“ہاں دین میں نے اس کہ خفیہ آڈے پر بروقت جاکر اسے گرفتار کرلیا ہے لیکن اس کا ساتھی وہاں نہیں تھا بس کچھ کتے اس نے حفاظتی اقدام کیلئے جمع کئے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔”
“ٹھیک ہے میں سر درراب کہ گھر کہ باہر کھڑا ہوں ۔۔۔۔ دعا کریئے گا سر خیرہت سے ہوں ۔۔۔”
“دین تم احتیاط سے اندر جانا ایسا نہ ہو وہ دوسرا ساتھی اپنے کتوں کہ ساتھ اندر ہی موجود ہو۔۔۔۔ ”
“جی سر میں بھاری نفری کہ ساتھ یہاں آیا ہوں ۔۔۔”
“چلو ٹھیک ہے ۔۔”
دین نے موبائل جیب میں اڑسا پولیس موبائل سے نکلا۔۔۔۔
جس کو جیسا کہا ہے وہ اسی طرح عمل کرتا ہوا اندر جائے گا عین ممکن ہے کہ وہ تم میں سے کسی کو دیکھ لیں ۔۔۔ اسے اسی وقت جہنم واصل کرنا ہے تاکہ وہ اپنے ساتھی کو کسی قسم کا پیغام نہ پہنچا سکے ۔۔۔۔
انڈر اسٹینڈ ؟؟؟
“یس سر ”
پولیس وردی میں ملبوس ہتھیاروں سے لیس اہلکاروں نے ایک زبان ہوکر مگر دھیمہ انداز میں کہا:
آر یو ریڈی ؟؟
“یس سر ”
“اوکے ۔۔۔”
سب سے اگے دین اور ایک اور افیسر تھا ۔۔ ان میں سے کچھ اہلکاروں نے اپنی پوزیشن سنھبالی باقی دین اور افیسر کہ سپورٹر کہ طور پر عین پیچھے ہولے قدم اٹھاتے ہوئے اندر کی جانب داخل ہوئے۔۔۔۔۔۔
دین کو زیادہ محنت نہ کرنی پڑی ۔۔۔۔
ایک بھاری بھرکم وجود کہ حامل مرد کی پشت دروازہ کی جانب تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
دین نے گردن نکال کر اگے کی جانب دیکھا ۔۔۔ تو گھٹنوں کہ بل جھکا ہوا وہ درراب تھا جس کا رخ زمین کی جانب تھا۔۔۔۔۔
درراب کہ پیچھے دو آدمی رائفل لئے کھڑے تھے جنھیں دو اہلکاروں نے پلک جھپکتے ہی جا لیا ۔۔۔ جیسے ہی ان دونوں کو پکڑا دین نے سرعت سے جاکر معراج کی پشت پر لات رسید کی ۔۔۔۔ چونکہ معراج بے خبر تھا اور موبائل سے کسی سے محو گفتگو تھا اس لئے نہ ہی ان اہلکاروں کو دیکھ سکا اور نہ حفاظتی اقدام کرسکا۔۔۔۔۔
معراج کہ گرتے ہی پورا بنگلہ گولیوں کہ تھر تھراہٹ سے گونج اٹھا۔۔۔۔
سر آپ ٹھیک ہیں ؟؟
افیسر نے درراب کہ بندھے ہوئے ہاتھوں اور پاوں کو کھولا۔۔۔۔۔
“ہاں میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔”
“دین گولی نہیں چلانا ۔۔۔”
دین ٹریگر ہی دبانے لگا تھا کہ درراب کی بات پر اس کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔
معراج نے موقع کو غنیمت جانا اور اپنی گری ہوئی گن اٹھا کر درراب کا نشانہ لیا تھا ۔۔۔
لیکن افیسر کہ بیچ میں اجانے سے درراب بچ گیا۔۔۔۔۔
درراب نے معراج کہ بال مٹھی میں دبائے اور اس کا منہ دیوار سے رگڑ دیا ۔۔۔ معراج درد سے بلبلانے لگا۔۔۔۔
درراب نے زور دار مکہ اس کی کمر پر مارا ۔۔۔۔
ایک دو مار مارنے پر ہی وہ ادھموا ہوچکا تھا۔۔۔۔۔۔
بول میری بیوی کو اوپر پہنچائے گا ۔۔۔ پہنچا ؟؟
اٹھ اور پہنچا ؟؟
درراب نے اشتعال میں اکر ایک ضرب اس کی ٹانگ پہ ماری ۔۔۔۔
معراج کہ منہ سے ہولناک چیخ نکلی۔۔۔۔۔۔
“تیری اتنی ہممت کہ تو میری بہن کہ بارے مغلظات بکے ۔۔۔۔”
درراب نے دونوں ہاتھ اس کی گردن پر جمایا اس سے پہلے کہ وہ پوری قوت سے اسے دائیں جانب کرتا ۔۔۔ دین نے اسے اکر پکڑا ۔
آفیسر کو بروقت ہسپتال لے جایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔
” سر اس کا فیصلہ عدالت کرے گی آپ قانون کا ہاتھ میں نہ لیں ۔۔۔ آپ اپنی مسز کو ڈھونڈیں فوراً…”
دین نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے درراب کو کہا:
عنایہ کا خیال آتے ہی اس نے زور دار گھونسہ اس کہ پیٹ میں رسید کیا ۔۔۔۔۔۔
ایک اور چیخ نکلی تھی جو اس کہ درد کی عکاسی کررہی تھی۔۔۔۔
“اسے طبعی امداد دو اور اسے خانہ خاص میں پہنچاو۔۔۔”
درراب کہتا ہوا اسٹور کی جانب بڑھا۔۔۔۔ عنایہ اسی حالت میں بے یارو مددگار پڑی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسے سنبھالتا ہوا کمرہ میں لایا ۔۔۔ اور چادر نکال کر اس کو اچھی طرح سے ڈھکا ۔۔ اور پھر سے اسے اٹھایا اور پورچ کی جانب آیا۔۔۔۔
سر آپ میم کو لے کر پیچھے بیٹھیں میں گاڑی ڈرائیو کرتا ہوں۔۔۔۔۔
“اوکے فاسٹ چلانا ہری اپ ۔۔۔۔”
____________________________
فوزیہ غائب دماغی سے کمپنی پہنچی تھی وہ تو شکر تھا کہ آج کوئی مٹنگ نہیں تھی ۔۔۔ وہ سعیدہ بیگم کا سن کر ڈیریسڈ ہوگئی تھی ۔۔۔۔
اسے سعیدہ بیگم سے ایک خاص قسم کی انسیت تھی کس رشتہ سے کس ناطے سے یہ تو وہ خود بھی نہیں جانتی تھی ۔۔۔۔
جب وہ پہلی مرتبہ سعیدہ بیگم سے ملی تھی تو بے اختیار ہی اس کہ منہ سے دادو لفظ نکلا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
پھر سعیدہ بیگم کا عجیب نظروں سے دیکھنا اسے برا لگا تھا ۔۔۔ جیسے کوئی اپنا ہو اور وہ انکھیں پھیر لے جو دکھ، جو اذیت محسوس ہوتی ہے ویسے ہی فوزیہ کی کیفیت تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مے آئی کم ان ؟؟
نسوانی آواز پر فوزیہ نے سر اٹھا کر دیکھا۔
“یس ۔۔۔”
“میم آپ نے جو مٹیریل تیار کروانے کا آرڈر دیا تھا وہ آچکا ہے ۔۔۔ ”
“اوکے آپ ریسیو کریں اور تمام ورکرز کو الرٹ کردیں یہ کنٹریکٹ ہمیں محض ایک مہینہ میں مکمل کرنا ہے ۔۔۔۔ تمام ورکرز کو انفارم کردیں ۔۔۔۔”
“یس میم ۔۔۔”
موبائل کی وائبریش۔ نے اسے اپنی جانب مبذول کروایا ۔۔۔۔۔
جی امی ؟؟؟
اوہ کب ؟؟؟
“آپ پریشان نہ ہوں آنٹی کو دلاسہ دیں میں بس دس منٹ میں پہنچ رہی ہوں ۔۔۔۔ ”
“اوکے ۔۔۔۔”
“لیب ٹاپ شٹ ڈاون کیا اور ٹیبل سے ضروری اشیاء اٹھائیں اور روم سے نکل گئی۔۔۔۔”
رسپٹ پر موجود گرلز کو دو چار ہدایتیں دیتی ہوئی وہ کار میں اکر بیٹھ گئی اس کہ بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی اگے بڑھادی ۔۔۔۔۔۔۔۔
____________________________
آپ پیشنٹ کہ کیا لگتے ہیں ؟؟
درراب اس وقت سنیئر ڈاکٹر کے روم میں موجود تھا ۔۔۔۔۔۔
“میں ہسبینڈ ہوں ۔۔۔”
کیا یہ تشدد آپ نے کیا ہے ؟؟؟
ڈاکٹر نے درراب کو شکی نظروں سے گھورا۔۔
“نہیں سر میرا تعلق پولیس ڈیپارٹمنٹ سے ہے ۔۔۔۔ میں اس وقت گھر پہ موجود نہیں تھا اپنی ڈیوٹی پہ تھا جس وقت کچھ لوگ میرے گھر میں گھسے چلے آئے اور میری بیوی پر نہ صرف تشدد کیا بلکہ مجھے بھی یرغمال بنالیا تھا۔۔۔۔”
“میں ڈی ایس پی درراب شاہ ہوں اور کافی عرصہ سے اسی اسٹیشن میں ہوں۔۔۔۔”
“سوری سر آپ سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن آپ کا نام کافی سنا ہے یوں روبرو دیکھا نہیں تھا ۔۔۔۔ یوں بھی میں انگلینڈ سے اسپیشلائزیشن کرکہ ابھی آیا ہوں۔۔۔ ”
درراب کا تعارف سن کر ڈاکٹر گھبرا گیا تھا ۔۔۔ اس لئے وضاحت دینے لگا۔۔۔۔۔
اٹس اوکے آپ مجھے میری وائف کی طبیعت کا بتادیں ؟؟؟
“سر کوئی اندرونی چوٹ نہیں لگی لیکن چہرہ پر نیل کہ نشان واضح ہیں انھیں نارمل ہونے میں کافی ٹائم لگے گا ۔۔۔انتہائی افسوس کی بات ہے کہ انھیں چار گھنٹوں میں ڈرگس کی ہیوی ڈوس وقفہ وقفہ سے دی گئ ہے ۔۔ ہم نے اینٹی بائیوٹک دے کر کسی حد تک اثر زائل کرنے کی کوشش کی ہے باقی جو خون کہ ساتھ مل کر رگوں میں چلی گئی ہے اس کا اثر پورے چوبیس گھنٹے تک رہے گا۔۔۔۔۔۔۔”
“آپ پریشان نہ ہوں ان شاء اللہ کل تک وہ ہوش میں آجائیں گی۔۔۔”
درراب سائیں سائیں ہوتے ذہن کو سنبھالتا ہوا روم سے نکل آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہسپتال کہ عقبی حصہ کی جانب چلا آیا۔ اور دین کو کال ملائی۔۔۔۔۔۔۔
جی سر ؟؟؟
کیا خبر ہے دین کہاں تک پہنچے ؟
“سر میں پولیس اسٹیشن میں ہوں ۔۔۔”
سب ٹھیک ہے نہ ؟
“ہاں اللہ نے بڑے نقصان سے بچالیا ۔۔۔”
تم نے اسے طبعی امداد دی ؟؟؟
“جی سر ڈاکٹر چیک کرہی رہا ہے ۔۔ ”
“چلو میں پہنچتا ہوں پھر ۔۔۔”
درراب کی نظر سامنے سے آتی مہتاب بیگم اور صعود پہ پڑی تو وہ ان کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔۔۔
شاہ تم ٹھیک ہو ؟؟
“ہاں بھائی میں ٹھیک ہوں ۔۔۔ ”
عنایہ کیسی ہے کیا کہا۔ ڈاکٹر نے ؟؟
مہتاب بیگم نے پریشانی سے درراب کا چہرہ دیکھا۔۔۔۔۔
“اب خطرہ سے باہر ہے کل تک ہوش آجائے گا ۔۔۔”
“آپ پریشان نہ ہوں۔۔ ”
تم نے عنایہ کہ گھر میں خبر کی ؟؟؟
مہتاب بیگم پاس رکھی بینچ پر بیٹھ گئیں۔۔۔جی ۔۔۔”
اچھا !!
مہتاب بیگم مختصر سا کہہ کر خاموش ہوگئیں۔۔
ہوا کیا تھا اور تم کہاں تھے ؟
امی میں سب بتادوں گا آپ مجھے یہ بتائیں بابا جان کہاں ہیں ؟
“وہ تو ڈیرہ پہ ہیں انھیں نہیں پتا کچھ ورنہ مجھے یہاں نہیں آنے دیتے ۔۔۔۔”
“ہمممممم امی آپ اور بھائی یہاں رکیں مجھے ضروری کام سے جانا ہے ۔۔”
“کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔ غضب خدا کا بیوی وہاں مرنے کی حالت میں پہنچ گئی اور تمہارے کام ہی ختم نہیں ہورہے ۔۔۔۔”
“اسی لئے بھیجا تھا میں نے اسے تمہارے ساتھ ؟
اگر مجھے ذرا بھی علم ہوتا تو کبھی نہ بھیجتی یہ تمہاری کوتاہی اور لاپرواہی کا نتیجہ ہے جو آج وہ معصوم بستر مرگ پہ پڑی ہے ۔۔۔۔۔”
مہتاب بیگم سیخ پا ہوگئیں وہ کئ دنوں سے درراب کا سرد رویہ دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔
“میں چپ تھی تو صرف اسی لئے کہ یہ وقتی غصہ ہے لیکن تم نے تو اپنے بابا جان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا شاہ تم نے میرا بڑا۔ دل دکھایا ہے ۔۔۔۔”
“امی آپ روئے نہیں میں اپنی کی گئی تمام غلطیاں سدھار لوں گا ۔۔ ”
“وہ بچی مجھے اپنی دانی کی طرح عزیز تھی اور تو نے اس کا کیا حال کردیا شاہ ۔۔۔۔”
“بس کردیں امی وہ پہلے ہی نادم ہے آپ اور پریشان کررہیں ہیں اسے ۔۔۔”
صعود نے اگے بڑھ کر ماں کو کندھوں سے تھاما۔ ۔۔۔
“اس سے کہہ دو صعود اگر آج یہ کہیں گیا تو میں اسے عنایہ کی شکل تک نہیں دیکھنے دوں گی ۔۔۔۔”
صعود نے سوالیہ نظروں سے درراب کو دیکھا ۔۔۔
وہ سرد سانس کھینچ کر مہتاب کہ برابر میں اکر بیٹھ گیا اور ان کہ گھٹنوں پہ سر رکھ دیا ۔۔۔۔۔
کب کہ رکے آنسو سیل کی طرح بہہ نکلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
___________________________
تینوں کی ساری رات کوریڈور میں گزر گئی ۔۔ لیکن نیند کسی کو نہ آئی ۔۔۔۔۔
صعود ناشتہ کا انتظام کرنے چلا گیا تھا جبکہ درراب کپڑے بدلنے کی غرض سے گھر اگیا تھا۔۔۔ اس نے مہتاب بیگم کو بھی چلنے کا کہا لیکن انہوں نے انکار کردیا ۔ ۔ ۔۔
وہ چینج کر کہ آیا تو موبائل چیک کیا اسکرین پر فرروخ کی پانچ مسکالیں لکھا ہوا دیکھا تو ریڈائل کردیا پہلی بیل پر ہی کال اٹھالی گئی تھی ۔۔۔۔۔
اسلام و علیکم سر ؟
“وعلیکم سلام ہاں بولو۔۔۔”
آپ ٹھیک تو ہیں نہ سر ؟
“ہاں میں ٹھیک ہوں۔۔”
تم بتاو ؟
سر داد بخش کو اریسٹ کرلیا ہے اگر آپ کہیں تو اسے کل لے آوں ؟
“ہاں لیکن ذرا احتیاط برتنا اور چاروں طرف نظر رکھنا ۔۔۔ ”
“جی جی سر میں پھر آج رات کو نکلتا ہوں اسے لے کر ۔۔۔”
“ہاں ٹھیک ہے ۔۔”
کمرہ میں خالی پن کا احساس شدت سے جڑ پکڑرہا تھا ۔۔۔۔۔ اس کا اپنا کمرہ ہنوز بکھرا ہوا تھا باقی سارا گھر تو سمیٹ دیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔
“بھیا آپ نے ٹھیک نہیں کیا آپ ان کی سن تو لیتے ایک بار ۔۔۔۔”
اسے لگا جیسے دانیہ نے اس کہ کان میں سرگوشی کی ہو ۔۔۔۔۔
دائیں بائیں سر گھما کر دیکھا درراب کہ سوا وہاں کوئی نہیں تھا موجود ۔۔۔۔۔۔۔
__________________________
“آنٹی آپ فکر نہ کریں ہم بائے ائیر جائیں گے تو زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔۔۔”
نجمہ نے جب سے عنایہ کا سنا تھا وہ روئے جارہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
“تم راحب کو فون کرو وہ ہی سنبھالے گا نجمہ کو ۔۔۔۔”
مونا نے فوزیہ سے کہا جو ابھی ہی وہاں پہنچی تھی ۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر میں راحب بھی وہاں اگیا تھا۔۔۔۔۔۔
___________________________
“جی بابا جان ”
کہاں ہے تمہاری ماں ؟
“وہ یہاں آئی ہوئی ہیں میرے پاس ۔۔۔”
درراب ایک ہاتھ سے موبائل پکڑے اور دوسرے ہاتھ سے اسٹیرنگ وہیل گھما رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
مجھے بتانا بھی پسند نہیں کیا خیر تم یہ بتاو تم نے شمس الدین کہ بھتیجے کو حوالات میں کیوں بند کیا ہوا ہے ؟
“وہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہی وہاں ہے اور بہت جلد میں اسے تختئہ دار پر چڑھاوں گا ”
“تم اسے رہا کرو تم بھول رہے ہو میرے دوست کا بھتیجہ ہے وہ ۔۔۔”
“مجھے صرف یہ یاد ہے وہ میری معصوم بہن کا قاتل ہے جب تک میں اسے جہنم واصل نہ کردوں سکون سے نہیں بیٹھوں گا۔۔۔۔۔۔۔”
دوسری طرف سکندر حیات سناٹوں کی زد میں آگئے تھے ۔۔۔۔
موبائل ڈش بورڈ پر رکھا اور گیلی انکھیں آستین سے رگڑیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موڑ کاٹتے ہوئے اس نے گاڑی ہسپتال والے روڈ پہ ڈال دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
____________________________
پورے چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے عنایہ ہوش میں تو آگئی تھی لیکن کسی کو پہچاننے سے انکاری تھی ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹرز بھی اسی شش و پنج میں مبتلا تھے کہ کہیں ڈرگس کی ہیوی ڈوس اس کی یاداشت پر اثر کر گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر میں راحب سمیت سب وہاں موجود تھے ۔۔۔۔
نجمہ بیگم اور راحب جیسے ہی عنایہ کہ روم میں داخل ہوئے عنایہ اپنی ماں کو پہچان گئی تھی ۔۔۔
ماں کا رشتہ ایسا ہی ہوتا ہے اولاد کو دکھ درد میں سب سے پہلا یاد آنے والا رشتہ ماں کا ہی ہوتا ہے ۔۔۔۔۔
امی امی مجھے یہان سے لے چلیں مجھے یہاں نہیں رہنا یہ لوگ بہت برے ہیں آپ مجھے چھوڑ کر نہ جائیں ۔۔ وہ وہ پتا نہیں کوکون تتھاااا
اس نے میرے منہ پر تھپڑ مارا اور مجھے دھکا بھی دیا ۔۔۔۔۔
وہ زارو قطار روتے ہوئے نجمہ سے لپٹی ہوئی تھی ۔۔۔
درراب دروازہ کہ پیچھے کھڑا سب سن چکا تھا ۔۔۔۔ چہرہ غصہ کہ شدت سے سرخ ہوچکا تھا
وہ اشتعال میں بھپرا ہوا ہسپتال کی راہداری عبور کرگیا ۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...