھوں میں تیکھے پن کے ساتھ تجسس بھی تھا۔
“آف کورس میں نے یہ سب خود سے کیا ہے۔مگر اسکے لئے مجھے نا ہی دھوپ میں جلنا پڑا، نا ہی میرے جوتے دھول سے مانوس ہوئے اور نا ہی میں کسی کے دروازے تک گئی۔” لبوں پر مسکراہٹ لیے اسنے اسی کے جملے اس پر لوٹائے ۔
“مس انابہ! ان ساری چیزوں سے سروے کرتے وقت گزرنا ہوتا ہے ۔آپ تو محض رپورٹ تیار کر رہی تھیں ۔”
” اوکے تو آپ مجھ سے صرف یہی پوچھنے آئے تھے؟ “اسنے حیرت سے پوچھا ۔
” کیا میں آپ کو اتنا فضول لگتا ہوں؟ “اسنے الٹا سوال کیا۔
خیر وہ واقعی اتنا فضول نہیں تھا کہ انابہ سے ایک فضول سوال کرنے کے لئے پانچویں منزل سے نیچے اتر کر آئے۔انابہ نے جواباََ صرف مسکرانے پر اکتفا کیا ۔
” مجھے آپ سے صرف یہ جاننا تھا کہ آپ کو اگلے مہینے ڈریم لینڈ میں ہونے والی میٹنگ کے متعلق کس نے بتایا ہے؟” اسنے اپنے الفاظ مزید ضائع کرنے کا ارادہ ترک کر کے اس سے سیدھا سوال کیا۔
“کوئی بھی مجھے کیوں بتائیگا؟ آف کورس میرے اپنے ذرائع ہیں ۔” انابہ نے بے نیازی سے کہتے ہوئے اپنی بائیں کلائی میں پہنی رسٹ واچ سیدھی کی۔
” میں آپ کے انہیں ذرائع کے متعلق جاننا چاہتا ہوں ۔” اسنے بڑی دقت سے تحمل کا مظاہرہ کیا ۔وہ اپنے سوالات کے جوابات ایک دفعہ میں سننا پسند کرتا تھا ۔اسے پہیلیاں بجھوانے والے لوگ سخت ناپسند تھے۔اور سامنے کھڑی لڑکی اسکی ناپسندیدہ افراد کی لسٹ میں شامل ہو رہی تھی ۔
” میں نے کہا نا میرے اپنے ذرائع….. ”
” آخری دفعہ پوچھ رہا ہوں مس سلمان!” حسن مجتبٰی نے اسے اسکا جملہ مکمل کرنے کا موقع نہیں دیا اور ایک قدم آگے بڑھ کر اسکے قریب آیا تھا ۔
“نارملی میں اپنے سوال دہرایا نہیں کرتا۔مگر پھر پوچھ رہا ہوں کہ آپ نے اس میٹنگ کے متعلق معلومات کہاں سے حاصل کی تھیں؟ “اپنی بھوری آنکھیں اس پر جمائے اسنے پوچھا ۔کار سے ٹیک لگائے کھڑی انابہ کے لبوں پر بے نیاز سی مسکراہٹ ابھری جیسے اسے اسکے غصے کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔وہ تو چاہتی تھی کہ وہ دیر تک اسی طرح اسکے سامنے کھڑا رہے۔اس سے اپبے تلخ سوالات کرتا رہے اور وہ یونہی اسے دیکھتی رہے۔
“میں آپ سے بات کر رہا ہوں ۔” اس نے اسکے سامنے اپنا ہاتھ لہرایا تو وہ چونکی۔
“میں کمپیوٹر میں اچھی ہوں ۔اور اپنی اس صلاحیت کا استعمال کر کے میں کسی کا بھی اکاؤنٹ ہیک کر سکتی ہوں یا کسی کے ڈیٹا بیس سے انفارمیشن نکال سکتی ہوں ۔” اسنے کہا ۔
اسکی بات سن کر حسن کی بھوری آنکھیں مزید چمکیں اور اسنے دلچسپی سے اپنے سر کو اثباتی انداز میں جنبش دی ۔یہ لڑکی واقعی اسکے کام آ سکتی تھی۔
” مس انابہ! میری ٹیم بنینگی آپ؟ “اسنے اسکی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
انابہ بے چند لمحے بغیر پلکیں جھپکائے اسے دیکھا۔جانے کیوں اسے اپنا وہ خواب یاد آ گیا تھا جس میں وہ یونہی اس سے شادی کے لئے پوچھ رہا تھا ۔
“ایکچویلی میں ایک بے حد ذاتی کام کے سلسلے میں آپ سے مدد چاہتا ہوں ۔مگر میری شرط یہی ہے کہ اسکے متعلق میں جتنا مناسب سمجھو گا آپ کو بتا دونگا۔آپ خود سے کچھ نہیں پوچھینگی ۔از دیٹ اوکے؟” اسنے اسے پرکھتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا جسکے چہرے پر عجب رنگ پھیل رہے تھے ۔یوں جیسے کسی پینٹر نے اپنے کینواس پر کئی خوبصورت رنگ ایک ساتھ بکھیر دیئے ہوں ۔انابہ نے اسکی ساری باتیں اپنے کانوں کے بجائے دل سے سنی۔وہ کہنا چاہتی تھی اسے اسکی ساری شرطیں منظور ہیں ۔
“میری ایک شرط ہے ۔” اسنے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے مطمئن انداز میں کہا۔
شرط؟ “حسن کے بھینچے لب ڈھیلے ہوئے اور اسنے حیرانی سے اپنے سامنے کھڑی سفید شرٹ کے نیچے ٹخنوں تک میرون پینٹس میں ملبوس لڑکی کو دیکھا ۔وہ اسے کچھ زیادہ ہی ایزی لے رہی تھی ۔
” جی شرط یہی ہے کہ آپ مجھے پہلے ڈنر کرائینگے ۔کیونکہ مجھے بہت بھوک لگی ہے اور بھوک میں میں صحیح فیصلہ نہیں کر سکتی ۔” اسنے سینے پر بازو لپیٹے کہا۔
جواباََ حسن نے اپنا سر ہلایا۔”اوکے آپ گھر جائیں ۔اچھا سا ڈنر کریں اور پھر فون پر مجھ سے بات کریں ۔” اسنے لاپروائی سے کہا۔
انابہ نے حیرت سے اپنا منہ کھولا۔
” خدا حافظ کل ملتے ہیں ۔”وہ کہتا ہوا مڑا تو وہ اپنے سر کی پشت پر ہاتھ مارتی اسکے پیچھے بھاگی۔
“میری مکمل شرط تو آپ نے سنی ہی نہیں ہے ۔”وہ اسکے برابر آتی ہوئی بولی۔
” جی سنائیں ۔”وہ رکتا ہوا بولا۔
” اگر آپ مجھے ڈنر کرائینگے تو میں مثبت جواب دونگی ورنہ پھر جواب منفی ہوگا۔”اسنے کہا۔
حسن مجتبٰی کے دائیں گال پر پڑنے والے خفیف سے گڑھے نے یہ بتا دیا کہ اسنے اپنی مسکراہٹ دبائی تھی۔
تھوڑی دیر کے بعد نیوز بلڈنگ کے فوڈ ایریا میں وہ دونوں بیٹھے تھے ۔انابہ سلمان کھاتی ہوئی مسلسل بول رہی تھی اور حسن مجتبٰی اسکی باتوں سے بور ہوتا ہوا کافی پی رہا تھا ۔اسے یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اپنی ناپسندیدہ افراد کی لسٹ میں شامل لڑکی کے ساتھ کیوں بیٹھا ہوا ہے؟
– – – – – – – – – –
کچن کاؤنٹر کے پاس کھڑی جویریہ کی حلقوں میں دھنسی آنکھیں ابلتے ہوئے دودھ پر مرکوز تھیں ۔اسکے چہرے پر زدری چھائی ہوئی تھی۔اسکے خشک لب اور ویران آنکھیں کسی بھی دوسرے شخص کا دل پسیجنے کے لئے کافی تھیں ۔مگر وہ خود پتھر کی ہو چکی تھی ۔اسکے دل میں نرمی، محبت اور انسانیت جیسے کوئی جذبات باقی نہیں رہے تھے۔اگر کسی کو اس بات پر شک ہوتا کہ کیا انسان پتھر کے ہو سکتے ہیں تو وہ جویریہ ندیم کو دیکھ لیتا۔ابلتا ہوا دودھ برتن سے باہر آنے لگا ۔اسنے آنچ دھیمی کی اور فیڈر میں دودھ ڈالنے لگی۔یکدم باہر سے آتی آوازوں نے اسکا دھیان اپنی جانب کھینچا۔
“میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ آپ نے اس لڑکی کو اب تک گھر میں کیوں رکھا ہوا ہے؟” کریم یزدانی کی بیوی کی آواز جھنجھلائی ہوئی تھی ۔
“تو تمہارے خیال میں مجھے اسکے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟”
“جس طرح اسکے بھائی کو آپ نے راستے سے ہٹایا اسی طرح اسے بھی ہٹا دیتے۔میں اب تک یہ نہیں سمجھ پائی کہ آپ نے اس سے شادی کیوں کی ؟ ”
” تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں کوئی پیشہ ور قاتل ہوں یا عادی مجرم ہوں؟ قتل کرنے سے زیادہ مشکل اسے کَور کرنا ہوتا ہے ۔فہد ندیم کے قتل کو کتنی دقتوں سے ہم نے کَور کیا ہے اسکا تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتیں۔”وہ دونوں بیحد دھیمی آواز میں بات کر رہے تھے مگر انکی ساری باتیں جویریہ کے کانوں تک بخوبی پہنچ رہی تھیں ۔کاؤنٹر سے ٹیک لگائے کھڑے اسکی ویران آنکھوں میں سرخی چھانے لگی۔
” اور رہی بات اس لڑکی سے شادی کی تو… تو میں نے اغوا کے کیس سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے ایسا کیا تھا۔کیونکہ فہد اپنی بہن کے غائب ہونے پر زیادہ دن خاموش نہیں بیٹھ سکتا تھا اور وہ سیدھا مجھ تک آتا۔بلکہ وہ تو ایس. پی. احمد کے ساتھ آیا بھی تھا۔اور دوسری چیز میں کسی انتہائی قدم سے بچنے کے لئے جویریہ کو استعمال کر رہا تھا مگر اس بیوقوف رپورٹر نے خود ہی اپنی دشمنی مول لے لی۔”اسنے تاسف سے کہا۔
جویریہ کے لبوں سے گھٹی گھٹی سسکیاں آزاد ہوئیں ۔اپنے بھائی کے قاتل کے گھر رہنا بہت اذیت ناک تھا مگر پھر بھی وہ رہ رہی تھی ۔اپنی زندگی میں موجود واحد خونی رشتے کو اپنے پاس رکھنے کے لئے وہ اس عذاب سے ہر دن گزرتی تھی۔
” ٹھیک ہے… لیکن اب تو اس لڑکی کو ہماری زندگیوں سے باہر نکال دیں ۔” وہ جی بھر کے بیزار تھی ۔
“اب وہ یہاں سے کبھی نہیں نکل سکتی ۔کیونکہ اسنے مجھے وہ تحفہ دیا ہے جو تم کبھی نہیں دے سکتیں ۔اسنے مجھے میرا وارث دیا ہے ۔”
“تو کیا آبش آپ کی بیٹی نہیں ہے؟”
“ہاں کیوں نہیں ہے اور مجھے اس سے بہت محبت بھی ہے ۔مگر بیٹا بیٹا ہوتا ہے ۔”
“لیکن اگر اسنے انتقام کے لئے سوچا تو… ”
” وہ ایسا کبھی نہیں کریگی۔کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ اسے اسکی کتنی مہنگی قیمت چکانی پڑیگی۔”
مزید سننا جویریہ کے بس سے باہر ہو گیا تھا ۔وہ تیز رفتاری سے چلتی کچن سے نکلی اور اپنے کمرے میں آ گئی۔کاٹ کے پاس کھڑے اس دس سالہ بچے کو دیکھ کر اسکا دماغ گھوم گیا۔
” کیا کر رہے ہو تم میرے بچے کے پاس؟ “وہ اندر آتی ہوئی چیخی۔
” سس… سوری ممانی! میں تو بس بے بی کو چپ کرا رہا تھا ۔” وہ بچہ خائف ہو گیا ۔
وہ آگے آئی اور بچے کے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑا۔”کیا کہا تم نے؟”
“میں… میں بے بی کو چپ کرا رہا تھا ۔” وہ مزید خوفزدہ ہوا۔
” نہیں اس سے پہلے ۔”اسنے اسکے بالوں کو جھٹکا دیا ۔
“سوری ممانی! “تکلیف سے اسکی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
” کتنی دفعہ کہا ہے کہ مجھے ممانی مت کہا کرو۔” وہ تندی سے بولی۔
“سوری ممانی!” وہ رونے لگا تھا۔
“شٹ اپ افہام! “اسنے ایک تھپڑ اسکے منہ پر کھینچ مارا۔”آئندہ میرے بچے کے آس پاس نظر آئے یا مجھے ممانی کہنے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہوگا۔اب دفعہ ہو جاؤ یہاں سے ۔”
آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ وہ باہر نکل گیا تھا ۔
جویریہ کی سرخ آنکھیں نم ہوئیں اور اس سے آنسو گرنے لگے۔اسنے بھیگے چہرے کے ساتھ جھک کر ایک ماہ کے حمزہ یزدانی کو چوما اور اسکے منہ میں فیڈر لگا دیا. وہ صرف اسی وجود کی وجہ سے اس گھر میں رہنے اور خاموشی اختیار کرنے کے لئے مجبور تھی۔اور جانے کیوں وہ بے ضرر سے افہام کے لئے اتنی سخت ہو گئی تھی ۔حالانکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اس معصوم بچے پر اس گھر میں بہت ظلم ہوتا ہے اور اسکی طرح وہ بھی مظلوم تھا۔مگر اسکے دل کی سختی کی وجہ شاید اس بچے کا وکی کے ہم عمر ہونا تھا۔وہ جب اسے دیکھتی اسے وکی ہی یاد آتا تھا ۔تب اسکا دل نفرت ست بھر جاتا۔اس گھر کے مکینوں کی وجہ سے اس نے اپنے زندگی کے سارے رشتے کھو دئیے تھے۔اور اسکے اندر کی ساری گھٹن، ساری جھلاہٹ، غصہ اور نفرت افہام پر نکل جاتی تھی ۔کیونکہ اسکے ساتھ برا سلوک کرنے پر کوئی باز پرس کرنے والا نہیں تھا اور نا ہی کسی کو کوئی فرق پڑتا تھا ۔
– – – – – – – – –