ہاں بولیں اپ کس کو مانگ رہے تھے اللہ پاک سے۔۔۔وہ گیارہ سال کی بچی اپنے سے ٣ گناہ بڑے آدمی سے بہت اعتماد کے ساتھ سوال کر رہی تھی۔۔۔
کسی کو نہیں۔۔۔شہریار نے بات ختم کرنا چاہی اور جاۓ نماز اٹھا کر جانے لگا۔۔۔
نہیں بتاۓ مگر میری دعا ہے اللہ پاک اپکی دعا قبول کرے۔۔۔وہ بھی شہریار کے ساتھ کھڑی ہوگی۔۔
تم کون ہو۔۔۔شہریار نے سوال کیا
میں۔۔۔سیکریٹ ہے آپ کسی کو بتاٸیں گے تو نہیں میں نے اللہ پاک کو بتایا ہے کیونکہ وہ میرے بیسٹ فرینڈ ہیں۔۔۔پرومس کریں وہ ہاتھ شہریار کی طرف بڑھا کر کہہ رہی تھی۔۔۔
پرومس شہریار اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر پرومس کہنے لگا۔۔۔
میں۔۔۔ وہ سب سے بڑا ڈون نہیں ہے جہانگیر شاہ اسکی بیٹی ہوں اب کسی کو بتا نہیں دینا ورنہ میں یہاں کیسے رہونگی سب ڈر جاٸیں گے مجھ سے پھر کوٸی بات نہیں کرے گا پھر نور کہاں جاۓ گی۔۔شہریار اسکی بات پر سکتے میں آگیا تھا۔۔
یہ سب آپکو کس نے بتایا ہے۔۔۔شہریار اس سے سوال کرنے لگا۔۔۔
میری امی نے مگر اب وہ میرے ساتھ نہیں ہیں مار دیا بابا نے انھیں۔۔۔میری آنکھوں کے سامنے جلا دیا۔۔
آپ کو غلط فہمی ہوٸی ہے یہ ممکن نہیں ہے۔۔ وہ شہریار اسے کچھ سمجھانا چاہ رہا تھا۔۔
میں جانتی ہوں کوٸی یقین نہیں کرتا میرا اللہ کے سوا اس لیے تو میں اپ سب سے بات نہیں کرتی سب سمجھتےہیں اگل ہے اب آپ بتاٶ اللہ سے باتیں کرنے والا پاگل کیسے ہوگا۔۔۔
آپ کو یقین نہیں آتا تو رکیں میں دیکھاتی ہوں آپ کو۔۔۔وہ گی اور اندر سے کچھ لے کر آٸی یہ ایک چھوٹا سا ڈبہ تھا۔۔۔جسے دیکھ کر شہریار اور کشمکش میں پر گیا۔۔۔
یہ دیکھیں میری ماما اور بابا کی شادی کی تصویریں۔۔۔اور یا نکاح نامہ میں سب کے سامنے اپنی حقیقت نہیں رکھی میں جانتیہوں یہاں موجود بچے جو پل پل جیتے اور مرے ہیں میرے بابا کی وجہ سے ہیں۔۔میں کیا کروں میں بھی روز جیتی اور مرتی ہوں جب کوٸی بچا یا بچی آتی ہے تو سب سے پہلے میں توبہ کری ہوں اللہ پاک سے اپنے بابا کی غلطی کی۔۔۔ نور کی آنکھ سے آنسو نکلا بندوں کے سامنے نہیں روتے۔۔۔چلو اب میری باتیں تو ختم نہیں ہوگی آپ سو جاٸیں یہی صبح ہو جاۓ گی۔۔۔شہریار صرف اسے سن رہا تھا یہ ایک نیا راز تھا جو اس پر افشاں ہوا تھا۔۔۔
ویسے نام کیا ہے آپ کا۔۔۔۔”شہریار۔۔“نور کے کہنے پر اس نے اپنا نام بتایا۔۔۔
آپ سے مل کر اچھا لگا شہریار۔۔وہ سلیوٹ کرتی کہنے لگی۔۔۔
میں بڑا ہوں انکل یا بھاٸی کہنا چاہیے آپ کو۔۔۔شہریار اسے جاتا دیکھ کر بولا۔
انکل اپکی پرسنیلٹی پر اچھا نہیں لگے لگا اور بھاٸی تو انھیں کہا جاتا ہےجن سے کوٸی ڈر ہو مجھے آپ سے کوٸی ڈر نہیں۔
”اللہ سے باتیں کرنے والے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے“۔وہ مسکراتی ہوٸی کہہ کر نکل گی۔شہریار بھی اسے جاتا دیکھ کر مسکرانے لگا۔۔
ولیمے کی تقریب خاموشی سے گزری۔۔۔ ہیام نے شہریار کی دی ہوٸی ہر چیز پہنی تھی اس آس پر کے وہ آکر اسے اس طرح دیکھ کر خوش ہوگا۔۔۔مگر ایسا کچھ نہیں ہوا شہریار نہیں آیا سب انتظار کرتے رہ گے ایک آخری امید جو ہیام کے دل میں تھی وہ بھی ختم ہوگی۔۔۔ہیام نے بہت مشکل سے سنبھالا تھا خود کو۔۔۔
سلطانہ بیگم بھی سب کو جواب دیتے دیتے تھک گی تھی۔۔۔کیا کہتی کیوں نہیں ہے بھاٸی موجود اپنی سگی بہن کی شادی میں مگر کیا کرتے وہ جا چکا تھا۔۔۔
**********
شہری نے اچھا نہیں کیا وہ میرا اکلوتا بھاٸی تھا اسے میری زندگی کے اتنے بڑے دن پر میرے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔۔۔نانو اور مامو خالہ سب لوگوں کو جواب دے دے کر تھک گے تھے بہت شرمندہ کیا ہے اس نے آج۔۔
ایمان لاٸٹ پیچ کلر کی میکسی میں ڈریسر کے پاس کھڑی اپنی جیولری اتار رہی تھی۔۔۔
اسے کوٸی مجبوری ہوگی ایمان۔۔۔محراب اسے اپنی طرف کرتے ہوۓ کہنے لگا۔۔۔
بہن بیوی فیملی سے بر کر کیا مجبوری۔۔۔ایمان جذباتی ہوگی تھی۔۔
تم کب سے ایسی باتیں کرنے لگی ہو۔۔تمھارا ہر معاملے میں تحمل اور پوزیٹو رہنا ہی سب سے منفرد کرتا ہے تمھیں۔۔۔تم جانتی ہو وہ کس فیلڈ میں ہےاور وہاں ہر رشتے سے برقر اپنے اپ کو بھول کر محنت کرنی چاہیے تم ہے اس پر یقین ہونا چاہیے۔۔۔محراب اسکے کان کی بالی کو ڈریسر پر رکھ کر کہنے لگا۔۔۔
ہہہمم جانتی ہوں بس زیادہ ہی بول گی بس ہیام کا خیال دل میں آرہا ہے وہ کس اذیت سے گزر رہی ہوگی۔۔۔محراب کسی کو بھی پتا چل گیا تو قیامت ٹوٹے گی۔۔اور چھوٹی ممانی وہ تو بہت جھگڑیں گی۔۔
کچھ نہیں ہوگا۔۔۔اللہ سب بہتر کرے گا۔۔۔تم اب تھک گی ہو سو جاو فریش ہو کر۔۔۔
***********
ہیام کمرے میں فون پر اپنی اور شہریار کی تصویریں دیکھ رہی تھی۔۔۔کیوں تماشہ بنا دیا میرا،کیوں ایسا کر رہے ہو شہری، کیوں آخر کیوں اتنی بڑی سزا دے رہے ہو۔۔۔واپس آجاو میں تمھاری ہر بات مانوں گی تمھارے لیے کافی بھی بناوں گی ہیام کافی دیر سے سونے کی کوشش کررہی تھی مگر نیند آنکھوں سے کہی دور چلی گی تھی۔۔۔
ہیام نے دراز میں سے نیند کی گولیاں نکالی تو ایک بار پھر طلاق کے کاغذ سامنے آگے یہی فیصلہ تھا نا تمھارا۔۔بس جب تم نے میرا نہیں سوچا تو میں کیوں سوچوں میں بھی سب ختم کردوں گی۔۔۔ہیام نے گولیوں کے ساتھ پیپرز بھی نکالے آج یہ قصہ یہی ختم ہوجاۓ گا۔۔۔
پیپرز لفافے سے نکالے تو دنگ رہ گی اس میں تو ساٸن ہوا ہی نہیں تھا۔۔اسکی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔۔۔یہ سب کیوں کیا شہریار نے وہ خوش ہوتی یا دکھی۔۔۔۔سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔
پچھلے چوبیس گھنٹوں میں بس ایک یہی دعا تو کی تھی اس نے۔۔وہ سوچوں میں گم تھی جب عفان نوک کرکے اجازت لے کر کمرے میں آیا۔۔
ہیام ٹھیک ہو۔اسنے ہیام سے پوچھا۔۔
میں تمھیں بتانے آیا تھا کے تمھارا رزلٹ آگیا ہے اور بہت مبارک ہو تمھیں پاس ہوگی ہو۔۔۔ ہیام کے کچھ بولنے سے پہلے ہی عفان نے اسے پاس ہونے کی خبر سناٸی جو کچھ دیر پہلے شہریار نے اسے بتایا تھا۔۔
ہیام کی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر چہرے پر نمودار ہوا۔۔۔ہیام نے سختی سے آنسو کو چہرے پر سے صاف کیا۔۔۔اور چلتی ہوٸی عفان کے پاس آٸی۔۔۔
آپکو کیسے پتا میں نے تو آج تک آپ کو اپنا رول نمبر نہیں بتایا تھا۔میرا رزلٹ کیسے پتا چل گیا آپکو۔۔عفان کو دھیان ہی نہیں رہا کے ہیام ایسا کوٸی سوال کرے گی۔۔وہ پل بھر کے لیے کنفیوز ہوا مگر خود کو نارمل کرکے کہنے لگا تھا کہ ہیام نے بولنا شروع کردیا۔۔۔۔
آپ ربطے میں ہیں نا اس سے تماشہ دیکھنا چاہ رہا ہے نا کہ ہیام کو کتنا توڑ سکتا ہے۔۔کہہ دیں اسے ٹوٹ گی ہے ہیام بس کردے ہار گی ہوں میں واپس آجاۓ۔۔۔یہ بھی جان بوجھ کر کیا نا تاکے میری بےبسی کا لاٸیو شو دیکھے۔۔۔
جب جانا تھا تو مکمل جاتا۔فیس کرتا مجھے سب کے سامنے شادی کی تھی نا سب کے سامنے چھوڑ کر جاتا۔یوں بیچ میں کیوں بھاگ گیا۔تنہاٸی چوری چوری کیوں بھاگا بہت ہمت والا ہے نا ۔۔اسے کہہ دے آجاۓ ورنہ ہیام سے برا کوٸی نہیں ہو گا صرف ایک مہینہ دے رہی ہوں میں۔۔۔ہیام بہت ہمت اور اعتماد کے ساتھ کہہ رہی تھی۔۔
ہیام سمجھو بات کو وہ بہت مشکل فیس سے گزر رہا ہے۔۔اسکے لیے بہت مشکل ہے سب کچھ ارع یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ اس پر ساٸن نہیں ہے۔عفان پیپرز کو دیکھتا ہوا کہنے لگا ۔۔
میری اس سے ایک بار بات کروا دیں۔۔۔میں بولوں گی تو وہ آجاۓ گا پلیز۔ہیام کے دل میں پھر محبت جاگی۔کیسا عجیب جذبہ تھا یہ نا نفرت کرنے دیتا تھا نا ساتھ چلتا تھا نا خود سے دور کرتا تھا۔۔۔عفان کو اس پر رحم آیا اسنے اپنے ہاتھ میں موجود موباٸل دیکھا جہاں کچھ سیکنڈ پہلے شہریار نے کال کاٹی تھی یقیناً وہ ہر بات سن چکا تھا۔۔۔وہ خود بھی جانتا تھا ہیام کے آنسو اسے موم کرنے کے لیے کافی تھے اس لیے بنا بات کیا ہی کال کاٹ دی۔۔۔ وہ ہیام کی آواز سننا چاہتا تھا اس لیے عفان کے ہاتھوں رزلٹ کا بتایا اور وہ دوسری طرف اسکی ہر بات سن رہا تھا۔۔۔عفان سمجھ گیا تھا۔۔
ہیام عفاف کو تمھاری دوست کی کال آٸی تھی اسنے ہی بتایا شہریار کا فون بند ہے اور میرا اس سے کوٸی کونٹیک نہیں ہے۔۔۔تم اب اپنی لاٸف پر دھیان دو آگے پڑھنے کی تیاری کرو۔اور اس سب بات کو آج یہی بھول جاو سمجھو ایسا کچھ ہوا ہی نہیں وہ آۓ گا اورضرور آۓ گا۔۔اور عفان کہہ کر نکل گیا۔۔
بہت خاموش لہجے میں
میں اسکو چھوڑ آیا ہوں
اسے احساس اب ہوگا
اسے مجھ سے محبت تھی
وہ مجھ کو بھول بھی جاۓ
محبت یاد رکھے گی
عقیدت یاد رکھےگی
مجھے آگے نکلنا ہے
کبھی واپس نہیں جانا
تو اس کو چھوڑ آیا ہوں
کہ اسکو چھوڑ دیناہی
میری محبت تھی
**********
سر اس نور کو دیکھیں نا کب سے قرآن پاک پڑھا رہی۔۔۔اب ہم تھک گے ہیں۔۔وہاں بیٹھے ایک بچے نے شہریار کو کمرے میں آتا دیکھ کر کہا۔۔شہریار کو یہاں آۓ دس دن ہوگے تھے۔۔۔اب کچھ حد تک بچے اس سے اٹیچ بھی ہوگے تھے۔۔۔
کیوں تنگ کررہی ہیں آپ سب کو۔۔۔شہریار چٸیر پر بیٹھتا ہوا کہنے لگا۔۔۔نور سر پر اچھے سے اسکارف باندھے ہاتھ میں اسٹیک لیے بیٹھی تھی۔۔
تو اب نہیں پڑھیں گے تو کب پڑھیں گے۔۔۔ان جیسوں کو سخت سزا دینی چاہیے۔۔گندے بچے ہیں جنت میں کیسے جاٸیں گے۔۔۔۔نور معصومیت میں کہہ رہی تھی۔
نور قرآن کو حفظ کع چکی تھی۔۔اب علما۶ کی کتابیں پڑھ رہی تھی۔۔۔وہاں موجود سب بچوں کو قرآن نور ہی پڑھاتی تھی۔۔
جاو بچوں چھٹی شہریار نے سب کو جانے کا کہا۔۔۔
آپ نے اچھا نہیں کیا شہریار۔۔۔نور اسٹیک اسے دیکھاتی ہوٸی کہنے لگی۔
ارے آپ تو سچ میں خطرناک بچی ہو۔۔۔۔ویسے آپ اتنی معصوم مجھے لگتی ہو یا سچی میں ہو۔۔۔شہریار اسکے ہاتھ سے اسٹیک لے کر بولا۔۔
پتا نہیں مجھے۔۔۔میں سچی بات کرتی ہو اچھی نا لگے کسی کو چپ کرجاتی ہوں اپنے بڑوں سے الجھنا نہیں چاہیے بس اللہ انھیں ہدایت دے یا الفاظ کافی ہے بحث سے رشتوں میں رنجشیں اور اختلافات آجاتے ہیں اور پھر لڑاٸیاں ہوتی ہیں اس لیے خاموش رہنا چاہیے۔۔نور بولتے بولتے ریک صاف کر رہی تھی۔۔۔
مگر آپ تو کتنا بولتی ہو۔۔۔شہریار ناجانے کیوں اس سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔میں سب سے باتیں نہیں کرتی کیونکہ ہر کوٸی سنتا نہیں ہے میں صرف انھی سے بات کرتی ہوں جو میری سنتے ہیں جیسے اللہ پاک اور آپ۔۔۔اب اگر میں بور کر رہی ہوتی تو آپ اٹھ کر بھاگ گے جاتے ویسے کیوں سن رہے ہیں آپ کب سے مجھے۔۔۔نور قرآن پاک کو صحیح رکھ کر آگی۔۔
تم مجھے میری بڑی بہن جیسی لگتی ہوں کل اسکا ولیمہ تھا اور میں یہاں تھا۔۔۔سب بہت ناراض ہونگے مجھ سے۔۔۔شہریار اسے اپنے دل کی باتیں بتانے لگا۔۔
ہہممم یہ تو ہے اپنوں کی ضرورت ہر پل ہوتی ہے۔۔مگر اب تک وہ نہیں بتایا جسکے خوش رہنے کی دعا کر رہے تھے۔۔۔کون ہے وہ۔۔مجھے دیکھاٸیں گے نہیں۔۔
ملواوں گا اگر میں بھی مل سکا تو آٸندہ زندگی میں۔۔۔شہریار نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔ضرور ملیں گے اللہ سچے پیار کرنے والوں کو الگ نہیں کرتا پاک رشتوں کی ایک الگ کشش ہوتی ہے جو ایک دوسرے کو اپنی طرف لاتی ہے دوریاں جتنی بھی ہو مل ضرور جاتے ہیں مگر یہ دنیا ہے اور دنیا فانی ہے سب یہی رہ جاۓ گا۔۔ کچھ ہاتھ نہیں آٸیں گا۔۔وہ ننھی بچی اتنی بڑی بڑی باتیں کر رہی تھی۔۔۔۔
کہاں سے سیکھتی ہو ایسی باتیں۔۔۔شہریار نے اسے کام میں مصروف دیکھ کر پوچھا۔۔
اللہ پاک سے۔۔۔سب اپنے دوستوں سے سیکھتے ہیں۔۔ اللہ پاک میرے دوست ہیں پتا نہیں میں انکی دوست ہوں کے نہیں۔۔مگر وہ میری ہیلپ کرتے ہیں وہ ہمیشہ اسکا مطلب تو یہی ہے کے میں انکی دوست ہوں مگر جب میں انکی دوست ہوں تو مامابابا کو کیوں مجھ سے دور کر دیا۔۔ نو روہانسی آواز میں کہنے لگی۔۔
کیونکہ انھوں نے آپ کو مجھ سے ملانا تھا۔۔۔اگر آپ یہاں نا ہوتی تو مجھےاتنی اچھی دوست کیسے ملتی۔۔۔شہریار مسکراتے ہوۓ کہنے لگا۔۔نور بھی مسکرادی۔
میں لڑکوں سے بات نہیں کرتی اللہ پاک ناراض ہوتےہیں مگر میں نے اللہ پاک کو بتادیا ہے ایک گندے بچے ہیں جو گھر میں سب کو ناراض کرکے آٸیں ہیں تو انکی تھوڑی سی مدد کرنے کے لیے بات کرونگی۔۔نور کی باتوں پر شہریار مسکرانے لگا۔۔۔
***********
دن گزرتے رہے سب روٹین میں آگے تھے۔۔پانچ مہینے گزر گے تھے۔۔۔ہیام نے اپنی پڑھاٸی پر دھیان دینا شروع کیا۔کیوں کے وہ بتانا چاہتی تھی وہ شہریار کے بنا بھی سب کچھ کر سی ہے۔۔پورا دن پڑھاٸی میں گزار کر رات میں جب اسکی یاد آتی تو وہ پل بھر کے لیے تڑپ جاتی تھی۔۔مگر خود کو بہت مضبوط کر لیا تھا اسنے۔۔۔۔
شاٸد کسی کا جانا آپ کے لیے بہتر ہوتا ہے ہم سمجھتے ہیں وہ نہیں ہوگا تو میں مر جاٶ گی مگر موت اتنی آسان نہیں ہوتی۔۔یہ بات بھی حقیقت ہے کہ صرف سانس لینا ہی تو زندگی نہیں ہوتی۔۔۔۔
وہ نہیں جانتی تھی کے وہ شہریار کے بغیر پل بھر بھی رہ پاۓ گی یا نہیں۔۔۔مگر وہ جی رہی تھی۔۔ہیام نے اس عرصے میں بہت کچھ سیکھا تھا۔۔وہ اللہ کے قریب ہوگی تھی اب باہر جاتے ہوۓ چادر لے جانا نہیں بھولتی تھی۔۔۔ وہ اس بات سے انجان تھی کے شہری اس پر نظر رکھے ہوۓ ہے۔۔۔
ہیام میں صبر آگیا تھا مگر غصہ اور چر چرا پن اسکے مزاج میں بڑھتا جارہا تھا۔۔۔
شہریار نے ان چار مہینوں میں جہانگیرشاہ کے خلاف بہت کچھ جمع کرلیا تھا۔۔وہ ملک ملک شہر شہر گھوما تھا دوسرے ملک کی ایجنسی نے بھی بہت مدد کی تھی اس کام کو رکوانے میں ۔جہاگیر شاہ کی حالت بد ترین ہوگی تھی اسے کینسر تھا۔ مگر سزا اس درندے کو ان سے ملنی چاہیے تھی جن کی زندگی اس نے برباد کی تھی۔۔قانون نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔۔۔
شہریار نور کے پاس بیٹھا تھا اس سے بولا نہیں جارہا تھا۔۔۔اب بول بھی دیں شہری کیا کب سے ہاں یہ وہ کر رہے ہیں بولیں جلدی کیا بات ہے۔۔۔اس عرصے میں دونوں کی اچھی دوستی ہوگی تھی اسلیے اب نور ایمان کی طرح اسے شہری بلاتی ہے۔۔وہاکثر ایمان ہیام عفاف دانیال سب کے قصے سناتا تھا۔۔
نور تمھارے بابا جہانگیر شاہ کون تھا یہ بات تمھیں پتا ہے۔۔اور مجھ سے بہتر تم جانتی ہو کبیرا گناہ کی معافی نہیں ہے اسکی سزا ہے اور اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے۔۔میں یہ کہنے آیاہوں کے قانون نے پھانسی کی سزا سنادی ہے۔۔۔ تم ملنا چاہو گی آخری بار دو دن بعد پھانسی دے دی جاۓ گی۔۔۔شہریار بول رہا تھا۔۔۔اور نور کا ضبط دیکھ رہا تھا وہ ننھی بچی اپنے باپ کو پھانسی چڑھتا دیکھے گی تو کیا دل نہیں کانپے گا۔۔جو تھا جیسا تھا نور کی رگوں میں اسکا خون تھا مگر شاٸد وہ بھی انجان تھی کے جب نور دو سال کی تھی تو اسکی طبیعت بہت خراب تھی اور اسکے جسم کا خون ختم ہو چکا تھا کی نیک دل نے اسے خون دیا دوسری زندگی ملی تھی نور کو اور یہ معلومات عفان کے ذریعے شہریار نے نکالی تھی۔۔۔
پھانسی کیوں؟ اتنی آسان موت دینگے آپ لوگ اس انسان کو جس نے ہزاروں بچوں کو مارا ،ان کی عزت بے آبرو کی،بچوں کو موت کے منہ میں اتارا اتنی آسان موت نہیں دینی چاہیے ہر اس انسان کو موقع ملنا چاہیے اپنے مجرم کو سزا دینے کی۔۔۔میرا دل مطمین نہیں ہوگا فرعون جس نے دنیا پر خود کو خدا سمجھ کر ہر کسی کے ساتھ کھیلتا رہا۔۔اسے اتنی آسانی سے ماریں۔۔میں ملوں گی ان سے پہلی اور آخری بار۔۔۔۔وہ کہہ کر اندر کمرے میں چلی گی۔۔۔
***********
دانیال لاونج میں بیٹا لاوڈ میوزک سن رہا تھا جب ہیام گھر میں داخل ہوٸی آج اسکا سیکنڈ لاسٹ پیپر تھا۔۔ویسے ہی دھوپ نے دماغ خراب کیا ہوا تھا اور دانیال کے گانے نے اور تپ چڑھا دی اور غصے میں آگ بگولا ہوتی ہوٸی اسکے پاس آٸی وہ مست دنیا بھر سے بے خبر گانا سننے میں مصروف تھا۔۔۔
Judaa hum ho gaye maana
Magar yeh jaan lo jaana
Kabhi main yaad aaun toh
Chale aana, chale aana۔۔
کیا بکواس گانا چلایا ہے شرم کرو اپنی عمر دیکھو اور گانے دیکھو کیا سن رہے ہو۔۔۔وہ اسکے ہاتھ سے موباٸل لے کر گانا بند کرتی ہوٸی کہنے لگی۔۔۔
کیا بڑاٸی ہے اس میں آپ کا تو پسندیدہ گانا تھا۔۔۔ اب کون سے کیڑے نظر آرہے ہیں آپکو اس میں۔۔آپ تو کہتی تھی کتنا اچھا عاشق سے پھر بلا رہا ہے یاد آۓ تو چلی آنا۔۔وہ ہیام کو اسی کی کہی ہوٸی بات یاد دلا رہا تھا۔۔۔۔
بکواس سب بکواس کوٸی نہیں آتا جانے والے لوٹ کے نہیں آیا کرتے بس تنہا کرکے منہ موڑ لیتے ہیں۔۔ہیام آنکھ میں آیا آنسو صاف کرتی کہہ کر اپنے کمرے میں جانے لگی۔۔۔کہ دانیال نے پھر گانا لگا دیا۔۔
Tumhe main bhul jaaunga
Yeh baatein dil mein na laana
Kabhi main yaad aaun toh
Chale aana, chale aana
ہیام نے موڑ کر اسے دیکھا اور پاٶں پٹک کر اوپر چلی گی۔۔۔کیونکہ دانیال اپنے گانا سننےمیں مصروف ہوگیا تھا۔۔
عفاف کی طبیعت کچھ خراب رہتی تھی جب ڈاکٹر سے معلوم کیا تو پتا چلا عفاف کے یہاں بیبی ہونے والا ہے سب نے اسے بہت تنگ کیا پیار کیا دعاٸیں دیٸں۔۔ عفان بھی اسکا پورا خیال رکھ رہا تھا۔۔۔بس ایک کھانا تھا جو عفاف عفان کے لیے بناتی تھی۔۔۔انکی چھوٹی موٹی نوک جھوک زندگی کا حصہ بن گی تھی۔۔۔
************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...