صبح منہ اندھیرے کا وقت تھا اسلام آباد کے پوش علاقے میں ویران سنسان سڑک پر دور سے ایک لمبا جوان جو اپنے فوجی ہیئر کٹ اور مضبوط قد کاٹھی سے دور سے ہی نمایاں نظر آرہا تھا جاگنگ کر رہا تھا اس نے پوری لین کے چار چکر کاٹے اور اب اندر پارک میں داخل ہو کر سٹریچ کرنے میں لگا تھا بنیان سے جھانکتے اسکے مضبوط ورزشی بازوؤں میں سے ایک پر گولی لگنے کے زخم کا نشان نمایاں تھا کچھ دیر سٹریچ کرنے کے بعد اس نے تیزی سے دوڑنا شروع کیا وه سانس روک کر دوڑ رہا تھا برق رفتاری سے دو گھنٹے تک وہ کسی روبوٹ کی طرح دوڑتا پارک کے چکر لگا کر وه اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا ابھی وه دوڑتے ہوئے گھر کے پاس پہنچا ہی تھا کہ اسکی گھڑی سے مخصوص سگنل کی آواز آنے لگی اس نے ٹائم دیکھا صبح کا اجالا پھیل چکا تھا لوگوں کی چہل پہل شروع ہو چکی تھی اس نے تیزی سے سگنل ریسیو کا میسج دیا اور گھر کے اندر داخل ہو کر بجلی کی تیزی سے سیڑھیوں سے جمپ لگا کر اپنے کمرے میں آگیا ۔
“یس “..
وه وه اپنی گھڑی نما وائر لیس آلے میں بولا ۔
” سر مری کے قریب کانوینٹ اسکول ہے جہاں بچے صبح سویرے پی ٹی کلاس میں مصروف تھے اس پر کچھ دہشت گردوں نے قبضہ کر لیا ہے وه اپنے کچھ ساتھیوں کو آزاد کروانے کی بات کر رہے ہیں اس واقعے کو ابھی دو منٹ ہی ہوئے ہیں آپ فوراً رپورٹ کریں ۔”
“او کے اوور اینڈ آل “کہہ کر اس نے تیزی سے اپنا کیبنٹ کھول کر سیاہ چست لباس نکال کر پہنا ماسک جیب میں رکھا اور اپنے ٹارگٹ کی طرف روانہ ہوا ۔
یہ ایک کانوینٹ اسکول کا منظر تھا جہاں پاکستان کے بڑے بڑے امراء اور سیاست دانوں کے بچے ایڈمٹ ہیں ۔ہاسٹل کی بلڈنگ اسکول کے ساتھ ہی ملحقہ ہے ۔اسکول کے بڑے گراؤنڈ میں تین سو کے قریب بچے صبح سویرے اپنی پی ٹی کلاس کے لئے موجود تھے ٹیچرز انھیں وارمپ کروا رہے تھے تبھی اونچی بلند چار دیواری سے تقریباً آٹھ نقاب پوش کود کر داخل ہوئے اور چاروں طرف پھیل گئے ۔
سب سے پہلے انھوں نے سارے دروازے بند کئے پھر فائرنگ کر کے سارے بچوں اور اساتذہ کی توجہ اپنی طرف کروائی بچے انکو دیکھ کر ڈر گئے کچھ اس قدر سہم گئے کے انکے حلق سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی ۔دہشت گردوں نے ان سب کو چاروں طرف سے گھیر کر ایک جگہ جمع کر لیا تھا پھر ایک موٹا لمبا سا نقاب پوش مشین گن تھامے آگے آیا ۔
“سب ٹیچرز بچوں کو لائن بنا کر اندر جم میں چلیں اور اگر کسی نے گڑ بڑ کرنے کی کوشش کی تو گولی مار دینگے ۔”
سب ایک قطار بنا کر اندر داخل ہوئے جم میں داخل ہوتے ہی سب بچوں کو بینچ اور کرسیوں پر بیٹھنے کا اشارہ کر کے اس موٹے نے اپنے دو آدمی کھڑکی دروازے بند کرنے پر لگا دئیے اور تین کو باہر نگرانی کے لئے بھیج کر اپنے آخری ساتھی کو وائر لیس سیٹ کرنے کو کہا انکی ڈیمانڈ ان بچوں کی زندگی کے بدلے اپنے وزیرستان میں فوجی آپریشن کے دوران پکڑے ساتھیوں کو چھڑوانا تھا ۔وه اپنی ڈیمانڈ پیش کر چکے تھے اور اب ہوم سیکرٹری کا ویٹ کر رہے تھے ۔
***************
اسکول کو چاروں طرف سے سادہ لباس میں ملبوس ریڑھی والے چھولے والے اور چلتے پھرتے افراد کے بھیس میں کمانڈوز نے گھیر لیا تھا ابھی کوئی لائحہ عمل طے نہیں ہوا تھا ۔
تبھی اسکول سے ذرا دور ایک جیپ آکر رکی اور ایک سنجیدہ جوان چہرے پر بلا کی کرختگی لئے اترا نیچے اترتے ہی اس نے اپنا ماسک چہرے پر لگایا اور چیتے کی رفتار سے اسکول بلڈنگ کی پچھلی طرف بڑھا ۔اس سے پہلے کے رینجرز یا ہائی کمانڈ کچھ کہتی وه اونچی لمبی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہو گیا دبے قدموں چلتا وه باری باری ان تینوں دہشت گردوں کو تاڑ چکا تھا جو سامنے گھات لگاۓ بیٹھے تھے اس نے جیب سے سائیلنسر لگی گن نکالی اور یکے بعد دیگرے تینوں کو اپنا نشانہ بنا کر مار دیا اور اپنے ہاتھ پر بندھے نما آلے سے باہر موجود ساتھیوں کو اندر آنے کو کہا ۔
اسکا اشارہ ملتے ہی کمانڈوز اندر آگئے اور وه اسکی قیادت میں اسکول میں پھیل چکے تھے اور بچوں کی تلاش خاموشی سے کر رہے تھے تبھی انہیں جم کی طرف سے کسی کی گھٹی گھٹی سی چیخ کی آواز سنائی دی وه سارے اس طرف لپکے مگر تیسری منزل پر واقع جم کے سارے دروازے کھڑکیاں بند تھے چند کمانڈوز کھڑکی سے چپک کر اسے اسکریو ڈرائیور سے کھولنے میں لگے تھے ۔کھڑکی کا ایک پٹ کھل چکا تھا اب وه جھری میں سے اندر کا منظر دیکھ رہا
*****************************
اس موٹے دہشت گرد نے تمام بچوں میں سے ایک سب سے چھوٹی بچی منتخب کی اور اس سات سال کی شہد رنگ آنکھوں اور ویسے ہی گھونگر یالے بالوں والی بچی کو کرسی پر بٹھا کر اسے بم والی جیکٹ پہنا کر کرسی پر بیٹھا دیا تھا اور اس کے ہاتھ اور پیر میں ہتھکڑیاں لگا کر کرسی سے کس دیا ۔اب وه اس بچی کی فوٹیج انٹرنیٹ کے ذریعے ہوم منسٹر کو دکھا رہے تھے تاکہ انکی مانگیں پوری کی جا سکیں ماحول سنگین اور خطرناک تھا سارے بچے انکے قبضے میں تھے اندر وه چار افراد تھے اسلحہ سے لیس ۔
کمانڈوز کو اسٹیبلشمنٹ سے پیچھے ہٹنے کا حکم مل چکا تھا مگر وه پیچھے ہٹنے سے انکاری تھا ۔
”میں ان درندوں کے پاس ان بچوں کو نہیں چھوڑ سکتا جو واپس جانا چاہے جا سکتا ہے ۔“
یہ کہہ کر اس نے بنا آواز کئیے کھڑکی کا پٹ کھولا اور جھک کر کھڑکی سے داخل ہوتے ہی گن سے دہشت گردوں کا نشانہ لیا اور یکہ بعد دیگر فائر کرتا چلا گیا ان ظالم دہشت گردوں کو سانس لینے کا موقع بھی نہیں ملا اس نے سب کو مار گرایا اس کے انداز میں جنون تھا بےرحمی تھی ۔
سب بچے یہ خون خرابہ دیکھ کر چیخنے اور رونے لگے تھے کمانڈوز نے بچوں کو ایک ایک کر کے کمرے سے نکالنا شروع کر دیا تھا مگر وه بچی جس کے سینے سے بم باندھا تھا اگر اسکو ہلاتے تو پوری بلڈنگ اڑ جاتی ۔وه سب کو باہر نکلنے کا اشارہ کر کے خود اپنا ماسک اتار کر اس سہمی ہوئی بچی کی طرف بڑھا اس بچی کی آنکھیں بال نقوش سب کچھ اسے پرانی یادوں میں دھکیل رہا تھا وه دو زانوں ہو کر اس معصوم سہمی ہوئی بچی کے پاس بیٹھ گیا ۔
ٹک ٹک کی آواز بڑھتی جارہی تھی کھڑکی کو توڑ کر سب بچوں کو باہر نکال لیا گیا تھا اب بم پھٹنے میں چند ہی منٹ باقی تھے وہ اتنا طاقتور بم تھا کہ پوری بلڈنگ کو تباہ ہو جانا تھا اسکے ساتھی اسے نکلنے کو کہہ رہے تھے مگر وہ بڑے اطمینان سے بم کو ڈفیوز کرنے میں لگا تھا اسے موت کا کوئی خوف نہیں تھا بس چند لمحے اور دو وائر اسنے آنکھ بند کی اور اسکے کانوں میں ماضی کی ایک آواز گونجی ۔۔۔
”چلو تم پر بھروسہ کر کے دیکھتے ہیں “۔۔۔۔۔۔اسنے جھٹکے سے آنکھیں کھولیں اور نیلا تار کاٹ دیا ۔۔۔
لال نشان بلنک ہونا بند ہوگیا آج پھر موت اس سے ڈر کر بھاگ گئی تھی ۔
وہ گہرا سانس لیکر اٹھا اس بچی کے ہاتھ پیر آزاد کئیے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر بغیر رکے باہر نکلتا چلا گیا اس کے ساتھی حیرت سے اسے جاتا دیکھ رہے تھے ۔۔
بیس پہنچ کر وہ چھ فٹ کا لمبا جوان مضبوط کسرتی جسم کا مالک سنجیدگی کی انتہا کو چھوتا اپنے مضبوط قدموں سے چلتا ہوا ریجمنٹ آفیسر کے پاس پہنچا اور سنجيده لہجے میں گویا ہوا
” کیس ختم چار دھشت گرد مارے گئے اور باقی سب گرفتار ہوچکے ہیں آپ ان تمام مجرموں کو آئی ایس آئی کے تفتیشی سیل میں بھجوا دیں “
یہ کہہ کر وہ رکے بغیر وہاں سے نکل آیا ۔۔
وقت نے اسے پتھر بنا دیا تھا اس کی آنکھوں میں بس ایک ہی چہرہ بسا تھا صوفیہ کا چہرہ جسے وہ چاہ کر بھی بچا نہیں پایا تھا ۔
گزرے چھ مہینے سے وہ جان ہتھیلیوں پہ لئے پھر رہا تھا اسکا نڈر اور بےخوف انداز اسے آج آئی ایس آئی میں ایک اونچا مقام دیا۔
*****************************
مشن ختم ہو چکا تھا زوار نے اس موت کے سوداگر یہودی ایجنٹ کو موت کی نیند سلا دیا تھا اب وه اپنے سیف ہوم میں موجود اپنا سامان سمیٹ کر تیار ہو چکا تھا آج کا پورا دن اس نے مسز زی کے نام اسکی سنگت میں بےفکری سے گزارنے کا فیصلہ کیا تھا ۔
بڑے مگن انداز میں تیار ہو کر اس نے گیراج سے سپورٹ بائیک نکالی اور سیدھا زویا کے ہاسٹل کی جانب روانہ ہوا ۔
زویا ابھی کلاس لے کر ہاسٹل میں آکر بیٹھی ہی تھی کہ اسے زوار کا ٹیکسٹ موصول ہوا ۔
“مسز زی میں پندرہ منٹ میں ہاسٹل کے گیٹ پر ملونگا تیار رہنا ۔”
ٹیکسٹ پڑھ کر زویا کے خوبصورت تابناک چہرے پر خوشی سی چھا گئی وه جب سے اپنے بابا سے الگ ہوئی تھی افسردہ اور پریشان تھی مگر جب سے میجر زوار اسکی زندگی میں آیا تھا سب بدل گیا تھا مانا زوار کھڑوس اور غصے کا تیز تھا مگر زویا کے ساتھ بہت اچھا تھا سارے حق ہوتے ہوئے بھی اس نے زویا پر کوئی حق نہیں جتایا تھا اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ پہلے وہ اس کے بابا کو ڈھونڈے گا پھر زویا کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کرے گا اس اسائمنٹ کے بعد شبیر کی تلاش ہی اس کی اگلی مہم تھی ۔
وه زوار کو دل و جان سے چاہتی تھی اور نکاح کے بعد تو اس کے چاروں طرف بس زوار ہی زوار تھا زوار کو سوچتے وه جلدی سے تیار ہونے لگی کے زوار کو انتظار پسند نہیں تھا لانگ پنک سکرٹ اور سفید شرٹ پہن کر اس نے اپنے لمبے سنہری بال پونی میں جکڑے اور اوپر سے حجاب لیا جو اسے زوار نے ہی لا کر دیا تھا ۔زیور کے نام پر اس کے گلے میں جگمگاتی چین اور کان میں ٹاپس تھے جو اسکے پیارے بابا کا تحفہ تھے ۔
***********************************
زویا کو جیسے ہی وارڈن نے زوار کے آنے کی اطلاع دی وه تیزی سے نیچے ویٹنگ روم میں آئی جہاں زوار اسکا انتظار کر رہا تھا ۔
زوار ہاسٹل پہنچ چکا تھا وارڈن سے اجازت لینے کے بعد وه زویا کا ویٹنگ روم میں انتظار کر رہا تھا جب اسے اسکے قدموں کی آہٹ سنائی دی ۔لونگ پنک سکرٹ اور لونگ شرٹ میں گلابی جدید انداز کا حجاب لئے وه تیزی سے اسکی طرف آرہی تھی سرخ و سپید چہرے پر خوشی کی چمک دور سے نظر آرہی تھی ۔
وہ پوری توجہ سے بڑی پر شوخ نظروں سے زویا کو دیکھ رہا تھا وه قریب آکر رک گئی ۔
“سلام میجر سر “زوار نے اسے گھورا
“آئی مین زوار” وه گھبرا کر بولی ۔
زوار نے آگے بڑھ کر اسکا سکارف درست کیا وه جھجھک کر پیچھے ہٹنے ہی لگی تھی کہ زوار نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا اور اسے لیکر باہر کی جانب بڑھ گیا ۔باہر آکر وه اپنی سپورٹ بائیک کے پاس آکر رکا اور ایک ہیلمٹ زویا کی طرف بڑھایا جو بائیک کو دیکھ کر گھبرا رہی تھی ۔
“کیا آپ مجھے اس پر لیکر جائینگے ۔”
“کیوں کیا ہوا زوار نے اسے دیکھا
“اگر میں گر گئی تو !مجھے بہت ڈر لگتا ہے “وه منمنائی ۔
“زویا “زوار نے اسکا سر اپنی انگلی سے اوپر اٹھایا
“کیا میں تمہیں گرنے دے سکتا ہوں بولو ؟”
زویا نے دھیرے سے اپنی سبز آنکھیں اوپر اٹھائیں زوار اسے وارفتگی سے دیکھ رہا تھا اس نے مسکرا کر نفی میں سر ہلایا زوار نے اسکے سر پر ہیلمٹ پہنایا اور اسے اپنے پیچھے بیٹھا کر بائیک کو ساحل کی طرف لے گیا ۔
*********************************
بڑے سے ہال نما سفید کمرے میں چاروں جانب زمین پر بیٹھے افراد بڑی دلچسپی سے جینز کی پینٹ اور ٹی شرٹ میں ملبوس دبلی پتلی تقریباً پانچ فٹ سات انچ کی لڑکی کو دیکھ رہے تھے جو دو آدمیوں سے بری طرح بھڑی ہوئی تھی اس کی صبیح پیشانی سے پسینہ بہہ رہا تھا اور وہ بجلی کی برق بن کر ان آدمیوں پر حملہ کررہی تھی وہ دونوں آدمی مل کر بھی اس بلا پر قابو پانے میں ناکام ثابت ہورہے تھے ۔
کمرے کا دروازہ کھول کر ایک ادھیڑ عمر آدمی اندر داخل ہوا اور پرسوچ نظروں سے بجلی کی طرح اپنے حملہ آوروں پہ گرتی اس بلا کو دیکھنے لگا ۔
لڑتے لڑتے اس کی نگاہ اندر داخل ہونے والے ادھیڑ عمر آدمی پر پڑی اسنے اپنی گردن اپنے شانوں پہ باری باری گرائی اور ایک حلق سے ایک زور دار آواز نکالتی ہوئی اچھل کر ان دونوں کی گردن پر کاری وار کیا اور دونوں ہاتھ جھاڑتی ہوئی اس آدمی کی جانب بڑھی ۔
”ہیلو فوکسی لگ رہا ہے تم فیلڈ میں آنے کیلئیے تیار ہو ۔“ وہ اس حسین بلا سے ہاتھ ملاتا ہوا گویا ہوا
آئی ایس آئی کے آفس میں میٹنگ کال کی گئی تھی کیپٹن بلال بھی میٹنگ کے شرکاء میں شامل تھا ۔آئی ایس آئی کے تمام ڈائریکٹر ڈپٹی ڈائریکٹر اور چھے مزید ایجنٹ اس خفیہ میٹنگ کے شرکاء میں شامل تھے ۔
“ٹیم ہماری مستند اطلاع کے مطابق عراق کے نواحی گاؤں کے قریب دہشت گرد تنظیم کا بڑا بیس ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں جوانوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے اور دنیا بھر سے اپنی اپنی صلاحیتوں میں قابل ترین ڈاکٹرز ،انجینئرز سائنس دانوں کو وہاں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے اور ان سے یہ دہشت گرد زبردستی اپنی مرضی کے ہتھیار اور کیمکلز تیار کر وا رہے ہیں ۔سی آئی اے کو شبہ ہے کہ انکے پاس ایٹمی ہتھیار کا فارمولا لگ چکا ہے اور اب وه اس پر کام کر رہے ہیں ہمیں وہاں سے اس فارمولے کو حاصل کرنا ہے اس سے پہلے کہ ہمارے دشمن ممالک کے ایجنٹ کے ہاتھوں یہ فارمولا لگے ہمیں ہر قیمت پر اسے حاصل کرنا ہوگا یہ مشن موت کا مشن ہے آپ سب کو سر پر کفن باندھ کر نکلنا ہوگا آپ چھے کے چھے ایجنٹ الگ الگ کام کرینگے اپنے طریقے سے تاکہ اگر ایک ناکام ہو تو دوسرے پر آنچ نا آئے اور اصول کے مطابق اگر زندہ پکڑے گئے تو ہم آپ کو نہیں جانتے انڈر اسٹینڈ “۔
“یس سر “سب نے باآوز بلند کہا ۔
“او کے آپ سب کل صبح ایڈمن آفس سے اپنے نئے پاسپورٹ اور ہتھیار اور پراپر پروپس وصول کر لیں ۔”
یہ کہہ کر ڈائریکٹر صاحب نے میٹنگ ختم کی ۔
سب اٹھ کر جانے لگے تو انھوں نے بلال کو روکا اور سب کے جانے کے بعد بلال سے مخاطب ہوئے ۔
“بلال اب تم میجر کے عہدے پر فائز ہو چکے ہو
“Let me congratulate you first”
بلال متانت سے مسکرایا ۔
“میجر بلال تم جس مشن پر بھی جاتے ہو کسی کو نہیں چھوڑتے خاصہ خون خرابہ کر کے آتے ہو مگر یہاں تمہیں خیال رکھنا ہے میرا مشورہ ہے کہ تم ساری ایکٹیویٹیز کو اچھی طرح سے آبزرو کرو ۔پتا کرو کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے ہمیں شبہ ہے کہ ان لوگوں کے ہاتھ ہمارے مشہور پروفیسر شبیر یا انکا کوئی ساتھی لگ چکا ہے “۔
“مگر سر “بلال چوکنا ہوا
“پروفیسر شبیر تو شہید ہو چکے ہیں وزیرستان میں تو اب یہ انفارمیشن ۔؟”
“میجر بلال ہمیں پورا یقین ہے شبیر زندہ ہے اور انکے قبضے میں ہے کیونکہ جس فارمولے پر وه کام کر رہے ہیں وه شبیر کا ہی ہے ۔”
“جی سر “بلال نے سر ہلایا
“میجر بلال یہاں ذرا خون خرابے سے پرہیز کرنا ہمیں پروفیسر شبیر کو ڈھونڈنا ہے اور زندہ واپس لانا ہے ۔” ڈائریکٹر صاحب نے سنجیدگی سے بلال کو ہدایت دی
“جی سر “یہ کہہ کر وه دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اور بلال سلیوٹ مارتا ہوا باہر نکل گیا اب اسے اپنا پلان بنانا تھا اور اس پر خطر مہم پر نکلنا تھا ۔
********************************
جوناتھن بہت احتیاط سے خاصا فاصلہ رکھ کر زوار کا پیچھا کررہا تھا کافی دور جا کر زوار کی بائیک ایک گرلز ہاسٹل کے پاس جاکر رکی اور میجر زوار اتر کر اندر چلا گیا جوناتھن نے اپنا فون نکالا اور سر فورڈ کو کال کرنے لگا ۔
“سر آپ کے کہنے کے عین مطابق ہم میجر زوار پر ایک میل کی دوری سے نظر رکھے ہوئے ہیں اور آج وه اپنی بائیک پر یونیورسٹی سے ملحقہ ہاسٹل گیا ہے اور ابھی تک اندر ہی ہے “۔
یقیناً اس ہاسٹل میں اس نے زویا کو رکھا ہوگا اب اسکا مزید پیچھا کرنے کی ضرورت نہیں ہے اسکے واپس جاتے ہی اس ہاسٹل سے ساری معلومات حاصل کرو سیکورٹی کیمرے کی فوٹیج لو اور لڑکیاں چیک کرو اگر زویا ہے تو اسکا رول نمبر اور روم کی لوکیشن ٹریس کرکے مجھے اطلاع کرو ۔”
“جی سر فورڈ جیسے آپ کا حکم “یہ کہہ کر جوناتھن نے کال ختم کی ۔
تھوڑی دیر کے بعد اس نے دوربین سے چیک کیا تو زوار ایک حجاب میں لپٹی لڑکی کے ساتھ نظر آیا اس لڑکی نے جدید لباس پہنا ہوا تھا سر پر حجاب تھا چہرہ کھلا تھا پر وه زوار کے حصار میں ایسے چل رہی تھی کہ اسکا چہرہ صاف نظر نہیں آرہا تھا پھر وه دونوں آکر بائیک کے پاس رکے اور زوار نے مڑ کر ہیلمٹ اٹھایا وه جیسے ہی مڑا اس لڑکی کا چہرہ واضح ہو گیا بلا شبہ وه سبز آنکھوں والی خوبصورت لڑکی مادام سلویا
کی بیٹی زویا تھی جس کی انہیں تلاش تھی ۔
میجر زوار اور زویا کے روانہ ہوتے ہی جوناتھن تیزی سے ہاسٹل کی جانب بڑھا تاکہ زویا کے کمرے کے بارے میں معلومات حاصل کر سکے ۔آدھے گھنٹے بعد جب وه باہر نکلا تو جوش سے اسکا چہرہ تمتما رہا تھا ۔زویا کی ساری ڈیٹیل اس کے ہاتھ میں تھی ۔
*******************************
صحرائی علاقہ میں واقع اس کیمپ میں دور دور تک کمانڈو ٹریننگ زوروں پہ جاری تھی جگہ جگہ نشانے بازی کی مشقوں کیلئیے ٹارگٹ بورڈ نصب تھے وہ کڑی دھوپ میں آنکھوں پر دھوپ کا چشمہ لگائے چاروں جانب دیکھ رہی تھی دھوپ کی تمازت سے اس کی سنہری رنگت چمک رہی تھی اس کا لمبا قد دلکش سراپا سب کو دعوت نظارہ دے رہا تھا پر وہ سب سے بےنیاز گاہے بگاہے وہ اپنی کلائی پہ موجود گھڑی پر نظر ڈال رہی تھی تھوڑی ہی دیر بعد ایک جیپ اس کے بالکل قریب آکر رکی اور ایک لہیم شہیم عراقی آدمی کاندھوں پہ صافہ ڈالے اس کے پاس آیا ۔
”مرحبا عزیم بن زیاد “ وہ اسے دیکھ کر بولی
”مرحبا مرحبا بك في فريقنا “۔(ہماری تنظیم میں خوش آمدید )
وہ جوش سے بولتا اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتے ہوئے اندر خیمے کی جانب بڑھا
” کمانڈر ۔۔۔ہمارے پاس تمہارے لئیے ایک اہم ٹارگٹ ہے اگر تم یہ کام کامیابی سے کرلیتی ہو تو تمہیں تمہارا مطلوبہ شکار حاصل کرنے کا موقعہ ہم دینگے اور تنظیم میں اونچا رتبہ بھی لیکن یاد رکھنا ناکامی کی سزا صرف اور صرف موت ۔“ وہ اسے سنجیدگی سے گھورتا ہوا بولا
”موت سے ڈرنے والی ہوتی تو آج دنیا میں اریانا موت کی دھشت کے نام سے مشہور نہ ہوتی آپ کام بتائیں ۔“
عزیم بن زیاد نے چند مہینوں میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتی تنظیم میں اپنی جگہ بناتی اریانا کو گھورتے ہوئے اپنے لیب ٹاپ کا رخ اس کی جانب کیا جس میں ایک کے بعد ایک تصاویر سامنے آرہی تھی ۔
”غور سے دیکھو یہ یہودیوں کا ایک بڑا رہنما سر فورڈ ہے اس کی اکلوتی بیٹی سلویا کو اپنی ماں سے وراثت میں ایک خطیر رقم جو بلین ڈالرز میں ہے ملی تھی اور قیمتی جواہرات بھی جو اسے اپنی ماں سے ورثہ میں ملے تھے جن پر یہودیوں کی نظر تھی وہ اس رقم کو اسرئیل کی ترقی میں لگانا چاہتے تھے مگر اس کی بیٹی کی حادثاتی موت ہوگئی اور وقت گزرنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ اپنی ساری رقم ٹرانسفر کرچکی تھی اب وہ سو بلین ڈالر کدھر ہیں کسی کو نہیں پتہ مگر قیاس یہ ہے کہ اس کی نواسی زویا ہی اس رقم تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے ہمیں ہر قیمت پر زویا چاہئیے سوچوں اگر یہ رقم ہماری تنظیم کے ہاتھ لگ جائے تو ہم ہر طرح کے ہتھیار بنانے میں خودکفیل ہوجائیں گے اس سرمائے کی مدد سے اپنی ایٹامک لیبارٹری ہتھیاروں کی فیکڑی بنا سکیں گئے اور ساری دنیا ہمارے آگے سر جھکائے گی ۔“
اسکرین پر زویا کی تصویر تھی عمر بمشکل سترا سال سبز چمکتی آنکھیں دلکش خدوخال ۔۔۔اریانا نے بغور زویا کو دیکھا
”ہماری معلومات کے مطابق یہ لڑکی اسوقت استنبول میں ہے گرلز ہاسٹل میں رہتی ہے ۔“
”آپکی معلومات کا ذریعہ “ آریانا نے سنجیدگی سے پوچھا
”ہم کافی عرصہ سے فورڈ کی نگرانی کررہے ہیں اور اس کا فون ٹریپ کررہے ہیں سنو ۔“ یہ کہہ کر اس نے وائس ریکارڈر پلے کیا اور جوناتھن کی آواز گونجی ۔۔۔
“سر آپ کے کہنے کے عین مطابق ہم میجر زوار پر ایک میل کی دوری سے نظر رکھے ہوئے ہیں اور آج وه اپنی بائیک پر یونیورسٹی سے ملحقہ ہاسٹل گیا ہے اور ابھی تک اندر ہی ہے “۔
یقیناً اس ہاسٹل میں اس نے زویا کو رکھا ہوگا اب اسکا مزید پیچھا کرنے کی ضرورت نہیں ہے اسکے واپس جاتے ہی اس ہاسٹل سے ساری معلومات حاصل کرو سیکورٹی کیمرے کی فوٹیج لو اور لڑکیاں چیک کرو اگر زویا ہے تو اسکا رول نمبر اور روم کی لوکیشن ٹریس کرکے مجھے اطلاع کرو ۔”
“جی سر فورڈ جیسے آپ کا حکم “
عزیم بن زیاد نے ہاتھ بڑھا کر وائس ریکارڈر آف کیا ۔۔۔
”کمانڈر اب تم اپنی ٹیم منتخب کرلو ۔“وہ آریانا سے مخاطب ہوا
”اتنے سے کام کیلئیے آریانا کو ٹیم کی ضرورت نہیں ہے میں جلد ہی اس لڑکی کو لیکر واپس آونگی اور میں آج ہی استنبول روانہ ہوتی ہوں ۔“ آریانا اٹھتے ہوئے بولی
”کمانڈر آریانا اتنی بھی کیا جلدی ہے تھوڑا ٹائم تو ساتھ گزار لیں پھر چلی جانا ۔“ وہ ہوس ناک نظروں سے اس کے دلکش سراپے کو گھورتے ہوئے بولا
آریانا نے ایک نفرت انگیز نگاہ عزیم بن زیاد پر ڈالی اور غصہ سے اس کے گال تمتما رہے تھے پر وہ خود پر قابو پاتی باہر نکل گئی ۔
***********************************
زوار زویا کو برک بیچ پر لے آیا تھا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی بہت سے منچلے بال کھیلنے اور سوئمنگ کرنے میں مصروف تھے کہنے کو تو یہ ایک اسلامی مملکت کا بڑا شہر تھا مگر حد سے زیادہ ماڈرن اور بےباک ۔۔۔
زوار نے بائیک پارک کی اور زویا کا ہاتھ تھام کر ساحل پر آگیا ۔۔۔
”میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مجھے پیار اور عشق جیسی بیماری کے جراثیم لگ جائیں گئے مسز زی ۔۔۔سب تمہارا قصور ہے۔“ وہ گھمبیر آواز میں زویا کے نازک ہاتھ کو سہلاتے ہوئے بولا
”جب سے ہمارا نکاح ہوا ہے آج پہلی بار ہم ایک ساتھ شام گزار رہے ہیں ہر روز سوچتا تھا کے تمہارے ساتھ شام گزاروں پر ہائے رے مصروفیت ۔
زویا سر جھکائے زوار کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے اسے خاموشی سے سن رہی تھی تبھی زوار رکا اور اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا
”کیا چپ شاہ کا روزہ رکھ کر آئی ہو کچھ بولتی کیوں نہیں ۔“
”میں میں کیا بولو “ وہ گھبرا گئی
زوار نے ایک گہری نظر زویا کی جھکی پلکوں پر ڈالی زویا کا چہرہ اس کی نظروں کی تپش سے سرخ ہو رہا تھا وہ بڑے اطمینان سے فرصت سے آس پاس سے بےخبر زویا کا شرمیلا سجیلا روپ اپنی آنکھوں کے رستے دل میں اتار رہا تھا اس کے دن رات دشمنوں سے لڑتے اپنے وطن عزیز کے رازوں کی حفاظت کرتے گزرتے تھے مگر زویا کا تصور اس کی ساری تھکن زائل کردیتا تھا اور اس وقت تو وہ مجسم اس کی نظروں کے سامنے اس کے قریب تھی اسی لئیے وہ رشتہ بنانے سے ڈرتا تھا مگر زویا کے معاملے میں وہ بےبس تھا بلاشبہ زویا زوار کی سب سے بڑی کمزوری بن چکی تھی ۔
”زویا ۔“وہ دھیمے گھمبیر لہجے میں گویا ہوا
”میرے ساتھ چلو گی نا دور تک جب تک میری زندگی ہے ۔“
زویا نے تڑپ کر خفگی سے زوار کو دیکھا
”اگر آپ نے کبھی بھی میرا ساتھ چھوڑا نا تو ۔“
اس کی آواز بھرا گئی اور سبز کانچ کے نگینوں میں پانی امڈ آیا وہ اپنی بات مکمل نہیں کرسکی
”اوکے اوکے سیز فائر مسز زی یار پلیز رونا مت تمہارا میجر سر ساری دنیا سے لڑائی کر سکتا ہے پر تمہارے آنسو برداشت نہیں کرسکتا ۔“ وہ بڑے پیار سے اس کے آنسو صاف کرتا ہوا بولا
” اچھا چلو تمہیں اچھا سا ڈنر کرواتا ہوں “۔۔۔وہ زویا کو لیکر آگے بڑھا
زویا کی سنگت میں ایک بھرپور شام گزار کر اس نے واپسی کی راہ لی ابھی وہ آدھے راستے میں تھا کہ اس کے مخصوص وائرلیس فون پر بیپ ہوئی ۔
اس نے بائیک چلاتے چلاتے اپنا فون نکالا اور میسج چیک کیا۔۔۔
اس نے اپنے جبڑے سختی سے بھینچ لئیے تھے اس کے چہرے کے عضلات تن سے گئے تھے اور آنکھوں میں سے تپش نکل رہی تھی ۔۔۔
***************************
فوکسی کو اپنا مشن مل چکا تھا ساری تیاری کے ساتھ وہ ائیرپورٹ پر ویٹنگ لاؤنچ میں بیٹھی اپنی جرمنی کی فلائٹ کا انتظار کررہی تھی بورڈنگ میں ابھی ٹائم تھا وہ اٹھ کر کافی شاپ پر گئی ابھی وہ لائن میں کھڑی آرڈر پلیس کرنے کا ویٹ کررہی تھی کی اس کی نظر سامنے سے آتے سنجیدہ چہرے والے خوبرو جوان پر پڑی جو دیکھنے میں اپنی چال ڈھال سے ہی کمانڈو لگ رہا تھا وہ تیزی سے لائن سے نکل کر نامحسوس طریقہ سے اس کی نظروں میں آئے بغیر اس کے پیچھے چل پڑی ۔۔۔۔
بلال عراق کے نجف ائرپورٹ پہنچ چکا تھا اور پلین سے اتر کر سیکیورٹی کلئیرنس کے لئیے آگے بڑھ رہا تھا جب پیچھے سے آتے کیپٹن احمر نے اسے دیکھا اور حیران ہو کر خوشی سے آواز دی ۔
” بلال یار تو ادھر ۔“
فوکسی بلال کا نام سن کر چونک گئی تھی اس کا شک ٹھیک ثابت ہوا تھا سامنے کھڑا جوان آئی ایس آئی کا ایجنٹ تھا ۔۔
” آئی ایس آئی یہاں کیا کررہی ہے ۔“ وہ بڑبڑائی
بلال اپنا نام سن کر مڑا دیکھا تو سامنے اس کے آرمی کے دنوں کا ساتھی کیپٹن احمر کھڑا تھا ۔۔۔
آگے بڑھ کر احمر سے بغلگیر ہوتے ہوئے اس نےاحمر کے کان میں سرگوشی کی ۔۔
” بڈی آئی ایم انڈر کوور کئیرفل “ ۔۔۔۔اور ایک سنجیدہ سی مسکراہٹ اس کی جانب اچھالتا ہوا آگے ایگزٹ کنٹرول کی جانب بڑھ گیا ۔۔
فوکسی نےیہ سارا منظر انتہائی آرام سے دیکھا اور نپے تلے قدم اٹھاتی ویٹنگ لاؤنچ میں جا کر بیٹھ گئی اب وہ اپنے کانوں میں ہیڈ فون لگا کر سر دھن رہی تھی دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ میوزک انجوائے کررہی ہو پر درحقیقت وہ سر دھنتے ہوئے فون پر بات کررہی تھی ۔
” آئی ایس آئی عراق میں کیا کررہی ہے سر کہیں یہ تنظیم پر اٹیک کا ارادہ تو نہیں کررہے ۔“ اس کے لہجے میں تشویش تھی
تھوڑی دیر تک وہ بات سنتی رہی ۔۔
”مگر سر اگر تنظیم کو یہاں چھیڑا گیا تو کیا مجھے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہئیے ۔“
اس کی آنکھوں میں شکار حاصل کرنے کی چمک تھی ۔۔
”فوکسی تم حد سے زیادہ چالاک ہو ٹھیک ہے تم ان پر نظر رکھو اور جس حد تک ممکن ہو ان کا ٹارگٹ خود حاصل کرنے کی کوشش کرو مگر تین دن صرف تین دن پھر تمہیں ہر حال میں جرمنی رپورٹ کرنی ہوگی ۔“ باس نے سختی سے ہدایات دیں ۔
”اب آئیگا مزا “ وہ بڑبڑائی
اور اپنا مختصر سا سامان اٹھا کر ایگزٹ کنٹرول کی طرف بڑھ گئی ۔ائیر پورٹ سے باہر نکل کر وہ اپنا بیگ کاندھے پر ڈالے سیدھا چلتی چلی گئی عراق اس کیلئیے کوئی نئی جگہ نہیں تھی اس کا رخ کسی سیف جگہ پہنچ کر اپنا حلیہ تبدیل کرکے شہر سے دور نواحی گاؤں میں دھشت گردوں کے سب سے بڑے اڈے پر پہنچنے کا تھا ۔
***************************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...