کبڑا بے شک جادوگر سہی جیسا کہ وہ خود کہتا تھا مگر گولی کے آگے بھلا کون جی دار ٹھہر سکتا ہے ، اس کا اونچا اٹھا ہوا ہاتھ وہیں ہوا میں اٹھا ہوا رہ گیا۔ گھبرا کر اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ اور جلدی سے الگ کھڑا ہوکر ادھر ادھر دیکھنے لگا، میں بھی جلدی سے کمبل کو اپنے جسم سے لپیٹ کر اٹھ گیا ۔ عبدل حیرانی سے ہر طرف دیکھ رہا تھا ، اس کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس وقت بری طرح سہما ہوا ہے ۔ میں نے بھی غور سے ہر سمت دیکھا ، مگر اپنے محسن کو کہیں نہ پا کر بے حد حیرت ہوئی ۔ میرا خیال تھا کہ وہ ہم دونوں کے پیچھے ہی کہیں پستول تانے کھڑا ہوگا، مگر وہ کہیں نہ تھا ، میں ابھی ان باتوں پر غور کر ہی رہا تھا کہ یکایک پھر آواز آئی۔۔
“فیروز! تم آگے بڑھ کران دونوں کے ہتھیار نکال لو ، اس کے بعد میں انہیں ان کی غداری کا بڑا اچھا سبق دوں گا۔”
آواز سنتے ہی میرے چہرے پر رونق آگئی، پہلے میں اس آواز کو پہچان نہ سکا تھا۔ بلا شبہ آواز میرے مالک جان کی تھی ۔ یہ سوچ مجھے اور بھی خوشی ہوئی کہ وہ زندہ ہے اور ان ظالموں کے چنگل میں نہیں پھنسا۔
“تم سامنے کیوں نہیں آتے ، بزدلوں کی طرح چھپ کر گولی چلانا چاہتے ہو۔”کبڑے نے چلا کر کہا۔
” اور تم نے تو بڑی بہادری کا کامکیا ہے، ایک ننھے سے لڑکے پر خنجر لے کر پل پرے۔ بزدل کہیں گے ، تمہیں اب تمہاری اس مکاری کی سزا ضرور دوں گا، فیروز کھڑے کیا سوچ رہے ہو ، آگے بڑھ کر ان کے ہتھیار اپنے قبضے میں کیوں نہیں کرتے؟” جان نے دور کسی جگہ سے پکار کر کہا۔
اس کی ہدایت کے مطابق میں آگے بڑھا اور پہلے کبڑے کے ہاتھ سے خنجر لے لیا۔ حیرت کی بات ہے کہ اس نے ذرا بھی مزاحمت نہیں کی۔ یہ کام کر کے میں عبدل کی طرف بڑھا۔ اس وقت اس کا چہرہ غصہ کے باعث سرخ ہورہا تھا۔ اس کا ہتھیار وہی ہلال نما عجیب چاقو تھا جس کے بارے میں میں پہلے لکھ چکا ہوں ۔ کہ وہ اسے گھماکر پھینکتا تھا، اور دشمن کو زخمی کرکے وہ چاقو پھر اس کے پاس واپس آجاتا تھا ۔ چاقو لینے کے لئے جیسے ہی میں اس کے پاس پہنچا، اس نے لپک کر مجھے دبوچ لیا اور پھر میرے پیچھے چھپ کر کہنے لگا۔
” لو مسٹرجان اب چلاؤ گولی ۔ میں تمہاری آواز سے اندازہ کرچکا ہوں کہ تم کس طرف چھپے ہوئے ہو ۔ لو اب چلاؤ گولی ۔ تمہیں اپنا وفادار ملازم اگر پیارا نہیں تو گولی ضرور چلا ؤ کیونکہ وہ اس کے سینے کے پار ضرور ہوجائے گی۔
تھوڑی دیر تک سناٹا رہا ۔ کوئی آواز نہ آئی اور پھر اچانک سامنے کی چٹان میں سے جان نمودار ہوا ۔ اس کے ہاتھ میں اس کی بندوق تھی اور گلے میں کار توسوں کی پیٹی جھول رہی تھی ہلکے ہلکے قدم بڑھاتا ہوا وہ آہستہ آہستہ عبدل کی طرف بڑھ رہا تھا۔ عبدل نے مجھے ابھی تک اپنی ڈھال بنا رکھا تھا ۔ یہ دیکھ کر جان نے کبڑے سے کہا۔
“چیتن تم آگے بڑھ کر عبدل کا خطرناک چاقو اپنے قبضے میں کرلو۔ جلدی کرو تم میرے نشانے کی زد میں ہو۔”
“لیکن آپ یہ بھول رہے ہیں کہ آپ بھی میرے نشانے کی زد میں ہیں، آپ کی پشت میرے پستول کی طرف ہے، جتنی دیر میں آپ مڑیں گے ، میرا پستول آگ اگل دے گا ۔ اور آپ زمین پر لوٹتے نظر آئیں گے، آپ کو شاید وہم تھا کہ میرے پاس صرف خنجر ہی ہے ، لیکن حضور میں اپنے بچاؤ کے لئے پستول رکھنے کا بھی عادی ہوں ۔ جس وقت آپ کے اس ننھے چوہے نے آگے بڑھ کر میرا خنجر لیا تھا تو میں فوراً ہی آہستہ آہستہ اندھیرے میں کھسک گیا تھا ۔ لیکن آپ سمجھتے رہے کہ میں اسی جگہ کھڑا ہوں ، اب میں آپ سے عرض کروں گا کہ آ پ میرے نشانے کی زد میں ہیں اس لئے مہربانی فرماکر آپ اپنی بندوق نیچے ڈال دیجئے ۔”
جان کچھ سوچنے لگا تو کبڑے نے ایک ہوائی فائرنگ کرنے کے بعد کہا،”دیکھ لیجئے میں آپ کو بہکا نہیں رہا۔ اس ہوائی فائر سے آپ پر ظاہر ہوجائے گا کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں ، جلدی کیجئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔”
جان نے مجبوراً اپنی بندوق نیچے ڈال دی اور پھر کبڑے نے اسے جو حکم دیااس غریب نے اسے مانا۔ کبڑے نے کہا کہ وہ ایک درخت سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوجائے ، جان نے ایسا ہی کیا ، پھر مجھ سے کہا گیا کہ میں زمین پر اوندھا لیٹ جاؤں، مگر میں نے صاف انکار کردیا ۔ اس پر عبدل نے زور دار ایک گھونسا میرے مونہہ پر رسید کیا۔ یہ گھونسا اتنا سخت تھا کہ میرا ہونٹ پھٹ گیا اور تکلیف کی تاب نہ لاکر میں بے ہوش ہوگیا۔
جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ کبڑا اپنے خنجر کی دھار پر انگلی پھیر رہا تھا۔ جان اسی طرح درخت سے لگا کھڑا تھا۔ہاں البتہ اب اس کے جسم کو رسیوں کے ذریعے درخت کے تنے سے باندھ دیا گیا تھا۔ عبدل کے ہاتھ میں جلی ہوئی ٹارچ تھی اور اس کی روشنی میری ننگی کمر پر پڑ رہی تھی ۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایک کاغذ پر کچھ لکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ مگر دوسرے ہاتھ میں ٹارچ ہونے کی وجہ سے اس کا ہاتھ خالی نہ تھا اور وہ نہیں لکھ سکتا تھا۔ آخر اس نے کبڑے کو آواز دی ۔ کبڑا جادوگر خنجر ہاتھ میں لئے میری طرف آیا ۔ میں اسوقت ہوش میں تھا مگر جان بوجھ کر میں نے اپنی آنکھیں بند کررکھی تھیں ، آخر وہ دونوں مجھ پر جھک گئے اور میری کمر سے نقشہ نقل کرنے لگے ۔ بڑی بے بسی کا عالم تھا، میرے ہونٹ سے خون بہہ رہا تھا ۔ پورے جسم کی طاقت آپ ہی آپ ختم ہوتی محسوس ہورہی تھی اور میرا سب سے بڑا رفیق اور ہمدرد جان درخت سے بندھا ہواکھڑا تھا۔
اس مجبوری کو دیکھتے ہوئے میں نے سوچ لیا کہ چاہے جان چلی جائے اپنے بچاؤ کی ایک آخری کوشش اور کروں گا جیسے ہی عبدل اور کبڑا جھک کر نقشے کو دیکھنے لگے ، میں نے لیٹے لیٹے فوراً پلٹا کھایا اور پھر چت ہوتے ہی اپنے دونوں پیر ان کے چہروں پر مارے، وہ دونوں زمین پر کمر کے بل جا گرے اور پھر فوراً ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ مجھے بڑی حیرت سے دیکھ رہے تھے ، کیوں کہ انہیں اب کم از کم مجھ سے یہ توقع نہیں تھی کہ اتنا پٹنے کے باوجود بھی میں ان پر دوبارہ حملہ کروں گا ۔ عبدل کی آنکھوں میں اچانک بے رحمی کے آثار نظر آنے لگے ۔ اس نے فوراً سیدھے ہاتھ سے پستول نکال کر مجھ پر تان لیا اور دوسرے ہاتھ سے ٹارچ کی روشنی مجھ پر ڈال کر کہنے لگا۔
“او کم بخت یہ تجھ پر رحم کرنے کا نتیجہ ہے ۔ اس بے وقوف کبڑے کو تو صرف باتیں بنانی آتی ہیں، یہ کسی کو قتل نہیں کرسکتا ۔ مگر میں تو کرسکتاہوں ۔ اب بہت ہوچکا ، اب مرنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔”
“نہیں ، خدا کے لئے نہیں، درخت کی طرف سے جان کی سہمی ہوئی آواز آئی، وہ خود کو آزاد کرنے کی جدو جہد کررہا تھا۔ مگر عبدل نے اس آواز کی طرف ذرا بھی دھیان نہ دیا۔ پستول کی لبلبی دباکر اس نے اچانک مجھ پر فائر کردیا ۔ مگر یہ کیا؟ درحقیقت وہ بڑی ہی عجیب بات تھی جو میں نے دیکھی۔ گولی چلنے کی آواز ضرور سنائی دی تھی مگر میں ابھی تک بالکل محفوظ تھا۔ البتہ عبدل کے چہرے پر تکلیف کے آثار تھے ، پستول اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گرا تھا اور اب اس کے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا اور وہ اسے دوسرے ہاتھ سے دبائے ہوئے تھا۔ میں نے جلدی سے پلٹ کر جان کی طرف دیکھا کہ ممکن ہے وہ کسی طرح آزاد ہوگیا ہو اورگولی اسی نے چلائی ہو۔ مگر یہ دیکھ کر مجھے اور بھی تعجب ہوا کہ وہ اسی طرح بندھا ہوا کھڑا تھا۔ کبڑا جادوگر چوکنا ہوکر ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا ۔ چاند کی تیز روشنی میں مجھے ان کی ایک ایک حرکت نظر آرہی تھی۔
“تم دونوں برابر برابر کھڑے ہوجاؤ۔ ” اچانک اندھیرے کھنڈر میں سے آواز آئی۔
“تم کون ہو؟ ” عبدل نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
” تم دونوں کی موت ، احمقو تمہیں شرم نہیں آتی، جس تھالی میں کھاتے ہو اسی میں چھید کرتے ہو ، اپنے مالک سے غداری کرتے ہو ۔ میں تمہاری ایک ایک رگ سے واقف ہوں، تم جیسا کمینہ شخص شاید ہی اس زمین پر دوسرا کوئی ہو۔ تم اتنے جلاد ہو کہ اپنے مطلب کے لئے ایک معصوم لڑکے کا خون لینے سے بھی باز نہ رہے ۔ تم نے جو جو سوانگ بھرے میں ان سب کی پول کھول دوں گا۔ فیروز،تم کھڑے کیا تک رہے ہو۔ جاؤ جاکر اپنے مالک جان کو آزاد کرو ، اس کے ساتھ ہی اس کمینے عبدل کا پستول بھی اپنے قبضے میں کرلو، کیوں کہ کسی نہ کسی دن یہ اسی پر استعمال کرنے کے کام آئے گا۔”
میں ابھی تعجب سے یہ سب باتیں سن ہی رہا تھا کہ اچانک اندھیرے میں سے کوئی آہستہ آہستہ پستول تانے چاند کی روشنی میں آگیا، اور اب جو میں نے غور سے اسے دیکھا تو حیرت اور خوشی کی ایک چیخ میرے منہ سے نکل گئی ، میرے سامنے جیک کھڑا تھا۔
جیک جو ہمارا سب سے بڑا دشمن تھا ، لیکن جو اس وقت رحمت کا فرشتہ بن کر آیا تھا، سچ بات تو یہ ہے کہ ہم اتنے عجیب و غریب حالت سے دوچار ہوچکے تھے کہ اب کسی نئی بات پر یقین کرتے ہوئے جھجک محسوس ہوتی تھی۔ جیک کو ہم غدار سمجھ رہے تھے لیکن اب وہ ہمارا مددگار بنا ہوا تھا۔ آخر یہ سب کیا تھا؟ اچانک میرے دل میں خیال آیاکہ کہیں یہ ان کی ملی بھگت نہ ہو، مجھ سے ہمدردی جتا کر یہ کوئی کام نہ نکالنا چاہتے ہوں، مگر جب میں نے کبڑے جادوگر اور عبدل کے چہروں کو دیکھا تو اپنا یہ خیال بدلنا پڑا۔ وہ دونوں بڑی نفرت بھری نگاہوں سے جیک کو دیکھ رہے تھے اور جیک بھی انہیں اسی انداز سے دیکھ رہا تھا ۔میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر جلدی سے آگے بڑح کر جان کے بندھن کھول کر اسے آزاد کردیا ، آزاد ہوتے ہی اس نے میری پیشانی چوم لی اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
“تم ہندوستانی واقعی قول کے پکے ہوتے ہو، فیرز، تم نے مجھے اب بالکل اپنا بنالیا ہے۔ خدا کی قسم میں نے تم جیسا لڑکا آج تک نہیں دیکھا۔ میں کس طرح تمہارا شکریہ ادا کروں۔ “
جان کی یہ باتیں سن کر میرا سینہ فخر سے تن گیا، میں سوچنے لگا یورپ کے لوگوں کو اپنی تہذیب اور تمدن پر کتنا ناز ہے ؟ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں وہی سب سے افضل اور تہذیب یافتہ ہیں، لیکن اس وقت انگریز قوم کا ایک شخص مجھے جیسے معمولی اور غریب لڑکے کی کتنی تعریف کررہ اتھا ۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں تھی ، ایک ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے کیا مجھے اس پر ناز نہیں کرنا چاہئے تھا؟
جیک کے جبڑوں کی ہڈیاں بار بار دب اور ابھر رہی تھیں، یوں لگتا تھا جیسے اسے دشمنوں پر سخت غصہ ہے اور جیسے انہیں کچا چبا جانا چاہتا ہے۔ جان نے مجھے اپنے سینے سے لگا رکھا تھا اور محبت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ میری کمر تھپتھپا کر اس نے کہا: “بخدا میں تم پر جتنا بھی ناز کروں، کم ہے۔ تم نے آج وہ کام کردکھایا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کس طرح تمہارا شکریہ ادا کروں۔ “
“شکریے کو تو چھوڑئیے اور پہلے جیک کی مدد کیجئے ۔ میں نے جلدی سے کہا، کہیں یہ دونوں اس پر جھپٹ نہ پڑیں۔ “
“ہاں یہ بات ٹھیک ہے، مگر مجھے بار بار جیک کے اس رویے پر حیرت ہورہی ہے، آخر یہ سب کیا ہے؟ “
“آپ کے ساتھ مجھے بھی حیرت ہے، لیکن یہ باتیں بعد میں ہوں گی، پہلے ہمیں جیک کے پاس پہنچنا چاہئے ۔ “
جان کی بندوق درخت کے قریب ہی پڑی ہوئیت ھی۔ شاید دشمنوں نے بھول سے اپنے قبضے میں نہیں کیا تھا ، ان کا خیال ہوگا کہ ہم دونوں کو مرنا تو ہے ہی، اس لئے بھلا ہم بندوق سے کیا کریں گے ؟اگر انہیں معلوم ہوجاتا کہ آزاد ہوجانے کے بعد بندوق پھر ہمارے قبضے میں آجائے گی تو و ہ ہرگز اسے وہاں نہ رہنے دیتے، مگر اب کیا ہوسکتا تھا ، ا ن کی ہر سوچی ہوئی بات الٹی ہورہی تھی۔
جب ہم جیک کے پاس پہنچے تو وہ کبڑے جادوگر سے کہہ رہا تھا۔
” تم ذلیل انسان! تمہارے حقیقت کیا ہے، میں چاہوں تو تمہیں چٹکیوں میں مسل کر رکھ دوں ۔ مگر میں ہمیشہ خاموش رہا ۔ میں اپنے ساتھی جان کے ساتھ غداری کرنے کی بات سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ مگر تم دونوں کا شروع ہی سے یہ خیال تھا ، ہم افریقی رنگ کے تو کالے ہوتے ہیں، مگر ہمارے دل کالے نہیں ہوتے ۔ ہمارا خون تمہاری طرح سفید نہیں ہوتا، ہم جس کے ایک بار ہوجاتے ہیں بس ہمیشہ اس کے وفادار رہتے ہیں، تمہیں معلوم ہے کہ میں جان بوجھ کر گونگا کیوں بنا ہوا تھا؟ “
وہ دونوں خاموش رہے تو جیک نے غصے سے چلا کر کہا۔
“جواب دو، جواب کیوں نہیں دیتے۔ “
“ہمیں نہیں معلوم۔ کبڑے نے خوف کے مارے لرزتے ہوئے کہا اور مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی کہ جادوگر ہوکر بھی وہ خوف کے باعث کپکپا رہا ہے۔ میں بتاتا ہوں، جیک نے زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ۔ سنو۔۔۔۔ اور آپ بھی سنئے مسٹر جان! میں ان دونوں کا پول کھول رہا ہوں، عبدل کو آپ نے اپنا ساتھی بنانے سے پہلے یہ نہیں سوچا کہ آیا یہ شخص وفادار بھی ہے یا نہیں ۔ میں چوں کہ آپ سے وفادار رہنے کا عہد کرچکا تھا اس لئے مجھے سوچنا پڑا کہ جس شخس کو ہم اپنا ساتھی بنارہے ہیں وہ دراصل ہے کیسا؟ میں نے آپ سے نیویارک میں ہی یہ بات کہہ دی تھی کہ عبدل اچھا آدمی نہیں ہے مگر آپ نے اس کا جواب دیا تھا کہ وقت اسے اچھا بنادے گا لیکن اب آپ دیکھ لیجئے کہ وقت نے اسے کتنا برا بنادیا ہے۔ مجھے فیروز کی عقل کی داد دینی پڑتی ہے کہ اس نے شروع ہی سے اس کبڑے پر نظر رکھی۔ یہ بد معاش در اصل نیچ ذات کا ہے ۔ پھر عبدل نے ہندوستان آتے ہی اسے پٹی پڑھائی کہ وہ ایک جادوگر کی سی اداکاری کرے اور ہم لوگوں کے سامنے بار بار اس طرح آئے کہ ہم اس سے ڈر جائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں کی اسکیم کامیاب رہی اور آپ سچ مچ سہم گئے کیونکہ یہ احمق عجیب عجیب باتیں کرتا تھا۔ فیروز کی عقل مندی سے نقشہ اس کے ہاتھ نہیں لگا تو ایک دن میں نے اسے اپنے خیمے میں بلاکر گفتگو کی ۔ میں نے اسے ہیرے کی ایک انگوٹھی انعام میں دی اور کہا کہ عبدل کی طرح میں بھی آپ کا دشمن ہوں اگر یہ نقشہ عبدل کی بجائے مجھے دے دے تو میں اسے افریقہ لے جاؤں گا اور وہاں سونے کی کانوں کا مالک بنادوں گا ۔ یہی وقت تھا جب فیروز نے مجھے خیمے میں اس سے باتیں کرتے سنا اور مجھ سے بد گمان ہوگیا۔ میں چاہتا بھی یہی تھا کہ آپ مجھ سے بد گمان ہوجائیں اور اس طرح میں آپ کی زیادہ حفاظت کرسکتا تھا، اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ سب کچھ آپ کو معلوم ہے ۔ اس کبڑے احمق نے کچھ عجیب و غریب پیش گوئیاں کیں جو سچ ثابت ہوگئیں۔ مگر کس طرح ؟ آپ سنیں گے تو حیرت زدہ رہ جائیں گے ، میں گھوم پھر کر سب معلوم کرچکا ہوں۔ اس جنگل کے مغربی حصے میں ایک ایسی قوم آباد ہے جس تک ابھی تہذیب کا گزر نہیں ہوا، چیتن کی عقل کی داد دینی پڑتی ہے کہ اس نے جادو کے کچھ عجیب سے کرتب دکھاکر اس قوم کو اپنا بنالیا۔ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ جادو جانتا ہے ، جادو وادو کچھ نہیں ، بلکہ اسے مداریوں کے سے کچھ شعبدے معلوم ہیں، انہیں دکھاکر یہ دوسروں پر اپنا رعب ڈال دیتا ہے ۔ خبردار چیتن ہلو مت۔ “
جیک نے کبڑے کو برح طرح ڈانٹا کیوں کہ وہ اپنی جگہ سے ہلنے کی کوشش کررہا تھا ۔ کبڑے کے چہرے پر اس وقت زردی چھا رہی تھی اور چاند کی مدھم روشنی میں اس کا چہرہ بھی ستا ہوا نظر آرہا تھا ۔
“اس نے اس وحشی قوم سے ان کے دیوتا بنوائے۔ یہ دیوتا دو بت تھے جو لکڑی اور کاغذ سے بنائے گئے تھے جب آپ سب جنگل کے درمیان سے گزرنے لگے تو یہ بت آپ پر اسی قوم نے گرائے تھے جو جنگل میں چھپی ہوئی تھی۔ کبڑے نے ان لوگوں کو بتایا تھا کہ آپ لوگ انہیں تباہ و برباد کرنے آئے ہیں۔ اگر وہ اپنے دیوتا آپ پر گرا دیں گے تو آپ مرجائیں گے اور وہ قوم زندہ رہے گی ۔ وہ کالے کلوٹے جاہل لوگ اس کی باتوں میں آ گئے اور نتیجہ کے طور پر بت آپ پر گرے، مگر اس بات کا پہلے ہی انتظام کرلیا گیا تھا کہ بت کہیں درخت ہی میں اٹک کر رہ جائیں تاکہ آپ لوگوں پر یہ قلعی نہ کھلے کہ وہ کاغذ اور لکڑی کے بنے ہوئے ہیں ، بلکہ آپ انہیں پتھرہی کا سمجھتے رہیں۔”
جیک کی یہ باتیں میں جان بڑی حیرت سے سنتے رہے، کبڑا چیتن اور عبدل اتنے چالاک ہوں گے ہمیں اس کا ذرا بھی گمان نہ تھا۔ پھر بھی میرے دل میں ایک سوال پیدا ہوا اور آخر میں نے جیک سے پوچھ ہی لیا۔
“اور مسٹر جیک۔۔۔۔۔۔۔وہ زلزلہ؟ ” میں سمجھتا ہوں وہ زلزلہ بھی بالکل مصنوعی تھا؟ “
“بالکل ٹھیک سمجھے فیروز!، جیک نے تعریفی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا، راتوں رات زمین میں ایک گڑھا کھودا گیا اور اس پر لکڑی کے تختے بچھادئیے گئے اور اوپر سے ان تختوں پر مٹی ڈال دی گئی کبڑے کے آدمیوں نے وہ تختے نیچے سے ہلائے ، زمین پھٹ گئی اور تم ایک خاص گڑھے میں گر گئے ، جو پہلے ہی سے اس مقصد کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ کبڑا تمہیں دیکھتا رہا، تمہارے کمبل کے اڑنے سے تمہاری کمر ننگی ہوگئی اور کبڑا تمہارا راز جان گیا۔ “
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...