عفاف کیوں اپنا تماشا بنا رہی ہو کیا ہوگا یہ سب کرنے سے۔۔عفاف کمرے میں آکر زمین پر بیٹھ کر بیڈ سے سر ٹکاۓ رو رہی تھی۔۔۔
بس آپی آج آخری رات رونے دیں کل کسی اور کے نام کی مہندی سجھ جاۓ گی ان ہاتھوں میں۔۔۔عفاف اپنےہاتھ آگٸے کر کے دیکھانے لگی۔۔۔
پھر نہیں بلکل بھی نہیں میں کسی رشتے سے دغا نہیں کروں گی آپی رشتے نبھانے تو اپ نے سیکھاٸیں ہیں نا مجھے۔ایمان اسکی باتوں پر اپنے آنسو روک نا پاٸی اور عفاف کے گلے لگ کر رونے لگی۔۔۔
مگر عفاف تمھیں سب کے سامنے عفان کو نہیں دیکھنا چاہیے تھا۔۔۔کسی نے نہیں مگر شہری نے یہ بات ضرور نوٹ کی ہوگی۔۔۔ پتا نا بھی چلا ہو تو میں خود بتا دونگی غلطی میری تھی۔۔۔مجھے پتا تھا مجھے وہ نہیں ملنا۔۔ چھوڑے آپی جو چیز ممکن نہیں اسکے بارے میں کیا سوچنا۔۔
ویسے آپی یہ محبت بھی بہت عجیب شے ہے۔۔۔ہم اپنے رب کے سامنے حاضر ہوتے ہیں دعا کرتے ہیں اور دعا میں بھی اسی کو مانگ لیتے۔۔۔خدا کسی کو محبت نہ کرواۓ اور اگر ہوتو یکطرفہ نہ ہو۔۔۔وہ کہتی بستر میں گھس کر سو گی۔۔
نہیں عفاف نہ محبت بری ہوتی ہے نا اسے کرنا غلط ہے مگر ہر چیز ایک وقت میں اور حد میں اچھی لگتی ہے۔۔۔جب چیز حد سے بڑھ جاۓ تو نقصان اپنا ہی ہوتا ہے۔۔
محبت تو بہت پاکیزہ رشتہ ہے ۔۔۔غلطی ہم انسان کریں اور قصور محبت پر ڈال دیں یہ کہا کی عقل مندی ہے۔۔۔
سو جاٸیں آپی۔۔۔وہ لیمپ بند کرتی کروٹ بدل کر سو گی۔۔۔ باہر کھڑا شہریار ساری باتیں سن چکا تھا۔۔
**********
مہندی کی تیاریاں مکمل ہوگی تھی ۔۔۔عفاف کو پالر جانے کے لیے شہری نے گاڑی نکالی اور وہ دونوں پالر کی طرف روانہ ہوگے۔۔۔ رستہ خاموشی میں گزرا۔۔۔
کیا ہوا میری گڑیا کو خاموش کیوں ہے۔۔۔شہریار نے عفاف کی طرف دیکھتے ہوۓ پیار سے پوچھا۔۔۔۔
کچھ نہیں بھاٸی آپ سب کوچھوڑ کر اتنی دور جارہی ہوں بس یہی احساس رولا رہا ہے۔۔۔
عفاف میں تمھارا سگا بھاٸی نہیں ہوں۔۔۔مگر تم مجھے بہنوں سے ذیادہ عزیز ہو۔۔۔تم اپنے دل کی بات کر سکتی ہو مجھ سے۔۔۔شہری کے بولنےپر عفاف کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگا۔۔۔
عفان کو پسند کرتی ہو۔۔شہری کے بولتے ہی عفاف نے اسے دیکھا اور پل بھر میں نظریں جھکا لی۔۔
آپ مجھے بتا دیتی میں اسے بات کر لیتا۔۔۔وہ پسند نہیں کرتے بھاٸی چھوڑٸیں نا بھاٸی جو ہو رہا ہے وہی بہتر ہے۔۔۔
اور وہ اپنا بیگ اٹھانے لگی۔۔بھاٸی میں فری ہوکر کال کروں گی آپکو۔۔۔
میری چھوٹی گڑیا تو بہت بھادر ہوگی ہے۔۔۔
اوروہ اللہ حافظ کہتی پالر کے اندر چلی گی۔۔۔
**********
مہندی ہے رچنے والی
ہاتھوں میں گہری لالی
ہاۓ ساکیاں اب کالیاں
ہاتھوں میں کھلنے والی تیرے من کو
جیون کو نٸی خوشیاں ملنے والی ہیں۔۔۔
اسٹج سج چکا تھا۔۔۔ہیام نے شہری کا دلایا ہوا ڈریس پہنا تھا۔۔۔وہ ہاتھ میں گجرے کی تھال لیے آگے بڑھ رہی تھی۔۔
اہہہہم اہہہم۔۔۔شہری گلا کھنکھالتے ہوۓ کسی کو اپنی طرف متوجہ کروانا چاہ رہا تھا۔۔مگر وہ اسے مکمل اگنور کرتی۔۔۔ آگے بڑھنے لگی۔
ارے بڑی ہی کوٸی بے مروت لڑکی ہو میں یہاں تمھاری تعریف کرنا چاہ رہا ہوں اور تم منہ پھیر کر جارہی ہو۔۔
تم نے کل رات جو حرکت کی ہےنا میں بھولی نہیں ہوں۔۔۔ہٹلر ہٹو میرے سامنے سے۔۔
ارے یار وہ تو میں سچ میں بھول گیا تھا۔۔مجھے لگا تم کونسا بناٶ گی کافی اس لیے میں سو گیا۔۔شہری معصومیت سے کہنے لگا۔۔
جی نہیں یہ کام تم نے جان بوجھ کر کیا ہے۔۔مجھے تنگ کرنے میں تمھیں بہت مزا آتا ہے نا۔۔۔ ہٹلر صحیح کہتی ہوں میں تمھیں۔۔۔
اچھا چھوڑو ٹیسٹ یاد کیا۔۔۔ شہری نے اسے پھر یاد دلایا آج بھی ہیام یونی نہیں گی اسکا سمیسٹر اسٹارٹ ہونے والا تھا مگر اسنے کتابیں کھولنے کی زحمت نہیں کی تھی۔۔۔
شہری تم پاگل ہوگے ہو میری بہن کی شادی ہے میں تیار ہوں کام کروں کے تمھارا پڑھوں بیٹھ کر۔۔۔ہیام نے اسکی باتوں سے بیزار ہوکر کہا
ہیام ہر چیز کے لیے ٹاٸم نکالنا پڑتا ہے۔۔۔اور تم کون سا کام کرتی ہو۔۔۔سب تو آپی کرتی ہے۔۔
ہیام کو اب برا لگنے لگا تھا شہری کا ہر بات میں ایمان کی مثال دینا۔۔وہ پیار تو بہت کرتی تھی مگر کبھی کبھی کچھ باتیں آپکو اپنوں سے بدگمان کر دیتی ہے۔۔۔
مجھے کسی کے جیسا بننے کا شوق نہیں ہے۔۔مجھے کسی سے ملانے کی ضرورت نہیں ہے۔تمھیں۔۔وہ غصے میں کہنے لگی اتنے میں ایمان وہاں آگی۔
کیا ہوا تم لوگ کیوں یہاں کھڑے ہو۔۔۔چلو مہمان آگٸے ہیں۔۔ایمان نے بھی گولڈن کلر کا بنارسی پچامے کے ساتھ مہرون کلر کی ہلکے کام والی کرتی پہنی تھی۔۔۔
سر پر اسکارف سلیقے سے باندھا ہوا تھا۔۔۔ہیام اسے دیکھ کر بنا بولے نکل گی۔۔
اسے کیا ہوا ہے۔۔ کچھ نہیں آپ چلیں میں بھی آتا ہوں۔۔۔شہری سے بات کر کے وہ عفاف کے کمرے میں چلی گی۔۔
سامنے سے آتا محراب شہری کو دیکھتا اسکے پاس آیا۔۔۔اچھا لگ رہا ہے۔۔۔محراب اسکی تعریف کرتا کہنے لگا۔۔۔
مکھن لگا رہا ہے۔۔۔شہری بھی شریر مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا۔۔
بھاٸی ہے تو۔۔۔ہاہاہا مذاق کر رہا ہوں۔۔۔شہریار اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا۔۔
شہری تو نے کیا سوچا میرے اور ایمان کے بارے میں۔۔۔محراب سیدھی بات کرنے لگا۔۔۔
تو اپنی امی کو منا لے آپی کو میں دیکھ لوں گا۔۔
وہ نہیں مانتی ہے میں نے بہت بولا مگر وہ سنتی نہیں ہیں۔۔۔محراب اپنی پریشانی اسے بتارہا تھا۔۔
اس دن جو پھوپو نے کیا اسکے بعد تو میں ایسے نہیں کرسکتا کوٸی بات۔۔تم پہلے پھوپو کی غلط فہمیاں دور کرو کے اگر کسی کے ساتھ کچھ غلط ہوا ہو۔۔۔تو ضروری نہیں کے اس میں اسی انسان کا قصور ہو۔۔۔ہمیں تصویر کے دونوں رخ دیکھنے چاہیے۔۔
تم بس اسکی شادی نہ ہونے دینا کہیں اور میں مما کو مناتا ہوں۔۔۔محراب اسے دیکھتا بولنے لگا۔۔۔۔
ویسے تونے کوٸی خاص اچھا کام نہیں کیا آپی کو پتا لگانا کے تو اسے فون کرتا ہے تو اچھے سے بتاۓ گی تجھے۔وہ تو میں ہوں اتنا اچھا
۔تو زور زور سے بول تاکہ محلے کو پتا لگے۔۔۔اور دونوں ہنستے ہوۓ باہر جانے لگے۔۔۔ویسے اسنے تو فون ہی بند کردیا ہے۔۔
**********
عفاف ہلکے سے میک اپ میں کاہی گرین کلر کا ڈریس پہنے سلیقے سے سر پر ڈوپٹہ ٹکاۓ ایمان اور ہیام کے ساتھ چلتی ہوٸی آرہی تھی۔۔۔
سامنے اسٹیج کے پاس ہی عفان کھڑا تھا۔۔۔یہ گھر کا فنکشن تھا سب رشتےدار آۓ تھے گھر کے گارڈن میں ہی فنکشن تھا۔۔۔مردوں کے لیے الگ بیٹھک اندر تھی گھر کے مرد دانیال محراب شہریار اور عفان گارڈن میں مدد کے لیے کھڑے تھے۔۔۔
عفاف کی نظریں پھر اس پر پڑی جو بلیک شلوار کرتے میں کھڑا کسی سے فون پر بات کر رہا تھا۔۔۔
رخ یار نے موڑا
میرے دل کو توڑا
زمانے سے نہیں ہاری
تیری بےرخی نے توڑا
(از قلم عائشے گل)
محراب اور دانیال نے پارٹی پوپر پھاڑے رسمیں شروع ہوگی تھی۔۔ تھی ندرت سعدیہ سلطانہ بیگم نے ہلدی لگا کر رسم ادا کی۔۔۔سب نے ان یاد گار لمحوں کو کیمرے میں قید کیا۔۔۔
مہندی والی نے مہندی لگانا شروع کی ڈیک پر گانے بج رہے تھے۔۔۔باقی مہمان کھانے میں مصروف تھے۔۔۔
ایک کام کرو یہاں میرا اور ہٹلر کانام لکھ دو ہیام شرماتے ہوۓ مہندی والی کو کہنے لگی۔۔۔
ہٹلر آپ کے شوہر کا نام ہے یہ۔۔۔مہندی والی کنفیوز ہوکر پوچھنے لگی۔۔
ارے نہیں پاگل ایسا بھی کسی کا نام ہوتا ہے۔۔۔وہ تو ہے ہٹلر تم لکھو شہریار لکھو۔۔۔
سب مہندی لگانے میں مگن تھے۔۔۔مہندی والی نے عفاف سے پوچھا۔۔آپ کے ہونے والے کا نام بتادیں تو مہندی میں نا چھپا دوں۔۔۔
کوٸی ضرورت نہیں فضول چیزیں کرنے کی۔۔سیدھی مہندی لگاٶ بس۔۔عفاف نے مہندی والی کو جھرکتے ہوۓ کہا۔۔۔
**********
تو نے شہریار حسن کی بہن کو چنا اپنے گندے کام کے لیے۔۔تجھ جیسے درندے کو اس دنیا میں رہنے کا کوٸی حق نہیں جب تک رہے گا گند ہی پھلاۓ گا۔۔۔ وہ تہہ خانے کے بند اور اندھیرے کمرے میں کسی کو بری طرح مار رہا تھا۔۔۔کمرے میں چیخوں کی آوازیں بلند ہونے لگی۔۔۔
اسکی اچھے سے مہمان نوازی کرنا میں۔۔۔اور دھیانرہے بھاگے نا۔۔نا ہی کسی کو خبر ہو۔۔۔
***********
ہاں چیتے تیرے دن ختم ہو رہے ہیں مال جمع کیا۔۔۔ہاں صاحب جی ایسا مال جمع کیا ہے کے آپ حیران رہ جاٸیں گے۔۔۔بہت کماٸی ہوگی۔۔۔اچھا تو کب لے جارہا ہے دیکھانے۔۔۔
صاحب تین دن اور دے دو۔۔۔۔ایک دو پیس دیکھے ہیں۔۔۔۔پھر آپ کو سب کی مہ دیکھاٸی کرواوں گا۔۔
چل ٹھیک جا کام پر لگ جا۔۔۔ جہانگیر شاہ اسے کہتا کش لگانے لگا۔
چھوٹے۔۔وہ چیتے کے جاتے ہی زور سے چینخا
ہاں صاحب جی۔۔۔وہ ہربراتے ہوۓ ہاپتے ہامپتے بولنے لگا۔۔۔
جا اسکا پیچھا کر کہاں گیا ہے۔۔۔۔
جی صاحب وہ اپنے گھر ہی جاتا ہے دیکھایا تو تھا۔۔۔۔ آ ج جا تو اسکا مہمان بن کر چلا جا اور اسکی ہر حرکت پر نظر رکھ۔۔۔سمجھا کچھ۔۔
ہاں صاحب جی میں ابھی جاتا ہوں۔۔۔۔
************
شہریار عفان کہاں ہے نظر ہی نہیں آرہے ہیں۔۔۔سعدیہ نے پریشانی سے کہا
عفان بھاٸی تو لگتا ہے اپنے گھر چلے گے مگر یہ ہٹلر کدھر ہے۔۔۔۔۔ ہیام بھی بربراٸی۔
کیا۔۔۔؟سعدیہ اسے بغور دیکھتی کہنے لگی۔۔۔
کچھ نہیں تاٸی امی آپ سو جاٸیں میں جاگ رہی ہوں دیکھیں سب تھک گے تھے سو گے ہیں آپ بھی آرام کرو میں فون کرتی ہوں۔۔۔ ہیام سعدیہ بیگم کو اوپر بھیج کر شہریار کو فون کرنے لگی جو مصروف آرہا تھا۔۔۔
*********
کوٸی پیچھا کر رہا ہے تیرا شاہ کے اڈے سے نکلا ہے۔۔۔
یا چھوٹا ہوگا۔جہانگیر شاہ نے لگایا ہوگا۔۔۔وہ کان میں چھپکے سے لگاۓ ہیڈ سیٹ کو ہاتھ سے صحیح کرتا بولنے لگا۔۔۔
میرے پاس اس گھر کی چابی بھی نہیں ہے تو جا اور رکھ کہی پر میں آج رات وہی گزارتا ہوں۔۔۔دیکھتا ہوں کیوں آرہا ہے۔۔۔کچھ رکھا تو نہیں ہے اس گھر میں۔۔
وہ بلکل دھیمی آواز میں بات کررہا تھا۔۔۔وہ چلتے چلتے دس منٹ میں ایک چھوٹی تنگ گلی میں گھس گیا اور چلتا چلتا دو تین ایسی ہی تنگ گلی پار کر لی۔۔۔۔
پھر ایک گندے گھر کی طرف رُکا اور ادھر نیچھے اوپر داٸیں باٸیں دیکھنے کے بعد گملے کے نیچھے سے چابی نکالی۔۔اور دروازہ کھولتا اندر چلا گیا۔۔۔
کیا دیکھنے آیا ہے یا۔۔سمجھ نہیں آرہا باہر دیکھ کیا کر رہا ہے۔۔۔۔تیرے گھر کی طرف آرہا ہے۔۔۔
کیوں۔۔۔اففففف اللہ کیا اچانک مصیبت ڈالی ہے۔۔۔۔دروازے پر دستک ہوٸی۔۔۔
آگی مصیبت دوسری طرف والا شخص بولا۔۔
چپ کرلے ورنہ آکر بہت مار کھانی ہے تو نے۔۔۔اچھا چل دروازہ کھول میں گھر کے باہر ہی نظر رکھے ہوۓ ہوں۔۔۔
ہہہہہممممم چیتا کہتا ہیڈسیٹ نکالتا دروازے کی طرف بڑھا۔۔۔
چھوٹے تو یہاں۔۔۔۔چیتا چہرے پر حیرانی لاۓ اسے دیکھ کر پوچھ رہا تھا۔۔۔
ہاں میں یار ہوں تیرا ایک دن نہیں آسکتا تیرے گھر۔۔۔
نہیں نہیں چھوٹے آجا۔۔۔مگرکیا ہے نا تو امیروں کے یہاں پلا ہے اور میرا غریب خانہ اس لاٸق کہا۔۔۔۔
نہیں اب ایسی بات نہیں ہے میں آرام سے رہ لوں گا۔۔۔چھوٹا بھی مکاری کے ساتھ کہنے لگا۔۔
چل صحیح ہے میں منہ ہاتھ دھو لوں پھر تجھ سے بات کرتا ہوں۔۔۔۔چاۓ پانی کچھ پیۓ گا۔۔۔
ہاں پانی دے دے۔۔اچھا اور چیتا اسگے لیے پانی میں نیند کی گولیاں ملا کر لے آیا۔۔۔اور خود اسے گلاس دے کر ہاتھ منہ دھونے چلا گیا۔۔۔
جب باہر نکلا تو وہ گھوڑے گھدے بیچ کر سو رہا تھا۔۔۔۔چیتے نے فون اٹھایا۔۔
کہاں ہے تو۔۔۔۔۔ باہر ہوں۔۔۔تو بتا اندر سب ٹھیک ہے۔۔۔دوسری طرف سے آواز آٸی ۔۔۔۔ہاں سب ٹھیک ہے نیند کی گولی دے دی ہے۔۔تو اندر آجا آج رات یہی گزارنی پڑے گی۔۔۔
اوروہ دونوں دھیمہ ہنستے ہوۓ سوتے ہوۓ شہری کو دیکھنے لگے۔۔۔۔
**********
ہیام کا فون پورے کمرے میں بج رہا تھا صبح کے دس بج رہے تھے۔۔۔۔
کون ہے۔۔۔؟وہ بنا نام پڑھے کال اٹھاتی نیند میں بولنے لگی۔۔۔۔
تم اب تک سو رہی ہو اٹھو جلدی دس منٹ میں تیار ہوکر نیچے آٶ یونی جانا ہے۔۔۔ہیام شہریار کی آواز سن کر اسنے ٹاٸم دیکھا۔۔۔
میری یونی کا ٹاٸم ختم ہوگیا ہے۔۔اسلیے میں اب نہیں جاٶں گی۔۔۔وہہپھر سے کمبل میں گھس گی۔۔۔
ہیام پانچ منٹ صرف ورنہ میں گھر کے سب بڑوں کو لے کر تمھارے کمرے میں آجاٶں گا۔۔۔
اففففف کیا مصیبت ہے کس عذاب کو گلے میں ڈال دیا ہے ہٹلر وہ فون کو بیڈ پر پٹکتی غصے سے اٹھ کر واشروم میں گھس گی۔۔۔
***********
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...