کسل مندی سے آنکھیں کھولتے ہوئے اس نے چہرے سے کمبل ہٹایا اور کمرے کے کارنر پر نگاہ پڑتے ہی اپنی جگہ مبہوت سی رہ گئی۔ بھلا کوئی اتنی عقیدت اور یکسوئی کے ساتھ بھی عبادت کر سکتا تھا۔
وہ کبھی پیشانی زمین پر رکھتی تھی اور پھر اٹھاتی تھی۔ کیسا منفرد سا انداز تھا اور کتنا پرسکون، سادگی اور معصومیت بھرا چہرہ تھا۔ سلام پھیرنے کے بعد اس نے دونوں ہاتھ اٹھا لیے۔ اس کے لب بہت آہستگی سے ہل رہے تھے۔ وہ دعا مانگ رہی تھی۔ اس کے انداز میں کچھ ایسی شدت اور گہرائی تھی کہ اس کا بے ساختہ دل چاہا تھا کہ وہ بھی اپنے معبود حقیقی کو اتنی ہی شدت سے پکارے۔
’’بہت بھٹک چکی ہوں میں۔ اب مجھے ڈیڈ کے مذہب کو قبول کر لینا چاہیے۔ ویسے بھی ان کی خواہش ہے کہ میں مسلمان ہو جاؤں اور پھر ایک گواہی وہ ہوتی ہے، جو دل دیتا ہے۔ میرا دل، میرا ضمیر، میری روح اس فیصلے پر سرشار ہے۔‘‘
کل اس کا سامنا احمد کمال سے ہوا تھا۔ وہ مہک کو آواز دے رہے تھے کہ وہ ان کی اجرک لے کر آئے اس نے سنا تو اجرک لے کر ان کے کمرے میں چلی آئی۔ وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑے خود پر پرفیوم اسپرے کر رہے تھے۔
’’آپ کی اجرک۔‘‘ اس نے نرمی سے کہا۔ وہ اسے آئینے میں دیکھ چکے تھے۔ اب خود پر مزید ضبط کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ آخر کو وہ ان کی بیٹی تھی۔ ان کی جائز اولاد، پھر خون کیسے جوش نہ مارتا۔ اجرک اس کے ہاتھ سے لے کر انہوں نے کاندھے پر رکھ لی تھی۔ مگر خود سے پہل کرنے میں متامل تھے۔
بیلا کی آنکھوں میں ڈھیروں پانی امڈ آیا۔
’’میں نے آپ کو بہت مس کیا۔‘‘ وہ روتے ہوئے ان کے سینے سے لگ گئی۔
’’مجھے معاف کر دو بیٹا! میں اتنے سال تمہارے وجود سے غافل رہا۔‘‘ وہ ہار گئے تھے خود سے لڑتے لڑتے غلطی تو بہرحال کی ہی تھی تو اب اس سے نظریں چرانا کیا معنی رکھتا تھا۔
’’آپ نے مجھے تسلیم کر لیا۔ میرے لیے اتنا کافی ہے۔‘‘ وہ اعلا ظرف تھی۔ باپ کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے اس نے درگزر سے کام لیا تھا۔ ویسے بھی جس سوسائٹی کا وہ حصہ رہی تھی، وہاں ہر دوسرا بچہ بروکن فیملی کا شکار تھا۔ وہ تو خوش قسمت تھی کہ اسے الزبتھ جیسی پرخلوص مہربان ماں کا ساتھ ملا تھا اور اس نے اسے باپ سے متعلق کبھی بدگمان نہیں ہونے دیا تھا۔ وہ ہمیشہ ہی اس شخص کا ذکر بڑی محبت سے کیا کرتی تھیں اور اس کے دل میں باپ سے متعلق جو ناراضی اور غصہ تھا، وہ اب باقی نہیں رہا تھا۔
’’بیلا! میری ایک خواہش ہے۔ اگر تم پوری کر دو تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔ میں سکون سے مر سکوں گا۔‘‘ انہوں نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے اس کے ماتھے کا بوسہ لیا۔
بیلا کو اپنا وجود کسی قدر معتبر لگنے لگا۔ مگر وہ ان کے ملتجی لہجے پر بے چین ہواٹھی۔
’’آپ حکم کریں۔ میں ضرور مانوں گی۔‘‘
’’میں چاہتا ہوں کہ تم مسلمان ہو جاؤ۔‘‘
’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ مسلم ہیں اور میں عیسائی؟‘‘ اسے مسلم ہونے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ مگر وہ باپ کی خواہش کا جواز چاہتی تھی۔
’’اس فرق کی وجہ سے تو میں نے الزبتھ کو چھوڑا تھا۔‘‘ وہ کہہ کر چلے گئے۔ سرد کمرے کی منجمد فضا میں بیلا کی خاموش سماعتیں اور ان کے اعتراف کی بازگشت رہ گئی تھی۔
٭٭٭
در نایاب نے دعا مانگ کر منہ پر ہاتھ پھیرا اور جائے نماز اٹھا کر الماری میں رکھنے لگی۔ اس کا کمرہ بے حد سادہ تھا۔ بس ایک بیڈ اور الماری، جس میں کچھ کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک ڈریسنگ، ٹیبل اور کپروں کی الماری بھی تھی۔
’’در نایاب! آپ سے کچھ پوچھنا تھا‘‘ اس نے باہر جاتی در نایاب کو پکارا تو وہ الٹے قدموں واپس چلی آئی۔
اتنا تو وہ جانتی تھی کہ تمام انبیاء علیہ اسلام مسلم تھے اور انہوں نے اپنی قوم کو اچھائی کا ہی پیغام دیا تھا۔ لیکن اسلام آخری اور مکمل دین تھا۔ جو تمام شعبہ زندگی کے متعلق نہ صرف مکمل رہنمائی کرتا تھا۔ بلکہ عملی طور پر ایک راستہ بھی دکھاتا تھا۔
ترجمہ کیے صفحات بھی وہ پڑھ چکی تھی۔
اس میں لکھا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب دوبارہ اس دنیا میں آئیں گے تو دین محمدی میں ہی رہیں گے۔ کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئیں گے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو خوش خبری سنائی تھی کہ ایک رسول صلی اللہ علیہ و سلم آئے گا اس کا نام احمد ہو گا۔ انہوں نے اپنے حواریوں سے یہ بھی کہا تھا۔
کہ تم لوگ اپنے دین اور نبی آخرالزماں احمد مصطفی کے دین پر ایمان لاؤ اور اسی پر ثابت قدم رہو، تب تم نجات پاؤ گے۔
مگر ایک بات اس کے دماغ کو الجھا رہی تھی۔
’’در نایاب! میں بھی تو مانتی ہو کہ اللہ ایک ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو پھر میں مسلم کیوں نہیں ہوں ؟‘‘ اس نے الجھن آمیز نظروں سے اسے دیکھا۔
’’تب دین نامکمل تھا بیلا! اور اتنی گواہی کافی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی پر دین مکمل کر دیا۔ نبوت ان پر ختم ہو گئی تو کلمہ بھی مکمل ہو گیا۔ اب اس گواہی کے ساتھ یہ گواہی بھی ضروری ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ و سلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔‘‘
’’تو پھر مجھے مکمل کلمہ پڑھا دیں۔ میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں۔‘‘ جب یسوع کا بھی یہ ہی پیغام تھا تو وہ کیوں نہ مانتی۔ اسے ماننا ہی تھا۔ اس نے اللہ سے روشنی مانگی تھی، ہدایت مانگی تھی، سیدھا راستہ مانگا تھا۔ اسے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے زندگی نہیں گزارنا تھی۔ اس کے لیے اجالوں کا سفر منتخب ہو چکا تھا۔
در نایاب نے فرط محبت سے اس کے ہاتھ چوم لیے اور اسے لاؤنج میں چلنے کا اشارہ کیا۔
٭٭٭
’’لالہ جانی، بھابی، مہک، زریاب، شانی، اجو، رشیدہ، رزاق سب جلدی آؤ۔‘‘ اپنے جوش اور خوشی میں اس نے فیملی ممبز کے ساتھ ساتھ ملازموں کو بھی آواز دے ڈالی تھی۔
دیکھتے ہی دیکھتے سب کمروں سے نکل آئے۔
’’بیلا اسلام قبول کرنا چاہتی ہے۔‘‘ خبر تھی یا دھماکا۔ سب مسرت آمیز چہروں کے ساتھ بیلا کے گرد جمع ہو گئے۔
’’بیٹا! کیا تم نے اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کیا ہے ؟‘‘ احمد کمال اب بھی بے یقین تھے۔ ان کی دعائیں اتنی جلدی مستجاب ہو سکتی ہیں۔ ایسا سوچا نہیں تھا۔
’’جی بابا جان!‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلادیا تو انہوں نے سب کی موجودگی میں اسے کلمہ پڑھا دیا۔ سب کی آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔
’’مبارک ہو بیٹا! اب تم مسلمان ہو۔‘‘ ان کے بعد، باقی سب نے بھی گلے لگا کر مبارکباد دی۔ در نایاب سب کے لیے چائے اور مٹھائی لے آئی تھی۔
’’ہم آپی کا نام فاطمہ رکھیں گے۔‘‘ سب سے پہلے مہک کو ہی نام بدلنے کا خیال آیا تھا۔
’’بہت پیارا نام ہے۔‘‘ در نایاب نے اس کے ماتھے کا بوسہ لیتے ہوئے اپنے ساتھ لگا لیا۔
اگلے روز خاندان بھر کی دعوت ہوئی۔ جس میں اسے سب سے متعارف کروایا گیا تھا۔ کل تک احمد کمال جسے عزت کے زوال کا باعث سمجھ رہے تھے۔ آج وہ ان کا فخر بن چکی تھی۔
٭٭٭