حارث ولیمے کے اگلے روز ہی سارہ کو لے کر پیرس جاچکا تھا ۔۔۔
صارم ابھی اپنے آفس میں مصروف فائل لئے ٹہلتا ہوا اسے پڑھنے میں مصروف تھا کہ اچانک اس کے آفس کے نمبر پر کال آنے لگی ۔۔۔
کال ریسیو کرتے ہی اسکے چہرے کا رنگ اڑ گیا ۔۔۔
فون حنا بیگم نے کیا تھا جو مسلسل رو رہی تھی اور صارم کو فوراً آنے کیلئے کہہ رہی تھیں۔۔
جی ٹھیک میں آرہا ہوں۔۔۔
وہ ٹھیک تو ہے نہ ۔۔
صارم نے گھبرا کے پوچھا سامنے سے تسلی آمیز جواب نہ ملنے پر وہ بھاگتا ہوا آفس سے نکلا ۔۔۔۔
صارم جب بھاگتا ہوا آفس سے نکلا تو شاہویز جو اس سے ملنے آیا تھا وہ بھی اسکے پیچھے بھاگا۔۔
ہاسپٹل پہنچ کر اسنے سب کو آپریشن تھیٹر کے باہر دیکھا اسکی بڑی مما رورہی تھی بڑے پاپا خاموشی سے بینچ پر بیٹھے تھے نظریں جھکائے اور واسف ادھر ادھر ٹہلتے ہوئے دکھا۔۔
صارم واسف کی طرف بڑھ رہا تھا اسی وقت کسی نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔۔۔
صارم نے مڑ کے دیکھا تو پیچھے ثمراہ کھڑی تھی ۔۔۔
یہ سب کیسے ہوا۔۔
صارم کو سمجھ نہیں آرہا تھا ثناء کا ایکسیڈنٹ کیسے ہوگیا وہ اور واسف آج بے بی کیلئے شاپنگ کرنے گئے تھے ۔۔
ثناء کی ڈیلیوری میں ابھی 4 ماہ باقی تھے مگر اسنے پہلے ہی اپنے بے بی کی تمام شاپنگ کرلی تھی کپڑوں سے لے کر کھلونے تک ایک بے بی کے ضرورت کا ہر سامان انہوں نے خرید لیا تھا اپنے گھر میں بے بی کا کمرا بھی سیٹ کرلیا تھا تا کہ لاسٹ کے مہینوں میں ثناء صرف آرام کرے مگر یہ سب ہوگیا ۔۔۔
واسف بھائی اور ثناء آپی شاپنگ سے واپس آرہے تھے کہ ایک کار والا بہت اسپیڈ سے آیا آپی کار میں بیٹھ ہی رہی تھی کہ اسنے آپی کو ہٹ کیا وہ ڈرائیور ڈرنک تھا واسف بھائی بلکل ٹھیک ہیں پر آپی۔۔۔
اس سے آگے ثمراہ سے کچھ بھی بولا نہ گیا ۔۔۔
صارم جو اپنی بہن کی آنکھوں میں کبھی آنسوں نہیں دیکھ سکتا تھا آج اسکی سلامتی کیلئے دعائیں مانگ رہا تھا ۔۔۔
حارث اور سارہ ہنی مان پر پیرس گئے ہوئے تھے انہیں فون کردیا گیا تھا اور وہ پہلی ہی فلائٹ سے واپس آرہے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد ڈاکٹرز آپریشن تھیٹر سے باہر آئے تو انہوں نے واسف کو اپنے کیبن میں بلایا ۔۔۔
واسف صارم کے ساتھ ڈاکٹر کے کیبن چلا گیا۔۔۔
ڈاکٹر نے ان دونوں کو بیٹھنے کا کہہ کے خود اپنی چئیر پر بیٹھ گئی۔۔
دیکھئے مسٹر واسف آپکی وائف اب خطرے سے باہر ہیں مگر۔۔۔
مگر کیا ۔۔۔ واسف اور صارم ایک ساتھ بولے۔۔۔
ہم اپکے بے بی کو بچہ نہ سکے انکی پریگنینسی میں پہلے ہی تھوڑی مشکلات تھیں جبھی انہیں زیادہ سفر کرنے سے بھی منع کیا تھا ۔۔۔
مگر مجھے دکھ کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ آپکی وائف کبھی ماں نہیں بن سکتیں۔۔۔
کیوں کہ انکی انٹرنل انجریز بہت ہیں اور اگر وہ کوشش بھی کریں گی تو انکی جان کو خطرہ ہے۔۔
ڈاکٹر کی بات سن کے واسف خاموشی سے سب اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا جبکہ صارم اسکی اس تکلیف کو سمجھ سکتا تھا کیوں کہ وہ بھی تو باپ بننے والا تھا۔۔۔
ہم انہیں بس تھوڑی ہی دیر میں روم میں شفٹ کردینگے پھر آپ سب ان سے مل سکیں گے۔۔۔
ڈاکٹر کی بات سن کے صارم حارث کو لئے باہر آگیا ۔۔۔
باہر آکر واسف صارم کے گلے لگ کر بہت رویا اور صارم نے اسے رونے بھی دیا دکھ بھی تو بہت بڑا تھا اسکا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صارم حارث کو لے کر باہر چلا گیا تھا اور قریب 2 گھنٹے بعد وہ لوگ واپس آئے
جب وہ لوگ روم میں گئے تو ثناء کو ہوش آگیا تھا اور واسف کو دیکھ کے اسکے اسکے کہے وہ بول یاد آئے جب وہ لوگ آج دوپہر شاپنگ کر رہے تھے اپنے بےبی کی۔۔۔
واسف اپنے ساری شاپنگ لڑکے کی کی ہے اور اگر ہماری بیٹی ہوگئی تو۔۔
تو کیا کوئی بات نہیں ہم دوبارہ شاپنگ کرلینگے ویسے بھی اگر میری بیٹی ہوئی نہ تو میں اسے لڑکوں سے کم تھوڑی سمجھونگا۔۔۔
مگر میں جانتا ہوں میرا بیٹا ہی آئے گا اور دیکھنا اسکا نام میں سعدن رکھونگا۔۔۔
ثناء نے واسف کو دیکھا تو وہ رودی۔۔۔
ان دونوں کو اکیلا چھوڑنے کیلئے سب روم سے باہر آگئے۔۔
ہم نے ہمارا بیٹا کھو دیا واسف آپکو پتہ ہے ہمارا بیٹا ہی تھا آپ سچ کہہ رہے تھے میں نے ہی نہیں مانا شاید وہ مجھسے ناراض ہوگیا۔۔۔
واسف کے گلے لگ کے ثناء پھوٹ پھوٹ کے رودی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثناء کو سب لوگ 2 دن بعد اسکے گھر لے جانے کے بجائے شاہ ولا میں لے آئے تھے اس گھر میں اسکے بے بی کا سارا سامان اسکا سجا ہوا روم جو تھا۔۔۔
سبھی اسکا دل بہلانے میں لگے رہتے تھے۔۔۔
صارم اب اور بھی زیادہ ثمراہ کا خیال رکھنے لگ گیا تھا جو کچھ بھی واسف اور ثناء کے ساتھ ہوا وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔
کبھی کبھی ثمراہ صارم کا حد سے زیادہ روک ٹوک پر جھنجھلا جاتی پر وہ جانتی تھی کہ صارم ایسا کیوں کر رہا ہے۔۔۔
حارث اور سارہ بھی اب پیرس سے واپس آگئے تھے۔۔۔
آپی پلیز کچھ کھالیں آپنے صبح ناشتہ بھی نہیں کیا تھا ۔۔
صارم اور حارث دونوں ثناء کو کھانا کھلانے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہ کچھ بھی نہیں کھا رہی تھی۔۔
دیکھو تم دونوں مجھے ابھی بھوک نہیں ہے جب لگے گی میں خود کھا لونگی۔۔۔
ثمراہ اور سارہ یہ منظر دور سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔
لاؤ مجھے دو یہ پلیٹ اور آپ لوگ جاؤ یہاں سے۔۔۔
ثمراہ نے صارم کے ہاتھ سے پلیٹ لی اور دونوں کو وہاں سے ہٹنے کا کہہ کر خود ثناء کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔
آپی آپ ہی تو سب کو کہتی تھی نہ کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے کھانے سے منہ نہیں موڑنا چاہئے پھر یہ سب کیا ہے۔۔
دیکھو نہ ثمراہ میرا بچہ میری ساری بھوک ہی لے گیا میرا اب کچھ بھی کرنے کو دل نہیں کرتا ۔۔۔
دیکھنا آپی وہ بہت جلد اپکے پاس واپس آئے گا۔۔۔
ثمراہ نے ثناء کو تسلی دی۔۔۔
میرا دل رکھنے کیلئے کہہ رہی ہو نہ تم ۔۔۔ مجھے پتہ ہے میں کبھی ماں نہیں بن سکتی ۔۔۔ ثناء کی آنکھوں میں پانی آنے لگا۔۔۔
نہیں آپی میں وعدہ کرتی ہوں آپ سے کہ آپ بہت جلد اپنے بیٹے کو اپنی گود میں کھلاؤ گی۔۔۔
ثناء ثمراہ کے گلے لگ گئی ۔۔۔
اچھا اب تو کھانا کھالیں ثمراہ نے اب کی بار گزارش کی تو ثناء مسکرا دی اور ثمراہ کے ہاتھ سے کھانا کھانے لگی۔۔۔
سبھی گھر والے ان دونوں کے دیکھ کے مسکرا دئیے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دنوں بعد شاہویز آج پھر صارم کے آفس اس سے ملنے آیا۔۔۔
لاسٹ ٹائم جب وہ آیا تھا تو صارم بھاگتا ہوا ہاسپٹل گیا تھا شاہویز بھی اس کے پیچھے گیا تھا مگر جب اسے سچویشن کا پتہ چلا تو وہ وہاں سے واپس آگیا اور اس نے صارم کو چیٹ نہ کیا ہوتا تو اس وقت وہ صارم کو اکیلا بلکل نہ چھوڑتا شرمندگی کی وجہ سے وہ ثمراہ کا سامنہ نہیں کرپایا۔۔۔
کیسے ہو صارم ۔۔۔ صارم کے کیبن میں شاہویز داخل ہوا۔۔۔
ٹھیک ہوں تم کیسے ہو۔۔
صارم نے اسکی طرف دیکھے بغیر ہی اسے جواب دیا اور چئیر کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔
میں ٹھیک نہیں ہوں یار ۔۔۔
شاہویز نے پشیمانی سے کہا۔۔
کیوں کیا ہوا بھلا۔۔اب کی بار صارم نے شاہویز کی طرف دیکھ کے کہا۔۔
شرمندہ ہوں یار میں نے جو کچھ بھی کیا میرا یقین کرو مجھے سچ میں نہیں پتہ تھا تم اس سے اتنی محبت کرتے تھے میری حارث سے بات ہوتی تھی اس نے مجھے سب بتایا تھا تمہارے اور ثمراہ کے بارے میں ۔۔
شاہویز نے سر جھکا کے ندامت سے کہا تو صارم کا اس پہ غصہ ختم ہوگیا۔۔۔
تو پھر اب تم یہاں کیا کرنے آئے ہو ۔۔۔ صارم نے ابکی بار لہجہ نرم رکھ کے بات کی۔۔
ایک تم ہی تو سچے دوست ہو میرے تم بھی جانتے ہو میری خاموش طبیعت کی وجہ سے میں کبھی دوست نہ بنا سکا تم ہی میرے پاس آئے تھے دوستی کیلئے مجھے اکیلا دیکھ کے ۔۔۔ پلیز یار میں 4 دن کی پسند کیلئے سالوں پرانہ دوست نہیں کھو سکتا مجھے معاف کردو۔۔۔
صارم شاہویز کی بات سن کے مسکرا دیا ۔۔
مجھے نہیں پتہ تھا تم اتنی گہری باتیں بھی کر سکتے ہو۔۔
یار بہت دنوں سے تم سے ملنے کا سوچ رہا تھا آیا بھی تھا مگر تم آفس سے چلے گئے تھے تمہیں اس طرح جاتا دیکھا تو میں تمہارے پیچھے آیا تھا مگر ہاسپٹل پہنچ کر ثناء آپی کا پتہ چلا بہت دکھ ہوا یار انکا سن کے۔۔۔
ہاں یار کیا بتاؤ ہم سب بہت کوشش کر رہے ہیں انہیں پھر سے ایک نارمل لائف جینے میں مگر وہ ہر پل اپسیٹ رہتی ہیں۔۔۔
صارم اور شاہویز کی آپس میں ناراضگی ختم ہوئی تو وہ اپنی باتوں میں مگن ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مما میں نے کھانا لگا دیا ہے اور سب کو بول بھی دیا ہے بس میں اب ثمراہ کیلئے کھانا لے کر جارہی ہوں۔۔۔
سارہ حنا بیگم کو بولتی ہوئی ثمراہ کیلئے کھانا اسکے روم میں لے آئی۔۔
میں اندر آجاؤ کیا۔۔۔
سارہ نے دروازہ ناک کیا۔۔
ہاں آجاؤ پوچھ کیوں رہی ہو بھلا۔۔۔
بس ایسے ہی وہ میں تمہارے لئے کھانا لائی ہوں۔۔
سارہ نے ثمراہ کو کھانا دیا اور اسکے پاس بیٹھ گئی۔۔
تم کیوں لے آئی میں نیچے آجاتی۔۔
ثمراہ نے سارہ سے تھوڑی شرمندگی سے کہا پہلے ہی اس پر اتنی زمہ داری آگئی تھی ثمراہ کی طبیعت کی وجہ سے۔۔
کوئی بات نہیں آج صارم نہیں ہے تو میں لے آئی۔۔
اور میں جانتی ہوں تم اب پاپا اور حارث کے سامنے تھوڑا ان کمفرٹیبل ہوتی ہو ہم سمجھ سکتے ہیں انفیکٹ مما کو تمہاری یہ عادت اچھی بھی لگتی اور ویسے بھی اب دن ہی کتنے ہیں آج کل کی ہی بات ہے ۔۔۔
سارہ نے مسکرا کے پیار سے کہا تو ثمراہ اسے بس پیار سے دیکھے گئی۔۔
کون کہتا ہے ایک گھر کی 2 بہوؤں میں پیار نہیں ہوتا۔۔۔
تمہاری طبیعت کیسی ہے اب ۔۔ سارہ نے ثمراہ کا اترا چہرا دیکھا۔۔
طبیعت تو بس ایسی ہی رہتی ہے بس ۔۔۔ تم جا کے کھانا کھالو تمہارے میاں صاحب انتظار کر رہے ہونگے۔۔
ثمراہ کو سارہ کے کھانے کا احساس ہوا تو وہ اسے حارث کے بارے میں بولنے لگی۔۔
ہاں ٹھیک ہے میں جارہی ہوں تمہیں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو مجھے کال کر دینا اوکے۔۔
سارہ بول کے کمرے سے جاچکی تھی اور اب ثمراہ کھانا کھانے کے بجائے صارم کو کال کرنے لگی۔۔
کہاں ہیں آپ۔۔۔ فون ریسیو کرتے ہی ثمراہ نے سوال کیا۔۔
آفس میں ہی ہوں کیوں کیا ہوا۔۔
ٹائم دیکھیں زرا۔۔
او شٹ 8 بج گئے تمہارے کھانے کا ٹائم ہے رکو میں بس تھوڑی دیر میں آیا۔۔
جلدی نہیں کرو مجھے سارہ کھانا دے گئی ہے مجھے بس آپکی فکر ہورہی تھی اسی لئے کال کی۔۔
ثمراہ نے صارم کو جلد بازی کرتے سنا تو اسے روکنے کیلئے کہنے لگی۔۔۔
تو بیوی سیدھا سیدھا یہ کہو نہ تمہیں میری یاد آرہی ہے۔۔ صارم نے شرارت سے کہا تو ثمراہ ہنس دی۔۔
آپکی یاد تو مجھے ہر پل آتی ہے مگر آپ جلدی نہ مچائیں آرام سے آئیں۔۔
ثمراہ نے محبت سے کہا تو صارم نے ہامی بھر کے کال کاٹ دی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قریب ایک گھنٹے بعد صارم گھر آیا تو ثمراہ کھانا کھا چکی تھی۔۔
لو بیگم آج تم نے میرے بغیر ہی کھانا کھالیا۔۔۔
ہاں تو آپکا انتظار کرتی کیا۔۔
ثمراہ نے مزاق میں کہا تو صارم اسے دیکھنے لگا۔۔
بیوی اگنور کروگی اب مجھے۔۔
ہاں بلکل۔۔
صارم نے ثمراہ کو اپنے حصار میں لئے اسکی آنکھوں میں دیکھ کے کہا۔۔
کر کے دکھاؤ اگر کیا نہ تمہیں اٹھا کے لے جاؤنگا یہاں سے اتنی دور کے تم چاہ کر بھی مجھے اگنور نہیں کر پاؤگی۔۔
صارم کی آنکھوں میں دیکھ کے ثمراہ بلش کرنے لگی۔۔
آپ جائیں فریش ہوں اور کھانا کھائیں۔۔
ویسے ہی کافی دیر ہوگئی ہے۔۔
ثمراہ نے صارم کو دور کرتے ہوئے کہا تو صارم اسکا ماتھا چوم کے واشروم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپریشن تھیٹر کے باہر صارم ادھر اُدھر چکر لگا رہا تھا جبکہ باقی گھر والے اسے دیکھ کے ہنس رہے تھے ۔۔۔
یہاں آکر بیٹھ جاؤ صارم ۔۔
شمس صاحب نے کہا تو صارم نے پریشانی سے انہیں دیکھا۔۔۔
بڑے پاپا میں کیسے بیٹھ جاؤ ثمراہ اندر ہے اور میرا بےبی بھی مجھے چین نہیں آئے گا جب تک ڈاکٹر آکر کوئی نیوز نہیں دینگے۔۔
صارم ثناء کے واقعے کے بعد گھبرا رہا تھا۔۔
تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر باہر آئی تو صارم نے ان سے سوالات کرنا شروع ہوگیا۔۔
ڈاکٹر میری وائف کیسی ہے میرا بے بی وہ تو ٹھیک ہے نہ اور اپ نے اتنی دیر کیوں لگائی بتائیں۔۔
ارے ارے رک جائیں مجھے بولنے تو دیں۔۔
ڈاکٹر نے صارم کو مسلسل بولتا دیکھا تو اسے ٹوک دیا۔۔
مبارک ہو آپکو ٹوینس بےبی ہوئے ہیں ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔۔۔
ڈاکٹر بتا کے جاچکی تھی صارم کا تو مانو خوشی سے برا حال تھا۔۔۔
باقی گھر والے بھی یہ خوش خبری سن کے خوش ہوگئے۔۔
مبارک ہو تمہیں بیٹا شمس صاحب حنا بیگم ظفر صاحب عائشہ بیگم ثناء واسف حارث اور سارہ سبھی نے صارم کو مبارک باد دی
تھوڑی دیر بعد ثمراہ کو کمرے میں شفٹ کردیا گیا۔۔
صارم نے ثمراہ کا ماتھا چوم کے اسکا شکریہ ادا کیا۔۔
میں تمہارا یہ احسان کبھی نہیں چکا پاؤنگا۔۔ تم نے جو مجھے دنیا کی سب سے بڑی خوش خبری دی ہے۔۔۔
آپ کا بھی شکریہ مجھے اتنا چاہنے کیلئے۔۔ ثمراہ نے بھی اتنی ہی محبت سے صارم کو جواب دیا۔۔۔
سبھی گھر والے روم میں آئے تو نرس بےبیز کو بھی لے کر آگئی۔۔
نرس نے بی بیز صارم کے ہاتھوں میں دے دہئے۔۔
ایک بے بی بلیو کلر کے شال میں تھا اور ایک پنک میں
ثمراہ نے اپنا بیٹا گود میں لیا اسکا ماتھا چوما اسے گلے لگایا اور ثناء کو بلایا۔۔۔
آپی پلیز ادھر آئیں۔۔
ہاں بولو ۔۔ ثناء نے سوچا شاید ثمراہ کو کوئی کام ہو۔۔
اسے گود میں لیں ۔۔ ثمراہ نے اپنا بیٹا ثناء کی گود میں دیا۔۔۔
ثناء نے بچے کو گود میں لے کر پیار کیا۔۔
میں نے کہا تھا نا آپکو آپی کہ بہت جلد آپ اپنے بیٹے کو اپنی گود میں کھلائیں گی تو کھلا لیں اپنے بیٹے کو ہمیشہ اپنی گود میں ۔۔۔
ثمراہ کی بات سن کے ثناء ثمراہ اور صارم کو بے یقینی سے دیکھنے لگی۔۔
ظفر صاحب اور عائشہ بیگم اپنی بیٹی کو فخر سے دیکھ رہے تھے اور شمس صاحب اور حنا بیگم مان سے۔۔۔
صارم کو ثمراہ کا فیصلہ جان کے آج اپنی محبت پر غرور ہورہا تھا کہ کیسے وہ اسکی بہن کو اپنی پہلی اولاد دے رہی تھی اسکی بہن کو زندگی بھر کی خوشیاں دے رہی تھی وہ جو اب ماں نہیں بن سکتی ثمراہ نے اسے اپنی اولاد کی ماں بنا دیا تھا ۔۔۔
تم سچ کہہ رہی ہو ثناء نے ثمراہ کو بے یقینی سے دیکھا ۔۔
جی آپی میں جانتی ہوں میرے بیٹے کو آپ شاید مجھ سے بھی زیادہ پیار کرینگی۔۔
ثمراہ نے مسکرا کے ثناء کو دیکھا تو ثناء آکر اسکے گلے لگ گئی۔۔۔
واسف سے ثمراہ کے سر پہ ہاتھ رکھا اور اسکا اور صارم کا شکریہ ادا کیا۔۔۔
چلیں اب بچوں کا نام تو رکھیں حارث نے کہا تو واسف نے اپنے بیٹے کا نام سعدن رکھا ۔۔۔
صارم نے اپنی بیٹی کو ثمراہ کو دیا ۔۔اور اسے ہی نام رکھنے کو کہا
ثمراہ نے اسے پیار کیا ۔۔۔
اور اسکا نام مرحا رکھا۔۔
سبھی کو دونوں بچوں کے نام بہت پسند آئے۔۔۔
شایاں آفس سے آتے ہوئے فیز کے ساتھ ہاسپٹل آیا اور ڈھیروں مٹھائی لے آیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں کب سے پتہ تھا کہ ہمارے 2 بچے اس دنیا میں آئینگے۔۔
صارم نے ثمراہ سے سوال کیا ۔۔۔
ثمراہ آج ہی 2 دن کے بعدہاسپٹل سے گھر واپس آئی تھی اور اب مرحا کو سلا کر آرام کر رہی تھی
مجھے شروع سے پتہ تھا۔۔ بس تمہیں اسلئے نہیں بتایا تاکہ تمہیں سرپرائیز دے سکوں مگر جب آپی کے ایکسیڈنٹ کے بعد میں نے انکی وہ حالت دیکھی تھی تبھی میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ایک بے بی میں انکو ہی دونگی ۔۔
مجھے یقین تھا تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔۔
ثمراہ نے صارم کو ساری بات بتائی تو صارم نے ثمراہ کا ہاتھ پکڑ کے کہا۔۔
تم نے یہ فیصلہ کر کے آپی کو زندگی بھر کی خوشی دے دی مجھے فخر ہے تم پہ ۔۔۔
میں جانتا ہوں یہ فیصلہ تمہارے لئے آسان نہیں ہوگا مگر تم نے پھر بھی سب گھر والوں کو اتنی بڑی خوشی دی اور مجھے ایک بہت ہی خوبصورت ڈول دی۔۔۔
صارم نے ثمراہ کا شکریہ ادا کیا اور اپنی ڈول کو پیار سے دیکھ کے کہا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
5 سال بعد آج ثمراہ اور صارم ایک پرسکون زندگی گزار رہے تھے انکی ڈول مرحا کے بعد اللّٰہ نے انہیں 2 سال بعد بیٹے کی نعمت سے نوازا جس کا نام انہوں نے ماہیر رکھا
حارث اور سارہ کا بھی ایک بیٹا تھا جسکا نام انہوں نے ریان رکھا تھا ۔۔۔
شایان اور اریشہ کی بھی 1 سال بعد شادی ہوگئی تھی اور اب انکی ایک بیٹی تھی زینب۔۔
سبھی اپنی اپنی زندگی میں خوش اور مطمئن تھے فیز بھی انجینئرنگ کی پڑھائی کررہا تھا ظفر صاحب اور عائشہ بیگم اپنی پوتی میں ہی مصروف رہتے تھے جبکہ شمس صاحب اور حنا بیگم بھی اپنے پوتے پوتی اور نواسے کے ساتھ مصروف رہتے تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم نے میری زندگی میں آکر میری زندگی سنوار دی میری کیوٹی پائے۔۔۔
صارم نے ثمراہ کو گلے لگاتے ہوئے کہا تو ثمراہ خجل سی ہوئی۔۔
چھوڑیں مجھے اب تو تھوڑی شرم کریں 2 بچوں کے باپ بن گئے ہیں آپ ۔۔۔ ثمراہ نے صارم کو شرم دلانے کی نہ کام کوشش کی تو صارم نے اسکے کان میں سرگوشی کی۔۔۔
دو تو کیا دس بچوں کے بعد بھی میں ایسا ہی رہوں گا۔۔
ماہیر اور مرحا کھیلتے ہوئے کمرے میں آئے تو صارم ایک دم پیچھے ہوا
بچے ثمراہ کو لئے باہر لان میں چلے گئے جبکہ صارم بھی انکے پیچھے چل دیا۔۔۔
درخت سے ٹیک لگائے صارم ثمراہ اور اپنے بچوں کو پیار سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
اور اپنی قسمت پر رشک کر رہا تھا کیونکہ ایک وقت ایسا آیا تھا کہ اسنے اپنے سب رشتوں کو کھو دیا تھا اور آج اسکے پاس سب کچھ تھا ماں باپ بھائی بہن اسکی محبت اور اسکی ڈول اور اسکا پرنس۔۔۔
اللّٰہ کا شکر ادا کرتا وہ بھی بچوں کے ساتھ کھیلنے لگا۔۔۔
ختم شد۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...