آج پھر اس کہ سامنے کپڑوں کا ڈھیڑ پڑا تھا اور وہ منہ پہ قفل لگائے مشین میں جھکی ہوئی تھی ۔۔۔ کبھی نچوڑ نچور کر نل کہ اگے رکھتی تو کبھی دھلے ہوئے کپڑوں کا ٹپ پکڑے چھت پر آجاتی ۔۔۔
ملازماوں کی موجودگی میں بھی وہ اکیلی پوری حویلی کہ کپڑے دھورہی تھی ۔۔۔۔
تھوڑی تھوڑی دیر بعد اکر صائمہ کیڑے نکال دیتی اسے پھر دوبارہ سے وہ سوٹ مشین میں دھونا پڑتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج تو سکندر حیات حویلی میں ہی تھے اس لئے چپ چاپ ہی رہی۔۔۔۔ یہ نہیں تھا کہ وہ اپنے حق کہ لیئے آواز اٹھانا نہیں جانتی تھی بلکہ وہ تو آزاد خیال اور عقل و شعور رکھنے والی لڑکی تھی لیکن اس کہ آواز اٹھانے سے مہتاب بیگم سکندر حیات کہ عتاب کا شکار ہوتیں تھیں ۔۔۔۔
پھر چاہے وہ کتنی ہی لبرل ہو کسی کا گھر توڑنے کا ظلم تو کبھی بھی نہیں کرسکتی تھی چاہے اس میں اس کی اپنی ذات مٹی مٹی کیوں نہ ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی بھی وہ بھیگے کپڑوں میں ملبوس کپڑوں کا خالی ٹپ اٹھائے نیچے ہی آرہی تھی کہ سامنے آتے شخص کو نہ دیکھ سکی اور ٹکرا گئی۔۔۔
عینو کہ ہاتھ سے ٹپ چھوٹ گیا۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو شکر تھا کہ خالی تھا ورنہ اسے دوبارہ دھونے پڑتے وہ شکر کا سانس بھر کر اب جھک کہ ٹپ اٹھانے لگی ۔۔۔۔۔۔
شاہ جو ایک ہفتہ بعد ڈیوٹی پوری کر کہ حویلی آیا تھا اسے اس حال میں دیکھ کر سکتہ میں آگیا ۔۔۔ کئ پل کو تو اسے یقین ہی نہیں آیا کہ یہ وہ ہی عنایہ ہے جو پینٹنگز کی دلدادہ تھی جو رنگوں میں کھیلتی رنگوں میں جیتی تھی۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا کررہی ہو تم؟؟؟
“کپڑے دھو رہی ہوں ۔۔۔”
مختصر سا کہہ کر ٹپ اٹھائے اگے بڑھ گئی تبھی شاہ نے اگے بڑھ کر اسکا۔ راستہ روکا اور ٹپ چھین کر دور اچھال دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ یہ کیا کیا ہے ؟؟
” پلیز مجھے کام کرنے دیں بھابھی خفا ہوگیں۔۔۔”
شاہ نے کینہ توز نظروں سے گھورا اور کھینچتا ہوا اسے کمرہ میں لے آیا ۔۔۔۔۔
“بیٹھو یہاں چپ کر کہ۔۔۔۔”
اسے صوفہ کی جانب دھکیلہ۔۔۔۔۔۔
وہ شاہ کا غصہ دیکھ کر فوراً بیٹھ گئی۔۔
اور وہ اسے گھورتا ہوا واش روم میں بند ہوگیا۔۔۔۔
ٹھنڈے پانی سے بھی اندر کی گھٹن کم نہ ہوئی تو اپنا سر نل کے اگے کردیا۔۔۔ ابھی دو منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ باہر سے چلانے کی مدہم آواز آنے لگی۔۔۔
وہ سرعت سے نل بند کر کہ پلٹا تھا۔۔۔۔
“یہاں کیا کررہی ہو وہاں مشین چلی چھوڑ کر آگئ اور یہاں بیٹھی آرام کررہی ہو اپنے گھر میں ہوگی تم نواب زادی ۔۔۔”
کہتے ساتھ ہی زور دار تھپڑ اس کہ منہ پر مارا ۔ تھا۔ ۔۔۔۔
تبھی شاہ لمبے قدم اٹھا کر اگے بڑھا اور عینو کو اپنے پیچھےلیا۔ تھا۔ ۔۔
یہ کیا بہودگی ہے بھابھی ؟؟؟
صائمہ اس کی موجودگی دیکھ کر گھبرا گئی تھی۔۔۔
تم تم کب آئے ؟؟؟۔
آپ کو کس نے حق دیا میری بیوی پر ہاتھ اٹھانے کا؟؟؟؟
شاہ تیز لہجہ میں ڈھاڑا۔۔۔۔
عقب میں چھپی عینو بھی ڈر گئی۔۔۔۔۔
“شاہ تمھیں کچھ نہیں پتا تم چھوڑو اسے بابا جان ناراض ہوں گے ۔۔۔۔”
صائمہ نے نرمی سے کہا:
“میں خود جواب دے دوں گا بابا جان کو آپ آئندہ میری بیوی کو ہاتھ تک نہیں لگائیں گی ورنہ میں سارے لحاظ بلائے طاق رکھ دوں گا۔۔۔۔۔”
صائمہ بنا کچھ کہے کمرہ سے نکل گئ۔۔۔۔۔
تم کس پتھر کی بنی ہوئی ہو کیوں مار کھاتی ہو ان سب سے ؟؟؟
شاہ کا نشانہ اب عینو تھی۔۔۔۔۔
بولو جواب دو ؟؟
یہ تو جانتی ہی ہوگی ظلم سہنے والا بھی ظالم کی ہوتا ہے جب تک اس ظلم کہ خلاف آواز نہ اٹھائے۔۔۔”
شاہ کا طعنہ اسے برچھی کی طرح لگا تھا۔۔۔
“ہاں ہوں میں ظالم اگر میں ظالم نہ بنوں تو بابا جان اپنا۔ سارا غصہ اماں جان پہ نکال دیں ۔۔ میں مار تو برادشت لرسکتی ہوں لیکن ایک ماں کو بے عزت ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔۔۔”
وہ ناچاہتے ہوئے بھی سب بول گئی تھی
شاہ جہاں تھا وہیں ساکت ہوگیا وہ کیا کہہ رہی تھی ؟؟؟
“مجھے یہ نہیں بتانا چاہیئے تھا”
وہ اب بے دم زمین پر بیٹھ کر روئے جارہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
شاہ کو وہ ساری باتیں یاد آرہیں تھیں جو مہتاب سے دبے لفظوں میں کہتیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی ہی اولاد سے اپنا بھرم قائم کررہی تھیں۔۔۔۔
___________________________
وہ اپنے کمرہ میں آیا تو وہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھے اسی سوٹ میں ملبوس تھی جو وہ دے کر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رویا رویا سا منہ پیلے جوڑے میں نہایت حسین لگ رہا تھا وہ اس کہ سوگوار حسن کو انکھوں کہ ذریعہ دل میں اتارنے لگا۔۔۔۔۔
نپے تلے قدم اٹھاتا ہوا اس کی جانب آیا اور ڈوپٹہ سر پہ ٹکا کر گونگھٹ اگے نکال دیا۔۔۔۔
وہ پہلے ہی شش و پنج میں مبتلا تھی درراب کی اس حرکت پر اور کنفیوز ہوگئی ۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ پوچھتی درراب اسکا ہاتھ تھام کر چل پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔
لاونج عبور کر کہ وہ پچھلی سائٹ پہ بنے بڑے سے گارڈن کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔
وہیں ان کی مایوں کا انتظام کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صائمہ جو کسی سے محو گفتگو تھی شاہ کہ ساتھ عنایہ کو آتا دیکھ کر معذرت کرتی ہوئی ان کی جانب چلی آئی۔۔۔۔۔
“شاہ تم اسے کیوں لے آئے اس کا یہاں کوئی کام نہیں ہے ۔۔۔”
“بھابھی یہ میری شریک حیات ہے میں جہاں موجود ہوں گا وہیں یہ بھی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“تم بھول رہے ہو شاہ تمہارا اسٹیج پر ماہم انتظار کررہی ہے اگر تمھیں یہ ہی سب کرنا تھا تو منع کردیتے ۔۔۔”
صائمہ کا بس نہیں چل رہا تھا ڈوپٹہ کی اوٹ میں چھپے اس وجود کو کہیں غائب کردے جہاں اسکا نام و نشان تک نہ ہو۔۔۔۔۔
“میں نے تو کردیا تھا منع آپ لوگ ہی پیچھے پڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔”
“اس وقت ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے تم چلو اسٹیج پر میں اسے کمرہ میں چھوڑ کر آتی ہوں۔۔۔”
“رک جاو صائمہ ۔۔۔۔”
عقب سے آتی صعود کی آواز پر صائمہ نے گردن موڑ کر دیکھا۔۔۔۔۔۔
“جاو تم شاہ ۔۔۔۔”
شاہ کو جانے کا اشارہ کیا۔۔۔۔۔۔۔
وہ لمبے لمبے ڈگ اٹھاتا ہوا اسٹیج کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔
“آپ کو دکھ نہیں رہا کہ میری بہن پہلے ہی اسٹیج پر موجود ہے میں اپنی فیملی کا کوئی تماشہ بننے نہیں دوں گی ۔”
“اگر ہماری عزت پر حرف آیا تو میں کسی کو نہیں بخشوں گی۔۔۔۔۔”
یاد رکھیئے گا۔۔۔۔”
انگلی اٹھا کر وارن کرتی ہوئی وہ اگے چلی گئی۔۔۔۔۔
“بے وقوف عورت۔۔۔”
دائیں بائیں سر ہلاتا ہوا وہ افسوس سے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔
__________________________
“سر آج کی میٹنگ ارٹ ڈیزائن کہ مینیجر ساتھ ہے ۔۔۔۔”
اوہ کیا یہ اگلے ہفتہ نہیں رکھ سکتے؟؟؟
سلوٹ زدہ پیشانی کو دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے رگڑا۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں سر مینجر نو بجے کی فلائٹ سے اسلام آباد روانہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ہمممممم”
“ٹھیک ہے آپ ایسا کریں یہ میٹنگ آپ ہینڈل کریں اور اپنے ساتھ مس مہرین کو بھی لے جایئے گا۔۔۔۔”
کیا سر میں؟؟ لیکن میں کیسے؟؟
کیا مطلب اس بات کا آپ پچھلے ایک سال سے کئی مٹینگز میرے ساتھ اٹینڈ کرچکی ہیں لہذا اس بار آپنے ہی مینیج کرنا ہے سب انڈر اسٹینڈ؟؟
“یس سر ۔۔۔”
“گڈ مجھے کہیں پہنچنا ہے آپ دیکھ لئے گا۔۔۔”
“جی سر ۔۔۔”
موبائل ہاتھ میں پکڑے وہ لابی کی جانب آیا ڈرائیور پہلے سے ہی گاڑی میں اس کا انتظار کررہا تھا اس کہ بیٹھتے ہی گاڑی اگے بڑھادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین گھنٹے کہ سفر تھکن زدہ سفر کہ بعد آخر کار گاڑی کہ رکنے سے ٹائر چرچرائے۔۔۔۔
وہ عجلت میں گاڑی سے نکل کر حویلی کے بیرونی حصہ کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخت پر بیٹھیں سعیدہ بیگم نے کڑیل جوان خوبرو سے راحب کو آتے دیکھا تو اٹھ کھڑی ہوئیں ۔۔۔۔
“راحب میرے بچہ تو کہاں چلا گیا تھا میرے شہزادہ۔۔۔۔”
پورے دو سال بعد وہ حویلی آیا تھا روب اور دبدبہ نے اس کی شخصیت میں نکھار پیدا کردیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
“دادو میری پیاری دادو میں ٹھیک ہوں اور گیا اس لئے تھا کہ ایک کامیاب انسان بن کر آپ کہ سامنے آوں۔۔۔۔۔۔”
آجا بیٹھ ادھر ۔۔”
نہیں دادو میں بیٹھنے نہیں آیا ہوں آپ مجھے سکندر حیات کی حویلئ کا پتا بتائیں؟؟
کیوں تجھے کیا کام پڑھ گیا؟؟
“دادو میں سب بتاوں گا ابھی میرے پاس بلکل
وقت نہیں ہیں یا اپ چلیں میرے ساتھ ۔۔۔”
“لیکن میں کہاں میں نہیں جاسکتی تیرا تایا سائیں غضب ناک ہوجائے گا۔۔۔”
“دادو آپ سمجھنے کی کوشش کریں وہ درراب دوسری شادی کررہا ہے دو سال کہ عرصہ میں بھی وہ ابھی تک میری عینو کو بیوی تسلیم نہیں کرسکا بہت ہوگئی اس نے ناکردہ گناہوں کی بہت سزا کاٹ لی اب اور نہیں ۔۔۔۔”
تجھے کیسے پتا چلا سب؟؟
“دادو میں صرف نظروں سے اوجھل تھا لیکن یہاں کی ایک ایک بات کا علم رکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
“تو پھر تو تجھے یہ بھی پتا ہوگا کہ تیری ماں تیری اور عینو کی یاد میں رو رو کر اندھی ہوچکی ہے۔ ۔ ”
“ہاں دادو میں سب جانتا ہوں میں نے ہی بابا سے کہا تھا کہ وہ انھیں علاج کیلئے لے کر جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔”
“چل پھر میں بھی تیرے ساتھ جاوں گی ۔۔ ”
“چلیں۔۔۔۔”
راحب نے دادو کا ہاتھ دھیرے سے تھامہ اور آہستہ آہستہ پورچ کی جانب جانے لگا۔۔۔۔
__________________________
شاہ تم اسے کہیں نہیں لے کر جارہے سنا نہیں تم نے ؟؟؟؟؟
سکندر حیات کو صائمہ نے ہی خبر دی تھی۔
کیوں !!!کیوں نہیں لے کر جاسکتا بابا جان ؟؟
نارمل لہجے میں استفسار کیا گیا۔۔۔
“کیوں کہ یہ اس حویلی میں ہی رہے گی اس پر باہر کی دنیا حرام ہے ۔۔۔”
اچھا اور یہ کہاں لکھا ہے ؟؟؟
“میں یہ تمھیں بتانا ضروری نہیں سمجھتا تمھیں جہاں جانا ہے جاو لیکن یہ لڑکی کہیں نہیں جائے گی ۔۔۔۔”
“اے لڑکی تم جاو اندر ۔۔۔۔”
عنایہ سانس روکے کبھی سکندر حیات کو دیکھتی تو کبھی شاہ کو ۔۔۔
سکندر حیات کی سخت آواز پر وہ اندر جانے کیلئے مڑی ہی تھی کہ کانوں کو پھاڑ دینے والی آواز نے اس کہ قدم جکڑ لئے۔۔
تمھیں میں نے جانے کو کہا ؟؟؟
عنایہ نے اس کہ چہرہ کو دیکھا جہاں زمانے بھر کی سختی تھی۔ اس پل اسے اس پتھر دل انسان سے سخت خوف محسوس ہوا۔۔۔۔۔
“نہیں۔۔”
ایک لفظی جواب دے کر وہ سر جھکا گئی۔۔۔۔۔
“شاہ تم یہ ٹھیک نہیں کررہے ہو ہماری دانی کہ قاتل کی بہن کو ہم پر فوقیت دے کر۔۔۔۔”
اور آپ جو کررہے ہیں وہ ٹھیک ہے ؟؟؟
کیا کیا ہے میں نے ؟؟؟
“بابا جان مجھے پولیس اسٹیشن بھی جانا ہے اور پہنچتے پہنچتے بھی کافی وقت لگ جائے گا اس بحث کو کسی اور دن اٹھا کہ رکھیں۔۔۔”
وہ سکندر حیات سے کہہ کر مہتاب کہ کمرہ کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اماں جان میں عنایہ کو لے کر جارہا ہوں آپ بھی چلیں میرے ساتھ۔۔۔”
“نہیں تم دونوں جاو اللہ کی امان میں ۔۔۔”
مہتاب بیگم نے پہلے عنایہ اور پھر شاہ کا ماتھا چوما۔۔۔
لیکن آپ یہاں کیسے رہیں گی؟؟؟
“جیسے رہ رہی ہوں ویسے ہی رہوں گی بس تم لوگ چکر لگا لیا کرنا ایسا نہ ہو کہ ماں کو بھول جاو۔۔۔ ”
“ہر گز بھی نہیں اماں جان میں آپ کو کبھی نہیں بھول سکتی ۔۔۔”
عنایہ نے انکا۔ نحیف ہاتھ تھام کر کہا جو مستقل لرز رہا تھا۔۔۔۔۔۔
“امان جان اپنا خیال رکھیئے گا۔۔۔۔”
“اچھا ٹھیک ہے ساتھ خیریت سے جاو”۔ “فی امان اللہ”
شاہ نے اگے بڑھ کر ان کا عقیدت سے ماتھا چوما اور پورچ کی جانب چلاگیا۔۔۔عنایہ بھی اس کی تقلید میں حویلی عبور کرگئی۔۔۔۔ ۔
_________________________
“نکاح شروع کریں قاضی صاحب ”
سکندر حیات کی آواز پر صائمہ کا رکا ہوا سانس بحال ہوا ۔۔۔۔۔
جبکہ عنایہ کو لگا اس کا سانس اٹک اٹک کر آرہا ہو ۔۔۔۔۔۔
اس میں اتنی سکت باقی نہ رہی تھی کہ گردن اونچی کرکہ آخری بار اپنے شریک سفر کو دیکھے۔۔۔۔۔۔
اگر مہتاب بیگم نے اسے نہ تھاما ہوتا تو وہ کب کی زمین بوس ہوچکی ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔
اس نے شدت سے دعا کی تھی کہ یا اللہ کوئی تو روئے زمین پر ایسا بندہ ہوگا جو میرے لئے آواز اٹھا سکے۔۔۔۔۔
شاہ اپنا۔ ایک بازو پھیلائے عنایہ کہ قریب بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔
“جیسے نکاح کسی اور کا ہورہا ہو۔۔۔۔۔”
قطرہ قطرہ آنسو فریادی بن کر شفاف ہتھیلی پر گر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ شاہ کی نظریں ان قطروں میں ہی آٹکی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنایہ کا چونکہ گھونگھٹ تھا اس لئے وہ دیکھ نہ سکی تھی ۔۔۔ ہلچل مچاتے ماحول میں یک دم سناٹہ طاری ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
قاضی صاحب کی آواز پر سب ہی مہمان ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔
صائمہ کو صعود کسی کام سے حویلی کہ اندر لے آیا تھا جبکہ سکندر غصہ کی شدت سے سرخ ہوگئے تھے ۔۔۔ کیوں کہ اب درراب عنایہ کو لے کر اسٹیج سے اتر گیا تھا اور اس کی جگہ دلہا بنے فرروخ نے لے لی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
وہاں موجود ہر فرد دانتوں میں انگلی دبائے سامنے کا منظر دیکھ رہے تھے جو دیکھتے ہی دیکھتے تبدیل ہوگیا تھا۔۔۔۔۔
عنایہ نے ڈوپٹہ اوپر کی جانب کیا اور نم انکھوں سے سامنے کا منظر دیکھنے لگی۔ ۔۔۔۔
سکندر حیات کی خاموشی وہاں موجود مہمانوں کہ باعث تھی وہ واویلا مچا۔ کر ہر گز بھی اپنی کمزوری اپنے دشمنوں کہ ہاتھ نہ دیتے ۔۔۔ اس سے انکو دی جانے والی گدی چھین جانے کا خطرہ لاحق تھا۔۔۔۔۔
حیرت انگیز طور پر ماہم کہ گھر والے بھی نکاح میں مطمئن دیکھائی دے رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
نکاح ہوتے ہی مبارک باد کا شور بلند ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب تک صائمہ کو علم ہوا بہت دیر ہوچکی تھی چونکہ نکاح ہوا تھا اس۔ لیے جھٹلانے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریب اپنے اختتام کو پہنچی تو سارے مرد مردان خانے میں چلے آئے باقی مہمان اپنے گھروں کو رخصت ہونے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔
اور عنایہ وہ تو ابھی تک بے یقینی کا شکار تھی یہ معجزہ تھا اس کے لیے کہ اللہ نے اس کی سن لی تھی اسکا درراب شاہ اسے لوٹا دیا تھا۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
___________________________
راحب سعیدہ بیگم کے ساتھ شاہ حویلی پہنچا تو بہت رات بیت چکی تھی ۔۔۔۔۔۔
یعنی شاہ نکاح کرچکا تھا ۔۔۔۔
“چلو اچھا ہے میرا کام اور آسان ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
وہ سوچتا سعیدہ بیگم کو سہارہ دیتا ہوا لاونج میں آیا جہاں گھر کہ سبھی فرد براجمان تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راحب کو آتا دیکھ کر سکندر حیات کا غصہ پھر سے عود آیا۔۔۔
“وہیں رک جا لڑکے ۔۔۔۔ ”
اپنے خونی قدم ہماری حویلی میں رکھنے کی جررت کیسے ہوئی ؟؟؟
سکندر حیات پوری طاقت سے گرجے تھے ۔۔۔
ان کی تقلید میں سب نے مڑ کر دروازہ کی جانب دیکھا وہ وہیں ساکت ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنایہ نے اپنے خوبرو بھائی کو دیکھا تو بے اختیار ان کی جانب قدم بڑھائے اس سے پہلے کہ وہ سعیدہ بیگم کہ پاس جاتی درراب نے اس کا بازو اپنی آہنی گرفت میں جکڑا۔۔۔۔۔۔۔
“مجھے چھوڑ دیں مجھے دادو سے ملنے دیں مجھے میرے بھائی سے ملنے دیں خدا کا واسطہ ہے آپکو ۔۔۔”
عنایہ نے درراب کہ اگے ہاتھ چھوڑتے ہوئے کہا:
“درراب میں اپنی بہن کو لینے آیا ہوں اسے طلاق دو اب یہ تمہارے کسی ظلم و ستم کا نشانہ نہیں بنے گی ۔۔۔۔۔”
راحب سے عینو کا گڑگڑانہ نہیں دیکھا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درراب کی غصہ کی شدت سے دماغ کی رگیں تن گئیں عنایہ کا ہاتھ چھوڑ کر وہ راحب کی جانب بڑھا اور اس کا گریبان سے پکڑلیا۔۔۔۔۔
“تیری اتنی ہممت کہ تو میرے گھر کہ
اندر کھڑا ہوکر مجھے دھمکا رہا ہے ۔۔۔۔۔ ”
“چھوڑو اسے درراب پاگل مت بنو ہٹو پیچھے۔۔۔”
صعود نے درراب کا ہاتھ راحب کہ گریبان سے ہٹایا تھا۔۔۔۔
“تو اپنی خیر بنا بہت جلد تو سلاخوں کہ پیچھے ہوگا اپنی معصوم بہن کا خون اتنی جلدی نہیں بھولوں گا ۔۔۔ پورے ثبوت کہ ساتھ تجھے ہتھکڑی لگاوں گا۔۔۔۔”
درراب نے خون افشار نظروں سے اسے گھورا ۔۔۔۔
“شوق سے لگانا ڈی ایس پی لیکن تب ۔۔۔ جب میرے خلاف ثبوت مل جائے ۔۔۔۔”
“فلحال تو میں اپنی بہن کو لینے آیا ہوں جو ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہے یہ تو تم بھی آچھی طرح جانتے ہو۔۔۔۔”
“وہ میری بیوی ہے اور وہ کہیں نہیں جائے گی ”
درراب نے دانت پیس کر راحب کو کہا ۔۔
یہ تو تمھیں پتا ہی ہوگا کہ زبردستی کسی پہ ظلم تورنے والے کو کون سے دفع لگتے ہیں تم پر یہ قانون لاگو نہیں ہے کیا؟؟؟
“وہ اپنی مرضی سے رہ رہی ہے میرے ساتھ ۔۔۔۔۔آئی سمجھ اب شکل گم کرو اپنی ۔۔۔۔۔”
درراب رخ موڑ کر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔
“اس کا فیصلہ عینو خود کرے گی تم نہیں۔۔۔”
راحب کا پر اعتماد لہجہ درراب کو بھی ٹھٹکا گیا تھا۔۔
_______________________