صبح جب دانیال کی آنکھ
کھلی تو اس کی نظر سامنے ڈریسنگ کے سامنے بال برش کرتی دعا پر گئ.
وه مھبوت سا اس کو دیکھنے لگا.
پهر اٹھ کر اسکے پیچھے جا کر کھرا ھو گیا.
دعا اس سے بے خبر اپنے لمبے بالوں میں الجھی ھوئ تھی.
بھت پیاری لگ رھی ھو.
اپنے کان کے بالکل قریب دانیال کی آواز سن کر دعا نے فورا سامنے شیشے میں دیکھا.
دانیال اس کے بالکل قریب کھڑا تھا.
آپ تیار ھو جائیں امی لوگ ناشته لے کر آتے ھی ھونگے.
دعا کو سمجھ نھیں آیا کے وه کیا کھے.
تیار بھی ھو جاتے ھیں پهلے اپنی بیگم کو تو دیکھ لیں.
دانیال نے شوخی سے کها.
اس سے پهلے دعا کچھ کهتی دروازه بجنے لگ گیا.
صاحب وه دلھن بی بی کے میکے والے آۓ ھیں.
دانیال نے جب دروازه کھولا تو سامنے کھڑی ملازمه نے اسے بتایا.
ٹھیک ھے هم آرھے ھیں.
دیکھیں گھر والے بھی آگۓ ھیں آپ اب جلدی سے تیار ھو جائیں.
دانیال دروازه بند کر کے جیسے ھی پیچھے مڑا دعا نے اسے کپڑے پکڑاتے ھو کھا.
دانیال اس کی جلد بازی دیکھ کر مسکرارتے ھوۓ چینج کرنے چلا گیا.
****************************
دعا اور دانیال جب تیار ھو کر نیچے اترے تو سامنے حال میں انھیں شفا اور لاریب دانیال کی امی کے ساتھ بیٹھے ھوۓ نظر آۓ.
شفا کی نظر جب دعا پر گئ تو وه مسکراتے ھوۓ کھڑی ھوگئ لیکن جب اس کی نظر دعا کے ساتھ کھڑے دانیال پر گئ تو حیرت سے اس کا منه کھل گیا.
منه بند کر دیں سالی صاحبه مکھی گھس جاۓ گی.
دانیال نے ھاتھ سے شفا کا کھلا ھوا منه بند کرتے ھوۓ کها.
شفا نے دانیال کو دیکھا اور پهر دعا کو دیکھ کر رازدانه انداز میں پوچھا.
یه کیسے ھوا.
پهلے ناشته کر لیں پهر تفصیل سے بتائیں گے.
دعا کے بدلے دانیال نے جواب دیا.
شفا نے گھوری سے دانیال کو نوازه.
دانیال نے سر جھکا کر گھوری قبول کی اور وه لوگ ھنستے ھوۓ ڈائینگ ٹیبل کی طرف چل دیئے.
****************************
مجھے شروع سے لے کر آخر تک ایک ایک لفظ بتاؤ.
شفا نے بھت ایکسائیٹڈ ھو کر دعا سے کھا.
وه لوگ اس وقت دعا کے کمرے میں بیٹھے ھوۓ تھے.
اچھا اچھا آرام سے لڑکی بتاتی ھوں.
پهر دعا ساری بات شفا کو بتا دی.
واه بھئ دانیال بھائ تو بھت چھپے رستم نکلے.
شفا نے داد دیتے ھوۓ کھا.
یه دیکھوں دانیال نے مجھے یه منه دکھائ میں دیا ھے.
دعا نے اپنے ھاتھ میں پهنا ھوا بریسلیٹ دکھاتے ھوۓ کھا.
منه دکھائ کے نام سے شفا کو اپنی منه دکھائ یاد آگئ جو صرف تین لفظوں کی مار تھی.
پهر سر جھٹک کر بولی.
ماشاءالله سے بھت خوبصورت ھے.
اور کیا ھو رھا ھے کهیں میری برائ تو نھیں ھو رھی.
دانیال نے روم کے اندر داخل ھوتے ھوۓ کها.
آپ کو کیسے پتا چلا.
شفا نے حیران ھونے کی ایکٹنگ کرتے ھوۓ کها.
بس میں نے کچھ موکل چھوڑے ھوۓ ھیں وه مجھے سب بتا دیتے ھیں.
دانیال نے سامنے صوفے پر بیٹھتے ھوۓ کها.
ویسے آپ تو بھت چالاک نکلے.
اف الله کهی میں خواب تو نھیں دیکھ رھا شفا نے مجھے آپ سے مخطب کیا.یونی میں تو کبھی اتنی عزت نھیں دی.
اب آپ میری پیاری سی دوست کے شوھر کے رتبے پر فائز ھو گۓ ھیں تو میں نے سوچا تھوڑی عزت دے دی جاۓ لیکن آپ کو عزت راس نھیں تو وه الگ بات ھے.
شفا نے بھی دو بدو جواب دیا.
دعا ان دونوں کی باتوں کو انجواۓ کر رھی تھی.
اور رھی بات چالاکی کی تو اپنی محبت کو حاصل.کرنے کے لیۓ تھوڑی چالاکی کرنی پڑتی ھے.
دانیال نے دعا کی طرف محبت سے دیکھتے ھوۓ کھا.
دعا نے دانیال بات سن کر دل میں اپنے رب کا شکر کیا جس نے اسے اتنا اچھا شوھر دیا.
تھوڑی دیر بعد وه لوگ اجازت لے کر چلے گۓ.
***********************
امی میں نے آپ سے ضروری بات کرنی تھی.
شفا نے آمنه بیگم کو مخطب کیا .
ھاں بولو کیا بات ھے.
امی اگر آپ کی اجازت ھو تو میں جاب
کرنا چاه رھی تھی .آپ کو پتا تو ساره دن گھر میں فارغ ھی ھوتی ھو اس بھانے تھوڑی مصروف ھی ھو جاؤ گی.
شفا نے کها.
بیٹا تمھاری مرضی ھے.میری طرف سے تم پر کوئ پاپندی نھیں ھے.
تھینک یو امی جان.کل دعا کا ولیمه ھے تو میں اسکے اگلے دن انٹر ویو دے آؤ گی.
شفا آمنه بیگم کو خوشی خوشی اپنی پلینگ بتا رھی تھی اور وه دل ھی دل میں اس کی مسکراھٹ همیشه قائم رھنے کی دعا کر رھی تھیں.
***********************
شفا تھکی ھوئ دعا کے ولیمے سے آئ تھی .
آمنه بیگم اس کے لئے دودھ کا گلاس لے کر کمرے میں آئ تھیں جب وه انھیں سامنے کچھ دھونڈتی ھوئ نظر آئ.
کیا کر رھی ھے میری جان.
آمنه بیگم نے گلاس رکھتے ھوۓ پوچھا.
کچھ نھیں امی وه بس میں سارے ڈاکونٹس ایک جگه کر رھی تھی کل انٹر ویو دینے جانا ھے نا اسی لیۓ.
بیٹا ویسے کیا ضرورت ھے جاب کی فضول میں اتنا ٹھک جاؤ گی.
امی کچھ نھیں ھوتا گھر میں فضول بیٹھے بیٹھے بھی تو تھک جاتی ھو اس سے اچھا ھے کے کچھ کر ھی لوں.
چلو ٹھیک ھے دودھ پی لینا اور جلدی سو جانا.
آمنه بیگم پیار سے کھتی کمرے سے چلی گئ.
جوب تو ایک بھانا ھے میں توصرف ان تلخ یادوں سے چھٹکاره حاصل کرنا چاھتی ھوں.
شفا نے سوچا.
***********************
امی امییی.
کیا ھو گیا بھئ کیوں چیخ رھی ھو.اور کون تھا دروازے پر.
آمنه بیگم نے پوچھا.
امی آفس کی طرف سے یه لیٹر آیا ھے میری جاب لگ گئ ھے.
آپ کو پتا ھے مجھے تو یقین نھیں آرھا مجھے تو لگا تھا مجھے یهاں تو جوب بالکل نھیں ملے گی کیونکه جب میں انٹر ویو دینے گئ تھی مجھ سے بھی ذیاده قابل لوگ بیٹھے ھوۓ تھے.مجھے تو یقین نھیں آرھا کے میری سیلیکشن ھو گئ ھے.
.شفا بغیر رکے بولے جا رھی تھی.
اچھا اچھا سانس تو لے لو اور جوائنگ کب سے گے.
آمنه بیگم نے پوچھا.
کل سے.شفا نے جواب دیا.
***********************میم آپ کو سر بلا رھے ھیں.
شفا کو ابھی آفس میں آۓ تھوڑی دیر ھی ھوئ تھی جب ایک لڑکی نے اسے آکر بتایا.
جی اچھا. آپ مجھے راسته بتا دیں.
شفا اسکے بتائ ھوئ جگه پر جانے لگی.
شفا نے ابھی تک اپنے سر کو نھیں دیکھا تھا.
دروازے پر رک اس نے اجازت مانگی.
اجازت ملنے پرو وه اندر داخل ھوئ.
سر آپ نے بلایا تھا.
شفا نے اسے مخاطب کیا جس کی اسکی طرف پشت تھی.
جی مس شفا میں نے آپ کو ھی بلایا تھا.
اسنے گھوم کر شفا کو دیکھتے ھوۓ کھا.
سامنے موجود شخص کو دیکھ کر شفا کو اپنی سانس رکتی ھوئ محسوس ھوئ.
***********************