’’میرے بیڈ روم کا ڈور کس نے لاک کیا ہے ؟‘‘ وہ کھڑکی میں کھڑا چلا رہا تھا۔
’’یہ کارنامہ میرے سوا کون سرانجام دے سکتا ہے۔‘‘ وہ سامنے ہی صوفے پر براجمان تھی۔ لبوں پہ دل جلادینے والی مسکراہٹ سجائے۔
’’مہک کی بچی! دروازہ کھولو۔ میں کالج سے لیٹ ہو رہا ہوں۔ میرا ضروری ٹیسٹ ہے۔‘‘ اس نے دانت پیسے۔
’’جی ہاں ! اور اتفاق سے وہ ٹیسٹ میرا بھی تھا۔ مگر تم نے مجھے جان بوجھ کر جھولے سے گرایا۔ اب پاؤں میں آئی موچ کی وجہ سے میں کالج نہیں جا سکتی۔ پھر تم نے میرے نوٹس چرا کر رات بھر ٹیسٹ کی تیاری کی ہے۔ تمہارے لیے تو آج میدان صاف ہے۔ مجھے غیر حاضر کروا کر نمبر ون پر آنا چاہتے ہو تو بات یہ ہے مسٹر زریاب شاہ! کہ میں نہیں جاؤں گی تو تم بھی نہیں جاؤ گے۔‘‘ وہ اپنی اور اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مزے سے بولی۔
’’توبہ! کس قدر کینہ پرور، شاطر دماغ اور مکار لومڑی ہو تم۔‘‘ وہ تلملا کر رہ گیا۔
’’حد ادب لڑکے ! مت بھولو کہ تم اس وقت میری حراست میں ہو۔‘‘ اس میں سچ مچ جلال الدین کی روح سرایت کر گئی تھی۔ مگر کھڑا ہونے کے چکر میں کراہ کر واپس بیٹھ گئی۔
’’ملکہ عالیہ! قیدی لڑکے پر تھوڑا ترس کھائیں۔ مجھے بھوک لگی ہے … دروازہ تو کھول دیں۔‘‘ آواز میں مصنوعی عاجزی اور انکسار سمٹ آیا۔
’’فی الحال تو میں رحم کے موڈ میں نہیں ہوں۔ کالج ٹائم گزر جائے تو سوچوں گی۔‘‘
’’یار! نہیں جاتا میں کالج … دروازہ تو کھولو … مجھے ناشتا کرنا ہے۔‘‘ اسے واقعی بھوک لگی تھی۔ یہ بات تو مہک بھی جانتی تھی کہ وہ بھوک کا کتنا کچا ہے۔ صبح آٹھ بجے ناشتے میں دو پراٹھے لیتا تھا اور اب تونو بج رہے تھے۔
’’پہلے حلف اٹھاؤ کہ تم آج کالج نہیں جاؤ گے۔‘‘ اس نے شرط عائد کی۔
’’بیوقوف لڑکی! جانتی نہیں کہ میں کتنی محبت کرتا ہو تم سے ؟ تمہارا کہہ دینا ہی میرے لیے کافی ہے۔‘‘ وہ ڈائیلاگز پر اتر آیا تھا۔ مگر وہ اس کی چالاکی سمجھ گئی۔
’’ڈائیلاگز نہیں چلیں گے … شرافت سے حلف اٹھاؤ اور آ جاؤ۔ دیکھو! ناشتا ٹیبل پر سج چکا ہے۔ تمہاری پسند کے گوبھی والے پراٹھے ہیں۔‘‘ ایک لقمہ منہ میں ڈالتے ہوئے اس نے باقی کا پراٹھا زریاب کی نظروں کے سامنے لہرایا، جس پر اس کی بھوک مزید چمک اٹھی۔
اب کالج نہ جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
’’خواہ مخواہ چھٹی کروا دی میری۔ اب میں سارا دن گھر میں کیا کروں گا۔‘‘ وہ باہر نکلتے ہی اس پر چڑھ دوڑا۔
’’میری سیوا۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے گویا ہوئی۔
٭٭٭
آج رات گیارہ بجے ان کی نیویارک کے لیے فلائٹ تھی۔ مانیک اپنی پیکنگ مکمل کر چکا تھا اپنا بیگ تیار کرنے کے بعد وہ اس کی سمت متوجہ ہوا۔
’’تم نے اپنا بیگ تیار کر لیا؟‘‘
’’بیگ کپڑوں سے تیار کیا جاتا ہے اور میں ایک ہی جوڑے میں تمہارے پاس آئی تھی۔‘‘ اس نے خفگی سے مانیک کو دیکھا تو وہ سر پہ ہاتھ مار کر بولا۔
’’اوہ! تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں ؟‘‘
’’تین روز سے مجھے ایک ہی لباس میں دیکھ کر بھی خیال نہیں آیا؟‘‘
’’جب تم سامنے ہوتی ہو تو باقی سب پس منظر میں چلا جاتا ہے یا پھر تم اتنی پیاری ہو کہ تمہیں سنگھار کی بھی ضرورت نہیں۔‘‘ وہ مکالمے بازی پر اتر آیا۔ بیلا متاثر ہوئے بغیر خفگی سے اسے دیکھتی رہی۔
’’چلو! تمہیں شاپنگ کروا کر لاتے ہیں۔ واپسی پر تمہارے انکل رابرٹ اور آنٹی سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔‘‘ اس نے جلدی جلدی پروگرام ترتیب دیا۔ مگر انکل رابرٹ کے نام پر اس کا چہرہ اتر گیا وہ یہ سوچ کر پریشان تھی کہ وہ انہیں کیسے منائے گی اسے کبھی بھی کسی کو منانا نہیں آیا تھا۔
’’وہ نہیں ملیں گے۔‘‘ اس نے خود ہی اخذ کر لیا۔
’’یہ میرا ہیڈک ہے۔ میں منالوں گا۔‘‘ اس نے وثوق سے کہا۔
اور پھر واقعی اس نے انکل رابرٹ اور آنٹی کو منا کر ہی دم لیا تھا۔ دل میں تو ان کے ابھی بھی کچھ غصہ باقی تھا مگر بظاہر وہ اس سے اب کافی ہنس بول رہے تھے۔
٭٭٭
اپنے ملک کی سرزمین پر قدم رکھتے ہوئے اس کے احساسات عجیب سے ہو گئے۔ دل کسی ضدی بچے کی مانند ہمکنے لگا۔ رات کا آخری پہر بڑی مشکل سے گزرا۔
نیویارک میں صبح طلوع ہوئی اور اس نے بستر چھوڑ دیا۔ روم سروس والا آ کر ناشتا دے گیا۔
مانیک کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں مگر بیلا کی خاطر وہ جلدی اٹھ گیا تھا۔ وہ جانتا تھا وہ اپنی مما سے ملنے کے لیے بے چین ہے۔
شاور لینے کے بعد اس نے بلیک پینٹ پر سفید ہائی نیک جرسی اور بلیک سلیولیس جیکٹ پہنی تھی جس میں وہ اچھا خاصا خوبرو اور اسمارٹ لگ رہا تھا مگر بیلا اس کی تیاری سے مطمئن نہیں ہوئی تھی اس نے بیگ سے اس کے لیے بلیک ٹو پیس نکال دیا تھا۔
’’مانیک! اگر تم یہ پہنو تو۔‘‘ وہ اس کے سر پر آن کھڑی ہوئی۔ بالوں میں برش کرتا اس کا ہاتھ رک گیا۔ وہ کچھ کہنے نہ کہنے کی کیفیت میں الجھا کھڑا تھا اور یہی الجھن اس کی آنکھوں سے بھی جھلک رہی تھی۔ تب ہی اس نے وضاحت کر دی۔
’’میں چاہتی ہوں تم مما کو برطانیہ کے شہزادے سے زیادہ ہینڈ سم نظر آؤ۔‘‘ مانیک اس کی معصومانہ خواہش پر مسکرا دیا۔ وہ ایک مری ہوئی عورت کے لیے اتنی محتاط ہو رہی تھی۔ وہ اسے ٹوکنا چاہتا تھا۔ لیکن پھر اس کی خوشی کی خاطر اس نے بلیک سوٹ پہن لیا تھا۔
ناشتے کے بعد دونوں نیویارک کے قدیم چرچ یارڈ میں چلے آئے تھے۔
بیلا نے راستے میں رک کر سفید للی کا بکے خریدا۔
’’مما! دیکھیں، آپ سے ملنے کون آیا ہے۔‘‘ اس کی پلکیں نم ہونے لگیں۔‘‘ آپ کہا کرتی تھیں نا کہ میری بیٹی بالکل پریوں جیسی ہے اور اس کے لیے ایک دن کوئی بہت سندر سا شہزادہ آئے گا۔ دیکھیں ! وہ پریوں کی کہانی سچ ہو گئی۔ آپ میرے شہزادے سے نہیں ملیں گی؟‘‘ بیلا نے مانیک کا ہاتھ تھام کر قبر کے بالکل سامنے کھڑا کر دیا۔ مگر سامنے سفید سنگ مرمر کے سپاٹ پتھر تھے۔ جن میں زندگی کی کوئی رمق موجود نہیں تھی۔ وہ بے جان تھے۔ مگر اپنے اندر کیسے کیسے محبوب چہرے سمیٹے ہوئے تھے۔
اس پر وحشت سوار ہونے لگی۔ اس کا بس نہ چلتا تھا، وہ سارا قبرستان تہس نہس کر دے۔ وہ ان سفید پتھروں کو توڑ پھوڑ دے اور پھر جانے کب ہر منظر دھند لایا تھا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑی مانیک نے بڑی مشکل سے اسے سنبھالا۔
دو دن مزید وہاں رک کر وہ سب پرانے دوستوں سے ملی۔ اپنے شہر آ کر جیسے ہر زخم تازہ ہو گیا تھا۔ ہر یاد کسک دینے لگی تھی۔ ان گلی کوچوں میں اسے آج بھی اپنا بچپن اور الزبتھ کے قدموں کا لمس دکھائی دیتا تھا۔ اس نے آخری بار ان سب جگہوں کو دیکھا۔
اپنا پرانا گھر جہاں اب کوئی اور فیملی رہائش پذیر تھی۔ اپنا اسکول، اپنے گراؤنڈ جہاں وہ الزبتھ کے ساتھ ٹینس کھیلا کرتی تھی۔ وہ پارک جہاں ہر شام واک کرنے جاتی تھی۔
’’آئی پرامس بیلا! میں اب کبھی تمہیں تنہا نہیں ہونے دوں گا۔ ہم اپنی زندگی کو مل کر بہت خوب صورت اور خوش گوار بنائیں گے۔‘‘ وہ جھولے پر بیٹھی الزبتھ کے لمس کو محسوس کرنے کی کوشش کر رہی تھی، جب مانیک نے اس کے دونوں ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیے۔
بیلا نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس کے سینے پر سرٹکا دیا۔
٭٭٭
علامہ اقبال میڈیکل کالج سے ان دونوں کو پک کرنے کے بعد ڈرائیور نے گاڑی پنجاب یونیورسٹی کے سامنے روک دی تھی۔ زریاب نے جیب سے موبائل نکالا۔ وہ در نایاب کو ایس ایم ایس کرنا چاہ رہا تھا کہ وہ لوگ گیٹ پر کھڑے ہیں۔ تب ہی مہک کو اچانک اس روز والی فون کال یاد آئی۔ وہ بارہا اس شخص کے متعلق سوچ چکی تھی اور اس کے خیال میں وہ ضرور کلاس فیلو ہی تھا اور در نایاب اس میں انٹرسٹڈ تھی۔ آج ویسے بھی اس کا لاسٹڈ ے تھا۔
ایگزامز سے فارغ ہو کر وہ آج اپنی دوستوں سے ملنے یونیورسٹی آئی تھی۔
اسے لگا، وہ آج آسانی کے ساتھ اپنے ہدف تک پہنچ سکتی ہے۔
’’تم رہنے دو۔ میں پھوپھو کو خود بلا کر لاتی ہوں۔‘‘اس نے زریاب کو ٹوک دیا اور اپنی سمت کا دروازہ کھولنے لگی۔
’’تم کہاں تلاش کرتی پھرو گی؟ میں ایس ایم ایس کرتا ہوں۔ وہ آ جائیں گی۔‘‘ آدھا ادھورا ایس ایم ایس وہ پھر سے ٹائپ کرنے لگا تھا۔
’’اپنے ڈپارٹمنٹ میں ہی ہوں گی۔ مجھے پتا ہے، سائیکالوجی ڈپارٹمنٹ … کہاں ہے۔‘‘ وہ کہہ کر اتر گئی اور با آسانی نیو کیمپس چلی آئی۔
سائیکالوجی ڈپارٹمنٹ سامنے ہی تھا اور وہ دونوں لان میں بینچ پر بیٹھے دکھائی دے گئے تھے۔
در نایاب ایک پھول گود میں رکھے اس کی پتیاں نوچ رہی تھی۔
’’میں جلد مما کے ساتھ حویلی آؤں گا۔‘‘ اس شخص نے اپنے دونوں ہاتھ نایاب کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔
’’جانے کیوں مجھے ڈر سا لگتا ہے۔ حویلی کے اصول بہت سفاک ہیں اور روایات کی دیواریں اتنی بلند کہ انسان کی خواہشیں ان پتھروں سے سر پٹک پٹک کر دم توڑ دیں۔‘‘
’’تم پریشان کیوں ہوتی ہو؟ زمانہ بدل چکا ہے۔ اب کوئی ذات برادریوں کے چکر کو انا کا مسئلہ نہیں بناتا۔ لوگ آج کل لڑکا، گھر اور کاروبار دیکھتے ہیں اور اس لحاظ سے مجھ میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔‘‘ اس کے ہاتھ پر اپنا دباؤ بڑھاتے ہوئے اس نے دس بار کی کہی ہوئی باتوں کو دوہرایا۔
’’تم قبائلی اصولوں اور ضابطوں سے ناواقف ہو۔ زمانے کی گردشیں ہمارے اونچے شملوں کو جھکنے پر مجبور نہیں کر سکتیں۔ ہمارے ہاں رشتے نہیں، سودے ہوا کرتے ہیں۔ ہم پڑھے لکھے جاہل ہیں۔ ہمیں اسلامی اور ریاستی قوانین معلوم ہیں۔ قرآن کی صورت ایک کھلا ضابطہ حیات ہمارے سامنے ہے۔ پھر بھی ہم نے برسوں پرانے رواجوں اور اصولوں کو گلے کا ہار بنا رکھا ہے۔‘‘ وہ سسک اٹھی۔
’’نیا! پلیز یار …‘‘ وہ اس کے آنسوؤں پر تڑپ اٹھا۔
’’میں کل صبح واپس جا رہی ہوں۔ اگر مجھے پانا چاہتے ہو تو مجھے روک لو۔ ورنہ پھر شاید تم مجھے کبھی نہ دیکھ سکو۔ اس سے قبل کہ ہماری محبت ایک خواب بن کر رہ جائے ہمیں کوئی اسٹینڈ لے لینا چاہیے۔ تم مجھ سے نکاح کر لو ابھی اور اسی وقت۔‘‘
درخت کے اس پار کھڑی مہک کے پیروں تلے سے زمین سرک گئی اس کا دل نایاب کی عقل پر ماتم کرنے کو چاہ رہا تھا۔ کیا وہ اپنے لالہ احمد کمال شاہ کے ریسورسز اور سرداری جاہ و جلال سے ناواقف تھی؟ کیا وہ بھول گئی تھی کہ ایسی صورت میں اسے پاتال سے بھی ڈھونڈ کر تختہ دار پر لٹکا دیا جائے گا۔
’’نیا! میں تمہیں پوری عزت اور مکمل وقار کے ساتھ اپنانا چاہتا ہوں۔ نکاح کوئی گناہ نہیں ہے۔ جسے یوں چھپ کر کیا جائے۔ مجھ میں تمہارے لالہ کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت ہے۔ تم بس اپنا اعتبار سلامت رکھنا۔ حوصلہ مت ہار جانا۔ مجھے یقین ہے۔ ہم ضرور ملیں گے۔‘‘
’’میں اپنے لالہ سے نہیں لڑ پاؤں گی۔ مجھے ان سے بڑی محبت ہے۔‘‘ وہ بے بسی سے بولی۔
’’مجھے یقین ہے، اس کی نوبت نہیں آئے گی وہ اوپر آسمانوں پر جو قادر مطلق بیٹھا ہے نا! وہ ہمارے لیے ہر راستہ ہموار کر دے گا۔‘‘ اس کا یقین کامل تھا۔
در نایاب اسے اچانک سامنے دیکھ کر چونک اٹھی۔
’’تم؟‘‘ اس کی آنکھوں میں استعجاب اتر آیا۔
’’مم … میں بس یوں ہی یونیورسٹی دیکھنے چلی آئی تھی۔‘‘ وہ ہکلا گئی۔
’’آؤ چلیں ! زریاب باہر ویٹ کر رہا ہو گا۔‘‘
’’یہ کون ہیں ؟‘‘ وہ ڈھٹائی سے وہیں کھڑی رہی۔
’’یہ میرا کلاس فیلو ہے جہاں زیب۔‘‘ ناچار، در نایاب کو تعارف کروانا پڑا۔ کیونکہ وہ تو ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھی۔
زریاب کی کال پھر آنے لگی تھی۔
’’اب چلو بھی۔‘‘ وہ جہاں زیب کے ساتھ علیک سلیک میں مصروف تھی۔ جب در نایاب نے عجلت میں کہا اور دونوں یونیورسٹی کے گیٹ کے سمت بڑھ گئیں۔
’’اگلے روز ان کی جیپ حویلی کی سمت گامزن تھی۔
٭٭٭
’’میں نروس ہو رہی ہوں مانیک! تمہارے فادر مزاجاً کیسے ہیں ؟‘‘ وہ آج ہی برمنگھم آئے تھے اور جیسے جیسے ان کا گھر قریب آ رہا تھا، وہ گھبراہٹ کا شکار ہو رہی تھی۔ اسے نئے لوگوں سے ملنا ہمیشہ سے ہی بہت عجیب سا لگتا تھا۔
’’ڈیڈ از ویری نائس بٹ ان کی مسز کچھ پراؤڈسی ہیں۔ انہیں تم زیادہ لفٹ نہ کروانا۔‘‘ تسلی دینے کا بھی کیا خوب انداز تھا۔
’’بیلا کو ہنسی آ گئی۔
اگلے چند لمحوں میں گاڑی ایک وسیع و عریض بنگلے کے سامنے رک چکی تھی۔ مانیک نے باہر نکل کر فرنٹ ڈور کھولا۔
’’آئیے لیڈی مانیک!‘‘ وہ اس وقت مکمل شوفربنا کھڑا تھا۔ بیلا نے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا۔
’’دیکھو! میرے ساتھ ساتھ رہنا۔ یہ نہ ہو کہ مجھے اپنی فیملی میں بٹھا کر خود غائب ہو جاؤ۔ میں نئی جگہ اور نئے لوگوں میں بہت ان ایزی فیل کرتی ہوں۔‘‘ وہ اندر داخل ہونے سے قبل اپنی بات دوہرانا نہیں بھولی تھی۔
’’واش روم اگر جانا ہو تو تمہیں باہر چھوڑا جا سکتا ہے ؟‘‘ وہ مکمل سنجیدہ تھا۔
’’بکو نہیں۔‘‘ وہ برہمی سے گویا ہوئی جس پر اس کا قہقہہ نکل گیا۔ وہ مزید خفا ہو گئی۔
’’کم آن یار! ٹیک اٹ ایزی۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ تھامے اندر داخل ہوا۔ ٹومی سیڑھیوں سے اچھلتا ہوا نیچے آیا تھا۔
’’یا ہوبگ بی۔‘‘ وہ چھلانگ لگا کر اس سے لپٹ گیا تھا۔ پھر اس کی نگاہ، بیلا پر پڑی تھی۔
’’نیوگرل فرینڈ؟‘‘ وہ خوشی سے بولا۔
’’وائف۔‘‘ مانیک نے اس کا کان کھینچتے ہوئے تصحیح کی تو ٹومی نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بے یقینی سے اس قدیم یونانی شہزادی کو دیکھا۔
وہ اس وقت نیلے ٹراؤزر پر گلابی ٹاپ جس پر گلابی اور نیلے رنگ کے بڑے بڑے پھول بنے ہوئے تھے میں ملبوس تھی۔ سیدھے کمر تک آتے بال سمیٹ کر اس نے دائیں کندھے پر پھیلا رکھے تھے۔ کانوں میں گلابی پنک بڑی بڑی بالیاں تھیں اور گلے میں موتیوں والی مالا تھی۔ نفاست سے کیے میک اپ کے ساتھ وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
ٹومی کو یقین تھا کہ اس نے آج سے قبل کسی لڑکی کو اتنا حسین، اسٹائلش اور باوقار نہیں دیکھا تھا۔
بیلا اس کی آنکھوں میں امڈتے پسندیدگی کے رنگ دیکھ چکی تھی۔ وہ اسے دیکھ کر مدھم سا مسکرائی۔
مگر ٹومی ابھی تک ہنوز آنکھیں پھاڑے کھڑا تھا۔
’’ڈیڈ کہاں ہیں ؟‘‘ مانیک نے انگشت سے اس کے ماتھے کو چھوا۔
’’بھائی! آپ نے واقعی شادی کر لی ہے ؟‘‘ وہ ابھی تک بے یقین سا کھڑا تھا۔
’’ہاں ! مگر تم اتنے شاکڈ کیوں ہو؟‘‘ اب کی بار بیلا نے جواب دیا تو وہ خاصے پراسرار انداز میں چلتے ہوئے اس کے پاس آن کھڑا ہوا۔
’’آپ نہیں جانتی مادام! کہ آپ کے شوہر نامدار کس قدر فلرٹی بندے ہیں۔‘‘
’’ٹومی۔‘‘ مانیک نے تنبیہی نظروں سے اسے دیکھا۔
’’مجھے کہنے دیں بھائی۔‘‘ اس نے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے گھوم کر بیلا کو سرتاپا دیکھا اور پھر بولا۔
’’یہ کسی ایک لڑکی کے ساتھ مہینہ بھر سے زیادہ نہیں رہ سکتے۔ مگر آپ جتنی حسین ہیں، مجھے بے حد ہمدردی محسوس ہو رہی ہے کہ مستقبل قریب میں آپ کے ساتھ بھی ایسا ہونے والا ہے۔ مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اگر یہ آپ سے اکتا جائیں تو میں ہوں ناں ! ایک چانس مجھے ضرور دیجئے گا۔‘‘ مصنوعی کالر کھڑے کرتے ہوئے اس نے جس انداز میں کہا تھا، بیلا کی ہنسی نکل گئی۔ البتہ مانیک نے اس کی گردن دبوچ لی۔
’’تمہیں لگتا ہے کہ میں ان سے اکتا سکتا ہوں ؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ وہ چلاتے ہوئے نفی میں سر ہلانے لگا۔ پھر گردن ملتے ہوئے آزردگی سے بولا۔
’’جو بھی لڑکی مجھے پسند آتی ہے، وہ مجھ سے بڑی ہی کیوں ہوتی ہے ؟‘‘
’’کیونکہ سب پیاری لڑکیاں میرے لے بنی ہیں لٹل بوائے۔‘‘ مانیک نے ہنستے ہوئے اپنے گیارہ سالہ بھائی کو چڑایا تو بیلا اس کے سر ہو گئی۔
’’یہ سب پیاری لڑکیوں سے کیا مراد ہے تمہاری؟‘‘
مانیک تو برا پھنسا تھا۔ ٹومی سے اپنا قہقہہ ضبط کرنا دشوار ہو گیا۔
’’میرا مطلب تھا …‘‘ وہ سر کھجانے لگا۔ بیلا ہنوز اسے گھور رہی تھی۔
’’تم نے آتے ہی ہمیں لڑوا دیا۔ بہت شریر ہو گئے ہو تم۔ میں نے ڈیڈ کا پوچھا تھا۔‘‘ وہ ٹومی کی خبر لینے لگا۔
’’آفس۔‘‘ اس نے شانے اچکائے۔
’’اور تمہاری مدر؟‘‘
’’وہ پارٹی میں گئی ہے۔ آپ کچھ کھائیں گے ؟‘‘
’’ہاں ! کھانا لگوا دو۔ ہم فریش ہو کر آتے ہیں۔‘‘ وہ بیلا کے ساتھ اپنے بیڈ روم میں چلا آیا۔
گرین اور آف وائٹ رنگوں سے سجا اس کا کمرا کافی خوشنما تاثر دے رہا تھا۔ گل دانوں میں تازہ للی اور سفید گلاب کے پھول سجے تھے۔ جہازی سائز بیڈ پر سفید اور سبز پھولوں والی چادر بچھی تھی۔ کھڑکیوں کے دریچوں کے ساتھ دو جل پریوں کے مجسمے یوں ایستادہ تھے جیسے قدیم دور کی شہزادیاں اوٹ سے باہر جھانک رہی ہوں۔
دیواریں خوب صورت پینٹنگز سے آراستہ تھیں اور ان تصویریوں سے جھلکتے مناظر صدیوں پرانے دور میں لے جاتے تھے۔
یہ سب اس قدر آرٹسٹک اور دلفریب تھا کہ گھنٹہ بھر وہ تصویروں میں بسے مناظر سے کہانیاں تراشتی رہی تھی۔
لنچ کے بعد مانیک نے اسے سارا گھر دکھایا تھا۔
’’ہم یہاں نہیں رہ سکتے ؟‘‘ اونچے ستونوں والے اس خوب صورت اور آرٹسٹک بنگلے کو دیکھتے ہوئے اس نے یوں ہی پوچھا۔
’’تم یہاں رہنا چاہتی ہو؟‘‘ مانیک نے الٹا سوال پوچھا۔
’’میں تو بس تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ جہاں بھی تم رہو۔‘‘ دونوں اس وقت لان کے وسط میں بنے حوض کے کنارے چل رہے تھے۔ جس میں ڈھیروں مرغابیاں تیر رہی تھیں۔ بیلا کے ہاتھ میں چھوٹے چھوٹے اسٹون تھے۔ جن کو ایک ایک کر کے وہ پانی میں اچھا رہی تھی۔ جس سے پانی میں ارتعاش پیدا ہوتا تھا اور مرغابیاں اودھم مچاتی تھیں۔
’’ہالینڈ میں ڈیڈ کا بزنس ہے۔ جو اب مجھے ہی دیکھنا ہے۔‘‘
’’اور اگر میں یہاں رہنے پر اصرار کرتی تو؟‘‘ اس نے مٹھی میں بند سارے اسٹونز پانی میں پھینک دیے۔ مرغابیاں شور مچاتی باہر نکل گئی تھیں۔
مانیک نے رک کر سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
’’تو میں تمہاری خاطر سب چھوڑ دیتا۔‘‘
’’اگر زندگی میں کبھی کچھ چھوڑنے کا کہوں تو چھوڑ دو گے ؟‘‘ اسے نہیں پتا تھا کہ اس نے ایسا کیوں پوچھا تھا وہ تو بس یوں ہی بات کو طول دے رہی تھی۔
اور مانیک نے وعدہ کر لیا تھا کہ وہ جب بھی کبھی اسے کچھ ایسا چھوڑنے کو کہے گی، جو وہ نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ تب بھی چھوڑ دے گا۔
٭٭٭