ہیام اٹھو ہیام۔۔۔ایمان کو جیسے ہی یہ بات پتا چلی وہ ہیام کے کمرے میں بھاگی اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ شہریار ایسی کوٸی حرکت کر سکتا ہے۔۔۔۔
شہریار سب کے کمروں میں جانے کے بعد گھر سے نکل گیا۔۔۔اس نے قصور پہنچ کر عفان کو کہا کے ابھی ہی سب کو بتا دےوہ تیار تھا سب کی نفرت برداشت کرنے کے لیے مگر وہ اپنی فیملی کو مشکل میں نہیں ڈال سکتا تھا اس لیے کسی سے بات کیا بنا اس بار نکل گیا۔۔۔
سب سو کر اٹھے رات کے کھانے پر سب موجود تھے خوش تھے جب عفان نے بات شروع کی۔۔۔
وہ یہ۔۔۔عفان سے کہا نہیں جارہا تھا کہ وہ بات کیسے شروع کرے۔۔کیا ہوا عفان کوٸی بات ہے۔۔۔ عفاف نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔۔۔
شہریار چلا گیا ہے یہاں سے اسے بہت اچھی جاب ملی ہے امریکا میں آپ سب کو بتاتا تو آپ لوگ جانے نہیں دیتے اس لیے چھپ کر گیا ہے جب اپ سب کا غصہ ڈھنڈا ہوگا تو وہ بات کرے گا۔۔۔عفان سے طلاق کی بات بتاٸی نہیں گی اس نے بات بدل دی۔۔۔ایمان کشماکش میں اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔ٹیبل پر ہیام اور شہریار کے سوا سب موجود تھے۔۔۔
تب ہی ہیام آپی نیچے نہیں آٸی۔۔۔انھیں پتا ہوگا دانیال نے کہا۔۔۔
نہیں مجھے نہیں لگتا اسے کچھ پتا ہے۔۔۔عفان نے سب کی پریشانی دور کرنے کے لیے کہا۔۔ آپ سب پریشان نا ہو وہ بلکل صحیح ہے سعدیہ بیگم تو سن ہوگی تھی پھر سے بیٹے سے جداٸی۔۔آنٹی میری جیسے ہی بات ہوگی میں بتاٶں گا آپکو۔۔عفان تسلی دے رہا تھا۔۔
سب کا دل اداس ہوگیا تھا۔۔۔ایک بار بڑوں سےبات کرنی چاہیے تھی اسے بنا بتاۓ چلا گیا۔۔۔اب ہیام کا کیا ہوگا میری بیٹی بیٹھی رہے گی اکے انتظار میں۔۔۔ندرت بیگم کو بیٹی کی فکر کھا رہی تھی۔۔۔
سعدیہ اتنا تو سیکھاتی اپنے بیٹے کو کے گھر کے بڑوں سے مشورہ کرتے ہیں کچھ کرنے سے پہلے۔۔۔باپ کو ہی بتا دیتا بہن کا ولیمہ ہے کل اور دیکھو آرام سے بھاگ گیا۔۔۔
کیا فضول بول رہی ہو ندرت خیال کرو سعدیہ بھابھی کی حالت دیکھو اور تم بولے جارہی ہو۔۔۔محمود صاحب نے بیوی کو ٹوکا۔۔۔سب کو یہ بات ناگوار گزری۔۔
سب کھانا کھاو بچے بڑے ہوگے ہیں اپنی زندگی کا فیصلہ کرسکتے ہیں اور مجھ سے بات کرکے گیا ہے وہ میں نے اجازت دی ہے۔۔۔سلطانہ بیگم جو کب سے سب کی سن رہی تھی بول پری سب چپ چاپ کھانے لگے۔۔
عفان یہ کیا ہے امریکا گیا ہے شہری سچ سچ بتاو۔۔عفاف اور عفان گھر کے لیے نکل رہے تھے جب عفان کو ایمان نے بلایا۔۔عفاف سب کو خداحافظ کرنے گی تھی۔۔۔
آپی وہ یہ دیکھ لیں۔۔عفان نے لفافہ اسکے ہاتھ میں دیا۔۔۔مگر اس میں کیا ہے۔۔ایمان پیپرز نکالتے ہوۓ پوچھنے لگی۔۔
پیپرز ریڈ کرتے ہوۓ ایمان سکتے میں چلی گی تھی۔۔۔وہ بے یقینی کی حالت میں عفان کو دیکھنے لگی۔۔
آپی وہ چلا گیا ہے۔۔میں نےبہت کوشش کی مگر وہ یہ طلاق کے کاغذ دے کر چلا گیا۔۔۔عفان نے پھر کہنا شروع کیا۔۔
تمھیں پہلے بتانا چاہیے تھا نا مجھے۔۔۔ اب بتا رہے ہو شہری کو کہو واپس آۓ ایمان کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔صبح تک کتنے خوش تھے سب اور اچانک یہ سب۔۔
آپی فون بند کردیا ہے وہ ایک کام سے شہر سے باہر ہے۔۔۔وہ شہریار کو کال ملاتا ہوا کہنے لگا۔۔۔
آپی میں نے سمجھایا اسے بہت کل ان دونوں کی لڑاٸی ہوگی تھی۔۔عفان نے کل کی ساری بات بتاٸی ہیام نے بات کو غلط سمجھا ہے۔۔
یا میرے اللہ اس نےمجھے بتاۓ بغیر اتنا بڑا فیصلہ کرلیا میں سمجھا لیتی ہیام کو مگر وہ تو ہر راستہ بند کرکے چلا گیا گھر میں پتا چلا تو بہت بڑا طوفان آۓ گا۔۔۔ ایمان پریشانی میں کہہ رہی تھی اتنے میں عفاف آگی۔۔۔
چلیں آپی اب کل ولیمے میں ملیں گے۔۔۔ہیام اپی کو بھی کہیں اب اٹھ جاٸیں بے وقت سوٸی ہوٸی ہیں۔۔عفاف ہیام کے گلےمل کر خدا حافظ کہتی نکل گی ایمان ہیام کے کمرے کی طرف بڑھی۔۔۔۔
کیا ہوا ایمان تجھے شادی کے بعد بھی چین نہیں ہے جا اب جاکر محراب کو اٹھا مجھے بہت مشکل سے نیند آٸی ہے۔۔۔تیرا وہ بھاٸی ہے نا….جاگ رہی ہوتی ہوں تو بھی جینے نہیں دیتا اور اب تو خواب میں آکر سونے بھی نہیں دیکھا۔۔۔وہ کمبل اڑھتی پھر سو گی۔۔۔۔
ہیام اٹھو۔۔۔شہریار چلا گیا ہے۔۔۔ایمان اسے کمبل سے نکال کر ہوش میں لاٸی۔۔۔اور اسے پیپرز پکراۓ۔۔۔
طلاق۔۔۔۔یہ کیا ہے ایمان۔ہیام کی آنکھیں کھل گی تھی۔ہیام اسے پکڑ کر پوچھنے لگی۔۔
شہریار نے چھوڑ کر گیا ہے۔۔۔۔وہ چلا گیا ہے ہیام۔۔
کیا مذاق کرنے آگٸے ہو۔۔مجھے پتا ہے اس نے ہی تجھے بھیجا ہے۔۔۔میں اس کی حقیقت جان گی ہوں۔۔۔اب سامنا کیسے کرے گا میرا اس لیے چھپ رہا ہے نا۔۔۔مگر بتا دو اسکو میں معاف نہیں کرونگی۔۔ہیام پیپرز کو خود سے دور کر کے کہنے لگی۔۔
ہیام وہ سچ میں ہم سب کو چھوڑ کر چلا گیا ہے۔۔تم نے اسے اتنا کچھ کہہ دیا اسکی تو سنتی کبھی۔۔۔ایمان نے اسے سب بتا دیا شہریار کا سیکریٹ ایجنٹ بننا۔۔۔جیسے جیسے ہیام پر راز افشاں ہورہے تھے وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر ایمان کو دیکھ رہی تھی۔۔
ایمان یہ کیا ہو گیا۔۔۔ہیام سر پکڑ کر بیٹھ گی۔۔۔ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگی۔۔۔تو اسے بلانا وہ تیری بات سے کبھی انکار نہیں کرے گا۔۔۔آنسو بہے جارہے تھے۔۔۔
وہ ایسے کیسے جا سکتا ہے مارتا ڈانتا یہ طلاق نہیں یہ سچ نہیں ہے وہ طلاق کے کاغذ کو ہاتھ میں لے کردیکھنے لگی اور جھٹکے سے پیپرز کو خود سے دور کیا۔۔۔
پہلے بھی تو جب لڑاٸی ہوتی تھی مناتا تھا جھگڑتا تھا ڈانتا تھا اور غصے میں تو مارا بھی دیتا تھا تھپر اس دفعہ کیوں طلاق مار کر چلا گیا۔۔۔میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا کبھی۔۔
وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے۔۔۔کچھ دن پہلے تو ہم نے 3 anniversary مناٸی تھی کتنے خوش تھے پھر یہ سب۔۔۔ہیام بے بیگانی ہوکر کہنے لگی۔۔ ایمان کیا کرتی اسے خود کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔
ہیام شاٸد خدا کو یہی منظور ہو۔۔۔ایمان اسے تسلی دینا چاہتی تھی۔۔۔
ایسے کیسے منظور ہو گا۔۔۔وہ چیخ رہی تھی
ایمان چند دن پہلے جب تو سورت طلاق پڑھ رہی تھی۔۔۔تب کہا تھا تو نے کے اللہ کے نزدیک بہترین رشتہ نکاح ہے کیونکہ دولوگ محرم بن جاتے ہیں نکاح کے بعد۔۔۔اور جب دو لوگوں کے بیچ طلاق ہوتی ہے تو وہ خدا کے یہاں سب سے نا پسندیدہ الفاظ ہوتے ہے اور اس لفظ کو ادا کرنے سے ساتوں آسمان ہل جاتے ہیں۔۔۔تو یہ بات تو نے اسے کیوں نہیں سمجھاٸی۔۔
کیوں طلاق مار کر چلا گیا۔۔۔بات تو کرتا ہر راستہ بند کردیا وہ مجھے خود سے اتنا قریب کر کے ایسے کیسے جاسکتا ہے۔۔۔۔۔وہ روۓ جا رہی تھی۔۔۔آنسو ہچکیوں سے سسکیوں میں بدل گے تھے۔۔ایمان بی بی اپ کو محراب بابا بلا رہے ہیں۔۔گھر کی ملازمہ نے دروازے پر کھڑے رہ کر ہی کہا۔۔۔
جی آپ چلیں میں آتی ہوں۔۔۔وہ ملازمہ کو جانے کا کہہ کر ہیام کی طرف مڑی۔۔۔
ہیام سنبھالو خود کو ابھی گھر میں کسی کو نہیں پتا ہے۔۔۔۔میں کوشش کرتی ہوں شہریار سے بات کرنے کی۔۔۔۔محراب بلا رہے ہیں میں دیکھتی ہوں کوٸی کام نا ہو تم ریلیکس کرو کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ایمان ہیام پر چند دعاٸیں پھونک کر چلی گی۔۔۔
***********
یااللہ عفان آپ نے گھر کی کیا حالت کی ہے۔۔۔ آپ کیا مجھے دیکھانے کے لیے صفاٸی کرتے تھے میرے جاتے ہی گھر کو کباری کی دکان بنادیا ہے۔۔۔عفاف بیڈ پر ٹاول کپڑے پرفیم سب پھیلا ہوا دیکھ کر کہنے لگی۔۔
میرا دل ہی نہیں ہو رہا تھا کچھ کرنے کو۔۔۔عفان عفاف کاہاتھ پکڑ کر کہنے لگا۔
خیریت تو ہے آپکی طبعیت تو خراب نہیں ہوگی۔۔۔عفاف اسکا ہاتھ ہٹا کر۔۔کپڑے اٹھانے لگی۔۔۔
یار کب سے صفاٸی میں لگی ہوٸی ہو۔۔۔بس کردو اب یہاں آکر بیٹھ جاو۔۔۔عفان بیس منٹ سے اسے کام کرتا دیکھ رہا تھا آخر اکتا کر اسے بیڈ کر بیٹھاتا ہوا کہنے لگا۔۔
آپ مجھے کام نہیں کرنے دینگے۔۔۔۔عفاف عفان کو گھور کر کہنے لگی۔۔۔
بلکل بھی نہیں بیٹھو اور مجھ سے باتیں اور عفاف اسے اپنے بچپن کی باتیں بتانے لگی رات کب گزار گی پتا بھی نا چلا۔۔۔
چلو عفاف اٹھ جاو تہجد کا وقت ہوگیا ہے۔۔۔اپنےبہن بھاٸیوں کے حق میں بہتری کی دعا کرو اللہ سب بہتر کرے۔۔۔عفان اسے نیند سے جگا کر کہہ رہا تھا۔۔
ہاں سب بہترہوگا شہری بھاٸی کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔میں مانتی ہیم آپی پراوٹی ہیں ضدی بھی ہیں اور غصے میں تو کچھ بھی بول دیتی ہیں۔۔۔مگر انھیں ہم سے بات کرنی چاہیے تھی ہیام اپی کو بھی لے جاتے اپنے ساتھ۔۔۔عفاف بھی شہریار کے اس طرح جانے پر خفا ہوگی تھی۔۔۔
چلیں میڈم وقت آپکا غلام نہیں۔۔۔ختم ہوجاۓ گا قبولیت کاوقت۔۔۔عفان اسے دیکھتے ہوۓ کہنے لگا۔۔ اور دونوں کی ہنسی نکل گی۔۔۔
************
شہریار جہانگیر شاہ سے مل کر عشا۶ سے پہلے قصور پہنچا۔۔ وہاں بچوں کی تعداد ہی اسکے دل کو دہلانے کے لیے کافی تھی۔۔۔ وہاں موجود ایک ایک بچا اپنے اندر ہی ایک الگ جنگ لڑ رہاتھا۔۔وہاں موجود ہر بچے کی اپنی الگ داستان تھی۔۔کوٸی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوگیا تھا تو کوٸی بولنے اور سننے کی صلاحیت کچھ بچوں کو الیکڑیک شاک دے کر انکی صلاحیتوں سے محروم کرنے کی کوشش کی گی تھی۔۔۔۔
ڈاکٹر ان بچوں کو سمجھانے کی انھیں دنیا کی طرف واپس لانے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔۔۔۔ شہریار ان سب کے بیچ میں بیٹھ کر باتیں کر رہا تھا۔۔۔یہ ادارہ خاص کر ان لوگوں کے لیے ان بچوں کے لیے تھا۔۔جن کے ماں باپ انکے ساتھ ہوۓ حادثے کی تاب نہیں لاپاتے یا بچوں کوبوجھ سمجھنے لگتے ہیں تو اس ادارے میں لے آتے ہیں یہ ادارہ قصور میں 2004 سے ہے اور اب تک اس میں پانچ سو سے اوپر بچے موجود ہیں اور ان کو اپنی ضرورت پوری کرنے کی ہر شے مہیا کی جاتی ہے۔۔۔
شہریار ان سے باتیں کرنے کے بعد روم میں فریش ہونےآیا۔۔۔رات کے ایک بجنے کے قریب اسے کافی کی طلب ہوٸی اور ساتھ ہی ہیام بھی یاد آٸی۔۔۔
میں یہ آخری بار بنا رہی ہوں اسکے بعد مجھ سے امید نہیں رکھنا۔۔میں خانسامہ ہوں تمھاری کافی پے کافی بنوارہے ہو۔۔۔ہیام غصے میں شہریار کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
ایسے ہی اچھی لگتی ہو اور وہ اسکی ناک دبا کر کہنے لگا۔۔۔۔شہریار نے سختی سے آنکھیں بند کر دی۔۔۔
کیوں یاد آرہی ہو۔۔۔اتنا کچھ کیا تم نے پھر بھی کیوں آخر میں نفرت نہیں کر پاتا۔۔۔
وہ کافی بناتا گیا پھنکتا گیا۔۔۔اسے سکون نہیں مل رہا تھا کوٸی خلا تھی جو بھر نہیں پارہی تھی۔۔۔شہریار آج وہاں تھا جہاں وہ ہمیشہ آنا چاہتا تھا جہاگیر کو بھی اسی طرح الیکٹرک شاک دیے جارہے تھے۔۔۔جن غداروں نے مدد کی تھی وہ بھی تہہ خانے میں تھے ظالموں کو انکی سزا دی جارہی تھی مگر سکون خوشی کہی نہیں تھی۔۔۔شہریار تھک گیا تو وضو کرکے جاۓ نماز بچھا کر بیٹھ گیا۔۔۔
”جب کہی سکون محسوس نہ ہو تو اللہ سے رجو کرو وہ مایوس نہیں کرتا“
************
ایمان تہجد کی نماز پڑھ رہی تھی جب محراب کی آنکھ کھلی تو ایمان رو رہی تھی وہ اسکے پاس چلتا ہوا آیا۔۔
کیا ہوا ایمان۔۔وہ اسکے چہرے پر آیا آنسو صاف کر کے کہنے لگا۔۔۔
میں کچھ نہیں کرسکتی میری بہن اتنی تکلیف میں ہے وہ بھی میرے بھاٸی کی وجہ سے ہمارے گھر کی خوشیوں کو کس کی نظر لگ گی ہے محراب۔۔۔۔
تم رو کیوں رہی ہو جاۓ نماز پر بیٹھی ہو خدا کے پسندیدہ وقت میں اس سے باتیں کر رہی ہو دعاٸیں کر رہی ہو وہ رد کیسے کرے گا۔۔۔مجھے امید ہے اللہ سب بہتر کرے گا۔۔۔
تم نے شکرانے کے نفل ادا کیا۔۔۔محراب اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہنےلگا۔۔۔ شکرانے کے نفل کیوں۔
اللہ میں تمھاری زندگی میں آیا خدا کو سجدہ کرکے شکریہ تو بولو۔۔۔وہ تو میں روز بولوں گی اپ میرے لیے اللہ پاک کی طرف سے بہترین تحفہ ہیں۔۔۔
رکو میں وضو کرکے آتا ہوں دونوں مل کر سجدہ شکر ادا کرتے ہیں۔۔۔
************
ہیام ناجانے کتنی دیر روتی رہی۔۔۔۔اسے شہریار پر لگایا ہوا وہ الزام یاد آیا۔۔قاتل ہو تم۔۔اسکے آنسوں میں روانی آگی تھی۔۔۔وہ ترپ رہی تھی مگر آج اسے منانے والا چپ کروانے والا فکر نا کرو میں ساتھ ہوں تمھارے تمھاری ہر بات بولنے سے پہلے جان لیتا ہوں۔۔۔قلب آشنا کا مکین ہوں۔۔۔اسکا ہمسفر اسکا مجازی خدا اسے چھوڑ کر چلا گیا تھا ہمیشہ کے لیے۔۔۔
کتنی بار وہ کال ملا چکی تھی مگر فون بند آرہا تھا۔۔رات بیتی جارہی تھی آنکھوں سے نیند اوجھل ہوگی تھی۔۔۔وہ چلتی ہوٸی باتھ روم میں گی۔۔اپنے آپ آٸینےکو دیکھنے لگی۔۔۔اتنے بڑے مرر پر اسے اپنا آپ سب سے کم تر محسوس ہورہا تھا۔۔۔
یہ ہے حقیقت ہیام یہ ہو تم۔۔۔ناشکری تم نے کب شکر ادا کیا رب کا کب اپنے ساتھ جڑے رشتوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔۔۔یہ تمھارے کیاکی سزا ہے۔۔ہیام کا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا۔۔۔وہ پھر سے رونے لگی اب اسکی آواز اونچی تھی۔۔
رو کر دل ہلکا کرنا چاہا مگر سکون نا ملا وہ بھی تہجد کے لی جاۓ نماز لے کر کھڑی ہوگی۔۔۔
آج کی رات کچھ الگ تھی سب دعا میں مشغول بس اللہ سے معافیاں مانگ رہے تھے۔۔۔سب کی زبان پر ایک ہی دعا تھی شہریار اور ہیام کو ملا دے۔۔۔
یا میرے اللہ تو میری نیت کو جانتا ہے میں نے یہ فیصلہ اسکی بھلاٸی کے لیے کیا ہے اب میں نہیں ہوں اسکے پاس اپ کے حوالے کیا بے شک آپ اسکی حفاظت سب سے زیادہ کرو گے۔۔۔وہ جہاں بھی رہے خوش رہے۔۔۔شہریار اللہ سے باتیں کر رہا تھا۔۔جب ایک گیارہ سال کی بچی آٸی۔۔
آپ کا بھی کوٸی اپنا کھو گیا ہے وہ بچی اسکے برابر آکر بیٹھ گی اور کہنے لگی۔۔۔
نہیں میں خود چھوڑ کر آیا ہوں۔۔۔شہریار نے کیوں اسکے سوال کا جواب دیا وہ خود نہیں جانتا تھا۔۔۔
کسی کو چھوڑتے نہیں ہیں جب کوٸی چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو بہت رونا آتا ہے۔۔۔ میں بھی بہت روتی ہوں ڈاکٹر طاٸرہ کہتی ہے ہمیں اگر کسی اسپیشل کو مانگنا ہے اللہ پاک سے تو اسپیشل وقت پر مانگو اللہ پاک کو اور تہجد کا وقت تو اللہ پاک کو بہت پسند ہےتبھی تو سب اس وقت میں دعاٸیں کرتے ہیں میں ماما کو مانگتی ہوں اور بابا کے لیے معافی مانگتی ہوں اللہ پاک ان کے گناہ معاف کردے آپ۔۔۔وہ بچی معصومیت میں بولی جارہی تھی اور شہریار اسکی باتوں میں کھو گیا۔۔۔
آپکو نہیں بتانا تو نہیں بتاٸیں میری دعا کا ٹاٸم جارہا ہے پہلے اللہ پاک کو اپنی Wish list دے کر آٶ پھر آپ سے پوچھوں گی۔۔۔۔
***********
یا اللہ مجھے واپس میرا شہری دے دیں کوٸی تو راستہ ہوگا۔۔۔اپ تو کچھ بھی کر سکتے ہو۔۔مجھے وہ واپس دے دیں پکا میں اب اسے کبھی خود سے در نہ۶ں کروں گی۔۔
”صحیح کہتے ہیں چیزوں کی قیمت اسکے ملنے سے پہلے ہوتی ہے اور انسانوں کی کھونے کے بعد“۔
چاند اپنے جوبن میں تھا سب اپنے دل کے راز خدا کے سامنے رکھ رہے تھے۔۔۔اور اللہ سے ذیادہ کوٸی راز نہں وہ چھپا کر رکھتا ہے ہمارے عیبوں کو۔۔۔
ہیام جاۓ نماز کو تہہ لگا کر الماری میں رکھا تو وہاں سے شہریار کی جیکٹ اسے نظر آٸی یا وہی جیکٹ تھی جو مہندی والی رات کو اسنے پہنی تھی اور یہی بھول کر چلا گیا تھا۔۔
وہ جیکٹ کو اٹھاکر کھڑکی پر کھڑی ہوگی۔۔۔ کیوں چلے گے اپنی ہیام کو چھوڑ کر زرا بھی نہیں سوچا کیسے رہے گی۔۔۔اتنا بھی کیا غصہ آگیا تھا۔۔وہ جیکٹ سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔آنسو رواں تھے شکوے جاری تھے خود سے گلہ تھا یا اس سے۔۔۔ جانتی نہیں تھی
میں انتظار کرونگی تمھارا مجھے یقین ہے تم آٶ گے ضرور آٶگے۔۔وہ بیڈ پر لیٹ گی لمیپ بند کرنے لگی تو طلاق کے کاغذ پر نظر گی اسکے آنکھ سے اک آنسو نکلا اسنے پیپرز کو ساٸڈ ٹیبل کے نیچے ڈال دیا کہ پھر نظر نا آۓ میں ڈال دیا۔۔۔
***********
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...