سرما کی سخت رات تھی کھڑکی کے شیشوں سے برف گرتی نظر آرہی تھی موسم کی سختی اپنے عروج پر تھی ایک چھیالیس سال کا خوش شکل آدمی قد لمبا بھورے بال بھوری آنکھیں کنپٹی پر ہلکی سی سفید بالوں کی تہہ جو اس کے گریس میں مزید اضافہ کر رہی تھیں تیزی سے ایک چھوٹے بریف کیس میں سامان رکھ رہا تھا پہلے اس نے چند یو ایس بی ڈیوائس رکھیں پھر وه کمرے کے داخلی دروازہ کی جانب بڑھا اور داہنی دیوار کو ایک مخصوص طریقے سے دبایا تو ایک خلا سا پیدا ہو گیا جہاں سے نیچے تہہ خانے میں سیڑھیاں جاتی نظر آرہی تھیں وه تیزی سے سیڑھیاں اترتا نیچے پہنچا یہ ایک جدید اور وسیع لیبارٹری تھی جہاں جگہ جگہ کمپیوٹرائزڈ اسکرینز لگی ہوئی تھیں اس نے باری باری سارے کمپیوٹرز کا ڈیٹا اپنے ہاتھ میں موجود گھڑی نما ڈیوائس میں منتقل کرنا شروع کیا اسکے انداز میں ایک ٹہراؤ تھا اور چہرے پر سنجیدگی تھی تمام ڈیٹا ٹرانسفر کرنے کے بعد اس نے تمام کمپوٹرز کو توڑنا شروع کیا پوری لیبارٹری کو تہس نہس کرنے کے بعد اس نے سائیڈ پر پڑے پٹرول کین کو اٹھایا اور ایک بھرپور الودائی نظر اپنی لیبارٹری پر ڈال کر پوری لیبارٹری میں پیٹرول چھڑک دیا پھر احتیاط سے چلتا ہوا ایک شیشے کی الماری کے پاس پہنچا جو مختلف قسم کے کیمیکلز سے بھری ہوئی تھی جیسے ہی اس نے اپنی انگلی الماری کے سرے پر بنے سکینر پر رکھی تو دروازہ خود بخود کھل گیا وه تیزی سے تمام کیمیکلز پر نگاہ دوڑا رہا تھا سارے کیمکلز میں سے اس نے ایک پلاٹینیم کی بنی سلنڈر نما بوتل اٹھائی جس پر یورینیم لکھا ہوا تھا اور پھر الماری کے اندر بھی پیٹرول چھڑک دیا سارے کاموں سے فارغ ہو کر وه اوپر آیا اور سلنڈر نما بوتل بریف کیس میں ڈالی اور گھڑی سے مشابہہ آلہ جس میں سارا ڈیٹا اس کی ساری تحقیق محفوظ تھی اپنی کلائی پر باندھا ۔
ابھی وہ اپنے کاموں میں مصروف تھا جب اسے باہر کچھ لوگوں کے کودنے کی آواز آئی اس نے تیزی سے بریف کیس تھاما اور پورے کمرے میں پیٹرول چھڑکا ۔تبھی کمرے کے دروازہ پر ٹکریں مارنے کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں وقت کم تھا اس نے تیزی سے ماچس جلائی اور تہہ خانے کی سیڑھیوں کی طرف پھینکی اور دوسری جلا کر کمرے میں پھینک کر تیزی سے اچھل کر بائیں دیوار پر کک ماری جہاں ایک خلا پیدا ہوا وه تیزی سے اس خلا کے اندر داخل ہوا کمرے اور تہہ خانے میں آگ بھڑک چکی تھی اور نیچے کیمیکلز کی موجودگی کی وجہ سے آگ کےشعلے پوری شدت سے بھڑک اٹھے تھے تبھی دروازہ ٹوٹا اور دھکے سے چند سفید فام افراد اندر داخل ہوئے اور داخل ہوتے ہی بھڑکتی آگ کا نشانہ بن گئے ۔
اس نے تیزی سے دیوار کا خلا بند کیا اور اندھیری سرنگ میں بھاگنا شروع کر دیا ۔
______________
وقت بہت کم تھا وه زیر زمین سرنگ میں بھاگے جا رہا تھا کافی لمبی مسافت کے بعد اس سرنگ کا اختتام ایک بڑے سے کالے پتھر پر ہوا اس نے رک کر اپنی سانس کو ہموار کیا اور پھر بریف کیس زمین پر رکھ کر اس پتھر کو سرنگ کے دروازہ سے ہٹانے لگا ۔اس عمر میں بھی وه کافی جاذب نظر اور سخت جان تھا بلکہ اس کہ ہم عمر کافی سارے ساتھی تو ابھی تک فیلڈ میں کام کر رہے تھے پتھر کے ہٹ جانے کے بعد اس نے بریف کیس اٹھایا اور اپنی جیب سے جدید ساخت کا ٹائم بم نکال کر بیس منٹ کا ٹائم سیٹ کیا اور اسے سرنگ میں لڑکھا دیا وه اپنا کوئی نشان چھوڑنا نہیں چاہتا تھا .پتھر کو واپس سوراخ پر رکھ کر وه اطمینان سے ناک کی سیدھ میں چل پڑا ۔
چند میل کے فاصلے پر کچی آبادی کے پاس ایک ویران جھگی تھی وه محتاط انداز میں چاروں طرف دیکھتا جھگی کے اندر داخل ہوا یہ اس کا اپنا بنایا ہوا سیف ہاؤس تھا اندر داخل ہوتے ہی اس نے پلنگ کے نیچے سے ایک بوسیدہ سا صندوق نکالا جس میں پٹھانی قمیض شلوار اور صافہ رکھا تھا اس نے اپنے کپڑے تبدیل کئے اور چہرے پر نقلی مونچھوں اور مسے کا اضافہ کیا ۔چند روز میں اسکا شیو گھنا ہو جانا تھا پر تب تک کے لئے اس نے جعلی مونچھوں کا سہارا لیا ۔
اب وه دیکھنے میں ایک خستہ حال پٹھان کا روپ دھارے ہوئے تھا ایک گہری سانس لیکر اس نے سارا سامان لپیٹا اور خود بڑے آرام سے اس جھلنگے پلنگ پر لیٹ گیا ۔اسے رات گہری ہونے کا انتظار تھا تاکہ وه وزیرستان سے نکل کر چمن بارڈر کی طرف جا سکے ۔
_______________
پورے کمرے میں چاروں طرف گلاب ہی گلاب تھے اور کمرے کے وسط میں سفید لباس میں ملبوس اپنے گھنے سنہری بالوں کو کھولے بڑی بڑی سبز آنکھیں جھپکتی اسکی محبوب بیوی ۔
“واو کیا بات ہے جاناں اتنے گلابوں کے ساتھ میرا استقبال خیریت تو ہے نا ”
“اتنی دیر سے آئے ہیں میں کب سے انتظار کر رہی تھی ” وہ ناز سے بولی
وه دھیرے سے مسکراتے ہوئے اس کے پاس آیا اور اسے دونوں بازوؤں سے تھام کر اپنے سامنے کیا پر اس نے اپنا چہرہ جھکا لیا ۔
“ناراض ہو جاناں ”
وه کچھ نہیں بولی تو اس نے دھیرے سے اس کے خوبصورت نازک سرخ و سفید چہرے کو اپنی انگلی سے اوپر اٹھایا اور اسکی سبز آنکھوں میں جھانکتے ہوئے دھیرے سے دلکشی سے گھمبیر لہجے میں بولا ۔۔
“It’s your birthday and you deserve some
“ME” time …
That’s right Meet “ME” for dinner date we
will do what ever you want and it’s on “ME”
وه اسکے دلکش انداز میں وش کرنے پر دھیرے سے مسکرائی پھر اس کے کشادہ وسیع سینے میں منہ چھپا کر آنکھیں موند گئی ۔
ابھی وه دونوں ایک دوسرے کی آغوش میں گم تھے تبھی کسی بچے کے رونے کی آواز آنی شروع ہو گئی وه تیزی سے الگ ہوئی ۔
“او گاڈ یہ اٹھ گئی چلیں آپ تیار ہوں پھر ڈنر کے لئے نکلنا ہے ۔”یہ کہہ کر وه الگ ہونا ہی چاہتی تھی کہ اس نے کلائی سے پکڑ کر اسے اپنی طرف کھیچا اور اس کے ماتھے پر اپنے پیار کی نشانی ثبت کرتے ہوئے چینج کرنے چلا گیا ۔
وه اپنی گود میں چند ماہ کی خوبصورت گول مٹول بچی کو بہلا رہی تھی جب وه لباس بدل کر باہر آیا اور تیزی سے لپک کر اس کے پاس آکر بچی کو اپنی گود میں لیا وه چھوٹی سی بچی اپنے باپ کی آغوش میں آتے ہی خاموش ہو گئی ۔
“مائی پرنس مائی ڈول “اس نے اپنی سبز آنکھوں والی گڑیا کو پیار کیا تبھی دروازہ ناک ہوا اور ایک کیوٹ سا بچہ اندر داخل ہوا اور سنجیدگی سے گویا ہوا ۔
“چاچو بےبی رو رہی تھی کیا ہوا ”
“Do you need my help”
چاچو کی جان بےبی ٹھیک ہے ایسا کرو تم بےبی کو لیکر احتیاط سے باہر جاؤ میں اور تمہاری چاچی ابھی آتے ہیں ۔”
“او کے چاچو “یہ کہہ کر اس نے بڑی احتیاط سے بچی کو تھاما اور باہر چلا گیا ۔
“مائے ڈیئر ہسبنڈ یہ آپکا ٹائیگر مجھے اپنی گڑیا کے لئے بہت اچھا لگتا ہے ۔”وه کھوئے کھوئے لہجے میں کہہ رہی تھی تبھی اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنی محبوبہ اپنی بیوی کو تھامنا چاہا تو وه ایک دم غائب ہو گئی ۔
اندھیرا سا چھا گیا وه تیزی سے اٹھ بیٹھا پوری جھگی میں اندھیرا چھایا ہوا تھا اور وه خود پسینے پسینے ہو رہا تھا ۔
اس نے اپنے ہاتھ پر بندھے ریڈیم کے گھڑی نما آلے کو دیکھا تو رات کے دو بج رہے تھے وه تیزی سے اس پلنگ سے اٹھا اپنا سامان سمیٹا اور جھگی میں اپنی موجودگی کے سارے نشان مٹائے ۔اسکا ارادہ چمن بارڈر کراس کر کے علاقہ غیر میں موجود اپنے قریبی ساتھی تک پہنچنے کا تھا اس نے اپنا والٹ نکالا اور اس میں موجود تصویر کو اپنے لبوں سے لگایا ۔
“سلویا میری جاناں تمہاری گڑیا ہماری زویا جلد ہی تمہارے ٹائیگر کے پاس ہوگی مس یو جان ”
پھر اس نے اپنی آنکھوں کی نمی صاف کی اور جھگی سے باہر نکل کر گھپ اندھیرے میں گم ہو گیا ۔
********************************
پہاڑیوں کا سلسلہ تھا دور دور تک ریت اڑتی نظر آرہی روس کی سرحد سے ایک جیپ چمن کے علاقہ میں داخل ہوئی اس جیپ میں دو افراد سیاہ رنگ کا مقامی لباس اور چہرے کو مفلر سے مکمل طور پر ڈھکے بیٹھے تھے جیپ کا رخ اندر آبادی کی طرف تھا پتلی تنگ گلیاں کچی پکی سڑکیں اور دونوں اطراف بنے مٹی کے کچے پکے گھر اور ہر گھر کی چھت پر توپ بندوقیں دور سے نظر آرہی تھیں ایک بوسیدہ سی جھگی کے پاس جیپ رکی اور دونوں سوار نیچے اترے جھگی کے پاس بچے بندوقوں سے کھیل رہے تھے جھگی کی کھڑی سے جدید مشین گن کی نالی نظر آرہی تھی کہنے کو تو یہ مملکت پاکستان کا علاقہ تھا مگر یہاں پر کوئی قانون اور حکومت نہیں تھی ۔
ابھی وہ دونوں دروازے پر پہنچے ہی تھے کہ ایک ادھیڑ عمر آدمی باہر نکلا اور بڑی گرم جوشی سے ان کی طرف بڑھا
ښه راغلاست۔۔۔۔۔(ویلکم )
اور ان دونوں کو لیکر اندر بڑھا
اندر سے وہ جھگی ایک محل سے کم نہیں تھی قیمتی دبیز قالین جدید ایل سی ڈی مانیٹرز دنیا کی ہر جدید شئے اندر موجود تھی وہ انہیں ایک پرتعیش کمرے میں لیکر آیا۔
” آپ لوگ اب آرام سے اپنا کام کرو کسی بھی چیز کا ضرورت ہو تو ہم باہر بیٹھا ہے ۔“
اس آدمی کے جانے کے بعد ان دونوں نے اپنی جیکٹ اور مفلر اتارے وہ دونوں ہی تقریباً اٹھائیس انتیس سال کے اچھی اٹھان لمبے قد کاٹھ والے جوان تھے ۔
کیپٹن ٹریکنگ ڈیوائس کو کمپیوٹر سے لنک کرو میں جب تک ہیڈ کوارٹر اطلاع کرتا ہوں وہ ٹرانسمیٹر پر فریکوئنسی سیٹ کرتے ہوئے بولا
” ایجنٹ ایکس ہئیر پاسورڈ پلیز ۔“ اوور
پاس ورڈ کے تبادلے کے بعد وہ بولنا شروع ہوا
”ایجنٹ دلاور رپورٹنگ۔ سر ہم ٹارگٹ پر پہنچ گئے ہیں
***********
صبح کا اجالا پھیل رہا تھا شبیر کئی دن اور راتوں کا کٹھن سفر کر کے وزیرستان سے نکل چکا تھا آس پاس کے سارے علاقوں میں را اور دوسرے ایجنٹ پھیلے ہوئے تھے اسے ہر قیمت پر چمن پہنچنا تھا تبھی اس کے کان سے لگا منی بلیو ٹوتھ کی شکل کا ٹرانسفارمر سگنل دینے لگا وہ جلدی سے ایک ٹیلے کی آڑ میں ہوا ۔
” شبیر مائی مین آرمی انٹیلیجنس کے دو آفیسر چمن پہنچ چکے ہیں تم بتاؤ آگے کیا کرنا ہے اوور “
”ایجنٹ ایکس اب تک کی اپ ڈیٹ رپورٹ “
”شبیر آپ کو مردہ قرار دے دیا گیا ہے لیبارٹری جل کر راکھ ہوچکی ہے آئی ایس آئی بھی آپ کو مردہ قرار دے چکی ہے ۔“
”بہت خوب اب آپ اپنے ایجنٹس کا مجھ سے رابطہ کروا دیں ۔“
چند ہی سیکنڈ گزرے ہونگے کہ ٹرانسفارمر سگنل دینے لگا ۔
”شبیر ہئیر اوور “
”سر ایجنٹ دلاور ایٹ یور سروس سر “ ایک پرجوش آواز آئی
” ایجنٹ دلاور حالات توقع سے زیادہ خراب ہیں میں ایک فریکیوئنسی بھیج رہا ہوں اس کو پاس ورڈ ڈال کر ایکٹیویٹ کریں اور مجھے رپورٹ کرتے رہیں اوور اینڈ آل “۔
یہ کہہ کر شبیر نے رابطہ منقطع کیا اور احتیاط سے چاروں جانب دیکھتا آگے بڑھ گیا ۔
ایجنٹ دلاور نے رابطہ منقطع ہونے کے بعد کیپٹن حمید کو دیکھا اور ساری بات بتا ہی رہا تھا کہ انہیں شبیر کی جانب سے ایک فریکیونسی ریسیو ہوئی وہ دونوں جلدی سے اسے ایکٹیویٹ کرنے میں لگ گئے تھوڑی ہی دیر میں کمپیوٹرز اسکرین پر منظر روشن ہوگیا
”واللہ یہ تو کیمرہ ٹریکر ہے ۔“ کمرے کا منظر تھا چھت اور چھت پر چمکتے شیشے صاف نظر آرہے تھے ۔
”دلاور یہ کیمرہ جس کسی نے بھی پہنا ہوا ہے وہ لیٹا ہوا یا تو بیہوش ہے یا سو رہا ہے تم اوپر چھت کے شیشوں کو فوکس کرو زوم کرو ۔“
کمپیوٹر شیشے کو فوکس کررہا تھا دیکھتے ہی دیکھتے ایک دلکش سرخ و سفید چہرہ اسکرین پر روشن ہوا آنکھیں بند تھیں اور سنہرے لمبے بال تکیہ پہ پھیلے ہوئے تھے گھنی سنہری پلکیں گلابی گالوں پر سایہ فگن تھیں قدرتی سرخ ہونٹ آپس میں جڑے ہوئے تھے ۔
”ماشأاﷲ یہ حور کون ہے ۔“ ایجنٹ دلاور بڑبڑایا
”ایجنٹ دلاور لوکیشن ٹریس ہوگئی ہے یہ قطر میں موجود قطری شہزادے کا محل ہے ۔“ کیپٹن حمید پرجوش آواز میں گویا ہوا ۔
دلاور نے فوراً شبیر کو رپورٹ دی ۔
”دلاور چارٹر پلین سے فوراً قطر نکلو قطری شہزاده پہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا وہاں پہنچ کر مجھے اطلاع دو۔
ایجنٹ دلاور اور کیپٹن حمید دونوں نے پروفیسر شبیر سے ہدایات ملنے کے بعد فوراً اپنا حلیہ بدل لیاتھا داڑھی مونچھیں صاف کرکے چہرے کا میک اوور اور آنکھوں میں نیلے لینسس لگا کر انگریزوں کا بھیس دھار چکے تھے اور اب قریبی افغانی پرائیوٹ ہوائی اڈے سے اپنے لیپ ٹاپ ٹریکنگ ڈیوائس اور ہتھیاروں کے ساتھ قطر کیلئیے روانہ ہو چکے تھے ۔
پروفیسر شبیر کو ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ زاور زویا کو لیکر قطر جیسی خطرناک جگہ پر ہے جہاں کے شہزادے کے تعلقات دھشت گرد تنظیموں سے تھے شبیر نے ایحنٹ دلاور اور کیپٹن حمید دونوں کو فوری طور پر قطر جانے کی ہدایت دی اور خود بھی تیزی سے چمن کی طرف روانہ ہوا جہاں اس کی انڈرگراؤنڈ خفیہ لیبارٹری موجود تھی ابھی وہ رستے میں ہی تھا اس بات سے انجان کہ وہ روس کی دنیا بھر میں مشہور سفاک ایحنسی ”کے جی بی “کی نظروں میں آچکا ہے ۔۔
******************
ایجنٹ دلاور اور کیپٹن حمید شہزاده فہد کریمی کے محل کے باہر نگرانی کررہے تھے چند گھنٹوں بعد وہاں ہسپتال کی گاڑی آکر رکی جس میں ڈرائیور کی پشت نظر آرہی تھی اور ساتھ ایک نرس تھی پھر نرس اندر چلی گی اور چاروں طرف محتاط انداز میں ادھر ادھر دیکھتا لمبا اچھی ڈیل ڈول والا آدمی باہر آیا اس نے اپنے کسرتی بازوؤں میں کسی لڑکی کو اٹھا رکھا تھا ایجنٹ دلاور نے اپنی دوربین کو اس آدمی پر فوکس کیا اور چونک گیا ۔
”او گاڈ میجر زوار یہاں یہ تو کوئی بہت ہی بڑا کھیل لگ رہا ہے ۔“
”ایجنٹ دلاور آپ میجر زوار کے بازؤوں میں لڑکی کو چیک کریں ۔“ کیپٹن حمید سنجیدگی سے بولا
دلاور نے فوراً دوربین لڑکی پر فوکس کی ۔۔
”او خدارا یہ تو وہی کیمرے والی حور ہے اتنی حسین اور دلکش پر یہ بیہوش کیوں ہے ۔“
دیکھتے ہی دیکھتے میجر زوار نے اس حسین لڑکی کو بڑی احتیاط سے گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی کے روانہ ہوتے ہی اندر چلا گیا ۔
”ایجنٹ دلاور کیا گاڑی کا پیچھا کرنا ہے ۔“ کیپٹن حمید نے پوچھا
” نہیں کیپٹن گاڑی بریگیڈیئر صاحب ڈرائیو کررہے ہیں ہمارا ٹارگٹ سیف ہے ہمیں یہاں رک کر میجر زوار کو کوور کرنا چاہئیے ۔“ وہ دوربین آنکھوں سے ہٹاتے ہوئے بولا
وہ دونوں دور اپنی گاڑی میں بیٹھے محل پر نگاہ رکھے ہوئے تھے جب بڑا گیٹ کھلا اور میجر زوار شہزادہ فہد کریمی ایک اور جوان جو دیکھنے سے ہی فوجی نظر آرہا تھا اور ایک اسمارٹ سی لڑکی شہد رنگ گھونگھریالے بال ویسی ہی آنکھیں بلا کی خوبصورت کے ساتھ باہر نکلا ۔
وہ سب آپس میں باتیں کررہے تھے شہزاده فہد کریمی بار بار اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا چند منٹ بعد میجر زوار اس نوجوان اور لڑکی کے ساتھ روانہ ہوگیا ۔
کیپٹن حمید ابھی گاڑی اسٹارٹ کرکے ان کا پیچھا شروع کرنے ہی والا تھا جب محل کے دوسرے دروازے سے چار بڑی بڑی صحرائی جیپیں نکلیں جن پر اسلحہ برادر افراد سوار تھے ۔
”کیپٹن ابھی رکو۔“ دلاور نے ہدایات دیں اور دوربین سے فوکس کرنے لگا اس کے چہرے پر کرختگی سی چھا رہی تھی ۔۔
”کیپٹن یہ دھشت گرد تنظیم کی ٹیم ہے میجر زوار اور ان کے ساتھیوں کی جان خطرے میں ہے ۔“
سب گاڑیوں کے روانہ ہونے کے بعد وہ دونوں احتیاط سے ان کے پیچھے روانہ ہوئے آگئے جاکر دیکھا تو دھشت گرد میجر زوار اور ان کے ساتھیوں کو گھیر چکے تھے مقابلہ شروع ہوچکا تھا اس جوان کو گولی لگتے دیکھ کر دلاور تیزی سے آگے بڑھا پر اتنے میں کیپٹن حمید ایک بارود سے بھری گاڑی پر قبضہ کرچکا تھا دلاور تیزی سے گاڑی کی طرف بڑھا وقت بہت کم تھا علینہ حجازی اور اسکا ساتھی میجر زوار پر راکٹ لانچر سے نشانہ باندھے ہوئے تھے دور سے ایک بارود سے بھری وین بھی اسی طرف آرہی تھی
”اللہ ہو اکبر “ ایجنٹ دلاور نے نعرہ لگایا اور بھاری لانچر اٹھا کر علینہ حجازی کا نشانہ لیکر فائر کردیا ۔۔
دھواں ہی دھواں چھاگیا تھا ریت کا طوفان تھا آگ کے شعلے لپک رہے تھے ۔دوسری بارود سے بھری وین الٹ چکی تھی کیپٹن حمید اور ایجنٹ دلاور دشمنوں کو چن چن کر ماررہے تھے میجر زوار انہیں دیکھ چکا تھا اور خود بھی جوانمردی سے لڑرہا تھا قطری فوج کے آنے سے پہلے انہیں یہاں سے نکل جانا تھا ۔
”میجر زوار ایجنٹ دلاور ایٹ یور سروس سر ۔“
زوار سر ہلاتے ہوئے دوڑ کر بلال کے پاس پہنچا جو شدید زخمی اور بیہوش تھا اسے اپنے کاندھے پر اٹھا کر گاڑی میں ڈالا پھر دوڑتا ہوا صوفیہ کی وین کی طرف گیا جو الٹ کر تباہ ہوچکی تھی وہی آگ میں بھڑکتی وین سے ذرا دور خون میں لت پت صوفیہ پڑی تھی اس کی سانس رک رک کر چل رہی تھی ۔
”ایجنٹ تم یہاں کس طرح آئے ہو ۔“
”میجر ہم پرائیوٹ جیٹ سے آئے ہیں جو ہمیں لیکر ہی واپس جائے گا ۔“
”ایجنٹ دلاور یہ آئی ایس آئی کی ایجنٹ ہے اسے کسی بھی طرح سے پاکستان سروس ہسپتال پہنچاؤ ۔“
”سر “ ایجنٹ دلاور نے سلیوٹ کیا اور بری طرح سے زخمی دم توڑتی صوفیہ کو اٹھا کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھا ۔
صوفیہ کو لیکر گاڑی روانہ ہوچکی تھی پیچھے بس دھول ہی دھول تھی ۔
*********************
بلال کو پاکستان آئے کئی مہینے ہو چکے تھے شروع کے چند ہفتے تو ملٹری سروس ہسپتال میں ایڈمٹ رہا پھر مکمل صحتیاب ہوتے ہی اس نے آرمی انٹلیجنس جوائن کرنے کے ٹیسٹ کی تیاری شروع کردی ٹارگٹ مشکل ضرور تھا پر نا ممکن نہیں ۔ساتھ ساتھ اپنے طور پر اس نے صوفیہ کے بارے میں پتا کرنے کی بہت کوشش کی پر اسکا کوئی نام و نشان نہیں تھا وه حادثہ وه دھماکہ اتنا شدید تھا کہ آس پاس موجود سب دشمنوں کی لاشوں کے پرخچے اڑ گئے تھے اور صوفیہ تو اس بارود بھری وین میں تھی اسکا کیا حشر ہوا ہوگا یہ سوچ ہی اس کے اندر انگارے بھڑکا دیتی تھی وه مرد مجاہد تھا پاک فوج کا جیالا جانباز سپاہی جو اپنی جان ہتھیلیوں پہ لئیے گھومتے ہیں۔
اب اسکی زندگی کا مقصد اپنے وطن اور تمام دنیا کے لئے خطرہ بنی دہشت گرد تنظیموں کا مقابلہ کرنا اور خاتمہ کرنا تھا ۔وه ہر کیس نڈر انداز میں موت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر حل کرتا چلا جا رہا تھا ۔ابھی بھی وه چترال سے کئی مجرموں کو ٹھکانے لگا کر واپس اسلام آباد رپورٹ کرنے کے لئے پہنچا تھا وه تیز قدموں سے چلتا اندر جا رہا تھا ڈپٹی ڈائریکٹر کے آفس کے دروازہ پر پہنچ کر اس نے دستک دی ۔
“جنٹلمین کم ان ”
وه بڑے با وقار انداز میں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ۔
“کپٹین بلال رپورٹنگ سر “وه سلیوٹ مارتے ہوئے گویا ہوا ۔
“At ease captain take a seat”
“بلال میز کے سامنے رکھے صوفے نما چیئر پر بیٹھ گیا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر صاحب نے ایک گہری نظر سنجیدہ بیٹھے خوبرو سے بلال پر ڈالی ۔
“کپٹین تم بہت تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے جا رہے ہو گزشتہ تین ماہ سے تم ایک کے بعد ایک کیس لئے جا رہے ہو اب ڈیپارٹمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں ایک ماہ کی چھٹی دی جاۓ ۔”
” بٹ سر “وه چونک کر سیدھا ہوا ۔
“مجھے چھٹی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اگر آپ اجازت دیں تو ایک چکر وزیرستان کا لگا آؤں ۔”
ڈائریکٹر صاحب نے ہاتھ اٹھا کر بلال کو مزید بولنے سے روکا ۔
“کپٹین بلال !تم آج سے ایک ماہ کی چھٹی پر ہو گھر جاؤ اپنے والدین سے ملو اور ایک ماہ کے بعد رپورٹ کرو
“مگر سر ”
“کیپٹن بلال اب آپ جا سکتے ہیں ”
وه کرسی دھکیلتا کھڑا ہوا اور مصافحہ کرتا باہر نکل گیا ۔اب اسکا رخ گھر کی جانب تھا جہاں اس کے ڈیڈ کرنل جہانگیر اور موم تھے ان سے ملے بھی اسے عرصہ ہو چکا تھا ۔
گھر پہنچتے ہی اس نے گیٹ پر ہارن دیا اور چوکیدار نے اسے پہچانتے ہی گیٹ کھول دیا وه گاڑی سے اترا تو چوکیدار پاس ہی کھڑا تھا ۔اس نے سنجیدگی سے اس کے سلام کا جواب دیا اور اندر چلا گیا ۔چوکیدار بھی اپنے ہنستے مسکراتے شرارتی سے بلال بابا کو اتنا سنجیدہ دیکھ کر افسردہ ہو گیا ۔
*****************************
شام کا دلکش منظر تھا لانگ اسکرٹ اور فل سلیوز شرٹ پہنے سر پر خوبصورتی سے اسکارف لئیے وہ ہاسٹل کے گارڈن میں ٹہل رہی تھی اس کے دلکش چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکان تھی تبھی اسکا سیل بجا اس نے ایک نظر چمکتے نمبرز کو دیکھا اور فون اٹھایا ۔۔
”چار بیلز کے بعد فون اٹھایا ہے مسز زی کدھر تھیں ۔“ زوار کی گھمبیر آواز سنائی دی
” آپ نے بھی تو چار دن بعد کال کی ہے ۔“وہ دھیمی آواز میں بولی
” سوری مسز زی آپکا مسٹر بہت بزی تھا اور سناؤ کتنا یاد کیا مجھے ۔“ وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا
”مجھے نہیں پتہ “ وہ دھیمے سے کہتی اپنے روم کی طرف بڑھ گئی
”اچھا چلو اپنا خیال رکھنا پھر کال کرونگا ۔“
”اتنی جلدی “وہ منمنائی
”اتنی جلدی کیا ۔“
”بس مجھے نہیں پتہ “ زویا نے اداسی سے کہا اور اندر کمرے میں داخل ہوئی ۔
ابھی اس نے اندر داخل ہوکر دروازہ بند کیا ہی تھا کہ دروازے کے پیچھے کھڑے زوار کو دیکھ کر اس کے حلق سے چیخ نکلی۔
زوار نے تیزی سے آگے بڑھ کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھا ۔۔۔
”دنیا بھر کی بیویاں مسکرا کر شوہر کا استقبال کرتی ہیں اور ایک میری بیوی ہے جو دیکھتے ہی چیخ مارتی ہے اچھا ہاتھ ہٹا رہا ہوں چیخنا مت “۔
وہ اس کی سبز چمکتی آنکھوں میں جھانک کر بولا ۔
زویا نے ایک گہری سانس لی
”میحر سر آپ بھی تو جب بھی ملتے ہیں مجھے ہر بار ڈرا دیتے ہیں “ ۔
زوار سنجیدگی سے اسے دیکھتا اس کے قریب آیا ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے حصار میں لیا اور دھیرے سے اسکا اسکارف اتار کر اس کے سنہرے آبشار جیسے بالوں کو آزاد کردیا وہ بری طرح گھبرا گئی اس کے جسم کا سارا خون جیسے اس کے خوبصورت چہرے پہ سمٹ آیا تھا ۔
زوار نے اپنی منکوحہ کے شرمائے گھبرائے روپ کو دیکھا اور اس کے کان کے پاس اپنے لب لیجا کر سرگوشی کی۔
”مسز زی آپ نے مجھے کیا کہہ کر پکارا “
”سوری میجر سر وہ پلیز آئی مین زوار ۔“ وہ دھیمے سے اس کا نام لیکر نظریں جھکا گئی ۔
زوار بڑی فرصت سے اسے دیکھتا رہا پھر وقت کا احساس ہوتے ہی زویا کی تابناک پیشانی کو چوم کر الگ ہوا ۔
”کئی دنوں سے مصروف تھا اسی لئیے تمہیں مل نہیں پایا مگر ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا میں کتنا ہی مصروف کیوں نہ ہو تمہارا خیال ہمیشہ ساتھ ہوتا ہے ۔“ اس نے ایک گہرا سانس لیا
”زویا اب چلتا ہوں میرا یہ مشن جلد ہی ختم ہونے والا ہے پھر اس کے بعد اطمینان سے ملینگے اور میں تمہیں ہاسٹل سے لیجاؤنگا۔“یہ کہہ کر وہ پلٹ کمرے کی اکلوتی کھڑکی کی جانب بڑھا اور زویا کو ہاتھ ہلاتا بڑے آرام سے کود گیا ۔
زوار آج کل ایک بہت بڑے ڈرگ ڈیلر کہ اسائنمنٹ میں مصروف تھا جو ڈرگ کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کی سپلائی کا کام بھی کرتا تھا اور ترکی کی بڑی سماجی شخصیات میں سے ایک تھا ۔زویا کو اس نے کالج میں فارن سٹوڈنٹ کی حیثیت سے داخلہ دلا دیا تھا اور گرلز ہوسٹل میں اسکی رہائش کا انتظام کیا تھا وه نہیں چاہتا تھا کہ مشن کے دوران زویا مجرموں کی نظر میں آئے ۔
************************
یہ ایک فائیو سٹار ہوٹل کا بڑا بال روم تھا استنبول کے وسط میں واقع اس ہوٹل میں کسی عام آدمی کا گزر بھی نہیں ہو سکتا تھا سیکورٹی ٹائٹ تھی اندر شہر کے بڑے بڑے امراء کی پارٹی جاری تھی اسی پارٹی میں ہتھیاروں کا سپلا ئیر زوار کا ٹارگٹ بھی شامل تھا ۔
زوار ہوٹل کی بلکل سامنے والی بلڈنگ میں موجود تھا وه تیزی سے کمرے میں اپنے آلات فکس کر رہا تھا جلد ہی وه ہوٹل کے سیکورٹی سسٹم کو ہیک کرنے میں کامیاب ہو گیا اور تیسری منزل پر واقع کیمرے فریز کر دئیے تمام کاموں سر نبٹ کر اس نے شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر کوٹ پہنا اور ٹائی درست کرتے ہوئے بلڈنگ سے باہر کی جانب نکلتا چلا گیا ۔
اب اسکا رخ ہوٹل کی جانب تھا بلیک ڈریس کوٹ میں بو ٹائی لگاۓ بالوں کو جیل سے سیٹ کئے وه بھی کارپوریٹ کلچر کا ایگزیکیوٹیو آدمی لگ رہا تھا ۔
اسی ہوٹل میں تیسری منزل پر امن کانفرنس ہو رہی تھی جس میں 8 ممالک سے اراکین شرکت کر رہے تھے زوار کے پاس بھی شرکت کا کارڈ تھا وه ہوٹل کے دروازہ پر موجود سیکورٹی چیک کرواکر اپنا کارڈ دکھاتا تیسری منزل کی جانب چلا گیا جہاں کے کیمرے وه پہلے ہی فریز کر چکا تھا ۔تیسری منزل پر داخل ہوتے ہی وه واش روم کی جانب چلا گیا ۔اسکے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا مگر پھر بھی وه بہت مطمئن تھا ۔تھوڑا ٹائم واش روم میں گزار کر حلیہ بدل کر جب وه راہداری میں آیا تو سارے شرکاء میٹنگ روم میں جا چکے تھے۔
وه تیزی سے ایگزٹ سیڑھیوں کی جانب بڑھا اور نیچے اتر کر بال روم میں داخل ہوا ۔اندر داخل ہو کر اس نے پاس سے گزرتے ویٹر کی ٹرے سے ایک ڈرنک کا گلاس اٹھایا اور ڈگمگاتے ہوئے انداز میں چلتا ہوا اپنے ٹارگٹ کی میز کی جانب بڑھا ۔
میز کے قریب پہنچ کر وه لڑکھڑایا اور تیزی سے کرسی پر جھک کر خود کو گرنے سے بچا کر معذرت کرتا وہاں سے ہٹ گیا مگر اس چند لمحے کی لڑکھڑاہٹ میں وه اپنی وہسکی کا گلاس جس میں وه اپنے ناخن میں چھپی سائنائیڈ کی چٹکی ملا چکا تھا اپنے ٹارگٹ کے گلاس سے بدل چکا تھا اور اسکا ٹارگٹ اس گلاس کو اٹھا چکا تھا۔
سائنائید ایک تیز اثر زہر ہے اسکا ٹارگٹ اب کچھ ہی دیر کا مہمان تھا وه چند لمحوں میں اس بال روم سے نکل کر ایگزٹ کی سیڑھیوں سے اوپر چڑھا واش روم جا کر کوٹ پینٹ پلٹ کر پہنا جعلی مونچھیں چہرے سے ہٹائیں آنکھوں سے لینس نکاے اور فلش میں بہا کر وه امن کانفرنس کے میٹنگ روم میں جا کر شرکاء میں بیٹھ گیا ۔
میٹنگ ختم ہونے کو تھی جب برطانیہ کے وفد میں شامل ایک آدمی نے بڑے غور سے زوار کو دیکھا جیسے اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو ۔پھر وه اپنے ساتھیوں سے کچھ کہتا اٹھا اور کانفرنس روم سے باہر نکل کر لابی میں کھڑے ہو کر فون ملانے لگا ۔
“ہیلو سر فورڈ میں جانتھن ”
“یس جانتھن میٹنگ کیسی جا رہی ہے ۔”
“سر میرے پاس ایک خاص اطلاع ہے میٹنگ روم میں پاکستانی شرکاء میں میجر زوار بھی موجود ہے ۔”
“وہاٹ “سر فورڈ اپنی چیئر سے کھڑے ہو گئے ۔
“جانتھن یہ آخری چانس ہے زویا تک پہنچنے کا زوار کا پیچھا کرو جتنی مدد چاہئے جتنی فورس چاہئے مجھے بتاؤ مگر زویا کا پتہ لگاؤ اگر یہ میجر استنبول میں ہے تو زویا بھی یہیں کہیں ہو گی ۔”
“سر فورڈ اگر آپ اجازت دیں تو اس میجر کو اٹھالیں ۔”
“نہیں وه ایک خطرناک آدمی ہے انتہائی چالاک اور عیار تم بس دور سے اس پر نظر رکھو اسے تمہاری موجودگی کی بھنک بھی نہیں پڑنی چاہئیے اور جیسے ہی وه زویا سے ملے ایڈریس نوٹ کر لینا اس دفعہ زویا کو لینے ہم خود آئینگے.