اتنی تیز گاڑی اس نے کبھی نہیں چلائی تھی جتنی آج چلا کر وہ پولیس اسٹیشن پہنچآ تھا۔۔۔ قانون کا رکھوالا آج سارے ٹریفک قوانین توڑ کر آیا تھا اس کہ ذہن کا انتشار خطرناک حد تک بڑھا ہوا تھا۔۔۔۔۔
“جیل کا لاک کھولو۔۔۔”
سب انسپیکٹر سے کہتا ہوا وہ حوالات کی جانب آیا ۔۔۔۔۔۔
انسپیکٹر سرعت سے چابیوں کا گچھا آٹھائے درراب کہ پیچھے آیا ۔۔۔
“جب تک میں نہ کہوں آندر آنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔”
درراب اندر داخل ہوا اور لکڑی کی خالی کرسی پہ جا بیٹھا۔۔۔۔۔
معراج نے نیم غنودگی میں آنے والے شخص کو دھندلائی نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
وردی سے اتنا تو جان گیا تھا کہ کوئی پولیس ہے لیکن درراب کا چہرہ واضح نہ ہوسکا تھا۔۔۔
تم تم مجھے چھوڑ دو میں میں تمھیں منہ مانگی رقم دوں گا ۔۔۔۔؟؟؟
درراب تو پہلے ہی تپا ہوا تھا معراج کی بات سن کر بپھرے ہوئے شیر کی مانند اس پر ٹوٹ پڑا ۔۔۔۔
“بچاو مجھے کوئی تو بچاو ۔۔۔”
معراج کی چیخیں اسٹیشن کہ پر سکون ماحول میں ارتعاش پیدا کررہی تھیں ۔۔۔
کچھ اہلکار جو کرسی پہ بیٹھے اونگھ رہے تھے چونکنا ہوکر بیٹھ گئے ۔۔۔۔۔۔
“جب بھی کوئی ملزم اس طرح چیختا تھا اس کا صاف مطلب شاہ کا حوالات میں ہونا تھا۔۔۔۔۔ ”
سر کب آئے تم نے بتایا کیوں نہیں؟
ان میں سے ایک نے گریبان کہ بٹن لگاتے ہوئے کہا :
“مجھے بھی ابھی پتا چلا ہے ۔۔۔”
“بچارہ اب رو رو کر کہے گا کہ مجھے پھانسی دے دو لیکن اس سے بچالو۔۔۔۔”
وہ دونوں آپس میں تبادلئہ خیال کرتے ہوئے معراج کی ہونے والی درگت کا نقشہ کھینچ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اگر آپ دونوں نے راز و نیاز کرلئے تو اپنی ڈیوٹی سنبھالیں یہ نہ ہو سر کا اگلا ہدف آپ دونوں ہوں۔۔۔ ”
دین محمد نے انھیں ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا ۔۔۔
“جی سر ،سوری سر ”
دونوں ایک زبان ہوکر کہنے لگے ۔۔ اور اپنے اپنے کیبین کی طرف چلے گئے۔۔۔۔۔۔
تیری جررت کیسے ہوئی میری بیوی کو چھونے کی ؟؟
“تجھے میں بتاوں گا کہ درراب شاہ کہ گھر نقب لگانے کا انجام کتنا ہیبت ناک ہوتا ہے ۔۔ ۔”
درراب کہتے ساتھ ہی اسے بالوں سے پکڑ کر اٹھایا اور الٹے پاوں کا گھٹنہ اس کہ پیٹ میں پوری قوت سے مارا ۔۔۔۔۔”
“مجھے معاف کرو درراب آئندہ کبھی منہ اٹھا کر نہیں دیکھوں گا تمہاری طرف ۔۔۔”
وہ درد سے دوہرا ہورہا تھا پیٹ پکڑے بڑی مشکل سے جملہ مکمل کیا تھا ۔۔۔۔۔
“انسپیکٹر تیزاب لے کر آو ۔۔”
درراب نے گردن موڑ کر باہر کھڑے حولدار سے کہا:
وہ حکم کی تعمیل کرتا ہوا پل بھر میں انکھ سے اوجھل ہوا تھا۔۔۔۔
اور سیکنڈوں میں تیزاب سے بھری بوتل لے آیا تھا۔۔۔۔
“یہ لیں سر ۔۔”
“اس کے ہاتھ پیر باندھو ہری اپ ۔۔۔۔”
اس نے بڑی مشکل سے گرے ہوئے معراج کو سیدھا کیا اور کرسی پہ بٹھایا ، پہلے دونوں پاوں کرسی کہ پایوں سے باندھے پھر دونوں ہاتھ کرسی کہ ہتھے سے باندھے۔۔۔۔۔۔۔
“ہٹو پیچھے۔۔۔”
درراب کہ کہنے پر وہ دیوار سے جالگا۔۔۔۔۔۔۔
“میں تمہارے پاوں پڑتا ہوں معاف کردو مجھے ، مجھ سے بہت بڑی بھول ہوچکی ہے درراب خدا کا واسطہ معاا۔۔۔۔”
اس سے پہلے معراج اپنی بات مکمل کرتا درراب نے زور دار تھپڑ اس کہ منہ پہ رسید کیا۔۔۔۔۔
درراب نے بوتل کا منہ کھول کر معراج کہ ہاتھوں پر تیزاب کی بوتل الٹ دی ۔۔۔۔۔
معراج کہ حلق سے فلک شگاف چیخ برآمد ہوئی جس سے جیل کہ در و دیوار لرز اٹھے ۔۔۔۔
بجتے ہوئے موبائل کی ٹون بھی اس کی چیخوں کہ اگے دب چکی تھی ۔ ۔۔۔
“کیا بگاڑا تھا میری بہن نے تیرا ۔۔ وہ تو معصوم سا دل رکھنے والی تھی ۔۔۔۔ مجھے اپنے آپ سے زیادہ جاننتی تھی میرے دکھ کو سمیٹنے والی ۔۔۔ تو اس کی دھول کہ برابر بھی نہیں ہے اپنے آوارہ بد چلن عیار دوستوں کہ سامنے میری بہن کا ذکر کرتے ہوئے کیوں بھول گیا کہ وہ اس کی بہن ہے جو اگے جاکر تیرے باپ کا بھی باپ ثابت ہوگا۔۔۔۔”
“میں تیرا وہ حال کروں گا کہ دنیا کا ہر مرد تجھے دیکھ کر کسی کہ گھر کی عزت کے بارے میں کبھی غلط بات کرنے سے پہلے لاکھوں کڑوڑوں بار سوچے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
وہ ایک بار پھر اس پر چڑھ دوڑا ۔۔۔۔
معراج مار کھا کر بے ہوش ہوچکا تھا ۔۔۔۔ ۔۔
درراب اسے الٹے منہ پڑے چھوڑ کر باہر نکل آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
حولدار نے درراب کا موبائل اور گھڑی واپس کی ۔۔۔۔
درراب کے ہاتھ سرخ ہوچکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑا تھوڑا درد بھی محسوس ہورہا تھا
موبائل کی اسکرین روشن کی تو صعود کی کال لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔
کہاں ہو تم؟
“پولیس اسٹیشن ۔۔۔”
“ہسپتال پہنچو راحب نے عنایہ کی ڈسچارج سلپ بنوالی ہے وہ لوگ عنایہ کو اپنے ساتھ لے جارہے ہیں ۔۔۔ اگر عنایہ کا ساتھ چاہتے ہو تو روک لو اسے اگر وہ حویلی پہنچی تو پھر تم اسے کبھی نہیں دیکھ سکو گے ۔۔۔”
صعود نے کہہ کر کال ڈسکنیکٹ کردی۔۔۔
“یہ کیا نئی مصیبت آگئی ہے ۔۔۔ ”
جی سر آپ نے کچھ کہا ؟
ساتھ کھڑے انسپیکٹر نے درراب کی بڑبڑاہٹ پر پوچھا :
نہیں۔۔۔ فرروخ داد کو لے کر پہنچا؟
“یس سر وہ صبح سویرے ہی پہنچ گئے تھے ۔۔۔”
“اس وقت کہاں ہے وہ ۔۔۔۔؟
“سر وہ کوٹ کہ وارنٹ تیار کروا رہے ہیں ۔۔”
“ٹھیک ہے اس بے غیرت اور ان دونوں کی بھی وارنٹ کا لیٹر بناو مجھے ہر حال میں ان کی دو دن بعد کیس کی ہیرنگ چاہیئے۔۔ ۔۔”
“جی بہتر سر ہوجائے گا۔۔۔”
“دو دن صرف دو دن”
“یس سر ۔۔۔”
پانچ منٹ کی ڈرائیونگ کہ بعد وہ ہسپتال پہنچا تو عنایہ چادر اوڑھے جانے کیلئے تیار بیٹھی تھی جب کہ ایک کونے میں صعود اور مہتاب بیگم بیٹھی ہوئیں تھیں ۔۔۔۔
آپ لوگ کس کی اجازت سے میری بیوی کو لے جارہے ہیں؟
درراب کی بھاری آواز پر راحب نے اس کی جانب دیکھا ۔۔۔۔
“دیکھو درراب ہم نے دیکھ لیا تم نے عنایہ کا کیا حال کیا ہے ۔۔ وہ مینٹلی طور پر بہت ڈسٹرب ہے ۔۔ اسے کچھ وقت دو ہوسکتا ہے وہ واپس آجائے ۔۔۔”
راحب نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت دہیمہ لہجہ میں کہا :
“عنایہ میری بیوی ہے اور میں جس طرح اس کی دیکھ بھال کرسکتا ہوں کوئی اور نہیں کرسکتا اس لئے بہتر یہ ہی ہے کہ یہ واپس میرے ساتھ ہی جائے گی۔۔۔۔”
درراب کی بات پر نجمہ بیگم اگے آئیں اور اس کہ سامنے ہاتھ جوڑ دیئے ۔۔۔
“میں ایک ماں ہونے کہ ناطے تم سے ہاتھ جوڑ کر تمہاری بہن کے ہونے والے قتل کی معافی مانگتی ہوں میری بیٹی نے ایک ناکردہ گناہ کی بہت بھاری قیمت آٹھائی ہے خدا کا واسطہ اسے میرے ساتھ جانے دو ۔۔۔”
نجمہ بیگم بڑی شدت سے رودیں۔۔۔۔
“جائیں نجمہ آپ لے جائیں عنایہ کو لیکن اس وقت تک جب تک یہ مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوجاتی اس کہ بعد میں خود اپنی بیٹی کو لینے اجاوں گی ۔۔۔ اور آپ اس طرح سے ہاتھ جوڑ کر مجھے میری ہی نظروں میں نہ گرائیں عنایہ کو میں نے اپنی بیٹی ہی سمجھا ہے لیکن میں مجبور ہوں کہ حالات و واقعات ہمارے خلاف ہوگئے اور انھیں اپنے حق میں بہتر نہ کرسکے ۔۔۔۔۔۔۔۔”
درراب نے ضبط کی شدت سے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ لیں تھیں ۔۔۔۔
وہ روم کی جانب بڑھ گیا جہاں نرس عنایہ کی ڈرپ وغیرہ نکال رہی تھی ۔۔۔۔
نرس مجھے اپنی وائف سے بات کرنی ہے ؟
“شیور سر۔۔۔”
نرس موجودہ حالات سے بے خبر معنی خیزی سے دیکھتی ہوئی بولی ۔۔۔۔۔۔
درراب نرس کہ جانے کہ بعد عنایہ کی جانب آیا ۔۔۔ اور ایک گھٹنہ ٹیک کر فرش پہ بیٹھا ۔۔۔۔
جبکہ عنایہ بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسی ہو ؟؟؟
شاہ نے عنایہ کی زخمی انکھوں میں دیکھا۔۔۔
کیسی لگ رہی ہوں ؟
سوال کے جواب میں سوال کیا گیا۔۔۔۔
“میں جانتا ہوں کہ تم کس کرب سے گزر رہی ہو میں ماضی میں جاکر اسے صحیح تو نہیں کرسکتا لیکن حال میں اس کا مداوا تو کر ہی سکتا ہوں نہ ۔۔۔۔”
آپ اور مداوا ؟؟
حیرت کی بات ہے !!
“میں نے آپ سے کسی خیر کی امید رکھنا چھوڑ دی مسٹر درراب ۔۔۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو معاف کردوں تو مجھے ڈوورس پیپر بھجوا دینا ۔۔۔ یہ احسان میں کبھی نہیں بھولوں گی۔ ۔۔”
عنایہ سرد مہری اور اجنبیت سے کہتی ہوئی دھیرے دھیرے کمرہ سے نکل گئی۔۔۔۔ جبکہ درراب جہاں تھا وہیں ساکت رہ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ تو تھا جو اس کہ اندر ٹوٹا تھا کیا تھا وہ مان ، تھا یا اعتبار ؟؟؟
وہ تو چلو بے حس ، خودغرض ، انا پرست ہی سہی لیکن عنایہ سے وہ اس بات کی امید نہیں کرسکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ یہ بھول رہا تھا کہ دنیا مکافات عمل ہے جو اس نے عنایہ کو دیا تھا آج عنایہ اسے وہ ہی لوٹا کر چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
____________________________
عنایہ راحب کہ ساتھ اسلام آباد چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ درراب کا شہر چھوڑ کر ۔۔۔۔۔
کل کیس کی سماعت تھی اور آج درراب کو حویلی بلوایا گیا تھا ۔۔۔ کیوں ؟ یہ تو وہ بھی نہیں جانتا تھا۔۔۔۔۔۔
مہمان خانے میں دونوں حویلیوں کہ مرد حضرات جمع تھے سوائے راحب کو چھوڑ کر ۔۔۔۔۔۔
تم کس منہ سے اپنے قاتل بھتیجے کو معاف کرواسکتے ہو ؟؟
یہ سکندر حیات تھے جو شکست خوردہ سے تھے لیکن آواز کی سختی میں رتی بھر بھی فرق نہ آیا تھا ۔۔۔۔
درراب اور صعود خاموشی سے اپنے باپ کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔
“سکندر تم تو جانتے ہو بن ماں باپ کا بچہ ہے غلط صحبت میں پڑگیا تھا ورنہ میں نے اس کی تربیت اس طرح نہیں کی تھی ۔۔۔۔”
تمہاری تربیت تو دیکھ لی میں نے شمس تمہاری پشت پناہی پر اسکا آوارہ اور بدمعاش لڑکوں سے یارانہ تھا۔۔۔
“اگر تم اس کی چھوٹی چھوٹی غلط باتوں پر روکتے ٹوکتے تو آج وہ قاتل تو نہ بنتا ۔۔۔۔۔۔”
“میں مانتا ہوں میں نے اس کی بے جا حمایت کرکے اسے بگاڑا ہے وہ سدھر جائے گا تم اپنے بیٹے سے کہو کہ وہ اسے رہا کردے۔۔۔۔”
شمس نے سکندر کہ آگے ہاتھ جوڑے ۔۔۔۔
جبکہ ضعیم آحمد خاموشی سے اپنے کروفر
بھائی کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
“کس بات کی معافی مانگ رہے ہو شمس تم نے میرے پیٹھ پیچھے چھرا گھونپا ہے اپنے بھانجے کا جرم تم نے اپنے بھتیجہ پر ڈال دیا ۔۔۔”
گاوں کے مکھیا ہوکر تم نے ہمارے ساتھ نہیں بلکہ پورے گاوں کہ ساتھ ناانصافی کی ہے آخر کیوں ؟؟
ضعیم آحمد نے بے یقینی سے اپنے بھائی کو دیکھا:
بھائی جان کیا یہ بات سچ ہے ؟
لرزتی آواز میں ضعیم نے شمس الدین سے پوچھا:
“یہ کیا کہے گا ضعیم معراج نے خود درراب کہ سامنے اعتراف جرم کیا ہے ۔۔۔”
“کیوں بھائی میرے بیٹے نے آپ کا کیا بگاڑا تھا میری اولاد نے آپ کا کیا بگاڑا تھا بولیں میں نے آپ کو اپنا باپ مانا تھا اور آپ ، آپ نے بھائی ہونے کا مان بھی نہ رکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔”
“نہیں ہوں میں تمہارا بھائی ، تم جب سے پیدا ہوئے سب کو اپنی جانب کرلیا ۔۔۔ بچپن گزرا تو جوانی میں بھی تم نے ہر وہ چیز مجھ سے چھینی جو مجھے پسند ہوتی تم نے مونا کو بھی مجھ سے چھین لیا ۔۔۔ اماں جان کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں پھنسا کر انھیں اپنی جانب راغب کرلیا ۔۔۔۔۔۔۔”
آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں ؟؟؟
ضعیم نے ڈوبتے دل کو سنبھالتے ہوئے کہا :
“جب تم حویلی سے گئے تو مجھے سکون ہوا تھا کہ تم سے جان چھٹی لیکن تم پھر واپس آگئے ۔۔۔۔ میری خوشیوں پر قابض ہوگئے ۔۔۔۔
زندگی کہ ہر قدم پر تم میرے سامنے پہاڑ کی مانند رہے میں سب میں بڑا تھا لیکن ابا جان اور اماں جان نے تمھیں مجھ سے زیادہ فوقیت دی ۔۔۔۔۔۔ کیوں آخر کیوں ۔۔۔”
“معراج نے جب سکندر کی بیٹی کو مارا تو میں نے بھی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا اور معراج کا الزام تمہارے بیٹے پر ڈال دیا ۔۔۔۔۔۔ ”
اماں جان کے رسم و رواج کہ مطابق تمہاری بیٹی کو ونی کردیا گیا ۔۔۔۔ یہاں مجھے لگا کہ میں جیت گیا اور تمھیں شکست ہوئی ۔۔۔۔”
“میں نے آپ کیلئے اپنی بیوی اور اولاد سے دوری اختیار کی اور آپ نے میرے خلاف ایک محاذ بنا لیا ۔۔۔۔۔۔”
شمس الدین نے ضعیم کی طرف سے رخ پھیر لیا تھا۔۔۔۔۔
چلیں بابا جان ؟؟
درراب اور صعود ایک ساتھ کھڑے ہوئے ۔۔۔
سکندر حیات نے دونوں بیٹوں کو دیکھا اور ایک نظر وہاں بیٹھے تمام لوگوں پر ڈالی اور درمیانے قدم اٹھاتے ہوئے مردان خانے سے نکل آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_________________________
تمام ثبوتوں اور گواہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ چاروں ملزمان کو پھانسی کی سزا سناتی ہے اور شمس الدین کو ایک ملزم کی پشت پناہی کی سزا کہ طور پر چھ سال کی سزا سناتی ہے ۔۔۔۔”
“ہینگ ٹو بی ٹل ڈیٹھ”
معراج کے ساتھ شمس الدین کو بھی سزا دی گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
___________________________ سعیدہ بیگم کی پہلی شادی ناظم بٹ سے ہوئی تھی ۔۔۔۔ سعیدہ بیگم ناظم کی محبت میں اس قدر اندھی ہو گئیں تھی کہ انھیں ان کی اولاد مونا سے بھی کوئی اختلاف نہ تھا۔۔۔۔۔
مونا ناظم کی پہلی بیوی سے تھی مونا کی پیدائش کہ دن ہی ناظم کی بیوی انتقال کرگئی تھی ۔۔۔۔۔
سعیدہ بیگم تین بھائیوں کی اکلوتی اولاد تھیں کسی رشتہ دار کہ یہاں ان کی پہلی ملاقات ناظم سے ہوئی ۔۔۔ اور وہ اپنا دل ہار بیٹھیں ۔۔ ۔۔۔
گھر والوں نے بہت سمجھایا کہ وہ ایک بیٹی کا باپ ہے لیکن سعیدہ کہ سر پر محبت کا بھوت سوار تھا ۔۔۔۔ اور یہ بھوت تب اترا جب ناظم نے سعیدہ کو صاف لفظوں میں کہا کہ وہ مونا کی اچھی اور بہترین تربیت چاہتے ہیں ۔۔۔۔
ناظم کہ ساتھ سعیدہ بیگم دو سال تک ساتھ رہیں ۔۔۔۔
ایک کار حادثہ میں ناظم کی موت واقع ہوگئی ۔۔۔۔۔ مونا کا اگے پیچھے کوئی نہ تھا سوائے سعیدہ بیگم کے اسی لئے وہ سعیدہ کے ساتھ ان کہ میکہ چلی آئیں ۔۔۔۔۔
اس بار بھائیوں نے سعیدہ بیگم کی مرضی نہ چلنے دی اور عدت کہ فوراً بعد ہی سعیدہ کی دوسری شادی معظم صاحب سے کردی ۔۔۔ معظم صاحب گاوں کے کرتا دھرتا تھے ۔۔۔۔۔ یہ سعیدہ بیگم کی بد قسمتی تھی کہ معظم پانچ سال بعد ہی خالق حقیقی سے جاملے۔۔۔۔۔
سعیدہ بیگم اس سب کا ذمہ دار مونا کو ٹہرانے لگیں ۔۔۔۔۔ کئی دفعہ تو حویلی سے بھی نکال دیا تھا۔۔ معظم سے سعیدہ بیگم کے دو بیٹے ہوئے تھے ۔۔۔۔ بڑا بیٹا شمس الدین اور دوسرے نمبر کا ضعیم آحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے جیسے وقت گزرتا رہا مونا کہ اندر سعیدہ بیگم کی طرف سے نفرتیں جڑ پکڑنے لگیں۔۔۔۔۔
ہاں ایک شمس الدین تھا جو مونا کا حمایتی تھا۔۔۔۔۔۔
جوانی کی دہلیز پر پہنچے تو شمس الدین نے مونا سے شادی کرنے کا شوشہ چھوڑ دیا۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات سعیدہ بیگم کو ناگوار گزری اور صاف لفطوں میں منع کردیا ۔۔۔ لیکن شمس اپنی بات سے پیچھے نہ ہٹا ایسے میں سعیدہ بیگم نے مونا کی جلد شادی کرنے کا فیصلہ کردیا ۔۔۔۔۔۔
مونا ضعیم کو پسند کرتی تھی اور یہ شمس پہلے سے جانتا تھا لیکن ضعیم پڑھنے کی غرض سے شہر چلا گیا شمس کو حالات اپنے تابع لگے ۔۔۔۔ لیکن سعیدہ بیگم نے آناً فاناً مونا کا نکاح نظیر اکرام اپنے کسی دور پرے رشتہ دار کہ یہاں کردیا وہ عمر میں مونا سے دوگنا بڑا تھا اوپر سے شادی بھی ہوچکی تھی ۔۔۔۔ پہلی بیوی نے اس سے علحیدگی اختیار کرلی تھی ۔۔۔۔۔
نظیر اکرام سے مونا کی پہلی اولاد بیٹی ہوئی جس کا نام رومیسہ رکھا ۔۔۔
نظیر اکرام چونکہ سندھ کہ رہنے والے تھے ۔۔۔۔۔ اس لئے ان کا گٹھ جوڑ زیادہ تر سندھی وڈیروں میں ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
رومیسہ کہ دو سال بعد مونا کہ یہاں ایک اور بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام فوزیہ رکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
مونا نے سعیدہ بیگم کہ گھر آنا جانا کم کردیا تھا ۔۔۔ اور سعیدہ بیگم نے مونا پر ظلم کہ پہاڑ توڑ دیئے تھے ۔۔۔۔
خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ نظیر اکرام رومیسہ کو اسکول چھوڑنے جارہے تھے کہ سامنے سے آتے ٹرالر سے ٹکرا گئے اور موقع پر دونوں دم توڑ کر گئے ۔۔۔۔ قسمت مونا کو پھر سے سعیدہ بیگم کے در پر لے آئی۔۔۔۔۔۔۔۔
شمس الدین کی چونکہ شادی ہوچکی تھی اسی لئے وہ جوانی کا جذباتی پن سمجھ کر بھلا چکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضعیم آحمد انہی دنوں حویلی آئے ہوئے تھے ۔۔۔ وقت نے مونا کو پہلے سے زیادہ حیسن بنا دیا تھا ۔۔۔ضعیم نے اتنے سالوں بعد مونا کو دیکھا تو سعیدہ بیگم کہ سامنے سوالی بن کر کھڑے ہوگئے۔۔۔ سعیدہ بیگم تو پہلے ہی مونا کی آمد سے خار کھائے بیٹھی تھیں ۔۔۔ ضعیم کہ یوں منہ سامنے آجانے پر سیخپا ہوگئیں ۔۔۔۔۔۔۔
انھی دنوں کھیتوں میں ایک معمولی سے جھگڑے پر شمس الدین کے ہاتھوں ایک نوجوان کا قتل ہوگیا ۔۔۔۔
وہ نوجوان ایک غریب سا کسان تھا جو کھیتوں کی دیکھ بھال کرتا تھا ۔۔۔۔۔
خون بہا میں اس کسان کے بھائی شمس کو سزا دینے کہ در پر ہوگئے ۔۔۔۔۔ سعیدہ اماں نے ایک تیر سے دوشکار کرتے ہوئے کسان کہ بھائی کے ساتھ مونا کو ونی کرنے کا فیصلہ کردیا ۔۔۔۔ ۔۔۔
یہ بات مونا تک پہنچی تو اپنی بیٹی فوزیہ کو اٹھائے حویلی سے بھاگ گئی ۔۔۔۔ سعیدہ بیگم کو پتا چلا تو انہوں نے اس کہ بھاگنے کو موت کی خبر میں بدل دیا ۔۔۔۔ اور کسان کہ گھر والے چونکہ نچلے طبقے اور کم حیثیت کہ تھے ان کو پانچ لاکھ دے کر گاوں سے نکلوادیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضعیم احمد کو مونا اور اس کی بیٹی کی موت کا پتا چلا تو دکھی دل سے حویلی چھوڑ آیا تھا ۔۔۔۔۔۔
مونا کو نظیر اکرام کہ ایک دوست نے دیکھا تو اسے اپنے گھر لے آیا ۔۔۔۔۔۔ بعد میں نظیر اکرام کی پینشن کا انتطام بھی اسی دوست نے کیا تھا۔۔۔۔۔۔ ۔۔
مونا کچھ عرصہ وہاں رہی پھر شہر چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں اس کا تعلق سعیدہ بیگم سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا ۔۔۔۔۔
___________________________
عنایہ کو راحب کے ساتھ آئے ہوئے ایک ماہ ہونے کو آیا تھا۔۔۔۔۔۔ راحب اور نجمہ کی دیکھ بھال نے اس کی طبیعت میں کافی سدھار پیدا کردیا تھا ۔۔۔۔ اس بیچ اس کی دونوں بہنیں بھی رہنے آگئیں تھیں تو عنایہ بھی بہل گئی تھی ۔۔۔ بظاہر تو وہ ٹھیک ہوگئی تھی لیکن دل کے زخم ٹھیک نہ ہوسکے تھے ۔۔۔۔ اور وہ ہو بھی نہیں سکتے تھے کیوں کہ ان زخموں پر مرحم جو نہ رکھا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درراب نے ایک بار بھی اس سے رابطہ نہیں کیا تھا ۔۔۔۔
حویلی سے سکندر صاحب اور مہتاب بیگم آئیں ہوئیں تھیں ۔۔۔۔ نجمہ اور ضعیم سے معافی مانگی اور عنایہ کو اپنے ساتھ لے جانے کی ضد کرنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔
اس معاملے میں ضعیم صاحب نے ان کا ساتھ دیا اور عنایہ کو ان کے ساتھ بھیج دیا ۔۔۔۔۔
مہتاب بیگم نے نجمہ کو یقین دلایا تھا کہ وہ ان کی بیٹی کا بہت خیال رکھیں گی ۔۔۔۔۔۔۔ نجمہ راضی تو ہوگئیں تھیں لیکن مطمئن نہ ہوسکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنایہ کے کہنے پر ہی درراب کو کسی نے بھی اطلاع نہیں دی تھی ۔۔۔۔
یوں درراب کہ برابر والا کمرہ عنایہ کہ زیر استعمال تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی دل کہ ہاتھوں مجبور ہوکر وہ اس کہ کمرہ میں چلی جایا کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
____________________________
“راحب اب جب کہ عنایہ بھی اپنے گھر کی ہوگئی ہے ہم چاہتے ہیں کہ تمہارا گھر بھی بس جائے ۔۔۔۔۔”
ضعیم احمد کو چائے کا کپ پکڑاتے ہوئے نجمہ نے بیٹے سے کہا :
امی پھر وہ ہی بات ؟؟؟
“ہاں اور اس بار تمہاری ایک نہیں چلے گی میں اور تمہارے ابو آج مونا کی طرف جارہے ہیں ۔۔۔ ”
فوزیہ کو میں اپنی بہو بنابا چاہتی ہوں اور میرا نہیں خیال کہ وہ تمہیں ناپسند ہوگی ۔۔۔۔؟
“امی بات پسند ناپسند کی نہیں ہے بات یہ ہے کہ میں ابھی شادی کیلئے تیار نہیں ہوں ۔۔۔”
“یہ سب باتیں مجھے نہیں آتیں سمجھ ۔۔ تم اپنا ذہن بنالو آج میں جاکر رشتہ پکا کردوں گی ۔۔۔۔۔۔۔”
“ہمممم ٹھیک ہے پھر آپ کو جو صحیح لگے وہ کریں ۔۔۔۔۔”
راحب اپنے کمرہ میں چلا آیا ۔۔۔
____________________________
وہ کافی کا مگ پکڑے درراب کہ روم میں بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
تبھی ناب کہ گھمانے کی آواز پر گردن موڑ کر دیکھا۔۔۔۔۔۔
پورے دو مہینہ بعد وہ اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ پہلے سے زیادہ ہینڈ سم اور چارمنگ ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔ البتہ انکھوں کہ نیچے ہلقے اور گہرے ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔
درراب کو قطعی عنایہ کے یہاں موجود ہونے کی امید نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔
وہ دروازہ بند کرتا ہوا قدم قدم چلتا اس کی جانب آیا ۔۔۔۔۔
تم یہاں کب اور کیسے ؟؟
وہ حیرانی سے گویا ہوا
“پچھلے ایک ماہ سے ۔۔۔”
وہ نظریں ملائے بغیر جواب دے کر اس کی سائیڈ سے گزرنے لگی۔۔۔۔۔۔
جب تم مجھ سے ہی تعلق نہیں رکھنا چاہتی تو میرے گھر میں کس حیثیت سے رہ رہی ہو ۔؟؟؟
درراب کی بات پر اس کہ ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ آگئی ۔۔۔۔۔۔۔
“یہ سوال جاکر اپنے والدین سے پوچھیں نہ ہی میں اپنی مرضی سے آئی ہوں اور نہ ہی شوق سے ۔۔۔۔”
درراب نے اسکا بازو پکڑ کر عین سامنے کیا :
یہ ہی بات تم میری انکھوں میں دیکھ کر کہو جان شاہ ؟
“اب یہ سب باتیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں کیوں کہ وقت بدل گیا ہے ۔۔۔۔”
عنایہ نے اس کی جانب دیکھنے سے گرہیز ہی برتا۔۔ ۔۔۔۔
“وقت بدل سکتا ہے حالات بدل سکتے ہیں لیکن تم بھی وہ ہی ہو اور میں بھی وہ ہی ہوں عنایہ درراب شاہ ۔۔۔”
“اس خوش فہمی کو جتنی جلدی ہو ختم کرلیں تو آپ کیلئے بہتر ہے ۔۔۔۔”
“خوش فہمی نہیں ہے یقین ہے آپنی محبت پر ، تمہاری محبت پر ۔۔۔۔”
عنایہ نے زخمی نظروں سے درراب کو دیکھا اور جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا۔۔۔۔۔
“محبت!!!!! بہت جلدی یقین آگیا آپ کو ۔۔۔۔”
“ہاں میں مانتا ہوں میں نے تمہاری محبت کو جانتے بوجھتے جٹھلایا ہے لیکن میں جس کرب سے گزرہا تھا تم وہ سوچ بھی نہیں سکتی ہو میری بہن ہستی کھیلتی ایک لمحہ میں منوں مٹی تلے جا سوئی ۔۔۔ اور میں کیسے خوشیاں بنا سکتا تھا ۔۔۔۔”
“میں کہتی رہی چیختی رہی آپ نے ایک بار بھی مجھے سننے کی کوشش نہیں کی ۔۔۔ پل پل مجھے اس عزیت کی بھٹی میں جلایا جس میں آپ جلتے رہے میں سب کچھ بھول کر ایک نئی زندگی شروع کرنا چاہتی تھی اور آپ نے کیا کیا میرے ساتھ؟ مجھے ہی توڑ دیا جینے کی امنگیں ختم کردیں ۔۔۔۔”
آنسو قطرہ قطرہ گالوں پہ لڑھک رہے تھے ۔۔۔
درراب نے ہاتھ بڑھا کر انھیں۔ انگلی پہ چن لئے۔۔۔۔
“میں کروں گا نہ ہر اس دکھ کا مداوا جو میری ذات سے تمھیں ملا ہے ۔۔۔۔۔”
“ہم مل کر ایک نئی زندگی کی شروعات کریں گے ۔۔۔۔۔”
“مجھے نہیں کرنی اور نہ ہی اب آپ کہ ساتھ جینے کی امنگ باقی رہی ہے آپ جہاں تھے وہاں چلے جائیں ورنہ میں یہاں سے چلی جاوں گی ۔۔۔۔۔”
“میں جاوں گا لیکن تمہارے ساتھ ۔۔۔ میرے بہت سے حسین پل ضائع ہوگئے جو میں تمہارے ساتھ جینا چاہتا تھا لیکن اب میں ایک منٹ بھی ضائع نہیں کروں گا ۔۔۔۔ ”
“تمھیں ناراض رہنا ہے رہو لیکن میرے ساتھ رہو میں محض دو دن کیلئے آیا ہوں چاہو تو گھر مل کر آجاو ۔۔۔ اس کے بعد تمھیں میرے ساتھ جانا ہے عنایہ میں نے تمھارے گھر والوں کی مان کر تمھیں گھر جانے دیا تھا لیکن اب نہیں یہ دو ماہ
مجھ پر قیامت کی طرح گزرے ہیں میرا ارادہ اسلام آباد جانے کا تھا ۔۔۔ صرف تمھیں اپنے ساتھ لے جانے کیلئے ۔۔۔۔
” شومئی قسمت تم مجھے یہاں مل گئیں اب تیاری پکر لو ۔۔۔۔۔۔”
درراب نے اس کہ ماتھے پر محبت کی مہر ثبت کی اور واش روم میں چلا گیا جبکہ وہ حیران پریشان اسے دروازہ میں گم جاتے دیکھے گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
____________________________
راحب اور فوزیہ کی شادی دو ہفتہ بعد طے ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجمہ نے کال پر یہ خبر حویلی پہنچائی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
عنایہ جاتے ہوئے نجمہ کہ یہاں ملتی ہوئی گئی تھی ۔۔۔۔ اسے واپس اپنے شوہر کہ ساتھ جاتا دیکھ نجمہ اور باقی سب کو بھی گونا سکون ملا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درراب نے فلحال ایک اپارٹمنٹ کرائے پہ لیا ہوا تھا کیوں کہ بنگلہ کی مرمت کروانی تھی ۔۔۔۔ یوں بھی وہ عنایہ کو وہاں لے جانا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
یہ چھوٹا سا ویل فرنشد آپارٹمنٹ تھا۔۔۔۔۔۔
درراب اسے چھوڑ کر کھانے پینے کی اشیاء لینے چلا گیا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پورے فلیٹ کا جائزہ لے کر سونے لیٹ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
___________________________
نجمہ بیگم نے شادی کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔۔۔ عینی شادی تک رہنے آئی ہوئی تھی
جبکہ عنبرین عین مایوں والے دن آئے گی ۔۔۔۔۔۔۔
امی عینو کو بھی بلوالیں ؟
“ابھی تو مل کر گئی ہے وہ ۔۔۔
اور وہ یہاں ہے بھی نہیں درراب لے گیا اسے اپنے ساتھ۔۔۔۔۔”
تو کیا وہ شادی میں شریک نہیں ہوگی ؟
“کیوں نہیں ہوگی ۔۔۔ مایوں سے ایک دن پہلے آئے گی کہہ رہی تھی مجھ سے۔۔۔۔۔۔۔”
“چلیں جیسا آپ مناسب سمجھیں ۔۔۔ ابھی تو ٹائم ہے کافی۔۔۔۔”
یہ راحب کہاں ہے نظر نہیں آیا صبح سے ؟
“وہ آج کسی کمپنی سے ڈیلنگ تھی اس کی اس لئے اب تو آنے والا ہوگا ۔۔۔۔”
“چلیں میں ذرا بچوں کو دیکھ لوں ۔۔۔۔”
____________________________
عنایہ کی انکھ مسلسل ہونے والی بیل پر کھلی تھی ۔۔۔۔۔
ہیلو؟؟
عینو کہاں تھی تم میں کب سے کال کررہی ہوں ؟
“میں سو رہی تھی تم بتاو کیسی ہو ۔۔۔”
میں ٹھیک ہوں عینو تم مل کر بھی نہیں گئیں مجھ سے نئے تعلق جوڑ رہی ہو تو پرانے سارے رشتہ بھول گئیں ؟؟
شکوہ کیا گیا تھا۔۔
“فوزی یہ بھول ہے تمہاری کہ میں تم سے تعلق ختم کرسکتی ہوں بلکہ اسے اور مضبوط کرنے کیلئے ہی تمھیں اپنی بھابھی بنارہی ہوں ۔۔۔۔”
“اگر یہ بات ہے تو ٹھیک ہے پھر ۔۔۔۔۔”
دروازہ کھلا اور درراب لدا پھندا کمرہ میں آیا۔۔۔۔۔
“عینو یار پتا نہیں مجھے کیوں ایسا لگتا ہے کہ راحب اس شادی خوش نہیں ہیں ۔۔ تم برا مت ماننا لیکن یار تمہارے سوا میرا کوئی دوست بھی نہیں ہے جس سے میں اپنے دل کی بات کہہ سکوں ۔۔۔”
درراب اب صوفے پہ بیٹھا اپنے جوتے اتار رہا تھا اور نظریں عنایہ کی جانب تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔
“مجھے خوشی ہوئی کہ تم نے مجھ سے اپنے دل کی بات شئیر کی اور یہ بھائی کی مرضی سے ہی شادی ہورہی ہے ۔۔۔ ہاں انھیں دانیہ پسند تھی لیکن اس بات کو کافی عرصہ گزر چکا ہے ہوسکتا ہے وہ ابھی بھی بھائی کہ دل میں ہو لیکن تم اس بات کو اپنے حواسوں پر سوار نہ کرو۔۔۔۔۔ تم اپنی محبت ، اپنی وفا سے ان کہ دل میں جگہ بناسکتی ہو ۔۔۔۔”
“درراب کو لگا کہ وہ عنایہ کو سمجھنے میں غلطی کر بیٹھا تھا ۔۔۔۔ محبت تو تھی اسے لیکن وہ اسے سمجھ نہیں پایا تھا ہم محبت تو کرلیتے ہیں لیکن ہم سمجھ نہیں پاتے ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا محبوب ہمارے تابع رہے لیکن محبت میں تابع کا تو کوئی عمل دخل ہے ہی نہیں ۔۔۔۔
ہم انھیں اسپیس نہیں دے پاتے اور یہیں ہم غلطی پر ہوتے ہیں اور یہیں سے ہی رشتہ کمزور ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔”
“تم بے فکر رہو اور خوشی خوشی شادی کی تیاریاں کرو ۔۔۔۔”
“ہاہاہاہاہاہاہ ہماری ایسی قسمت کہاں ۔۔”
درراب نے دیکھا اس کی ہنسی کھوکھلی تھی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی ۔۔۔۔ نجانے فوزیہ نے ایسا کیا کہا تھا جس کو چھپانے کہ چکر میں جھوٹی ہنسی ہنس دی تھی۔۔۔۔۔
“چلو ٹھیک ہاں ہاں ضرور ان شاء اللہ ”
“خدا حافظ”
عنایہ نے انگلی سے انکھوں میں آئی نمی کو صاف کیا اور کپڑے صحیح کرتی ہوئی بیڈ سے اتر گئی ۔۔۔۔۔۔
“یہ کچھ کھانے پینے کا سامان ہے دیکھ لو ۔۔۔۔۔”
عنایہ نے سر ہلایا اور شوپر اٹھا کر کمرہ سے نکل گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
__________________________
“بیٹا بس کچھ ہی دن رہ گئے جاکر اپنی شاپنگ کرلو ۔۔۔۔”
کون سی شاپنگ امی بارات اور ولیمہ کا سوٹ آنٹی نے بھجوادیا ہے نہ ۔۔۔
میری جان مایوں میں میں بیٹھوں گی کیا ؟؟
“کوئی حرج نہیں ہے اگر آپ بیٹھ جائیں تو کیوں آبو ۔۔۔”
“ہاں بلکل کوئی حرج نہیں ہے اگر دولہا میں ہونگا تو ۔۔۔”
ہاہاہاہایاہاہاہ وہاں موجود سب کا بے ساختہ قہقہہ نکلا تھا۔۔۔۔۔۔۔
“ہاں ہاں کیوں نہیں ابھی تو آپ جوان ہیں ۔۔۔”
راحب نے شرارت سے ضعیم کو دیکھا:
“بس بس یہ باتیں شاتیں تو چلتی رہیں گی تم آج بلکہ ابھی جاو ورنہ تم ٹالتے ہی رہو گے ۔۔۔۔”
“اچھا امی جارہا ہوں ۔۔۔”
“راحب میں بھی چلوں گی مجھے بھی ڈریسس لینے ہیں ۔۔۔ ”
راحب کہ اٹھتے کی عنبرین نے بھی جانے کی حامی بھری ۔۔۔
“ممما ہم بھی تلے گے ہم بھی تلے گے۔۔۔”
“اجاو ماموں کی جان دونوں اجاو ۔۔۔”
راحب کی عینی کی دو سالہ بیٹی ایک سالہ بیٹے کو گود میں اٹھالیا۔۔۔۔۔۔
اور گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔
__________________________
کل تو درراب نے بازار سے ہی کھانے کا بندوبست کرلیا تھا لیکن روز روز کی ہوٹلنگ درراب کو پسند نہیں تھی ۔۔۔ یوں بھی عنایہ تو سب کچھ بنانا جان گئی تھی تو اس کیلئے زیادہ مشکل نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درراب صبح کا گیا ہوا تھا اور شام ہونے کو آئی تھی وہ ابھی نہیں آیا تھا ۔۔۔۔۔
عنایہ تمام کام نبٹا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔
کی ہول میں چابی گھمانے کی آواز پر عنایہ نے گھوم کر دیکھا ۔۔۔۔۔۔
فل یونیفارم میں ملبوس سر پہ کیپ لگائے انکھون پر سن گلاسس لگے ہوئے تھے ۔۔۔ اتنے سال گزر جانے کہ بعد بھی شاہ کی وجاہت میں ذرا بھی کمی نہیں آئی تھی ۔۔۔
وہ آج بھی اتنا ہی خوبرو تھا جتنا کہ پہلے ہوا کررتا تھا۔۔۔
بیگم صاحبہ اگر آپ کا دیدار ختم ہوگیا ہو تو پانی پلادیں۔؟؟
درراب نے اس کہ کان کے قریب اکر کہا تو وہ بوکھلا گئ اور ڈوپٹہ سنبھالتی ہوئی کچن میں چلی گئی۔۔۔۔۔
وہ اپنی بے خبری پر کڑھتی ہوئی پانی گلاس میں بھرنے لگی۔ ۔۔۔۔
اس نے شاہ کہ اگے گلاس کیا۔ جسے تھام کر لبوں سے لگا گیا۔۔۔۔۔۔۔
“تم مان لو عنایہ تم آج بھی میرے سحر سے نکل نہیں پائی ہو ۔۔۔”
درراب نے سنجیدگی سے کہا :
البتہ آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی۔۔۔۔۔
“آپ چینج کرلیں میں کھانا لگاتی ہوں ۔۔۔”
وہ اس کی بات کو نظر انداز کرکہ چلی گئی۔۔۔۔
“اتنا بھی آسان نہیں ہے درراب جتنا۔ تو سمجھ بیٹھا ہے ۔۔۔۔”
وہ بڑبڑاتے ہوئے اسٹک اور کیپ اٹھاکر کمرہ کی طرف آگیا۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ نکھرا نکھرا سا ٹیبل پر اکر بیٹھ گیا:
کھانے کی خوشبو اس کی بھوک میں اضافہ کرگئی ۔۔۔۔
پلیٹ میں چائنیز رائس نکال کر کھانے لگا۔۔۔۔
عنایہ اس کی جلد بازی پر مسکرائے بنا نہ رہ سکی ۔۔۔۔۔۔۔۔
جلفریزی کا باول اٹھایا اور چمچ بھر کر شاہ کی پلیٹ میں ڈال دیا ۔۔
“شکریہ عینو ۔۔۔۔”
درراب نے جلدی میں کہا اور پھر سے کھانے کی طرف متوجہ ہوگیا جبکہ وہ عینو لفظ سن کر پھر سے اذیت میں مبتلا ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔
بھوک تو اسے بھی تھی لیکن دل اچاٹ ہوگیا تھا۔۔۔
“جلدی کھاو عنایہ ہم نے ابھی مارکیٹ بھی جانا ہے ۔۔۔”
مارکیٹ کیوں؟؟
وہ اتنا بھی غافل نہ تھا جتنا وہ سمجھ رہی تھی۔۔۔۔
کرکٹ کھیلنے!!!!
عنایہ مارکیٹ شاپنگ کرنے جاتے ہیں کیا ہوگیا ۔۔۔
وہ تو مجھے بھی پتا ہے لیکناب تو رات ہونے والی ہے ۔۔۔
تو ؟؟
“تو یہ کہ مجھے کہیں نہیں جانا ۔۔۔۔”
عنایہ نے فرصت سے کرسی سے ٹیک لگا کر کہا :
“نجمہ آنٹی کی کال آئی تھی وہ کہہ رہی تھی کہ عنایہ کو دو تین دن میں لے آو ۔۔۔”
تو آپ نے کیا کہا ؟
“میں نے کہا آنٹی جیسا آپ کہیں ۔۔۔”
عنایہ حیرتوں کہ پہاڑ میں غوطہ لگانے لگی۔۔۔۔
“اللہ اللہ اتنی تابعداری ۔۔۔”
“دیکھلو بس اب جلدی جلدی کھاو ۔۔۔”
وہ اسے کھانے کا کہہ کر اب میٹھے سے انصاف کررہا تھا۔۔۔۔۔۔
____________________________
راحب کی سہرا بندھائی ہورہی تھی ہر طرف افرا تفری کا ماحول تھا ۔۔۔ اس بار ضعیم نے بیٹے کی شادی اس کہ خریدے ہوئے بنگلے میں کی تھئ ۔۔۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اولاد سے زیادہ کوئی سگا نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔
جب تک اماں جان تھیں حویلی ان کی آمد کی منتظر تھی جب سے وہ گئیں ہیں وہاں کہ مکینوں نے یاد تک نہیں کیا تھا۔۔ بس دو بیٹیاں تھیں جو بیہائی ہوئی تھیں۔۔۔
شمس الدین اور سکندر حیات کو خود جاکر دعوت نامہ دے کر آئے تھے اور وہ لوگ آئے بھی تھی سکندر حیات سے تو خیر سمدھیانہ تعلق تھا ۔۔۔ شمس الدین نے بھی شرکت کی تھی لیکن دل میں آئے میل کو نہ دھو سکے تھے ۔۔۔
درراب بھی راحب کہ ساتھ ہی کھڑا تھا جبکہ عنایہ کی تیاری مکمل نہیں ہوئی تھی یوں بھی عورتوں کی تیاریاں آخری وقت تک جاری رہتی ہیں ۔۔۔۔
یہ عینو کہاں رہ گئی انھی تک نہیں آئی نکلنا بھی ہے راستہ طویل ہے اور یہ لوگ دیر پہ دیر کئے جارہے ہیں۔۔۔
ضعیم کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا۔۔۔
“انکل میں جاتا ہوں آپ تب تک مہمانوں کو گاڑی میں بٹھائیں۔۔۔۔۔”
ہاں ہاں چلو بھئی سب چل کر کوچ میں بیٹھو ۔۔۔۔
درراب کمرہ میں آیا تو وہ ایک پاوں بیڈ پر رکھے ہوئے پائل پہن رہی تھی۔۔۔۔۔
کیا ہوا اور کتنی تیاری کرو گی؟؟؟
درراب کی آواز پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔۔۔
بلیک قمیض شلوار میں وہ انتہاء کا خوبصورت لگ رہا تھا۔۔۔۔۔
آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟
عنایہ نے بمشکل نظریں ہٹائی تھیں آج تو اس کی اپنی نگاہیں بھی بغاوت پہ اتر آئیں تھیں۔۔۔۔۔
“جہاں عنایہ وہاں شاہ ۔۔۔”
“ویسے اتنی تیاری کس لئے آپ تو سادگی میں بھی غضب ڈھاتی ہیں۔۔۔۔”
“میں آپ کی ان باتوں میں نہیں آوں گی آپ جائیں یہاں سے ۔۔۔”
“عنایہ یار بہت ہوگیا ایک مہینہ سے منارہا ہوں تمھیں اور تم ہو کہ ہر بار منہ موڑ کر چلی جاتی ہو ۔۔۔۔۔”
“کیوں کہ آپ کا۔ وہ رویہ میں بھلائے نہیں بھولتی ۔۔۔”
“اچھا اچھا اب رونا مت سارے میک اپ کا ستیا ناس مار لوگی۔۔”
“میں ساری زندگی تمھیں ماناتا رہوں گا لیکن تم مانو تو صحیح ۔۔۔”
“میں آج آپ کی باتوں میں اکر دوبارہ سے نئی زندگی شروع کروں گی کل کو پھر کوئی اکر مجھ پر الزام لگا جائے گا اور آپ اس پر آنکھیں بند کر کہ یقین کرلیں گے۔۔۔”
“کسی میں اتنی ہممت نہیں ہے کوئی میری بیوی پر الزام لگائے میں قبر میں نہ پہچادوں اسے۔۔۔”
اس بار چہرہ کہ تاثرات سخت ہوگئے تھے ۔۔۔۔
تم بھول رہی ہو عنایہ حویلی سے میں ہی تمھیں نکال کر لایا تھا جب بابا جان اور سب تمہارے خلاف ہوگئے تھے ایک میں ہی تھا جو تمہارے ساتھ کھڑا تھا۔۔۔
“اسی بات پر آج میں آپ کہ روبرو کھڑی ہوں شاہ میں احسان فراموشہ نہیں کرتی ۔۔۔۔”
میں نے جو جو دکھ دیئے ہیں ان سب کو یکسر مٹا دوں گا ۔۔۔۔۔۔ ”
“بس تم میرا ہاتھ تھام لو کبھی نہ چھوڑنے کیلئے۔۔۔ ”
عنایہ نے درراب کو دیکھا اور اس کی کشادہ ہتھیلی پر اپنا نازک ہاتھ رکھ دیا جسے درراب نے بہت محبت سے ہونٹوں سے لگا لیا تھا۔۔۔۔
عنایہ کی انکھوں میں آنسو تھے لیکن خوشی کہ۔۔۔
“تم میرے لئے ہی بنائی گئی ہو تم میری محبت کی امین ہو میرے درد کی درما ہو تم میری درمائے دل ہو جان شاہ ۔۔۔۔
اور میں تمہارے درد کا درماء ہوں۔۔۔۔۔۔”
“ان دکھوں کا مداوا جنھیں تم اب تک بھول نہیں پائی اور میرے ان زخموں کا مرحم جو مجھے دانی کی موت نے دیئے تھے۔۔۔۔۔
ہم دونوں ایک دوسرے کے دل کے درماء ہیں۔۔۔۔”
ختم شدہ