زوار اور بلال فائرنگ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے صوفیہ ایک ایک کمرے کو چیک کرتی کمپیوٹر روم میں پہنچ چکی تھی اور اب دروازہ اندر سے بند کرکے کمپیوٹرز کو چیک کرنے میں لگی تھی ۔چند منٹ کی کوشش کے بعد وه پاسورڈ لگانے میں کامیاب ہو چکی تھی اور اب سامنے اس دنیا میں موجود ہر ملک میں ان دہشت گردوں کے اڈے کی تفصیلات مقامات اور انکے اراکین کی ساری معلومات نظر آرہی تھی ۔
افسوس کا مقام تھا کہ اسلام کے نام پر قائم یہ دہشت گرد تنظیمیں زیادہ تر یہودیوں اور عسائیوں کی زیرنگرانی چل رہی تھی اور مسلم امہ کے جوانوں کو جہاد کے نام پر گمراہ کرکے برین واش کیا جارہا تھا یہ سب دین اسلام اور دنیا اسلام کو تباہ و برباد اور بد نام کرنے کی ایک بہت بڑی منظم سازش تھی ۔
وقت گزر رہا تھا صوفیہ کے پاس کام زیادہ اور وقت کم تھا وه جلدی جلدی ساری فائلز اور سارا ڈیٹا ٹرانسفر کر رہی تھی ابھی آدھا کام باقی تھا جب صوفیہ نے ایک نظر کمپیوٹر سکرین پر ڈالی جہاں سے سارا ڈیٹا پاکستان کے ہیڈ کواٹر ٹرانسفر ھو رہا تھا اور ابھی پچاس فیصد ٹرانسفر باقی تھا جب کمرے کے دروازے کی ہلکی سی چرچڑاہٹ کی آواز اس کے کانوں میں پڑی صوفیہ نے تیزی سے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔
**********************************************
شہزادہ فہد کریمی کو تھوڑی دیر بعد ہوش آیا تو وه بوریوں کے ڈھیر کے پیچھے پڑا ہوا تھا آس پاس سے بھگدڑ اور گولیوں کی ترتڑاہٹ کی آوازیں آرہی تھیں۔ وه پوری جان لگا کر اپنے پشت پر بندھے ہاتھ کھولنے میں مصروف تھا اور بلآخر وه انگوٹھی کے ہیرے کی دھار سے رسی کاٹنے میں کامیاب ھو چکا تھا ۔
دونوں ہاتھوں کو سہلاتا کلائیوں کو گھماتا وه اٹھ کھڑا ہوا تھا اسکی آنکھوں میں شاطرانہ چمک تھی اسے اچھی طرح پتا تھا کہ وه لومڑی صوفیہ کمپیوٹر روم کی طرف ہی گئی ہو گی وه بڑے بڑے قدم اٹھاتا ستونوں کی آڑ لیتا کمپیوٹر روم کی جانب بڑھا دروازہ بند تھا مگر اس اڈے کے ہر دروازے کا کوڈ اسے معلوم تھا اس نے بڑی آرام سے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گیا مگر اتنی احتیاط کے با وجود صوفیہ اسکی موجودگی محسوس کر گئی تھی اور اس نے پلٹ کر شہزادہ فہد کریمی کو دیکھا ۔
“مائی ڈارلنگ ! مجھے پتا تھا تم یہیں ملو گی چلو شاباش جلدی سے کمپیوٹر شٹ آف کرو “
۔وه خباثت سے کہتا ہوا صوفیہ کی طرف بڑھا ۔
فہد کریمی کو قریب آتے دیکھ کر صوفیہ کی آنکھوں میں شکاری کی سی چمک اٹھی وہ بڑی دل آویزی سے مسکرائی ۔
“ہائے کمبخت دل ان حالات میں بھی تم پر مر رہا ہے ۔”فہد کریمی دل پر ہاتھ رکھ کر بولا ۔
فہد کریمی کے نزدیک آتے ہی صوفیہ نے برق رفتاری سے اچھل کر فہد کریمی کو ایک زور دار فلائنگ کک ماری وه اچھل کر دور جا گرا اس سے پہلی وه اٹھ پاتا صوفیہ کسی بلا کی طرح اسکے سر پر پہنچ چکی تھی جیسے ہی وه اٹھا صوفیہ نے پوری طرح گھوم کر ایک زور دار لات اسکے چہرے پر ماری فہد کریمی کے سامنے کے سارے دانت ٹوٹ کر باہر گر گئے تھے منہ سے خون کی دھاریں نکل رہی تھیں پر صوفیہ انتہائی بے رحمی سے اسے ہاتھ لگاۓ بغیر اپنی ٹھوکروں میں رکھی ہوئی تھی حتی کہ وه نیم بیہوش ھو گیا ۔
“کیا ہوا کتے کریمی اٹھ تجھے دکھانا ہے کہ پاکستانی لڑکی تر نوالہ نہیں ہوتی “صوفیہ غرّا ئی
پھر پلٹ کر اسنے سامنے موجود الماری کا شیشہ توڑا اور ایک بڑا نوکیلا ٹکڑا اٹھا کر بڑی ہی بے رحمی سے فہد کریمی کی آنکھوں میں گھسا دیا ۔
“جو ہمارے ملک اور قوم پر گندی نظر ڈالتے ہیں انھیں ہم بھی اتنی آسانی سے مرنے نہیں دیتے بلکہ ایک عبرت ناک انجام سے دوچار کرتے ہیں ۔”
صوفیہ نے کہا اور پھر دونوں ہاتھوں سے اسکی گردن پکڑ کر مڑوڑ دی فہد کریمی اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا ۔
صوفیہ نے بڑے آرام سے اپنے ہاتھ جھاڑے اور مڑ کر کمپیوٹر کی جانب بڑھی جدھر ڈیٹا ٹرانسفر اپنے اختتام کو تھا ۔
باہر سے شور کی آوازیں بڑھتی جا رہی تھیں پورا ڈیٹا کمپیوٹر سے آئی ایس آئی کے ہیڈ آفس آن لائن ٹرانسفر ہوچکا تھا صوفیہ نے جلدی سے کمپیوٹر کو بند کیا اور فہد کریمی کی لاش کو پھلانگتی ہوئی باہر نکل گئی ۔
**********************************************
زوار اور بلال گولیوں کی بوچھاڑ میں آگے بڑھتے بڑھتے ایک دوسرے سے مل چکے تھے ۔
”میجر بلال باہر کی طرف نکلو ان پر ایسے قابو پانا مشکل ہے ہمیں ان پر ہیلی کاپٹر سے حملہ کرنا ہوگا ۔“ زوار سامنے پڑے راکٹ لانچر کو اٹھا کر بلال کی سمت بڑھاتا ہوا بولا ۔
بلال کو لانچر دیکر زوار نے کان پر لگے بلوٹوتھ ڈیوائس سے صوفیہ کو رابطہ کیا ۔۔۔
” ایجنٹ باہر کی جانب فوراً گو ٹورڈز ہیلی کاپٹر ائیر اسٹرائیک کرنی ہوگی ۔“ زوار نے ہدایات دیں ۔
”میجر بلال وقت کم ہے گو اٹس این آرڈر “ زوار چلایا
” زوار بھائی آپ اکیلے نہیں سنبھال پائینگے انہوں نے ہمیں گھیر لیا ہے ۔“ بلال سنجیدگی سے بولا
”میجر بلال جاؤ ہیلی کاپٹر سے ان پر راکٹ لانچر سے حملہ کرو میں تب تک انہیں ادھر ہی سنبھالتا ہوں ۔“ زوار کہتے ہی راکٹ لانچر سے سامنے سے آتے مجمع پر فائر کرتا آگے بڑھا ۔۔
بلال تیزی سے فائرنگ کرتا ہوا کئی لاشوں کو پھلانگتا دروازے کی جانب بڑھ رہا تھا اسے دور سے صوفیہ نرغہ میں گھری نظر آرہی تھی ۔۔
”ایجنٹ صوفیہ ایٹ کاؤنٹ آف تھری لانگ جمپ رائیٹ سائیڈ ۔“ بلال نے اسے بلوٹوتھ میں ہدایات دی اور گنتی شروع کی
”ایک دو تین ۔۔۔۔“ اور راکٹ کانچر سے فائر کردیا ۔
ایک زور دار دھماکہ ہوا صوفیہ جو چھلانگ مار چکی تھی دور جا کر گری بلال نے دوڑ کر اسے اٹھایا اور زمین پر گری مشین گن اٹھا کر صوفیہ کے ہاتھوں میں تھمائی اب وہ دونوں ایک دوسرے کی پشت سے پشت ملائے فائرنگ کرتے ہوئے داخلی دروازے کی جانب بڑھ رہے تھے جلد ہی وہ دونوں باہر تھے اور اب تیزی سے ٹیلہ کے پیچھے چھپے ہیلی کاپٹر کی جانب جارہے تھے جب صوفیہ چلائی
”میجر بلال اوپر دیکھو وہ جیٹ وہ سیدھا اوپر جارہا ہے او گاڈ یہ پلین اوگاڈ بلال یہ پلین ۔“
صوفیہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھی ۔
بلال نے آسمان کی طرف دیکھا ۔
”صوفیہ اپنے بالوں سے یہ بڑا سفید ربن نکالو اور اسے ٹیلہ پر چڑھ کر لہراؤ کسی بھی طرح اس پلین کے پائیلٹ کی توجہ کھینچو۔“ یہ کہتا ہوا بلال بھاگتا ہوا کاپٹر کی جانب بڑھا ساتھ ہی ساتھ وہ بلوٹوتھ پر زوار کی فریکوئنسی میں چلا رہا تھا
”میجر زوار ۔۔۔May Day May Day سوسائیڈ اٹیک بائے پلین فوری باہر نکلیں ۔۔“
بلال نے کہنے کے ساتھ ہی بھاگنا ترک کرکے راکٹ لانچر سے عمارت پر پہ در پہ فائر داغنا شروع کردیا تھا
پوری عمارت لرز رہی تھی راکٹ لانچر کے فائر سے دیواریں گرنا شروع ہوگئی تھی اور اندر موجود دھشت گردو کی توجہ باہر کی جانب ہو گئی تھی وہ جلدی جلدی بھاگتے ہوئے بکتر بند گاڑیوں میں بیٹھ کر باہر نکلنے کی کوشش کررہے تھے ۔۔۔۔
********************************************
کیپٹن حمید کو گو آہیڈ کا سگنل مل چکا تھا پاکستان میں آپریشن شروع ہوچکا تھا کیپٹن نے جہاز کو تیر کی طرح سیدھا کیا اور اوپر آسمان کی جانب لے گیا اب اسے پوری اسپیڈ سے جہاز کو تیر ہی کی طرح سیدھا لا کر اس عمارت کے وسط میں گرانا تھا ۔۔۔۔
”کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے وہ نیچے کی جانب روانہ ہوا جب اس نے عمارت سے آگ کے شعلے اور دیواریں ٹوٹتی دیکھی اس نے تیزی سے نیچے گرتے جہاز کا اسپنڈل اوپر کھینچا اور تیزی سے ٹیلی اسکوپک آئی سے نیچے دیکھا فوکس کیا تو اسے میجر بلال نظر آیا اور ایک ٹیلہ پہ کھڑی صوفیہ جو اندھیرے میں بھی ہاتھ میں سفید ربن لہراتی دکھائی دے رہی تھی ۔۔
جہاز کو اونچائی پر لیجا کر اس نے روک دیا تھا اب عمارت میں سے بکتر بند گاڑیاں باہر نکل رہی تھی صوفیہ ٹیلہ سے اتر کر ہیلی کاپٹر کی جانب بھاگ رہی تھی اور میجر بلال جوانمردی سے راکٹ لانچر سے ان گاڑیوں کا نشانہ لے رہا تھا دیکھتے ہی دیکھتے صوفیہ کاپٹر میں بیٹھ چکی تھے اور کاپٹر فضا میں بلند ہونا شروع ہوچکا تھا اب کاپٹر کا رخ بلال کی طرف تھا صوفیہ نے رسی کی سیڑھی نیچے پھینکی جسے بلال نے جمپ لگا کر پکڑا اور کاپٹر اوپر اڑتا چلا گیا رسی سے لٹکتا بلال مسلسل بکتر بند گاڑیوں کا نشانہ لے رہا تھا ۔۔۔
کیپٹن حمید نے پورا ذہن دوڑا کر میجر زوار کی فریکیونسی سیٹ کی اور بڑی مشکل سے زوار سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوگیا ساری تفصیل بتائی
”کیپٹن حمید یہ اڈا بہت بڑا ہے میں اندر بم لگا رہاہوں تم نوے ڈگری کے اینگلز سے پندرہ منٹ بعد جہاز کو نیچے لا کر گرادو میں بھی وہی تمہارا انتظار کرونگا ٹائمنگ کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔۔۔“ کیپٹن حمید کو ہدایات دینے کے بعد زوار نے سامنے موجود دھشت گردو کے اسلحہ خانے میں سے ہینڈ گرینڈ اور دستی بم اٹھائے اور زمین پر جھک کر رول ہوتے ہوئے جگہ جگہ بم پھینکتا ہوا تیزی سے بچتا بچاتا باہر نکل گیا اور بائیں جانب دوڑتا چلا گیا ۔۔
میجر زوار کے باہر نکلتے ہی آسمان کی بلندیوں سے جیٹ طیارہ نوے ڈگری کے اینگل سے اڑتا ہوا آیا اور عمارت کے اوپر گر گیا ۔
طیارے کے گرتے ہی ایک زور دار کان پھاڑ دینے والا دھماکہ ہوا دور دور تک ریتیلی زمین لرز گئی اور پوری عمارت زمین میں دھنس گئی آگ ہی آگ ہر طرف لپکتے بھڑکتے شعلہ کا رقص جاری تھا زوار بھی اچھل کر دور جاگرا تھا۔
اسلام دشمن عناصروں کا ایک بڑا قلعہ نیست و نابود ہوچکا تھا زوار نے کلمہ شکر پڑھ کر بلال سے رابطہ کیا اور اسے اپنی پوزیشن بتائی ۔
سارے غازیوں کے چہرے اپنی کامیابی پر چمک رہے تھے بلاشبہ ان چند وطن پرست جیالوں کے جذبہ جنوں کے آگے دھشت گردوں کی پوری فوج ختم ہوگئی تھی ۔
******************************************* **
زوار پاکستان آچکا تھا اور پروفیسر شبیر بھی منظر عام پر آچکے تھے اور اس وقت دونوں چچا بھتیجے سروسز کلب میں بیٹھے بڑے آرام سے بریگیڈیئر افتخار اور کرنل جہانگیر کے ساتھ بیٹھے چائے پی رہے تھے افتخار اور جھانگیر دونوں حیرانی سے ان چچا بھتیجے کا سکون دیکھ رہے تھے یعنی حد ہوگئی دونوں نے زویا کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا تھا آخر تھک ہار کر افتخار صاحب نے زوار کو مخاطب کیا ۔
” زوار مشن بھی ختم اور شبیر بھی مل گئے ہیں اب تم زویا کو بھی بلوا لو تو ایک گرینڈ ولیمہ پلس نکاح پارٹی رکھ لیتے ہیں ۔۔“
”ڈیڈ نکاح تو ہوچکا ہے آپ ایسا کریں بلال اور صوفیہ کانکاح اور میرا ولیمہ رکھ لیں۔“ وہ بڑے اطمینان سے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے بولا
”ٹھیک ہے اس جمعہ کو تقریب رکھ لیتے ہیں پر تم زویا کو لے آؤ تاکہ شبیر بھی مل لے ۔۔“ افتخار صاحب گویا ہوئے
” کیا ڈیڈ آپ بھی کیا مجھے اور چاچو کو اتنا سیدھا سمجھتے ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہ ہو کہ زویا ممی کے ساتھ مری میں ہے ۔“زوار مسکراتے ہوئے بولا
”جی بیٹا جی سیدھے تو تم واقعی ہو جلیبی کی طرح پر تمہیں کیسے پتہ چلا ۔“ افتخار صاحب نے استفسار کیا
”ڈیڈ ! یہ پہیلی آپ خود حل کیجئیے میں شام تک ممی اور زویا کو لیکر آتا ہوں ۔“وہ کرسی سے اٹھ کر گاڑی کی چابی اٹھاتا باہر نکل گیا اب اس کا رخ مری کی جانب تھا۔۔۔
اب افتخار صاحب اور کرنل جھانگیر کی توپوں کا رخ شبیر کی طرف تھا ۔۔
جینز اور سفید ٹی شرٹ میں ملبوس شبیر جسے وقت چھوئے بغیر گزر گیا تھا بڑے اطمینان سے اپنے بڑے بھائیوں جیسے دوستوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔
”افتخار بھائی آپ سے ایک گذارش ہے ۔۔۔“ شبیر نے پرسوچ لہجے میں کہا
” شبیر کیا بات ہے اتنا سوچ کیوں رہے ہو ۔“ افتخار صاحب نے پوچھا
”آپ سب نے اس پوری مہم میں زویا کا اتنا خیال رکھا اب بس ایک ریکویسٹ ہے زویا ابھی صرف سترہ سال کی ہے تعلیم بھی نامکمل ہے اور زوار جیسے ٹائیگر کے مقابلے میں وہ حد درجے کی ڈرپوک ہے پھر میں ان کے نکاح میں بھی نہیں تھا تو کیوں نہ اگر آپ کو اور بھابھی کو اعتراض نہ ہو تو بلال کے ساتھ زورا کا بھی نکاح رکھ لیں زوار کا کہنا ہے کہ زویا کو نکاح کے وقت پتا ہی نہیں تھا کہ اسکا نکاح کس سے ہورہا ہے تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم احتیاطاً نکاح دوبارہ پڑھوالیں ۔“ شبیر نے سوالیہ نگاہوں سے انہیں دیکھا
” مجھے کوئی اعتراض نہیں بلکہ ایک طرح سے اچھا ہی ہے ۔۔” افتخار صاحب مسکراتے ہوئے بولے
” اور عفی بھائی میں چاہتا ہوں رخصتی ایک سال بعد زویا کے اٹھارا سال کے ہوجانے پر ہو تب تک میں زویا کو آئیرلینڈ لے جاتا ہوں مجھے اس کی تھوڑی تربیت بھی کرنی ہے اس کا جگرا مضبوط کرنا ہے ۔“ شبیر نے سنجیدگی سے کہا
” بھئی اس معاملے میں میں کچھ نہیں کہونگا کیونکہ تمہارا ٹائیگر اسے ایک لمحہ نہیں چھوڑتا ہے بہتر ہے تم چچا بھتیجے آپس میں خود بات کرلو ۔“ افتخار صاحب ہاتھ اٹھا کر بولے
”چلیں ٹھیک ہے شام تک زوار بھابھی اور زویا کو لے آئے گا پھر بات کرتا ہوں ۔“ شبیر مسکرائے
”سب باتیں ہوگئی شبیر اب یہ تو بتا دو تم دونوں کو زویا کی مری میں موجودگی کیسے پتا چلی ۔“ کرنل جھانگیر نے پوچھا
”بھائی لوگوں زویا کی لاکٹ اور چین تو آپ نے اتروا لیا تھا یو کیمرہ تو آف ہوگیا تھا مگر ایمرجنسی ٹریکر آن تھا پھر آپ نے وہ لاکٹ اور ٹاپس تھیلی میں لپیٹ کر سامان میں رکھوا دیا تھا بس اس سامان سے میں نے زویا کو ٹریک کیا اور ٹائیگر نے زویا کی گردن میں مائکرو چپ لگائی تھی اسی لئیے وہ بھی مطمئن تھا ۔“ شبیر نے مسکراتے ہوئے تفصیل بتائی ۔
**********************************************
بلال اسوقت صوفیہ کو لینے اس کے گھر آیا تھا انٹرکام پر اطلاع دینے کے بعد دروازے پر موجود چوکیدار نے دروازہ کھولا سامنے ہی ایک کیوٹ سی شہدرنگ گھونگریالے بال اور ویسی ہی آنکھوں والی پرکشش سی گول مٹول بچی کھڑی تھی بلال کو دیکھتے ہی وہ لپک کر اس کے پاس آئی ۔۔۔
” آپ تو وہ انکل ہے جنہوں نے ہمارے اسکول میں گندے آدمی کو مارا تھا۔“ وہ کانونٹ زدہ لہجے میں بولی
بلال بھی اسے دیکھ کر حیران تھا
” گڑیا آپ کون ہو اور ادھر کیا کررہی ہو ۔“ بلال نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔
”انکل میں ماریہ ہوں اور یہ میرا گھر ہے اور آپ شاید صوفیہ سے ملنے آئے ہیں ۔“ وہ سنجیدگی سے بولی
اتنے میں سفید قمیض شلوار میں اجرک اوڑھے صوفیہ اندر سے نمودار ہوئی
”کیا ماریہ تم بلال کو ابھی تک اندر لیکر کیوں نہیں آئی ۔“ صوفیہ بلال کو سلام کرتے ہوئے ماریہ سے مخاطب ہوئی
”آئیے اندر چلیں ۔“ صوفیہ نے کہا
بلال صوفیہ اور ماریہ کے ساتھ اندر داخل ہوا
بڑے سے سجے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تبھی صوفیہ نے اسے مخاطب کیا
”یہ میری پیاری سی بیٹی میری چھوٹی بہن ماریہ ہے جس کا بم آپ نےڈفیوزر کیا تھا اور ماریہ یہ بلال کل جن کے پیرنٹس آئے تھے “ صوفیہ نے تعارف کروایا
”بلال انکل کیا آپ واقعی صوفیہ سے شادی کرینگے ؟ “ ماریہ نے بلا کی سنجیدگی سے پوچھا
” جی بیٹا اردہ تو ہے ۔“ بلال بولا
”ڈونٹ کال می بیٹا انکل میرا نام ماریہ ہے ۔“ وہ منہ پھلا کر بولی
”ویسے آپ کو پتہ ہے کہ صوفیہ کو کھانا پکانا کپڑے دھونا صفائی کرنا کچھ نہیں آتا مگر پھر بھی وہ بہت ماہر ہے کسی کی بھی ٹانگ آسانی سے توڑ سکتی ہے اس کا نشانہ بھی بہت اچھا ہے ہمارے پاپا نے اسے ٹرینڈ کیا تھا ۔“ باپ کو یاد کرکے ماریہ کی آنکھوں میں افسردگی چھا گئی ۔
بلال نے بڑے پیار سے اس گول مٹول پیاری سی بچی کو دیکھا اور اسے گودی میں اٹھا کر اس کے پھولے چھولے سیب سے گال چومے ۔۔
”ماریہ تم آج سے میری بیٹی ہو اور کیا ہوا جو پاپا نہیں ہیں تمہیں میں ٹرینڈ کرونگا اور دیکھنا تمہارا نشانہ صوفیہ سے بھی اچھا ہوگا ۔“ بلال گویا ہوا
صوفیہ اپنی شہد رنگ آنکھوں میں چمک لئیے بلال اور ماریہ کو دیکھ رہی تھی آج یقیناً اس کے شہید ماں باپ بھی خوش ہونگے اب زندگی رنگ بدلنے والی تھی بلال کے والدین جلد صوفیہ اور ماریہ کو لینے آرہے تھے ان کا نکاح طے پاچکا تھا اور رخصتی ایک سال بعد قرار پائی تھی
***********************************************
زوار اسلام آباد سے مری جارہا تھا آدھا راستہ ہی طے کیا تھا جب اس کا فون بجا
”اسلام و علیکم چاچو ۔۔۔“
”ٹائیگر مجھے تم سے ایک ریکویسٹ کرنی تھی وعدہ کرو مانو گے تو میں بات کروں ۔“شبیر کی آواز اسپیکر میں ابھری
”چاچو زویا کو چھوڑ کر ہر بات مانو گا ۔“ زوار نے جواب دیا
”ٹائیگر اس فرائیڈے کو تمہارے اور زویا کے نکاح کی تقریب منعقد کی جارہی ہے میں نے افتخار بھائی سے بات کرلی ہے البتہ رخصتی آٹھ ماہ بعد ستمبر میں جب زویا اٹھارا سال کی ہوجائیگی اور میں اسے تھوڑا بہت مضبوط دل کا بھی بنادونگا بس یہی سوچا پے ۔“ شبیر نے اسے مطلع کیا
”کیوں چاچو ایسا کیوں زویا جیسی بھی ہے مجھے قبول ہے میں اسے اپنے لئیے بدلنا نہیں چاہتا ہوں ویسے بھی میرا کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ کب اگلا مشن آجائے میں اب کچھ ٹائم زویا کے ساتھ سکون سے گزارنا چاہتا ہوں ۔“ زوار نے اپنا موقف واضح کیا
تھوڑی دیر خاموشی سی چھائی رہی پھر زوار گہری سنجیدگی سے گویا ہوا
”چاچو میں آپ کی بات سمجھتا ہوں لیکن پھر آپ بھی وعدہ کریں ستمبر میں زویا کی سالگرہ اور رخصتی ایک ساتھ ہوگی اور اگر مجھ پر بھروسہ ہے تو نکاح کے بعد میں زویا کو کچھ دن ساتھ رکھونگا جیسے اب تک رکھا ہے ۔“
”ٹھیک ہے ٹائیگر منظور اگر تم پر بھروسہ نہیں ہوتا تو یاد رکھو آج زویا تمہارے نکاح میں نہیں ہوتی چلو اب جلدی سے میری بیٹی کو لیکر آؤ ۔“ شبیر نے کہا
*********************************************
کوہسار مری کی پہاڑیوں میں واقع اس خوبصورت سے کاٹج میں زویا مسز افتخار کے ساتھ تھی شام ڈھل رہی تھی مسز افتخار کو ہلکا سا بخار ہورہا تھا وہ دوا لیکر جلدی سونے چلی گئی تھی۔۔
زویا بور ہوکر کاٹیج کے پیچھے بنے باغیچہ میں آگئی تھی ڈھلتی شام آسمان پر چھائے گہرے بادل اور ان سے گرتی ہلکی ہلکی پھوار زویا کو مسحور کررہی تھی وہ آسمان کی طرف منہ کر کے دونوں آنکھیں بند کئیے موسم کی خوبصورتی محسوس کررہی تھی آج اس کا دل بہت خوش تھا اس کے پیارے بابا زندہ تھے اور ان سے بات بھی ہوئی تھی ۔۔۔۔
زوار نے گاڑی کاٹج میں لاکر روکی چوکیدار نے اسے سلام کیا وہ جواب دیتا اندر آیا چاروں جانب سناٹا چھایا ہوا تھا وہ بیڈرومز کی جانب بڑھا مما گہری نیند سو رہی تھیں وہ آہستگی سے دروازہ بند کرتا آگے بڑھا اس کی آنکھیں زویا کو ڈھونڈنے میں لگی تھی وہ اسے تلاش کرتا پیچھے باغیچہ میں آیا ۔
سرخ لباس میں ملبوس بالوں کو جوڑے میں لپیٹے وہ دشمن جان آسمان کی طرف منہ کئیے آنکھیں بند کئیے کھڑی تھی اس کے نازک گلاب کی پنکھڑیوں جیسے لبوں پر ایک پیاری سی مسکان تھی زوار کی ساری تھکن یہ دلکش منظر دیکھ کر اتر گئی تھی وہ دھیمے سے چلتا ہوا اس دلربا کے پاس آیا اور جذبات سے مغلوب ہو کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔
زویا جو آنکھیں بند کئیے اپنے بابا اور زوار کو سوچ رہی تھی اسے اپنے کندھے پر دباؤ محسوس ہوا اور اس کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی زوار نے تیزی سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا
”کیا ہے زویا یار میں جب بھی تمہارے پاس آتا ہوں تم چیخ مارنے لگتی ہوں سارے موڈ کا ستیاناس ہو جاتا ہے اور اس پر چاچو تمیں ٹرینڈ کرینگے حد ہے ویسے میرے خیال سے میں اس دنیا میں واحد شوہر ہوں جس کی بیوی اس کا استقبال چیخیں مار کر کرتی ہے ۔“ زوار اس کے بازوؤں پر گرفت مضبوط کرتا آنکھوں میں جھانک کر بولا جو اسے دیکھ کرجگمگا اٹھی تھیں
نازک لمحے سرک رہے تھے زوار اس کی سبز چمکتی آنکھوں میں ڈوب رہا تھا ۔۔۔
”کچھ کمی ہے ۔۔۔۔“ وہ بڑبڑایا پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر اسکے بالوں کا جوڑا کھول دیا
لمبے سلکی سنہرے بالوں کی آبشار سے گھٹا سی چھا گئی تھی
”اب ٹھیک ہے ۔“ زوار اس کے شرم سے سرخ چہرے کو دیکھتے ہوئے اس کے بالوں میں منہ چھپا گیا
” وعدہ کرو زویا میرے ہر مشن سے واپسی پر میری ساری تھکن اپنے وجود سے اتارا کروگی ۔۔۔“ زوار کا لہجہ جذبات سے پر تھا
زویا کی پلکیں جھکی ہوئی تھی وہ زوار کے حصار میں قید اثبات میں سر ہلاتے اس کے سینے میں منہ چھپا گئی تھی ۔
*********************************************
آج زوار اور بلال کے نکاح کی تقریب تھی دونوں سرشار سے اپنی دلہنوں کے پاس بیٹھے تھے تقریب میں شامل سارے افراد سرشار تھے کھانے کا تصاویر کا دور چل رہا تھا پروفیسر شبیر عمر کاکا دونوں اپنی گڑیا سی زویا کو دیکھ رہے تھے جو پریوں سا حسن لئیے سر جھکائے بیٹھی تھی زوار نے اپنی ممی سے کہہ کر اس کا گھونگھٹ کروادیا تھا ۔
دوسری جانب صوفیہ بھی جگمگارہی تھی اور بڑے کانفیڈنس سے مہمانوں سے بات چیت کررہی تھی رات سرک رہی تھی وطن کے رکھوالے جان ہتھیلیوں پر لئیے پھرنے والے جیالوں کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہو رہا تھا تھوڑی ہی دیر میں رخصتی کا غلغلہ اٹھ گیا پہلے زوار اور بریگیڈیئر افتخار نے صوفیہ کو بلال کے ساتھ اپنی دعاؤں میں رخصت کیا ۔۔
پھر سب مہمانوں کو رخصت کر کے زوار اپنے مام ڈیڈ اور شبیر کے پاس آیا
”پھر آپ سب کی اجازت ہے نا میں زویا کو لے کر جاسکتا ہوں دو روز میں اسے واپس لے آؤنگا ۔“
سب نے مسکرا کر اجازت دی
زوار پلٹ کر زویا کے پاس آیا ۔۔
” جلدی کرو دیر ہورہی ہے فوراً کھڑی ہوجاؤ ۔“ وہ اپنے مخصوص انداز میں بولا
زویا حیران پریشان کھڑی ہوگئی وہ اسے گاڑی میں بٹھا کر اپنے گھر لایا
”جلدی سے لباس تبدیل کرو ہمیں آگے جانا ہے ۔“ وہ اس کے دلکش سراپے سے نظر چراتا ہوا بولا
تھوڑی ہی دیر بعد وہ حیران و پریشان زویا کا ہاتھ تھامے اسلام آباد ائیر پورٹ پر کھڑا تھا
زوار زویا کو لیکر کراچی پہنچ چکا تھا اور اب ہوٹل کے ریسیپشن سے اپنے نام پر بک روم کی چابی لے رہا تھا ۔
زویا حیرت سے چاروں جانب دیکھ رہی تھی زوار اسے لیکر کمرے میں آیا اور اسے ایزی ہونے کا کہہ کر خود فریش ہونے چلا گیا ۔۔
فریش ہوکر اپنے گیلے بالوں میں انگلیاں پھیرتے وہ صوفہ پر بیٹھی زویا کے پاس آیا اور پاس رکھا بریف کیس کھولا
” زویا یاد کرو یہ وہی ہوٹل وہی کمرہ ہے جس میں نکاح کے بعد ہم پہلی بار ایک ساتھ رکے تھے ۔“
یہ کہہ کر زوار نے اسکا نازک حنائی ہاتھ تھاما اور بریف کیس سے جیولری باکس نکالا
وائٹ گولڈ کی نازک ہلکے رنگوں سے سجی باریک خوبصورت چوڑیاں زوار نے باکس سے نکالی
” تمہیں چوڑیاں پسند ہیں اور اسی کمرے میں میں نے تمہارے ہاتھوں سے چوڑیاں اتاری تھی اور آج اسی جگہ میں تمہیں اپنے نام کی چوڑیاں پہنا رہا ہوں ۔۔۔“ وہ ایک ایک کرکے ساری چوڑیاں اسے پہناتا ہوا بولا ۔۔
رات سرک رہی تھی زویا زوار کے شانوں پر سررکھے اس کی باتیں سن رہی تھی اور زوار اس کے بالوں کو ہاتھوں میں لپیٹے اسے اپنے دل کی داستان سنا رہا تھا
*********************************************
ایک ہفتے بعد ۔۔۔۔
آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹر میں ایک خاص میٹنگ شروع ہونے والی تھی جینیوا سے اقوام متحدہ کے نمائندہ آچکے تھے جب زوار اور بلال اندر داخل ہوئے انہیں دیکھتے ہی چئیر پرسن کی کرسی پر بیٹھے باوقار سے شخص نے انہیں خوش آمدید کہا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ دونوں وہاں موجود دوسرے دوافرد کے ساتھ بیٹھ گئے ۔۔۔
”ٹیم “ اس باوقار آدمی نے ان چاروں افراد کو مخاطب کیا
”آپ چاروں پاکستان کا فخر ہیں اور آج سے آپ اقوام متحدہ کی خفیہ ایجنسی ہیں اب آپ میرے انڈر کام کرینگے اور آج سے ہماری اس ٹیم کا نام ایم فائیو ہوگا ۔“
” پہلا مشن پینٹاگون میں قید پاکستانی ڈاکٹر کو چھڑا کر اقوام متحدہ کے حوالے کرنا ۔“
”کیا آپ اس مشن کو ایکسپٹ کرتے ہیں ۔“
”یس سر مشن ایکسپٹ ۔“
میجر زوار میجر بلال میجر دلاور اور کیپٹن حمید نے ایک ساتھ کہا ۔۔۔
میٹنگ برخواست۔۔۔۔۔
ختم شد