اگلا پورا ہفتہ وائیوا کی تیاری میں گزر گیا۔ آج شام میں ڈنر کے بعد وہ دونوں فارغ تھیں۔ کیتھرین نے اسے واک پر چلنے کو کہا تھا۔ باہر کا موسم خاصا خوش گوار تھا۔ اس نے ساتھ چلنے کی ہامی بھرلی۔
لفٹ سے اٹھ کر دونوں سڑک پر آ چکی تھی۔ سڑک پر برقی لائیٹس، جگنو کی مانند جگمگا رہی تھیں۔ جھیل میں چاند نہا رہا تھا اور اس کے کنارے آبی نرگس کے سنہری پھولوں سے لدے ہوئے تھے۔
بلاشبہ یہ ایک خوشنما منظر تھا۔
وہ جھیل کے کنارے ہی رک گئی اور محویت سے چاند کو دیکھنے لگی۔ یوں لگتا تھا، جیسے پانی کی کٹوری میں کسی نے چاند لا کر رکھ دیا ہو۔ اتنا دلکش اور طلسماتی منظر اس کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا۔ نرگس کے پھول اس کے فیورٹ تھے۔ وہ ایک سنہری کلی توڑنے کے لیے جھکی۔ اچانک بارش کا پہلا قطرہ ٹپکا۔
اس کی نظروں میں پھر سے وہ کافی شاپ کا منظر گھوم گیا۔
برستی بارش، چھلکتی کافی، پیشانی سے چپکے بال۔ اور وہ گہری سمندری جیسی آنکھیں
ان آنکھوں میں بلا کی طلسماتی کشش تھی، جو انسان کو ہوش و خرد سے بیگانہ کر دے۔
’’کیا کسی مرد کی آنکھیں بھی اتنی خوبصورت ہو سکتی ہیں ؟‘‘ وہ اکثر خود سے سوال کرتی۔
’’ارے ! میں تو بتانا ہی بھول گئی۔‘‘ کیتھرین سر پہ ہاتھ مارتے ہوئے اس کے قریب آن بیٹھی۔ یہ بھی اسے متوجہ کرنے کا ایک انداز تھا۔
بیلا نے گردن گھما کر اسے دیکھا۔ اس کے ہاتھوں میں ایک سنہری کلی تھی۔ جسے ابھی اس نے توڑا نہیں تھا۔
’’انجلین کی انگیجمنٹ ہو چکی ہے، ٹومی کے ساتھ۔ بہت امیر لڑکا ہے۔‘‘ اس کا جوش دیکھنے لائق تھا۔
بیلا نے محض مسکرانے پر اکتفا کیا۔
اسے انجلین یا پھر اس کی منگنی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسے تو کیتھی کی کوئی دوست اچھی نہیں لگتی تھی۔ کیتھی ہی اسے زبردستی ان کے بیچ لے جایا کرتی تھی۔
’’کاش! مجھے بھی کوئی ایسا مل جائے۔‘‘ وہ حسرت سے بولی۔
’’کیسا؟‘‘ بیلا نے تین کلیاں توڑ لی تھیں اور اب بالوں سے ربن اتار کر انہیں باندھ رہی تھی۔
’’ٹومی یا پھر مانیک جیسا۔‘‘
’’اس کا یہاں کیا ذکر؟‘‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’تمہاری جگہ اگر اس نے مجھے پروپوز کیا ہوتا تو میں خود کو سب سے اسپیشل تصور کرتی۔‘‘
’’حرکتیں دیکھی ہیں اس کی؟ وہ تمہیں ہی سوٹ کرتا ہے۔‘‘
’’کاش! وہ بھی ایک بار ایسا سوچ لیتا۔‘‘ وہ شرارت سے بولی۔
تو اس کی جگہ تم سوچ لو ایسا۔‘‘ بیلا نے بھی اسے چھیڑا۔
’’اوگاڈ۔‘‘ کیتھرین نے سر تھام لیا۔
’’بٹ ہی لوز یو۔‘‘
’’یہ پیار ویار کا تو بس ڈھونگ ہے۔ مرد کی محبت محض عورت کے وجود تک وابستہ ہوتی ہے۔ مطلب نکلا اور بھول گئے۔‘‘
’’تم بھول رہی ہو، اس نے تمہیں پروپوز کیا تھا۔‘‘ کیتھرین نے یاد دلایا۔
’’شادی تو ڈیڈ نے بھی کی تھی ممی سے۔‘‘ اس کی آنکھوں میں یاسیت اتر آئی۔ بہت سے لمحے نظروں کے سامنے گھوم گئے۔ سترہ برس تک اس کی ماں کی نظریں چوکھٹ سے لپٹی رہی تھیں۔ اس خیال سے کہ کہیں بھولا بھٹکا مسافر لوٹ نہ آئے، اس نے اپنا اپارٹمنٹ نہیں بدلا تھا۔
’’تم ہر شخص کو اپنے ڈیڈ کے ساتھ کمپیئر نہیں کر سکتیں۔‘‘
’’تم میرے سامنے اس کی حمایت مت کرو۔ مجھے کچھ نہیں سننا۔‘‘ وہ سنہری کلیاں جھیل میں پھینک کر وہاں سے بھاگ آئی۔
’’بیلا! سنو تو۔‘‘ کیتھرین نے پکارا بھی۔ مگر اس کا موڈ بہت خراب ہو چکا تھا۔
٭٭٭
اگلا پورا ہفتہ وہ اسے سمجھاتی رہی تھی۔ لیکن بیلا ہر بار یا تو اس پر بگڑ جاتی یا پھر بات کا رخ موڑ دیتی اور کبھی تو یوں ظاہر کرتی۔ جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
تنگ آ کر اس نے مانیک سے معذرت کر لی۔ تب اس نے آخری بار ملوانے کا کہا تھا اور اب وہ اسے بہانے سے کلب لے آئی تھی۔
فلیش لائیٹ میں دمکتے چہرے، بے ہنگم میوزک اور ایک دوسرے کے پہلو میں لڑھکتے نیم برہنہ وجود۔ ہر کوئی مد ہوش سا اپنے ہال میں مست نظر آ رہا تھا۔
اس نے اک ناگوار سی نگاہ پورے ڈسکو ہال پر ڈالی اور دوسری کیتھرین پر، جو اس کی موجودگی سے بے نیاز اپنے نئے بوائے فرینڈ پیٹر کے ساتھ ڈانس کر رہی تھی اسے تو یوں آگے پیچھے ڈولنے میں کوئی چارم نظر نہیں آتا تھا۔
’’گڈ ایوننگ بیلا۔‘‘ کوئی اس کے سامنے آن کھڑا ہوا تھا۔ لبوں پہ مسکراہٹ لیے بالکل بدلے ہوئے گیٹ اپ کے ساتھ وہ معمول سے ہٹ کر خوبرو اور اسمارٹ لگ رہا تھا۔
بیلا کو اپنی دھڑکنوں میں گڑ بڑ سی محسوس ہوئی۔ اس نے سٹپٹا کر نظروں کا زاویہ بدل لیا اور کیتھرین کو آوازیں دینے لگی۔ مگر وہ سن کر بھی انجان بن رہی تھی۔
’’میں جا رہی ہوں۔‘‘ اس نے دور سے اشارہ کیا۔
’’ایکسکیوزمی۔‘‘ پھر مانیک کے پہلو سے نکل کر وہ باہر کی طرف لپکی۔
وہ بھی اس کے پیچھے ہی آیا تھا۔
باہر کی فضا میں خنکی کا احساس شدید تھا اور بادل خوب گرج گرج کر برس رہے تھے۔ بیلا نے دروازے سے ہاتھ باہر کیا۔ بارش کی دو بوندوں کو اس نے اپنی ہتھیلی میں اٹھایا اور پھر فوراً ہاتھ اٹھا کر جھٹک دیا۔ پانی بے حد ٹھنڈا تھا۔ اس نے کپکپاتے ہوئے دونوں ہتھیلیوں کو آپس میں رگڑ کر سردی کا احساس زائل کرنے کی کوشش کی۔
وہ باہر نکلا اور اس کا راستہ روک کر عین اس کے مقابل آن کھڑا ہوا۔ بارش کا پانی اسے بھگو رہا تھا۔ مگر اسے جیسے کوئی پروانہ تھی۔
بیلا کے ابروتن گئے۔
اس کی پرشوق نگاہیں اس کے گلابی ہونٹوں پر جمی ہوئی تھیں۔ لب خاموش تھے۔ مگر آنکھیں خاموش نہیں تھیں۔
ان سے لپکتے جذبوں کی حدت دیکھ کے بیلا کو دل کے کنارے پگھلتے ہوئے محسوس ہوئے۔ اپنی جنوں خیز نظریں کو اس پر ٹکائے وہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ پگھل رہی تھی، موم ہو رہی تھی اور پھر بالآخر وہ بول اٹھی۔
’’یوں بارش میں بھیگ کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو تم۔‘‘
’’جو تمہیں میری شدتوں میں نظر نہیں آتا۔‘‘ وہ بے تاب لہجے میں بولا۔
’’وہ تو تم مر کر بھی ثابت نہیں کرپاؤ گے۔ کیونکہ مجھے تمہارا اعتبار نہیں ہے۔‘‘ اس نے بے نیازی سے سر جھٹک دیا۔
’’اور میں آج تمہیں وہ اعتبار دے کر رہوں گا۔ چاہے اس کے لیے مجھے موت کی حد سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑے۔‘‘ وہ اطمینان سے بولا۔ بارش کی گرج چمک بڑھ چکی تھی اور مانیک کا ارادہ بھی اٹل تھا۔ بیلا نے ایک بار برستے آسمان کو دیکھا اور دوسری بار اسے۔
تب ہی اس نے اپنی جیپ سے ایک کارڈ نکال کر اس کی سمت اچھال دیا۔ جو پانی کی سطح پر تیرتا اس کے قدموں میں آن رکا۔
’’جاؤ! تم اپنے گھر چلی جاؤ اور صبح جب میں مر جاؤں تو میری موت کی اطلاع اس نمبر پر دے دینا۔ وہ آ کر میری ڈیڈ باڈی لے جائیں گے۔‘‘ وہ ایک طرف ہو کر اسے راستہ دیتے ہوئے بولا۔
’’تم ایسا نہیں کر سکتے۔‘‘ وہ ہنوز بے یقین تھی۔
’’میں ایسا ہی کروں گا۔‘‘ وہ ضدی لہجے میں بولا۔ وہ اس کی سمت دیکھنے پر مجبور ہو گئی۔ اس کا سارا وجود کپکپا رہا تھا اور ہونٹ نیلے پڑ چکے تھے۔ اپنی بات کہہ کر وہ ان سب سے بے نیاز اسے یوں دیکھ رہا تھا۔ جیسے کوئی مرنے والا زندگی کو دیکھتا ہے۔
اتنی حسرت، اتنی بے چارگی اور اتنی محبت وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ سکتی تھی۔
’’تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو نا تو میں تم سے شادی کرنے کو تیار ہوں … ابھی اور اسی وقت۔‘‘ وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ دوسرے لڑکوں کی طرح وہ بھی اس سے محض فلرٹ کر رہا ہے۔ اپنی جانب سے اس نے یہ سب کہہ کر اسے بڑی آزمائش میں مبتلا کیا تھا۔ اس کا خیال تھا، وہ اب کوئی بہانہ بنائے گا۔
مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی، جب وہ دوبارہ اس کے مقابل آن کھڑا ہوا۔
’’چلو۔‘‘ وہ مکمل طور پر سنجیدہ تھا۔
’’بیلا! تم پاگل ہو چکی ہو۔‘‘ کیتھرین اسی وقت اس کے پاس چلی آئی۔ وہ ان کی گفتگو کا آخری جملہ سن چکی تھی۔
’’ایسے شادی کرو گی؟‘‘ اس نے روکنے کی سعی کی۔
مانیک جھٹ اپنی ریڈ فراری کا فرنٹ ڈور کھولے کھڑا تھا۔ بیلا نے کیتھرین کی بات کا جواب دینا بھی ضروری نہ سمجھا اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔
٭٭٭
’’نایاب! کہاں ہو تم؟ صبح سے کال کر رہا ہوں۔ آج یونیورسٹی بھی نہیں آئیں۔ مجھے آج تمہیں سرپرائز دینا تھا … مما سے ملوانے لے کر جانا تھا۔ وہ ویٹ کر رہی ہوں گی اور تم ہو کہ …‘‘ لان میں جھولے پر بیٹھی وہ مسلسل اس فون کال کو سوچے جا رہی تھی۔ در نایاب نہارہی تھی۔ اس کا فون مسلسل بج رہا تھا تو مہک نے ریسیو کر لیا۔ دوسری طرف کوئی لڑکا تھا۔
’’کون ہو سکتا ہے۔‘‘ لہجے کی بے قراری اور مخاطب کرنے کا اندازہ بتاتا تھا کہ شناسائی کے رنگ نئے نہیں ہیں۔
’’کوئی یونیورسٹی فیلو۔‘‘ اس کا شک گھوم کر ادھر ہی جا رہا تھا۔
’’مگر پھوپھو کسی سے محبت کیسے کر سکتی ہیں۔‘‘ اس کا دماغ سن ہو چکا تھا۔ ’’اگر ایسا ہوا تو یہ لاحاصل خواہش کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔
پھوپھو اپنے قبیلے کی روایات، اپنا خاندانی وقار اور برسوں پرانی طے شدہ بات سب کیسے فراموش کر سکتی ہیں۔
کیوں انہوں نے ایسی خار زار راہ پر قدم رکھا ہے۔‘‘
دونوں ہاتھ گود میں رکھے وہ اپنی سوچوں میں اس قدر الجھی ہوئی تھی کہ اسے زریاب کی آمد کا علم تک نہ ہو سکا۔ اس نے ڈرانے کے لیے جھولا پکڑ کر زور سے ہلایا۔ وہ گھٹنوں کے بل سوکھی خشک گھاس پر جا گری تھی۔ اس کے پاؤں میں شدید موچ آ گئی۔ درد سے آنکھوں کے کٹورے لبالب بھر گئے۔
’’سوری مہک۔‘‘ وہ شرمندہ ہوا۔
’’میرا مقصد تمہیں گرانا نہیں تھا۔‘‘ وہ وضاحتیں دے رہا تھا۔ مگر وہ پاؤں پکڑے خاموش بیٹھی آنسو بہائے جا رہی تھی۔‘‘
’’لگتا ہے، موچ آ گئی ہے۔ دکھاؤ! میں ابھی ٹھیک کر دوں گا۔‘‘ اس نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا جب وہ چلا اٹھی۔
’’خبردار! مجھے ہاتھ لگایا تو۔‘‘ اس کا انداز انتہائی جارحانہ تھا۔
’’اچھا! چلو اٹھو اور اندر چلو۔ پھوپھو یہیں آ رہی ہیں۔‘‘ وہ صلح جوئی سے بولا۔
’’اچھا ہے ! پھوپھو کو بھی تمہاری بے ہودہ حرکتوں کا پتا چلے۔ دیکھنا! تمہاری شکایت تو میں اس بار خود ابا سے کروں گی۔ اس روز بھی تم نے مردہ چھپکلی میری گود میں رکھ دی تھی۔‘‘ سنہری آنکھوں میں بادل امڈ آئے۔ اس سے قبل کہ ٹپ ٹپ برسات ہوتی، زریاب نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔
’’اچھا! ایک بار معاف کر دو۔ اب تمہیں چھپکلی سے کبھی نہیں ڈراؤں گا اور ابھی جو لال بیگ میں تمہاری نوٹ بک میں رکھ کر آیا ہوں۔ وہ بھی نکال دوں گا۔‘‘ کیا معصومیت بھرا اعتراف تھا۔ مہک کی چیخ نکل گئی۔
’’میری نوٹ بک میں لال بیگ؟ زریاب! آئی ول کل یو۔‘‘ اس نے زمین پر ہاتھ مارا تو زریاب نے اس کے دونوں جوتے حفظ ماتقدم کے طور پر اٹھا لیے۔
’’چلو! ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔‘‘
’’ڈاکٹر کو گھر لے کر آؤ۔‘‘ قریب رکھی نوٹ بک اٹھا کر اس نے زریاب کا نشانہ لیا۔ مگر وہ مہارت سے کیچ کرتا پلٹ گیا۔
’’اب کہاں جا رہے ہو؟‘‘ وہ پیچھے سے چلائی۔
’’ڈاکٹر کو بلانے۔‘‘ وہ تحمل سے گویا ہوا۔
’’میں ڈاکٹر کے آنے تک یہیں بیٹھی رہوں گی کیا؟‘‘ وہ زچ ہو اٹھی۔
’’چل سکتی ہو؟‘‘ وہ گھوم کر واپس آیا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی۔
’’مجھے فلمی ہیرو بننے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ پھوپھو کے آنے تک ادھر ہی چڑیوں کے ساتھ بیٹھو۔‘‘
بے مروّتی سے کہتا وہ چلا گیا۔ مہک پیچھے پیچ و تاب کھا کر رہ گئی۔
٭٭٭