رات ڈنر پر اس کی ملاقات مسٹر اینڈ مسز انتھونی سے ہوئی تھی۔ بیلا کے تمام تر خدشوں کے برعکس مسٹر انتھونی نے خاصی خوش اخلاقی اور گرم جوشی کا مظاہرہ کیا تھا۔ مرین کا رویہ اگر بہت پرجوش نہیں تھا تو روکھا اور نخوت بھرا بھی نہیں تھا۔ بلکہ بیلا کو وہ اچھی ہی لگی تھیں۔
’’واپسی کا کیا پروگرام ہے ؟‘‘ وہ مانیک سے مخاطب تھے۔
اس دوران بیلا چپکے چپکے ان کا جائزہ لے چکی تھی۔ وہ کافی گریس فل اور ہینڈ سم تھے۔ مانیک ہو بہو ان کی کاپی تھا۔
’’آپ سے ملنا تھا، مل لیا۔ اب کل ہی واپسی کا اراردہ ہے۔‘‘ وہ بولا تو بیلا کو اس کا لہجہ کچھ سپاٹ سا لگا۔ وہ نوٹ کر رہی تھی کہ ٹونی کے علاوہ وہ اپنے فادر اور مرین کے ساتھ کافی لیے دیے سا رہتا تھا۔
شاید اس کی وجہ اس کی ممی کی طلاق تھی۔ ستر فیصد ویسٹرن فیمیلز کی طرح شادی کے چھ سال بعد جب وہ پانچ سال کا تھا تو دونوں نے اپنے راستے جدا کر لیے تھے۔ اس کی ممی کو انتھونی سے ہمیشہ یہی شکایت رہی تھی کہ وہ انہیں زیادہ وقت نہیں دیتے۔ ہر وقت بزنس اور اس کی مصروفیات۔ ایسے حالات میں جب انہیں جانسن ملے تو انہوں نے انتھوننی سے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ وہاں انتھونی کی زندگی میں بھی مرین آ چکی تھی دونوں نے دوبارہ شادی بھی کر لی۔ مگر اس کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں تھا۔ تب ہی اسے بورڈنگ بھجوا دیا گیا تھا۔
اس کی ماں سال میں ایک فون کال کرتی تھیں اور باپ سال میں دوبار ملنے آتا تھا۔ یوں دونوں اپنے اپنے فرض سے جیسے سبکدوش ہو جاتے تھے۔ وہ کیا چاہتا ہے کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔
’’رک جاؤ، ایک ہفتہ۔‘‘ ان کا انداز سرسری ضرور تھا لیکن لہجے میں چھپی حسرت وہ محسوس کر سکتی تھی۔ اب جب وہ اسے پاس رکھنا چاہتے تھے تو وہ دور بھاگتا تھا۔
’’بھائی پلیز! کچھ دن رک جائیں نا۔‘‘ اس کے نیم وا لبوں کو دیکھتے ہوئے ٹومی نے فوراً کہا تھا اور اب اس کا ہاتھ تھامے برابر اصرار کیے جا رہا تھا ’’میں نہیں جانے دوں گا۔‘‘
اور ٹومی کا دل وہ نہیں توڑ سکتا تھا۔ سو اس نے ایک ہفتہ رکنے کی ہامی بھر sلی تھی۔
٭٭٭
سوئٹزر لینڈ کے فلک بوس پہاڑ، بہتے جھرنے، پھولوں سے لدی وادیاں اور حسین شب و روز۔ ایک دوسرے کی ہمراہی میں گزارتے ہوئے زندگی جنت لگنے لگی تھی۔
’’کتنی پرسکون جگہ ہے۔ جی چاہتا ہے ہم ساری زندگی انہی پہاڑوں پر گزار دیں۔‘‘
سڑک پہ دور رویہ درختوں کی قطاریں تھیں درختوں کے پتے سرخ رنگ کے تھے جو سڑک کے اطراف میں بکھرے ہوئے تھے۔ دور تلک پھیلا یہ منظر بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔
مانیک نے اپنے بیگ سے کیمرہ نکال لیا اور کھٹا کھٹ اس کے ایک ساتھ کئی پوز اتارلیے۔
’’اب میں اکیلے کوئی تصویر نہیں بنواؤں گی۔ اس سے تو اچھا تھا کیتھی یا ٹومی کو ساتھ لے آتے۔ ہماری تصویریں ہی بن جاتیں۔‘‘ اس کا موڈ بگڑ گیا۔
’’تو اب کیا کیا جا سکتا ہے ؟‘‘ اس نے ہنستے ہوئے ایک اور تصویر اتارلی وہ خفا ہو کر درختوں کے مخالف سمت میں چلنے لگی۔
’’یار سنو تو۔‘‘ وہ پیچھے بھاگا۔
’’ایکسکیسوزمی۔‘‘ اس نے قریب سے گزرتے ایک ایشین لڑکے کو روکا۔
’’یہ کیمرہ پکڑو اور ہماری تصویریں بناؤ۔‘‘
لڑکے کا جواب سنے بغیر اس نے زبردستی کیمرہ اس کے ہاتھ میں تھمایا اور پلٹ کر مانیک کے ساتھ آن کھڑی ہوئی۔
’’بیلا! یہ کیا حرکت ہے۔‘‘ اس نے ہلکا سا ڈپٹا۔
’’سامنے دیکھو! ورنہ تصویر اچھی نہیں آئے گی۔‘‘ وہ کیمرے کی جانب دیکھتے ہوئے لاپرواہی سے بولی۔ مانیک سر جھٹک کر کیمرے کی سمت متوجہ ہو چکا تھا۔
’’آپ کا کیمرہ۔‘‘ شایان نے چند تصویریں بنانے کے بعد کیمرہ بیلا کی طرف بڑھایا۔
’’تھینکس برادر۔‘‘ کیمرہ لینے سے قبل اس نے مسکراتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔
شایان کی آنکھوں میں حیرت امڈ آئی۔ اس تعجب کی وجہ یہ تھی کہ ایک ویسٹرن لڑکی نے اسے بھائی کہا تھا۔
تب ہی اچانک ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی۔ میرا فراک بھیگا تو خراب ہو جائے گا۔
’’وہ درخت کچھ گھنا ہے۔ بارش رکنے تک ہم وہاں ٹھہر سکتے ہیں۔‘‘ مانیک نے ہاتھ سے کچھ قدم کے فاصلے پر خوب پھیلے ہوئے درخت کی سمت اشارہ کیا اور دونوں بھاگ کر وہاں جاکھڑے ہوئے۔
’’کیا تھا اس لڑکی میں مانوس سا۔‘‘ شایان بدستور کھڑا سوچ رہا تھا۔ جبکہ وہ دونوں اس کی موجودگی فراموش کیے اب اپنی باتوں میں مگن ہو چکے تھے۔
٭٭٭
’’شکر ہے ! تم لوگوں کی چھٹیاں ہوئیں۔ حویلی میں دیکھو تو کیسی رونق اتر آئی ہے۔‘‘ مرجان بیگم بچوں کو دیکھتی خوش ہو رہی تھیں۔
مہک ان کی گود میں سر رکھے لیٹی تھی۔ در نایاب سامنے کاؤچ پر گم صم اداس سی بیٹھی تھی۔ کھانا بھی اس نے برائے نام کھایا تھا اور پہلے کی طرح کسی بات میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی نہیں لے رہی تھی۔
زریاب نیچے فرش پر ٹھنڈے میٹھے رسیلے آموں کی ٹوکری لیے بیٹھا تھا۔
’’مقابلہ کرنا ہے میرے ساتھ؟‘‘ وہ مہک کو اکسا رہا تھا۔
’’میرا موڈ نہیں ہے۔‘‘ اس نے کہہ کر ایک بار پھر در نایاب کو دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اب اٹھ کر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے کمرے میں جا رہی تھی۔
اسے در نایاب کا دکھ رلا رہا تھا۔ وہ جانتے بوجھتے کیوں خود کو روگ لگا بیٹھی تھی۔
’’آ جاؤ! بس تھوڑے دنوں کی موجیں ہیں۔ اس کے بعد تم کہاں، ہم کہاں۔‘‘ وہ اس کے لیے پلیٹ میں آم کاٹ کر لایا۔
در نایاب کی تعلیم مکمل ہو چکی تھی۔ ابا نے کل رات کہہ دیا تھا کہ اب دونوں ہاسٹل میں رہیں گے۔ وہ ملول سی بیٹھی زریاب کو دیکھ کر سوچنے لگی۔
’’کیا اس سے شیئر کروں۔‘‘
’’نہیں ! یہ بھی تو اسی حویلی کا مرد ہے۔ فرسودہ رسم و رواج کے نام پر اپنی ہی بہن بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے والا ایک جابر سردار کا چشم و چراغ۔‘‘ اگلے ہی پل اس نے اپنا خیال جھٹک دیا۔
٭٭٭
سترہ روز سوئٹزر لینڈ میں گزارہ کر وہ واپس ہالینڈ آ چکے تھے۔
رالف اور مارک نے دونوں کو ڈنر پر مدعو کیا تھا۔ ویلوٹ کی پنک میکسی جس پر سلور کام ہوا تھا۔ اس نے زیب تن کر رکھی تھی۔ ہاف سلیو میں اس کے سڈول بازو چاند کی مانند دمک رہے تھے۔ دونوں کلائیوں میں پنک اور سلور چوڑیاں تھیں۔ پنسل ہیل پر اس کی دراز قامت مزید نمایاں ہو رہی تھی۔ سیدھے سلکی بالوں کو اس نے ہلکا سا پرم کیا ہوا تھا۔ کانوں میں جھمکیاں، صراحی دار گردن پہ سجا ڈائمنڈ نیکلس اور نفاست سے کیے گئے میک اپ کے ساتھ اس کی تیاری مکمل تھی۔
’’تم ہر رنگ میں پہلے سے زیادہ خوب صورت لگتی ہو۔‘‘ مانیک نے اسے سراہا۔ وہ مسکرا دی۔
’’اور تم ہر سوٹ میں چارمنگ۔‘‘
’’جوابی تعریف میں کبھی قبول نہیں کرتا۔‘‘ اس نے منہ بسورا۔
’’یہ جوابی تعریف نہیں۔ میرے دل میں بھی بے حد پیار ہے۔‘‘ وہ مسرت سے بولی۔
’’مگر مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘
’’کیسا ڈر۔‘‘ وہ ساکت ہو گئی۔
’’مجھے عجیب سا خواب آتا ہے بیلا۔‘‘ اس نے سر جھٹکا۔
’’خواب؟ اس کی استفہامیہ نگاہیں مانیک کے وجیہہ چہرے پر جمی تھیں۔
’’بس! تم مجھ سے بھاگ رہی ہو۔ میں تمہیں پکاراتا ہوں، روکتا ہوں۔ مگر تم نہیں رکتیں۔ کہیں کھو جاتی ہو۔ پھر میں تمہیں تلاشتا ہوں اور تم نہیں ملتیں۔‘‘ اس نے بے بسی سے کہتے ہوئے بیلا کے دونوں ہاتھ یوں وارفتگی سے تھام لیے۔ جیسے اسے روک لینا چاہتا ہوں۔
وہ اس کی بات سن کر حیرت کی زیادتی سے گنگ رہ گئی۔ اسے بھی تو ایسا ہی خواب آیا تھا۔
کیا یہ ممکن تھا کہ دو لوگوں کو ایک وقت میں ایک ہی جیسا خواب آ جائے۔
کیا قسمت اسے کوئی اشارہ دے رہی تھی۔ کیا وہ مانیک کو کھو دینے والی تھی۔ یہ تصور ہی اس قدر روح فرسا تھا کہ دل و دماغ میں جھکڑ سے چلنے لگے۔
’’مانیک! تم سے بچھڑ کر تو شاید میں مر ہی جاؤں۔‘‘ وہ روتے ہوئے اس سے لپٹ گئی۔ کیسا خوف تھا، جو لاشعور سے اٹھتا تھا اور دماغ کو اپنے شکنجے میں جکڑ کر سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفلوج کیے دیتا تھا۔
’’او، اکیسوی صدی کے رومیو! یہ رومانس پھر کبھی جھاڑ لینا ابھی تو … جلدی چلو۔ بڑے زور کی بھوک لگی ہے۔‘‘ رالف انہیں لینے آیا تھا۔
بیلا نے الگ ہوتے ہوئے اپنے آنسو صاف کیے۔
ڈنر خاصے خوشگوار ماحول میں ہوا۔ اس کے بعد چاروں اٹھ کر ہوٹل کے بال روم میں چلے آئے۔ فلیش لائٹ، چمکتے چہرے، بیک گراؤنڈ میں بجتا مدھم میوزک اور ڈانس کرتی چند لڑکیاں، جن میں سوزین بھی تھی۔
لوگ ان کے گرد دائرے کی شکل میں کھڑے تالیاں بجاتے محظوظ ہو رہے تھے۔
بیلا بھی مانیک کے ساتھ اسی دائرے میں جگہ بناتے ہوئے آن کھڑی ہوئی۔
سوزین نے دیکھا تو ڈانس چھوڑ کر چلی آئی۔
’’ہیلومانیک!‘‘ وہ بیلا کو سرے سے نظر انداز کر گئی تھی۔ وہ گلابی منی اسکرٹ میں ملبوس تھی۔ بالوں اور کلائیوں میں اس نے گلابی اور جامنی ربن باندھ رکھے تھے۔ تیز بھڑکیلا میک اپ تھوپا ہوا تھا۔
مانیک کو اس کا بیلا کو نظر انداز کرنا خاصا ناگوار گزرا۔
بیلا نے ایک نظر سرتاپا اسے دیکھا اور پھر مانیک سے مخاطب ہوئی۔
’’چلیں مانیک۔‘‘ مانیک بیلا کا ہاتھ تھام کر بال روم کی سیڑھیاں چڑھ آیا۔ سوزین کے تاثرات دیکھنے لائق تھے۔
٭٭٭
رالف اور کلارک انہیں اپنی گاڑی میں ڈراپ کرنے آئے تھے۔ جب اپارٹمنٹ سے کچھ فاصلے پر بیلا نے گاڑی روکنے کا کہا تھا اور رالف نے گاڑی سائیڈ پر لگا دی تھی۔
وہ سرعت سے اتر کر فٹ پاتھ پر چلنے لگی۔ مانیک، رالف اور کلارک کو ’’گڈ بائے‘‘ کہتا اس کے پیچھے بھاگا۔
وہ ایک درخت سے ٹیک لگائے بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پہ نقاہت طاری تھی۔
’’کیا ہوا۔‘‘ وہ فکر مندی سے اسے دیکھتا گھٹنوں کے بل اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
’’عجیب متلی سی ہو رہی تھی۔ اب ٹھیک ہوں۔‘‘ اس نے تسلی آمیز لہجے میں کہہ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے برابر پنچ پر بیٹھا دیا۔
’’کافی پیو گی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’چلو! میں تمہیں ڈاکٹر کو دکھادوں۔‘‘ وہ اب اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھا رہا تھا۔ بیلا مطمئن سی ہو کر اس کے ساتھ چل پڑی تھی۔
ابتدائی ٹیسٹ کے بعد۔ ڈاکٹر نے جو نوید انہیں سنائی تھی۔ اس نے بیلا کے نقاہت زدہ چہرے پہ گلال بکھیر دیا تھا۔ مانیک بھی بے حد خوش تھا۔
٭٭٭