آپی لائیں میں آپ کی مدد کر دوں.
نور کو کھانا بناتے دیکھ شفا نے کھا.
نھیں میں کرلوں گی تم آرام کرو.
آپی سارا دن اور کرتی ھی کیا ھوں.
لائیں میں سبزیاں کاٹ دیتی ھوں.
زبردستی نور کے ھاتھ سے سبزیاں لے کرشفا کاٹنے لگ گئ.
اچھا جب تک تم یه کر رھی ھو میں زرا امی کو دوائ دے آؤ.
یه کھ کر نور کچن سے چلی گئ.
شفا کو آج نور کے گھر آۓ ایک ھفته ھو گیا تھا.
ڈور بیل بجنے کی آواز پر شفا باھر آئ.
جی کون.
شفا نے دروازے کے پیچھے سے پوچھا.
جی یه بجلی کا بل آیا ھے.
ایک آدمی شفا کو بل پکڑا کر چلا گیا.
شفا حریم بیگم کو بل دینے ان کے کمرے میں جا رھی تھی جب اس کے قدم اپنے نام پر وھی ان کے کمرے کے دروازے پر رک گۓ.
****************************
نا تو مجھے یه بتا پورا ھفته ھو گیا ھے تیری بھن کو یھاں آۓ ھوۓ کب تک رھنے کا اراده ھے اس کا یها.
حریم بیگم نے زھرخند لهجے میں کها.
امی آپ خود ھی بتائیں کھاں جائے گی وه.میرے سوا اس کا ھے ھی کون.
نور نے اداسی سے کھا.
یه میرا مسله نھی ھے.بھئ سو خرچے ھیں گھر کے .میرا پیچاره بچه اکیلے کمانے والا ھے.دانش تو ابھی چھوٹا ھے.
آصف اکیلا کیا کیا کرے.اوپر سے تمھاری اس بھن کا اضافه بھی ھو گیا.بس مجھے نھی پتا کھی اور اس کا بندوبست کرو.
حریم بیگم نے بے رحمی سے کھا.
نور نے ایک نظر ان کو دیکھا اور چپ چاپ دروازے کی طرف برھ گئ.
نور کو باھر آتا دیکھ شفا فورا سے کچن میں چلی گئ.
****************************
کٹ گئ سبزیاں.
نور نے ذبردستی چھرے پر مسکراھٹ لاتے ھوۓ کھا.
جی بس تھوڑی سی ره گئ ھیں.
شفا نے آنسوں پیتے ھوۓ کھا.
شفا نے اپنے آنسوں چھپانے کے لیۓ چھره نیچے جھکایا ھوا تھا.
حریم بیگم کے الفاظ اسکے سر پر ھتوڑے کی طرح لگ رھے تھے.
شفا دیھان کها ھے تمھاره انگلی کاٹ لی تم نے اپنی.
نور کی آواز پر اسنے چونک کر انگلی کو دیکھا جھاں سے خون بھ رھا تھا.
اور جو آنسوں کب سے وه روکے بیٹھی تھی وه بھی بھنے لگے.
اچھا بس بس کیا ھوگیا ابھی ٹھیک ھو جاۓ گی.
شفا کو اتنا روتے دیکھ نور نے پریشانی سے کھا.
اب وه اسے کیا بتاتی کے رونا اسے چوٹ پر نھی بلکے اپنی قسمت پر آرھا ھے.
اچھا تم اپنے کمرے میں جاؤ باقی میں دیکھ لو گی.
شفا کی انگلی پر پٹی کرنے کے بعد نور نے کها.
جی.
یه کھ کر شفا اپنے کمرے میں آگئ.
****************************
کمرے کا دروازه بند کرنے کے بعد شفا دروازے کے ساتھ ھی بیٹھتی چلی گئ اور پهوٹ پهوٹ کر رودی.
امی آپ نے صحیح کھا تھا آپی کی ساس مجھے اپنے گھر میں کبھی نھی رکھیں گی.
کاش امی آپ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاتیں.
نھی ھوتی مجھ سے لوگوں کی باتیں برداشت.
میں بھت تھک گئ ھوں امی.میں ان لوگوں پر اور بوجھ نھی بنو گی .میری وجه سے آپی کو بھی باتیں سنی پڑتی ھیں.
ھاں میں چلی جاؤ گی یھاں سے.
رو رو کر جب شفا کا دل ھلکا ھو گیا پھر وه اٹھ کر نماز پڑھنے کے لیۓ چلی گئ.
***********************
آپی مجھے آپ سے بات کرنی ھے.
اگلے دن جب نور شفا کے کمرے میں آئ تو شفا نے کھا.
ھاں بولو کیا بات ھے .
آپی میں یھاں سے جانا چاھتی ھوں.
شفا کی بات سن کر نور نے حیرت سے اسے دیکھا اور پهر غصے سے پوچھا .
اچھا کھاں جاؤ گی تم.
آمی میں واپس اپنے گھر جانا چاھتی ھوں.
مجھے بھت یاد آرھی ھے اپنے گھر کی.
شفا نے نظریں چراتے ھوۓ کھا.
کسی نے کچھ کھا ھے.
اس بار نور نے نرمی سے پوچھا.
نھی آپی مجھے کسی نے کیا کھنا ھے.
شفا نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی.
اچھا اب مجھ سے اس ٹاپک پر دوباره بات مت کرنا .تم کھی نھی جاؤ گی.
لیکن آپی.
اس سے پهلے شفا اور کچھ کھتی نور نےاسے بیچ میں ھی ٹوک دیا.
شفا مجھے تنگ مت کرو ویسے ھی مجھے دیر ھو رھی ھے.
نور نے اٹھتے ھوۓ کھا.
آپ کھاں جا رھی ھیں.
شفا نے پوچھا.
او میں تو تمھیں بتانا ھی بھول گئ.میں امی اور آصف امی کی بھن کی طرف جا رھے ھیں .انکی طبعیت کچھ ٹھیک نھی ھے.
نور نے بتایا.
تم نے چلنا ھے تو تم بھی چلو.
نور نے پوچھا .
نھی آپی میرا موڈ نھی ھے.
چلو ٹھیک ھے ھم شام تک آ جائیں گے.
نور کھ کر چلی گئ.
***********************
مجھے آج شفا سے بات کرنی چاهیۓ.کے وه میںرے ساتھ رھنا چاھتی ھے یا نھی.
اگر اس نے طلاق مانگلی تو تم اس دوباره کھو دو گے.
یھی بات سوچتے اس نے پورا ھفته گزار دیا تھا.
مجھے کیوں فرق پڑے گا.پهلے بھی تو وه مجھے چھوڑ کر چلی گئ تھی.
لیکن مجھے اس سے ھر حال میں بات کرنی ھوگی.آگے جو ھوگا دیکھا جاۓ گا.
آزر نے اپنی گاڑی کی چابی اٹھائ اور نور کے گھر کے لیۓ نکل گیا.
***********************
شفا لیٹی ھوئ تھی جب دروازه بجا.
آپی لوگ اتنی جلدی واپس آگۓ.
اسنے سوچتے ھوۓ دروازه کھولا لیکن اپنے سامنے کھڑے دانش کو دیکھ کر اسکا حلق تک کڑوا ھو گیا.
ارے آپ کھاں جا رھی ھیں.
وه اسے دیکھ کر واپس اندر جا رھی تھی جب اسے پیچھے سے دانش کی آواز آئ .وه اسے جواب دیۓ بنا ھی آگے بڑھ گئ.
اچھا سب لوگ کھاں ھیں .
شفا اپنے کمرے کی طرف جا رھی تھی جب دانش نے پوچھا .
آپکی خاله کی طرف.
شفا کا جواب سن کر ایک زھریلی مسکراھٹ اس کی چھرے پر آئ.
اچھا ایک کب چاۓ بنادو.
شفا نے جب کمرے کا دروازه بند کرنے لگی اسنے پیر سے دروازه روکتے ھوۓ کھا.
آپ خود بنالیں.
شفا نے چڑ کر جواب دیا.
ارے بھئ ھمارے گھر میں رھتی ھو .اتنا تو کر ھی سکتی ھو.
دانش نےطنزیه کھا.
اسی طنز بھری باتوں سے بچنے کے لیۓ شفا اس گھر سے جانا چاھتی تھی.
جان چھڑانے کے لیۓ شفا کچن میں چلی گئ.
دانش لاؤنچ میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رھا تھا جب شفا نے اسکے سامنے چاۓ رکھی اور جانے کے لیۓ مڑی جب دانش نے کھا.
بھئ کھاں چلی .کبھی ھمارے ساتھ بھی بیٹھ جایا کریں.
شفا نے کوئ جواب نھی دیا اور آگے بڑھ گئ.
دانش نے ایک دم اس کی کلائ پکڑ لی.
ھاتھ چھوڑو میرا .
شفا نے غصے سے کھا.
بھئ چھوڑنے کے لیۓ تھوڑی پکڑا ھے جانم.
دانش نے لوفرانه انداز میں کھا.
ھاتھ چھوڑو ورنه میں تمھارا منه توڑ دوں گی.
شفا نے غصے سے ھاتھ چھڑواتے ھوۓ کھا.
ارے بھئ ھم تو نا چھوڑیں گے.
چٹاخ…..
جب دانش نے شفا کا ھاتھ نھی چھوڑا تو شفا نے ایک تھپڑ اسکے منه پر مار دیا.
ھاۓ میرا بچا.
اسی وقت حریم بیگم, آصف اور نور لاؤنچ میں آۓ.
حریم بیگم فورا دانش کی طرف بڑھی جو خونخوار نظروں سے شفا کو گھور رھا تھا.
ھاۓ میرے بچے پر ھاتھ اٹھایا تو نے بیغیرت جس تھالی میں کھاتی ھے اسی میں سوراخ کرتی ھے.
حریم بیگم شفا کو باتیں سنانے لگ گئ.
آنٹی میری بات تو سنیں.
شفا نے بولنا چاھا.
امی میں نے تو صرف اسے یھاں بیٹھنے کا کھا تھا لیکن دیکھیں میری اتنی سی بات پر مجھے تھپڑ مار دیا.
دانش نے فورا شفا کی بات کاٹتے ھوۓ کھا.
آنٹی یه جھوٹ بول رھا ھے.
دانش کی بات سن کر شفا نے غصے سے کھا.
نور اور آصف حیران و پریشان کھڑے تھے.
نور شفا کو کمرے میں لے جاؤ.
آصف نے کھا.
خبردار .اب یه لڑکی اس گھر میں نھی ره سکتی.
کتنی احسان فراموش ھے .ایسی لڑکی کو میں مر کر بھی اپنے گھر میں نا رکھوں.چل دفا ھو جا میرے گھر سے.
حریم بیگم کو اس سے اچھا موقع دوباره نھی ملنا تھا .اسی لیۓ وه موقع کا فائده اٹھاتے ھوۓ شفا کا ھاتھ پکڑ کر گھر سے نکالنے لگی.
امی دیکھیں اسے معاف کردیں.یه کھاں جائے گی.اسکا میرے سوا کوئ نھی ھے.
نور نے فورا حریم بیگم کے آگے ھاتھ جوڑتے ھوۓ کھا.
یه میرا مسله نھی ھے.کھی بھه دفع ھو یه.میری بلا سے .مرتی ھے تو مرے.
حریم بیگم نے گیٹ پر لا کر شفا کو باھر کی طرف دھکا دیا.
لیکن اسکے گرنے سے پھلے ھی کسی نے اپنے مھربان ھاتھوں سے اسےتھام لیا.
***********************