“اسپیکٹر صاحب میں سچ کہہ رہا ہوں میں یہاں دس منٹ پہلے ہی پہنچا ہوں مجھے نہیں معلوم وہ لوگ کون تھے اور اس آدمی سے ان کی کیا دشمنی تھی ؟ میں تو دو وقت کی روٹی کمانے والا آیک غریب آدمی ہوں جی ۔۔۔۔”
کیا کام کرتے ہو تم؟؟؟
درراب نے سیاہ گلاسس میں چھپی چمکتی انکھوں سے اس کہ حلیہ کا جائزہ لیا۔۔۔۔
سفید ملگجے قمیض شلوار پہنے ہوئے کان کہ پیچھے بالوں میں چاندنی چمک رہی تھی جھریاں زدہ چہرہ پر زمانے بھر کی بیچارگی چھائی ہوئی تھی۔۔۔
ماتھے پہ آئے پسینہ کو آستین سے صاف کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔
“میری الیکڑیشن کی دکان ہے صاحب جی۔۔۔”
“ہممم پریشان نہیں ہونا ابھی تم اپنا کام کرو ضرورت پڑی تو پولیس اسٹیشن بلوا لیا جائے گا ۔۔۔۔۔”
درراب نے گردن گھما کر جاء وقوعہ کو دیکھا جہاں اب تفتیشی اہلکار جانچ پرتال کررہے تھے۔۔۔۔
“جی صاحب ۔۔۔”
وہ شخص دو لفظی جواب دے کر دکان کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔
سر ؟؟؟
ہاں دین!!!!
“سر اس جگہ سے یہ کچھ چیزیں ملی ہیں۔۔۔”
انگوٹی جس میں یاقوت جڑا ہوا تھا اور سرمئی وائلٹ تھا جس میں آئی ڈی کارڈ اور کریڈٹ کارڈ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
“یہ چیزیں لے کر اسٹیشن پہنچو مجھے ایک جگہ جانا ہے ۔۔۔'”
“بہتر سر ۔۔۔”
دین محمد چیزیں لئے گاڑی میں جاکر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بھی وہیں کھڑی پولیس موبائل کی طرف چلا گیا۔۔۔۔۔۔
اس کہ بیٹھتے ہی وردی میں ملبوس ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص نے اگنیشن میں چابی گھمائی۔۔۔۔۔۔
تبھی درراب کہ ہاتھ میں پکڑا۔ موبائل تھرتھرایا۔۔۔۔۔۔
جی بابا جان ؟
ناحلف ، نافرمان اولاد کہاں ہو تم ؟؟؟
سکندر صاحب کی آواز آئیر پیس سے ابھری تو بے اختیار درراب نے گردن موڑ کر ڈرائیور کو دیکھا:
خیریت بابا جان ؟؟
خیریت کہ بچے وہاں جاکر سب بھول گئے ہو؟؟ کہاں ہے تمہاری بیوی؟؟؟
سکندر صاحب کی بات پر کئی بل سفید پیشانی پر نمایاں ہوئے۔۔۔۔۔
“جہاں ہونا چاہیئے وہیں ہے ۔۔۔ ”
بات کیا ہوئی ہے؟؟؟
شرم آتی ہے تمھیں اسے وہاں چھوڑ کر تم کراچی چلے آئے لائے گا کون تمہارا باپ ؟
بابا جان آخر جو بات ہے آپ بتاتے کیوں نہیں ہیں؟؟
درراب کی برداشت سے باہر ہونے لگا تو جنجھلاتے ہوئے کہا:
واہ برخوردار سارا زور باپ پہ ہی نکالنا ذرا اپنی بیوی کی بھی خیر خبر لے لو ؟
کیا ہوا ہے اسے؟
“وہ اسلام آباد جارہی ہے اپنے قاتل بھائی کہ ساتھ آزادی کا پروانہ جو مل چکا ہے ۔۔۔۔”
آپ کو کیسے پتا ؟
“آج ہی ضعیم کی کال آئی تھی اطلاع تو ایسے دے رہا تھا جیسے نجانے کتنے عزیز رشتہ دار ہوں ۔۔۔۔۔”
“بابا جان میں ابھی کام سے باہر آیا ہوں گھر پہنچ کر کرتا ہوں کال ۔۔۔۔”
ٹھک کر کہ کال کاٹی جاچکی تھی درراب سیاہ اسکرین کو دیکھے گیا :
اس کا ارادہ اب روبرو بات کرنے کا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تیز چلاو ہری اپ۔۔۔”
غصہ کا۔ گراف بڑھا تو ڈرائیور نے بھی گاڑی کی اسپیڈ تیز کردی ۔۔۔۔۔
_________________________
“سائیں ایک دم پکی خبر ہے ۔۔
اس سے اچھا موقع نہیں ملے گا ۔۔۔۔”
“یاد رکھ اگر یہ خبر جھوٹی نکلی تو اپنی تیاری پکڑلیو اوپر جانے کی ۔۔۔۔”
“اوہ سائیں میں کہہ رہا ہوں نہ اس طرح سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔۔۔”
“میرے سر پہ جو اتنے سالوں سے موت کی تلوار لٹک رہی ہے ۔۔۔ اس سے جان تو چھوٹے گی۔۔۔۔”
معراج نے مغلظات بکتے ہوئے کہا:
“دیکھ تو اتنی جلد بازی نہ مچا ہم کسی اور طریقہ سے اسے رخصت کردیں گے ۔۔۔ اگر وہ مر بھی گیا تو ہمیں پھانسی کہ پھندے پر پہنچا کر ہی چھوڑے گا۔۔۔۔۔”
“یہاں وہ اے ایس پی ملاکل موت کی طرح میرے سر پہ منڈھلا رہا ہے اس سے پہلے اس اے ایس۔ پی کہ ہاتھ سارے ثبوت لگیں میں اس فساد کی جڑ ڈی ایس پی کا ہی خاتمہ کردوں گا انصاف کا ڈنکا بجا کر ہمارا جینا حرام کردیا ہے سالے نے۔۔۔۔”
“معراج یہ وقت جذباتیت کا نہیں ہے ٹھنڈے پانی سے نہاو اور میری بات پہ غور کرو ۔۔”
“سائیں میں سب سمجھتا ہوں تم چلاک اور مکار ہو وہ سالا کتے کی طرح میری بو سنگتا ہوا مجھے زندہ دفن کردے گا۔ اور تم ہر دفعہ کی طرح رو پوش ہوجاو گے ۔۔۔ ”
“یاد رکھنا سائیں میں ڈوبا تو تمھیں بھی لے کر ہی ڈوبوں گا اخر کو تمہارا بایاں ہاتھ ہوں تمہارے رازوں سے بخوبی واقف ۔۔۔”
“اوئے چپ کر ماجانئے جا کرلے جو۔ کرنا ہے ابھی کوئی پیدا نہیں ہوا جو داد بخش پہ ہاتھ ڈالے۔۔۔”
“یہ خوش فہمی بہت مہنگی پڑنے والی ہے تمھیں سائیں۔۔۔۔”
معراج استہزائیہ انداز میں کہتا ہوا نکل گیا ۔۔۔۔
“آیا بڑا مجھے دھمکائے گا ۔۔۔۔۔”
داد بخش نے گویا ناک سے مکھی اڑائی۔۔ ۔ ۔۔۔۔
__________________________
“تم سوچ لو کوئی زور زبردستی نہیں ہے جیسا تم چاہو گی وہی ہوگا ۔۔۔۔”
“بھائی میں سوچ چکی ہوں بلکہ فیصلہ کر چکی ہوں۔۔۔۔”
“چلو جیسا تم مناسب سمجھو ۔۔۔”
راحب نے عنایہ کہ سر پہ ہاتھ پھیرا۔۔۔۔
لیکن بھائی وہ امی؟؟؟؟
“امی کی فکر نہ کرو میں انھیں سمجھا دوں گا ۔۔۔ ویسے بھی وہ جا تو رہیں ہیں ساتھ ۔۔۔”
“بھائی آپ مجھے حویلی ہی چھوڑ دیئے گا میں نہیں چاہتی کہ آپ کا سامنا وہاں کہ کسی بھی فرد سے ہو ۔۔۔۔”
عنایہ نے تلخی سے کہہ کر بیگ میں ہینگ کئے ہوئے جوڑے رکھنے لگی ۔۔۔
تم نے اپنے بھائی کو اتنا بزدل سمجھا ہوا ہے ؟؟
“بزدل تو وہ لوگ ہیں جو عورت کی عزت کرنا نہیں جانتے ۔۔۔۔”
عینو مجھے پتا ہے تمہارا دل وہاں نہیں جانا چاہتا پھر کیوں ان کہ ساتھ رہنا چاہتی ہو ؟؟
“نہیں بھائی میں چھپ کر یا راہ فرار اختیار کر کہ نہیں بیٹھ سکتی جب تک میں حق اور سچ ان کہ سامنے عیاں نہ کردوں میں اپنی راہیں الگ نہیں کرسکتی۔۔۔ اپنے بھائی کو بے گناہ ثابت نہ کردوں میں بھی ان کہ تمام ظلم برداشت کروں گی ۔۔۔ اور بس وہ ہی دن ہوگا میری آزادی کا ۔۔۔ پورے حق کہ ساتھ میں علیحدگی کا مطالبہ کروں گی ۔۔۔۔”
تو کیا تمہارے دل میں درراب کہ لئے ذرا بھی محبت نہیں ہے ؟؟؟
راحب عینو کی بات سن کر ساکت ہوگیا تھا ۔ ۔
اپنے دل میں محبت کہ پھول کھلانے والی کسی کیلئے نفرت کا بیچ کیسے بو سکتی ہے؟
“بھائی وقت ایک سا نہیں رہتا ۔۔۔ یہ انسان کہ اپنے رویہ ہوتے ہیں جو دلوں میں نفرتیں پیدا کرتے ہیں۔۔۔”
“انہوں نے مجھے جو دیا میں وہی لوٹاوں گی۔۔۔۔۔”
“عینو تم اب بچی نہیں رہی تم بہت سمجھدار ہوگئی ہو لیکن نجانے کیوں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہیں نہ کہیں تم بے وقوفی کررہی ہو ۔۔۔۔”
“ہوسکتا ہے بھائی لیکن میں بھی انکھیں رکھتی ہوں دیکھ سکتی ہوں سب کا رویہ یہاں کہ لوگوں نے بھی آپ سے بیر پال رکھا ہے ۔۔۔ میرا بھائی کچھ نہ کر کہ بھی مجرم ٹہرادیا گیا اور وہ قاتل ہوکر بھی آزاد ہے ۔۔۔”
“چھوڑو ایک نہ ایک دن سچ ان کہ سامنے آہی جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔”
“بھائی آپ مجھ سے لکھوالیں تایا سائیں کو سب علم ہے کہ یہ قتل ان کہ بھانجے نے ہی کیا ہے لیکن ابو یا کوئی آواز نہیں آٹھا سکا کیوں کہ ان کی بہن کا اکلوتا بیٹا ہے ۔۔۔”
یہ بات تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو ؟
“کیوں کہ مجھے صرف خون بہا کہ بدلے نہیں بلکہ کسی ایسی دشمنی کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے جس کا تعلق سکندر انکل سے ہے ۔۔۔”
تمہارے کہنے کا مطلب ہے کہ دانیہ کہ خون کہ علاوہ بھی کوئی وجہ ہے جس کا بدلہ ابو سے لیا جارہا ہے؟؟؟
“ابو سے نہیں بھائی دادو سے تایا سائیں سے ۔۔۔”
تم کیا کہنا چاہ رہی ہو میں کچھ سمجھ نہیں پارہا ؟؟؟
راحب نے ناسمجھی سے کہا:
“سمجھ جائیں گے بھائی سب سمجھ جائیں گے ”
“ٹھیک ہے تم پیکنگ کرو میں بھی امی کو سمجھا دوں۔۔۔۔۔۔”
راحب سر ہلاتا ہوا کمرہ سے نکل گیا۔۔۔۔۔۔
ٹھیک آدھے گھنٹے میں اس کی پیکنگ مکمل ہوئی تو چینج کرنے کی غرض سے واش روم میں گھس گئی ۔۔۔۔
پانچ منٹ بعد باہر آئی تو موبائل ٹیبل پر تھرک رہا تھا۔۔۔۔۔۔
اسکرین دیکھی تو ان نون نمبر تھا یہ اس کا نیا موبائل تھا جو راحب نے ہی لاکر دیا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ سوچ رہی تھی کہ اٹھاوں یا نہیں تبھی ایک پیغام موصول ہوا۔۔۔۔۔
جس میں درج تھا کہ “ائی ایم درراب پک اپ دا فون۔۔۔”
انگریزی سطر پڑھ کر کئی لکیریں اس کی ماتھیں پہ ابھری تھیں۔۔۔۔
کال دوبارہ آنے لگی تو لمحہ ذائع کئے بنا کال اٹینڈ کی۔۔۔۔
کہاں تھیں کب سے کال کررہا ہوں؟؟
وہ ہی سخت لہجہ وہ ہی پتھریلہ الفاظ۔۔ ۔
“واش روم میں تھی۔۔۔۔”
مختصراً کہا گیا ۔۔۔۔۔
“پانچ منٹ کہ اندر اندر تم مجھے پورچ میں نظر آو ۔۔۔۔”
پورچ میں لیکن آپ تو کراچی ؟؟؟
“میرے پاس فضول گفتگو کیلئے ٹائم نہیں ہے ۔۔۔ پانچ منٹ سے ایک بھی سیکنڈ اوپر ہوئے تو انجام کی ذمہ دار تم خود ہوگی۔۔۔۔”
اور لائن کٹ چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھڑی دیکھتے ہوئے الماری کی طرف آئی وہاں سے چادر نکال کر اوڑھی اور تیز تیز قدموں سے راحب کہ کمرہ کی جانب آئی ۔۔۔۔۔۔
اس وقت سوچ کہ گھوڑے دوڑا کر وہ ٹائم ضائع نہیں کرسکتی تھی ۔۔۔ جب جانا ہی تھا۔ تو اس کہ ساتھ جائے یا راحب کہ ساتھ کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازہ لاکڈ تھا اسی لئے ناب گھمانے سے بھی نہیں کھلا وہیں کھڑی آوازیں دیں۔۔۔۔
کیا ہوا ؟؟
“بھائی شاہ لینے آئے ہیں میں جارہی ہوں آپ میرا بیگ ڈرائیور کہ ہاتھ بھیج دیئے گا۔۔۔”
وہ عجلت میں کہتی ہوئی پورچ کی جانب بھاگی ۔۔۔۔
وہ اس کہ پیچھے پیچھے چلا آیا ۔۔۔۔
پانچ منٹ میں آدھا سیکنڈ بچا تھا جب وہ بھاگتے دوڑتے گاڑی کی طرف آئی۔۔۔۔۔۔۔
درراب نے اسے دیکھ کر گاڑی کا دروازہ ان لاک کیا۔۔۔۔۔۔
عنایہ کہ بیٹھتے ہی درراب نے گاڑی اسٹارٹ کردی ۔۔۔۔
راحب کو دیکھ کر بھی ان دیکھا کردیا۔۔۔۔۔ عنایہ کہ دل کو دھکا سا لگا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ڈبڈباتی نظروں سے دور ہوتے راحب کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
عینو کا فیصلہ ٹھیک تھا سچ کھلنے کہ بعد ان کا علیحدہ ہونا ہی بہتر تھا وہ جو سمجھ رہا تھا کہ درراب کہ دل میں عینو کہ لئے نرمی ہے وہ بات غلط تھی عینو نے ٹھیک ہی کہا تھا یہ کٹھور لوگ محبت کرنا نہیں جانتے ۔۔۔۔۔۔”
راحب افسردہ سا اندر کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔
تبھی ضعیم احمد بھی کمرہ سے نمودار ہوئے ۔۔۔۔
آپ نے بتایا تھا درراب کو عینو کہ جانے کا؟؟
راحب نے سختی سے ضعیم احمد سے استفسار کیا۔۔۔
ہاں بتایا تھا پھر ؟
“تو پھر خوش ہوجائیں لے گیا وہ آپ کی بیٹی کو ۔۔۔۔”
راحب کی بات پر ضعیم احمد گنگ ہوگئے تھے ۔۔۔
“آپ لوگوں کی دشمنی ہم کو بھگتنا پڑرہی ہے ۔۔۔ رہیں آپ یہاں سنبھالیں اپنے رسم و رواج میں جارہا ہوں امی کو لے کر ۔۔۔۔
آپ کی رئیسی آپ کو مبارک۔۔۔۔”
وہ غصہ سے کہہ کر اگے بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب کہ ضعیم احمد وہیں ٹہر گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
___________________________
ماضی
اس دن کہ بعد سے عنایہ درراب کہ سامنے آنے سے گرہیز برت رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
وہ اسے یہاں لے تو آیا تھا لیکن اسے اپنایا نہیں تھا وہ تو اس کی شکل دیکھنے کا روادار نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔
کل ہی تو گارڈ کہ سامنے اسے بے عزت کیا تھا بات اتنی بڑی بھی نہ تھی صرف اتنی تھی کہ وہ اپنا کوٹ صوفہ پہ ہی بھول گیا تھا اور عنایہ اسے دینے کیلیے باہر بھاگی تھی۔۔۔
“تمھیں منع کیا ہے نہ میرے سامنے مت آیا کرو ۔۔ کیوں بار بار میرے سامنے اکر مجھے غصہ دلاتی ہو ؟ مجھے تمہارے کسی کام کی ضرورت نہیں ہے جاو اندر ۔۔۔۔۔”
درراب نے فرنٹ ڈور کہ ساتھ کھڑے گارڈ کا بھی لحاظ نہ کیا اور اسے بے دریغ جھڑک دیا تھا۔۔۔۔۔
وہ اپنا سا منہ لے کر آگئی تھی۔۔۔۔
“تم کیا میری شکل دیکھ رہے کو گیٹ کھولو۔ ۔۔۔”
درراب نے وردی میں ملبوس گارڈ کو جھاڑا ۔۔۔۔۔۔۔
آج بھی وہ رات گئے تک گھر نہیں آیا تھا لیکن وہ آج بھی دل کہ ہاتھوں مجبور ہو کر اس کا انتظار کررہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھک ہار کر وہ صوفہ سے اٹھی اور درراب کہ کمرہ کی جانب آئی ۔۔ ناب گھمایا تو دروازہ کھلتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرہ کی ہر شئہ اپنی بیش قیمت ہونے کی گواہی دے رہی تھی ۔۔۔۔
کوئی شئہ ایسی نہ تھی جو اپنی جگہ سے ہلی ہوئی ہو ۔۔۔۔ اس کی ذات کی طرح اس کا کمرہ بھی پرفیکٹ تھا ۔۔
اس کی نظر سامنے دو پٹ والی بڑی سے الماری پر پڑی۔۔۔ قدم خود بخود اٹھتے چلے گئے۔۔۔۔۔
الماری کھولی تو ایک سائیڈ پہ دراز نظر آئی جس میں چابی لگی ہوئی تھی۔
چابی گھما کر دراز کھولی تو اس میں تصویروں کا ڈھیر تھا۔۔۔ اور ان بہت ساری تصویروں میں ایک ہی چہرہ تھا جو الگ الگ انداز سے مسکرا رہا تھا۔۔۔
وہ ایک ایک کر کہ تصویر دیکھنے لگی ۔۔۔ تبھی ایک تصویر پر اس کی نظر پڑی ۔۔۔
وہ حیرتوں کہ سمندر میں غوطہ زن ہوگئی تھئ ۔۔۔
یہ تو اسی کی تصویر تھی جب ایگزیبیشن میں وہ اس سے ہمکلام ہوا تھا دونوں آمنے سامنے تھے ۔۔۔۔۔۔ شاید اس تصویر کہ پس پردہ اسی کا چہرہ تھا۔۔۔۔
اپنے پیچھے درراب کی آہٹ محسوس ہوئی تو تصویریں اس کہ ہاتھ سے چھوٹ گئیں۔۔۔۔
جو درراب کہ عین بوٹوں کہ اگے گری تھیں۔۔۔۔۔
پلٹ کر دیکھا تو دونوں بازو سینے پہ باندھے وہ قہر برساتی نظریں اس پر گاڑے ہوا تھا ۔۔ ۔
عنایہ کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑگیا تھا۔۔۔
ہممت مجتمع کر کہ اپنی صفائی میں لب کھولے ۔۔۔۔۔۔۔
میں میں آپ۔۔۔!!!!!!
“اٹھاو یہ سب فوراً…”
چہرہ پر نرمی کا۔ شبہ تک نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جھک کر کپکپاتے پاتھوں سے کارپیٹ پہ بکھری تصویریں سمیٹنے لگی۔۔۔۔۔۔۔
“جہاں سے لیں تھیں وہیں رکھو انھیں۔ ۔۔۔”
دوسرا حکم تھا جس کی چپ چاپ تعمیل کی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
“آئیندہ میری جاسوسی کرنے سے پہلے ہزار بار یہ سوچ لینا کہ میں اپنی چیزوں میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتا ۔۔۔۔۔۔۔”
“جججی۔۔۔۔”
“اب نکلو یہاں سے ”
“وہ ایم ایم سو سوری میں تو ۔۔۔”
“آئی سے نو آر گیو مینٹ جسٹ گیٹ لوسٹ”
وہ مرے ہوئے قدموں سے ایک بار پھر بے عزتی کا بوجھ اٹھائے کمرہ سے نکل گئ تھی۔۔ ۔۔۔۔۔۔
اپنے پیچھے دروازہ بند ہونے کی زور دار آواز پر اوچھل گئی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرہ میں ائی اور پانی کا پورا گلاس پینے کہ باوجود حلق میں کاٹے چبھ رہے تھے ۔۔۔۔
ان تصویروں سے یہ تو اندازہ ہوگیا تھا کہ دانیہ کی ذات اس کے لئے کتنی اہمیت کی حامل تھی ۔۔
لیکن میری تصویر ان تصویروں میں؟؟؟؟؟
تو کیا اپنے دل میں میرے لئے بھی نرم گوشہ رکھتا ہے ۔۔۔
یا رکھتا تھا؟؟؟
“ہاں رکھتا تھا دانی کی موت نے اس کا دل پتھر کردیا ہے ۔۔۔۔۔۔ ”
اس کہ دل میں میں کبھی اپنی جگہ نہیں بناسکتی ۔۔۔
“کیوں کہ میں پہلے سے ہی موجود ہوں اس کہ دل میں مگر نفرت لئے ۔۔۔۔۔۔”
___________________________
“راحب تم نے جانے کیوں دیا اسے وہ تو بے وقوف ہے تم تو سمجھدار ہو نہ مجھے تم سے اس کم عقلی کی قطعی امید نہ تھی۔۔۔۔۔۔”
“امی میری بہت تفصیل سے بات ہوئی تھی عینو سے ۔۔۔۔ درراب اسے خود لینے آیا تھا۔۔۔۔۔”
راحب نے نجمہ کا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ لگایا۔۔۔۔
“ہاں ایک نیا ظلم توڑنے کیلئے ۔۔۔”
جب میں تمھیں کہہ چکی تھی کہ تو میری بات کیوں نہ مانی تم نے ؟؟؟؟
“امی آپ کا حکم سر انکھوں پر ۔ لیکن ابو نے اطلاع کردی تھی سکندر انکل کو ۔۔۔ اور نجانے درراب سے کیا کہا کہ وہ آن ڈیوٹی چھوڑ کر عینو کو لینے آگیا۔۔۔۔ ”
“راحب وہ ابھی ماں جی کہ غم سے پوری طرح نہیں نکلی نجانے اب وہ کیا کریں گے اس کہ ساتھ۔۔۔”
نجمہ بیگم باقاعدہ منہ چھپا کر رونے لگیں۔۔۔۔
“امی کیا ہوگیا ہے آپ کو ہماری عینو اب بہت بہادر ہو گئی ہے پہلے والی لاوبالی نہیں رہی ۔۔۔۔۔۔”
“تو کیا جانتے بوجھتے اسے مرنے کیلئے چھوڑ دوں ۔۔۔۔”
“آپ بس کچھ دن اور صبر کرلیں عینو بہت جلد ہمارے پاس ہوگی ۔۔۔۔”
مطلب ؟؟؟
“وقت آنے پر سب سمجھا دوں گا ۔۔۔ آپ چلیں ہمیں نکلنا ہے ابھی ۔۔۔”
“میری چادر پکڑا دو مجھے میرا تو دل ہی اچاٹ ہو گیا ۔۔۔۔ نجانے میری بچی کے ساتھ کیا کریں گے اب۔۔۔”
“ان شاء اللہ کچھ نہیں ہوگا اللہ سب بہتر کرے گا چلیں اٹھیں آپ۔۔۔۔”
وہ نجمہ کو ہمراہ لئے گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عینی اور عنبرین رات کو ہی مل کر چلی گئیں تھیں ۔۔۔۔
راحب اجالا چھٹنے سے پہلے پہلے یہاں سے جانا چاہتا تھا۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ضعیم واویلا مچاکر انھیں جانے سے روک دیں۔۔۔۔۔۔۔