اسے کچھ بھی پتا نا چلا کے کیسے وه گھر تک آئ.
کس نے سارے انتظام کرے.
کون کون آیا ھے کون کون نھیں آیا.کچھ بھی تو معلوم نا تھا اسے.وه تو بس ایک کونے میں بالکل چپ بیٹھی ھوئ تھی.
بیچاری پتا نھیں کیسے نصیب لے کر پیدا ھوئ ھے.پیدا ھوئ تو باپ مر گیا.شادی ھوئ تو شوھر نے طلاق دے دی اور دیکھو اب ماں بھی چھوڑ کر چلی گئ.کچھ عورتیں بیٹھیں آپس میں باتیں کر رھیں تھیں.لیکن اسے کچھ نا پتا تھا کے کون کیا بول رھا ھے.
اسے پتا تھا تو صرف اتنا کے آج وه یتیم ھو گئ ھے.آج وه جس کو دیکھے بغیر اس کا دن نھیں گزارتا تھا وه ھمیشه کے لیۓ اسکی آنکھوں سے اوجھل ھو گئ ھے.
شف شفا….
نور روتی ھوئ اسے بلا رھی تھی لیکن اسے کچھ بھی سنائ نھی دے رھا تھا.
اس نے خالی نظروں سے نور کو دیکھا اور پهر وه اسکے گلے لگ کر ایسا روئ کے دیکھنے والوں کی آنکھیں بھی اشک بار ھوگئ.
شفا میری جان سنبھالوں خود کو.
نور نے اسے کھا جس کا رو رو کر برا حال ھو گیا تھا.
جنازے کا وقت ھو گیا ھے.
آزر نے اندر آکر کھا.
جیسے ھی انھوں نے جنازه اٹھایا شفا روتی ھوئ ان تک آئ اور ایک نظر اپنی ماں کو دیکھ کر کمرے میں بھاگ گئ کیونکه اسے پتا تھا کے اگر وه مزید یھاں کھڑی رھی تو اسکا صبر کا پیمانه لبریز ھو جاۓ گا.
اور ھمارے دین نے تو ھمیں صبر کی تلقین دی ھے.چاھے کچھ بھی ھو جاۓ ھمیں ھر حال میں صبر کرنا چاھیۓ.
****************************
کمرے میں آکر اسنے وضو کیا اور نماز ادا کر کے اپنی ماں کی آسانی کے لیۓ دعا مانگنے لگ گئ.اسے پتا یه آنسوں یه رونا ان کے کسی کام نا آۓ گا اور جو چیز ان کے کام آۓ گی وه شفا کر رھی تھی یعنی ان کی بخشش کی دعا.
تھوڑی دیر بعد کمرے کا دروازه بجنے لگ گیا.
اسنے دروازه کھولا توسامنے نور کھڑی ھوئ تھی.
سامنے سے ھٹ کر وه بیڈ پر آکر بیٹھ گئ.
نور بھی اسکے برابر میں آکر بیٹھ گئ.
آپی امی کیوں چلی گئیں.
شفا نے نور کی گود میں سر رکھتے ھوۓ پوچھا.
شفا جو آیا ھے اس نے ایک دن تو جانا بھی ھے نا.یه سب تو اوپر والے کے کام ھیں اس میں ھمارا کوئ عمل دخل نھی ھے.
بس صبر کرو میری جان اس کے علاوه هم کچھ کر بھی نھی سکتے.
نور نے اسے سمجھانا چاها.
نور بھی بری طرح ٹوٹی ھوئ تھی لیکن اس پتا تھا کے شفا کو ابھی اسکی ضرورت ھے.اسی لیۓ وه حوصله رکھیے ھوئ تھی.
****************************
شفا کیسی ھے اب .
نور جب کمرے سے باھر نکلی تو آزر نے اس سے پوچھا.
نور نے اسے سوالیه نظروں سے دیکھا جیسے پوچھنا چاه رھی ھو کے آپ کون.
نور کی نظروں کا مفھوم سمجھ کر آزر کو سمجھ نھیں آیا کے کیا کھے لیکن پهر وه سنبھل کر بولا
جی میں مس شفا کا باس ھوں.
او اچھا.شفا کو ابھی میں نے نیند کی دوائ دے کر سلایا ھے.
یه کھ کر نور چلی گئ.
***********************
شفا تم اپنا سامان باندھ لو.
نور نے کمرے میں آکر شفا سے کھا.
آج آمنه بیگم کی وفات کو چوتھا دن تھا.
کیوں آپی هم کهاں جا رھے ھیں
شفا نے حیرانی سے پوچھا.
آصف اور امی کھ رھے ھیں کے واپس آجاؤ.
تو آپی آپ چلی جائیں میں یھی رھو گی.
شفا مجھے تنگ مت کرو تمھیں پتا ھے میں تمھیں اکیلا چھوڑ کر نھیں جا سکتی اسی لیۓ چپ چاپ اٹھ کر سامان پیک کرلو.
اتنا تو شفا بھی اندازه تھا کے وه اکیلی نھی ره سکتی اسی لیۓ ناچار اسے اٹھنا ھی پڑا.
***********************
پتا نھیں کیسی ھو گی وه.
آزر نے سوچتے ھوۓ کها.
وه اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھا ھوا تھا.
سوچا تھا کبھی اس دھوکے باز کی شکل تک نھیں دیکھوں گا لیکن قسمت کا ستم تو دیکھو کے وه میری منکوحه کے رتبے پر فائز ھو گئ ھے.
آزر سوچ کر تلخی سے مسکرا دیا.
***********************
شفا جب نور کے ساتھ اس کے سسرال آئ تو نور کی ساس نے ناپسندیده نظروں سے اسے دیکھا اور اپنے کمرے میں چلی گئ.
شفا کو اپنا آپ ایک بوجھ محسوس ھوا.
***********************