امی جانا ضروری ھے کیا.
شفا جو زاهره بیگم کے گلے لگے ھوۓ تھی اداسی سے بولی.
بیٹا میرا بھی تمھیں چھوڑ کر جانے کو دل نھیں چاه رھا لیکن بھائ جان کی طبعیت کافی خراب ھے.
امی فلائٹ کے لیۓ دیر ھو رھی ھے.
آفتاب نے اکتاۓ ھوۓ لهجے میں کھا.
اچھا بیٹا اپنا خیال رکھنا میں جلدی آنے کی کوشش کروں گی .
زاھره بیگم شفا کے سر پر شفقت سے ھاتھ رکھ کر گاڑی کی جانب چل پڑی.
گاڑی ایئر پورٹ کی طرف روانه ھو گئ.
شفا کو زاهره بیگم کے جانے کا دکھ ھو رھا تھا آخر وھی تو تھیں اس گھر میں اس کا واحد سھارا.
شفا نے سوچا کے وه آمنه بیگم کے گھر چلی جاۓ لیکن اسے پتا تھا آفتاب کے خیال سے وه اگلے ھی دن اسے واپس بھیج دے گی.
ایک ٹھنڈی سانس بھر کر وه اندر کی طرف چلی گئ.
****************************
صبح جب شفا کی آنکھ کھولی تو اس کی نظر سامنے نک سک سے تیار کھڑے آفتاب پر گئ.
آج اتوار تھا اور آفتاب آج دیر سے اٹھتا تھا لیکن آج اتوار کے دن آفتاب کو اتنی جلدی تیار کھڑا دیکھ شفا کو کافی حیرت ھوئ مگر وه چپ چاپ لیٹی رھی.
ڈور بیل بجنے کی آواز پر آفتاب ایک طنزیه نظر شفا پر ڈال کر کمرے سے چلا گیا.
شفا کو باھر باتوں کی آوازیں آنے لگیں.
یه سوچ کر ناجانے کون آیا ھوگا جب وه باھر آئ تو سامنے کے منظر کو دیکھ کر اسے صحیح معنی میں جھٹکا لگا.
آفتاب ایک لڑکی کا ھاتھ پکڑے اس سے ھنس ھنس کر باتیں کر رھا تھا.
سانوالے رنگ اور عام نقوش کی حامل لڑکی شفا کے آگے کچھ بھی نھیں تھی.
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر شفا ان کے قریب آئ.
اس سے ملو یه ھے میری زندگی اور میری ھونے والی بیوی مریم.
آفتاب نے دل جلا دینے والی مسکراھٹ کے ساتھ شفا کو بتایا.
شفا نے ایک نظر سامنے کھڑی مریم کو دیکھا اور اپنے کمرے میں چلی گئ.
****************************
شفا نے کمرے کا دروازه بند کیا اور اسکے کے ساتھ ھی بیٹھتی چلی گئ.
آنسوں لڑیوں کی صورت میں اس کی آنکھوں سے بھنے لگے.
آخر وه بھی تو ایک لڑکی تھی. اس کے بھی کچھ ارمان تھے.محبت نا سھی لیکن عزت کی تو حقدار تھی.
آج ھمیشه کی طرح آج بھی آفتاب نے اسکی کی عزت کا جنازه نکالا اور اسے توڑ کر رکھ دیا.
اسنے فیصله کر لیا تھا کے وه آج آفتاب سے دو ٹوک بات کر کے رھے گی.
بے دردی سے آنسوں پونچھ کر وه منه دھونے واشروم میں چلی گئ.
****************************
کھاں جارھے ھو.
دانیال نے سامنے تیار کھڑے آزر سے پوچھا.
یار اتنے دن ھو گۓ ھیں میں نے سوچا کیوں نا جا کے شفا سے مل لوں.وه عید کا چاند بنی ھوئ ھے.چلو مانا کے مجھ سے ناراض ھو گی لیکن اتنی بھی کیا ناراضگی کے نا ملنے آئ اور نا ھی کوئ فون کیا.آج جا کر سھی سے خبر لو گا اسکی.
آزر اپنی دھن میں بولے جا رھا تھا یه جانے بغیر کے اسکی باتوں سے دانیال کو کتنی تکلیف ھو رھی ھے.
آزر دیکھو ابھی تم مکمل طرح سے ٹھیک نھیں ھوۓ ھو کچھ دن آرام کرو پھر جا کر شفا سے مل لینا.
دانیال نے آزر کو سمجھاتے ھوۓ کھا.
نھیں یار میں آج ھی اس سے ملو گا .اتنے دن ھو گۓ میں نے اس کو دیکھا بھی نھیں اور تم دیکھنا وه مجھے دیکھ کر کتنا خوش ھو گی.
آزر خوشی سے چھک کر دانیال کو کھتا کمرے سے باھر جانے لگا ھی تھا کے دانیال کے جملے نے اسے وھی ھی روک دیا.
آزر شفا کی شادی ھو گئ ھے.
آخر بھت ھمت سے دانیال نے کھ ھی دیا.
کیا کھا ھے ابھی تم نے .
آزر نے دانیال کا گریبان پکڑتے ھوۓ کها.
وھی جو تم نے سنا.شفا کی شادی ھو گئ ھے.
دانیال نے بے بسی سے کھا.
نھیںںں——-
آزر نے دانیال کو دھکا دیتے ھوۓ کھا.
نھیں میری شفا میرے ساتھ ایسا نھیں کرسکتی بول دو دانیال کے یه جھوٹ ھے.
آزر نے دانیال کے دونوں ھاتھ پکڑ کر روتے ھوۓ کھا.
کاش آزر کے یه جھوٹ ھوتا لیکن یھی سچ ھے.
دانیال کی بات سن کر آزر جھٹکے سے اٹھا اور لمبے لمبے دگ بھر کر کمرے سے چلا گیا.
***********************
کمرے میں چارو طرف اندھیرا تھا.بس ایک لائٹر کی روشنی کبھی جلتی اور کبھی بوجھتی.
کمرے کی ساری چیزیں بکھری ھوئ تھیں.
آزر زمیں پر بیٹھا لائٹر کبھی جلاتا اور کبھی بجھاتا.
تم نے اچھا نھیں کیا شفا تم نے بالکل اچھا نھیں کیا.تم نے آزر کی محبت دیکھی ھے لیکن اب تم آزر کا جنون دیکھو گی.میں نے پهلے بھی کهاتھا کے مجھے کبھی دھوکا مت دینا لیکن تم نے وھی کیا اب تم دیکھو میں تمھارے ساتھ کیا کرتا ھوں شفا حیدر.
آزر نے نفرت سے ایک ایک لفظ چبا کر کھا.
***********************
شفا جب باھر آئ تو آفتاب بیڈ پر بیٹھا موبائل یوز کررھا تھا.
یقینن مریم چلی گئ تھی جبھی وه یهاں پر موجود تھا.
شفا آکر اسکے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئ.
بھت ضبط کے باوجود اسکی آنکھیں نم تھیں.
آفتاب آپ سے ایک بات پوچھو.
شفا نے آفتاب کو مخاطب کرتے ھوۓ کھا.
بولو کیا بات ھے.ھمیشه والی بے رخی کے ساتھ بولا گیا.
آپ نے مجھ سے شادی کیوں کی تھی.
جو سوال اسے جب سے پریشان کر رھا تھا آخر آج اس نے پوچھ ھی لیا.
دراصل بات یه ھے کے میں تو مریم سے ھی شادی کرنا چاھتا تھا لیکن امی چاھتی تھیں کے میں تم سے شادی کرلو میں نےانھیں منا بھی کیا تھا لیکن وه مان ھی نھیں رھی تھیں اور مریم کے گھر والے بھی تھوڑا ٹائم مانگ رھے تھے تو میں نےسوچا کے چلو ماں کی بات مان ھی لو.
جس اطمینان کے ساتھ آفتاب نے اسے یه سب بتایا تھا شفا کا دل کیا کےاسکا کا سر پھاڑ دے.
یعنی کے آپ نے صرف
اپنی ماں کی بات ماننے کے لیۓ میری زندگی برباد کی.
شفا نے چیختے ھوۓ کھا
آواز نیچے رکھ کر بات کرو مجھ سے اور بھت کی جلد میں تمھیں اس بے نام بندھن سے آزاد کرنے والا ھوں.
آفتاب نے شفا کا بازو دبوچتے ھوۓ کھا.
جب آپ نے مجھے چھوڑنا ھی ھے تو انتظار کس بات کا ھے.
شفا نے اپنا بازو چھڑواتے ھوۓ کھا.
بھت جلدی ھے نا تمھیں چلو میں آج تمھارا یه انتظار ختم کرتا ھوں.
میں آفتاب صدیق شفا حیدر تمھیں اپنے پورے حوش میں طلاق دیتا ھوں.
طلاق دیتا ھوں
طلاق دیتا ھوں.
***********************