“وقت پہ سونا وقت پہ اٹھنا
اچھا ہوتا ہے
اور ویسے بھی
راتوں کو تو الو جاگتے ہیں
چور کہیں کے!”٭
وہ ہنس دی تھی
میں بھی ہنسا تھا
—–
شبنم کے امکان سے باہر
ایک نمی محسوس ہوئی
سناٹے نے انگڑائی لے کر
کچے خواب کو نگلا
اور چوکنا ہو کر بیٹھ گیا
—–
رات کے ساڑھے تین بجے ہیں
میں جاگ رہا ہوں
ہم چپ بیٹھے ہیں
چور کہیں کے!
٭آج سے کم از کم بارہ برس پہلے لکھی گئی۔ میں تب بیس اکیس برس کا ایک جذباتی، مفلوک اور لادین لفنگا تھا جس کا قبلہ و کعبہ مغرب تھا اور ائمہ وہاں کے فلسفی اور ادیب۔ علامتیت، تجرید، لایعنیت، دہریت وغیرہ بھوت بن کر چمٹے ہوئے تھے۔ مصائب الگ قیامت پہ قیامت بن کر ٹوٹ رہے تھے۔ شاید میں پورا پاگل ہو جاتا اگر عین اس وقت کسی مہربان کی والہانہ محبت اور خودسپردگی مجھے زندگی سے جڑے رہنے پر مجبور نہ کر دیتی۔ اس کے اہلِ خانہ نے کئی بار مجھ سے تعلق کی پاداش میں نہایت بےدردی سے اسے پیٹا اور اس نے اپنا زخم زخم وجود سمیٹ کر، گھسیٹ کر، لا کر پھر میرے آگے ڈھیر کر دیا۔ یہ شاید کسی ایسی ہی رات کی کہانی ہے جو کچھ اور ڈھونڈتے ہوئے چند دن پہلے ایک پرانے ای میل کے کھاتے میں سے نکل آئی۔