اب بتاو کیا بات ہوئی ہے جس کی وجہ سے تمہاری بھوک اڑی ہوئی ہے ؟؟؟
نجمہ بیگم اس کہ بالوں میں انگلیاں چلانے لگیں۔۔۔
امی آپ کو پتا ہے میرا اگلا کنٹریکٹ کس نے سائین کیا ہے ؟
راحب نے چہرہ اونچا کر کہ نجمہ کو دیکھا۔۔
نہیں مجھے کیسے پتا ہوسکتا ہے ؟
“مونا آنٹی کی بیٹی فوزیہ نے جو ہماری عینو کی دوست ہے ۔۔۔۔۔”
مونا کی بیٹی !!
نجمہ حیرت زدہ رہ گئیں۔۔۔۔
“ہاں امی میں بھی اسے وہاں دیکھ کر حیران رہ گیا تھا ۔۔۔ ایسی پروقار اور جازب نظر لگ رہی تھی ٹیلنٹڈ اتنی کہ میں اس سے بہت انسپائر ہوگیا تھا۔۔۔۔”
“امی وہ ارٹ اینڈ ڈیزائن کمپنی کی مینجر کہ طور پر آج مجھ سے ملی تھی ۔۔۔۔ ”
نجمہ نے بیٹے کو دیکھا جس کی انکھوں کی جوت بجھی ہوئی تھی۔۔…..
تو بیٹا اس میں افسردہ ہونے والی کیا بات ہے یہ “تو اچھی بات ہے مجھے خوشی ہوئی کہ مونا کی محنت اور قربانی کو ضائع ہونے نہیں دیا فوزیہ نے ۔۔۔”
“میں افسردہ صرف اور صرف عینو کی وجہ سے ہوں ۔امی عینو کی تعلیم بھی ادھوری رہ گئی اس کی عمر اتنی نہیں تھی جتنا اس پر بار ڈال دیا گیا ہے ۔۔۔”
“قسمت کہ فیصلہ ہیں میں تو اپنی بچی کیلئے دعائیں ہی کرسکتی ہوں ۔۔۔۔۔”
“امی آپ فکر نہ کریں دیکھیئے گا بہت جلد عینو ہمارے پاس ہوگی پھر میں اس کی ڈگری بھی مکمل کروادوں گا اور رہی بابا جان کی بات تو انھیں سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ وہ ہمارے ساتھ اکر رہیں ۔۔۔۔”
“وہ کبھی نہیں مانے گے وہ اپنی ضد کہ پکے ہیں ۔۔۔ تم نے دیکھا نہیں کیسے بھائی صاحب کو اطلاع کردی پیچھے سے ۔۔۔ انھیں اپنی اولاد سے زیادہ بھانجہ اور بھائی عزیز ہے ۔۔۔۔”
“کوشش کرنے میں کیا حرج ہے میں گاوں جاوں گا اس بہانے عینو کی بھی خبر گیری کرلوں گا۔۔۔۔۔۔”
“کوئی ضرورت نہیں ہے وہاں جانے کی ۔۔۔۔”
نجمہ نے سختی سے کہا :
کیوں امی ؟؟؟
آپ نہیں چاہتی کہ عنایہ کی خیر خبر ہمیں ملتی رہے۔؟؟
“فلحال میں یہ نہیں چاہتی کہ تم وہاں جاو ۔۔۔”
“تمہارے تایا نے بھائی صاحب کو فون پر اطلاع دی تھی کہ درراب کہ پیچھے کچھ لوگ لگے ہوئے ہیں کافی دنوں سے ۔۔۔۔۔۔۔”
“ایسے میں تمہارہ وہاں جانا خطرہ سے خالی نہیں ہے ۔۔۔ ”
تایا کو کیسے پتا چلا ؟؟؟
“وہ ہے نہ ان کا بھانجہ تمہاری مرحومہ پھوپھو کا بیٹا ۔۔۔”
“اس کہ ناجانے کن کن لوگوں سے یارانے ہیں ایک ایک ہفتہ حویلی سے غائب رہتا ہے تب کسی کو اس کی تربیت یاد نہیں آتی سب کا زور میری اولاد پر چلتا ہے۔۔۔۔”
تو تایا کو کیسے پتا چلا آپ یہ بتائیں؟
“فون پہ بات کررہا تھا کسی سے کہ اس ٹائم وہ اس راستے سے گزرے گا یہ بات تمہارے تایا نے سن لی ۔۔ جو بھی ہے آخر ان کہ بھائی کا داماد ہے ۔۔۔۔”
“امی آپ کو یاد ہے جب دانیہ والا واقعہ ہوا اس کہ بعد سے معراج حویلی نظر نہیں آیا آخری بار اسے پنچائیت میں دیکھا تھا اس کہ بعد تو اس کا سایہ بھی نظر نہیں آیا۔۔۔۔۔”
“ہاں راحب یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں وہ تو اماں جان کہ جنازے میں بھی نظر نہیں آیا تھا کہنے کو نانی ہے اس کی۔۔۔”
“اس کا مطلب ہے عینو ٹھیک کہہ رہی تھی ۔۔”
راحب پرسوچ انداز میں بڑبڑایا۔۔۔
کیا کیا کہہ رہی تھی؟؟
“کچھ کچھ نہیں امی بس وہ ویسے ہی ۔۔۔”
رات کافی ہوگئی ہے آپ نے سونا نہیں ہے ؟
راحب نے فوراً بات بدل لی مبادا نجمہ اس سے پوچھ ہی نہ لیں۔۔۔
“ہاں بس جارہی ہوں تم بھی آرام کرو ۔ ۔۔۔”
وہ لائٹ آف کرتی ہوئی کمرہ سے نکل گئیں ۔۔۔۔۔
راحب نے دودھ کا گلاس ختم کرکہ سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔۔۔ اور سامنے لیب ٹاپ آن کر کہ بیٹھ گیا :
ڈسپلے پر دانیہ کی تصویر جگمگا رہی تھی ۔۔۔
“پتا نہیں میں تمھیں کبھی بھول پاوں گا بھی یا نہیں ۔۔۔ لیکن تم تو جانتی ہو نہ سب ، تمہاری ناگہانی موت کا سبب میں نہیں ہوں ۔۔ اور میں ہو بھی نہیں سکتا دانی ۔۔۔۔ اتنے سال گزر جانے کہ باوجود بھی تم لمحہ بہ لمحہ میرے دل و دماغ پہ چھائی ہوئی ہو ۔۔۔۔۔۔ اس تلخ حقیقت کہ باوجود کہ تم اب مجھے کبھی نہیں ملو گی ۔۔ لوگوں کہ پاس ایک امید ہوتی ہے میرے پاس تو ساری امیدیں ہی دم توڑ گئیں ۔۔۔۔ پھر بھی میں تم سے آج بھی اتنی ہی محبت کرتا ہوں جتنا کہ پہلے کرتا تھا کاش میرے اختیار میں ہوتا تو میں کب کا تمھیں واپس لاچکا ہوتا ۔۔۔۔۔۔ میں آج بھی اتنا ہی بے بس اور مجبور ہوں جتنا کہ پہلے تھا ۔۔۔۔ اتنے سال گزر جانے کہ بعد بھی میں وہیں کھڑا ہوں جہاں سے چلا تھا۔۔۔ میں اگے ہی نہیں بڑا اور نہ ہی میں اگے بڑھ سکتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔”
سوچوں کہ بھنور میں ایسا پھنسا کہ پتا ہی نہیں چلا کب نیند اس پر حاوی ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
___________________________
عنایہ !
عنایہ !!!
عنایہ کہاں ہو تم ؟؟؟
وہ آوازیں لگاتا ہوا کچن کی جانب آیا تو کچن کا سارا سامان تہس نہس ہوچکا تھا ۔۔۔۔ ٹوٹے ہوئے شیشہ کہ کانچ جابجا فرش پر بکھرے ہوئے تھے ایک دو کانچ تو خون سے رنگے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔
درراب تقریباً بھاگتا ہوا بیڈ روم میں پہنچا کمرہ کا حال بھی کچن سے کم نہ بگڑا ہوا تھا ۔۔۔ وارڈ روب کہ چاروں پٹ چوپٹ جس میں سے آدھے کپڑے اندر اور باقی قالین پر بکھرے ہوئے تھے۔۔۔۔
واش روم کا دروازہ بند تھا اس نے ناب گھمایا وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔۔۔
عنایہ عنایہ !!
پریشانی سے پیشانی مسلنے لگا ۔۔۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا وہ لاونج میں آیا۔۔۔ گیسٹ روم چیک کیا وہاں بھی عنایہ نہیں تھی ۔۔۔
اخر کہاں جاسکتی ہے اور کون آیا تھا ؟؟
اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ایک ڈر تھا کہ عنایہ ٹھیک ہو بس ۔۔۔۔
وہ بھاگتا ہوا پورچ کی جانب آیا کوارٹر کی جانب دیکھا جہاں ہنوز تالا لگا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ خالہ بی کہ بعد سے وہاں کوئی نہیں آیا تھا۔۔۔۔
یک دم اسے اسٹور کا خیال آیا ۔۔۔ وہ واپس گھر میں آیا اور اسٹور کا ناب گھمایا چاروں طرف اندھیرا تھا ۔۔۔ اندازے کہ مطابق نپے تلے قدم اٹھائے کہ نرم چیز بوٹوں تلے دبی ۔۔۔
وہ دو زانو ہو کر بیٹھا اور دھیرہ سے پکارا۔۔۔
کون کون ہے ؟؟
آواز حلق میں ہی پھنس گئی تھی اتنا خوف تو اسے کبھی محسوس نہیں ہوا تھا جتنا آج لگ رہا تھا ۔۔۔
ہاتھ تھاما تو لمحوں کہ ہزارویں حصہ میں پہچان گیا کہ وہ زمین پہ پڑا وجود کس کا ہے لیکن وہ دروازہ کی اوٹ میں چھپے شخص کو نہ دیکھ سکا۔۔۔
نقاب پوش شخص نے گن درراب کی کن پٹی پر رکھ دی ۔۔۔۔۔۔۔
ڈی ایس پی دونوں ہاتھ اوپر کو اٹھاو؟؟؟
درراب نے گردن موڑ کر اس شخص کو دیکھنا “چاہا جو عین اس کہ پیچھے گن تانے ہوئے تھا ۔۔
نہ نہ ڈی ایس پی سیدھے کھڑے ہوجاو تمہاری گردن ہلی تو تم سیدھا اوپر جاو گے ۔۔۔”
موبائل نکالو جیب سے ؟
درراب نے موبائل نکالا ۔۔۔
‘لگاو اس اسپیکٹر کا نمبر اور اس سے کہو باو کو رہا کرے۔۔۔’
“جیل ہی گیا ہوا ہے نہ وہ۔۔”
کون ہو تم ؟؟
“بہت جلد پتا چل جائے گا ڈی ایس پی درراب ۔۔
تم سے تو بہت سے ناطے ہیں ہمارے ۔۔۔”
نقاب پوش نے خباثت سے کہا :
“ٹھیک ہے تم جیسا کہو گے ویسا کروں گا۔ ۔۔۔۔۔”
درراب کی نگاہ بار بار بے سدھ پڑے وجود پہ بھٹک رہی تھی اسے اپنی نہیں تھی فکر لیکن عنایہ کہ لئے وہ زرہ بھی کوتاہی کرنے کو تیار نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
“اس سمے اسے دین کی بات بہت شدت سے یاد آئی تھی کاش وہ اس کی مان لیتا ۔۔۔۔۔”
“لاوڈ اسپیکر ان کر ۔۔۔”
درراب کو دین کا نمبر ڈائل کرتے دیکھ اس نے کرختگی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
جی سر ؟
“دین باو اور اس کہ ساتھی کو رہا کردو ۔۔۔۔”
کیا سر کیا کہہ رہے ہیں ؟؟
“جو کہہ رہا ہوں وہ کرو ہری اپ ۔۔۔”
“لیکن سر ان دونوں کا کیس تو کوٹ میں جمع ہوچکا ہے اور کل ان کی ہیرنگ ہے عدالت میں ۔۔۔”
“وہ سب تم مجھ پر چھوڑ دو جو کہا ہے وہ کرو آٹس مائے آرڈر ۔۔۔۔”
“یس سر۔۔۔”
درراب کہ ہاتھ سے موبائل چھوٹ گیا ۔۔۔۔۔۔
____________________________
دین سر درراب کال اٹینڈ کیوں نہیں کررہے؟؟؟
” سر مجھے انہوں نے آرڈر دئیے ہیں کہ باو کو رہا کردیا جائے ۔۔۔ سر بہت بڑی مشکل میں پھنس گئے ہیں ورنہ وہ اپنا سر تن سے تو الگ کروا سکتے ہیں لیکن باو کو چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔۔”
“ان کا موبائل کا بند ہوجانا ایک موقع یا اشارہ ہے ۔۔۔”
پھر دین اب کیا کرو گے تم میں تو یہاں آیا ہوا ہوں ؟؟؟
“سر فرروخ آپ کو میں داد بخش کا پتا دیتا ہوں جہاں آپ قیام پذیر وہ وہاں سے زیادہ دور نہیں ہے آپ فوراً اسے گرفتار کروا لیں ۔۔۔۔۔ ۔ ”
“میں اس باو کا کچھ کرتا ہوں ۔۔۔۔”
“اوکے دین ۔۔۔”
____________________________
درراب دونوں ہاتھ اوپر کیے گھٹنوں کہ بل جھکا ہوا تھا جب کہ عنایہ وہیں اسٹور روم میں تھی ۔۔۔۔۔۔۔
“ہاں تو ڈی ایس پی نکل گئی ساری اکڑ بڑا آیا تھا انصاف کا ڈنکا بجانے ۔۔۔”
درراب نے اس خونخوار نظروں سے گھورا ۔۔۔۔
تو جاننا چاہتا ہے نہ کون ہو میں ؟؟
نقاب پوش نے اپنا نقاب نیچے کی جانب کھینچا ۔۔۔۔۔
تم ؟؟؟؟
“تم تو ضعیم انکل کہ بھانجے ہو ۔۔”
درراب نے نا سمجھی سے اسے دیکھا ۔۔۔۔۔۔
“واہ واہ ڈی ایس پی تو تو بڑا ذہین نکلا ۔۔۔۔ ماننا پڑے گا بھئ۔۔۔۔”
لیکن ایک جگہ مات کھا گیا تو میں تیری بہن کا ہونے والا شوہر بھی تھا۔۔۔۔۔ وہ جو تیرا باپ ہے نہ میرے ماما کا یار !! اس نے سارا گیم بگاڑ دیا ورنہ تو اور تیری بیوی ابھی اوپر ہوتے ۔۔۔۔۔۔
“ویسے تیری بیوی بھی بڑی کمال کی چیز ہے ۔۔۔۔”
معراج نے کمینگی سے کہہ کر بائیں انکھ دبائی۔۔۔۔
اپنی حد میں رہ کر بات ۔۔۔۔ اور اپنی ڈیمانڈ بتا جو بھی ہے؟؟؟؟
“ایک تو بتا دی اور دوسری یہ کہ تیری تو اپنی بیوی سے بنتی نہیں ہے بتا رہا تھا ماما تو بڑا ظلم کرتا ہے بے چاری پر ۔۔۔ ”
اس کا کوئی قصور نہیں ہے قصور تو تیرے سالے کا بھی نہیں ہے وہ کیا ہے نہ مجھ سے تھی اس کی دشمنی ۔۔۔۔ وہ بے چارہ تیری بہن کہ بارے میں غلط نہیں سن سکا ۔۔۔۔
میرا شکار تو وہ ہی تھا لیکن اب تیری بہن بیچ میں آگئی ۔۔۔ ۔۔ چل تو کلمہ پڑھ لے تو بھی بہت جلد اپنی بہن سے ملنے والا ہے ۔۔۔۔ اور ہاں اس کی فکر بلکل نہ کریو ۔۔۔ رانی بنا کر رکھوں گا تیری بیوہ کو ۔۔۔۔۔۔۔”
ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا!!!!!!!
طوفانوں کی زد میں آیا ہوا درراب کا تو دماغ کی سن ہوچکا تھا ۔۔۔۔
“میرا بھائی ایسا کبھی کر ہی نہیں سکتا ۔۔۔۔”
“جس دن تم پر سچائی واضح ہوگی اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی مسٹر درراب شاہ ۔۔۔۔”
میرا بھائی محبت کرتا تھا تمہاری بہن سے وہ نہیں مار سکتا ۔۔۔۔”
“تمھیں کیا پتا کون کس قماش کا ہے تم تو پہلی دفعہ گاوں آئے تھے۔۔۔”
آنسووں میں ڈوبی آنکھیں ، اور نم لہجہ کی التجائیں ۔۔۔۔ کیا کچھ نہیں تھا جو آج اس پر ایک پہاڑ بن کر ٹوٹا تھا ۔۔۔۔
وہ کہتی رہی بار بار کہتی رہی لیکن وہ تو کچھ سننا ہی نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔۔
“اور آج قسمت نے اسے وہاں لاکر مارا تھا جہاں پانی تک نہیں تھا۔۔۔۔”
کون ہے بے کیوں پریشان کررہا ہے ؟؟؟
معراج کو موبائل کا بجنا بد مزہ کر گیا تھا ابھی تو وہ اور بھی انکشاف کرتا۔ اور بھی رازوں سے پردہ اٹھاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باو تو رہا ہوگیا ؟؟
باو کا نام سن کر درراب ڈھے گیا تھا ۔۔۔۔ جس کیس کو وہ خفیہ طریقے سے حل کررہا تھا وہ اس طرح سے ختم ہوا تھا ۔۔نہ ظالم کو ظلم کی سزا ملی تھی نہ اس کی بہن کو انصاف ۔۔۔۔۔
یہ تو آٹک آٹک کر کیوں بول رہا ہے ؟؟؟
“تو فکر نہ کر ایسا بدلہ لوں گا اس ڈی ایس پی سے کہ انصاف کا سوچتے ہی کانپے گا۔۔۔۔۔”
ہاں ہاں باو اسے بھی اس کی بہن کہ پاس بھیج کر ہی آوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
____________________________
امی مجھے لیٹ ہورہا ہے آپ جلدی کریں نہ ؟
“میں کہہ تو رہی ہوں چلی جاوں گی تم جاو اپنے آفس ۔۔۔۔”
“کہاں رکشوں میں خوار ہوں گی جب اپنی سہولت موجود ہے تو ۔۔۔”
“اچھا دادی ماں چل اب زیادہ باتیں نہ بنا ۔۔۔۔”
ویسے آپ جا کہاں رہی ہیں ؟
“نجمہ سے ملنے جارہی ہوں ۔۔۔”
عینو بھی آئی ہوئی ہے ؟
“نہیں وہ تو اپنے گھر ہے ۔۔۔ ”
“چلیں امی میں بھی اس بہانے آنٹی سے مل لوں گی پھر وقت نہیں ملے گا ۔۔۔۔”
“ہاں ہاں چلو ضرور چلو ۔۔۔۔”
پانچ منٹ کہ سفر کہ بعد ڈرائیو نے انھیں راحب مینشن میں اتارا۔۔۔۔
واپسی کا کیا ارداہ ہے اپ کا ؟؟
“میں اجاوں گی خود تم فکر مند نہ ہو ۔۔۔”
“امی آپ مجھے بتادیں تاکہ میں ڈرائیور بھیج دوں گی ۔۔۔۔۔”
مینشن زیادہ بڑا تو نہ تھا لیکن نفاست سے بنا ہوا تھا ۔۔۔ سفیید سنگ مرمر سے تراش خراش کی گئی تھی۔۔۔۔
پورچ عبور کر کہ وہ دونوں اندر کی جانب آئیں تو پورا لاونج میں کارپیٹ بچھا ہوا تھا۔۔۔۔ تھوڑا اگے جاکر صوفہ وغیر سیٹ کئے گئے تھے ۔۔۔۔۔
“امی مجھے دیر ہورہی ہے آفس میں کرلوں گا ناشتہ ۔۔۔۔”
“اسلام و علیکم ”
مونا نے آواز بلند سلام کیا ۔۔۔
راحب عجلت میں گھڑی باندھ رہا تھا۔۔۔
وعلیکم سلام آو آو مونا وہاں کیوں کھڑی ہو ؟؟؟
“اسلام و علیکم آنٹی ۔۔۔۔”
بیک وقت راحب نے مونا کو اور فوزیہ نے نجمہ کو سلام کیا تھا۔۔۔
نجمہ انھیں لے کر ڈائنگ روم کی طرف چلی آئی جبکہ راحب نے معذرت کرلی کیوں کہ اسے آج آوٹ اف سٹی جانا تھا ۔۔۔۔
“پہنچ کر اطلاع کردینا راحب ۔۔۔۔”
“جی جی امی کردوں گا اللہ حافظ ۔۔۔”
“اللہ کی امان میں جاو ۔۔۔”
مجھے لگتا ہے میں غلط وقت پر آگئی ؟
مونا نے صاف گوئی سے کہا :
“نہیں بلکل ٹھیک وقت پر آئی ہو میں اکیلی ہوں اب یہ تو دو تین دنوں کیلئے آوٹ اف سٹی جارہا ہے ۔۔۔۔”
“ماشاء اللہ یہ فوزیہ تو بہت پیاری ہوگئی ہے ۔۔۔”
“اج کل کہ بچوں کو نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا جب دیکھو کام کو سر پر سوار رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔”
“ہاں یہ بات تو ہے ۔۔۔”
انٹی عینو کیسی ہے ؟
“میری تو خود اس سے بات نہیں ہوتی ظالموں نے اس پر ظلم کہ پہاڑ توڑ دیئے۔۔۔”
:میرے دونوں بچوں کہ جانی دشمن بنے ہوئے ہیں ۔۔”
کیوں نجمہ راحب کے کیوں پیچھے پرھ گئے؟؟؟
“ارے وہی دانیہ کہ قتل کا الزام ۔۔۔”
تو کیا ابھی تک یہ معاملہ نہیں نبٹایا کیا ؟
“نہیں کہاں وہ تو عینو کو ملنے تک نہیں دیتے اماں جان کہ جنازے پر بھی ضعیم نے ان کہ پاوں پکڑے تھے تب کہیں جا کر اسے بھیجا۔۔۔۔ ”
کیا دادو کا انتقال ہوگیا ہے؟؟؟
ہاں چار مہینہ پہلے ۔۔۔ مونا تم نے بتایا نہیں ؟
“اتنا کوئی اہم نہیں ہے اس کیلئے کہ اسے بتاوں ۔۔۔”
مونا نے فوزیہ کو گھورا۔۔۔۔۔۔۔
“اچھا آنٹی مجھے دیر ہورہی ہے میں نکلتی ہوں اب ۔۔۔”
فوزیہ نے زبردستی مسکراہٹ منہ پہ سجاتے ہوئے کہا ۔۔۔
“ارے بیٹا بیٹھو تو سہی میں ناشتہ لگواتی ہوں۔۔۔”
“بہت شکریہ آنٹی ناشتہ میں کر کہ ہی آئی تھی ۔۔۔ عینو سے بات ہو تو بتائیے گا ۔۔۔ ”
“اچھا بیٹا۔۔۔۔”
__________________________