حویلی کا میں گیٹ کھلا ہوا تھا۔ جہاں زیب کی گاڑی پورچ میں چلی آئی۔ انجو اپنی ہمراہی میں انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھا آئی۔
در نایاب کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا وہ دریچے سے ہٹ کر بیڈ پر آ بیٹھی۔ وہ لوگ اس کی دوست ندا کو ساتھ لے کر آئے تھے۔
کچھ پل گزرے تو اس کا بھی بلاوا آ گیا۔
دھڑکتے دل کو سنبھالتے ہوئے وہ بمشکل ڈرائنگ روم تک آئی۔ وہاں لالہ اور مرجان بھابی بھی موجود تھے۔
وہ ندا اور آنٹی سے مل کر کاؤچ پر بیٹھ گئی۔ اس نے جہاں زیب پر محض ایک ہی نگاہ ڈالی تھی۔ اسے وہ کافی شکست خوردہ سا لگا تھا۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔
احمد کمال کا سرخ چہرہ اس بات کا غماز تھا کہ خاتون اپنا مدعا بیان کر چکی ہیں۔
’’بیٹا! تم نے اپنی دوست کو بتایا نہیں تھا کہ تمہاری نسبت بچپن سے ہی شاہ میر سے طے ہو چکی ہے ؟‘‘ لالہ کا لہجہ بالکل بے تاثر اور سپاٹ تھا۔ پھر بھی وہ اس میں چھپی برہمی محسوس کر سکتی تھی۔ اس نے زخمی نظروں سے انہیں دیکھا تو وہ رخ موڑ گئے۔
ندا اور جہاں زیب اپنی جگہ ساکت سے بیٹھے تھے۔
شاہ میر اس کا چچا زاد بھائی تھا۔ وہ بچپن سے ہی اس کے ساتھ منسوب تھی۔ اس کے باوجود کہ شاہ میر اپنی جانب سے اسے آزاد کر چکا تھا۔ اس نے نیویارک میں اپنی کلاس فیلولیزا کے ساتھ شادی کر لی تھی اور اب اس کے دوبچے بھی تھے۔ مگر اسے تمام عمر ایسے شخص کے ساتھ منسوب رہنا تھا، جو نہ کبھی اس کا تھا، نہ ہو سکتا تھا۔
خاندان والوں نے شاہ میر کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ سب کو یقین تھا کہ رشتوں کی محبت پر بے چین ہو کر وہ ضرور لوٹ آئے گا۔
چاہے تب تک در نایاب کے بالوں میں چاندنی اتر آئے۔ چاہے تب تک امنگوں سے بھرا دل خالی ہو جائے۔ چاہے تب تک آنکھوں سے سب خواب مر جائیں۔ مگر اسے ایک نامحرم شخص کے نام پر تمام عمر بیٹھے رہنا تھا۔ یہ اس کی سزا تھی کہ اس نے حویلیوں میں جنم لیا تھا۔ یہ اس کا قصور تھا کہ وہ ایک سردار کی بہن تھی۔
جانے سے قبل وہ ایک لمحے کے لیے اس کے پاس رکا۔ وہ ستون سے ٹیک لگائے کھڑی تھی۔ آنکھوں کا کاجل پھیل چکا تھا اور سب کچھ کھودینے کا ملال دل کاٹ رہا تھا۔ وہ درد سے دوہری ہوئی جا رہی تھی۔
وہ شاید آج اسے آخری بار دیکھ رہی تھی۔
اس نے ایک نظر پر شکوہ عمارت کی اونچی دیواروں کو دیکھا اور پھر اس سے بولی۔
’’میں نے کہا تھا نا …‘‘ باقی کے لفظ آنسوؤں میں گم ہو گئے۔
’’میں تو اتنا مانتا ہوں کہ کاتپ تقدیر نے اگر تمہیں میرے نصیب میں لکھ دیا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس فیصلے کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ بس! فیصلے کی اس گھڑی کا انتظار کرنا۔‘‘ وہ جانے کس کو تسلی دے رہا تھا۔ اس کو، خود کو یا نصیب کو۔
’’اور اگر کاتب تقدیر نہ چاہے تو؟‘‘ اس کی آنکھیں جھلملا گئیں۔
’’تو پھر ہم اس کے فیصلوں سے بغاوت نہیں کر سکتے۔ لیکن نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ جیسے تم میرے لیے بنائی گئی ہو۔ یہ میرے دل کی گواہی ہے اور تم جانتی ہو میرا دل جھوٹ نہیں کہتا۔‘‘ اس کی آنکھوں میں امید تھی۔ دل میں یقین تھا اور رب پر اس کا ایمان اٹل تھا۔ مگر در نایاب کو یہ محض رسمی جملے معلوم ہوئے تھے۔ وہ جاتے جاتے اسے کیا دے گیا تھا۔
دونوں مٹھیاں اس نے زور سے بھینچ کر کھولیں … ہاتھ خالی تھے۔
٭٭٭
’’تم ابھی تک تیار نہیں ہوئیں ؟‘‘ وہ بیلا کو یونیورسٹی لے جانے کے لیے آئی تھی اور وہ مزے سے لیٹی ہوئی تھی۔
’’میں نے ہی منع کیا ہے۔ اب اسے یونیورسٹی جا کر کیا کرنا ہے ڈاکٹر نے بیڈ ریسٹ کی ہدایت کی ہے۔‘‘
کیتھرین نے بیلا کو دیکھا۔ اس نے بے نیازی سے شانے اچکا دیے۔
’’اوکے ! ٹیک کیئر۔‘‘ جانے سے قبل اس نے بیلا کو ماتھے پہ پیار کیا۔
کیتھرین کے جانے کے ایک گھنٹے بعد وہ بھی آفس کے لیے نکل گیا۔
’’کھانا وقت پر کھانا اور کوئی کام مت کرنا۔‘‘ اس کی ساری گفتگو آج کل محض اس کی ڈائیٹ کے گرد گھوم رہی تھی۔
بیلا کو اس کا اپنے لیے اتنا فکر مند ہونا اور پروا کرنا اچھا لگ رہا تھا۔ اس کی مما بھی ایسے ہی اس کا خیال رکھا کرتی تھیں۔
لنچ کے بعد وہ سو کر اٹھی تو اپارٹمنٹ سے باہر نکل کر جھانکا۔ آج پھر بارش ہوئی تھی اور ننھی منی بوندوں نے آسمان سے زمین تک ہر منظر کو نکھار دیا تھا۔ ہر طرف ہریالی اور کھلتے پھولوں کی مہک حواسوں پر اچھا تاثر قائم کرتی تھی۔
سنہری بالوں والے بہت سے بچے جھولوں پر بیٹھے خوش ہو رہے تھے۔ وہ انہیں دیکھنے میں اتنی مگن ہو چکی تھی کہ پاس کھڑے شخص کی موجودگی کو محسوس ہی نہ کر سکی۔
’’ہیلو بیلا۔‘‘ وہ آواز پر پلٹی۔ سامنے شایان کھڑا تھا۔ یہ وہی لڑکا تھا، جو اسے سوئٹزر لینڈ میں ملا تھا۔ جس سے دونوں نے اپنی تصویریں بنوائی تھی۔
’’تم یہاں کیسے ؟‘‘ وہ اچانک اسے ہالینڈ میں دیکھ کر اپنی حیرت چھپا نہیں پائی۔ وہ تو اسے سوئٹزر لینڈ کا ہی رہائش تصور کر رہی تھی۔ کیونکہ بعد میں اس نے ان دونوں کو بہت خوب صورت جگہ کی سیر بھی کروائی تھی۔
’’میں یہاں یوینورسٹی میں ایم ایس کر رہا ہوں۔ وہاں تو محض سیر و تفریح کی غرض سے گیا تھا۔‘‘
’’ویل! یہاں قریب ہی میرا اپارٹمنٹ ہے۔ آؤ! تمہیں اچھی سی کافی پلواتی ہوں۔‘‘
’’نو تھینکس! پھر کبھی۔‘‘ وہ ہاتھ ہلا کر چلا گیا۔ حالانکہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ جا کر کافی پیے۔ لیکن آج اسے اپنا بہت ضروری اسائنمنٹ تیار کرنا تھا۔ سو اسے جلدی تھی۔
٭٭٭
مانیک شام میں گھر آیا تو اس کے ہاتھ میں ڈھیر ساری کتابیں تھیں۔ بیلا نے ایک بار اسے اور دوسری بار کتابوں کو دیکھا۔ اس کی حیرت بجا تھی۔
وہ کتابوں سے اتنا الرجک تھا۔ بیلا نے کبھی اسے کسی غیر نصابی کتب کا مطالعہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
اور آج وہ نہ صرف کتابیں لے کر آیا تھا۔ بلکہ آتے ہی اس نے ان کتابوں میں سے ایک کتاب اٹھائی تھی اور صوفے پر کشن کے سہارے نیم دراز ہو کر بیٹھ گیا۔
’’کیا پڑھ رہے ہو؟‘‘ بیلا نے اس کے ہاتھ سے کتاب اچک کر سرورق کو دیکھا تو بے ساختہ اک خوش گوار سی مسکان اس کے لبوں کو چھو گئی۔‘‘
وہ ساری کتابیں ’’ہاؤٹوسپنڈ پر یگنینسی پیریڈ‘‘ پر مشتمل تھیں۔
’’تم اپنا خیال نہیں رکھتیں۔ اب میں تمہارا خیال رکھا کروں گا۔‘‘ مانیک کی بات پر بیلا کا ڈھیروں خون بڑھ گیا۔
٭٭٭
وہ اور کیتھرین بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔ جب ڈور بیل بج اٹھی۔ کیتھرین آج کل ان کے اپارٹمنٹ میں رہ رہی تھی۔ کیونکہ ڈاکٹرز اسے ایک ہفتہ بعد کی تاریخ دے چکے تھے اور کیتھرین اس کی تنہائی کے خیال سے اس کے پاس آ گئی تھی۔
’’کون ہو گا؟‘‘ بیلا نے اس سے دریافت کیا۔
’’تم بیٹھی رہو۔ میں دیکھ کر آتی ہوں۔‘‘ وہ اٹھ کر چلی گئی اور جب دروازہ کھولا تو اجنبی چہرہ سامنے تھا۔
’’بیلا سے ملنا تھا۔‘‘ اس کا اعتماد بتا رہا تھا کہ وہ جو بھی ہے، بیلا کا کافی قریبی جاننے والا ہے۔ کوئی دوست یا پھر …
’’کم ان۔‘‘ وہ دروازے سے ہٹ گئی۔
شایان اس کی معیت میں چلتے ہوئے راہ داری سے ہو کر لاؤنچ میں چلا آیا۔
’’ویلکم ہوم۔‘‘ بیلا نے مسکراتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا اور سفید للی کے پھول لے کر گلدان میں سجا دیے۔
’’تم بہت دنوں سے نظر نہیں آئیں تو میں خود چلا آیا۔‘‘
’’اتنا فارمل ہونے کی ضرورت نہیں۔ بے تکلفی سے بتاؤ کیا کھاؤ گے ؟‘‘
’’کھاؤں گا نہیں، پیوں گا۔‘‘ جواباً وہ بھی مسکرایا۔
’’کافی۔‘‘
’’کیتھرین اس کی فرمائش پر اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔ بیلا اس سے باتیں کرنے لگی۔
’’اور سناؤ! سٹڈی کیسی جا رہی ہے ؟‘‘
’’ایم ایس کمپلیٹ ہو چکا ہے۔ اب چند دنوں میں پاکستان …‘‘ باقی کے لفظ اس کے لبوں پر ہی دم توڑ گئے۔ اس کی نظریں سامنے فریم میں لگی انلارج فوٹو پر جم سی گئی تھیں۔
بیلا نے واضح طور پر اس کی رنگت کو متغیر ہوتے دیکھا تھا۔
اگلے ہی پل وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
’’اچھا! میں چلتا ہوں۔ پھر آؤں گا۔‘‘ وہ کہہ کر تیزی سے باہر نکل گیا تھا۔ بیلا لب کھولے اس کی پشت کو گھور کر رہ گئی۔
’’تمہارا مہمان کہاں گیا؟‘‘ کیتھرین کافی لیے کھڑی تھی۔
’’اسے اچانک کوئی کام یاد آ گیا تھا۔‘‘ وہ کہہ کر خود سے الجھتے ہوئے اپنے بیڈ روم میں چلی آئی۔
پاکستان کے نام پر اس کی دھڑکنیں بھی منتشر ہوئی تھیں۔
ایک پار کیتھرین نے اس سے پوچھا تھا۔
’’کیا تمہیں اپنے ڈیڈ سے کبھی نفرت محسوس نہیں ہوئی؟‘‘
تب اس نے کہا تھا۔ ’’جس شخص کو میری ماں نے دیوانوں کی طرح چاہا ہو۔ اس سے میں نفرت کرہی نہیں سکتی۔ مجھے ان پر غصہ ہے کہ انہوں نے کیوں مما کو چھوڑ دیا۔ مگر میں دل سے چاہتی ہوں کہ وہ ایک بار مجھے مل جائیں۔ میں ایک بار انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں۔ ان کو بتا سکوں کہ میں ان کی بیٹی ہوں۔‘‘
٭٭٭