سادہ دلی، معصومیت، خلوص، محبت اور حوصلہ مندی کے آمیزے کا کوئی نام دیا جا سکتا ہے تو میرا خیال ہے اسے برق یوسفی کہا جائیگا ……. برق یوسفی صرف شاعر ہے ………سیدھا اور سچا شاعر ……. مقصدیت سے بھرپور تازگی اور ولولے سے معمور………برق یوسفی کہتے ہیں کہ انھیں کالی شئے میں بھی خوبصورت نظر آتی ہے۔ لیکن پھر وہ کھرے اور کھوٹے کی پہچان کو قلب و نظر کے اطمینان کا سبب بتاتے ہیں اور جب قلب و نظر کی بات کرتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ دل کی خصوصیت اضطراب ہے اور نظر کی خصوصیت ہے بے چین رہنا۔ شاید اس طرح انھوں نے اپنی شاعری کے اندر چھپی ہوئی اضطرابی کیفیت کو ایک نام دینے کی کوشش کی ہے …… اور اس طرح شاید اس اضطراب کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے جو ان کی شاعری کی اندرونی تہوں میں موجود ہے اور بے چین ہو کر کہہ اٹھتے ہیں کہ
مرے اندر بڑی آندھی اٹھی ہے (اضطراب ۹۵)
ٍ سچ پوچھئے تو شاعری خود ایک اضطرابی کیفیت ہے …… ایک مسلسل تلاش ……. اور یہی تلاش برق یوسفی کو شاعری کے در پر لے آئی ہے …. اور وہ ایک لامتناہی سلسلے کی کڑیاں توڑنے اور جوڑنے کا عمل دہراتے ہوئے جدت کی طرف پرواز کرتے ہیں …… روایت سے بغاوت کرنے کی شعوری کوشش انہیں ترقی پسندی کی طرف لے آتی ہے۔ اس طرح ان کی زندگی اور شاعری کا مطمع نظر رہ جاتا ہے کہ سماج میں استحصال کرنے والی کالی قوتوں کو برباد کر دیا جائے۔ ترقی پسندی سے برق کا اس لئے ربط بڑھا کہ انہیں مخدوم کی رفاقت نصیب ہوئی۔ ابتداء میں برق یوسفی نے ترقی پسندی کو صرف اس لئے گلے لگایا کہ یہ اس عہد کا فیشن تھا۔ لیکن روایت سے بغاوت کرنے کی خواہش نے برق یوسفی کو ترقی پسندی کے معنی سمجھا دیئے۔ اور پھر حالات نے بھی انہیں ایک ایسا ماحول دیا جہاں ترقی پسندی صرف سرخ پرچم کو سلام کرنا ہی نہیں تھا بلکہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے سامراجی قوتوں سے ٹکرا جانے کا حوصلہ بھی ان کے خیال میں اسی آئیڈیالوجی سے ممکن تھا۔ اور برق یوسفی کامریڈ ہو گئے ….. باضابطہ طور پر مزدوروں کا نیتا۔ لیکن ان کے اندر چھپا ہوا شاعر اس پر آشوب دور میں بھی گنگناتا رہا……نظمیں ……غزلیں ……لیکن برق یوسفی نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ انھوں نے کبھی اپنے ذاتی مقصد کے حصول کے لئے اصولوں کی قربانی نہیں دی۔ اور اگر برق یوسفی نے یہ کیا ہوتا تو شاید وہ ایک کامیاب انسان رہے ہوتے …..مگر برق نے وفا کا سودا نہیں کیا…….اور بس یہی کہتے رہے۔
اے خرید ار وفا، تو نے کبھی سوچا ہے
جسم بکتا ہے محبت تو نہیں بک سکتی
عشق کی روح لطافت تو نہیں بک سکتی
برق کی زندگی غم سے عبارت ہے۔ حالات کا غم، سماج کا غم، محبت میں ناکامی کا غم،یہ نظم دیکھئے …… اس نظم میں برق کی داستان معاشقہ کا کیسا خوبصورت اظہار ہے ……صرف چند لفظ اور ان چند لفظوں نے ایک زمانے کو سمیٹ لیا ہے …… یہ نظم ہے ’’درپن‘‘ ملاحظہ کیجئے
’’درپن‘‘
وہ دروازہ کھلا تھا
اس کے آگے ایک آنگن تھا
شجر شہتوت کا تھا
موتیا کی بیل ہنستی تھی
اسی آنگن کے آگے
ایک کمرہ خوبصورت تھا
جہاں پر ایک الماری تھی
اس میں ایک درپن تھا
اسی درپن میں ہم تم مسکرا کر دیکھ لیتے تھے
کبھی ایک دوسرے کو منھ چڑا کر دیکھ لیتے تھے
کہا تھا میں نے آئینے کے آگے آدمی پاگل
کہا تھا تم نے آئینہ ہے میرے روپ سے بسمل
وہی کمرہ ہے میں ہوں اور درپن مجھ پہ ہنستا ہے
مرا ہی عکس مجھ سے پوچھتا ہے کون بسمل ہے
بتاؤ حسن دانشمند ہے یا عشق پاگل ہے
مرے لب کانپ جاتے ہیں مرا دل بیٹھ جاتا ہے
وہ دروازہ کھلا ہے
اس کے آگے ایک آنگن ہے
شجر شہتوت کا ہے، موتیا کی بیل ہنستی ہے
نظم کی ابتدائی حصے میں ماضی اور آخری حصے میں حال کی تصویر کشی ہے منظر وہی ہے …….. ماحول سارا جوں کا توں ہے۔ مگر صرف ایک چیز درمیان حائل ہو گئی ہے اور وہ ہے بے وفائی، اور حسن کی بنیاد دانشمندی پر ہے۔ جہاں فیصلہ بہت سوچ کر کیا جاتا ہے عشق کی بنیاد پاگل پن پر ہے۔ جہاں فیصلہ کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا جاتا کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔
حادثے برق یوسفی کے ساتھی رہے ہیں۔ اور ہر حادثے کو برق یوسفی نے بڑی معصومیت سے برداشت کیا ہے۔ ان کی سادہ دلی نے انہیں بھلے ہی ریشم و کمخواب سے محروم کر رکھا ہو لیکن یہی سادہ دلی ان کا سرمایہ حیات ہے۔ برق کے ہاں صرف محبت ہے …… وہ نفرت کرنا نہیں جانتے اور ان کے ہاں دشمنی کا کوئی تصور نہیں۔ درحقیقت برق یوسفی ایک بے حد معصوم شخصیت کا نام ہے۔ اور یہی کیفیت برق کی شاعری کا طرۂ امتیاز ہے …… ایک بہت مختصر نظم درج ہے جو شاید برقی کی شخصیت پوری طرح عکاسی کرتی ہے۔
ماں باپ سے لے کر بھائی تک
معشوق سے لے کر بیوی تک
ہر اک پہ بھروسہ ہم نے کیا
معلوم ہوا اس دنیا میں
بے لوث محبت مہنگی ہے
بے نام شرافت مہنگی ہے
رشتوں کا سمجھنا مشکل ہے
جذبوں کا سمجھنا مشکل ہے
لے ڈوبا ہے ہم کو بھولاپن
جل بجھ ہی گیا اپنا تن من
اور اس نظم کا عنوان ہے ’’تجربے کی چوٹ‘‘ ….. برق تجربے کی چوٹ کھاتے ہیں اور بڑی معصومیت سے اس چوٹ کو سہلاتے ہوئے دوسری چوٹ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ….. مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ انھیں جینے کا فن بھی آتا ہے۔ وہ تنہائی کے غم سے نبرد آزما نہیں ہوتے بلکہ چپکے سے سرگوشی کرتے ہیں۔
اکیلے پن کو کوئی خواب دے دوں
شب دیجور کو مہتاب دے دوں
برق کی شاعری میں تشبیہات اور استعارات کی بہتات نہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری کو صناعی اور کرافٹ مین شپ یا کاریگری سے نہیں سجایا۔ انھوں نے زبان و بیان اور عروض کی نزاکتوں کو خواہ مخواہ اپنے گلے کا ہار نہیں بنایا۔ برق کی شاعری میں جو سادگی ہے وہی ان کا طرۂ امتیاز بن جاتی ہے۔ چاہے وہ ایک مزدور کے لبوں ہر مچلتا ہوا نغمہ ہو، یا رومانی ماحول میں بہتے ہوئے سبک خرام جھرنے کی طرح ہلکا پھلکا اظہار ……..سادگی اور معصومیت اس کا اہم پہلو ہیں۔ یہی سادگی اور معصومیت برق کی شخصیت کا حصہ بھی ہے اور ان کے فن اور ان کی شاعری کا جزو بھی…….. زندگی کی تمام تر کلفتوں کے باوجود برق کے ہاں مایوسی نہیں بلکہ زندگی کی امنگ ہے۔ باتیں بہت کی جا سکتی ہیں۔ ایک ایک نظم، ایک ایک غزل بلکہ ایک ایک شعر پر دفتر کے دفتر سیاہ کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی شاید ایک سچے شاعر کا حق ادا نہ کیا جا سکے۔ میں آخر میں صرف دو سطریں اپنی آپا، اپنی زینت آپا، ہم سب کی زینت آپا کی تحریر سے پیش کرنا چا ہوں گا جو انھوں نے برق کے بارے میں لکھا ہے وہ لکھتی ہیں…….
’’برق کو مشکلات کا بھی اندازہ ہے اور غموں کا احساس بھی، مگر وہ ان سے مغلوب نہیں ایک نئی سحر کا آرزومند ہے۔ اس لئے تھکن،تنہائی، غم کی فراوانی، ناکامی و نامرادی کے باوجود اس کی نظموں میں ایک بہترین زندگی اور شریفانہ انسان دوستی موجود ہے اور اچھے مستقبل کی امید بھی۔‘‘
————————-٭٭————————-