وہ دونوں یونیورسٹی گیٹ کے اندر داخل ہوئیں تھیں ۔ریشم تو بالکل نارمل تھی البتہ انابہ سلمان کو نارمل کہنا نارمل لوگوں کی بے عزتی کرنا تھا۔وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولے یونی گراؤنڈ میں لگے پوسٹرز دیکھ رہی تھی ۔حسن مجتبٰی کی تصویر والے اس پوسٹر میں ایک سلوگن لکھا ہوا تھا ۔”رپورٹ دَ ٹرتھ” ۔حسن مجتبٰی اپنے نیوز چینل کی جانب سے ایک طرح کا ٹیلنٹ ہنٹ کرنے آیا تھا ۔اس پروگرام میں کسی بھی تعلیمی قابلیت یا ڈپارٹمنٹ کی قید نہیں تھی۔جسے بھی یہ لگتا تھا کہ وہ سچ ڈھونڈ سکتا ہے وہ اس پروگرام میں شرکت کر سکتا تھا ۔بس ایک چھوٹا سا کیو اینڈ اے اور اس میں کامیاب ہونے کے بعد کوئی بھی چھ مہینوں تک ‘ٹرتھ مرر’ میں کام کرنے کا تجربہ حاصل کر سکتا تھا ۔یہ ساری چیزیں اسے ریشم نے بتائی تھیں مگر وہ سب بھول چکی تھی ۔وہ تو بس حسن مجتبٰی کے پوسٹرز دیکھ رہی تھی ۔یک ٹک بغیر پلکیں جھپکائے ۔۔۔
“انّو! چلو آڈیٹوریم کی کھڑکی سے اسے دیکھ لیتے ہیں ۔” ریشم نے اسکا شانہ ہلایا۔
وہ چونکی۔کچھ سیکنڈز اسکی بات کو سمجھنے میں صرف کئے اور پھر سر کو نفی میں ہلایا۔
“حسن مجتبٰی میرے سامنے آئے اور میں اس سے ملے بغیر دور سے دیکھتی رہوں ۔کیا ایسا ہو سکتا ہے؟”
“ڈونٹ ٹیل می کہ تم اس ٹیلنٹ ہنٹ میں حصہ لینے جا رہی ہو۔”ریشم نے اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
انابہ نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا اور اپنی انگلی سے پیشانی پر موجود بالوں کو پیچھے کیا۔
” تم مجھے اتنی اچھی طرح کیسے جانتی ہو یار؟ اور صرف میں نہیں تم بھی میرے ساتھ چل رہی ہو۔”وہ یونی گیٹ کی سیدھ میں موجود آڈیٹوریم کی جانب بڑھنے لگی تھی ۔
“تمہیں جرنلزم کی جے بھی آتی ہے؟” ریشم نے اپنے دانت پر دانت جمائے۔”اور میں نہیں چل رہی تمہارے ساتھ ۔” اسنے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے۔
” چلو نا کچھ نہیں ہوتا۔”
” انابہ تمہیں شاید اپنے لکس کی وجہ سے نیوز ریڈنگ کا کام دے دیا جائے ۔مجھے کس کیٹیگری میں شامل کیا جائے گا؟ “اسنے رشک سے انابہ سلمان کو سر سے پیر تک دیکھا۔کاٹن کہ کرتی پر ٹخنوں تک سیاہ جینز، پیروں میں موجود اسنیکرز اور گلے میں مفلر کے انداز میں لپٹا دوپٹہ۔۔چہرے پر اپنی مخصوص بے نیازی اور اپنے کندھے تک کٹے بالوں کے ساتھ بلا شبہ وہ دلکش لگ رہی تھی ۔
” ریشم۔۔۔”اسنے باقاعدہ اسے پچکارا۔”تمہیں چاہے جس کیٹیگری میں شامل کیا جائے ہم دونوں ایک ساتھ جائینگے ۔”
مگر اسکے اصرار کرنے کے باوجود وہ تیار نہیں ہوئی۔مجبوراً اسنے صرف اپنا فارم بھرا اور خود اعتمادی سے اپنا سر اٹھائے آڈیٹوریم کے اندر داخل ہو گئی۔
اندر بینچوں پر پندرہ بیس لڑکے لڑکیاں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ سب سے آخر. میں تھی۔اسنے بیگ سے ایک پین اور نوٹ بک نکال لی ۔ایک ہاتھ سے پین پکڑے اسنے کوہنی ڈیسک پر رکھی، تھوڑی ہتھیلی پر جمائی اور اپنا سر اٹھا کر اسٹیج پر دیکھا۔
اسٹیج پر میز کے آگے تین کرسیاں رکھی تھیں۔درمیانی کرسی پر وہ بیٹھا ہوا تھا ۔اسکی گہری بھوری آنکھوں میں سنجیدگی تھی اور نمایاں تیکھا پن۔دو انگلیوں کے درمیان پین گھماتا وہ اپنے دائیں جانب موجود اسسٹنٹ سے کچھ کہہ رہا تھا ۔
“چلیں ہم شروع کرتے ہیں ۔” اسسٹنٹ نے پروگرام شروع کیا ۔
حسن مجتبٰی کے بر عکس اسکے چہرے پر شوخی تھی اور وہ بار بار اپنے دانتوں کی نمائش کر رہا تھا ۔
“میں فیصل ہوں ۔یہ ٹرتھ مرر کے سب سے قابل رپورٹر حسن مجتبٰی اور یہ ہمارے کیمرا مین عادل ہیں ۔ہم ایک ٹیم کی طرح کام کرتے ہیں اور امید ہے کہ آپ میں سے جو بھی کوالیفائی ہوگا اسے بھی ایک سپورٹنگ ٹیم کا ساتھ ملیگا۔” اسنے مسکرا کر کہا ۔
ہال میں دھیمی تالی گونجی۔
“اوکے! سب سے پہلے مس انعم آ جائیں ۔”فیصل نے لسٹ پر نظر ڈالتے ہوئے کہا ۔
وہ لڑکی اسٹیج پر آئی اور میز کے سامنے لگی کرسی پر بیٹھ گئی۔پہلے اس سے چند بنیادی سوال کئے گئے ۔پھر حسن مجتبٰی اسکی جانب متوجہ ہوا۔
” آپ ٹرتھ مرر میں کیوں کام کرنا چاہتی ہیں؟ ‘اسنے اپنے مخصوص سرد انداز میں سوال کیا ۔
“سر! میں آپ لوگوں کے کام سے بہت متاثر ہوں۔ٹرتھ مرر نے ان سالوں میں اپنا جو مقام بنایا ہے میں اس میں ایک چھوٹا سا حصہ ڈالنا چاہتی ہوں ۔”اسکے جوابات کا باقی حصہ ٹرتھ مرر کی تعریف پر مبنی تھا۔انابہ نے پین چلاتے ہوئے جلدی جلدی چند پوائنٹ نوٹ کئے۔
اب دوسرے اسٹوڈنٹ کو بلایا گیا تھا ۔
” آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ آپ کے اندر سچ تلاش کرنے کی صلاحیت ہے؟ “حسن مجتبٰی اور اسکے تیکھے سوال۔
” میں اس سوسائٹی کا ذمہ دار شہری ہوں ۔اسلئے حق تلاش کرنے کا کام صرف آپ لوگوں کا نہیں ہے بلکہ ہمیں بھی اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے ۔”
انابہ نے جلدی جلدی نوٹ کیا ۔” پہلا تھا کام کی تعریف اور دوسرا ذمہ داری کا احساس ۔۔۔”اسنے پین روک کر اپنی توجہ تیسرے اسٹوڈنٹ پر مبذول کی۔
” میں جانتا ہوں کہ آپ لوگوں کا کام بہت جوکھم بھرا ہوتا ہے ۔میں بھی ان خطروں کو جھیل کر دنیا کے سامنے چھپا سچ پیش کرنا چاہتا ہوں ۔”
انابہ نے تیسرا پوائنٹ جوڑا۔” خطروں سے لڑ کر سچائی سامنے لانا۔۔۔”ویری گڈ انابہ۔۔۔انیس سوال اور انیس جوابات ۔اس طرح وہ جرنلزم کی جے کیا آر، این سے لے کر ایم تک سے واقف ہو جائے گی ۔اس نے خوش ہوتے ہوئے اپنا سر اٹھا کر دوبارہ اسٹیج کی طرف دیکھا۔
” انابہ سلمان ۔” اسکا نام پکارا گیا۔نوٹس پر آخری نظر ڈالتے ہوئے اسنے اپنی کلائی پر بندھی قیمتی گھڑی سیدھی کی اور اعتماد سے کھڑی ہو گئی ۔ہموار قدموں سے چلتی وہ جب اسٹیج پر پہنچ کر کرسی پر بیٹھی تب تک اسے اپنے سارے پوائنٹس یاد تھے۔پھر اسنے بیزاری سے دو انگلیوں کے درمیان پین گھماتے حسن مجتبٰی کی گہری بھوری آنکھوں کو دیکھا اور اسکا پورا ذہن خالی سلیٹ کی مانند ہو گیا ۔
“جرنلزم میں دلچسپی ہے؟” حسن مجتبٰی نے سوال کیا ۔
“نہیں ۔” اسنے جواب دیا ۔حالانکہ وہ اسکا مثبت جواب دینا چاہتی تھی۔
حسن نے اپنی بھوری آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔اسکی آنکھوں میں گہری حیرت تھی۔کیا یہ لڑکی وقت گزاری کے لئے آئی تھی؟
“تو پھر آپ ٹرتھ مرر میں کیوں کام کرنا چاہتی ہیں؟ آپ کو معلوم ہے نا کہ وہ ایک نیوز چینل ہے کوئی ماڈلنگ ایجنسی نہیں ۔۔۔” اسنے طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے اسکی ڈریسنگ پر چوٹ کی ۔مگر ظاہر ہے کہ انابہ سلمان کو اسکا طنز کہاں نظر آنے والا تھا۔
“آپ کے لئے ۔۔.” اسنے مدھم لہجے میں کہا ۔
” کیا کہا آپ نے؟ “اسے لگا کہ اسنے سننے میں غلطی کی ہے ۔
انابہ نے خود کو کمپوز کیا اور بے حد پر اعتمادی سے مسکرائی۔
“میں آپکا شو دیکھتی ہوں جس میں آپ اپنے مقابل کو اپنے ایک جملے سے مات دے دیتے ہیں ۔اور جس میں آپ ہر دفعہ یہ بات دہراتے ہیں کہ آئینہ کی طرح شفاف سچ آپ لوگوں کو دکھا رہے ہیں ۔تو۔۔۔” اسنے توقف کیا اور حسن مجتبٰی کو دیکھا۔اسکے چہرے کی سرد مہری مزید بڑھتی جا رہی تھی ۔
” تو میں جاننا چاہتی ہوں کہ آپکا سچ واقعی سچ ہوتا ہے یا اس میں شفافیت کا ملمع چڑھا ہوتا ہے ۔”اسنے معصوم انداز میں کہا ۔
دو انگلیوں کے درمیان گھومتا حسن کا پین رکا اور اسنے آواز کے ساتھ میز پر پین رکھا۔فیصل نے کنکھیوں سے پہلے سامنے بیٹھی اس بولڈ لڑکی اور پھر اسے دیکھا۔اب تو یہ لڑکی گئی کام سے۔
” مس انابہ سلمان! “اسنے اسکا نام لیا تھا ۔
انابہ کے چہرے پر ہلکی سی سرخی چھائی۔اسکے لبوں سے اپنا نام سننا کتنا اچھا لگ رہا تھا نا۔
“آپ کہنا چاہتی ہیں کہ ہم لوگ جھوٹ کو سچ دکھا کر پیش کرتے ہیں ۔” اسکی آنکھوں کا تیکھا پن لہجے میں اتر آیا۔
“آپ کو تو معلوم ہے کہ آج کل فیک نیوز کا ٹرینڈ ہے۔” اسنے کہا اور اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتی کھڑی ہو گئی ۔
“مس سلمان! آپ اپائنٹڈ ہیں ۔” اسنے اترنے سے قبل حسن مجتبٰی کی آواز سنی ۔اسکے قدم تھمے اور وہ حیران ہوئی۔
“تو میں کب سے آپ کو جوائن کروں؟” وہ خوشی سے بے قابو ہوتی پوچھ رہی تھی ۔
” اگلے منڈے۔اپنی کلاسز کے بعد شارپ چار بجے ۔” اسنے بے تاثر انداز میں کہا اور فیصل کی جانب متوجہ ہو گیا ۔اب وہ اسے بتا رہا تھا کہ اور کن دو اسٹوڈنٹس کو اپائنٹ کرنا ہے ۔
وہ آڈیٹوریم سے باہر آ کر ریشم کو ڈھونڈ رہی تھی ۔اسے یہ خوش خبری اسے جلد از جلد دینی تھی۔
– – – – – – – – –
اسکے بے حس و حرکت وجود میں جنبش ہوئی۔تھوڑی دیر تک وہ اپنے ہاتھ پیروں کو ہلانے کی کوشش کرتی رہی ۔مگر اسے جلد ہی احساس ہو گیا کہ وہ انہیں حرکت دینے کے قابل نہیں تھی۔بھاری ہوتے سر کے تکلیف کا احساس شدت اختیار کر رہا تھا ۔اسنے بہت مشکل سے اپنی آنکھیں کھولیں اور چند لمحوں کے بعد اسکی آنکھیں چیزوں کو پہچاننے کے قابل ہوئی تھیں ۔وہ ایک کرسی پر بندھی تھی۔اسکے ہاتھ پیر اتنی سختی سے باندھے گئے تھے کہ وہ انہیں زرا سی بھی جبنش نہیں دے سکتی تھی۔خشک ہوتی زبان کے ساتھ اسنے ہراساں نظروں سے اپنے اطراف دیکھا۔وہ کسی زیر تعمیر عمارت کے پارکنگ ایریا میں تھی۔ہر طرف بکھرے سیمنٹ، بجریاں اور لوہے کی چھڑ یہ ظاہر کر رہی تھی کہ اس جگہ آج بھی کام ہوا تھا۔اسنے اپنے لبوں پر زبان پھیری ۔اسکا خوف بڑھتا جا رہا تھا ۔چاروں طرف پسرا ہوا پر مہیب سناٹا اور اسکے بالکل اوپر جلتا پیلا بلب عجیب سا ماحول قائم کر رہا تھا ۔اسنے ایک دفعہ پھر اپنے ہاتھوں کو جنبش دی ۔رسیوں کی وجہ سے تکلیف بڑھتی جا رہی تھی ۔جوٹ کہ رسیاں جیسے گوشت سے اتر کر ہڈیوں میں چبھ رہی تھیں ۔لبوں کو کاٹتے ہوئے اسنے کرسی سمیت آگے کھسکنے کی کوشش کی مگر اسے ناکامی ملی تھی ۔اب وہ رونے لگی۔کبھی بلند آواز میں اور کبھی سسکیوں میں ۔خود کو بے یار و مددگار کسی ویران جگہ پر قید پا کر وہ ساری امیدیں کھو چکی تھی ۔وہ روتی ہوئی بار بار اپنے بھائی کو آوازیں دے رہی تھی ۔کبھی کبھی بے اختیار وکی کو بھی آوازیں دینے لگتی۔وہ رات بہت خطرناک تھی۔وہ رات بے حد پر اسرار تھی۔اسے اس طرح بلکتا تڑپتا دیکھ کر کسی کو بھی اس پر رحم آ سکتا تھا ۔مگر اس بے بس بیس سالہ لڑکی کو اس حالت میں دیکھ کر شیطان نما انسانوں کے چہرے پر کوئی شکن نہیں تھی۔
“داور! اب بہت ڈرامہ ہو گیا ۔اس لڑکی کی یہ حالت فہد ندیم کو قابو میں کرنے کے لئے کافی ہے ۔” سیاہ سوٹ میں ملبوس وہ شخص کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا ۔
وہ دونوں پہلی منزل سے اتر کر نیچے آ گئے ۔
وہ روتی ہوئی اب نڈھال ہو گئی تھی ۔دفعتاً اپنی جانب آتے ان لوگوں کو دیکھ کر اسکے چہرے پر وحشت چھانے لگی اور وہ پاگلوں کی طرح اور بلند آواز میں چیخنے لگی تھی ۔
“خاموش!” داور گرجا۔
وہ وحشیانہ انداز میں مزید تیزی سے چیخنے لگی۔دانت پیستے ہوئے داور آگے بڑھا اور پوری قوت سے اسکے بائیں رخسار پر تھپڑ مارا تھا ۔وہ کرسی سمیت بائیں جانب الٹ گئی ۔
“داور!” باس کے لہجے میں تنبیہ تھی۔
“سوری باس!” اسنے بے تاثر لہجے میں کہا اور کرسی اٹھا کر سیدھی کی۔جویریہ نے اب چیخنا بند کر دیا تھا۔البتہ وہ دھیرے دھیرے سسکیاں لیتی کانپ رہی تھی ۔
“مولوی صاحب! شروع کریں ۔” داور نے اشارہ کیا ۔
ایک سفید کرتے میں ملبوس شخص آگے آیا تھا ۔
“جناب دیکھیں آپ غلط کر رہے ہیں ۔نکاح بالجبر کی ہمارے مذہب میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔” مولوی صاحب کو اسکی حالت زار پر ترس آ رہا تھا ۔
“تمہیں یہاں تبلیغ کے لئے نہیں بلایا گیا ہے ۔جس کام کے لئے آئے ہو بس وہی کرو۔” داور نے سخت الفاظ میں انہیں دھمکی دی ۔جویریہ کے آنسو یکدم خشک ہو گئے اور ان میں ویرانی اترنے لگی۔ویران کھنڈر سی اداسی اور منحوسیت نے اسکے پورے وجود کا احاطہ کر لیا۔وہ بس خالی نظروں سے کاغذات کے پلندے کو دیکھ رہی تھی جن پر اسے دستخط کرنے کو کہا جا رہا تھا ۔
– – – – – – – – –
آرام کرسی پر نیم دراز فہد ندیم کی آنکھیں بند تھیں پیشانی پر پڑی سلوٹیں اسکی ذہنی پراگندگی کو واضح کر رہی تھیں ۔بیڈ پر بیٹھی ثمرین وکی کو آہستہ آہستہ تھپک کر سلا چکی تھی ۔
“ایک ہفتہ ہو گیا ہے ۔مگر جویریہ کا اب تک کوئی سراغ نہیں ملا ہے ۔” فہد نے اپنی آنکھیں کھول کر اسے پریشانی سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
“پولیس بھی تو کچھ نہیں کر رہی ہے ۔اور رشتہ داروں کا منہ ہم کب تک بند رکھیں ۔نا جانے سب کو ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ جویریہ اپنی مرضی سے کہیں گئی ہے ۔”ثمرین بھی بہت پریشان تھی۔
” میں کیا کروں؟اسکے اغوا کا اکیلا گواہ وکی ہے اور کسی کو بھی اسکی باتوں پر یقین نہیں ہے۔”
” آپ پریشان نہ ہوں ۔میں آپ کے لئے چائے لے کر آتی ہوں ۔”ثمرین نے کہا اور وہ اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی تھی ۔
فہد نے بے بسی سے سرہانے رکھے فون کو دیکھا ۔وہ فون بجنے کا بے صبری سے انتظار کر رہا تھا کہ شاید کوئی ایک فون کال، کوئی پیغام آ جائے جس سے اسکی بہن کا سراغ لگ جائے ۔
یکدم وکی کے پپوٹوں میں جنبش ہوئی اور وہ بیڈ پر ادھر اُدھر ہاتھ مارتا جویریہ کو آوازیں دینے لگا ۔
“پھپو! پھپو!” وہ بغیر رکے اسے پکا رہا تھا ۔بے قراری سے۔۔بے تابی سے۔۔اسے واپس بلاتا۔۔۔نہ جانے کے لئے کہتا اسے آوازیں دے رہا تھا ۔
فہد نے اسکے اوپر جھک کر اسکا سر سہلایا۔”وکی۔۔۔” اسنے آہستہ سے آواز دی ۔
وہ آنکھیں کھولتا اٹھ کر بیٹھ گیا اور فہد کے گرد بازو لپیٹتا اس سے چپک گیا تھا ۔
“پپّا! پھپو کو واپس لا دیں ۔” اسکے آنسو اسکی شرٹ بھگونے لگے۔
“وکی دعا کرو بیٹا۔” فہد کی آنکھیں بھی نم ہونے لگیں ۔
“پپّا! پھپو کے ساتھ ایسا کون کر سکتا ہے؟ انکی دشمنی کس کے ساتھ ہو سکتی ہے؟”
“میں جانتا ہوں اسکے ساتھ ایسا کس نے کیا ہے۔تم فکر مت کرو میں تمہاری پھپو کو بھی واپس لے آؤنگا اور ان کو بھی نہیں چھوڑونگا جنہوں نے جویریہ کو تکلیف دی ہے ۔” اسکے سر پر تھوڑی ٹکائے فہد ندیم مدھم لہجے میں کہہ رہا تھا ۔وہ اسکے سر کو سہلاتا رہا اور روتا ہوا وکی پر سکون ہوتا گیا تھا ۔
اچانک فون کی گھنٹی بجنے لگی۔وکی کو لٹاتے ہوئے اسنے رسیور کان سے لگایا ۔
” ہیلو! ”
” ہوں ۔۔فہد ندیم! ڈیو ڈراپ کی فائل پر مزید کام کرنا بند کر دو۔” دوسری طرف کا لہجہ انتہائی دھمکی آمیز تھا۔
“ہو دَ ہیل آر یو؟” وہ غرایا۔
“میں دو طرح سے اپنا تعارف کرا سکتا ہوں ۔کون سا سننا چاہوگے؟ وہ جو دنیا جانتی ہے یا وہ جو تمہاری بہن سے جڑا ہے؟” اسنے کہا تھا۔
” فہد کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔”بکواس بند کرو اپنی۔۔۔اور میری بہن کیا؟ ہاں؟ میری بہن کا نام کیوں لے رہے ہو؟”
“کیوں نا لوں تمہاری بہن کا نام؟ آخر پورے جملہ حقوق اپنے نام محفوظ کرا چکا ہوں ۔”
فہد کی آنکھیں مزید سرخ ہوئیں اور اپنے لبوں کو کاٹتا وہ کھڑا ہو گیا ۔
“کیا کیا ہے تم نے اسکے ساتھ؟ ‘اسکی آواز خوف سے کپکپا گئی۔جویریہ کے ساتھ کچھ غلط ہونے کا محض تصور ہی اذیت ناک تھا۔
“نکاح کر لیا ہے اسکے ساتھ ۔” دوسری طرف سے انتہائی اطمینان سے کہا گیا۔
کمرے میں بے قراری سے ٹہلتا فہد پاگل ہوا جا رہا تھا ۔اسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اسے روکنے کے لئے کوئی اس حد تک بھی پہنچ سکتا ہے ۔
“کیوں؟ منہ کیوں بند ہو گیا ہے؟ مجھے تم نے انڈر اسٹیمیٹ کرنے کی بڑی غلطی کر دی ۔آئندہ یہ غلطی نا دہرانا۔اب تمہارے پاس ایک ہی راستہ ہے ۔تمہاری بہن میرے گھر پر میرے ساتھ ہے۔اگر تم نے کوئی بیوقوفی کی تو صاف ظاہر ہے کہ اسکا اثر مائی بی لَوڈ وائف پر بھی پڑیگا۔اسلئے سارے کاغذات میرے حوالے کرو اور آئندہ میرے راستے میں مت آنا۔” وہ پتھریلے لہجے میں کہہ رہا تھا ۔
فہد نے بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے اپنی آنکھیں مسلیں ۔غم و غصے کی شدید کیفیت میں گھرا وہ خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا ۔
“میں تمہیں برباد کر دونگا۔”اسنے اپنی آواز میں مضبوطی پیدا کرنے کی کوشش کی ۔
” یہ تو بہت بری بات ہے ۔آف کورس اب ہم رشتہ دار ہیں. مجھے تو لگا تھا کہ تم اپنی بہن کو شادی کی مبارک باد دینے میرے پاس آؤگے۔مگر خیر۔۔۔” دوسری طرف سے جیسے لطف لیتے ہوئے کہا گیا۔
فون کاٹتے ہوئے اسنے پوری قوت سے رسیور سامنے دیوار پر دے مارا. بے بسی سے اپنی مٹھیاں بھینچتے ہوئے وہ فرش پر ہی بیٹھ گیا ۔سرخ آنکھوں اور کنپٹی کی تنی ہوئی رگوں کے ساتھ اسکے ذہن میں اسکے علاوہ کچھ نہیں تھا کہ اسے اپنی بہن کو واپس لانا ہے ۔
– – – – – – – – – –