صارم اور ثمراہ دونوں ہی بہت خوش تھے اپنی زندگی میں آنی والی خوشیوں سے وہ لوگ ایک مہینے مری میں گزار کر ہی واپس کراچی آگئے تھے کیونکہ وہاں کا موسم دن بہ دن خراب ہورہا تھا اور ثمراہ کو بھی سب کے ساتھ رہنے کی ضرورت تھی۔۔۔
صارم نے اس ایک مہینے میں ثمراہ کا ایسے خیال رکھا تھا جیسے وہ کوئی پرنسس ہو مگر یہ دونوں کا ہی پہلا ایکسپیرئنس تھا تو صارم نے اسے گھر لے جانا ہی ٹھیک سمجھا۔۔
گھر پہنچ کر وہ سب سے ملے سبھی نے ان دونوں کو گلے لگایا مبارک باد بھی دی
وہ لوگ اپنے ساتھ خوشخبری لائے تھے مگر گھر میں پہلے ہی دو خوشخبری موجود تھی پہلی یہ کہ حارث اور سارہ کی شادی اگلے مہینے ہی طے کردی گئی تھی اور دوسری یہ کہ ثناء اور واسف بھی خیر سے ماں باپ بننے جارہے تھے ۔۔
ثناء اور ثمراہ دونوں ہی امید سے تھی حنا بیگم نے شادی آگے بڑھانے کا کہا تو سب نے ہی منع کردیا۔۔
مما میں تو کب سے حارث کی شادی کا انتظار کر رہی تھی اور آپ کہہ رہی ہیں کہ شادی آگے بڑھائیں گے۔۔
ثناء نے شکوہ کیا۔۔
لیکن بیٹا تم اور ثمراہ دونوں کو ہی ریسٹ کرنا چائیے شادی کے دس بکھیڑے ہوتے ہیں میں تم دونوں سے کچھ بھی نہیں کروانا چاہتی اور اتنا سب میں اکیلے نہیں کرسکتی۔۔
حنا بیگم نے بیٹی اور بہو کو سمجھانا چاہا جو شاید انہیں ناممکن لگ رہا تھا ان سب کے درمیان گھر کے جینٹس خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔۔۔ عورتوں کے بیچ بولنے کا مطلب سارا ملبہ خود پہ دالنا ۔۔۔
مما ہم ایک ایوینٹ پلینر سے بات کر سکتے ہیں سارے انتظامات وہ ہی دیکھیں گے تو ہمارا کام تو تقریباً ختم ہی ہوجائے گا رہا چھوٹے موٹے کام اور رسمیں تو یہ سب تو ہم کر ہی سکتے ہیں۔۔
ثمراہ نے سب کو حل بتایا تو سبھی کو اسکا آئیڈیا پسند آیا۔۔۔ اور حنا بیگم بھی مان گئیں۔۔۔
شام کے وقت صارم ثمراہ کو لے کر ظفر صاحب کے گھر لے گیا۔۔
ظفر صاحب کو 2 دن پہلے ہی گھر شفٹ کیا گیا تھا ہاسپٹل سے اب وہ بلکل تندرست اور صحت مند تھے ۔۔۔
گھر پہنچتے ہی سب دونوں سے ملے دونوں کو مبارک باد دی اور پھر صارم کی وہ ہی خاطر داری کا دور چلا جو کہ ہمیشہ اسکے آنے پر ہوتا تھا مگر اب وہ گھبراتا نہیں تھا بلکہ اب تو وہ بیٹھ کے خود ہی فرمائیشیں کرتا تھا جسے عائشہ بیگم خوشی خوشی پورا کرتی تھیں۔۔۔
رات 11 بجے کے قریب وہ لوگ گھر واپس آئے ۔۔۔
سنو کیوٹی پائے میں شاور لینے جارہا ہو تم مجھے ادھر اُدھر ٹہلتی بلکل نہ دکھو بیڈ پر پیر اوپر کرکے بیٹھو اور پھر جو چاہے کرو ۔۔
صارم یہ بول کے واشروم میں گھس گیا اور ثمراہ کا موڈ بری طرح خراب ہوگیا۔۔
اسکی آنکھوں میں نمی آنے لگی ۔۔ صارم مجھے ہر بات پر ٹوکتے ہیں ایسے جیسے میں کوئی چھوٹی بچی ہوں جب دیکھو یہ کرو یہ نہ کرو کیا مجھ مے خود عقل نہیں ہے کیا۔۔
وہ بلند آواز میں شکوے کر رہی تھی جسے واشروم سے نکلتے ہوئے صارم نے سن لیا تھا اور اب وہ یہ سب سن کے غصہ ہونے کے بجائے مسکرا رہا تھا ۔۔۔
صارم اچھی سے جانتا تھا کہ یہ سب شکوے صرف ثمراہ کی اس حالت میں موڈ سوینگ کی وجہ سے ہیں جب اسکا موڈ ٹھیک ہوگا تو وہ انہیں باتوں کا شکریہ کرتے نئی تھکتی تھی۔۔۔
کیا ہوا میری کیوٹی پائے کو۔۔ غصہ ہے مجھسے۔۔۔
صارم کے اتنے پیار سے پوچھنے پر ثمراہ نے آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لئے بولنے لگی آپ مجھ پر اتنی پابندیاں لگاتے ہو کچھ کرنے نہیں دیتے مجھے میری پسند کا کچھ کھانے نہیں دیتے ۔۔
ثمراہ مسلسل شکایتیں کررہی تھی اور صارم سن رہا تھا خاموشی سے۔۔
جان تم سمجھتی کیوں نہیں ہو میں تمہیں کوئی بھی ایسی ویسی چیز نہیں کھلا سکتا یہ ہمارے بے بی کیلئے حارمفل ہے ۔۔
صارم کے اسے سمجھانے پر ثمراہ اور زور سے رونی لگی۔۔۔
ثمراہ کیلئے دودھ لے کر آتی حنا بیگم کمرے میں آئیں اور ثمراہ کو روتا دیکھ گھبرا گئیں۔۔
کیا ہوا بچے رو کیوں رہی ہو۔۔ صارم نے انہیں ثمراہ کے رونے کی وجہ بتائی تو حنا بیگم ہنس دیں ۔۔
صارم بیٹا یہ تم غلط کر رہے ہو اس حالت میں ہونے والی ماں جس چیز کی فرمائش کرے پوری کردینی چاہئے۔۔ یہ اسکا ہق ہے وہ تمہیں تمہارا وارث دینے والی ہے تمہیں اسکی ہر بات ماننی چاہئے۔۔۔
بڑی مما اسکی ہر فرمائیش سر آنکھوں پہ مگر میں جان بوجھ کر اسے الٹی سیدھی چیزیں کھانے نہیں دے سکتا اسے وہ سب کام نہیں کرنے دے سکتا جس سے اسے تھکن ہو اور اسکی طبیعت بگڑے۔۔۔
بیٹا ایسی کونسی چیز ہے جو گھر میں نہیں بن سکتی ثمراہ جو بھی مانگے تم وہ اسے گھر میں بنوا کے دو اس سے تم مطمئن رہو گے اور وہ بھی خوش رہی بات ایکٹیویٹیز کی تو جس کام میں اسے تھکن ہو تم اسکے ساتھ وہ کام کروالو تاکہ وہ خوش رہے اور تھکن سے بچ بھی جائے ۔۔۔
بڑی مما یہ ہر بیوی اپنی پریگنینسی کے دوران ایسی ہی ہوجاتی ہے۔۔
صارم نے سر خجاتے ہوئے حنا بیگم سے پوچھا ۔۔
ہاں تقریباً سب ہی مگر ہر وقت نہیں کبھی کبھی ہی ایسی ضد بندھ جاتی ہے جو پوری نہ کی جائے تو واویلا ہوتا ہے گھر میں۔۔ حنا بیگم نے مسکراتے ہوئے سمجھایا تو صارم بھی اب مسکرانے لگا۔۔۔
وہ تو شکر ہے صارم بڑی مما کو تھوڑا دور لے جاکر بات کررہا تھا ورنہ آگر ثمراہ نے یہ سب سن لیا ہوتا تو اور زور سے روتی ۔۔۔
کیا چاہئے میری بیٹی کو۔۔
حنا بیگم نے اپنی لاڈلی بہو سے پیار سے کہا تو ثمراہ فاتحانہ نظروں سے صارم کو دیکھنے لگی۔۔
مما مجھے آئسکریم کھانی ہے مگر صارم مجھے لاکر نہیں دے رہے۔۔
ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر تک بھجواتی ہوں ۔۔حنا بیگم یہ بول کے اسے دودھ کا گلاس تھما کر پورا ختم کرنے کا کہہ کے چلی گئیں۔۔۔
ناراض ہو۔۔۔ صارم کچھ دیر بعد ثمراہ کے برابر میں بیٹھ کے بولا۔۔
نہیں تو بلکہ سوری کرنا چاہتی ہوں پتہ نہیں کیا کیا بول گئی آپ کو آپ تو میرے لئے ہی کہہ رہے تھے اور میں الٹا آپ پر ہی غصہ کر رہی تھی۔۔۔
ائسکریم کھانے کے بعد اسکا موڈسوینگ ختم ہوتے ہی اسے احساس ہوا اسنے صارم کو کچھ زیادہ ہی سنا دی ۔۔۔
نہیں ایسا کچھ نہیں ہے بس میں تھوڑا اوور پوزیسو ہوگیا تھا بڑی مما نے مجھے سمجھایا ہے اب سے جو تم کہوگی میں تمہیں وہ ہی لا کر دونگا۔۔۔
صارم نے ثمراہ کا چہرا ہاتھوں کے پیالے میں بھر کے پیار سے کہا تو ثمراہ نے صارم کے سینے سے لگ کے آنکھیں موند لیں۔۔۔
پلیز ہمیشہ مجھ سے ایسی ہی محبت کرنا ۔۔۔ ثمراہ نے نیم غنودگی میں کہا تو صارم نے اسے بیڈ پہ لٹا کر خود دوسری طرف آکر لیٹ گیا ۔۔
ثمراہ سو چکی تھی اور صارم آج کے دن کے بارے میں سوچ رہا تھا کتنا اچھا دن تھا آج کا اسے اتنی خوشیاں ملی وہ بھی ایک ساتھ پہلے وہ صرف پاپا بننے والا تھا اب وہ ماموں بھی بنے گا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے ہفتے سے ہی حارث کی شادی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں چونکہ بارات لاہور جانی تھی تو صارم اور واسف دونوں ہی اپنی اپنی زوجہ کو لئے ہاسپٹل میں موجود تھے ثمراہ کو ڈاکٹر نے سفر کرنے کی اجازت دے دی تھی جبکہ ثناء کو سفر کرنے سے سختی سے منع کیا گیا تھا۔۔۔
یہ کیا بات ہوئی میں اپنے بھائی کی بارات میں نہیں جاسکتی گھر آکر ہی ثنا اب غصے میں بیٹھی تھی ۔۔۔
پہلے اس بات کی خبر ہوتی تو شادی آگے بڑھا لیتے۔۔
حارث نے ثنا کا اترا ہوا چہرا دیکھا تو بولا کیونکہ وہ اپنی بہن کی خوشی سے بڑھ کر کسی چیز کو اہمیت نہیں دیتا تھا اور یہی حال صارم کا بھی تھا ۔۔۔
ثناء نے حارث کو پیار سے دیکھا جو اسکے لئے پریشان ہورہا تھا۔۔
نہیں حارث ایسی کوئی بات نہیں میں مایوں اور ولیمہ اٹینڈ کرلو گی اور ویسے بھی دلہن تو یہیں آنی ہے تو کوئی فرق نہیں پڑھتا ۔۔۔ ثناء نے سب کے اترے چہرے دیکھ کے بات بنائی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی کے دن وہ لوگ لاہور کے ایک بہت بڑے شادی ہال میں تھے سارہ کی شادی کے تمام انتظامات اسکے چچا اور تایا کر رہے تھے ۔۔
سرخ اور سبز رنگ کے لہنگے میں سارہ بہت حسین لگ رہی تھی اور انیسہ بیگم اپنی پوتی کی بلائیں لیتی نہ تھک رہی تھیں۔۔ اسکی سرخ و سفید رنگت پر حارث کی محبت کا رنگ چھلک رہا تھا حارث نے بھی کاہیہ کلر کی شیروانی پہنی تھی جس میں وہ بہت ہی ہینڈسم لگ رہا تھا ۔۔۔
ثمراہ کا جسم اب تھوڑا بھرا بھرا ہوگیا تھا 4th month کے اسٹارٹ کی وجہ سے اب اسکی طبیعت کچھ سمبھلی ہوئی تھی مگر صارم ابھی بھی اسکے آگے پیچھے ہی گھوم رہا تھا کہ کہیں اسے کسی چیز کی ضرورت نہ پڑھ جائے۔۔۔
گولڈن کلر کی میکسی میں ثمراہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی اسکا جسم تھوڑا بھاری ہوگیا تھا مگر اسے ایک الگ ہی روپ بھی دے رہا تھا صارم ثمراہ کو بار بار دیکھنے سے کترا رہا تھا کہ کہیں اسی کی نظر نہ لگ جائے اسکی کیوٹی پائے کو۔۔
صارم براؤن شیروانی پہنے چھوٹے موٹے کاموں کے ساتھ ساتھ ثمراہ کا بھر پور خیال رکھ رہا تھا۔۔
ثنا یہ پوری تقریب ویڈیو کال کے ذریعہ دیکھ رہی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور سے کراچی فلائٹ سے واپسی پر سارہ ویسی ہی دلہن کے جوڑے میں ملبوس خود کو شال میں ڈھانپے ہوئے گھر میں داخل ہوئی۔۔۔
ثناء نے ہی نئی دلہن کا استقبال کیا۔۔
ثمراہ تھکن کے باوجود بھی سارہ کو ثنا کی کے ساتھ حارث کے روم تک چھوڑ کے آئی۔۔۔
سارہ کو بیڈ پہ بٹھا کر ثنا انہیں چھوڑ کے باہر آگئی جبکہ ثمرا وہیں بیٹھ گئی۔۔
دیکھو سارہ میں جانتی ہوں یہ سہی وقت نہیں مگر میں اپنے پچھلے روئے کی معافی چاہتی ہوں۔۔ ثمراہ نے ندامت سے سارہ کو کہا تو سارہ نے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے۔۔
نہیں ایسے مت کہو میں جانتی ہوں تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے یہ سب صارم کی شرارت کی وجہ سے ہوا مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے۔۔۔
سارہ نے مسکرا کے کہا تو ثمراہ ہنس دی ۔۔ اچھا میں چلتی ہوں ہم بعد میں بات کریں گے ابھی آپی کے ساتھ تمہارے دلہا کو لوٹنا بھی تو ہے ۔۔
ثمراہ یہ کہہ کے کمرے سے چلی گئی اور سارہ اپنی اور ثمراہ کی اس دوستی پر خوش تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمراہ اور ثنا دونوں کو ایک ایک خوبصورت سے ڈائمنڈ بریسلیٹ نیک کے طور پر دے کر حارث کمرے میں داخل ہوا۔۔۔
سارہ نے جھجکتے ہوئے سلام میں پہل کی جسکا جواب دیتا ہوا حارث اسکے پاس آکر بیٹھ گیا۔۔۔
سارہ اپنے ہاتھ کی انگلیاں مروڑنے لگی حارث کو اپنے اتنے قریب بیٹھا دیکھ ۔۔۔
حارث اسکی یہ گھبراہٹ دیکھ کے مسکرا دیا اور اسکے آگے 2 مخملیں باکس بڑھا دئے۔۔
یہ لو تمہاری منہ دکھائی۔۔
ایک باکس میں بہت خوبصورت اور نازک سی ڈائمنڈ رنگ تھی جو حارث نے سارہ کو پہنائی اور ایک میں پائل تھی۔۔۔
تمہیں کیسے پتا مجھے پائل بہت پسند ہیں۔۔۔
سارہ نے حیرت سے حارث کو دیکھ کے پوچھا۔۔۔
تم ہی یہاں پورے گھر میں پائل پہنی گھومتی رہتی تھی تمہاری انہی پائل کی آواز سے ہی میں بھاگتا ہوا آیا تھا جب تم سیڑھیوں سے گری تھی ۔۔
اس دن میں نے تمہیں اتنے قریب سے دیکھا جب میں تمہارے پیر پر بام رگا رہا تھا تو تم مجھے آنکھوں میں آنسو لئے دیکھ رہی تھی پتہ نہیں کیوں اس دن دل نے تمہاری خواہش کی تھی اور دیکھو تم مجھے مل گئی۔۔
سارہ حارث کی بات سن کے شرمانے لگی۔۔۔
حارث نے اسے یوں شرماتے دیکھا تو بول پڑا۔۔
اور ویسے بھی یہ پائل میں نے تمہیں اسلئے دی ہیں کہ اب اگر تم گروگی کہیں سے تو مجھے پتہ چل جائے گا۔۔
حارث نے شرارت سے کہا تو دونوں مسکرا دئیے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔