“او خان۔۔ ميں تمہيں کہہ چکا ہوں کہ جو تم مانگو گے وہ تمہيں دينے کو تيار ہوں۔ اب تم وعدہ خلافی کر رہے ہو۔ پيسے لے کرواپس کررہے ہو۔ يہ ہم خانوں کی شان کے چلاف ہے” وہاج کا وہ بندہ جس کے گھر نائل جان بوجھ کر رہا تھا اوراسے باتوں ميں لا کر چرس اور ہئيروئن کے اڈوں کا نہ صرف پتہ لگوا چکا تھا بلکہ اسے کے ساتھ وہاں جاکر وہ لانے کا بھی فيصلہ کرچکا تھا۔
اس بندے نے جوں ہی وہاج سے بات کی۔۔ وہاج کو يہ سب باتيں کچھ مشکوک لگيں۔ اس نے اپنے بندے کو نائل کو پيسے واپس کرنے کو کہا۔
نائل يماما کو چھوڑ کر اسی رات واپس پہاڑی علاقے ميں اسی کے گھر موجود تھا۔
اور نائل اب اسے قائل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔دونوں مقامی زبان ميں بات کررہے تھے۔
“وہ تمہاری بات ٹھيک ہے مگر يہ ميری نہيں ميرے باس کی ہے۔ اور اس کی اجازت کے بغير ميں کيسے تمہيں دے سکتا ہوں۔” وہ ہچکچا رہا تھا۔ کيونکہ نائل نے اسے منہ مانگی رقم دی تھی۔
“تم اپنے باس کی بات مجھ سے کرواؤ مين خود اسے قائل کرتا ہوں” نائل اس پر گھيرا مزيد تنگ کررہا تھا۔
“ديکھو نا يہاں پڑے پڑے تم لوگوں کے کس کام کی۔ اور بارڈر کے پار يہ جتنے کی بکنی تھی اتنے ہی پيسے تو ميں بھی تمہيں دے رہا ہوں پھر ميری سمجھ سے باہر ہے کہ تم اور تمہارا باس کيوں ہچکچا رہے ہو” نائل کو اندازہ نہيں تھا کہ اس کا بنا بنايا پلين وہاج يوں خراب کردے گا۔
وہ ويسے بھی اپنے بيٹے اور ان سب دہشتگردوں کے اغوا کی وجہ سے بوکھلايا ہوا تھا۔
فی الحال وہ کسی پر بھی کيس نہيں کروا سکتا تھا۔ کيونکہ کوئ ايسا تھا ہی نہيں جسے وہ شک کی بنياد پر بھی پکڑتا۔ بس پوليس فورس کو الرٹ کرديا تھا۔ بيٹے کی بازيابی کے لئے مگر يہ کوئ لمبا ہی معاملہ تھا۔
ايجنسی تو ويسے بھی بندے کو لے کر کہاں جاتی ہے وہ عام پوليس تو کبھی جان ہی نہيں سکتی تھی۔
اور اب اس سب کے بعد ايسا کون سا ہمدرد تھا جو يوں اچانک اتنی بڑی رقم دے کر اسکی ہئيروئن اور چرس خريدنے کا خواہشمند تھا۔
“تم اپنے باس سے بات کرواؤ” نائل بضد ہوا۔
“اچھا تم مجھے وقت دو ميں چند دنوں ميں سوچ کر بتاتا ہوں” اس بندے نے وقت مانگا۔
نائل مايوس سا ہوا۔
______________________
شمس اپنے گھر بيٹھے يہ ساری گفتگو نائل کے ہاتھ ميں پہنی گھڑی کی مدد سے سن رہا تھا۔
اس گھڑی ميں چھوٹے چھوٹے مائيکرو۔۔ اسپيکرز لگے تھے۔ جو بالکل موبائل کا سا کام کرتے تھے۔
شمس کے پاس ايک ڈيوائس موجود تھی جس کی مدد سے انہوں نے اسکی گھڑی کاکے ان مائيکرو اسپيکرز کا کنيکشن اپنی ڈيوائس کے ساتھ کر رکھا تھا۔
کچھ سوچ کر انہوں نے فورا نائل کے موبائل پر ميسيج کيا۔
“اس بندے کو اٹھوا لو۔۔تم اسکے سامنے اپنی اصل پہچان ميں نہيں ہو۔ لہذا يہ تمہاری شناخت نہيں کرسکتا۔ دوسرا تمہاری گاڑی پر جعلی نمبر پليٹ لگی ہے۔ اگر اسکے گھر والے کيس بھی کرتے ہيں تو اس نمبر کی کوئ گاڑی انہيں آج رات کے بعد اس پورے ملک ميں نظر نہيں آئے گی” شمس کا ميسج پڑھ کر نائل نے پرسوچ انداز ميں سر ہلايا۔
“اچھا يار چلو ۔۔ پھر جب تم اپنے باس سے بات کرلو تو مجھے بتا دينا ورنہ ميں کوئ اور گاہک ڈھونڈوں گا” نائل اپنی جگہ سے اٹھتے ہوۓ بولا۔
“معذرت دوست” اس بندے نے مايوس سی آواز ميں کہا۔
“ارے کوئ بات نہيں يہ سب چلتا ہے” نائل نے مصافحہ کرکے اسے گلے لگايا۔
اور گھر سے باہر آگيا۔
کچھ دور جاکر اس نے گاڑی ايک پہاڑ کی اوٹ ميں کھڑی کردی۔ اب اسے گہری رات کا انتظار کرنا تھا۔ کہ جس کا فائدہ اٹھا کر وہ اس بندے کو اسکے گھر سے اغوا کرنے ميں کامياب ہو۔
____________________
فاران آفس آکر بھی کتنی ہی دير اس لڑکی کے بارے ميں سوچتا رہا۔
کسی شخص کی اس حد تک مشابہت پر وہ جتنا حيران ہوتا کم تھا۔
پھر يہ سوچ کر خود کو سرزنش کی کہ اتنا بے اختيار ہونے کی کيا ضرورت تھی۔
کيوں اسے يوں پکار بيٹھا۔
ابھی وہ اسی ادھيڑ بن ميں تھا کہ وہی لڑکی اسکے آفس کا دروازہ ناک کرکے اجازت ملنے پر اندر داخل ہوئ۔
فاران بے يقين نظروں سے اسے اپنے سامنے ديکھ رہا تھا۔
“کيا ميں بيٹھ سکتی ہوں؟” اسے يوں مسلسل خود کو گھورتے پا کر اس لڑکی کو بالآخر کہنا پڑا۔
“جی جی پليز۔۔ آئم سوری” فاران نے جلدی سے معذرت کرکے اسے بيٹھنے کا اشارہ کيا۔
“دراصل آپ کی شکل ميری ايک عزيزہ سے ملتی ہے بس اسی وجہ سے ميں تھوڑا کنفيوز ہوا” اس نے سچائ بيان کی۔
“جی ميں جانتی ہوں يماما سے ميری بے حد شکل ملتی ہے” اسکی بات پر فاران نے چونک کر اسکی جانب ديکھا۔
“آپ يماما کو۔۔۔۔۔ميرا مطلب ہے؟”وہ بوکھلايا۔
“انہيں کون نہيں جانتی۔ بلکہ ان کی ڈيتھ کے بعد تو بہت سے لوگ جاننے لگے ہيں” اس نے بھی صاف گوئ سے کہا۔
“جی يہ تو ہے”فاران يکدم افسردہ ہوا۔
“خير آپ کا نام۔ اور کس سلسلے ميں تشريف آوری ہوئ ہے۔ ميں آپکی کيا مدد کرسکتا ہوں؟” فاران نے فورا خود کو کنٹرول کرکے۔۔۔۔ پروفيشنل انداز اپنايا۔
“ميں ايکچولی آپ سے ايک اہم کيس ڈسکس کرنا چاہتی ہوں۔ آپ وقار سرتاج کا کيس ہينڈل کريں گے اب؟” اپنا مدعا بيان کرتے اس نے سوال کيا۔
“جی بالکل” فاران نے تائيد کی۔
“ميں اسکے خلاف ايک اور کيس کھولنا چاہتی ہوں۔۔ اور اس سلسلے ميں چںد ايسے لوگوں کو جانتی ہوں ۔ جو وعدہ معاف گواہ بننے کو تيار ہيں” وہ رازداری سے بولی۔
“کک۔۔۔ کيا مطلب۔۔” وہ اب کی بار گھبرايا۔ آخر يہ کون تھی؟
“سب بتاؤں گی۔ مگر يہاں نہيں۔۔ آپ مجھ سے کہيں اور مليں۔ پھر ايک ايسے کيس کے سلسلے ميں اسے پھنسانا ہے۔ کہ اس جيسے درندے کبھی باہر نہ نکل سکيں” اسکے لہجے ميں نفرت گھلی تھی۔
“ہمم۔۔ آپ کا کوئ کنٹيکٹ نمبر ہے۔ ميں سوچ کر بتاؤں گا” فاران نے محتاط انداز ميں کہا۔
“جی جی۔ کاغذ قلم ديں ميں لکھ دوں” اس لڑکی نے فورا حامی بھری۔
فاران نے ايک کاغذ اور پين اسکے سامنے رکھے۔
اس نے تيزی سے اپنا نمبر لکھا۔
“يہ ميرا نمبر ہے۔۔ آپ جب بھی فيصلہ کر ليں ۔ مجھے بتا ديجئيے گا” کاغذ اسکی جانب کھسکاتے وہ اٹھی۔
“جی ضرور” فاران نے بھی انکار نہيں کيا۔
وہ خداحافظ کہتی نکل گئ۔
جبکہ فاران سوچ ميں گم ہوگيا۔
_____________________
رات آہستہ آہستہ بھيگ رہی تھی۔
ايک تو يماما کے لئے کسی اجنبی گھر ميں پہلی رات تھی۔
اور اس پر يہ پريشانی کہ شام کے بعد سے نائل گھر بھی واپس نہيں آيا تھا۔ اور نہ ہی کچھ بتا کر گيا تھا۔
وہ گيسٹ روم ميں موجود بيڈ پر ليٹی الجھن کا شکار تھی۔
جو کہانی نائل نے اسکے حوالے سے دنيا کے سامنے بنی تھی۔ اسکی وجہ سے وہ اب يہاں اسی شہر ميں موجود اپنے فليٹ پر بھی نہيں جاسکتی۔
نيند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
يہ شکر تھا کہ نائل اسے ايک موبائل دے گيا تھا۔ مگر اس پر بھی تاکيد تھی کہ اسکے علاوہ اور کسی سے وہ فون پر بات نہيں کر سکتی تھی۔
وہ انہی سوچوں ميں گم تھی جب نائل کا فون آيا۔
دو تين بيلوں کے بعد فون اٹھايا۔
“کيا کررہی تھی ميری رانی” وہ بالکل شہنشاہ والے انداز ميں بولا۔
يماما کے چہرے پر ناگواری کی جگہ مسکراہٹ بکھری۔
“رات کی رانی اور کر ہی کياسکتی ہے سواۓ جاگنے کے” يماما کے برجستہ جواب پر وہ خوشدلی سے ہنسا۔
“ويری ويل سيڈ”
“آپ ہيں کہاں پہ؟” آخر اس نے اسکی غيرحاضری کے بارے ميں سوال کيا۔
“تم تو افق کے اس پار جانے کو تيار نہيں تھيں۔ تو ميں اکيلا ہی چلا آيا” نائل نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔
“رات کے اس پہر۔۔۔۔۔۔کيا ميرے بعد جنگلی جانوروں سے بھی عشق کربيٹھے تھے” يماما نے ہوا ميں تير چلايا۔ کيونکہ اسکے جواب ميں کہيں بھی يہ ذکر واضح نہيں تھا کہ وہ کدھر ہے۔
“ہاہاہا۔۔بھئ بہت پہنچی ہوئ ہو۔۔۔گھر آکر ۔۔۔اپنے گھر کے باہر لکھواتا ہوں کہ يہاں بہت پہنچی ہوئ ہستی موجود ہيں۔ آئيں اور اپنے مسائل کا حل نکلوائيں۔۔ بلکہ يہ بھی لکھوا دوں گا۔ کہ يہ بزرگ ايسا عمل کريں گی کہ محبوب چار دن ميں آپکے قدموں ميں ہوگا۔۔۔” نائل اب بھی اسے باتوں ميں گھما پھرا رہا تھا۔
“ميرا محبوب تو چار گھنٹے بھی ميرے قدموں ميں نہيں بيٹھ سکا۔ باقيوں کو ميں خاک مشورہ دوں گی” وہ چڑ کر بولی۔
نائل نے قہقہہ لگايا۔
“بھئ اب ميں وہ محبوب تو ہوں نہيں کہ جس کی محبوبہ ايک جوڑے ميں ہی گزارا کرلے۔۔۔ اب ديکھو نا تم نے کيسے مجھے پانچ دن سے ايک ہی جوڑے ميں رہنے کا طعنہ مارا۔۔ اب تمہارے خرچے پانی کے لئے مجھے نوکری جيسا کڑوا گھونٹ تو پينا ہوگا نا” نائل کی حاضر جوابی کی وہ قائل ہوئ۔
“بچپن ميں تو آپ بہت کم گو تھے۔ يہ اتنا بولنا کہاں سے سيکھا؟” يماما جو اب تک اسکے اناز پر بار بار حيرت زدہ ہورہی تھی پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
“يماما کہيں سنا تھا کہ کبھی کبھی انسان اپنے اندر کی وحشت اور خاموشی کو چھپانے کےلئے بہت زيادہ بولنا شروع کرديتا ہے۔ بابا اور ممی نے مجھے بہت پيار ديا۔ اپنوں کی کمی پوری کرنے کی کوشش کی۔۔ مگر تم سب تو تمہی تھے۔ تم سب کی جگہ کوئ نہيں لے سکتا تھا۔ ميں۔۔بھی ہر لمحہ اکيلا پن محسوس کرتا تھا۔ تم لوگوں کی يادوں نے ايک وحشت طاری کررکھی تھی۔ بس پھر اس سب کو چھپانے کے لئے ميں نے خود اعتمادی۔۔حاضر جوابی اور برجستگی کا خول چڑھا ليا” نائل کی باتيں اسے بھی غم سے دوچار کرگئيں۔
اور ساتھ ساتھ يہ تسلی بھی ہوئ کو وہ اکيلی اس دنيا ميں غموں کو سہنے والی نہيں تھی۔ اسکے آس پاس اس کا بہت اپنا بھی ان سب دکھوں کو محسوس کرنے والا تھا۔
“تمہارے ايک ايک پل کی ميں خبر رکھتا تھا۔ تمہارے فليٹ ميں۔۔تمہاری گاڑی ميں ۔۔ تمہارے آفس ميں۔۔ حتی کہ تمہارے فون تک ميں ميں نے مائيکرو فونز فٹ کر رکھے تھے۔ تاکہ تمہاری ہر لمحہ حفاظت کرسکوں” نائل کے انکشاف اسے اور بھی حيران کرگۓ۔
اسے اب سمجھ آيا کہ اسکے گھر پھول نائل کيسے رکھوا کر گيا۔
جب وقار نے اسکے آفس آکر اسے دھمکايا تو شہنشاہ کے روپ ميں اسے فورا مبارک کا میسج نائل نے کيسے کر ليا؟
“مگر جس رات فاران نے مجھے بتايا تھا کہ وہ مجھ ميں انٹرسٹڈ ہے وہ آپ کو کیسے پتہ چلا۔۔ تب توميں اسکی گاڑی ميں تھی؟” يماما اپنی زندگی ميں ہونے والے واقعات کی مختلف کڑياں جوڑ رہی تھی۔
مگر فاران کے يماما کے بارے ميں خيالات نائل نے کيسے جانے وہ اب بھی نہ سمجھ سکی۔
“تمہارا خيال رکھنا تھا تو تم سے جوڑے ان لوگوں کا بھی تو خيال رکھنا تھا نا” نائل اسکی حالت سے حظ اٹھاتے ہوۓ بولا۔
“اسکی گاڑی ميں بھی مائيکرو فونز لگے ہوۓ ہيں” نائل نے ايک اور انکشاف کيا۔
“آپکی يہ سب مشکوک حرکتيں ظاہر کررہی ہيں کہ آپ کوئ ايجنسی کے بندے ہيں” وہ بھی يماما تھی۔ نجانے کيسے کيسے لوگوں سے پالا پڑ چکا تھا۔ لوگوں کی باتوں سے ہی ان کے پروفيشن کا اندازہ لگا ليتی تھی۔
“بھئ کيا کرتا اب تمہارے لئے جاسوسی تو کرنی ہی تھی۔ اب چاہے اس کے لئے تم مجھے ايک جاسوس ہی سمجھ لو” نائل نے اب بھی پروں پر پانی نہيں پڑنے ديا۔
“ميں تو اب اپنے آپ کو بہت خوش قسمت محسوس کررہی ہوں کہ جس کے لئے آپ نے یہ سب کيا” يماما کو اب بے حد خوشی محسوس ہورہی تھی کہ وہ کسی لئے اس قدر خاص تھی۔
“تم ميرا حصہ ہو يماما تمہارے لئے تو يہ سب کرنا ہی تھا” نائل کا آنچ ديتا لہجہ يماما کی آنکھيں نم کرگيا۔
“افف اب يقينا تم آنکھوں ميں آنسو لئے بيٹھی ہوگی” نائل کی بات پر وہ نم آنکھوں سميت مسکرا اٹھی۔
“اب کيا گيسٹ روم ميں بھی کوئ کيمرہ لگا ہے جہاں سے آپ مجھے ديکھ رہے ہيں” وہ مسکراہٹ دبا کر بولی۔
نائل نے بے ساختہ قہقہہ لگايا۔
“اچھا آئيڈيا ہے۔۔ آتے ہی لگواؤں گا۔۔ ليکن جب تم بات کرتے کرتے يکدم خاموش ہوتی ہو تو مجھے سمجھ آجاتی ہے کہ جناب رونے ميں مصروف ہوں گی” نائل کی بات پر وہ پھر سے مسکرائ۔
“يماما تم بہت بہت سٹرونگ ہو۔۔ اور ميں تمہيں ہميشہ ايسے ہی سٹرونگ ديکھنا چاہتا ہوں”
“بس۔۔ جب سے آپ کے بارے ميں پتہ چلا ہے سب اپنے بہت شدت سے ياد آرہے ہيں” وہ پھر سے بھيگے لہجے ميں بولی۔
“اوکے۔۔ ابھی تو چپ کرجاؤ۔۔ جب ميں سامنے ہوں تب سب کو ياد کرکے رونا تاکہ تمہارے آنسو بھی صاف کرسکوں۔۔ اب ديکھو۔۔ ٹيکنالوجی جتنی چاہے ايڈوانس ہوجاۓ۔۔ ميں فون سے ہاتھ بڑھا کر تمہارے آنسو نہ تو صاف کرسکتا ہوں اور نہ ہی تمہيں رونے کے لئے کندھا دے سکتا ہوں۔۔ سو ہولڈ آن ميری جان ۔۔ کل آؤں گا تب يہ شغل کرنا۔ چلو اب سو جاؤ۔۔ ميں کال بند کرتا ہوں” نائل کی باتوں پر يکدم اسکا چہرہ تمتمايا۔
“اوکے اللہ حافظ” اس نے بھی فورا فون بند کيا۔ اس سے پہلے کہ نائل مزيد شوخ ہوتا۔
مگر فون بند کرکے ايک تسلی سی ہوگئ۔ وہ جو کچھ دير پہلے بے حد مضطرب تھی اب لگا جیسے سکون سا رگ وہ پے ميں سرائيت کرگيا ہو۔
نائل کو ہی سوچتے سوچتے وہ سوگئ۔
_________________________