“سائیں بڑی پکی خبر دی تھی میں نے تجھے، اس کی قسمت اس کا بھرپور ساتھ دے رہی ہے اوپر سے اس کا باپ ہٹلر ہے ۔۔۔۔”
“تجھے اپنے ماما کہ اگے ڈھنڈھورا پیٹنے کی کاہے جرورت تھی دیکھ لے بچا گیا نہ اس ڈی ایس پی کو ۔۔۔۔۔۔”
“مجھے کیا پتا تھا سائیں میرا ماما دوغلہ نکلے گا اج بھی اسے اپنی دوستی عزیز ہے جاکر میرے دشمنوں کو خبر دے دی ۔۔۔۔۔۔”
“تو رہن دے تو یہاں سے اپنی شکل گم کر میں خود ہی نبٹ لوں گا۔۔۔ تو جاکر رشتہ داریاں نبالے (نبھالے)۔۔۔”
داد بخش نے پان کی پیک تھوکی ۔۔۔۔
ہوش کہ ناخن لے سائیں میں کہیں نہیں جارہا ماما کو کیا کہوں گا ؟؟؟
“اوئے چل اوئے میرا متھے نہ لگ آیا بڑا ماما کو کیا کہوں گا ۔۔۔ اس سے پہلے تو تو اس کا بہت سگا تھا نہ ۔۔۔”
“بہت کمینہ ہے تو سائیں ۔۔”
“دفع ہورہا ہے یا اٹھاوں چپل ۔۔۔”
“یاد رکھیو سائیں ایک دن تو اپنی باتوں کی وجہ سے ہی مرے گا ۔۔۔۔”
معراج کی بات پر داد بخش چرپائی چھوڑ کر اٹھ بیٹھا اور جا کر اس کا گریبان پکڑ لیا۔۔۔
کیا بک رہا تھا بک اب؟؟
لال انگارہ انکھیں اس کہ زرد چہرہ پہ گاڑے ہوئے تھا۔۔۔
“سائیں بہت مہنگا پڑے گا یاد رکھنا تو ۔۔۔”
معراج نے جھٹکہ سے اپنا کالر چھڑوایہ اور وہاں سے نکل گیا۔۔۔
“جا جا !! دیکھ لوں گا تیری مہنگائی اور سستائی۔۔۔”
“پیدا ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہووے اور چلا ہے مجھے دھمکانے۔۔۔۔۔”
معراج نے اٹھتے ابال کو بمشکل دبایا اور بنا رکے وہاں نکل آیا ۔۔۔۔۔ کیوں کہ یہ داد بخش کا ڈیرہ تھا اس کہ ایک اشارہ پہ داد اس کہ ٹکڑے کروا سکتا تھا۔۔۔۔
_________________________
“میم یہ سر راحب ہیں احمد انٹرپرائیزنگ کمپنی کے اونر ۔۔۔۔”
اسلام و علیکم ہاو آر یو ؟؟
راحب نے بروقت اپنے آپ کو سنبھالا اور قاتلانہ مسکراہٹ کہ ساتھ دونوں بازو ٹیبل پر رکھے۔۔۔۔
“سر یہ ۔۔۔”
“یس مس مہرین یہ ارٹس اینڈ ڈیزائن کمپلیکس کی مینجر مس فوزیہ ہیں ۔۔۔۔”
مہرین کہ ادھورے تعارف کو راحب نے مکمل کیا تھا۔۔۔۔۔
“وعلیکم سلام ایم فائن ۔”
واٹ ابوٹ یو ؟
“ایم آلسو ۔۔۔”
فوزیہ نے ازلی اعتماد کہ ساتھ کہا ۔۔۔۔
بلیک ائیر لائن فراک پہنے چوڑی دار پجامہ اسکارف کہ ہالے میں موہنہ چہرہ لیے وہ پروقار اور شائستہ سی لگ رہی تھی ان ماہ و سال نے اسے یکسر تبدیل کردیا تھا وہ سہمی سہمی سی عینو کہ ساتھ رہنے والی فوزیہ تو کہیں سے نظر نہیں آرہی تھی۔۔۔۔۔۔
“یور ورک اس ٹرویلی اپریشیٹیڈ۔۔
آپ کا کام سچ میں تعریف کہ لائق ہے”
راحب تعریف کئے بنا نہ رہ سکا ۔۔۔
“تھینکس سر ۔۔۔”
فوزیہ نے ہلکے سے سر کو خم دیا تھا ۔۔۔۔
رانیہ آپ مسٹر راحب کو فائلیں دیں ۔۔۔
فوزیہ کہ کہنے پر سرعت سے وہ کرسی سے اٹھی اور ہاتھ میں پکڑی فائل اس کہ اگے کی۔۔۔۔
راحب ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے اطمینان سے بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔۔
“نیکسٹ کنٹریکٹ بھی میں آپ سے ہی کروانا چاہوں گا ۔۔۔”
” وائے نوٹ ، شیور سر ۔۔۔”
مہرین آپ وہ کنریکٹ پیپر انھیں دے دیں؟
“یس سر ۔۔۔”
“نائس تو میٹ یو مس فوزیہ۔۔۔”
“امید کرتا ہوں آپ میرے ساتھ پورا تعاون کریں گی ۔۔۔۔”
فوزیہ نے کرنٹ کھا کر اس کہ چہرہ کو دیکھا تھا ۔۔۔
راحب کی چمکتی انکھیں بہت کچھ باور کروا چکی تھیں ۔۔۔۔
وہ نظریں چرا گئی تھی۔۔۔۔
میم ؟
“یس ۔۔۔”
“ڈرائیور آچکا ہے ۔۔۔؟
سیکرٹری کی اطلاع پر فوزیہ نے اپنے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا :
“اوکے مسٹر راحب اللہ حافظ ۔۔۔”
فوزیہ کہہ کر کھڑی ہوگئی۔۔۔ راحب بھی اسی کی تقلید میں اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔
سہج سہج قدم اٹھاتی ہوئی وہ ہال عبور کرگئ۔۔۔۔۔۔ اس کہ پیچھے اس کی سیکرٹری نے قدم بڑھادینے ۔۔۔۔
“اگر عینو بھی اپنی تعلیم مکمل کرلیتی تو آج وہ بھی اتنی قابل اور ہونہار ہوتی۔۔۔۔ ”
انکھوں کہ گوشہ نم ہونے لگے تھے ۔۔۔۔
چلیں سر ؟
مہرین کہ کہنے پر وہ تلخ یادوں کو جھٹک کر گلاس ڈور دھکیل کر ہال عبور کرگیا ۔۔۔۔۔۔۔
____________________________
وہ اسٹیشن جانے کہ لئے یونیفام چینج کرچکا تھا ۔۔۔۔۔
کیپ پہن کر کمرہ سے نکل گیا ۔۔۔۔
عنایہ کپوں میں چائے نکالنے لگی ۔۔۔
درراب کو باہر جاتا دیکھ کر پکار اٹھی۔۔۔
ناشتہ کرلیں؟
درراب کی توقع کہ عین مطابق وہ چپ کا قفل توڑ گئی تھی لبوں پہ آئی مسکراہٹ کو دباتا ہوا وہ پلٹ کر ٹیبل کی جانب چلا ایا۔۔۔۔
نفاست سے ناشتہ ٹرے میں سجا تھا وہ گزرتے وقت کہ ساتھ رکھ رکھاو والی اور سگھڑ ہوتی جارہی تھی۔۔۔۔۔
خالہ بی کہ جانے کہ بعد پریشانی تو اٹھانی پڑی تھی لیکن وہ بہت جلد کھانا بنانا سیکھ گئی تھی اور دیگر کام بھی احسن طریقہ سے کرتی تھی ۔۔۔۔
درراب کہ آدھے سے زیادہ کام وہ خود اپنے ہاتھ سے کرتی تھی ۔۔۔ وہ بھی اس کا عادی ہوتا جارہا تھا شاید یہ ہی وجہ تھی کہ جیسے ہی اسے بابا جان سے عنایہ کہ جانے کی خبر ملی تھی وہ ان ڈیوٹی ایک کیس چھوڑ کر بھاگا چلا آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
عنایہ کو اس کی نظریں پزل کئے جارہیں تھیں وہ پہلو پہ پہلو بدل رہی تھی اور ایک وہ تھا جو نگاہ بھی نہ جھپکا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخر کار عنایہ ٹیبل چھوڑ کر کھڑی ہوگئی۔۔۔۔
درراب نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے جانے سے روکا ۔۔۔
کہاں؟؟
“آپ مجھے اسی طرح گھورتے رہیں گے تو مجھ سے ناشتہ نہیں کیا جائے گا۔۔۔”
تو تمھیں میرا دیکھنا برا لگ رہا ہے ؟
“ہاں ۔۔”
عنایہ کہ ایک لفظی جواب پر درراب نے اس کی کلائی چھوڑ دی تھی ۔۔۔۔۔
“جبھی تم اپنے بھائی کہ ساتھ اسلام آباد جارہی تھیں وہ تو میں بروقت پہنچ گیا تھا تم نے پوچھنا تو درکنار اطلاع دینا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ”
“افسوس صد افسوس آپ بھی کچے کانوں کہ ہی نکلے حیرت ہے مجھے ایک پولیس افیسر یک طرفہ بات پر کیسے کان دھر سکتا ہے۔۔۔۔”
عنایہ نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا ۔۔۔
درراب کا چہرہ اہانت کہ احساس سے سرخ ہوچکا تھا ۔۔۔
“عنایہ تم میری نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہو”
لب و لہجہ یک دم سرد پڑگیا تھا پہلے والی خلوصیت غائب ہوچکی تھی ۔۔
فائدہ ؟؟؟
“فائدہ تو آپ اور حویلی والوں نے مل کر اٹھایا ہے میری بے بسی کا ، میری کمزوری کا ، ۔۔۔
اب نہیں بلکل نہیں ۔۔۔
میں خاموش ہوں تو مجھے خاموش رہنے دیں ۔۔۔۔
ورنہ پھر آپ بولنے کہ قابل نہیں رہیں گے۔۔۔۔”
کیوں کیا تم نہیں جارہیں تھیں اپنے بھائی کہ ساتھ؟؟؟؟
“میں آپ کو صفائی دینے کی پابند نہیں ہوں جو سمجھنا ہے سمجھیں ۔۔ مجھے میرے ہال پر چھوڑ دیں۔۔۔۔”
“اوکے اس بات کو یہیں ختم کرو ۔۔۔ اگر چاہتی ہو کہ میں ناشتہ کرکہ جاوں تو بیٹھ کر ناشتہ کرو ۔۔ ۔”
عنایہ اسے گھور کر رہ گئ تھی ظاہر سی بات تھی اگر وہ ناشتہ نہ کرتا تو اس نے بھی نہیں کرنا تھا۔۔۔۔ اس لئے بنا درراب کو دیکھے واپس سیٹ پر بیٹھ گئی۔۔۔
“دل کہ معاملہ میں ہر انسان بے بس ہوجاتا ہے ”
وہ بیٹھ تو گئی تھی لیکن اسے اب درراب کی چکنی چپڑی باتوں میں نہیں آنا تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ تہییہ کرچکی تھی۔۔۔۔
___________________________
“سر ان دونوں نے الزام قبول کرلیا اور اپنے خفیہ جگہ کا پتا بھی بتادیا ۔۔۔۔۔۔”
“ویلڈن دین یہ تو بہت اچھی نیوز ہے ۔۔۔”
“جی سر ۔۔۔”
“چلو آج ان سے ملاقات کا شرف بخشتے ہیں ہم بھی تو دیکھیں کیا تواضع ہوئی ہے ۔۔۔”
“ہاہاہاہا سر ضرورت سے زیادہ ہی تواضع ہوگئی ہے وہ کیا ہے نہ گھی اگر سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی تیڑھی کرنی پڑتی ہے ۔۔۔”
دین نے کان کہ قریب اکر کہا۔۔۔
درراب کا فلگ شگاف قہقہہ بلند ہوا تھا ۔۔۔۔
“تم تو کام کہ آدمی بنتے جارہے ہو ۔۔۔”
“آپ کی نظر عنایت ہے سر ۔۔۔”
دین نے مودبانہ کہا :
“چلو تم ڈرائیور سے کہو کہ گاڑی نکالے میں آتا ہوں تھوڑی دیر تک ۔۔۔”
دین سیلوٹ دے کر کیبین سے نکل گیا ۔۔۔۔۔۔۔
موبائل کو دیکھ کر عنایہ کا چہرہ اس کے سامنے آگیا ۔۔۔
کچھ سوچ کر اس نے لینڈ لائن نمبر پر کال کی ۔۔۔۔
دوسری طرف سے کوئی رسپونس نہیں ملا تو دوبارہ کال کی ۔۔۔۔ اس بار بھی جواب ندارد ۔۔ درراب حقیقتاً پریشان ہو اٹھا ۔۔۔ عنایہ کبھی اتنی دیر نہ لگاتی تھی ۔۔۔۔۔ ایک دو بیل پر وہ فوراً ریسیور اٹھا لیتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
“گھر کی طرف لے چلو ۔۔۔۔”
فرنٹ سیٹ پر بیٹھا موبائل ہاتھ میں مقید تھا وقتاً فوقتاً وہ کال پہ کال ملائے جارہا تھا۔۔۔۔۔
“دین میں گھر جارہا ہوں تم جیل پہنچ کر ان سے باقی کہ اڈوں کا بھی پتا لگواو یہ کام آج ہی ہوجانا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
پچھلی سیٹ پر بیٹھا دین فوراً الرٹ۔ ہوا تھا۔۔۔
سر سب خیر ہے نہ ؟؟؟
“دین میں گھر کال کررہا ہوں لیکن کوئی ریسیو ہی نہیں کررہا ۔۔۔۔”
“سر آپ پریشان نہ ہوں مصروف ہوں گے ۔۔۔”
دین بھی پریشان ہو اٹھا تھا کیوں کہ درراب چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہونے والا بندہ نہیں تھا لیکن دلاسہ دینا بھی ضروری تھا۔۔۔۔۔۔۔
سر آپ کہیں تو میں آپ کہ ساتھ چلوں اندر ؟؟
“نہیں دین میں دیکھ لوں گا تم فوری طور پر جیل روانہ ہوجاو ۔۔۔”
“بہتر سر ۔۔۔”
____________________________
پورا کمرہ نیم تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا نجمہ نے ہاتھ بڑھا کر لائٹ کا بٹن دبایا ۔۔۔ راحب جو انکھوں پہ بازو رکھے لیٹا تھا اٹھ بیٹھا۔۔۔۔
“ارے امی آپ مجھے بلالیتیں۔۔۔”
نجمہ نے ہاتھ میں پکڑا دودھ کا گلاس راحب کو تھمایا۔۔۔۔۔
کھانا کیوں نہیں کھایا ؟؟
“بس امی بھوک نہیں تھی۔۔”
آپ نے کھالیا ؟
“ہاں مجھے تو دوائی کھانی ہوتی ہے تو بھوک لگے نہ لگے کھانا تو کھانا ہی ہے ۔۔۔”
“اچھا کیا امی ۔۔۔۔”
راحب ؟؟؟
“جی امی ۔۔”
کیا بات ہے ؟
“کچھ نہیں امی کیا بات ہونی ہے ۔۔۔”
راحب کی زبردستی مسکراہٹ پر وہ اسے دیکھے گئیں۔۔۔۔
تمہارے باپ نے کچھ کہا ہے ؟؟؟
“ارے امی کسی نے کچھ نہیں کہا آپ خوامخواہ پریشان ہورہی ہیں۔۔۔”
آج افس میں کچھ ہوا ہے ؟؟
“اپ پوچھ کر ہی رہیں گی اخر ۔۔۔”
راحب نے ناراضگی سے کہا :
“ہاں کیوں کہ تمہارے چہرہ پہ صاف لکھا ہے ۔۔۔”
امی کیا ساری مائیں ایسی ہوتی ہیں کہ اپنے اولاد کی دکھ و تکلیف اور خوشی کو ان کہ چہرہ سے پڑھ لیتی ہیں؟؟
راحب نے نجمہ کی گود میں سر رکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
“ہاں راحب سب مائیں اپنے جگر گوشئہ کیلئے فکر مند رہتی ہیں انھیں پتا چل جاتا ہے۔۔۔ اللہ نے تمام ماووں کی چھٹی حس بہت تیز رکھی ہے ۔۔۔۔۔”
“ایک ماں اور باپ یہ دو ایسے رشتہ ہوتے ہیں جن کا دنیا میں کوئی نعم و بدل نہیں ہوتا ۔۔۔۔”
ماں جو اپنی اولاد کی تکلیف اور دکھ محسوس کرسکتی ہے وہ کوئی اور نہیں کرسکتا ۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے منہ کا نوالہ بھی خوشی خوشی اپنے بچہ کو کھلا دیتی ہے ۔۔۔۔ جبھی تو اللہ تعالی نے اپنے بندوں سے محبت کی مثال ایک ماں کی محبت سے دی ہے ۔۔۔”
“کہ میں اپنے بندوں سے ستر ماوں سے زیادہ محبت کرتا ہوں ۔ ۔۔۔۔ جیسے ماں اپنے بچے کی ہر غلطی معاف کردیتی ہے ایسے اللہ تعالی بھی اپنے بندوں کہ گناہوں کو معاف کردیتا ہے ۔۔۔۔۔۔ ”
__________________________