وہ آج کل در نایاب سے نماز سیکھ رہی تھی۔ اسی دوران اس کی نگاہ اتفاق سے بیڈ پر رکھی اوندھی کتاب کے اندر پڑی تصویر سے ٹکرا گئی۔ ایک ہینڈ سم سا نوجوان تھا۔‘‘
’’کون ہو سکتا ہے۔‘‘ اس نے دل میں سوچا۔
’’شاید پھوپھو کسی کو پسند کرتی ہیں۔‘‘ اس نے قیاس آرائی کی۔ اس کا فون بجنے لگا۔ دوسری جانب مانیک تھا۔
’’ہاں ! میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ کمرے سے باہر نکل آئی۔
’’آنا تو تھا۔ لیکن بس کچھ پرابلمز ہو گئی تھیں۔‘‘ وہ فی الحال اس سے اپنے مذہب کی تبدیلی کا ذکر نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔ دوسری جانب وہ خفا ہو گیا۔
’’میں کچھ نہیں جانتا۔ بس تم واپس آؤ۔‘‘
’’دیکھو پلیز! تم غصہ نہ کرو۔ جتنا تم اداس ہو۔ اس سے کہیں زیادہ …‘‘ دوسری جانب لائن منقطع ہو چکی تھی۔ وہ مایوسی سے سیل فون کو دیکھنے لگی۔
’’فاطمہ!‘‘ پیچھے بابا جان کھڑے تھے۔
’’جی!‘‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’کس سے بات کر رہی تھیں ؟‘‘
’’مانیک سے۔‘‘ اس نے ایک بار پھر سیل فون کو دیکھا۔
’’کون مانیک؟‘‘ وہ انجان پن سے بولے۔
’’مانیک … میرا شوہر۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’بیٹا! وہ تمہارا شوہر تھا۔‘‘ وہ ’’تھا‘‘ پر زور دے کر بولے۔
’’کیا مطلب؟‘‘ وہ سمجھی نہیں۔
’’مطلب یہ کہ اب تم مسلمان ہو چکی ہو۔ مانیک سے تمہارا جو رشتہ تھا، وہ ختم ہو چکا۔ اب تم کسی مسلمان سے تو نکاح کر سکتی ہو۔ مگر عیسائی سے نہیں۔‘‘ وہ رسانیت سے بولے۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ آپ نے بھی تو مما سے شادی کی تھی۔‘‘ وہ شاکڈ رہ گئی۔ اس کی ماں کا شوہر ایک مسلم تھا تو وہ کیسے مان لیتی کہ اس کا شوہر عیسائی نہیں ہو سکتا۔
’’ہاں ! مگر مردوں کو اہل کتاب لڑکیوں سے نکاح کی اجازت ہے … عورتوں کو نہیں۔ تمہارا اب جلد ہی دوبارہ نکاح ہو جائے گا۔‘‘ وہ آگاہ کرنے کے بعد فیصلہ سنا کر چلے گئے اور فاطمہ اپنی جگہ جیسے پتھر کی ہو کر رہ گئی تھی۔
مانیک کو چھوڑنے کا تو وہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔
٭٭٭
’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں فاطمہ کا نکاح زریاب سے کر دوں۔‘‘ چائے کا ایک گھونٹ بھرتے ہوئے انہوں نے رائے طلب نظروں سے مرجان بیگم کو دیکھا تو ان کی آنکھوں میں احتجاج امڈ آیا۔
’’زریاب کے لیے تو ہم نے مہک کا سوچ رکھا تھا۔‘‘
’’جانتا ہوں۔ لیکن …‘‘
’’لیکن ویکن کچھ نہیں شاہ جی! میں اپنی بیٹی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہونے دوں گی۔‘‘ اپنے لیے تو انہوں نے کبھی آواز بلند نہیں کی تھی۔ منال کی لاش کو بھی بڑے صبر سے رخصت کیا تھا۔ در نایاب کے ساتھ ہوئے ظلم کو بھی وہ خاموشی سے سہ گئی تھیں۔ مگر اب معاملہ ان کی اکلوتی لاڈلی بیٹی کا تھا۔ وہ اسے زندہ لاش بنا کر حویلی کے کسی زندان میں درگور نہیں کر سکتی تھیں۔
’’مہک کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔ جلیل شاہ کا بیٹا نبیل اپنی مہک کا ہی ہم عمر ہے اور وہ ایک دوبار مجھ سے اشارے کنائے میں ذکر بھی کر چکا ہے۔‘‘ انہوں نے اطمینان سے اپنے تایا زاد کے بڑے بیٹے کا نام لیا تھا۔
’’تو فاطمہ کو بیاہ دیں، نبیل کے ساتھ … زریاب ہی کیوں ؟‘‘ وہ اب بھی اپنی بات پہ ڈٹی ہوئی تھیں۔ زریاب انہیں مہک کے حوالے سے ہمیشہ بہت عزیز رہا تھا۔
’’ایک تو تمہاری عقل میں کوئی بات نہیں سماتی۔‘‘ وہ جھنجھلا گئے۔
’’وہ لوگ مہک کے طلب گار ہیں تو فاطمہ کا کیسے کر دوں اور پھر فاطمہ پہلے سے شادی شدہ تھی۔ نو مسلم بھی ہے۔ خاندان والے اس کے متعلق دل میں کدورت رکھتے ہیں۔ اس لیے تو میں اسے اپنے گھر میں ہی رکھنا چاہتا ہوں۔ تاکہ اس کے ایمان اور کردار پر کوئی انگلی نہ اٹھائے۔‘‘ انہوں نے گویا بات ہی ختم کر دی تھی۔
مرجان بیگم ہمیشہ کی طرح سرجھکا کر رہ گئیں۔
دروازے کے باہر کھڑی مہک کی ٹانگوں نے اس کا بوجھ سہارنے سے انکار کر دیا تھا۔ بڑی مشکل سے وہ خود کو گھسیٹتی کمرے میں لائی تھی۔
’’زریاب اور فاطمہ۔‘‘ اس کے لبوں پر اک زخمی سی جنبش ہوئی اور درد دل کے ہر کونے تک پھیل گیا۔ آنکھوں میں نہ جانے کیوں اتنا پانی امڈ آیا تھا۔
وہ رات فاطمہ اور مہک نے ایک دوسرے کی جانب سے کروٹ بدلے جاگ کر گزار دی تھی۔
اگلے روز وہ در نایاب کے پاس چلی آئی۔
’’مانیک سے ملنے کا کیا اب کوئی راستہ نہیں ہے ؟‘‘ اس کا لہجہ نم سا تھا۔
در نایاب کے دل کو کچھ ہوا وصل کا موسم بھلا ہر کسی کی قسمت میں کہاں ہوتا ہے۔ وہ تو خوش قسمت تھی، جس نے پا کر کھویا تھا۔ کچھ ساعتیں، تھوڑا سا وقت ہی سہی۔ مگر وہ ملے تو تھے۔ زندگی کو انہوں نے ایک ساتھ جیا تو تھا۔ ہر پہرے، ہر قید و بند سے آزاد ہو کر، خوابوں کی راہ گزر پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے وہ تھوڑی دور ساتھ چلے تو تھے۔ اس کی طرح ملن سے قبل ہجر تو راہ میں حائل نہیں ہوا تھا اور اگر ہجر تھا بھی تو ابھی ملن کی امید تو باقی تھی۔
ایک وہ تھے جو پکی قبر بنا کر اب محض چراغ جلاتے تھے۔ جن میں روشنی تو تھی۔ مگر اُمید نہیں … اور امید کے بغیر تو اجالا بھی اندھیرا تھا۔
فاطمہ کی آس بھری سوالیہ نگاہیں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ اس نے گردن گھما کر اطراف پہ نگاہ ڈالی۔ حویلی کے چاروں جانب راہ داریاں تھیں۔ مگر اس کے لیے تو کوئی ایک راستہ بھی نہیں تھا۔
٭٭٭
مہک کتاب سامنے کھولے یوں ہی بیٹھی تھی۔ جب زریاب نے دروازے سے اندر جھانکا۔
’’ہیلو ڈیئر کزن۔‘‘ مہک بے نیاز بیٹھی رہی۔
’’بزی ہو؟‘‘ اسے متوجہ نہ دیکھ کر وہ پھر بولا۔ مہک نے سابقہ بے نیازی برقرار رکھتے ہوئے محض اثبات میں سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا تھا۔
’’میں نیٹ لگا کر آیا ہوں۔ آؤ! ٹینس کھیلیں۔‘‘
زریاب نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ کھینچا۔ جسے مہک نے چھڑا کر واپس اپنی گود میں رکھ لیا۔
’’پلیز! میرا موڈ نہیں ہے۔ تم جاؤ۔‘‘ وہ اٹھ کر دریچے میں آن کھڑی ہوئی۔
باہر فضا میں لیموں کی کھٹی میٹھی باس رچی ہوئی تھی۔ ایک چڑیا اور دو بلبلوں نے شور مچا رکھا تھا۔
زریاب کی جانب اس کی پشت تھی۔ مگر وہ اس کا بھیگا لہجہ محسوس کر چکا تھا۔
’’تم رو رہی ہو؟‘‘ وہ اس کے سامنے آن کھڑا ہوا۔
’’نہیں ! میرے سرد میں درد ہے۔‘‘ اس نے دونوں ہاتھ سے اپنی کنپٹیاں دبائیں۔
’’اچھا! میں کوئی پین کلر لا دیتا ہوں۔‘‘
’’مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اس نے ٹوک دیا۔
زریاب نے دروازے میں رک کر کچھ پل اسے دیکھا۔ مہک نے آگے بڑھ کر دروازہ بند کر دیا۔ آنسو پلکوں کی باڑھ پھلانگ کر رخساروں پر لرزنے لگے۔
٭٭٭