بلال صوفیہ کو باہر جانے کا اشارہ کرکے اس جعلی زوار کی جانب بڑھا ۔۔
” ایکسکیوزمی مسٹر آپ سے کچھ بات کرنی تھی ۔“ بلال نے میز پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کی جانب جھک کر کہا
کیپٹن حمید بلال کو اچھی طرح پہچانتا تھا مگر اس وقت اس کے ساتھ کرسٹین یہودی ایجنٹ موجود تھی اور شہزاده فہد کریمی کے ساتھی بھی اس پر نظر رکھے ہوئے تھے اس لئیے اس نے اجنبیت کے ساتھ بلال کو دیکھا
” کیا میں آپ کو جانتا ہوں ؟ “ کیپٹن نے اجنبیت سے پوچھا
بلال نے پرسکون نظروں سے اسے دیکھا پھر کسی کی بھی پرواہ کئیے بغیر اسے کالر سے پکڑ کر کھڑا کیا اور گھسیٹتا ہوا پچھلے دروازے سے باہر لے گیا۔۔۔
”کون ہو تم اور یہاں کیا کررہے ہوں ۔۔“ بلال اس کی گردن اپنے شکنجے میں لے کر غرایا ۔۔
اریانا جو بلال کو زوار کے ساتھ جاتا دیکھ چکی تھی اور ان کے پیچھے آرہی تھی نے تیزی سے اچھل کر بلال پر وار کیا وہ زوار کو بلال کے مضبوط شکنجے سے نکالنا چاہ رہی تھی اسے حیرت تھی کہ زوار جیسا جیالا مرد اس طرح کسی کے شکنجے میں کیسے آگیا تبھی صوفیہ جو منڈیر پر بیٹھی یہ تماشہ دیکھ رہی تھی جمپ لگا کر بلال کی مدد کرنے نیچے اتری اور اریانا اور بلال کے درمیان میں آکر کھڑی ہوگئی ۔۔۔
”پارٹنر تم اپنا کام کرو اس چھپکلی کو میں دیکھتی ہوں ۔۔۔“ وہ پھنکاری اور اریانا پر ٹوٹ پڑی
بلال جعلی زوار سے پوچھ گچھ کررہاتھا اور صوفیہ اور اریانا آمنے سامنے تھیں دونوں ہی ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک دوسرے کو گھورتی رہی تھیں پھر صوفیہ نے اچھل کر اس پر حملہ کیا جسے اریانا نے جھک کر بڑے آرام سے اپنے بازوؤں پر روکا اور صوفیہ کو الٹا پلٹ دیا ۔۔
قلابازی کھاتے ہی صوفیہ اٹھ کھڑی ہوئی اور اب دونوں میں گھمسان کی لڑائی شروع ہوچکی تھی دور سے پولیس کے سائرن بجنے کی آوازیں آرہی تھی ۔۔
بلال تیزی سے ان دونوں کی جانب بڑھا اور صوفیہ کو لڑائی روک کر بھاگنے کو کہا جسے وہ ان سنا کر کے اریانا پر وار کرتی رہی اریانا بھی مقابلہ بڑی برابری کا کررہی تھی مگر اس وقت پولیس کے ہتھے چڑھنے سے بچنا تھا بلال نے لڑتی ہوئی صوفیہ کو اپنی سخت گرفت میں لیا اور دوسرے ہاتھ سے ایک زور دار پنچ اریانا کو دیا جس سے وہ لڑکھڑا کر بیہوش ہوکر زمین پر گر گئی ۔۔۔
” چھوڑو مجھے ۔“ صوفیہ اس کی گرفت میں تلملا اٹھی تھی ۔۔
بلال نے مسکرا کر اپنی گرفت میں مچلتی اپنی شیرنی کو دیکھا ۔۔
”پولیس کا ہارن بج رہا ہے کسی بھی لمحے پولیس ادھر پہنچ سکتی ہے اس لئیے میری ناقص عقل محبوبہ ابھی یہاں سے نکلنے کی کرو ۔۔۔اور ہاں آئندہ ایسی سچویشن میں ڈائریکٹ اٹیک کی بجائے مقابل سے ڈیفینس کرنا تاکہ اس کا وار اس پر ہی الٹ دو کچھ بات عقل میں آئی ایجنٹ صوفیہ ۔۔“ بلال نے شرارت سے کہا اور خود بھی ایک لمحے کو اپنے لہجے پر حیران رہ گیا صوفیہ کو پالینے کا نشہ اسے واپس اپنی جون میں لارہاتھا وہ جو ہنسنا بھول گیا تھا آج مسکرا رہا تھا ۔۔۔
”وہ جعلی میجر کدھر ہے ۔“ صوفیہ غصہ ضبط کرتے ہوئے بولی
”ًآؤ تمہیں اس سے ملواؤ “بلال صوفیہ کو لیکر کیپٹن حمید کے پاس آیا ۔۔
ابھی وہ دونوں اس کے پاس پہنچے ہی تھے کہ کیپٹن حمید نے بلال پر حملہ کیا
”سوری میجر اس وقت شہزادہ فہد مجھے دیکھ رہا ہے میں اپنا کوور خراب نہیں کرنا چاہتا ۔“ کیپٹن حمید نے اس کے کان میں سرگوشی کی
**************************
شہزادہ فہد کریمی زویا کو اٹھا کر پچھلے دروازے کی طرف پہنچ چکا تھا جہاں اسے صوفیہ بجلی کی طرح لپکتی کسی لڑکی سے لڑرہی تھی وہ سب فائٹ میں مگن تھے شہزاده کے اشارے پر اس کا جانثار ساتھی جبار دبے قدموں زویا کو دور کھڑی لیموزین کی طرف لے گیا تھا ۔
زویا کو بھیج کر شہزادہ فہد کریمی پلٹا تو کایا پلٹ چکی تھی وہ لڑکی بیہوش پڑی تھی اور اس کا آدمی جعلی زوار بلال کو دبوچے کھڑا تھا ۔۔۔
وہ مسکراتے ہوئے دل ہی دل میں اپنے جعلی میجر کی تعریف کرتے ہوئے آگے بڑھا ۔۔۔
”أصدقائي الأعزاء “ فہد کریمی نے انہیں مخاطب کیا ۔
بلال اور صوفیہ دونوں کو ہی شہزادہ فہد کریمی کو دیکھ کر جھٹکا لگا ۔۔
” آپ سب ادھر ایک ساتھ خیریت تو ہے ۔“ اس نے بڑے دوستانہ انداز میں پوچھا اور بھوکی نظروں سے صوفیہ کو دیکھتے ہوئے اپنا ہاتھ مصافحہ کیلئیے بڑھایا ۔
پولیس کی گاڑياں پارکنگ میں رک چکی تھیں بلال نے ایک نظر ان گاڑیوں کو دیکھا اور فہد کریمی کا ہاتھ جو اس نے مصافحہ کیلئیے صوفیہ کی طرف بڑھایا تھا تھام لیا ۔
” جی سب ٹھیک ہے ابھی ہمیں اجازت دیجئیے آپ سے پھر ملینگے ۔“ بلال نے سنجیدگی سے کہا
” چلیں کوئی بات نہیں پر میجر زوار آپ تو ہمارے ساتھ چلیں آپ سے کچھ کام تھا ۔“ وہ عیاری سے گویا ہوا
کیپٹن حمید سر ہلاتا اس کے ساتھ ہولیا ۔۔
بلال نے صوفیہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما اور سڑک کراس کر کے سامنے مال میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔
****************************
بنجامن کے دونوں ہاتھ پیر توڑ کر جب زوار مڑا تو زویا کمرے میں نہیں تھی اس نے اپنی جیب سے سائلینسر لگا پستول نکالا اور سیدھا بنجامن کے دل کا نشانہ لیکر اسے موت کی وادی میں دھکیل دیا اور پھر تیزی سے کمرے سے باہر نکلا وہ کسی ماہر شکاری کی طرح چاروں طرف نظریں دوڑا کر زویا کو ڈھونڈ رہا تھا جب اس کی نظر نیچے ڈائننگ ہال میں چلتے ہوئے شیری چاچو اور عمر کاکا پر پڑی وہ دونوں بھی چاروں جانب دیکھ رہے تھے اس سے پہلے زوار ان تک پہنچتا ایک کونے سے دو کرخت چہرے والے روسی شبیر کے سر پر پہنچ چکے تھے ان کے کوٹ کی جیب کے ابھار بتا رہے تھے کہ وہ گن شبیر اور عمر کاکا کی کمر پر رکھ چکے ہیں اور اب انہیں لیکر باہر نکل رہے تھے ۔۔۔
ایک طرف زویا اس کی محبت اور دوسری طرف فرض پروفیسر کی جان بچانا لیکن وہ زویا کے معاملے میں کوئی رسک لینا نہیں چاہتا تھا اسی لئیے وقت بچانے کی خاطر وہ اوپر سے ہی اپنے ہاتھ میں پستول پکڑ کر ان روسی ایجنٹس کا نشانہ لیتے ہوئے کود گیا یکہ بہ دیگرے اس نے دو فائر کئیے اور وہ دونوں دشمن اس کی گولیوں کا نشانہ بن کر وہی گر گئے پورے ہال میں ایک گہما گہمی مچ گئی انتظاميہ نے پولیس کو فون کردیا تھا۔۔
وہ ان کی لاشیں پھلانگتا شیری چاچو کے پاس آیا ۔۔۔
”آپ ادھر چلیں جلدی نکلیں یہاں سے ۔۔“ وہ تیزی سے بولا
شبیر نے اتنی پریشانی کے باوجود پیار سے اپنے ٹائیگر اپنے داماد کو دیکھا ۔
” ہم زویا کو ٹریس کرتے ہوئے آئے ہیں “ شبیر نے کہا
”کسی بھی منٹ پولیس پہنچ جائے گئی آپ نکلیں میں زویا کو ڈھونڈ کر لاتا ہوں ۔“ زوار گویا ہوا
شبیر نے اپنے ہاتھ میں پکڑے سیل نما ٹریکر میں دیکھا
” زویا ادھر نہیں ہے اس کی آخری ٹریکنگ اس بلڈنگ سے باہر بائیں جانب کی آرہی ہے “۔پروفیسر شبیر نے کہا
جسے سنتے ہی زوار تیزی سے دروازے کی طرف بھاگا وہ ریسٹورانٹ سے باہر نکل چکا تھا اور اب بائیں جانب بھاگ رہا تھا پر زویا دور دور تک کہی نہیں تھی ۔۔۔۔تبھی ایک سیاہ بی ایم ڈبلو اس کے پاس آکر رکی اور اسکا شیشہ اترا ۔
اندر شیری چاچو تھے انہوں نے زوار کو گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔
”چاچو میں زویا کو لئیےبغیر نہیں جاؤنگا ۔“ وہ شیشے کے پاس آکر بولا
” بیوقوفی مت کرو ٹائیگر زویا ٹریک نہیں ہو رہی ہے اب اسے میں اپنی اسٹیٹ میں موجود ماسٹر کمپیوٹر سے ہی ٹریک کرسکتا ہوں ۔“ شبیر نے اسے سمجھایا
زوار کے بیٹھتے ہی گاڑی چل پڑی ۔۔
شبیر نے عمر کو اپنی اسٹیٹ چلنے کا حکم دیا زوار نے بھی خاموشی سے اپنی ٹرانسمیشن ڈیوائس نکالی اور بلال کو اسٹیٹ کی لوکیشن بتا کر ادھر پہنچنے کو کہا ۔۔۔
راستہ خاموشی سے کٹ رہا تھا اور پیچھے آتے بلال اور صوفیہ کی گاڑی کی ہیڈ لائٹس چمک رہی تھی ۔۔
**************************
جبار بیہوش زویا کو لیکر لیموزین تک پہنچ گیا تھا جب پولیس کی گاڑیوں کے سائرن کی آوازیں آنے لگی اس نے ڈگی کھول کر زویا کو اس میں لٹا دیا پھر اس کے اوپر سائیڈ پر پڑی پیراشوٹ شیٹ کا کوور ڈال کر کناروں کو مقناطیس سے بند کرکے ڈگی بند کردی ۔۔۔۔اب اگر پولیس کسی بھی وجہ سے گاڑی چیک کرتی تو انہیں زویا نہیں دکھائی دیتی
۔
کچھ دیر بعد شہزاده فہد کریمی اور جعلی زوار اسے آتے نظر آئے اس نے جلدی سے ڈرائیور کو لیموزین اسٹارٹ کرنے کا کہا ۔۔
شہزادہ فہد کریمی نے گاڑی میں بیٹھتے ہی جبار کو مخاطب کیا ۔۔
”جبار تم یہی رکو اور ان لوگوں کا پیچھا کرکے ان کا ٹھکانہ پتا کرو ہم صوفیہ کو لئیے بغیر نہیں جائینگے وہ دیکھو سامنے کھڑی جیپ اس میں دور سے ہی بلال بیٹھا نظر آرہا ہے .“
جبار سر ہلاتا اتر گیا ۔۔
جبار کے اترتے ہی شہزاده فہد کریمی نے اپنے ڈرائیور کو پرائیوٹ ہینگر پر چلنے کا حکم دیا جہاں اس کا جیٹ طیارہ تھا ۔۔
طیارہ کے پاس پہنچ کر زویا کو ڈگی سے نکالا اور طیارے میں سوار کروا کر حمید سے مخاطب ہوا
”تم اس لڑکی کو ہمارے محل لے جاؤ اور ہماری ہاؤس کیپر ام کلثوم کے حوالے کرو اور جب تک ہم نہ آجائیں وہی رک کر ہمارا انتظار اور ہماری اس امانت کا خیال رکھنا ۔۔۔
جیٹ زویا اور کیپٹن حمید کو لیکر فضا میں بلند ہوچکا تھا ۔۔
شہزاده فہد کریمی گاڑی میں بیٹھا اور ڈرائیور کو ہوٹل چلنے کی ہدایت دی ۔
دوسری جانب جبار ایک چوری کی گاڑی میں بیٹھ کر بڑی مہارت سے بلال کی گاڑی کا خاصے فاصلے سے پیچھا کرتا شبیر کی اسٹیٹ تک پہنچ گیا تھا اور اب اپنے ساتھیوں کا انتظار کررہا تھا ۔
***************************
پروفیسر شبیر زوار کے ساتھ اپنی اسٹیٹ پہنچ چکے تھے بلال اور صوفیہ بھی ساتھ ہی تھے ۔۔۔
رابرٹ سے کہہ کر بلال اور صوفیہ کو آرام کرنے کیلئیے کمروں میں بھجوایا اور خود زوار کو لیکر اپنے روم میں آگئے ۔۔۔۔
”زوار میرے بیٹے ۔۔۔“ انہوں نے اندر پہنچ کر اسے تڑپ کر اپنے گلے لگایا ۔
”شیری چاچو آپ نے ایسا کیوں کیا ۔۔کیوں ۔۔۔“ زوار نے پوچھا
”زوار تم سب جانتے تو ہو تم تو مجھے چار ماہ پہلے ہی ٹریک کرکے میسج بھیج چکے تھے اب بہت جلد ہی میں منظر عام پر آنےوالا ہوں ۔۔۔“ شبیر نے دیوار پر لگی ساٹھ انچ کی اسکرین کو اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا ۔۔
اسکرین اسٹارٹ ہو چکی تھی پر زویا ٹریک نہیں ہو رہی تھی شبیر کے چہرے پر گہری سوچ کی پرچھائیاں تھی تبھی زوار اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
”کیا ہوا شیری چاچو ۔۔“
”زوار لگتا ہے زویا کسی مقناطیس کے پاس ہے کیونکہ ٹریکنگ ڈیوائس مقناطیسی شعاعوں میں کام نہیں کرتی ہیں ۔۔۔“ شبیر نے اسے بتایا ۔
” ٹھیک ہے آپ اسے ٹریک کرنے کی کوشش کیجئیے کچھ پتہ چلے تو مجھے انفارم کردیجئیے گا ۔“ زوار اپنی فریکیونسی انہیں دیتا ہوا بولا ۔
” تم اس اندھیرے میں کدھر جارہے ہو تھوڑا صبر کرو زویا جلد ہی ٹریس ہوجائے گئی ۔۔۔“ شبیر نے اسے روکنے کی کوشش کی ۔
”نہیں شیری چاچو میں آرام سے نہیں بیٹھ سکتا مجھے ہر صورت زویا کو ڈھونڈ کر واپس لانا ہے اگر میری زویا کو کچھ ہوگیا نا تو میں سب کو برباد کردونگا وہ میری زندگی ہے اسے مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا ۔“زوار نے سخت لہجے میں کہا اورکمرے سے باہر نکل گیا ۔
شبیر زوار کی زویا کیلئیے شدت اور تڑپ دیکھ کر اپنے اور سلویا کے زوار کو داماد بنانے والے فیصلہ پر خدا کا شکر ادا کرتے دوبارہ اسکرین کی طرف متوجہ ہوئے اور لب بھینچتے ہوئے زویا کے پاس موجود الیکڑک شاک ٹاپس کو ایکٹیویٹ کرنے لگے تاکہ اگر کوئی زویا کو چھونے کی کوشش کرے تو شاک لگنے سے مر جائے ۔۔
ابھی وہ کام کرہی رہے تھے کہ اسکرین پر زویا کا چہرہ نمودار ہوا وہ بیہوش تھی اور اسے کسی پرائیوٹ جیٹ جہاز میں چڑھایا جا رہا تھا ۔۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے وہ جہاز ٹیک آف کرچکا تھا مگر اب زویا کی ٹریکنگ ڈیوائس اور کیمرہ کام کررہا تھا ۔۔۔
شبیر نے فوری طور پر زوار کو میسج سینڈ کیا
*********************************************
صوفیہ نے کمرے میں آکر اپنا بیگ اتار کر اس میں سے جینز اور شرٹ نکالی اور فوری شاور لینے چلی گئی بغداد سے لیکر میونخ تک ایک کے بعد ایک حالات پیش آرہے تھے اب تھوڑا ریلیکس کا موقع ملا تھا پر مسز زوار کی گمشدگی کا معمہ ابھی حل کرنا باقی تھا ۔
وہ شاور لیکر تازہ دم ہو کر اپنے بال ٹاول میں لپیٹے باہر آئی تو چونک گئی بلال کمرے کے وسط میں کھڑا اس کا انتظار کررہا تھا ۔۔
”میجر بلال مائی سپیرئیر تم ادھر کیا کررہے ہو ۔“ صوفیہ نے طنزیہ لہجے میں پوچھا
”صوفیہ ہم فوجیوں کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا اس لئیے جتنا ٹائم بھی ہو ہمیں خوشی خوشی اپنے اپنوں کے ساتھ گزارنا چاہئیے اور میری اپنی میرا دل تو تم ہو۔۔“ وہ آہستگی سے کہتا ہوا اس کے پاس آگیا تھا پھر ایک جھٹکے سے اس نے تولیہ صوفیہ کے سر سے اتار کر پھینکا۔۔۔
شہد رنگ گھونگریالے بالوں کے نرم و نازک لچھے صوفیہ کے چہرے کے گرد بکھر گئے تھے ۔۔۔
”کیا بدتميزی ہے ۔۔“ صوفیہ نے پیچھے ہٹنا چاہا ۔
بلال نے اسے بازوؤں سے تھام کر اپنی گرفت مضبوط کی اور سر اس کے نم بالوں میں رکھ کر ایک گہرا سانس لیا ۔۔۔۔
”ریلکس ہم عزتوں کے رکھوالے ہیں بس تم اتنے دن بعد ملی ہو تو تمہیں ٹھیک سے دیکھنے اور اپنی روح کو محسوس کرنے آیا ہوں ۔“ بلال نے گھمبیر لہجے میں سرگوشی کی
” یہ کیسا واہیات طریقہ ہے بلال چھوڑو مجھے ورنہ میں چاہوں تو ابھی تمہیں نانی یاد دلادونگی ۔“ صوفیہ تلملائی
بلال دھیمے سے ہنسا اور صوفیہ کو جکڑ کر اپنے مزید قریب کرکےسارے فاصلے مٹا دئیے۔۔۔
”تمہارے معاملے میں میرا یہی طریقہ ہے بلکہ اگر تم چاہو تو اور بدتمیزی بھی دکھا سکتا ہوں اور میں چیلنچ کرتا ہوں اگر تم خود کو میری میجر بلال کی گرفت سے اس وقت آزاد کرانے میں کامیاب ہوتی ہو تو میں تمہاری ہر بات مانوں گا بصورت دیگر تمہیں مجھ سے نکاح کرنے کا وعدہ کرنا ہوگا اور لکھ کر دینا ہوگا ۔۔“ بلال نے شرارت سے اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔۔
”ٹھیک ہے میجر تم نے خود اپنی شامت کو آواز دی ہے اب تم دیکھنا صوفیہ تمہیں کیسے پچھاڑتی ہے ۔۔“ وہ چیلنجنگ انداز میں بولی
چار ماہ پہلے ۔۔۔۔۔فلیش بیک
زویا ابھی ہاسٹل میں آکر بیٹھی ہی تھی کہ اسکا فون بجا نمبر دیکھ کر وہ آسودگی سے مسکرائی ۔۔۔
”اسلام و علیکم میجر سر ۔۔۔“ وہ دھیمے سروں میں بولی ۔۔
”وعلیکم اسلام مسز زی کیا ہورہا تھا ۔۔“ زوار نے اپنے مخصوص سنجيده لہجے میں پوچھا
”بس ابھی یونیورسٹی سے آئی ہوں بس لنچ کرنے ہاسٹل میس جانے والی تھی ۔۔۔“ وہ بولی
”لنچ تو میں نے بھی نہیں کیا ایسا کرو تم پانچ منٹ میں نیچے آجاؤ مل کر لنچ کرتے ہیں ۔۔!“زوار نے کہا اور فون رکھ دیا ۔
زوار کو انتظار پسند نہیں تھا اسی لئیے زویا نے جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر جینز اور فل سلیوز کرتے کے اوپر ہی اپنا حجاب لیا اور کمرے کو لاک کرتی تیزی سے ہاسٹل کے مین گیٹ کی طرف بھاگی۔۔
*********************
آجکل زوار ایک بہت بڑے اسائنمنٹ پر کام کررہا تھا اسے آج ہی آئیرلینڈ میں پروفیسر شبیر کی موجودگی کے شواہد ملے تھے اسی لئیے اس کا اردہ دو دن کیلئیے زویا کو اپنے والد بریگیڈیئر افتخار کے پاس چھوڑ کر آئیرلینڈ جانے کا تھا ۔۔۔
زویا کو لنچ کا کہہ کر وہ تیزی سے اپنی اسپورٹ کار گیراج سے نکال کر پندرہ منٹ کا راستہ پانچ منٹ میں طے کرکے پہنچا ۔۔۔
سامنے سے زویا آتی نظر آرہی تھی زوار نے ایک گہری جانچتی نظر اس پر ڈالی وہ معصوميت اور خوبصورتی کا دلکش ملاپ تھی اور اسکے سرخ و سفید چہرہ کی دلکشی حجاب میں مزید بڑھ گئی تھی ۔۔۔۔
”مسز زی لگتا ہے مجھے تمہیں اب سات پردوں میں چھپا کر رکھنا پڑے گا ۔۔“ وہ بڑبڑاتے ہوئے گاڑی سے اترا اور سر ہلا کر اسکے سلام کا جواب دیکر اس کیلئیے اپنی گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولا ۔۔۔
زویا سلام کرتی ہوئی گاڑی میں بیٹھ گئی ۔۔زوار نے آکر ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور گاڑی روڈ پر دوڑنے لگی ۔۔۔۔
”اور سناؤ آج کا دن کیسا گزرا ۔۔۔“ زوار نے بات شروع کی ۔۔
” جی بالکل ٹھیک روز جیسا ہی دن تھا ۔۔“ وہ افسردگی سے بولی ۔۔
”زویا مجھے پتہ ہے تم پورا دن اور رات اکیلی رہ رہ کر بور ہوجاتی ہو بس میری جان کچھ مہینے اور پھر میں اور تم ایک ساتھ اور میں تمہیں اتنا بزی رکھونگا کہ تم فرصت کے لمحات کو یاد کیا کروگی ۔“ وہ زویا کا سر اپنی جانب گھما کر اپنا سر اس سے دھیرے سے ٹکراتا ہوا گھمبیر لہجے میں بولا ۔۔۔
زویا اس کی اس حرکت پر پیچھے سرک گئی زوار نے مسکرا کر اسے دیکھا اور گاڑی ایک بڑے شاپنگ پلازہ میں پارک کی ۔۔۔
”چلو آؤ کیا یاد کروگی آج مابدولت پہلے تمہیں شاپنگ کرائینگے پھر زبردست سا لنچ ۔۔“ وہ اسکا ہاتھ تھامتا ہوا گاڑی لاک کرکے آگے بڑھا ۔۔
وہ اسے اپنی پسند سے کپڑے اور دیگر ضروریات کی چیزیں دلا رہا تھا چلتے چلتے وہ ایک لیڈیز شاپ پر رکا اس سے پہلے وہ آگے بڑھتا زویا نے کپکپاتے ہاتھوں سے اسکا ہاتھ تھام کر روکا ۔۔۔
”کیا ہوا مسز زی۔۔“ زوار نے زویا کے جھکے سر اور سرخ چہرے کو دیکھ کر پوچھا ۔
”بس پلیز اب اور نہیں ۔۔“ زویا نے جھجکتے ہوئے کہا
زوار نے بغور اس کی شرم سے غیر ہوتی حالت کو دیکھا
”مائی ڈئیر وائف ۔۔۔۔میاں بیوی میں کوئی پردہ نہیں ہوتا اور کیا مجھے احساس نہیں کہ میری بیوی کو کس کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور تم نے آج تک اپنی کوئی پرسنل شاپنگ نہیں کی ہے تو یار مجھے مت روکو ۔۔۔“ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے آیا ۔۔
اب زویا کے جسم کا سارا خون اس کے چہرے پر سمٹ آیا تھا وہ سر نہ اٹھانے کی قسم کھائے آنکھیں میچے زوار کے ساتھ گھسٹ رہی تھی زوار نے آرام سے شاپنگ مکمل کی اور اسے لیکر باہر آگیا ۔۔۔
”مسز زی اب آنکھیں کھول لو ہم علاقہ غیر سے نقل آئے ہیں ۔“ وہ انگلی سے اسکا جھکا سر اوپر اٹھاتے ہوئے بولا
وہ دونوں چلتے ہوئے مال کے اندر بنے ریسٹورنٹ میں آئے شام ہو رہی تھی زوار نے میز منتخب کر کے زویا کو بٹھایا اور ابھی خود بھی بیٹھا ہی تھا کہ اس کی کلائی پر موجود گھڑی نما ٹرانسمیٹر میں وائبریشن ہوئی ۔۔
اس نے میسج دیکھا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔
”زویا ٹیک آؤٹ کرلیتے ہیں گھر پہنچ کر آرام سے کھائینگے ۔۔۔“ اس کے انداز میں تیزی تھی ۔
”کیا آپ مجھے ہاسٹل نہیں چھوڑینگے ۔۔“ زویا نے پوچھا کے
”نہیں ایک ارجنٹ کام آپڑا ہے اور مجھے تم سے کچھ بات بھی کرنی ہے ۔۔۔“اس نے کاؤنٹر پر لگی لائن دیکھتے ہوئے کہا
زویا نے زوار کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا ۔
”میجر سر چلئیے میں گھر میں کچھ بنا لونگی ۔“
زوار نے زویا کا ہاتھ پکڑا اور تیز قدموں سے چلتا ہوا اپنی گاڑی تک آیا ۔۔
ہوا کی رفتار سے کار دوڑاتا اپنے کاٹیج تک آیا زویا کو اندر لاکر اس نے تیزی سے اپنے کمرے میں سے اپنی گن اٹھائی چاقو جیب میں رکھا دیوار میں نصب الماری میں سے بلٹ پروف جیکٹ پہنی اور اپنی طرف پریشانی سے تکتی زویا کو دیکھا ۔۔۔
”مسز تم آرام سے سو جانا میں سیکیورٹی لگا کر جارہا ہوں ۔۔۔“
”زوار سب ٹھیک تو ہے نا پہلے بھی ایک بار آپ مجھے اکیلا چھوڑ کر پوری رات گھر نہیں آئے تھے ۔۔۔“
زوار نے اس دلربا کی اپنے لئیے پریشانی اور فکرمندی کو دیکھا اور اس کے قریب آکر اسے گلے سے لگا کر تسلی دی
”سب ٹھیک ہے جاناں یہ تو میرا روٹین کا کام ہے پکا وعدہ آج جلدی آجاؤنگا تم ڈنر تیار کرو میں بس یوں گیا اور یوں آیا ۔۔۔“ وہ اس کی تابناک پیشانی چوم کر اسے خود سے الگ کرتا باہر چلا گیا ۔۔۔
زوار کے جانے کے بعد زویا چلتی ہوئی کچن تک پہنچی چائے کافی کے علاوہ اسے کچھ بھی بنانا نہیں آتا تھا فرج کھول کر اس نے بریڈ اور چیز سلائس نکالے اور کچن کاؤنٹر پر رکھ کر باہر آگئی اسکا ارادہ زوار کے آنے کے بعد چیز سینڈوچ بنانے کا تھا کمرے میں آکر اس نے حجاب اتارا اور منہ ہاتھ دھو کر اپنے بال سنوارتی بیڈ پر بیٹھ کر زوار کا انتظار کرنے لگی گھڑی کی سوئیاں آگے بڑھتی جارہی تھی اسے اکیلے ڈر لگ رہا تھا وہ آنکھیں میچ کر تھک کر لیٹ گئی اور تھوڑی دیر بعد نیند کی وادیوں میں اتر گئی ۔۔
***************************
رات بہت گہری ہوچکی تھی چاروں طرف موت کا سا سناٹا چھایا ہوا تھا جب ایک چھ فٹ لمبا جوان چوڑا سینہ مضبوظ ورزشی جسامت کا مالک چیتے کی تیزی سے دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوا اس کے ایک ہاتھ میں گن اور دوسرے میں ایک تیز دھار والا چاقو تھا وہ بےخوف نڈر انداز میں اپنے راستے میں آنےوالے تین آدمیوں کے دل میں چاقو اتار چکا تھا اسے ان دو دھشت گردوں کی تلاش تھی جو آج ہی روس سے آئے تھے اور اسکی معلومات کے مطابق اسی بلڈنگ میں موجود تھے کچھ سوچ کر اسنے اپنی جیب سے بیہوش کرنے والی گیس کا کین نکالا اور اپنا سانس روک کر کین کو کھول کر لڑکھا دیا ۔۔
کالے چست کپڑے پہنے منہ پر کالا ہی ماسک پہنے ہوئے وہ ان دو آدمیوں کی تلاش میں ایک ایک کمرے کو چیک کررہا تھا بلآخر وہ روسی اسے ایک میز کے گرد گرے ہوئے نظر آئے میز کے بیچ میں ایک جدید طرز کی ٹرانسمیشن ڈیوائس رکھی ہوئی تھی اسنے فوراً اسے ڈسکنیکٹ کیا اور اپنے کان سے لگے بلیو ٹوتھ ڈیوائس کے ذریعے اپنی ساتھی سے رابطہ کیا ۔۔
” ٹارگٹ اچیو ہو گیا ہے دروزے پر وین لے آؤ سامان ساتھ لیکر جانا ہے اوور اینڈ آل “
یہ کہہ کر اسنے اپنا چاقو واپس موزے میں ڈالا اور گن کو جیب میں ڈال کر ۔۔
اس نے ان دونوں کو ایک دوسرے کے اوپر ڈال کر رسی سے باندھا ایک جھٹکے سے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور دوسرے ہاتھ سے ڈیوائس تھام کر تیزی سے باہر کی جانب روانہ ہوا جہاں اس کی طرحدار دیکھنے میں خوبصورت معصوم مگر لومڑی سے بھی کئی گنا عیار ساتھی اسکا ویٹ کررہی تھی ۔۔۔۔
صوفیہ نے زوار کو دیکھتے ہی وین اس کے قریب لے گئی زوار نے رسی سے بندھے دونوں دھشت گردوں کو پچھلی سیٹ پر ڈالا ۔۔
”صوفیہ سیف ہاؤس چلو ۔“
”اوکے میجر “ صوفیہ نے کہا اور پوری رفتار سے سیف ہاؤس کی جانب گاڑی دوڑائی ۔۔
وہ دونوں سیف ہاؤس پہنچ چکے تھے زورا ان دونوں کو اندر موجود ایجنٹ تک پہنچا کر صوفیہ کے پاس آیا ۔
”ایجنٹ صوفیہ ان کی گرفتاری کے بعد کے جی بی آرام سے نہیں بیٹھے گئی تم انہیں چترال پہنچا کر خود بھی انڈرگراؤنڈ ہوجاؤ اور اپنی کمانڈو ٹریننگ شروع کردو ۔۔“ زوار سنجیدگی سے بولا۔۔
”اوکے میجر زوار سی یو آفٹر مائی ٹریننگ ۔“ صوفیہ بولی
” ایک اور بات آج سے تمہارا نیا نام ہوگا تاکہ کوئی ایجنسی تمہیں ٹریک نا کرسکے ۔۔۔۔فوکسی ۔۔۔“
”فوکسی ۔“ صوفیہ نے دہرایا ۔
**************************
ان دونوں آدمیوں کو ٹھکانے لگانے کے بعد وہ اپنے کاٹج کی طرف روانہ ہوا پورے کاٹج کی لائٹس آن تھیں چراغاں ہی چراغاں ہو رہا تھا ۔۔
”مارے گئے آج کچھ زیادہ ہی دیر ہوگئی“۔
یہ کہہ کر اسنے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور دبے قدموں اندر داخل ہوکر پہلے اپنا ماسک اتارا اور ساری لائیٹیں بند کرتا ہوا اپنے بیڈروم میں داخل ہوا ۔۔
وہ دنیا جہاں سے بےخبر سو رہی تھی سنہرے خوبصورت لمبے بال تکیے پر بکھرے ہوئے تھے گلابی چہرے پر سنہری گھنی پلکیں سایہ فگن تھی مگر اسکے چہرے پر خوف کی پرچھائیاں تھی وہ یقیناً اکیلے ڈرتی ڈرتی اسکا انتظار کرکے سوئی تھی ۔اسے دیکھ کر اسکی ساری تھکن زائل ہوگئی اور اس نے خود سے دوبارہ عہد کیا کہ وہ آئندہ جب بھی زویا اس کے ساتھ ہوگی وہ ٹائم سے آنے کی پوری کوشش کیا کرے گا ۔۔
لباس بدل کر وہ کچن میں آیا جہاں بریڈ اور چیز کے سلائس اس کا منہ چڑا رہے تھے یقیناً زویا بھوکی سو گئی تھی وہ الٹے قدموں واپس گیراج میں آیا گاڑی میں بیٹھا اب اس کا رخ رات دیر تک کھلی پیزا شاپ کی طرف تھا ۔
*****************************
پیزا لیکر وہ گھر پہنچا اور پلیٹ اور ڈرنک لا کر کمرے میں لاکر میز پر رکھیں اور خود قدم بڑھاتا ہوا بےخبر سوئی زویا کے پاس آیا چند لمحے اپنی زندگی میں بہار کے جھونکے کی مانند آئی اس دلنشیں دلربا کو بغور دیکھتا رہا کیونکہ جاگتے میں تو وہ اسقدر شرماتی تھی کہ وہ اسے دیکھ ہی نہیں پاتا تھا ۔۔
”زویا میری جان اٹھو شاباش آنکھیں کھولو ۔“ وہ دھیرے سے اس کے بال سمیٹتا ہوا بولا ۔۔
زویا کو نیند میں زوار کی آواز سنائی دی وہ کسمسا کر اپنا وہم سمجھ کر کروٹ بدلنے ہی والی تھی جب زوار نے جھک کر اسکے بال سمیٹے اور وہ ایکدم اٹھ بیٹھی ۔۔
”آپ ۔۔۔آپ کب آئے ۔۔“ بال سمیٹ کر وہ کھڑی ہوئی۔
”بس تھوڑی ہی دیر ہوئی ہے تم ہاتھ دھو کر آجاؤ پیزا ٹھنڈا ہورہا ہے ۔“ وہ اس کے بکھرے سراپے اور نیند سے بھری آنکھوں سے بمشکل نظر ہٹا کر گویا ہوا ۔
زویا ہاتھ دھو کر واپس آئی تو زوار اس کے انتظار میں بیٹھا تھا زویا نےپزا کا سلائس نفاست سے پلیٹ میں رکھ کر زوار کی طرف بڑھایا پھر خود بھی پلیٹ میں ڈال کر سامنے صوفہ پر بیٹھ گئی ۔۔
”زویا میں تمہیں دودن کیلئیے ڈیڈ کے پاس چھوڑ کر کسی کام سے جاؤنگا پھر واپسی پہ پک کرکے واپس استنبول آجائینگے ۔۔“ زوار نے اسے اپنے پلان سے آگاہ کیا
”کب جانا ہے آپ بتادیں ۔“ زویا نے اداسی سے پوچھا کیونکہ مانا وہ الگ ہوسٹل میں رہ رہی تھی پر زوار اسے روز ہی ملنے آتا تھا
”صبح کی فلائٹ سے میں بیگ نکال رہا ہوں تم اپنی ساری شاپنگ پیک کرلوں ۔“
ڈنر کے بعد زویا نے سارا سامان پیک کیا اتنے میں زوار بھی اپنا بیگ تیار کرچکا تھا ۔
زویا کو فارغ دیکھ کر زوار بیڈ پر جا کر بیٹھ گیا اور اسے پاس آنے کا اشارہ کیا ۔
زویا جھجکتی ہوئی پاس آئی تو زوار نے بڑے پیار سے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے پہلو میں بٹھا کر پیروں میں پڑا کمفرٹر دونوں پر ڈال لیا ۔۔
زوار نے اپنے مضبوط حصار میں اپنے سینے پر سر رکھی زویا کو دیکھا اور لائٹ بند کردی ۔
”زویا ۔۔۔“ اندھیرے میں اس کی آواز گونجی
”تین گھنٹے میں ہمیں نکلنا ہے میں تمہیں ڈیڈ کے پاس چھوڑ کر فوراً نکل جاؤنگا تم وہاں اپنا خیال رکھنا اور گھر سے باہر ہرگز نہیں نکلنا بس میرے واپس آنے کا انتظار کرنا ۔“
”جی میجر سر ۔“ زویا نے مدھم لہجے میں کہا
”چلو اب تھوڑا سوجاؤ میں تمہیں تین گھنٹے بعد اٹھا دونگا ۔“ زوار نے اسکی آنکھوں پر اپنی چوڑی ہتھیلی رکھی اور خود بھی اس کے سر پر سر رکھ کے سو
***********
فلائٹ لینڈ کرچکی تھی زوار اور زویا دونوں ہی وینکوور پہنچ چکے تھے بریگیڈیئر افتخار ان دونوں کو لینے ائیرپورٹ آئے ہوئے تھے ۔۔زوار بڑی گرم جوشی سے اپنے ڈیڈ سے گلے ملا اور وہ سب گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔
ممی ڈیڈ سب سے ملنے کے بعد زوار بریگیڈیئر افتخار کے ساتھ اسٹڈی روم میں بند ہوگیا اسے اس معاملے میں اپنے ڈیڈ کے ساتھ پلان ڈسکس کرنا تھا ۔۔
دو گھنٹے بعد وہ کمرے سے نکلا اوپر زویا کے پاس آیا وہ سو چکی تھی چند لمحے اسے دیکھ کر اس نے دھیرے سے خداحافظ کہا اپنا بیگ اٹھایا اور آئیر لینڈ کیلئیے روانہ ہوگیا جہاں پروفیسر شبیر کو دیکھا گیا تھا ۔۔
آئیر لینڈ پہنچ کر پروفیسر شبیر کی تلاش میں وہ ان کی اسٹیٹ میں عمر کاکا سے ٹکرا گیا اور انہوں نے زوار کی بات پروفیسر سے کروائی
پروفیسر اور زوار اب دشمنوں کے ساتھ اس چوہے بلی کے کھیل کو ختم کرنا چاہتے تھے اور اسی لئیے زویا کو منظر عام پر لانے کا ایک مشکل فیصلہ ہے
حال۔۔۔
پلین کے فضا میں بلند ہوتے ہی کیپٹن حمید نے اپنے گلے میں پہنا تعویذ اتارا جو کہ ایک جدید مائیکرو ڈیوائس تھی اور سیٹ پیچھے کرکے اب تک کی ساری رپورٹ مورس کوڈ میں کرنل جھانگیر کو بھیجنے لگا ساری تفصیلی رپورٹ سینڈ کرنے کے بعد اب وہ ہدایات کا منتظر تھا ۔
بیس منٹ کے بعد اس کے ہاتھ میں پکڑے تعويذ میں تھرتھراہٹ ہوئی آگے کی ہدایات مل چکیں تھی وہ پرسوچ انداز میں تعويذ کو گھور رہا تھا ۔
آٹھ گھنٹے کی فلائٹ باقی تھی اس نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر آگے کی سیٹ پر بیہوش پڑی زویا کو چیک کیا اور پھر واپس اپنی جگہ آکر بیٹھ گیا تھوڑا آرام ضروری تھا کیونکہ حکومت پاکستان نے ان دھشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والے شہزادے فہد کریمی اور اس کے حواريوں کو جان سے ماردینے کا خفیہ حکم نامہ جاری کردیا تھا ۔۔
********************
زوار باہر نکل کر سیدھا گاڑی کی طرف بڑھا اس سارے کھیل میں یہودی لابی کی سازش بے نقاب ہوچکی تھی انکا ایک بڑا ایجنٹ مارا گیا تھا اور سر فورڈ کی آنکھوں پر پڑا پردہ بھی ہٹ چکا تھا مگر اس کی زویا خطرے میں تھی اس کا اسطرح سے اچانک غائب ہوجانا زوار اور شبیر کے پلان میں نہیں تھا ۔۔
زویا کی گمشدگی نے زوار کی جان سولی پر لٹکا دی تھی اسے کسی پل چین نہیں آرہا تھا ۔
”زویا میری جان کہا ہو تم ۔۔۔۔“زوار نے ایک زوردار مکا گاڑی کے بونٹ پر مارا اور پھر گاڑی میں بیٹھ کر وہ تیزی سے گاڑی دوڑاتا باہر نکل گیا اس کا رخ بار اینڈ گرلڈ ریسٹورانٹ کی طرف تھا کہ شاید کوئی سراغ مل جائے وہ کافی آگے نکل آیا تھا جب اس کا فون بجا ۔
”ٹائیگر زویا کا پتہ چل گیا ہے وہ اسوقت ایک جیٹ جہاز میں ہے اب لینڈنگ کے بعد ہی منزل کا نشان مل سکے گا ۔“ پروفیسر شبیر کی آواز آئی.
”شیری چاچو اگر جہاز کی لینڈنگ کا ویٹ کیا تو بہت دیر ہوجائے گی آپ مجھے اس نے جیٹ جہاں سے ٹیک آف کیا ہے وہ لوکیشن اور ٹائم بتائیں میں ادھر جا کر انکوائری کرتا ہوں ۔“ زوار نے تیزی سے کہا
” ٹیک آف کو ابھی بمشکل تین منٹ ہوئے ہیں تم پتہ نوٹ کرو ۔“ شبیر نے ایک پرائیوٹ فلائنگ کلب کا ایڈرس بتایا ۔
اب زوار کا رخ اس فلائنگ کلب کی جانب تھا گاڑی کی اسپیڈ کی سوئیاں اپنی انتہاء کو چھو رہی تھیں وہ تیز رفتاری کے سارے ریکارڈ توڑتا فلائنگ کلب تک پہنچا اندر ریسیپشن پر گیا تو پتہ چلا کہ قطر کے پرنس کا پرائیوٹ پلین دوحہ روانہ ہوا تھا ۔۔۔
ساری معلومات لیکر اس نے شبیر کو کال ملائی اور ملاتا چلا گیا پر کوئی جواب نہیں ملا اب وہ دوباره پروفیسر شبیر کی رہائش گاہ کی طرف جا رہا تھا ۔۔
***************
صوفیہ کو بلال پر صحیح کا جلال آیا ہوا تھا اس نے اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ کر تیزی سے پینترا بدلا اور بلال کو پٹخنے کی کوشش کی مگر بلال بھی ہوشیار تھا اس نے جھکائی دے کر صوفیہ کی کوشش ناکام بنائی ۔۔۔
”دیکھو بلال میں آخری دفعہ وارن کررہی ہوں مجھے چھوڑ دو ۔۔“ وہ غرائی
”تم ہار مان لو میں چھوڑدیتا ہوں ۔۔“ بلال نے آرام سے جواب دیا ۔
صوفیہ نے ٹانگ اٹھا کر ایک زور دار کک بلال کی ٹانگوں پر رسید کی پر بلال چٹان کی طرح کھڑا رہا ۔۔۔
”دیکھو بلال اگر ہمت ہے تو مجھے آزاد کرکے فائٹ کرو ۔۔۔“ وہ زچ آکر بولی
بلال نے ایک لمحہ اس کی شہد رنگ آنکھوں میں جھانکا اور اسے اپنی گرفت سے آذاد کردیا ۔۔۔
صوفیہ سانپ کی طرح بل کھا کر دور ہوئی اور بنا کوئی لمحہ ضائع کئیے بغیر اچھل کر بلال پر یکے بہ دیگرے کراٹے کے وار کئیے بلال ساکت کھڑا مسکراتا رہا ۔۔
” میرے ہاتھوں مرنا ہے کیا ! تم جوابی وار کیوں نہیں کررہے ہو ۔“ وہ تلملائی
”مجھے صرف دشمنوں پر وار کرنا آتا ہے اپنوں پر نہیں ۔۔۔“بلال نے متانت سے کہا
اور آگے بڑھ کر صوفیہ کو دوبارہ اپنی گرفت میں جکڑا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر گھمبیر لہجے میں گویا ہوا ۔۔
” صوفیہ ذرا سوچوں ہمارے گھر میں تو روز فائٹ ہوا کرے گئی چائے بنانے پر کراٹے ، لانڈری کرنے کی ٹرن پر کک باکسنگ اور بچوں کی دیکھ بھال پر کمانڈو فائٹ اور ہمارے وہ دونوں بچے تو اپنی چالاک ایجنٹ ماں اور معصوم فوجی باپ کی پرورش میں اتنے ماہر ہو جائینگے کہ بڑے بڑے ایجنٹوں کے چھکے اڑا دینگے ہممم ایسا کرنا بڑے والے کو تم مشن پر لیجانا اور اپنی چھوٹی گڑیا کو میں ساتھ لے جایا کرونگا ۔۔“ بلال کی آنکھیں چمک رہی تھی ۔۔
”کوئی نہیں بچے اپنی تعلیم مکمل کرنے تک فیلڈ میں نہیں آئینگے ۔۔“ صوفیہ نے چٹخ کر جواب دیا
بلال کھل کر آسودگی سے ہنسا ۔۔۔
”چلو بھئی اب لڑکی تو راضی ہوگئی ہے میں ڈیڈ کو کال کرکے آتا ہوں تاکہ ہمارے مشن ختم کرکے پاکستان پہنچتے ہی وہ ہمیں مسجد لیجا کر نکاح پڑھوا دیں ۔۔۔“ وہ بولتا ہوا سیدھا باہر نکل گیا ۔
صوفیہ پہلے تو چپ چاپ کھڑی رہی پھر اپنی خودفراموشی میں کہی بات کو سوچ کر ہنس پڑی بلال کی دکھائی زندگی کا خاکہ بہت دلکش تھا
************************
جبار شبیر کی اسٹیٹ سے ذرا دور اپنے ساتھی کے ساتھ کھڑا تھا چاروں طرف سیکیورٹی کیمرے اور دیواروں سے جھانکتی گنیں انہیں نظر آچکی تھی اب وہ شہزادہ فہد کریمی کا انتظار کررہے تھے جو ہوا میں بیہوش کرنے والی گیس لیکر آرہا تھا تقریباً ایک گھنٹے کے بعد شہزادہ فہد گیس بم لیکر ہیلی کاپٹر پر پہنچا اور آسمان کی بلندیوں سے اسٹیٹ میں بےآواز گیس بم گرادئیے گئے تھے ۔۔
”جبار اب تم دونوں گیس ماسک پہن کر اندر جاسکتے ہو جلد از جلد ٹارگٹ کو لیکر باہر آؤ پھر ہم یہی سے سیدھے دوحہ نکل جائینگے ۔۔۔“ ہیلی کاپٹر سے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے شہزادہ فہد کریمی نے جبار کو ہدایت دی گئی ۔۔
جبار نے ہیلی کاپٹر سے سیڑھی کے ذریعے لٹکتے بیگ سے اچک کر آکسیجن ماسک نکال کر اپنے ساتھی کو دیا اور خود بھی پہنا اور وہ دونوں دبے قدموں اسٹیٹ کے اندر داخل ہوگئے ۔۔۔
اس بڑے سے محل میں موت کا سا سناٹا چھایا ہوا تھا جبار آہستگی سے چاروں جانب دیکھتا اندر داخل ہوگیا تھا اب وہ ایک ایک کمرے کو چیک کررہا تھا جب اسکا فون بجا۔۔۔
” اتنی دیر ہوگئی تم ابھی تک ہماری محبوبہ کو لیکر باہر نہیں آئے جلدی کرو ۔۔“ شہزادہ فہد چلایا ۔
”محترم فہد کریمی یہ ایک بہت بڑا محل ہے میں ایک ایک کمرے میں جا کر محترمہ محبوبہ صاحبہ کو ڈھونڈ رہا ہوں تھوڑا ٹائم دیجئیے ۔۔“ جبار گڑگڑایا
”ٹھیک ہے جلدی کرو ۔۔“ فہد کریمی نے فون پٹخا ۔
جبار اب جلدی جلدی ہر کمرے میں جھانک رہا تھا جب اسے ایک کمرے میں فرش پر اوندھے منہ گری ہوئی لڑکی نظر آئی وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھا ۔۔۔
***********************
وقت گزر رہا تھا شہزادہ فہد کریمی ہیلی کاپٹر میں بیٹھا بے صبری سے اپنے ساتھیوں کا انتظار کرہا تھا رات خاصی گہری ہوچکی تھی اسے صبح سویرے قطر کے ریگستانی علاقہ میں تمام دھشت گرد تنظیموں کے سربراہی اجلاس میں شرکت بھی کرنی تھی ۔۔
وہ بار بار اندھیرے میں اپنے ہاتھ پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھ رہا تھا جبار کو اندر گئے گھنٹا ہوچکا تھا اور اب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا کہ اسے اندھیرے میں دور سے جبار اور اس کا ساتھی ماسک پہنے کسی وجود کو کندھے پر لادے ہوئے کاپٹر کی طرف آرہے تھے یہ یقیناً صوفیہ تھی کیونکہ کاندھے پر لٹکے وجود کے لمبے بال ہوا سے اڑ رہے تھے ۔۔
کاپٹر کے قریب پہنچتے ہی انہوں نے بیہوش صوفیہ کو پیچھے کی سیٹ پر بٹھا کر سیفٹی بیلٹ باندھی اور خود بھی اچک کر بیٹھ گئے ۔۔
ان سب کے بیٹھتے ہی شہزادہ فہد کریمی کے اشارے پر پائیلٹ نے کاپٹر فضا میں بلند کرنا شروع کیا کاپڑ کے پنکھوں کی آواز گونج رہی تھی اور وہ فضا میں بلند ہوتے ہوتے مشرق کی طرف مڑا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا ۔
*********************************************
بھاری سر کے ساتھ اس نے اپنی بوجھل آنکھیں کھولیں اس تیز نشہ آور انجکشن کا اثر ابھی بھی پوری طرح ختم نہیں ہوا تھا آنکھوں کے آگے رنگ برنگے نقطے چمک رہے تھے چند لمحے وہ غائب دماغی سے بیٹھی رہی اچانک اسے ہوش آیا ۔
”یہ تو ائیرو پلین لگ رہا ہے ۔۔۔“ پھر ایک جھٹکے سے سیٹ بیلٹ کھول کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔
سامنے ہی سیٹ پر کیپٹن حمید زوار کے بھیس میں آنکھیں موندے بیٹھا تھا زویا کے اٹھنے کی آواز کے ساتھ ہی وہ بھی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
”میجر سر آپ۔۔۔۔“ اس سے پہلے زویا اپنی بات مکمل کرتی کیپٹن نے تیزی سے اس کی بات کاٹی
”سسٹر اب آپ کیسا فیل کررہی ہیں ۔۔۔“
زویا اس کی آواز اور بات کرنے کا انداز دیکھ کر چونک گئی اور پیچھے ہوتے ہوئے گویا ہوئی
”آپ کون ہیں اور میں ادھر اس پلین میں کیسے آئی میجر زوار کدھر ہیں ۔۔“
”میرا نام کیپٹن حمید ہے میرا تعلق پاک انٹیلیجنس سے ہے آپ اس وقت محفوظ ہیں ۔“
یہ کہہ کر کیپٹن حمید اسے بیٹھنے کا اشارہ کرکے اپنے ہاتھ میں موجود ڈیوائس میں فلائٹ کا نقشہ دیکھنے لگا اچھا خاصا سفر طے ہوچکا تھا اب تو سر پر کفن باندھ کر ان ملک دشمن عناصر کو ختم کرنے کا وقت تھا جنہوں نے مسلمان ہوتے ہوئے بھی مسلم ممالک میں دھشت گردی اور خون خرابہ پھیلایا ہوا تھا ۔۔
کیپٹن حمید نے اپنی گھڑی نما ڈیوائس میں مورس کوڈ سے پیغام بھیجا اور جواب ملتے ہی وہ تیزی سے اپنی جگہ سے کھڑا ہوا سیٹ کے نیچے سے جھک کر بیگ میں پیک پیراشوٹ نکالا اور زویا کی جانب آیا ۔۔۔
”سسٹر آپ کھڑی ہوجائیے ۔۔“ وہ سنجیدگی سے بولا
زویا کے کھڑے ہوتے ہی اس نے پیراشوٹ اس کی کمر میں باندھا ۔۔۔۔
”میری بہن اب میری بات غور سے سنو باہر اندھیری رات ہے نیچے چٹیل میدانی علاقہ ہے جس کے اوپر سے اس وقت جہاز گزر رہا ہے میں آپ کو ابھی جہاز کے ایمرجنسی ایگزٹ سے نیچے دھکا دونگا آپ بنا گھبرائے آنکھیں بند کئیے بس سو تک گنتی گننا اور پھر اپنے کاندھے پہ موجود اس رسی کو زور سے کھینچنا پیراشوٹ کھل جائے گا ۔۔۔
” کیپٹن ۔۔۔“ زویا کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئی
”سسٹر آپ پاکستان کے شیر میجر زوار کی وائف ہیں پاکستان کی بیٹی ہیں اور ایک پاکستانی لڑکی کے اندر اتنی ہمت ہوتی ہے کہ وہ وقت آنے پر اپنی افواج کا اپنے ملک کا ساتھ دے سکے ۔۔۔“ کیپٹن حمید نے اس کی ہمت بندھائی زویا کے ہاتھ اپنے کندھے پر موجود رسی پر سختی سے گڑ گئے تھے ۔۔۔
کیپٹن نے زویا کو بازو سے پکڑا اور ایگزٹ ڈور کھولا۔۔
دروازے کے کھلتے ہی تیز و تند ہوا کے جھونکے سے جہاز ڈول گیا زویا کا وجود ہوا کی تندی سے اڑنے کو تھا پورے پلین میں ایمرجنسی سائرن کی بلند آواز گونجنے لگی تھی وقت کم تھا کیپٹن حمید نے تیزی سے ہاتھ بڑھا کر زویا کو دس ہزار فٹ کی بلندی سے نیچے دھکیل دیا ۔۔
دروازہ تیزی سے بند کیا اور بھاگتا ہوا کاک پٹ کی جانب بڑھا جہاں بیٹھا عربی پائیلٹ دروازہ بند کرنے ہی والا تھا ۔۔
کاک پٹ کے اندر داخل ہو کر کیپٹن نے ایک زور دار پنچ پائلٹ کے مارا اور مارتا چلا گیا حتہ کہ پائلٹ بیہوش ہوگیا اب اس نے پائلٹ کو کاک پٹ سے باہر دھکیل کر دروازہ اندر سے لاک کیا اور خود پائلٹ کی سیٹ پر آگیا ۔
وطن عزیز کے نڈر جوان کا کیا عمدہ پلان تھا یہ جہاز ایک شہزادے کا تھا جسے اگر دھشت گردوں کے بڑے اڈے پر لے جایا جاتا تو کوئی روک ٹوک نہیں ہونی تھی اور بڑی آسانی سے اڈے کے اندر گھس کر سب کو ختم کیا جاسکتا تھا