میرا نام فیروز ہے، ایک غریب ماں باپ کا لڑکا ہوں، ابھی میری عمر صرف بائیس سال کی ہے۔ لیکن اس عمر میں ایسی ایسی تکلیفیں اور ایسی مصیبتیں میں نے جھیلی ہیں جن کو یاد کر کے کلیجہ منھ کو آتا ہے ۔ ایسے عجیب و غریب واقعات اور اتنی حیرت انگیز باتیں مجھے اپنے سفر میں پیش آئی ہیں کہ میں انہیں اس وقت بیان کرتے ہوئے لرز رہا ہوں ۔ میری اب تک کی زندگی آفتوں اور تکلیفوں میں ہی بسر ہوئی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ میں بڑا با ہمت ہوں، یہی وجہ ہے کہ میں اپنی یہ داستان لکھ رہا ہوں ورنہ کسی دوسرے کے بس کا یہ کام نہ تھا ، کیوں کہ ایسی داستان کو لکھنے کے لئے انسان کے سینے میں پتھر کا دل ہونا چاہئے ۔
میں نے جس سفر کے بارے میں اوپر لکھا ہے وہ آج سے کوئی آٹھ سال پہلے شروع ہوا تھا ۔ میں دلی کے ایک ہوٹل میں بیرا تھا ، اس ہوٹل میں دنیا بھر کے سیاح آتے جاتے رہتے تھے ۔ اس لئے مجھے نئے نئے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا رہتا تھا ۔ جب یہ لوگ اپنے ملکوں کی باتیں کرتے تو میں بھی سنتا۔ یہ باتیں سنتے سنتے میرے دل میں بھی اشتیاق پیدا ہوتا کہ کاش کسی طرح میں بھی دوردراز کا سفر کروں! مجھے کیا معلوم تھا کہ میری یہ خواہش جلد ہی پوری ہونے والی ہے ۔ میں بھی سند باد جہازی کی طرح ایک طویل سفر کروں گا اور واپس آنے کے بعد پھر کبھی سفر کا نام نہ لوں گا!
ایک دن ہمارے ہوٹل میں تین غیر ملکی سیاح آکر ٹھہرے ، ہوٹل کا قاعدہ ہے کہ ایک آدمی کو ایک ہی کمرہ دیاجاتا ہے ، اگر تین چار آدمی ایک ہی کمرے میں مل کر رہنا چاہیں تو نہیں رہ سکتے ۔ لیکن مجھے یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ ان تینوں نے ایک ہی کمرے میں رہنے کی اجازت حاصل کرلی اور یہ میری بد نصیبی تھی کہ ان کی خدمت کے لئے مجھے مقرر کیا گیا۔ پورے دو دن تک وہ تینوں ا پنے کمرے میں ہی بند رہے ، نہ انہوں نے چائے منگائی اور نہ کھانا۔ سب کو حیرت تھی کہ وہ اندر بیٹھے ہوئے کیا کرتے رہتے ہیں ؟ میرا دل چاہتا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح مجھے اپنے میں بلانے کے لئے گھنٹی بجائیں تاکہ میں ان کے راز سے واقف ہوسکوں ، بچپن ہی سے مجھے لوگوں کے رازوں کو جاننے کا شوق ہے۔ خواہ مخواہ خطروں میں کود پڑنا میری عادت میں شامل ہے ، یہی وجہ ہے کہ میں ان پر اسرار آدمیوں سے جلد سے جلد ملنا چاہتا تھا۔ میں کمرے میں بیٹھا ہوا یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک گھنٹی بجی، میں نے دیوار پر لگے ہوئے بورڈ کی طرف دیکھا ۔ کمرہ نمبر 5 کا بلب روشن تھا، خوشی کے مارے میں اچھل پڑا، کیوں کہ وہ تینوں آدمی اسی کمرے میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ میں نے جلدی جلدی لباس ٹھیک کیا، ٹوپی اوڑھی اور تقریباً بھاگتا ہوا ان کے کمرے کے قریب پہنچا۔ دستک دینے پر اندر سے آواز آئی:
“آ جاؤ۔”
میں نے دروازہ کھولا اور پھر ادب سے ان کے سامنے جا کھڑا ہوا ۔ ان میں سے کسی نے میری طرف کوئی توجہ نہیں کی۔ جو سب سے بڑا تھا اس نے ایک سفید کاغذ کو احتیاط سے لپیٹتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کہا۔
“آخر کار یہ کام تو ہو گیا، نقشہ اب تیار ہے ۔”
اس کے یہ کہتے ہی میں سمجھ گیا کہ وہ کسی قسم کا نقشہ تیار کر رہے تھے ، کیوں کہ مڑے ہوئے کاغذ کی ایک ہلکی سی جھلک میں نے دیکھ لی تھی ۔ رنگ برنگی پنسلوں سے بنائی گئی لکیروں سے یہ راز ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کسی پوشیدہ جگہ کا نقشہ ہے، میرے اس خیال کی تصدیق ان تینوں کی شکلیں دیکھ کر بھی ہوجاتی تھی، ان کے چہرے اترے ہوئے تھے، داڑھیاں بڑھی ہوئی تھیں اور آنکھیں متواتر جاگنے کے باعث سرخ تھیں، وہ بار بار جماہیاں لے رہے تھے ، نقشہ تہہ کر کے حفاظت سے ایک چرمی تھیلے میں رکھنے کے بعد اس شخص نے مجھ سے کہا” ارے تم آگئے، دیکھو ہم لوگوں کے لئے بہت عمدہ کھانا لاؤ۔”
میں نے پھر ادب سے سر جھکایا اور واپس آکر جلدی جلدی ان کے لئے کھانا چنا۔ پھر کھانے کی ٹرالی لے کر ان کے کمرے میں داخل ہوا ۔ انہوں نے کنگلوں کی طرح کچھ ہی دیر میں کھانا ختم کردیا۔ اور پھر ایک نے جیب سے پانچ روپے کا نوٹ نکال کر میری طرف بڑھایا۔
“فرمائیے۔۔۔۔۔؟ ان روپوں کا کیا لاؤں؟ میں نے پوچھا۔
“اسے رکھ لو، یہ تمہاری ٹپ ہے۔” اس شخص نے ہنس کر کہا۔
ٹپ کی لعنت ہمارے ہندوستان میں برسوں سے چلی آ رہی ہے ۔ بغیر کسی محنت کے ہم لوگ خواہ مخواہ اپنا ہاتھ دوسروں کے سامنے ٹپ لینے کے لئے پھیلا دیتے ہیں ۔ یہ ایک طرح کی بھیک ہے جو ہم لیتے ہیں ۔ مجھے شروع ہی سے اس ٹپ سے نفرت ہے، اس لئے میں نے انکار کی صورت میں اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا۔
” جی شکریہ۔۔۔۔۔۔میں ٹپ نہیں لیتا۔” ان کی آنکھیں حیرت کے مارے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ تعجب سے انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر مجھ سے بولے۔” تمہارا نام کیا ہے، کہاں رہتے ہو؟”
میں نے مختصراً اپنے بارے میں ، انہیں سب کچھ بتا دیا، میری باتیں سن کر وہ بہت خوش ہوئے اور پھر وہی شخص جواب تک مجھ سے مخاطب تھا ، کہنے لگا:
” سنو لڑکے! ہم لوگ ایک دور دراز سفر پر جارہے ہیں، ہمیں ایک خادم کی ضرورت ہے ، جو ہمارے ساتھ رہے، اور ہمارا کہنا مانے ، تم اگر ہمارے ساتھ چلنے پر راضی ہوجاؤ تو ہم تمہیں پانچ سو روپے مہینہ دیں گے ، تنخواہ ہم نے جان بوجھ کر بہت زیادہ کہی ہے ، وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ جس چیز کی تلاش میں جارہے ہیں وہ اگر ہمیں مل گئی تو پھر ہم اربوں روپے کے مالک ہوجائیں گے ، تم ہمیں ایک شریف ، ایمان دار اور نڈر لڑکے نظر آتے ہو، اسی لئے ہم نے یہ پیش کش کی ہے ۔ ہمیں ایک تو خزانہ ڈھونڈنا ہے جو راس کماری کے میدانوں میں دفن ہے اور دوسرا ایک جزیرہ۔جس کے بارے میں آج تک کسی کو معلوم نہیں اور نہ ہی وہ جزیرہ دنیا کے نقشے پر موجود ہے ۔ لیکن ہمیں امید ہے کہ وہ لنکا سے بہت دور چلے جانے پر ہمیں نظر آئے گا۔ اس جزیرے میں جو چیز ہمیں پکڑنی ہے، اس کے بارے میں ہم تمہیں ابھی نہیں بتا سکتے ۔ اب تم یہ کہو کہ کیا تم ہمارے ساتھ چلنے پر رضا مندہو ؟ اگر نہیں تو پھر ہم تم سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہماری ان باتوں کا کسی کو بھی پتہ نہ چلنا چاہئے، اگر ایسا ہوا تو پھر معاف کرنا، تمہاری خیر نہیں۔”
یہ کہہ کرا س نے پائپ سلگایا دو تین لمبے لمبے کش لئے اور پھر مجھ سے کہنے لگا:
“ہاں اب جواب دو، امید ہے کہ تم نے اتنے عرصے میں ہر بات سوچ لی ہوگی۔”
سوچنا تو خیر کیا تھا مجھے تو خود ہی ایسے واقعات میں حصہ لینے کا بے حد شوق تھا ، بغیر سوچے سمجھے میں نے ہاں کردی۔ یہ جواب پاکر وہ شخص بہت خوش ہوا اور میرے قریب آکر میری کمر تھپتھپاتے ہوئے بولا۔
“شاباش! بہادر لوگ اسی طرح جلدی سے فیصلہ کرلیتے ہیں ۔ میں تم سے بہت خوش ہوں۔ تمہارے ایک مہینے کی تنخواہ پیشگی میں تمہیں ابھی دے دیتا ہوں ۔ کل ہم لوگ یہاں سے روانہ ہوجائیں گے لیکن خبردار۔ کسی کو اپنی روانگی کے بارے میں کچھ نہ بتانا، تمہاری آنکھیں کھلی رہنی چاہئیں لیکن زبان بند۔ سمجھ گئے؟”
“جی ہاں، خوب اچھی طرح ، بے فکر رہئے آپ مجھے ہمیشہ اپنا وفادار پائیں گے۔”
یہ جواب بھی سن کر وہ خوش ہوا اور پھر پانچ سو روپے مجھے دیتے ہوئے کہنے لگا کہ اب تم تیاری شروع کردو۔ دروازے میں سے نکلنے سے پہلے اس نے مجھے پھر تنبیہ کی کہ میں کسی سے بھی ان باتوں کا ذراسا بھی تذکرہ نہ کروں، ورنہ میرا انجام اچھا نہ ہوگا۔
دوسرے دن سویرے ہی ہم لوگ ہوٹل سے نکل لئے، دہلی ریلوے اسٹیشن پر آکر میرے مالک نے (کیوں کہ اب میں اسے اپنا مالک ہی کہوں گا) چار ٹکٹ راس کماری کے لئے ،اس کی فیاضی کا در حقیقت کوئی جواب نہ تھا۔ آپ لوگ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس نے میرے لئے بھی درجہ اول کا ٹکٹ لیا اور ہم چاروں ایک ہی ڈبے میں جاکر بیٹھ گئے ۔ اب یہاں بہتر معلوم ہوتا ہے کہ میں ان تینوں مالکان کا آپ سے تعارف کرادوں۔
وہ شخص جس نے مجھ سے باتیں کیں اور جو ادھیڑ عمر کا نظر آتا تھا، دراصل امریکن تھا۔ اس کا نام جان ولیم تھا ، بہت زیادہ شریف اور با اخلاق آدمی تھا۔ میں نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ ہر فن مولا ہے ، سائنس میں بھی ماہر تھا اور ڈاکٹری میں بھی، بہت اچھا حساب داں بھی تھا۔ دنیا کی تقریباً سبھی زبانیں جانتا تھا ۔ اس کے بر عکس اس کے دو ساتھی مجھے زیادہ پسند نہیں آئے ۔ ان میں سے ایک تو افریقی تھا، لمبا تڑنگا اور بہت ہی طاقت ور، گرمی ہو یا سردی وہ ہمیشہ کالے کپڑے پہننے کا عادی تھا ۔ اس کی کمر سے کارتوس کی ایک پیٹی ہر وقت بندھی رہتی تھی ، اور اپنی حفاظت کے لئے پستول بھی ہر وقت ساتھ رکھتا تھا، اتنا کالا تھاکہ رات میں نظر ہی نہ آتا تھا، اس شخص کا نام جیک تھا ۔ اس کی آنکھوں کو دیکھتے ہی میر ادل کانپ جاتا تھا ۔ اس کی آنکھیں بہت خطرناک تھیں۔ اب رہ گیا تیسرا آدمی تو وہ بہت دبلا پتلا اور چالاک تھا۔ مصر کا رہنے والا تھا اور اس کا نام عبدل تھا۔ پستول تو خیر اس کے پاس نہیں تھا۔ ہاں البتہ اپنے پاس ایک شکاری چاقو ہمیشہ رکھتا تھا ، چاقو ہلال کی شکل کا تھا اور وہ اسے اس انداز سے پھینکتا تھا کہ کسی بھی جانور کو زخمی کر کے چاقو پھر اس کے پاس واپس آجاتا تھا ۔ بعد میں ہم لوگوں نے جب ایک بار ہرن کا شکار کیا تو بجائے گولی کے عبدل نے اسی چاقو سے ہرن کو زخمی کیا۔ ہرن دس گز کے فاصلے پر تھا۔ عبدل نے چاقو گھما کر پھینکا، چاقو ہرن کی گردن کاٹنے کے بعد ہوا میں لہراتا ہوا پھر اس کے پاس واپس آ گیا، عبدل کے اس چاقو کو جیک بہت پسند کرتا تھا۔ لیکن وہ زیادہ تر خاموش رہتا تھا ۔ کسی بات کا جواب بھی بس صرف اپنی آنکھوں کے اشاروں سے دیتا تھا ۔ جان جیسے عمدہ خوش اخلاق انسان کے ساتھ ایسے عجیب و غریب دوست کو دیکھ کر مجھے وحشت ہوتی تھی۔
ریل بڑی تیزی سے اپنی منزل کی طرف جارہی تھی ۔ جان اپنے پائپ کے کش لگاتا ہوا کچھ سوچ رہا تھا ۔ لیکن جیک اور عبدل بڑی عجیب نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے ، میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ان کی آنکھوں میں رحم نام کو بھی نظر نہ آتا تھا۔ اس لئے مجھے اب ان آنکھوں کو دیکھتے ہوئے ڈر محسوس ہوتا تھا ۔ وہ دونوں مجھ سے بالکل بات نہ کرتے تھے ۔ البتہ جان مجھ سے بہت نرمی سے پیش آتا تھا۔ ہم لوگ آہستہ آہستہ ہندوستان کے جنوب کی طرف جا رہے تھے ۔ چند اسٹیشن جلدی جلدی گزر گئے تو جان نے نقشہ نکالا اور اسے سیٹ پر پھیلا دیا ۔ نقشہ پھیلانے کے بعداس نے اور اس کے ساتھ ہی اس کے عجیب ساتھیوں نے مجھے اس طرح دیکھا گویا کہہ رہے ہوں:
“ہم تم پر بھروسہ کرسکتے ہیں؟”
میں نے ان نگاہوں کا مطلب سمجھ کر مسکراتے ہوئے اپنا سر ہلا دیا اور وہ مطمئن ہوگئے ۔ نقشہ کو دیکھتے ہوئے وہ آپس میں بحث کرنے لگے ۔ ان کی بحث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عبدل خزانے والی کہانی پر یقین نہیں رکھتا یہی وجہ تھی کہ وہ بار بار ہر معاملے میں اپنی ٹانگ اڑا رہا تھا۔
اب یہ لکھناتو بے کار سا معلوم ہوتا ہے کہ ہم کس طرح راس کماری تک پہنچے، راستے میں کچھ اتنی تکلیفیں بھی پیش نہیں آئیں جن کے بیان کرنے کی خاطر میں اس قصے کو خواہ مخواہ لمبا کروں ۔ ہاں ایک بات ضرور کہوں گا اور وہ کہنی بھی ضروری ہے کہ دلی سے لے کر راس کماری تک جتنے بھی اسٹیشن پڑے میں نے ریل کے ٹھہرنے پر ایک نہایت ہی مکروہ اور ڈراؤنا چہرہ بار بار اسٹیشن پر دیکھا، وہ کوئی عجیب شخص تھا۔ خدا نے پوری دنیا کی بد صورتی اسے دے دی تھی۔ اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں ، میرا تو خیال ہے کہ جب وہ سوتا ہوگا تب بھی کھلی ہی رہتی ہوں گی۔ ناک بن مانس جیسی تھی اور مونہہ کی جگہ ایک تھوتھنی سی تھی۔ کبڑا بھی تھا، اور لنگڑا بھی۔ جب بھی ریل اسٹیشن پر ٹھہرتی یہ شخص کھڑکی کے قریب آکر اندر ضرور جھانکتا، میں نے ایک بات محسوس کی اور وہ یہ کہ اسے دیکھتے ہی جیک کے بھیانک چہرے پر ایک خوفناک مسکراہٹ ضرور پیدا ہوجاتی ۔ خدا جانے کیا راز تھا!
ریل کا سفر ختم ہوگیا تو پھر ہم نے موٹر سے سفر کیا ، خدا جانے کہاں کہاں گئے ، کتنے دریاؤں کو پار کیا، کتنے ندی نالے پھلانگے، غرض یہ کہ ہم آہستہ آہستہ ہندوستان کے بالکل جنوب میں پہنچ گئے ، یہاں ہمیں اپنا سفر خچروں پر شروع کرنا پڑا کیونکہ اب آگے نہایت ڈراؤنا اور خطرناک جنگل نظر آنے لگا تھا ۔ زندگی میں مجھے کبھی اتنی گھبراہٹ نہیں ہوئی تھی جتنی کہ اس وقت ہوئی۔ ایک انجانا خطرہ سامنے نظر آرہا تھا خدا جانے کہ اس جنگل میں داخل ہونے کے بعد واپس باہر نکلنا بھی نصیب ہوگا یا نہیں؟ یہاں پہنچ کر جان نے اطمینان کا ایک لمبا سانس لیا اورکہنے لگا۔
“دوستو۔۔۔! یہی جنگل ہماری منزل مقصود ہے ، اس کے اندر ہی کہیں وہ خزانہ چھپا ہوا ہے جس کی خاطر ہم اتنا لمبا سفر کرکے یہاں آئے ہیں، یہ جنگل اتنا گھنا ہے کہ دیکھ لو یہاں کتنا گہرا اندھیرا چھایا ہوا ہے، خطرناک جانور اور درندے بھی یہاں بہت بڑی تعداد میں ہیں، ہمیں ان سب کا مقابلہ کرنا ہوگا ، آؤ اب خدا کا نام لے کر اندر بڑھیں۔”
سب نے اپنے اپنے خچروں کو ہانکا اور پھر ہم جنگل میں داخل ہوگئے ، جانوروں کی آوازوں سے پورا جنگل کبھی کبھی گونج اٹھتا تھا ۔ ورنہ بس دہی ٹڈوں کا مدھم شور ہمارے دلوں کو ہر وقت سہمائے جارہا تھا ۔ ہم پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے تھے ہمارے خچر کبھی کبھی اپنے کان کھڑے کرلیتے تھے۔ ہم بھی فوراً چوکنے ہوکر ادھر اُدھر دیکھتے مگر خطرہ اس وقت تک کوئی پیش نہ آیا ۔ اسی طرح گھنے درختوں کی شاخیں ادھر ادھر ہٹاتے، راستے کے جھاڑ جھنکار شکاری چاقوؤں سے صاف کرتے ہوئے ہم لو گ کوئی ایک میل اندر گھس آئے ۔ ابھی ہمیں اور آگے جانا تھا، تھوڑی دیر دم لینے کے بعد جیسے ہی ہم نے سفر دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ سامنے کی جھاڑیاں ہلیں اور پھر ان میں سے ایک شخص نمودار ہوا ۔ مگر یہ دیکھ کر میرے جسم میں سنسنی دوڑ گئی کہ وہ شخص میرا جانا پہچانا وہی اسٹیشن پر بار بار آکر جھانکنے والا کبڑا تھا۔ ! کتنی حیرت انگیز بات تھی؟ اور کتنا عجیب واقعہ! جس شخص کی ہم نے کوئی اہمیت نہ سمجھی تھی اور جسے میں نے سرسری طور پر دیکھا تھا ۔ وہ انسان اب میرے سامنے کھڑا ہوا مجھے اور جان کو حقارت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
اس وقت اس کی کمان جیسی جھکی ہوئی کمر بڑی عجیب نظر آرہی تھی، اسے دیکھتے ہی جان نے اپنی بندوق کا رخ اس کی طرف کر دیا۔ عبدل نے بھی اپنا ہلال نما چاقو نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا ۔ البتہ جیک بالکل خاموش کھڑا رہا۔میں کنکھیوں سے جیک کو دیکھا تو اندازہ لگایا کہ وہ اس کبڑے اجنبی کی آمد سے خوش ہے ۔ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ مجھے اپنے مالکوں میں سب سے زیادہ جان پسند تھا۔ اس لئے میں جلدی سے اس کے پیچھے جاکر کھڑا ہوگیا۔ سچی بات ہے ، مجھے بندوق وغیرہ چلانی تو آتی نہ تھی۔ اسلئے مجبوراً مجھے پناہ ڈھونڈنی پڑی ورنہ دل تو میرا چاہتا تھا کہ اس اجنبی کبڑے کے کُب میں اتنے زور کا گھونسا ماروں کہ وہ ہمیشہ کے لئے سیدھا ہوجائے ۔
آپ شاید پوچھیں گے کہ ہم لوگ جب کہ اس اجنبی کے بارے میں کچھ جانتے بھی نہ تھے، اچانک اس سے اتنے خوفزدہ کیوں ہوگئے؟میں عرض کروں گا کہ خدا نے انسان کا چہرہ پورے جسم میں ایسا بنایا ہے جو اس کی عادت اور اس کے ارادوں کو فوراً ہی ظاہر کردیتا ہے ، یہی وجہ تھی کہ اس کی خوفناک صورت کو دیکھتے ہی جان نے اس کی طرف بندوق تان لی تھی ۔بندوق کا رخ اپنی طرف دیکھ کر وہ مسکرایا۔
“کون ہو تم۔۔۔؟” جان نے ذرا سخت لہجے میں پوچھا۔
“مجھ سے ڈرئیے مت۔۔۔۔۔ میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔” کبڑے نے جواب دیا۔
اس کی آواز سن کر مجھے بڑی حیرت ہوئی ۔ عجیب تھرتھراتی ہوئی اور باریک آواز تھی ۔ انگریزی وہ میری ہی طرح ٹوٹی پھوٹی بولتا تھا ، مگر آواز میں تھوڑا سا توتلا پن شامل تھا، جس کے باعث اس کا لہجہ کافی پراسرار محسوس ہوتا تھا ۔ جان کی میں تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا، وہ اس کے جواب سے مطمئن ہوجانے کی بجائے اسی طرح بندوق تانے اس کے سامنے کھڑا رہا ۔ میں باری باری ہر شخص کے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا ۔ سب سنجیدہ تھے ہاں البتہ جیک کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نظر آتی تھی ۔ عبدل اب تک تو خاموش تھا لیکن اس کبڑے کو بڑی ڈھٹائی سے ہنستے دیکھ کر کہنے لگا۔
“نقصان بھلا تم کس طرح پہنچا سکتے ہو، ہم لوگ اتنے کمزور نہیں ہیں ، اور پھر تم سے ڈرنے کی کوئی وجہ بھی نظر نہیں آتی۔ ہمیں تو صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ تم کون ہو اور اس دور دراز جگہ پر بھیانک جنگل میں جہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا، کیا کرتے پھر رہے ہو؟”
کبڑا یہ سن کر ہنسا اور دو قدم آگے بڑھ کر کہنے لگا۔
“کیا آپ نے کبھی کبڑے جادوگر کا نام نہیں سنا؟ خادم ہی کو کہتے ہیں، مجھ سے دنیا کی کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے ، میں ہر شخص کے دل کا راز جانتا ہوں۔ مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے، اور گزشتہ دنوں میں کیا ہوچکا ہے ، کبڑا جادوگر تو مجھے لوگ اس لیے کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔
“۔۔۔ اب میں کیا بتلاؤں، آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ ویسے میرا نام چیتن ہے، مگر میں چاہوں گا کہ آپ مجھے ‘کبڑا جادوگر’ کہہ کر ہی پکاریں۔ کہئے کیا اس کے بعد بھی کوئی بات باقی رہ جاتی ہے جس کے بارے میں آپ معلوم کرنا چاہتے ہیں؟”
عجیب شخص تھا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ میں خود اتنا خوفزدہ تھا کہ ابھی تک اپنے مالک جان کے پیچھے کھڑا ہوا تھا۔ مجھ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اس کے سامنے آ کر کھڑا ہوتا۔ میں نے دیکھا کہ اس کا یہ جواب سن کر جان کے ہونٹوں پر حقارت کا ایک تبسم پیدا ہوا اور وہ نڈر ہو کر کہنے لگا۔
“تم جادوگر ہو یا شیطان، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم تو یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ تم آخر اس جنگل میں کیوں پھر رہے ہو۔ تمہارا یہاں کیا کام؟”
“ارے صاحب کمال کرتے ہیں۔ جنگل کوئی آپ کا ہے؟ یا آپ نے اس جنگل میں دوسروں کو داخل ہونے سے روک رکھا ہے! میری مرضی جہاں دل چاہے گا جاؤں گا۔ آخر میں جادوگر ہوں اور میرا کام۔۔۔”
“سنو اجنبی!” عبدل نے پھر گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا:
“جادو وادو کو تو ہم مانتے نہیں۔ صاف صاف کہو تم کیا کہنا چاہتے ہو ۔۔۔؟”
“حیرت ہے!” کبڑے نے ہنس کر کہا :
“میں تو کچھ بھی کہنا نہیں چاہتا، آپ ہی لوگ زبردستی پوچھ رہے ہیں، اب رہی یہ بات کہ میں جادوگر ہوں یا نہیں تو لیجئے میں آپ کو چند باتیں بتاتا ہوں۔ ذرا غور سے سنئے۔”
اتنا کہہ کر وہ آنکھیں بند کر کے کھڑا ہوگیا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے، کچھ دیر تک مونہہ ہی مونہہ میں بڑبڑاتا رہا اور پھر آنکھیں کھول کر ہم کو غور سے دیکھنے لگا۔ اس کے بعد آہستہ سے کہنے لگا :
“چونکیے گا مت۔۔۔ لیجئے سنئے، آپ جو میرے سامنے بندوق تانے کھڑے ہیں، امریکہ سے آئے ہیں اور آپ کا نام جان ولیم ہے، اچھے دل کے آدمی ہیں، جن صاحب کے ہاتھ میں مڑا ہوا چاقو ہے، وہ مصری ہیں، اور ان کا نام عبدل ہے، یہ آپ کے دوسرے ساتھی ہیں۔ تیسرے صاحب جیک ہیں، افریقہ سے آئے ہیں۔ رہ گیا وہ ننھا سا چوہا۔۔۔”
اس نے میری طرف اشارہ کیا۔ سچ بات یہ ہے کہ اچانک یہ خطاب سن کر میرا خون کھولنے لگا، مگر مصلحت اسی میں تھی کہ خاموش رہتا، اس لئے کچھ نہیں بولا۔
“رہ گیا وہ ننھا سا چوہا۔۔۔” کبڑے نے ہنس کر کہا :
“تو اسے آپ دلی سے لے کر آئے ہیں، غریب لڑکا ہے بے چارہ اور اس کا نام فیروز ہے ۔ یہ تو ہوا آپ سب کا تعارف۔ اب یہ سنئے کہ آپ لوگ کیوں اس جنگل میں آئے ہیں؟ مسٹر جان، آپ کے پاس ایک خزانے کا نقشہ ہے جو اسی جنگل میں کہیں دفن ہے۔ خزانہ پانے کے بعد آپ لوگ ایک نامعلوم جزیرے میں جائیں گے۔ یہ جزیرہ صرف چودھویں رات کو، جب کہ چاند پورا ہوتا ہے، سمندر میں سے نمودار ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے نا؟”
کبڑا اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا۔ گویا ہمارے چہروں سے ہمارے دلوں کا راز جان لینے کا خواہش مند تھا۔ میرے ساتھ ساتھ سب ہی حیرت زدہ تھے۔ سب تعجب سے اسے دیکھ رہے تھے۔ اس کا جادو بالکل سچا معلوم ہوتا تھا، اسی پر بس نہ کر کے اس نے پھر کہنا شروع کیا:
“اب یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ آپ اس جزیرے میں کیا تلاش کرنے جا رہے ہیں؟ سنئے جناب، وہ ایک عجیب سی دیوزاد مکھی ہے جس کا قد اونٹ سے بھی اونچا ہے، لمبائی میں وہ گینڈے سے بھی لمبی ہے، ہاتھی جتنی موٹی ہے، اس کے پر معلوم ہوتا ہے کہ دو بڑے ہوائی جہاز ہیں۔ اس کی ناک سے شعلے نکلتے ہیں۔ وہ بے حد خطرناک ہے اور سمندر میں رہتی ہے۔ صرف چاند رات کو جب کہ جزیرہ سمندر کی سطح پر نمودار ہوتا ہے، وہ شکار کی غرض سے ہوا میں اڑتی ہے، اسے آج تک کسی نے نہیں دیکھا۔ اس کے بارے میں صرف سنا ہی ہے مگر اس پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ اتنی خطرناک ہونے کے باوجود وہ بہت کارآمد ہے۔ اس کی آنکھیں اگر احتیاط سے نکال لی جائیں تو چھپے ہوئے دفینوں کو خود بخود زمین میں سے کھینچ کر باہر نکال لیتی ہیں۔ ان آنکھوں میں یہی تاثیر ہے۔ ایک کام ان آنکھوں سے اور بھی لیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر اس مکھی کی آنکھوں کے آگے کوئی سی بھی چیز رکھ دی جائے تو وہ سونا اور ہیرا بن جاتی ہے۔ پتھر ہیرے بن جائیں گے اور دھاتیں سونا۔ اسی لئے آپ اس جزیرے میں جانا چاہتے ہیں۔۔۔ فرمائیے، میں نے کوئی بات غلط تو نہیں کہی؟”
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...