اسنے بیڈ پر نیم دراز رموٹ سے ٹی وی آن کیا اور چینل سرفنگ کرتے ہوئے اپنے مطلوبہ چینل پر آ کر رکی۔’ٹرتھ مرر’ پر اس وقت ایڈ بریک تھی۔وہ یہی ایک چینل تو دیکھا کرتی تھی۔پھر ایڈ بریک ختم ہوا اور ‘لیٹس فائنڈ ٹرتھ ود حسن’ کا رپیٹ ٹیلی کاسٹ آنے لگا۔تکیہ اپنی گود میں رکھے اس پر کہنیاں ٹکائے وہ یک ٹک اسکرین کو دیکھ رہی تھی ۔گرے سوٹ میں ملبوس بھوری آنکھوں والا حسن اسکرین پر کتنا ہینڈسم لگ رہا تھا ۔وہ آواز میوٹ کئے اپنے گرد و پیش سے بے پروا صرف حسن مجتبٰی کو دیکھ رہی تھی ۔یا اللہ کاش ایسا ہو جائے۔ میں آنکھیں بند کروں اور وہ میرے سامنے مجسم صورت آ کھڑا ہو ۔اسنے آنکھیں بند کر کے دل کی گہرائیوں سے تمنا کی اور آہستہ سے آنکھیں کھولیں ۔پورے کمرے میں یکدم اندھیرا چھا گیا تھا۔اسنے اِدھر اُدھر ہاتھ مار کر موبائل تلاش کرنے کی کوشش کی ۔مگر اس سے پہلے کہ وہ موبائل تلاش کر پاتی کمرے میں ایک مدھم سی نیلی روشنی پھیل گئی ۔اور اس نیلی روشنی میں نیلی شعاؤں کے ہالے میں گھرا وجود اسکی طرف دھیمے دھیمے بڑھ رہا تھا ۔وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں پھیلائے کھڑی ہو گئی ۔وہ اپنا ایک ہاتھ لبوں پر رکھے بے قابو ہوتی دھڑکنوں اور تیز ہوتی سانسوں کے ساتھ حسن مجتبٰی کے مجسم وجود کو دیکھے گئی۔وہ اب بالکل اسکے سامنے آ کھڑا ہوا تھا ۔اتنا کہ وہ چاہے تو ہاتھ بڑھا کر اسے محسوس کر لیتی ۔
“حسن مجتبٰی! آپ۔۔۔تم یہاں ۔۔۔؟” اسے سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اسے کس طرح مخاطب کرے۔
“تم نے جس شدت سے خواہش کی تھی کہ کائنات کے ہر ذرے نے مجھے تم سے ملانے کی سازش کر لی۔” وہ بڑے جذب سے بولا۔
انابہ کا چہرہ اترا۔اُسے تو ڈائلاگ بھی درست یاد نہیں ہے ۔اوہ مگر کیا فرق پڑتا ہے؟ کیا یہ کافی نہیں ہے کہ حسن مجتبٰی خود اسکے لئے یہاں آیا ہے؟
“میں بھی سالوں سے تمہارا انتظار کر رہی تھی۔۔”اسنے بھی جذب سے کہنے کی کوشش کی ۔
” انّو! مجھ سے شادی کروگی؟” اس دفعہ اسنے بڑی محبت سے کہا اور انابہ موم ہونے لگی۔
“حسن! میں ۔۔میں ۔۔” وہ جواب دینے کی کوشش کرنے لگی مگر الفاظ جیسے زبان میں اٹک گئے تھے ۔”میں ۔۔۔میں ۔۔”اسنے دوبارہ کوشش کی ۔
” یہ میں میں کیا لگا رکھی ہے؟” حسن مجتبٰی نے کرختگی سے کہا۔
وہ اسے حیرت سے دیکھنے لگی۔یکدم اسکی آواز کو کیا ہو گیا؟ ابھی وہ تو اتنی نرمی سے بات کر رہا تھا ۔
“میں ۔۔۔” اسنے بدقت تمام کہنے کی کوشش کی ۔
“ارے۔ ۔۔تم تو خاموش ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں ۔.۔”اس بار وہ جیسے زچ آ کر بولا۔” اب تم نے ایک لفظ بھی کہا تو یہ سارا گلاس تمہارے اوپر ڈال دونگا۔’اسنے اب اپنے ہاتھوں میں پانی سے بھرا گلاس پکڑ لیا تھا۔
وہ گونگوں کو طرح آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی۔اور اگلے ہی لمحے حسن مجتبٰی نے پانی کا بھرا گلاس اسکے چہرے پر انڈیل دیا۔
” یہ کیا کر رہے ہو؟” اسکی گویائی واپس آئی اور اسنے آنکھیں رگڑتے ہوئے اپنے اطراف دیکھا۔اسکے سامنے گرے کرتی میں ملبوس ریشم کھڑی اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔اور ۔۔۔اور اسکے ہاتھ میں خالی گلاس بھی تھا۔
“ریشم تم؟ وہ کہاں گیا؟” اسنے حیرت زدہ سی آواز میں کہا ۔
” یونی کا وقت نکلا جا رہا ہے اور میڈم گھوڑے بیچ کر سو رہی ہیں ۔چلو اس سونے کو تو میں معاف کر بھی دوں۔مگر سوتے ہوئے کیا کر رہی تھیں؟ دس بار کا دیکھا گیا خواب ایک بار پھر دیکھ رہی تھیں اور اسے میں معاف نہیں کر سکتی۔”اسنے اسکا ہاتھ کھینچ کر اسے اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔
” ریشم! آج میں یونی نہیں جا رہی۔تم نے غلط وقت پر انٹری لے کر میرا سارا خواب غارت کر دیا۔”وہ دوبارہ لیٹ گئی ۔
” سوچ لو۔اگر آج یونی نہیں گئیں تو زندگی بھر پچھتاؤگی۔”اسنے معنی خیزی سے کہا۔
” کیوں؟ آج امریکہ کا صدر آ رہا ہے یا وہ تمہارا سڑے منہ والا رونالڈو؟” اسنے کروٹ لے کر اسکی طرف سے رخ پھیر لیا ۔
” امریکہ کے صدر کو تو میں بھی اہمیت نہیں دیتی اور اگر رونالڈو آتا تو تمہارے ساتھ اپنا وقت ضائع نہیں کر رہی ہوتی۔”
” تو اور کون آ رہا ہے؟” اسنے منہ پر ہاتھ رکھ کر جمائی روکی۔
” آج یونی میں وہ آ رہا ہے جسکا محض نام سن کر تم دنیا کی ہر چیز بھول جاتی ہو۔”
“وہ الرٹ ہو کر بیٹھی اور ساری نیند غائب ہوئی۔اسنے ریشم کا چہرہ دیکھا اور اسکی شریر مسکراہٹ نے اسکا جوش ٹھنڈا کر دیا ۔”تم مجھے ایک دفعہ پھر بیوقوف بنا رہی ہو۔”
“نہیں ڈئیر! میں واقعی سچ کہہ رہی ہوں ۔اگر تم نے اب یونی جانے میں دیر کی تو کیا پتہ یہ موقع دوبارہ کب ملے؟”
“مگر وہ کیوں آ رہا ہے؟” وہ بیڈ سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی ۔
” جلدی تیار ہو جاؤ. میں تمہیں راستے میں تفصیل بتاؤنگی۔”
– – – – – – – –
وہ ایک چھوٹے نیوز پیپر کا خستہ حال آفس تھا ۔ایڈیٹر کی میز پر اسکے سامنے کاغذات کی فائل رکھی تھی ۔اسنے فائل اٹھا کر پر تشویش نظروں سے اسے دیکھا اور سر کو معنی خیز انداز میں جنبش دیتے ہوئے ایک نمبر ڈائل کیا تھا۔بیل جانے لگی اور چند گھنٹیوں کے بعد فون اٹھا لیا گیا ۔
“ہیلو! میں مارننگ ٹائمس نیوز سے بول رہا ہوں ۔”
“اوہ صدیقی صاحب آپ! چلیں بتائیں سارا معاملہ نپٹا دیا نا!”
“میری کوشش تو یہی تھی۔”
“کوشش سے کیا مراد ہے؟ آپ سے کہا گیا تھا کہ سارے کچرے کو صاف کر کے ہی ہم سے رابطہ کیا جائے ۔” دوسری جانب سے ناراضگی کا اظہار کیا گیا ۔
” آپ بڑے لوگوں کے کچرے اتنی جلدی اور آسانی سے کہاں صاف ہوتے ہیں؟ تھوڑا وقت اور محنت زیادہ لگانی پڑتی ہے ۔”
” بہتر ہوگا کہ آپ صاف الفاظ میں بات کریں ۔”اب کہ لہجے میں تنبیہ تھی۔
” جی جناب! صاف بات کرنے کے لئے ہی میں نے فون کیا ہے۔فہد ندیم نے مجھے سارے کاغذات دئیے ہیں مگر وہ مجھ پر مکمل اعتماد نہیں کرتا۔اسنے مجھے کہا ہے کہ اگر میں نے یہ چیزیں کل کی ہیڈ لائنز میں نہیں لگائیں تو وہ دوسرا راستہ اختیار کریگا۔میرا نہیں خیال کہ وہ خاموش بیٹھے گا۔”اسنے پوری تفصیل سے بتایا ۔
” ایک بات کان کھول کر سن لو صدیقی! اگر تم نے ہمیں ڈبل کراس کرنے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہوگا۔”لہجہ دھمکی آمیز تھا۔
” کیسی باتیں کر رہے ہیں جناب؟ میں نے تو اپنی طرف سے فہد ندیم کو باز رکھنے کی بہت کوشش کی مگر وہ اپنی ضد سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے ۔اور میری پوزیشن بھی تو سمجھنے کی کوشش کریں۔ میں بھی ایک صحافی ہوں اس طرح ڈائریکٹ اسے منع نہیں کر سکتا ۔” وہ اب اسکے سامنے گڑگڑانے والے لہجے میں کہہ رہا تھا ۔
” خیر ۔۔۔تم بس وہ کاغذات اپنے پاس رکھو ۔میں اس رپورٹر۔۔۔کیا نام بتایا؟ ”
” جی فہد ندیم ۔۔۔”
” ہاں فہد ندیم ۔۔۔میں اسے سنبھال لیتا ہوں ۔”
” سر مجھے لگتا ہے کہ آپکی کمپنی کا کوئی شخص بھی اسکا ساتھ دے رہا ہے ۔”
“اوکے ۔۔۔اور کچھ؟”
“نہیں جناب! بس جس طرح میں نے آپکا خیال رکھا آپ بھی میرا خیال رکھئے گا ۔”صدیقی کے لہجے میں خوشامد تھی۔
دوسری طرف سے جواب دئیے بغیر فون کاٹ دیا گیا ۔
رسیور کریڈل پر ڈالتا داور اپنی ریوالونگ چئیر گھماتا واپس کمپیوٹر اسکرین کی جانب مڑا۔
” باس! میرا اندازہ صحیح تھا۔کوئی اندر سے فہد ندیم کی مدد کر رہا ہے ورنہ اتنی آسانی سے ہمارا ڈیٹا کسی کے ہاتھ نہیں لگ سکتا۔” اسنے اپنے دائیں جانب بیٹھے شخص کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
“مجھے معلوم ہے کہ وہ کون ہو سکتا ہے؟”
داور نے جواب طلب نظروں سے باس کی جانب دیکھا۔
“اسد خان کی سرگرمیاں کچھ دنوں سے مشکوک نظر آ رہی ہیں ۔میرا خیال ہے کہ وہی رپورٹر کی مدد کر رہا ہے۔اور وہ ہمارے کیمیکل ڈپارٹمنٹ کا چیف بھی ہے ۔”
“باس! وہ رپورٹر ہمارے لئے کئی دفعہ مسئلہ بن چکا ہے اور مجھے قوی امید ہے کہ وہ آئندہ بھی ہمارے لیے مسئلے کھڑا کرتا رہیگا۔اسلئے بس اسکا ایک ہی حل ہے ۔”داور نے اپنے ہولسٹر میں موجود ریوالور کو تھپتھپایا۔
” نہیں داور۔۔۔قتل نہیں ۔قتل ہمیشہ آخری آپشن ہوتا ہے ۔”اسنے معنی خیزی سے کہا۔
داور کے چہرے پر الجھن نمودار ہوئی۔وہ ہر مسئلے کا حل اپنے ریوالور کی گولیوں سے نکالا کرتا تھا ۔ایک گولی اور بس سارا ٹینشن ختم۔۔۔
“سوری باس! میں سمجھا نہیں ۔اور فہد کو تو آپ نے کئی دفعہ وارننگ دی ہے ۔اپنی بہن تک کا خوف اسے ڈرا نہیں پایا ۔تو اب اسکا اور کیا حل نکل سکتا ہے؟”
باس کے لبوں پر ایک سرد اور پراسرار مسکراہٹ ابھری۔
“تو اب ہم اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنائیں گے۔دیکھ لیتے ہیں فہد ندیم کو بھی کہ وہ کتنا مضبوط ہے؟ ”
” باس!! آپ۔۔۔آپ۔۔۔”وہ ہکلایا۔
” بالکل درست سمجھا ہے تم نے ۔”اسکی مسکراہٹ اور گہری ہوئی۔اسکی باریک تراشیدہ مونچھوں تلے لب پر موجود مسکراہٹ بے حد خطرناک لگ رہی تھی ۔
– – – – – – – – –
وہ اپنے کندھے پر شولڈر بیگ ٹانگے وکی کے اسکول کے باہر کھڑی اسکا انتظار کر رہی تھی۔بچے ایک ایک کر کے باہر آ رہے تھے ۔گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے اسنے گیٹ کی جانب دیکھا ۔وہ اسے آتا نظر آ گیا تھا ۔اسکے قریب آ کر اسنے دھیمے لہجے میں اسے سلام کیا ۔
“کیا ہوا شہزادے صاحب! آج پھر کسی نے آپکی شان میں گستاخی کی؟” وہ اسکی شرٹ کے ٹوٹے بٹن اور ہونٹ کے پھٹے کنارے کو بغور دیکھتی ہوئی بولی۔
“آپ بس بات نہ کریں پھپو! مجھے اتنی مار پڑی اور آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے ۔” اسنے نروٹھے انداز میں کہا ۔
“وکی کون سا ایسا مبارک دن آئیگا جس دن تم مجھے فخر سے بتاؤگے کہ پھپو آج میں نے جنگ ہاری نہیں ہے بلکہ فتح کی ہے ۔” وہ اسکی خفگی کو نظر انداز کر کے شریر انداز میں کہہ رہی تھی ۔
” آپ کو اس سے کیا مطلب ہے؟ کچھ دنوں کے بعد آپکی شادی ہو جائیگی اور آپ چلی جائینگی ۔”اسنے بدستور خفا سے لہجے میں کہا ۔
وہ دھیرے سے ہنسی۔وہ دونوں چلتے ہوئے اسکول سے بہت دور نکل آئے تھے۔اور اب رہائشی کالونیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ۔ویران سڑک اور اپنے گھروں میں بند لوگ۔
” میں کہیں بھی چلی جاؤں ہمیشہ تمہاری جنگ میں تمہارے ساتھ رہونگی۔”اسنے اسکے نرم بال بکھیرتے ہوئے کہا ۔
“پھپو! وہ نیلی کار میں نے صبح بھی ہمارے پیچھے دیکھی تھی اور وہ اب بھی ہمارے پیچھے آ رہی ہے ۔” وکی نے دفعتاً اپنے عقب میں دیکھتے ہوئے کہا ۔
جویریہ نے گردن موڑ کر اپنے پیچھے دیکھا۔” یار گھر پر ایک عقلمند رپورٹر کافی ہے ۔تم اپنی عقل بیگ میں بند کر کے رکھو ۔” اسنے لاپروائی سے کہا۔
” مگر پھپو میں نے صبح نوٹس کیا تھا۔اس کار پر کوئی نمبر پلیٹ بھی نہیں ہے ۔کہیں کوئی گڑبڑ ۔۔۔”
“وکی!” اسنے اسکے سر پر ایک ہاتھ مارا۔”اب تم مجھے ڈراؤ مت۔۔”
وکی نے اپنا سر اونچا کر کے اسے دیکھا۔وہ اسے گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی اسلئے اسنے بات تبدیل کر دی۔مگر وہ وفقے وقفے سے گردن موڑ کر اپنے پیچھے رینگتی ہوئی کار کو بھی تشویش سے دیکھ رہا تھا ۔پھر آہستہ آہستہ کار نے درمیان کا فاصلہ پاٹا اور بالکل انکے نزدیک پہنچ گئی ۔
“پھپو! پلیز پپّا کو کال کریں ۔مجھے یہ لوگ صحیح نہیں لگ رہے ہیں ۔” وکی نے سراسیمگی سے کہا۔
جویریہ نے اپنے شولڈر بیگ میں ہاتھ مارا۔مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنا موبائل باہر نکال پاتی کار کا دروازہ کھلا اور ایک آدمی نے پہلے وکی کو دھکا دیا اور پھر بغیر کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع دئیے اسنے اسکا منہ ہتھیلیوں سے دبایا اور کار کے اندر گھسیٹ لیا تھا۔
ہکا بکا سا وکی اٹھا اور وہ دیوانوں کی طرح تیز رفتاری سے دوڑتی کار کے پیچھے بھاگا تھا ۔وہ دور تک پاگلوں کی دوڑا مگر اڑتی ہوئی دھول نے سامنے کا منظر دھندلا کر دیا ۔بس لمحے بھر کی بات تھی اور وہ اپنی پھپو کو ہمیشہ کے لئے کھو چکا تھا ۔
– – – – – – – – –