’’تم نے ڈیڈ کو بتایا ہے ؟‘‘ وہ اپنے متعلق استفسار کر رہی تھی۔
’’نہیں۔‘‘ اس نے نفی میں سرہلایا۔
’’کیوں ؟‘‘ وہ سیٹ بیلٹ کھولتے ہوئے بولی۔
’’سرپرائز دینا چاہتا ہوں۔‘‘ بظاہر اس نے لاپرواہی سے کہا تھا۔ مگر ابا جی کا متوقع رد عمل اسے ہولا رہا تھا۔
’’تم کتنے بہن بھائی ہو؟‘‘ جہار اب آسمان کی بلندیوں پر پرواز کر رہا تھا۔ بادل کھڑکیوں سے اندر جھانک رہے تھے۔
’’پہلے دو تھے۔ اب تین ہو چکے ہیں۔‘‘ وہ اس کی جانب دیکھ کر مسکرایا۔
’’تفصیل سے بتاؤ۔‘‘
’’مجھ سے چھوٹی ہے، مہک اور زریاب میرا کزن ہے۔ دونوں ڈاکٹر ہیں۔ ان کے علاوہ گھر میں ایک پھوپھو ہیں۔ اماں بی اور ابا جان۔‘‘
پھر وہ راستے بھر اسے ان سب کی باتیں سناتا رہا تھا۔
حویلی پہنچنے تک وہ غائبانہ طور پر سب سے متعارف ہو چکی تھی۔
٭٭٭
’’السلام علیکم ایوری باڈی۔‘‘ لاؤنج میں داخل ہوتے ہی اس نے سب کو مشترکہ سلام کیا۔
صوفوں پر بیٹھے تمام اہل خانہ اپنی جگہ حیرت زدہ سے رہ گئے تھے۔
وہ بغیر اطلاع کے جو آیا تھا۔
’’شانی! میری جان۔‘‘ سب سے پہلے اماں اٹھ کر آئیں۔ باقی سب کی نظریں اس کے پیچھے کھڑی حسن کی دیوی پر جمی تھیں۔
’’کہیں یہ شادی تو نہیں کر آیا؟‘‘ مہک، زریاب کے کان میں گھسی۔ در نایاب نے سنا تو دونوں کو گھورتے ہوئے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ ابا جان کی موجودگی میں کسی کی جرات نہیں ہو رہی تھی کہ وہ اس لڑکی کے متعلق استفسار کرتا۔
’’شانی! تم میرے کمرے میں آؤ۔‘‘وہ اسے حکم صادر کرتے اپنے کمرے کی سمت مڑ گئے۔
شانی پر گھبراہٹ طاری ہونے لگی۔ پانی کا گلاس ایک ہی گھونٹ میں خالی کرتا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
’’شایان۔‘‘ وہ اسے اٹھتے دیکھ کر گھبرا گئی۔ سب اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
’’ڈونٹ وری! میں بس ابھی آتا ہوں۔ مہک! تم بیلا کو کمرے میں لے جاؤ اور خبردار! میرے واپس لوٹنے تک کوئی اس کا انٹرویو نہیں لے گا۔‘‘
تنبیہہ سخت تھی۔ دونوں منہ پھلا کر بیٹھ گئے۔ در نایاب نے اسکوائش سے بھرا جگ اور گلاس اس کے سامنے رکھا۔ اماں اٹھ کر اندر کمرے میں جا چکی تھیں۔ بیلا آرام سے بیٹھ گئی۔
’’یہ لڑکی کون ہے ؟‘‘ ابا جان کے انداز سے ہی برہمی جھلک رہی تھی۔
’’یہ الزبتھ کی بیٹی ہے۔ وہی الزبتھ جو آج سے اکیس سال قبل … آپ کو نیویارک میں ملی۔ پھر آپ نے اس سے شادی کی اور پھر چھوڑ دیا تھا۔‘‘ اس میں جانے اتنی ہمت کہاں سے آ گئی تھی کہ وہ بغیر جھجکے بولتا چلا گیا۔
الزبتھ کے نام پر ان کی آنکھوں میں جیسے کوئی سایہ سا لہرایا تھا۔ وہ ایک پل کو چونکے اور پھر ہار کر جیسے کرسی پر ڈھے گئے۔ انہوں نے شایان کو جانے کا اشارہ کر دیا۔
وہ چپ چاپ واپس پلٹ آیا۔ باپ کے مقابل کھڑے ہونے کی تربیت نہیں تھی اس کی۔ ویسے بھی اس کے باپ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سردار بھی تھے۔
اب سردار سے سوال و جواب کون کرتا۔
اماں بی کو برسوں پہلے کی گئی اس بے وفائی پر دکھ تو ہوا تھا۔ مگر حویلی کی عورتوں کے نصیب اس دکھ کے بغیر ادھورے سے رہتے تھے۔ وہ بھی شکوہ کرنے کے بجائے صبر کر گئی تھی۔
البتہ مہک کا شوق دیدنی تھا۔ بیلا کی بہت جلد اس سے دوستی ہو گئی۔ زریاب اسے چڑانے کی خاطر آج کل بیلا میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لینے لگا تھا۔ دونوں نے اسپتال سے چھٹیاں لے رکھی تھیں اور بیلا کو پہاڑوں کی خوب سیر کروا رہے تھے۔
مگر جس شخص کی خاطر وہ اتنی دور یہاں آئی تھی۔ وہ پچھلے تین روز سے حویلی نہیں آیا تھا۔ وہ کہاں تھا، وہ کسی سے بھی اس کے متعلق دریافت نہیں کر پارہی تھی۔ مہک نے اتنا کہا تھا کہ آج کل وہ زمینوں پر ہوتے ہیں۔
٭٭٭
’’الزبتھ کی بیٹی۔‘‘ آواز جیسے کسی ہتھوڑے کی مانند ان کے اعصاب پر برس رہی تھی اور وہ اپنی جگہ تڑپ کر رہ گئے تھے۔
جس وجہ سے انہوں نے اکیس برس قبل الزبتھ کو چھوڑا تھا، آج وہ وجہ حقیقت کا بھیانک روپ دھارے ان پر ہنس رہی تھی اور وہ اس سے نظریں چڑائے، منہ چھپائے پھر رہے تھے۔
احمد کمال شاہ کی بیٹی اور ایک غیر مسلم۔
یہ خیال ہی ان کی نیندیں حرام کیے ہوئے تھا۔
رات اپنے آخری پہر میں ڈھل رہی تھی چاند بھی کہیں دھند لکے میں کھویا ہوا تھا۔ جھینگروں اور الوؤں کی آوازیں مل کر ماحول کو وحشت ناک بنا رہی تھیں۔ وہ بے چین سے لان میں ٹہل رہے تھے۔
جب کسی کی نظروں کے ارتکاز نے انہیں سر اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔ وہ اپنے بیڈ رم کی کھڑکی میں کھڑی انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔
نظروں کا تصادم ہوا۔ اور وہ سر جھٹک کر اسٹڈی میں چلے آئے۔
وہ الزبتھ کی اور ان کی حسین مشابہت تھی۔
یہ ان دنوں کی بات تھی، جب وہ خود اکیس سال کے تھے۔ حال ہی میں انہوں نے گریجویشن کیا تھا۔ وہ اعلا تعلیم کے لیے امریکا جانا چاہتے تھے۔ جب ان کے چچا محسن شاہ اچانک بیمار ہو گئے۔ ان کی اکلوتی بیٹی مرجان ان کی بچپن کی منگ تھی۔ جو ایک تو پڑھی لکھی نہیں تھی۔ دوسرا ان سے آٹھ سال بڑی تھی۔ وہ اسے کچھ خاص پسند نہیں کرتے تھے۔ مگر خاندانی روایات کے مطابق شادی کرنا پڑی۔
اور اس کے بعد اماں بی کی ایک نئی فرمائش شروع ہو گئی تھی کہ جب تک وہ پوتے کا منہ نہیں دیکھ لیتیں، وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتا۔
ایک سال کے بعد جب شایان پیدا ہوا تو وہ نیویارک چلے آئے۔ یہاں انہیں الزبتھ مل گئی اور وہ اس کے حسن جہاں سوز کے آگے دل ہار بیٹھے۔ ملاقاتیں بڑھیں اور ایک روز انہوں نے اسے پروپوز کر دیا۔
وہ اپنے خاندانی روایت کے مطابق ایک نن بن رہی تھی۔ لیکن احمد کمال کی والہانہ محبت کے سامنے سارے خاندانی دستور دم توڑ گئے۔ وہ ان سے شادی کے بعد ان کے اپارٹمنٹ چلی آئی۔
ڈیڑھ سال پلک جھپکتے … گزر گیا۔ وہ ایک دوسرے کی رفاقت میں بے پناہ خوش تھا۔ ان کے مابین پہلا جھگڑا اس روز ہوا تھا، جب الزبتھ نے انہیں اپنی پریگنینسی رپورٹ دکھائی تھی۔ وہ اپنی جگہ ساکت سے رہ گئے تھے۔
ان کا پاکستان میں ایک بیٹا تھا۔ بیوی تھی۔ گویا ان کی فیملی مکمل تھی تو پھر الزبتھ کون تھی اور یہ بچہ؟
انہوں نے ہر پہلو پر سوچا تو جیسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس جانے والے تھے۔ انہیں یہاں کوئی فیملی نہیں بنانا تھی۔
’’تمہیں خوشی نہیں ہوئی؟‘‘ الزبتھ کو ان کی خاموشی پر گھبراہٹ ہونے لگی تھی اور جب وہ بولے تو ان کی سماعتیں لزراٹھیں۔
’’تم ابارشن کر والو۔ مجھے یہ بچہ نہیں چاہیے۔‘‘
’’احمد! تم پاگل تو نہیں ہو گئے ؟‘‘ اس کی آواز صدمے سے ٹوٹ گئی۔
’’میں جا رہا ہوں۔ جب میری بات مان جاؤ تو بتا دینا۔ میں آ جاؤں گا واپس۔‘‘ انہوں نے اپنا سامان سمیٹا اور دھاڑ سے دروازہ بند کر کے چلے گئے۔ انہیں یقین تھا کہ الزبتھ ان کے بغیر نہیں رہ پائے گی اور انہیں پانے کی خاطر وہ ضرور ابارشن کر والے گی۔
مگر وہ اپنی ممتا کے ہاتھوں ہار گئی اور پیار کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔
احمد کمال وطن واپس لوٹ آئے اور پھر مڑ کر کبھی ماضی میں نہیں جھانکا اور آج ماضی حال میں بدل کر پھر سے لوٹ آیا تھا۔
٭٭٭
وہ مہک اور زریاب کے ساتھ لان میں اسکوائش کھیل رہی تھی۔ جب حسب معمول دونوں جھگڑنے لگے۔ ان کی زبان اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ مگر ان دونوں کی نوک جھونک سے محظوظ ہوتی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ ادھ کھلے دریچے سے احمد کمال باہر ہی جھانک رہے تھے۔
وہ فیروزی اور گلابی شلوار میں سوٹ زیب تن کیے بالوں کی لمبی چٹیا بنائے دوپٹا گلے میں ڈالے بیٹھی تھی۔ احمد کمال کو اس میں منال کا عکس جھلکتا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اتنی پیاری تھی کہ دل خود بخود اس کی جانب کھینچنے لگتا تھا۔
مہک اور زریاب کا جھگڑا ہا تھا پائی کی صورت اختیار کرنے والا تھا، جب اس نے اٹھ کر بیچ بچاؤ کروایا۔
’’آپی! آپ کو پتا ہے یہ کتنا بڑا چیٹر ہے۔‘‘ مہک کے گلابی رخساروں سے خون جھلکنے لگا۔ آج وہ پھر بری طرح سے ہاری تھی۔
’’ہارنے کے بعد ہی تمہیں میری چیٹنگ نظر آتی ہے مکار لومڑی۔‘‘ وہ تلملایا۔
’’اور تم خود کیا ہو بندر، الو، گھامڑ۔‘‘ وہ دو بدو بولی۔
’’ڈاکٹر کی شان میں گستاخی۔‘‘ اس نے مصنوعی رعب جمانے کی کوشش میں آنکھیں نکالیں۔
’’ڈاکٹر لگتے ہو کہیں سے تم دونوں ؟‘‘ در نایاب نے کچن کی کھڑکی سے جھانکا۔
’’اسپتال سے جا کر پوچھ لیں۔‘‘ وہ ڈھٹائی سے ہنسا۔
’’صحیح کہا ہے کسی نے، فطرت کبھی نہیں بدلتی تم دونوں کو بھی جھگڑا کیے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا۔‘‘ وہ ان کے لیے پکوڑے بنا کر لائی تھی۔
’’موسم اچھا ہے باہر چلیں۔‘‘ پکوڑوں سے انصاف کرتے ہوئے زریاب نے بیلا کو پیش کش کی وہ مہک کو چڑانے کے لیے آج کل بیلا میں خاصی دلچسپی لے رہا تھا۔
’’مہک بھی ساتھ چلے گی۔‘‘ اس نے محبت سے اپنی چھوٹی بہن کو دیکھا۔ چند ہی دنوں میں اس کی مہک سے بہت اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ صرف ایک وہ ہی گریزاں تھے، جن کی خاطر وہ اتنی دور چلی آئی تھی۔
’’دیکھ لیں ! پارٹی بدل رہی ہیں آپ۔‘‘ وہ خفگی سے بولا۔
’’تم اپنے جھگڑوں میں مجھے سینڈوچ مت بناؤ۔ میں خاصی امن پسند لڑکی ہوں اور دونوں کے ساتھ ہوں۔‘‘ اس نے سبز جھنڈی دکھائی۔
’’در نایاب! آپ بھی چلیں نا۔‘‘ برتن اٹھاتی در نایاب کے ہاتھ رک گئے۔ جب سے جہاں زیب کا رشتہ آیا تھا، تب سے ہی اس پر باہر کی دنیا کے دروازے بند کر دیے گئے تھے۔
’’میرا موڈ نہیں ہے۔ تم لوگ جاؤ۔‘‘ سپاٹ سا انداز تھا۔
٭٭٭