اس چھوٹے سے لیونگ روم میں ٹی وی کے پاس کھڑا میکینک اسکے پرزوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا ۔وہ جب سے آیا تھا یونہی بغیر کچھ کہے اپنا کام کر رہا تھا ۔سعد اسکی پشت کو دیکھتا نا معلوم سی الجھن محسوس کر رہا تھا ۔شاید اسکی وجہ اس میکینک کا حلیہ تھا۔سیاہ شرٹ اور سیاہ جینز میں ملبوس اسنے اپنے سر پر لگائی پی کیپ بالکل آگے جھکا رکھی تھی ۔سعد کو یقین تھا کہ اگر وہ اسے کہیں اور دیکھیگا تو نہیں پہچان پائیگا۔
“یہ ٹی وی دوبارہ بگڑیگا تو نہیں؟” اندر آتی ہوئی سعد کی ماں نے کہا ۔
“جی نہیں اماں!” اس میکینک نے سرد انداز میں جواب دیا ۔اسکی آواز میں اتنی ٹھنڈک تھی کہ سعد بے اختیار ہی خوفزدہ ہونے لگا۔میکینک اب تیزی سے ہاتھ چلاتا اپنا سامان سمیٹ رہا تھا ۔بوڑھی عورت واپس اندر چلی گئی تھی ۔
اپنا ٹول بکس اٹھائے ہوئے وہ سعد کی طرف پلٹا۔
“کون ہو تم؟ “سعد نے بے اختیار ہی پوچھا ۔
“تین دفعہ ۔۔۔” اسنے اپنی تین انگلیاں دکھائیں ۔”تین دفعہ میں نے تمہیں کال کی کہ میں تم سے مل کر تمہارے باپ کے متعلق بات کرنا چاہتا ہوں مگر شاید تمہاری سماعت صحیح سے کام نہیں کرتی۔اسلئے مجھے تمہارا ٹی وی ٹھیک کرنے آنا پڑا۔”اسنے سرد انداز میں کہا ۔
“کیا بکواس کر رہے ہو؟ میرا باپ قتل کے سلسلے میں جیل میں ہے اور میں اسکے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ۔”وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہا تھا ۔
میکینک نے آگے بڑھ کر سامنے رکھی میز پر ہاتھ مارا۔
” تم واقعی نہیں جانتے یا تمہیں کسی چیز نے اتنا اندھا کر دیا ہے کہ اپنے باپ کی موت بھی نظر نہیں آ رہی ہے ۔”اسنے آگے آ کر اسکا کالر پکڑ لیا تھا۔
” مجھے تو لگتا ہے کہ میرے باپ کی موت کے ذمہ دار تم ہی ہو ۔” اسنے دونوں ہاتھوں سے اپنا کالر چھڑانے کی کوشش کی مگر اسکی آہنی گرفت سے نکلنا سعد کے بس میں نہیں تھا۔
” اگر تم ایسا سمجھتے ہو تو یہی سہی۔اگر تم نے زبان نہیں کھولی تو مجھے تمہاری جان لینے میں بھی کوئی عار نہیں ہوگا ۔”اسنے کہتے ہوئے اسکے کالر کو جھٹکا دیا۔
سعد چند لمحے خاموش رہا جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔
“جلدی! میرے پاس وقت نہیں ہے ۔” اسنے بیزار کن لہجے میں کہا ۔
” میرا باپ اسد خان کسی غیر قانونی کام میں ملوث تھا اور اس چیز کی خبر تمہارے باپ کو ہو گئی تھی ۔اسلئے میرے باپ نے اسے قتل کر دیا ۔” اسنے جواب دیا ۔
“ایک گناہ چھپانے کے لئے دوسرا گناہ ۔نائس!” میکینک کو اسکا جواب دلچسپ لگا۔” اگر مجھے معلوم ہوا کہ تم نے مجھ سے جھوٹ بولا ہے تو تم دوبارہ اپنی ٹانگوں پر کھڑے نہیں ہو پاؤگے۔”اسنے دھمکی آمیز انداز میں کہتے ہوئے اسکا کالر چھوڑا اور باہر نکل گیا تھا ۔
تھوڑی دیر تک چلنے کے بعد اسنے ایک جگہ رک کر کانوں میں ائیر فون لگایا اور موبائل پر ٹیپ کیا تھا۔سعد کی آواز اس میں گونجنے لگی۔وہ کسی سے فون پر بات کر رہا تھا ۔
” سر ابھی ایک آدمی مجھ سے پاپا کے متعلق پوچھنے آیا تھا اور میں نے وہی کہا جو آپ نے بتایا تھا۔”
“معاف کر دیں میں اسکا چہرہ صحیح سے نہیں دیکھ سکا۔”
“اگر دوبارہ وہ مجھے نظر آئے تو میں آپ کو ضرور بتاؤنگا۔”
“جی جناب! اگر آج پیسے مل جاتے تو۔۔۔”
“شکریہ جناب!”
آواز آنی بند ہو گئی ۔کانوں سے ائیر فون نکالتا وہ سرد انداز میں مسکرایا۔جیسا اس نے سوچا تھا ویسا ہی ہوا تھا ۔وہ جانتا تھا کہ اگر اسد خان کے بیٹے نے سچائی پر پردہ ڈالا تو اسکا صرف ایک مطلب ہوگا کہ وہ دوسری پارٹی کے ساتھ کام کر رہا ہے ۔اسلئے اس نے سعد کی نظر بچا کر کمرے میں ٹیلی فون کے پاس بگ پلانٹ کر دیا تھا ۔اسے اندازہ تھا کہ اسکے نکلتے ہی سعد اس بات کی اطلاع دینے کے لئے ضرور کسی سے رابطہ کریگا۔
اب وہ دوبارہ سعد خان کے گھر کی طرف جا رہا تھا ۔اس بار بھی دروازہ سعد نے ہی کھولا اور موت کے فرشتے کی طرح اسے سامنے کھڑا دیکھ کر اسنے دروازہ بند کرنا چاہا تھا مگر اسکے پہلے ہی وہ اسے دھکیلتا اندر داخل ہو گیا ۔
“دروازہ بند کر دو۔” اسنے تحکمانہ لہجے میں کہا ۔میکانکی انداز میں دروازہ بند کرتا سعد اندر آ گیا۔
“سعد خان تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ جن لوگوں نے تمہارے باپ کو قتل کیا وہ لوگ تمہارے ہمدرد ہو سکتے ہیں؟ نہیں سعد!” اسنے افسوس سے اپنا سر ہلایا۔”اگر انہیں تم سے زرا بھی خطرہ ہوا تو وہ لوگ تمہیں بھی زندہ نہیں چھوڑینگے ۔”
“تمہیں یقین کیوں نہیں آتا کہ میں نے تم سے سچی بات کہی ہے ۔”سعد غصے سے چلایا۔
وہ قدم قدم چلتا اسکے قریب آیا اور پوری قوت سے اسکے منہ پر مکا مارا تھا۔سعد کا منہ گھوم گیا اور وہ لڑکھڑایا۔
اسنے شانوں سے پکڑ کر اسے سیدھا کیا اور اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سرگوشی کی۔” اٹھارہ سال۔۔۔اٹھارہ سال سے سچ جاننے کے لئے میں پاگلوں کی طرح ہر ایک کے پیچھے بھاگ رہا ہوں ۔اس سے پہلے کہ میرا دماغ مزید خراب ہو جائے مجھے بتا دو کہ اٹھارہ سال پہلے پچیس اپریل کو کیا ہوا تھا؟” اسکی آنکھوں میں غم انگیز کیفیت پھیلنے لگی۔
“میں سچ کہہ رہا ہوں میرے باپ نے ہی تمہارے باپ کا قتل کیا تھا ۔”سعد اپنی بات پر مصر تھا ۔
” جھوٹ ۔۔۔ایک دفعہ پھر جھوٹ ۔”اسنے دوسرا مکا اسکی ناک پر مارا۔سعد کی ناک سے خون بہنے لگا۔وہ اپنی ناک دبائے نیچے جھک گیا۔
“سعد خان! میری برداشت کا امتحان مت لو۔۔” وہ غرایا اور بالوں سے پکڑ کر اسکا چہرہ اوپر کیا۔
” میرے بیٹے کو چھوڑ دو۔جو تم جاننا چاہتے ہو وہ میں تمہیں بتاؤنگی ۔”اسد خان کی بیوی نے اندر آتے ہوئے کہا ۔
وہ اسکی جانب متوجہ ہوا۔
“ممی! آپ کچھ نہیں بتائینگی ۔” سعد اٹھتا ہوا بولا ۔
” اپنا منہ بند رکھو۔”اسنے ہاتھ سے دھکا دے کر اسے اسکی ماں سے دور کیا۔
“جلدی بتائیں جو بھی آپ جانتی ہیں ۔”اسنے عجلت سے کہتے ہوئے اپنے موبائل کا ریکارڈر آن کر دیا ۔
– – – – – – – – – –
یزدانی مینشن کے لان میں رات کی تاریکی میں بھی دن کا سماں تھا ۔جگمگاتی روشنیوں سے ڈوبا لان مہمانوں سے بھرا ہوا تھا ۔ویٹر ٹرے لئے ہر طرف گھوم رہے تھے اور باربی کیو کی اشتہا انگیز خوشبو ہر طرف پھیلتی جا رہی تھی ۔آج کی پارٹی ڈی ڈی کمپنی کی سکسیز پارٹی تھی۔کمپنی کا لانچ کیا گیا نیا پراڈکٹ اپنے پچھلے ریکارڈ توڑ چکا تھا ۔اسکی وجہ سے راتوں رات اسٹاک مارکیٹ میں انکے شئیرز آسمان کو چھونے لگے تھے۔لان کے دائیں جانب آبش کریم اپنی دوستوں کے ساتھ کھڑی نزاکت سے کانٹے چمچ کی مدد سے چکن کا ٹکڑا کاٹ رہی تھی ۔اور قدرے گوشے میں رکھی کرسی پر افہام حیدر بیٹھا ہوا تھا ۔اسکے سامنے میز پر چاولوں کی پلیٹ تھی جس سے اس نے اب تک ایک چمچ بھی نہیں کھایا تھا اسکے چہرے پر تنہائی کا احساس رقم تھا۔اس بھرے مجمع میں کوئی ایسا واحد انسان بھی نہیں تھا جسے افہام حیدر اپنا کہہ سکتا۔کانچ کے گلاس سے گھونٹ گھونٹ پانی پیتا وہ وقت گزاری کی کوشش کر رہا تھا ۔تب ہی میز پر رکھا اسکا موبائل تھتھرانے لگا۔اسنے موبائل اٹھا کر دیکھا۔جس نئی کمپنی کو اسنے جوائن کیا تھا وہاں سے اسے برطرف کئے جانے کا میسج آیا تھا ۔وجہ یہی بتائی گئی تھی کہ وہ اپنے کام میں سنجیدہ نہیں ہے ۔افہام نے اپنا سر جھٹکا۔وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اسے اسلئے وہاں سے نہیں ہٹایا گیا تھا کہ وہ اپنا کام صحیح سے نہیں کرتا۔وہ جانتا تھا کہ یہ اسکے ماموں کی دی گئی دھمکی کا عملی نمونہ تھا۔اسنے انکی مرضی کے خلاف دوسری جگہ جاب شروع کی تھی ۔وہ چاہتے تھے کہ وہ انکی ہی کمپنی میں کام کرتا رہے۔افہام کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اگر وہ اس سے اسکی صلاحیت کے مطابق جاب دیتے۔مگر انہوں نے اسے جو کام دیا تھا وہ یہ تھا کہ وہ دن بھر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا رہے اور کسٹمر کی کمپلینز اور فیڈ بیک کا جواب دیتا رہے۔اسنے ایم کام کیا ہوا تھا اور وہ کسی بھی اچھی پوسٹ پر بیٹھنے کے قابل تھا۔لیکن اسکے ماموں کریم یزدانی اسے کبھی آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے ۔اپنے ٹکڑوں میں پلنے والے یتیم بھانجے کی ترقی انہیں کہاں برداشت ہوتی۔اسکے ہاتھ پیر مضبوط ہونے کا مطلب تھا کہ وہ اپنا سب کچھ واپس حاصل کرنے کے قابل ہو گیا ہے ۔اور یہ کوئی پہلی جاب نہیں تھی جو انکی وجہ سے اسے چھوڑنی پڑی تھی ۔اسنے گہری سانس لے کر اپنے اندر کی ناگواری دبائی اور دونوں کہنیاں میز پر رکھے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔یکدم اپنی سیدھ میں دیکھتے ہوئے اسکی آنکھیں سکڑیں اور اس نے اُس سولہ سترہ سالہ لڑکے کو بے حد تیزی سے اپنی جانب آتا دیکھا. اُس لڑکے کے جبڑے بھنچے تھے اور آنکھوں سے غصے کے شرارے لپک رہے تھے ۔افہام کے چہرے پر ناگواری ابھری۔کریم یزدانی کا اکلوتا ولی عہد اسے اپنی بدتمیزیوں سمیت نا پسند تھا۔
“تم اپنی حد بھول گئے ہو افہام!” وہ اسکے سر پر کھڑا بد لحاظی سے بولا۔
“حمزہ! ہم بعد میں بات کرینگے۔” اسنے دھیمے لہجے میں کہا۔وہ اس وقت مہمانوں کے درمیان اس بدتمیز لڑکے کے منہ نہیں لگنا چاہتا تھا ۔جو بے عزتی ہوتی وہ اسکی ہوتی، جو تماشہ بنتا اسکا بنتا۔
“نہیں بعد میں کیوں؟مجھے تم سے ابھی بات کرنی ہے ۔” اسنے اکھڑ لہجے میں کہا ۔
“جو بات کرنی ہے سکون سے کرو۔سارے مہمان دیکھ رہے ہیں ۔” اسنے نرمی سے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ۔
“اگر سب لوگ دیکھتے ہیں تو دیکھنے دو۔انہیں بھی تو معلوم ہو کہ میرے باپ کی روٹیاں کھانے والا انسان کتنا احسان فراموش ہے ۔”وہ اور مشتعل ہوا جا رہا تھا ۔
“حمزہ!” وہ تیز لہجے میں کہتا کھڑا ہو گیا ۔” تم ہوش میں تو ہو؟ اگر ایک اور فضول بات کی تو۔۔۔” اسنے غصے سے کہتے ہوئے اپنا جملہ ادھورا چھوڑا۔
” ہاں تو کیا کر لوگے؟ بولو؟ اتنی اوقات ہے تمہاری کہ مجھ پر ہاتھ اٹھاؤ۔”حمزہ نے تندی سے کہا اور آگے بڑھ کر اسے دھکیلا تھا۔
“مت بھولو حمزہ کہ میں تم سے عمر میں بڑا ہوں اور تمہارا کزن بھی ہوں ۔”
” مجھے کوئی پروا نہیں ہے کہ تم کون ہو اور میرے کیا لگتے ہو؟ ایک پیسے کی اوقات نہیں ہے تمہاری میرے آگے۔”وہ اب بلند آواز میں اس پر چلانے لگا تھا۔لان میں موجود سارے لوگ ادھر ہی متوجہ ہو گئے۔افہام نے اہانت سے اپنا چہرہ سرخ پڑتا محسوس کیا ۔
” جو بھی ہو ۔۔۔اگر تمہارا دوست دوبارہ اس گھر میں ڈرگز لیتا نظر آیا تو میں اسے ایک دفعہ اور ذلیل کرونگا۔تمہاری طرح تمہارے بدتمیز دوستوں کی مجھے کوئی پروا نہیں ہے ۔” اسنے تلخ لہجے میں کہا اور جانے کے لئے قدم بڑھائے تھے۔
حمزہ کا چہرہ سرخ ہوا اور آنکھوں میں خون اتر آیا تھا ۔اسنے یکدم سامنے پڑی میز پر ٹھرکر ماری اور افہام کا کالر پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔افہام نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسکی کلائی پکڑی اور اسکا ہاتھ جھٹکا ۔اسکے کالر سے اسکی گرفت ڈھیلی ہوئی تو افہام نے اپنا کالر درست کیا۔
“ہیو سَم مینرز حمزہ یزدانی ۔” اسنے ترش لہجے میں کہتے ہوئے اسے پیچھے کی طرف دھکا دیا ۔حمزہ زرا سا پیچھے لڑکھڑایا۔
لب بھینچے سارا تماشا دیکھتے کریم یزدانی نے دفعتاً آگے بڑھ کر ایک بھرپور ہاتھ افہام کے منہ پر مارا۔وہ اس اچانک حملے کے لئے تیار نہیں تھا۔اسلئے چند قدم پیچھے ہوتا میز سے ٹکرا گیا ۔
“اپنی حدود پہچاننا سیکھ لو افہام حیدر! اور آئندہ میرے بیٹے کو ہاتھ لگانے سے پہلے دس دفعہ سوچ لینا کہ میں تم جیسے دو ٹکے کے لوگوں کو انکی اوقات یاد دلانا اچھی طرح جانتا ہوں ۔” کریم یزدانی نے ہتک آمیز انداز کہتے ہوئے اسے اسکی حیثیت جتا دی تھی۔
افہام سے اپنا سر نہیں اٹھایا گیا ۔یونہی سر نیچا کئے اسنے ہونٹ سے رستے خون کو ہاتھ سے دبایا اور پھر اسی طرح سر جھکائے لان عبور کرتا گھر کی طرف بڑھا تھا۔اتنے لوگوں کے درمیان اپنی اس بے عزتی کے بعد مزید یہاں رکنا خود کو شرمندہ کرنا تھا۔خود پر پڑنے والی تحقیر آمیز نگاہوں کو نظر انداز کرتا وہ اندر جا رہا تھا ۔
“تم اسے میرا فیانسی کہہ رہی تھیں ۔میرے سامنے اسکی اوقات دیکھ لی نا۔” دروازے کا ہینڈل گھماتے اسنے آبش کی آواز سنی۔صبر کا گھونٹ پیتا وہ اپنے کمرے میں آ گیا تھا ۔کمرے میں آ کر اسنے دروازہ آواز کے ساتھ بند کیا۔اب اسکا سارا ضبط ٹوٹ گیا تھا ۔آنکھوں سے جیسے نفرت و غصے کی لپٹیں باہر آنے لگیں ۔پورا جسم دہکتا ہوا انگارہ بن گیا تھا ۔اسنے سامنے پڑا گلاس اٹھا کر دیوار پر دے مارا ۔ایک چھناکے سے گلاس کرچیوں میں تقسیم ہوا۔تیزی سے ہانپتے ہوئے اسنے الماری میں رکھی ساری کتابیں اٹھا کر زمین پر پٹخنی شروع کر دی ۔تھوڑی دیر میں الماری خالی ہو گئی تھی مگر اسکے اندر کا اشتعال کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔آنکھوں سے اب سرد آنسو باہر آنے لگے۔آستین سے آنکھیں رگڑتے ہوئے اسنے اپنی ہتھیلی کا مکا بنا کر دیوار پر دے مارا تھا ۔درد کا کوئی احساس اسکے اندر نہیں جاگا۔اسنے دوسرا مکا دیوار پر مارا۔ایک ہلکی سی لہر اسے چھو کر گزری ۔بے کسی۔۔۔بے بسی۔۔ بے اختیاری۔۔۔اسنے تیسرا مکا پوری قوت سے دیوار پر مارا۔ذلت۔۔۔تذلیل ۔۔۔حقارت ۔۔۔درد کا احساس اب شدت اختیار کر رہا تھا ۔چوتھا مکا دیوار پر پڑا۔نفرت۔۔۔غصہ ۔۔۔تپش۔۔۔پھر وہ رکا نہیں تھا۔وہ پاگلوں کی طرح اپنا ہاتھ دیوار پر مارتا رہا۔آنسو بار بار آنکھوں سے پھسلنے لگتے۔اپنے آنسوؤں پر شرمندگی محسوس کرتا وہ بغیر رکے خود کو تکلیف پہنچائے جا رہا تھا ۔یہاں تک کہ اسکی مٹھیوں کی جلد پھٹ گئی اور اس سے خون رسنے لگا۔وہ دیوار سے ہٹتا ہوا آئینہ کے آگے کھڑا ہو گیا ۔سامنے آنسوؤں سے بھیگے چہرے پر بے پناہ کرب سمیٹے افہام حیدر کھڑا تھا۔پھر دھیرے دھیرے آئینہ میں اسکا عکس دھندلا ہوتا گیا اور اسکی جگہ ایک دس سالہ بچے نے لے لی۔سامنے موجود بچہ بھی رو رہا تھا ۔اپنے ماں باپ کو یاد کرکے بے بسی سے بلک رہا تھا ۔اسکے ماں باپ ایک جھٹکے میں ایک ایکسیڈنٹ نے چھین لئے تھے۔اسے اسکے ماموں اپنے گھر لے آئے اور یہیں اسکی زندگی کے بد ترین دن شروع ہوئے تھے ۔ایک سہما ہوا یتیم بچہ جسے محض دنیا کو دکھانے کے لئے کفالت کی غرض سے لایا گیا تھا ۔اسکی اس گھر میں کوئی عزت، کوئی مقام نہیں تھا ۔پہلے دن ہی اسےگھر کی ملازمہ کے حوالے کر دیا گیا ۔ہر انسان کی فطرت میں حاکمیت ہوتی ہے اسلئے جسے جب موقع ملتا ہے خود سے کمتر انسان پر تسلط قائم کرنا اپنا حق سمجھتا ہے ۔وہ ملازمہ بھی ایسی ہی تھی۔اسے یاد نہیں تھا کہ بارہ تیرہ برس کی عمر تک اسنے اس سے کتنی دفعہ مار کھائی تھی یا اسنے کتنی دفعہ اسے تنہا کمرے میں بند کردیا تھا۔وہ اس دوران اندھیرے کمرے میں گھنٹے موڑے روتا رہتا تھا ۔بے بسی سے اپنی ماں کو پکارتا، اللہ سے مدد مانگتا، رحم کی بھیک مانگتا رہتا ۔مگر گھر کے مالکان تو اسے یہاں لا کر اس سے قطعی بے پرواہ ہو چکے تھے ۔جسے جب موقع ملتا اپنا سارا فرسٹریشن اس پر نکال لیا کرتا تھا ۔اسے آہستہ آہستہ اس گھر کے مکینوں سے نفرت ہوتی گئی۔نفرت کی آگ اب اسکے وجود کو جلا کر خاکستر کر چکی تھی۔
آئینہ میں دھندلا عکس دوبارہ صاف ہوا اور سرخ آنکھوں میں جلتی جنون کی آگ لئے افہام کھڑا تھا۔اس جنون، نفرت کی انتہا صرف انتقام تھا۔انتقام اور عبرت انگیز انتقام ۔
“کریم یزدانی! اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ میں مجبور ہو کر یہ گھر چھوڑ کر چلا جاؤں تو میں تمہاری یہ خواہش پوری نہیں کرونگا۔جب تک میں تمہیں تباہ نہ کر دوں اور اپنا حق واپس نا لے لوں. میں کہیں نہیں جا رہا ۔میں یہیں ہوں ۔تمہارے سر پر ۔تمہاری تباہی کا باعث بن کر۔” وہ آئینے میں دیکھتا ہوا ہنسا۔اس ہنسی میں بے پناہ زہر تھا، بے پایاں اذیت تھی اور بے انتہا آگ تھی۔
– – – – – – – – –
یزدانی مینشن کے بائیں حصے کی تعمیر کا کام زور و شور سے جاری تھا۔اور اسی زیر تعمیر حصے کے ایک کمرے میں جویریہ ندیم کو بند کیا گیا تھا ۔کمرے کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی جویریہ کی آنکھیں روشن دان کی طرف مرکوز تھیں ۔اس روشن دان سے چاند کی ہلکی روشنی باہر آ رہی تھی ۔روشنی پر اپنی ویران نظریں جمائے وہ بھائی کا انتظار کر رہی تھی۔اسکے بھائی نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے یہاں سے لے جائیگا۔اسلئے اپنی آخری امید کو زندہ رکھے وہ اسکا انتظار کر رہی تھی۔
“بھائی! مجھے یہاں سے لے جائیں نا۔۔۔مجھے معلوم ہے کہ آپ آئینگے۔۔۔میں جانتی ہوں کہ آپ مجھے لینے آئینگے۔۔۔لیکن بھائی دیر نہ کریں ۔۔. ورنہ آپکی جویریہ مر جائیگی۔۔۔پھر آپکو دفن کرنے کے لئے اسکی لاش ہی ملیگی۔۔. بھائی دیر نا کریں ۔۔۔میں اور یہاں نہیں رہ سکتی۔۔۔” اسکی بھیگی سسکیوں سے لبریز آواز اندھیرے میں گونجی۔ویران اور خالی آنکھیں رونا چاہتی تھیں ۔مگر اب اسکے پاس رونے کی قوت نہیں بچی تھی۔تھوڑی دیر میں اس پر غنودگی چھانے لگی۔دھیرے دھیرے وہ ہلکی نیند میں چلی گئی تھی ۔
” آئی پرامس پھپو! میں ہر مشکل میں آپکے ساتھ رہونگا۔”
“پھپو! آپ رویا نا کریں ۔۔۔”…. “پھپو!پھپو!” دھیمی باز گشت ۔۔
“پھپو ۔۔۔” تیز سرگوشی ۔۔۔”پھپو آپ مجھے چھوڑ کر نا جائیں ۔۔۔” ایک پر زور التجا۔۔۔اسکا وکی اسکے سامنے کھڑا اس سے لڑ رہا تھا ۔اس سے شکایتیں کر رہا تھا کہ وہ اسے تنہا چھوڑ کر کیوں چلی گئی؟ وہ آگے آئی۔اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تاکہ اسے قریب کر کے اپنے گلے لگا سکے۔اسکا ہاتھ وکی کے بالوں کو چھوا تھا کہ کسی نے اسے پیچھے گھسیٹ لیا۔کوئی اسے بے دردی سے گھسیٹتا اسے وکی سے بہت دور لے جا رہا تھا ۔
“وکی!! وکی!!” وہ پوری قوت سے چیخی۔مگر اسے کھینچ کر لے جانے والا اسے ہنوز بے رحمی سے لے جا رہا تھا ۔وہ آنکھیں بند کئے اور تیزی سے چیخنے لگی۔اسکی کہنیاں زمین سے رگڑ کھا رہی تھیں ۔خراش کی وجہ سے اٹھتی ہوئی ٹیس تیز ہونے لگی۔خود کو اسکی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے اسنے اپنی آنکھیں کھولیں۔وہ اسی تنگ کمرے میں موجود تھی۔سامنے کوئی وکی نہیں تھا۔مگر خواب کا آدھا حصہ بھیانک حقیقت بن کر اسکے سامنے موجود تھا۔سیاہ سوٹ میں ملبوس وہ شخص اسے گھسیٹ کر باہر کی طرف لے جا رہا تھا ۔مگر فرق یہی تھا کہ وہ خاموش تھی۔خاموشی سے بغیر احتجاج کئے اسکے ساتھ گھسٹتی۔۔۔مزاحمت کی کوشش کئے بغیر ۔۔۔
– – – – – – – – –