پیلے جوڑے میں ملبوس ڈوپٹہ کی چھاوں میں اسے اسٹیج پہ لایا گیا تھا۔۔۔
عینی کہ بائیں جانب عنبرین غرارہ پہنے ہوئے جبکہ دائیں جانب عینو نے باٹل گرین شرارہ زیب تن کیا ہوا تھا۔۔۔۔
بالوں کی موٹی چوٹی گھوندی ہوئی تھی جس میں موتئے کہ پھول چنے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔
لائٹ میک اپ میں وہ شہزادی لگ رہی تھی۔۔۔ کھلتی ہوئی رنگت اس کہ حسن میں چار چاند لگا رہی تھی۔۔۔ عینی سادہ سی تھی لیکن الگ ہی روپ آیا ۔ ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد رسموں کا آغاز ہوا ۔۔۔۔
حویلی کی رنگ و روشنی انکھوں کو خیرہ کررہی تھی۔۔۔۔۔
میر پور خاص کہ رہنے والے تمام امیر غریب کو مدعو کیا تھا۔۔۔۔۔۔
مردوں کا الگ انتظام کیا ہوا تھا۔۔۔۔
فوزیہ اور عینو نے ایک ساتھ رسم کی تھی ۔۔۔ فوزیہ کی جھجھک اب قدرے ختم ہوچکی تھی البتہ دادو کہ سامنے کم ہی آتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کبھی وہ دادو کو نظر آجاتی تو دادو کریت کریت کر اسکا حسب نسب پوچھنے لگ جاتیں ۔۔۔
تھوڑی دیر میں نکاح کا شور اٹھا تو عینو نے بارات کہ جوڑے کا نفیس کام والا ڈوپٹہ اس کہ سر پر اڑھایا ۔۔۔۔
ایجاب و قبول کہ بعد تمام مرد واپس چلے گئے تھے نجمہ بیگم سمت عینو کی انکھوں میں پانی جھلملا رہا تھا ۔۔۔۔
سعیدہ بیگم کہ حکم پر سب نے انکھیں صاف کیں بقول ان کہ : “شادی کہ موقع پر رونے کی کوئی تک نہیں بنتی ۔۔۔ ایک گھر سے دوسرے گھر میں ہی جارہی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس لئے رونا ڈال کر کوئی رنگ میں بھنگ نہ کرے ۔۔۔۔”
جبکہ عینو ڈھولک لے کر وہیں بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔ رات گئے تک ان لوگوں نے خوب ہنگامہ مچایا تھا۔۔۔۔ عینی کو کمرہ میں پہلے ہی پہنچا دیا گیا تھا ۔۔۔ آج تو دادو بھی ان سب کہ ساتھ ببیٹھی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارات دو دن کہ بعد تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اسے مایوں بٹھا دیا گیا تھا۔۔۔
___________________________
“دانی یہ کیا فضول کی ضد لگا بیٹھی ہو کل تک تو تم جانے کیلئے تیار تھیں اب ایسا کیا ہوگیا کہ تم اینٹھ گئ۔۔۔۔”
مہتاب کو رہ رہ کر اسکی فضول ضد پر غصہ آرہا تھا۔۔۔
“میں نے کہہ دیا۔ اماں جان آپ بابا جان کو منع کردیں۔۔۔۔۔۔”
ایک تھپڑ لگاوں گی ہوش ٹھکانے آجائیں گے ۔۔۔۔ ہر سیدھی سادھی بات کو مشکل کیوں بنادیتی ہو ؟؟؟
وہ دانی کو مارنے اگے ہی بڑھی تھیں کہ پیچھے سے شاہ نے اکر روک دیا ۔۔۔
اماں جان یہ آپ کیا کررہیں ہیں ؟؟؟
وہ ناراضگی سے کہتا ہوا دانی کہ پاس بیٹھ گیا :
“جاو تم یہاں سے ۔۔۔ اگر ہم نے اسکی ہر بات مان کر سر چڑھایا ہے تو اتارنا بھی آتا ہے ۔۔۔۔۔ ”
مہتاب کا غصہ سوا نیزے پہ پہنچا ہوا تھا
“اماں جان گڑیا کو مارنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا آپ جائیں میں خود بات کرلوں گا ۔۔۔۔۔”
شاہ نے مہتاب کو نرمی سے سمجھایا۔۔۔۔ ۔۔
دانی کو گھوری سے نواز کر وہ چلی گئیں۔۔۔
“چپ ہوجاو گڑیا کیوں رو رو کر خود کو ہلقان کیا ہوا ہے۔۔۔”
“بھائی میں نہیں جاوں گی آپ کہ بنا میرا دل نہیں لگتا کہیں بھی۔۔۔۔”
شاہ کہ بازو سے لگے سسکنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔
گڑیا تم جانتی ہو نہ شاہ کیلئے کل کا ٹیسٹ کتنا امپورٹنٹ ہے پھر بھی ضد کررہی ہو؟؟؟
“بھائی میں ضد نہیں کررہی میں صرف اماں جان سے یہ کہہ۔ رہی ہوں کہ میں اپ کہ ساتھ بارات میں چلی جاوں گی ۔۔۔۔”
اچھا اور جب اماں جان اور بابا جان چلیں جائیں گے پھر کہاں رہو گی۔۔۔۔؟؟؟
“بھائی میں بڑی ہوگئی ہوں اٹھارہ سال کی ہوگئ ہوں میں اکیلے رہ سکتی ہوں ۔۔۔ ”
دانی نے خفگی سے کہہ کر رخ موڑ لیا :
“ارے بھئی میری گڑیا بہت بڑی ہے بس اب ٹھیک ہے۔۔۔”
چلو مسکراو اب ؟؟؟
اور وہ مسکرا دی تھی ۔۔۔۔
“لیکن تم اپنی پیکنگ کرو اور اماں جان کہ ساتھ جانے کی تیاری کرو ۔۔۔ اس کہ اگے نو ارگیومینٹس۔۔۔۔”
شاہ نے اٹل لہجہ میں کہا تو دانی اسودہ سی مسکرا دی تھی۔۔۔۔
شاہ اس کا سر تھپتھپا کر کمرہ سے نکل گیا:
اب اسے اپنے کپڑے بیگ میں رکھنے تھے ۔۔۔ کیوں کہ شاہ نے کہا تھا اور شاہ کی بات پتھر پہ لکیر تھی اس کیلئے۔۔۔۔ جو بات مہتاب نہیں منوا سکیں تھیں وہ بات شاہ نے بڑی آسانی سے منوالی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بجھے دل سے اٹھی تھی وہ ۔۔۔۔۔ اسے شروع سے گاوں کہ لوگ پسند نہ تھے ۔۔۔۔۔ ان کا حکمانہ رویہ اسے ایک انکھ نہ بھاتا۔ تھا ۔۔۔۔ اپنی اٹھارہ سالہ زندگی میں وہ دوسری بار گاوں کی کسی شادی میں شرکت کرنے جارہی تھی۔۔۔۔۔
جب کہ اگر دیکھا جائے تو وہ گاوں میں ہی پیدا ہوئی تھی اور وہیں پلی بڑھی تھی۔۔۔
لیکن وہاں کہ رسم و رواج سے اسے چڑ تھی۔۔۔۔ سکندر حیات سے دوری کی وجہ بھی ان کا وڈیروں والا انداز تھا جنھیں صرف اپنی پگڑی کا خیال رہتا تھا عزت و رتبہ کی بڑی وجہ ان کی پگڑی تھی جو موجودہ دور میں انھیں پہنائی گئی تھی ۔۔۔۔
دونوں بھائی بہن کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ان جاگیرداروں سے کوسوں دور رہیں۔۔۔۔۔
شاہ نے تو مصلحت کی راہ بھی تلاش کرلی تھی اس کہ برعکس سکندر صاحب کچھ اور ہی سوچے بیٹھے تھے ۔۔۔ ایسے میں دانی اکیلی رہ گئی تھی ۔۔۔ کیا لکھا تھا اس کی قسمت میں یہ صرف رب کریم ہی جانتا تھا۔۔۔۔
وہ معصوم سی لڑکی آنے والے وقت سے بے بہرہ بھائی کہ حکم کی تکمیل کررہی تھی۔۔۔۔
___________________________
خالہ بی کو وہ دفنا کر آیا تھا ۔۔ ۔۔۔۔۔وہ پھر سے یہ عزیت جھیل رہا۔ تھا نجانے اس کہ نصیب میں تنہائی کیوں لکھ دی گئی تھی ۔۔۔۔ نئے سرے سے وہ کرب سے دوچار ہورہا تھا ۔۔۔ کھلی ہوئی قبر کو دیکھ کر اسکا شدت سے دل چاہا تھا خالہ بی کی جگہ وہ لیٹ جائے ۔۔ ۔۔۔ اس پر پھر سے جنون سوار ہوگیا تھا ۔۔۔۔ وقت کہ ساتھ ساتھ وہ اگے تو بڑھ رہا تھا لیکن حقیقتاً وہ وہیں رہ گیا تھا جہاں دو سال پہلے تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر میں اتنا شدید درد تھا جیسے دماغ کی رگیں پھٹ جائیں گی چائے کی طلب ہورہی تھی لیکن اس میں ہممت نہیں تھی پوری رات کا جاگا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔
کمرہ میں پہنچا تو گھٹنوں میں سر دیئے سسک رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی آہٹ پر سر اٹھا کر دیکھا:
چھوڑ آئے خالہ بی کو ؟؟
ایک بار بھی ان کا چہرہ نہیں دکھایا؟؟
اس کی ابتر حالت ہورہی تھی رونے کی شدت سے گہرے ہلاکے نمایاں ہورہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
“ان کا اخری وقت اچکا تھا۔۔۔۔۔”
اس کی بے ہوشی میں ہی خالہ بی کا جنازہ اٹھایا گیا تھا۔۔۔ ان کے وجود کو زیادہ دیر نہیں رکھ سکتے ۔۔۔۔۔۔ اس لئے اسکا انتظار کئے بنا ہی انھیں لے گئے تھے۔۔۔۔۔
وہیں زمین پر ہی اسکے روبرو بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“نہیں ان کا قتل ہوا ہے مرڈر ہوا ہے انھیں جینا تھا ابھی اور جینا تھا میرے لئے وہ مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتیں۔۔۔”
درراب سے اسکو سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا
“چپ ہوجاو پلیز تمہارے رونے سے وہ واپس نہیں آئیں گی۔۔۔۔”
“وہ میری ہمدرد، میری غمگسار میری ماں تھیں وہ جن کی اغوش میں سب کچھ بھلا دیتی تھی اگر ان کا ساتھ نہ ہوتا تو میں اسی دن مرجاتی جس دن یہاں لائی گئی تھی۔۔۔۔۔”
وہ روتے ہوئے خالہ بی اور اسکئ ایک ایک بات اسے سنا رہی تھی ۔۔۔۔ اور وہ چپ چاپ سن رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ لمحہ اسے ڈانٹ کر چپ کروانے کا نہیں تھا بلفرض وہ ایسا کرتا تو اسے کھودیتا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے۔۔۔۔۔۔
___________________________
” زید اور جابر خان کا تعلق اسی گروہ سے ہے جس کا میں نے آپ کو بتایا تھا۔۔۔۔”
دین محمد کہ بتانے پر شاہ کہ چہرہ پہ استہزایہ مسکراہٹ ابھری تھی۔۔۔۔
“اس گروپ کی نمائندگی ریاض بٹ عرف بٹھی کررہا ہے۔۔۔۔
اس کا مقصد نہ تو ڈرگس اسمگلنگ کا۔ ہے اور نہ ہی غیر قانونی اصلحہ خرید و فروخت کرنے کا ہے بلکہ ان کا۔ مقصد صرف اور صرف آپ ہیں۔۔۔
آپ کہ گھر میں گارڈز بن کر آنا ان کہ پلین میں شامل تھا لیکن یہ پلین مکلمل ہونے سے پہلے ہی برباد ہوگیا ۔۔۔ کیوں کہ اس رات کی فائرنگ کی وجہ سے ان کا جو طے شدہ مشن تھا وہ پوری طرح سے پایا تکمیل تک نہ پہنچا ۔۔۔”
دین محمد نے شاہ کی جانب دیکھا جو دونوں بازو ٹیبل پہ دھرے انہماک سے بغیر کسی تاثر کہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ ۔
“بولتے جاو ۔۔۔”
شاہ کہ کہنے پر وہ بات مکمل کرنے لگا۔۔
“زید نے اپنے باس کو نوکری سے نکالے جانے کا بتایا تو وہ ہتھے سے اکھڑ گیا اور اسے دھون کہ رکھ دیا ۔۔۔۔ اس سارے عرصہ میں جابر خان کی ابھی تک کوئی خبر نہیں ہے ۔۔ وہ کہاں ہے زندہ بھی ہے یا۔ مرچکا ہے کسی کو نہیں پتا ۔۔۔”
دین محمد کہ خاموش ہونے پر شاہ اپنی سیٹ سے آٹھا۔۔۔
“ویلڈن انسپیکٹر کیپ اٹ اپ ورک۔۔۔۔”
“بہت اچھا ہوم ورک کیا ہے تم نے ۔۔۔”
وہ پورے کمرہ کہ چکر لگاتا ہوا کہنے لگا۔۔
“جابر خان اس وقت کھٹمنڈو میں ہے جہاں وہ دوسرے گروہ کی نمائندگی کررہا ہے ۔۔۔۔
ریاض بٹ کا اصلی نام شیدا ہے جالی شناخت اختیار کرکہ پاکستان میں رہ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
دین محمد ہونقوں کی طرح اس کی دی ہوئی انفارمیشن پہ حق دق رہ گیا تھا۔۔
اسے اس پل بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کتنا ذہین اور چاروں طرف عقابی نظر رکھتا ہے ۔۔۔۔
“تمہارا اگلا ٹاسک یہ ہے کہ سول ڈریس میں تم ان کہ گروہ کا حصہ بنو گے ۔۔۔ باقی تم خود سمجھدار ہو ”
” اور دوسری طرف تم نے شیدے پہ نظر رکھنی ہے کہ ۔۔۔۔”
“جی سر ایسا ہی ہوگا۔۔۔۔”
“چاہو تو اپنے ساتھ کسی کوبھی شریک کرلو لیکن اس سے پہلے تحقیق کروالینا ۔۔۔۔۔”
جی بہتر سر آپ کہ علم میں لائے بغیر کوئی کام نہیم ہوگا۔۔۔۔۔”
دین محمد نے مودبانہ انداز میں کہا :
“گڈ۔۔۔”
سر ایک بات پوچھوں ؟
صرف ایک ہی بات ہونی چایئے۔ ۔۔ پوچھو ؟؟
سر وہ آدمی جو آپ کی حراست میں تھا اس نے کچھ اگلا منہ سے ؟؟
دین محمد جانتا تھا کہ وہ بات اگلوا چکا ہے پوچھنا کچھ اور چاہ رہا تھا۔۔۔۔۔
تمھیں پتا ہے میری کسٹڈی میں رہنے والا شخص بہت جلد اپنا منہ کھول دیتا ہے جو پوچھنا چاہ رہے ہو وہ پوچھو؟؟؟۔
دین محمد نے زیر لب اپنے آپ کو گالیاں دیں تھیں۔۔۔ وہ کیوں بھول جاتا تھا شامنے کھڑا شخص عقاب کی نظر رکھتا ہے۔۔۔۔
سر اگر وہ شخص شیدا کہ گروہ سے نہیں تھا تو پھر کون تھا ؟؟
“وہ الہی بخش تھا۔۔”
الہی بخش لیکن یہ تو اپنے ڈیپارٹمنٹ کا بندہ ہے وہ کیسے؟؟؟
دین محمد چونک اٹھا تھا
اگر مطلب بھی مجھے ہی بتانا ہے تو تم یہاں کیوں کھڑے ہو ؟؟؟
شاہ کی اگلی بات پر بے اختیار لب بھینچ گیا تھا۔۔۔
“سوری سر۔۔۔”
“ہممم جاسکتے ہو ۔۔۔۔”
پرسوچ نگاہوں سے وہ دین محمد کو جاتا دیکھے گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
___________________________
صعود بلاو اس ناہنجار کو ؟؟
“جی بابا جان لیکن وہ اس وقت کسی کیس کہ سلسلے میں مصروف ہے۔۔۔”
“تم سے جو کہا ہے وہ کرو زیادہ صفائیاں پیش نہ کرو۔۔۔۔”
سکندر صاحب نے بڑے صاجزادہ کو جھاڑ کر رکھ دیا :
صعود نے کینہ توس نظروں سے صائمہ کو دیکھا ۔۔۔۔۔۔
جو آگ لگا کر اب الگ ہوچکی تھی۔۔۔۔۔
صائمہ کو بیاہ کر لانے کا فیصلہ سکندر صاحب کا تھا ۔۔۔۔۔ مجبوراً صعود کو بابا جان کہ فیصلہ کہ آگے سر خم کرنا پڑا۔۔۔ صائمہ صعود کہ مزاج سے مختلف ثابت ہوئی تھی ۔۔۔ ۔۔۔۔۔
اب اپنے قدم اور مضبوط کرنے کہ چکر میں اپنی چھوٹی بہن ماہم کو اس گھر میں لانے کیلیے ایڑھی چوٹی کا زور لگارہیں تھیں۔۔۔۔۔۔
لیکن وہ یہ بھول رہیں تھیں کہ ان کہ مقابلہ میں صعود نہیں بلکہ شاہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مجھے دو میں خود بات کروں گا ۔۔۔۔”
ہاتھ سے موبائل جھپٹ لیا تھا ۔۔۔۔
ہاں تو برخوردار پہچانا مجھے ؟؟؟
ٹھنڈے ٹھار لہجے میں گویا ہوئے۔۔ دوسری طرف درراب چونکنا ہوگیا تھا۔۔۔ بابا جان کا اچانک فون کرنا خطرہ سے خالی نہ تھا۔۔۔
اسلام و علیکم بابا جان کیسے ہیں ؟؟
وعلیکم سلام تم حویلی آئے تھے اور باپ کو شکل دکھانا بھی گنوارہ نہ کیا؟؟؟
“بابا جان ایمرجنسی میں واپس جانا پڑگیا تھا۔۔۔۔۔۔”
“آج رات تم مجھے اس لڑکی سمیت حویلی میں ملو ۔۔۔۔”
لیکن بابا جان اتنی اچانک ملاقات کا مطلب ؟؟
“جو کہا ہے اس پر عمل در آمد کرو میرے ساتھ یہ تفتیشی انداز میں بات نہ کیا کرو۔۔۔۔”
یہ کہہ کر لائن کاٹی گئی تھی۔۔۔
درراب نے غصہ سے موبائل دیوار پہ دے مارا ۔۔۔۔۔۔۔
وہ لاونج سے گزرنے لگی تھی کہ ڈر کہ پیچھے ہٹی ۔۔۔۔۔۔
وہ سارا معاملہ سمجھ چکا تھا۔۔۔
ادھر آو ؟؟؟
جی ۔۔۔۔
“پندرہ منٹ میں تیار ہوجاو ہمیں نکلنا ہے ۔۔”
آواز کی سختی تھی یا ضبط سے لال ہوتی انکھیں تھیں کہ وہ چپ چاپ سر ہلادی تھی۔۔۔۔۔
پندہ منٹ سے پہلے ہی وہ لان میں درراب کا انتظار کرنے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ فون کان سے لگائے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔
“میں دو تین دن کیلئے گاوں جارہا ہوں میرے پیچھے دیکھ لینا جو بھی ہو اور دوسری بات یہ کہ پولیس اسٹیشن کہ عملہ میں اگر کوئی غیر ضروری بات دیکھو تو فوراً مجھے اطلاع کرو۔۔۔۔”
“جی سر ۔۔۔۔”
موبائل کُرتے کی جیب میں ڈال کر وہ گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا۔۔۔۔۔۔
اس کیلئے تو ہر دن ایک نیا امتحان کھڑا رہتا تھا۔۔۔ وہ اس جہنم میں پھر لےجائی جارہی تھی ۔۔۔ ایک بار پھر سے مرنے کیلئے۔۔۔۔ کیا پتا اس بار اس کی لاش ہی واپس آئے ۔۔۔۔۔
گاڑی میں ہرسو سگریٹ کا دھواں پھیلا ہوا تھا ۔۔۔۔ سوچ سوچ کر اسکا دماغ ماووف ہورہا تھا اوپر سے سگریٹ کی اسمیل سے اسکا وہاں بیٹھنا محال ہوگیا تھا۔۔۔
“مجھے وہاں نہیں جانا ۔۔۔۔”
آنسووں میں ڈوبی آواز پر اس نے گردن گھما کر دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔
آنکھیں بادل بنی ہوئیں تھیں چہرہ رگڑنے سے گال سرخ ہوچکے تھے۔۔۔۔
دل پہ دھکا سا لگا تھا اسے ۔۔ وہ اپنی سوچوں میں اس قدر غلطاں تھا کہ اسکا رونا محسوس ہی نہ کرسکا تھا۔۔۔۔
اس نے ٹشو باکس اس کی جانب بڑھایا۔۔۔
“آپ مجھے کہیں اور چھوڑ دیں میں وہاں نہیں جانا چاپتی پلیز۔۔۔۔”
وہ اس۔ کہ سامنے ہاتھ جوڑ گئی تھی ۔۔۔۔
یک دم پاوں بریک پر پڑا تو ایک جھٹکے سے پجارو رکی تھی۔۔۔۔
“میں جارہا ہوں ساتھ تو پھر کیوں رو رہی ہو میں وہاں چھوڑنے نہیں جارہا تمھیں اپنے ساتھ ہی لے کر آوں گا ۔۔۔”
“اب رونا بند کرو اور مجھے ڈرائیو کرنے دو ۔۔۔ آواز نہ سنوں رونے کی ۔۔۔”
برہمئ سے کہتا ہوا وہ دوبارہ گاڑی اسٹارٹ کرچکا تھا۔۔۔۔۔۔
اور وہ چپ چاپ آنسو بہاتی رہی ۔۔۔۔۔
“یہ انسان پتھر دل ہے کبھی نہیں سمجھ سکتا میرا ڈر ۔۔۔ اچھا ہے نہ مر جاوں وہیں ۔۔۔ کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔۔۔۔۔ ”
مام بھی مجھے بھول گئیں ۔۔۔۔ راحب بھائی بھی اپنی زندگی میں مگن ہوں گے ۔۔۔ ایک میں ہی فالتو پرزے کی طرح تھی جسے پھینک دیا گیا ۔۔۔
تلخی سے سوچ کر وہ سر ٹکاگئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
وہ گاڑی چلاتا ہوا گاہے بگاہے اس پر بھی نظر ڈال لیتا ۔۔۔۔۔۔۔
____________________________
گڑیا دعا نہیں کروگی میرے لئے؟؟؟
آنسو بہاتی دانی کو دیکھنے لگا ۔
“کروں گی بھائی لیکن آپ مجھ سے پرامس کریں کل ضرور آئیں گے ”
“پکا والا پرامس ۔۔۔”
اس سے عہد و پیماں باندھ کر وہ گاڑی میں بیٹھ چکی تھی جہاں سب پہلے ہی اپنی اپنی نشست پر بیٹھے تھے۔۔۔
اس کہ بیٹھتے ہی گاڑی پورچ سے نکل کر آگے بڑھ گئی ۔۔۔
شاہ تب تک اسے جاتا دیکھے گیا تب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوگئی۔۔۔۔۔
منع کرنے کہ باوجود وہ روئے جارہی تھی۔۔۔۔۔۔
سینٹر جانے کی تیاری کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔
لیکن دانی کا روتا چہرہ اسے ڈسٹرب کرگیا تھا ۔۔۔۔۔
وقتی جذبات سمجھ کر جھٹک گیا تھا۔۔۔۔ ۔
آج اسکا کیریر کا سوال تھا اس کا خواب کی تعبیر پانے کا پہلا قدم تھا ۔۔۔ اور خوشیاں روٹھنے کا بھی ۔۔۔۔۔۔
یہ دن اسے مرتے دم تک یاد رہ جانے والا تھا۔۔۔۔۔۔ ۔
___________________________
تین گھنٹے کے طویل سفر کہ بعد وہ لوگ گاوں پہنچے تھے۔۔۔۔۔۔
اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے وہ حویلی کہ اندرونی حصہ میں داخل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسے ہو شاہ ؟؟
صعود اٹھ کر اس کے بغل گیر ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
اس نے دھیمہ سے سلام کیا تھا جس کا جواب جوش سے ضعیم نے سر پہ ہاتھ رکھ کر دیا تھا ۔
صائمہ تنفر اور نحوت سے اسے گھور رہی تھی۔۔۔ ۔
صائمہ نے اگے بڑھ کر ان کا۔ حال پوچھنا گوارہ نہ کیا اور اپنے کمرہ میں چلی گئی۔۔۔ وہاں موجود تینوں نفوس نے بڑی شدت سے صائمہ کا رویہ محسوس کیا تھا۔۔۔۔
بابا جان کہاں ہیں ؟
“وہ رحیم چاچا کہ ڈیرہ پر ہیں انھیں تو رات ہوجائے گی تم آرام کرلو ۔۔۔۔ ”
صعود نے رسان سے کہتے ہوئے کندھے پہ ہاتھ رکھا:
“میں اماں جان سے مل لوں۔۔۔۔”
شاہ کی تقلید میں وہ اگے بڑھی تھی۔۔
اسلام و علیکم اماں جان ؟
وہ نیم دراز تسبیح پڑھنے میں مصروف تھیں شاہ کی آواز پر انکھیں وا کیں۔۔۔۔
“وعلیکم سلام میرا شاہ آیا ہے اجا بیٹا آجا ۔۔۔۔”
اماں جان نے خوشی سے نہال ہوتے ہوئے کہا:
“اماں جان میں آپ کی بہو کو بھی ساتھ لایا ہوں ۔۔۔”
وہ اگے برھ کر ان کی جانب جھکی تھی ۔۔۔۔۔
“میری گڑیا کو لایا ہے شاہ تو میری دانی کو لایا ہے ۔۔۔ ”
وہ والہانہ اسے چوم رہیں تھیں۔۔۔۔۔
شاہ کی انکھیں نم ہوگئیں تھیں۔ ایک درد تھا جو اس کہ سراپہ میں سرائیت کرگیا تھا ۔۔۔۔۔
کاش میں ایسا کرسکتا تھا کاش!!!
آپ کیسی ہیں؟؟؟
“میں بھلئ چنگی ہوں بیٹا تم کو دیکھ لیا تو جی اٹھی ہوں۔۔۔۔”
انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا:
اتنے میں صعود صائمہ کو لئے وہیں چلا آیا ۔۔
شاہ کہ آتے ان کہ ہی کمرہ میں کھانا کھایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔
کافی دیر تک باتیں ہوئیں تھیں آج تو اماں جان کی نیند بھی انکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔۔۔
اماں جان نے اسے اپنے قریب ہی بٹھا لیا تھا۔۔۔۔۔
اور وہ مطمئن سی ان سے باتیں کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صائمہ مارے بندھے ہی وہاں بیٹھی رہی پھر آٹھ کر چلی گئی۔۔۔۔
__________________________
سکندر صاحب کی فیملی کا پرتپاک استقبال کیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریان کا باپ شمشیر الدین سکندر حیات کا جگری یار تھا ۔۔۔ میرپور خاص میں شمشیر الدین اپنی باپ کی جگہ گدی نشین ہوئے تھے اور اب ریان کی باری تھی جو کہ اکلوتا دو بہنوں کا بھائی تھا۔۔۔۔۔
سکندر صاحب اپنے گاوں کہ گدی نشین تھے یوں ان دونوں کی دوستی اور بھی گہری ہوچکی تھی۔۔۔۔۔ ۔۔۔
دانی بجھی بجھی سی وہاں آئی تھی لیکن عینو کو دیکھ کر اسے انتہائی خوشی ہوئی تھی۔۔۔
شام کا وقت تھا ٹھنڈی ہوا نے گاوں کا احاطہ کئے ہوا تھا۔۔۔
مہتاب دانی کو مطمئن دیکھ کر پرسکون ہوگئیں تھیں۔۔۔ دانی نے سب کو عینو سے ملوایا تھا ۔۔۔ اور عینو اس کی محبت پاش فطرت پر فدا پی ہوگئی تھی۔۔۔۔
“آپ یقین کریں یہاں آنے کو میرا بلکل دل نہیں چاہ رہا تھا کیوں کہ میں بھائی کہ بغیر کہیں نہیں جاتی ۔۔۔”
تو اپ کے بھائی کیوں نہیں آئے؟؟؟
عینو غور سے اس چھوٹی سی لڑکی کی بات سن رہی تھی۔۔۔
“وہ بھائی کا سی ایس ایس کا ٹیسٹ ہے آج آپ دعا کرئیے گا ۔۔۔”
عینو حیرت سے اس کہ بھائی سے والہانہ محبت کو دیکھتی رہ گئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جب سے آئی تھی اس کہ منہ پر شاہ نامہ تھا۔۔۔ عینو تو اسے شوق سے سن رہی تھی البتہ فوزیہ بے زار ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کچھ کہا نہیں تھا ۔۔۔ کیوں کہ وہ حویلی کی خاص مہمان تھی۔۔۔۔۔۔
عینو کو دانی کی طرح شاہ کی آمد کا انتظار تھا۔۔۔ کیوں کہ جتنی تعریفیں وہ کرچکی تھی
عینو کو سو فیصد درست لگیں تھیں۔۔۔۔۔
____________________________
کیوں اٹھ کر آئی ہو وہاں سے ؟؟؟
“مرضی میری اب وہاں بیٹھ کر ٹائم ضائع تو کرنے سے رہی ۔۔۔”
“صائمہ دوبدو ہوکر بولی تھی۔۔۔ بکواس بند کرو ماں ہیں وہ میری ۔۔۔۔۔”
اور تم نے کیا آگ لگائی ہے بابا جان سے؟؟؟
“میں نے کیا کہا۔ ہے وہ خود ہی بار بار مجھ سے ماہم کہ بارے میں پوچھتے رہتے ہیں۔۔۔۔”
“بی بی عقل کا اندھا نہیں ہوں میں یاد رکھنا اگر شاہ سے بابا نے کوئی ایسی ویسی بات کی تو تم اپنا حشر دیکھ لینا ۔۔۔۔”
ان دونوں کہ زور زور سے بولنے پر بیڈ پہ سویا راحم کچی نیند سے اٹھ جانے پہ رونے لگا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسے بیڈ پر دھکیل کر باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔
“بہت پچھتاو گے تم شاہ نہ میں نے تمھیں دھول چٹادی۔۔۔ ”
آنسو رگڑتے ہوئے زہر خند لہجہ میں بڑبڑائی۔۔ ۔
راحم کو گود میں لئے دوبارہ سلانے لگی ۔۔۔۔۔۔
____________________________
بارات کا دن بھی آپہنچا تھا۔۔۔۔
شاہ آج صبح ہی حویلی پہنچا تھا۔۔ ۔ دانی اس سے مل اس طرح خوش ہوئی تھی جیسے پہلی دفعہ ملاقات ہوئی ہو ۔۔۔۔
وہ صبح سے ہی شاہ کہ کمرہ میں گھسی ہوئی تھی۔۔۔۔ اور عینو کہ بارے میں بھی بتانے لگی تھی۔۔۔۔۔ ۔ ۔ اور دو دن کو روداد سنانے بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔ شاہ اسکا بھائی کم دوست زیادہ تھا۔۔۔۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایک قلب دو جاں تھے تو غلط نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔۔
شاہ کہ آتے ہی سب سے پہلا سوال تھا جو اس نے پوچھا تھا۔
۔ٹیسٹ کیسا ہوا ؟؟؟
شاہ کی مسکراہٹ پہ وہ جھوم اٹھی تھی کیوں کہ یہ سی ایس ایس کا خواب اس اکیلا کا نہیں بلکہ دانی کا بھی تھا۔۔۔۔۔
“چلو اب تم تیار ہوجاو گڑیا ورنہ ہم لیٹ ہوجائیں گے۔۔۔۔”
وہ سر ہلاتی ہوئی تیار ہونے چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔
____________________________
دلہن بنی عینی پر ٹوٹ کہ روپ آیا تھا۔۔۔ جبکہ اس کہ برابر میں بیٹھا ریان سفید شیروانی زیب تن کئے کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا ۔۔۔
دونوں اپنی آنے والی نئی زندگی سے مطمئن اور پرسکون تھے۔۔۔۔۔
نکاح چونکہ کل ہوچکا تھا تو اس لئے دونوں کو ساتھ بٹھا دیا گیا تھا۔۔۔۔۔
سعیدہ بیگم اپنے دونوں بیٹوں کہ سہارہ سے اسٹیج پر آئیں تھیں اور ان دونوں کو دعاوں سے نواز رہی تھیں۔۔۔۔
عینو نے سفید میکسی پہنی ہوئی تھی جو ٹخنوں تک آرہی تھی۔۔۔ گلے پہ نفیس سا کام ہوا تھا ۔۔۔ بالوں کو کھول کر ایک سائیڈ پہ کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
دانی چوڑی دار پجامہ اور فراک میں من موہنی سی گڑیا لگ رہی تھی ۔ ۔۔۔ اسے کافی دیر سے کسی کی نظروں کی تپش کا احساس ہورہا تھا۔۔۔
لیکن نظر انداز کر کہ وہ مہتاب کہ ساتھ آکر بیٹھ گئی۔۔۔۔ مہتاب نجمہ سے محو گفتگو تھیں۔۔۔
انھیں یہ پیاری سی لڑکی اپنے راحب کیلئے پسند آگئی تھی ۔۔۔ ۔۔۔۔۔
تبھی راحب نجمہ کو ڈھونڈتا ہوا چلا آیا۔۔۔
اس کی نگاہ بے داغ چاند سے مکھڑے پہ ٹہر گئی تھی ۔۔۔۔ راحب کا یک ٹک دانی کو دیکھنا کسی کی انکھوں میں چنگاری بھر گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
دانی نے راحب کو اپنی جانب گھورتا پایا تو معذرت کرتی وہاں سے اٹھ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
اسے یہاں کہ مردوں سے الجھن ہورہی تھی۔۔ ہر کوئی اسے گھور کر دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔ اس نے فیصلہ کرلیا تھا وہ کل ہی شاہ کہ ساتھ واپس کراچی چلی جائے گی۔۔۔۔۔
تبھی سکندر صاحب، ضعیم آحمد اور شمشیر الدین کہ پیچھے گھر کہ تمام مرد آتے ہوئے دیکھا دیئے۔ ۔۔۔۔۔
ماں جی اجازت ہے؟؟؟
سعیدہ بیگم نے پہ ہاتھ رکھ کر اجازت شمشیر الدین کو اجازت دی۔۔۔۔
میں سکند حیات اپنی بیٹی دانیہ حیات کا رشتہ اپنے دوست شمشیر الدین کہ بھانجے معراج سے طے کرتا ہوں کل ولیمہ والے دن ان کے نکاح کی رسم ادا کی جائے گی۔۔۔۔۔۔۔
وہاں موجود شاہ کو وجود سناٹوں کی زد میں اگیا تھا۔۔۔۔
اس نے دانی کو چہرہ کو بغور دیکھا جس کا چہرہ لٹھے کی مانند ہوگیا تھا۔۔۔۔
“شاہ یہ کیا کہہ دیا تمہارے باپ نے دانی تو ابھی بہت چھوٹی ہے ۔”
“اماں جان بابا جان کو اپنا فیصلہ واپس لینا ہوگا میں گڑیا کی شادی یہاں نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔۔”
شاہ کہ لہجہ میں چٹانون جیسی سختی تھی۔۔۔۔مہتاب اس کہ انداز پہ دہل گییں تھیں
تم ایسا ویسا کچھ نہیں کرو گے شاہ سنا تم نے ؟؟
اماں جان میں کسی بھی حد تک جاسکتا ہوں لیکن اپنی گڑیا ان کہ حوالے ہرگز نہیں کروں گا۔۔۔
نجمہ کی آنکھوں کی جوت بجھ گئی تھی۔۔۔ شاید ان کہ بیٹے کہ نصیب میں تھی ہی نہیں دانیہ۔۔۔۔۔
راحب کو دنیا کی بھیڑ میں جو لڑکی پسند آئی تھی وہ اس سے کوسوں دور تھی ۔۔۔۔ اسے اپنا آپ خالی خالی لگا تھا۔۔۔۔۔۔
راحب کو دانی پہلی نظر میں بھاگئی تھی وہ اترا اترا اداس چہرہ جیسے چاند بدلیوں کہ بیچ میں اداس ہو ۔۔۔۔ پھر عینو کا ساتھ پاکر اسکا کھلکھلانا ۔۔۔۔۔
اور اب ۔۔۔ کیا وہ اس سے دور چلی جائے گی ایک ایسے شخص کہ پاس جو عیاش اور ان پڑھ وڈیرہ تھا۔۔۔۔
راحب تو اسے اچھی طرح جانتا تھا ۔۔۔۔۔۔
شاہ کو راحب کا دانی کو یک ٹک دیکھنا گوارہ نہ ہوا تو فوراً اسٹیج سے اسے لے گیا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔
___________________________
دانی مہتاب کی گود میں منہ چھپائے روئے جارہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسے چپ کرواتے کرواتے تھک چکی تھیں۔۔۔۔۔
“گڑیا ادھر دیکھو میری طرف۔۔۔”
“بھائی مجھے نہیں کرنی شادی میں نہیں کروں گی۔۔۔”
“ہاں تو کون کہہ رہا ہے کہ کرو تم نہیں کرو گی ٹھیک ہے اب رونا بند کرو۔۔۔”
“لیکن بابا جان وہ نہیں مانیں گے ۔۔۔”
“انھیں منانا میرا کام ہے گڑیا دیکھو تمہارے رونے سے اماں جان بھی روئے جارہی ہیں۔۔۔”
دانی نے گردن موڑ کر مہتاب کی بھیگی انکھیں صاف کیں تھیں۔۔۔
“میری بچی دانی ۔۔۔”
فرط جذبات سے اسے اپنے اندر بھینچ لیا تھا۔۔۔۔
وہ اٹھ کر اپنے کمرہ میں آگیا ۔۔۔
وہ سوچ رہا تھا کہ کیسے بابا جان کی نظروں میں لائے بغیر دانی کو حویلی سے لے جائے کیوں کہ بابا جان اب اپنی زبان سے تو پھریں گے نہیں اس لئے ان سے کچھ کہنا سننا بے کار تھا۔۔۔
اسے ایک دم کمرہ میں گھٹن کا احساس جاگا تو اسنے کھڑکی کہ پٹ وا کردیئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکہ اسے چھو کر گزرا۔۔
سامنے ایک ہیولہ سا لان میں گزرتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔ تجسس کہ مارے اس نے غور کیا تو عنایہ احمد کسی دوشیزہ کہ ساتھ واک کرتی ہوئی دیکھائی دیں۔۔۔۔۔۔
اسے عنایہ سے پہلی ملاقات یاد آگئی تھی۔۔۔۔ بے پراوہ سا انداز کمر پہ جھولتی پونی ٹیل ۔۔۔۔ انکھوں میں چمکتا پانی ۔۔ ۔۔
وہ پڑھی لکھی باشعار لڑکی سائیں ضعیم کی بیٹی تھی اور اسے اگے پرھنے کی اجازت کیسے مل گئی تھی کیوں کہ سکندر صاحب کی طرح ضعیم احمد بھی اپنے پرکھوں کی رواج کہ پکے انسان تھے۔۔۔۔۔
“لا حول ولا قوت ۔۔۔”
گڑیا کا سوچتے سوچتے کہاں اٹک گیا ۔۔۔۔۔۔
شاہ کھڑکی سے ہٹ کر اب بیڈ پہ بیٹھا اگے کا لائحہ عمل تیار کررہا تھا۔ ۔۔۔۔۔
___________________________
___________________________
وہ رات ہی مہتاب بیگم کے پاس باتیں کرتی ہوئی سو گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہتاب بیگم کی قربت اسے اپنی ماں کی خوشبو آتی تھی۔۔۔۔ ساس کا رشتہ ہونے کہ باوجود وہ اسے اپنی بیٹی کی سی اہمیت دیتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔
باہر سے آتی تیز آوازوں پر وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی ۔۔۔۔
حواس بیدار ہوئے تو ارد گرد نگاہ دوڑائی ۔۔۔۔۔
کمرہ میں اس کہ سوا کوئی نہیں تھا۔۔۔۔
بابا جان اس بات کو آپ ختم کیوں نہیں کردیتے ؟
یہ آواز تو شاہ کی تھی وہ ڈوپٹہ لے کر کمرہ سے نکلی ۔۔۔۔ سامنے ہی اسے صعود ، صائمہ ، اور سکندر صاحب نظر اگئے تھے۔۔۔۔۔
“ناہنجار اولاد مجھ سے پوچھتے ہو کہ ختم کیوں نہیں کردیتا تم کیسے پولیس والے ہو جو اپنے گھر میں انصاف نہیں کررہے۔۔۔”
سکندر صاحب نے ڈھاڑتے ہوئے کہا:
اس کا نکاح بھی آپ نے ہی کروایا تھا مجھ سے بھول گئے کیا؟
“نکاح کروایا تھا وہ صرف خون بہا کہ بدلے میں لائی گئی عورت ہے ۔۔۔۔۔ تمہاری بیوی صرف اور صرف ماہم بنے گی جو بچپن سے تمہارے نام پہ بیٹھی ہوئی ہے ۔۔۔۔”
اس نے بے اختیار دیوار تھامی تھی ۔۔ منگ ، ونی ، بیوی دوسری شادی؟
کتنے ہی سوال اس کا منہ چڑارہے تھے۔۔۔۔۔
پھر میری حیثیت کیا ہے اس گھر میں ؟؟؟؟
خالی الذہنی کی کیفیت میں وہ شاہ کو دیکھنے لگی جس کی انکھیں بے تحاشہ سرخ ہورہیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔
“میں آپ کی بات ماننے سے قاصر ہوں بابا جان میں اپنی بیوی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہونے دوں گا ۔۔۔۔۔”
شاہ نے اٹل لہجہ میں کہا :
میری بیوی !!! کیا واقعی یہ مجھے اپنی بیوی سمجھتا ہے ؟؟؟؟
وہ اس کو بغور دیکھ رہی تھی اس کہ تاثرات سے کوئی معنی اخذ نہ کرسکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ جو بچپن سے لے کر جوانی تک تمہارے نام کہ ساتھ جڑی ہوئی ہے اس کے بارے میں تمہارا انصاف کیا کہتا ہے ؟؟
سنا ہے تم اپنے پیشے سے ایماندار ہو ۔۔۔
تو ڈی ایس پی صاحب اس بے زرر لڑکی کہ بارے میں تمہارا انصاف کیا کہتا ہے ؟؟؟؟
انہوں نے اسکی دکھتی رگ پر وار کیا تھا ۔۔۔ وہ جانتے تھے جس پیشے سے اس کا تعلق ہے وہ اس میں کسی قدر کوتاہی برداشت نہ کرتا تھا ۔۔۔۔ اور یہ ہی حال اسکا ذاتی زندگی میں بھی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ضبط کی انتہاء پر تھا۔۔۔۔۔ مٹھیاں سختی سے بھینچ کر اٹھتے ہوئے اشتعال کو دبانے کی سعی کررہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
“آپ کیوں ہر بار میرے بیٹے کہ پیچھے پڑجاتے ہیں پہلے ہی ایک بیٹی کو کھو چکی ہوں آپ کی وجہ سے ۔۔۔”
مہتاب نے لڑکھڑاتی آواز میں شاہ کا دفاع کیا۔
“تمہاری ہی شہ پہ آج یہ باپ کہ منہ کو آرہا ہے اس سے کہو کہ اگر اسے ماہم کا ساتھ منظور نہیں ہے تو مجھے بھی تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔۔”
ان کی سفاکیت پر وہ جی تے جی مر گئیں تھیں ۔۔۔ اس سے پہلے وہ قدم بوس ہوتیں اس نے اگے بڑھ کر انھیں سہارہ دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
پہلے ہی حالات کی ستائی ہوئیں تھیں سکندر حیات نے انھیں مار دیا تھا زندہ درگور کردیا تھا ۔۔۔۔
سکندر صاحب نے بڑی چالاکی سے دونوں بیٹوں کو گھسیٹا تھا ۔۔ وہ ان دونوں کی کمزوری سے بخوبی واقف تھے ۔۔۔ اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انہوں نے مہتاب کو دو کوڑی کا کر کہ رکھ دیا تھا ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔
“بابا جان رک جائیں آپ ایک لفظ اور بھی منہ سے نہیں نکلنا چاہیئے۔۔۔”
صعود نے سکندر صاحب کو مزید بولنے سے روکا۔۔۔۔۔۔۔
“یہ آگ تمہاری لگائی ہوئی ہے تم ہو سارے فساد کی جڑ۔۔ منع کیا تھا نہ میں نے تمھیں تم باز نہیں آئیں۔۔۔ ”
صعود شعلہ جوالہ بنا صائمہ کی جانب بڑھا ۔۔۔
صائمہ کی گود سے راحم کو کھینچا اور مہتاب بیگم کو تھما کر اس کا ہاتھ پکڑ کر دروازہ کی جانب جانے لگا۔۔۔۔
“نکلو میرے گھر سے فتنا عورت بہت برداشت کرلیا تمھیں۔۔۔۔”
“بابا جان میں نے کچھ نہیں کہا۔۔”
صائمہ نے روتے ہوئے دہائی دی۔۔ ۔۔
“رک جاو صعود یہ کیا بے ہودگی مچارہے ہو چھوڑو اس کا ہاتھ ۔ ”
شاہ فوراً حرکت میں آیا تھا ۔۔۔
اس کی وجہ سے تمہاری زندگی جہنم بنی ہوئی ہے کیوں روکنا چاہتے ہو تم ؟؟؟
اشتعال بھرے انداز میں گویا ہوا۔۔۔۔
“کسی کی وجہ سے کچھ نہیں ہوا تم چھوڑو بھابھی کو ۔۔۔۔”
“بھابھی آپ جائیں راحم کو لے کر ۔۔۔۔۔”
صائمہ روتی ہوئی راحم کو لئے کمرہ میں چلی گئی۔۔۔۔۔
“میں تیار ہوں بابا جان ماہم سے نکاح کرنے کیلئے لیکن میری شرط یہ ہے کہ وہ یہاں حویلی میں ہی رہے گی میں اسے اپنے ساتھ ہر گز نہیں لے کر جاوں گا۔۔۔۔۔ اگلی دفعہ آوں گا تو نکاح کردیئے گا۔۔۔۔۔”
آئے دن کہ جھگڑے سے اکتا کر اس نے آخر فیصلہ سکندر صاحب کے حق میں دے دیا تھا۔۔۔۔
سکندرصاحب نے کمینگی مسکراہٹ کے ساتھ گھنی موچوں کو تاو دیا ۔۔۔۔
ان کا تیر ٹھیک نشانہ پہ لگا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت وہ صرف ایک جاگیردار سکندر شاہ بنے ہوئے تھے اور یہ نشہ تمام رشتوں پہ بھاری تھا۔۔ کیا شوہر ، کیا باپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن وہ ! ہاں وہ مر گئی تھی اس کہ فیصلہ سے ۔۔۔
ہمیشہ کیلئے مرگئی تھی۔۔۔۔۔
خالی خالی نظروں سے شاہ کو قریب آتے ہوئے دیکھا تھا شاید اب وہ اسکا ہاتھ پکڑے لے جارہا تھا۔۔۔۔۔
وہ کہاں لے جارہا تھا؟؟؟؟
وہ اس وقت کچھ سمجھنے کی پوزیشن میں نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔دھندلا دھندلا سا دکھ رہا تھا سامنے کا منظر۔۔۔۔
_________________________
معراج کی خوشی کا کوئی ٹہکانہ نہیں تھا جو لڑکی وہ زور زبردستی سے حاصل کرنے والا تھا۔
قدرت اسے بغیر کسی حججت کہ دے رہی تھی ۔۔۔۔۔
بس کچھ ہی گھنٹوں میں وہ اس کی سیج سجائے بیٹھے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واہ تو تو مقدر کا سکندر نکلا یار ؟؟
“وہ تو میں ہوں ۔۔۔”
فخریہ انداز میں کالر کھڑے کئے۔۔۔۔
“ویسے ہے چاند کا ٹکڑا بھرا بھرا جسم نشیلے ہونٹ۔۔۔”
ہاہاہاہاہا !
یہ اس کا آوارہ دوست تھا جو خباثت سے کہہ کر قہقہہ لگانے لگا۔ ۔۔
کس طرح کی غیرت ہوتی ہے ان کی اپنی عزت کہ خاطر مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں اور دوسرے کی بہن بیٹی کی کوئی عزت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں تک کہ جو لڑکی اس کے نکاح میں آنے والی تھی اس کی بھی کوئی عزت نہیں تھی اس کی نظر میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راحب جو کسی کام سے باہر جارہا تھا لان میں ان کی بے ہودہ باتیں اس کہ کان میں پڑی تو فطری جذبات کہ ہاتھوں مجبور ہوکر ان کی باتیں سننے لگا۔۔۔۔۔۔۔
راحب کی برداشت جواب دے گئی تھی وہ اس لڑکے کہ سامنے آیا۔ اور زور دار مکہ اسکی ناک پہ رسید کیا۔۔۔۔
” ابے اوئے زیادہ گرمی چڑھی ہے رک تجھے بتاتا ہوں۔۔۔۔”
وہ لڑکا اس حملے کیلئے تیار نہیں تھا اس۔ لئے بچاو نہ کرسکا اور مکا پڑتے ہی دور جاگرا۔۔۔۔۔۔ ۔
مکا عین ناک کی نرم ہڈی پہ لگا تھا۔۔۔ جس سے نکسیر پھوٹ پڑی تھی۔۔۔۔۔۔
معراج نے اپنے دوست کی یہ حالت دیکھی تو مغلظات بکتے ہوئے راحب پہ چڑھائی کردی ۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ اس وقت حویلی کے لان میں گھتم گھتا تھے ۔۔۔۔۔۔
صبح کا وقت تھا تو تمام مرد اس وقت ناشتہ کرنے بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملازم نے ان دونوں کو بری طرح لڑتے دیکھا تو مردان خانے کی طرف بھاگتا ہوا گیا۔۔۔۔۔۔
یک دم حویلی میں بھگ ڈر مچ گئی ۔۔۔۔
دانی کو شاہ سے ضروری بات کرنی تھی اور وہ کب سے دروازہ کی اوٹ میں کھڑی اس کا انتظار کررہی تھی ۔ ۔
لیکن راحب اور معراج کو گتھم گتھا دیکھ گردن نکال کر لان میں دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔
شاہ جیسے ہی مردان خانہ سے نکلا تو اس کی نظر دانی پر پڑی جو اب انکھیں پھاڑے ان دونوں کہ خون الود وجود کو بھڑتے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
شاہ نے بے اختیار اسے وہیں سے پکارا تھا اس کا مقصد اسے وہاں سے ہٹانے کا تھا ۔۔۔۔۔
گڑیا !!!
شاہ کی آواز سن کر وہ دروازہ کہ عین بیچ میں اکھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔
یہ ایک بے ساختہ عمل تھا جو پہلے شاہ سے پھر دانی سے سرزد ہوا ۔۔۔۔۔
اور بس یہ ہی ایک لمحہ تھا دانی کی زندگی کا ۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ جواب میں کچھ کہتی فائرنگ کی آواز فضا میں گونجی اور دوسرے ہی پل وہ زمین پہ ڈھیڑ ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانی !!!
شاہ دیوانہ وار پکارتا ہوا اس تک پہنچا تھا۔۔۔ فائزنگ کی آواز پر سب ہی لاونج میں جمع ہوگئے تھے۔۔۔۔۔ دانی کو گرتا دیکھ معراج کا دوست تو لڑائی چھوڑ کر بھاگ نکلا تھا۔۔۔۔۔ ۔
سکندر صاحب نے لان میں جاکر راحب کو پکڑ لیا تھا۔۔۔۔۔
کیوں کہ گن اس کہ پاس سے برآمد ہوئی تھی۔۔۔۔
لیکن وہ تو ہوش میں ہی نہیں تھا دانی کا ہوش و خروش سے بیگانہ وجود دیکھ کر اپنے اوسان خطا کر بیٹھا تھا ۔۔۔۔ ضعیم احمد مارے حیرت کہ اپنے بیٹے کہ ہاتھ میں گن دیکھ رہے تھے۔۔۔۔
چونکہ گن اس کہ ہاتھ میں رہ گئی تھی تو وہاں کھڑے ہر نفوس نے اسے ہی مورد الزام ٹہرایا
تھا ۔۔۔۔۔ ۔
دانی کہ جسم سے خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گولی عین دل کی جانب جا گھسی تھی۔۔۔۔۔
“دانی میری گڑیا کیا ہوا کیا ہوا اسے کوئی بول کیوں نہیں رہا یہ کیا ہوا کس نے کیا یہ ۔۔۔”
مہتاب زور زور سے رونے لگیں۔۔۔۔۔
شاہ اسے بازووں میں اٹھائے دیوانہ وار گاڑی کی جانب بھاگا تھا ۔۔۔ گاڑی فل اسپیڈ پر سڑکیں عبور کررہی تھی ۔۔۔۔
دانی کا روتا چہرہ بار بار انکھوں کہ اگے لہرا رہا تھا۔۔۔
“نہیں اللہ نہیں پلیز تو میری زندگی لے لے میری گڑیا کو زندگی دے دے دانی تمھیں شاہ کا واسطہ ہوش کرو ۔۔۔۔۔۔”
آستین سے انکھیں رگڑتے ہوئے وہ گاڑی بھگا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
دس منٹ بعد وہ قریبی ہسپتال پہنچا تھا۔۔۔۔
اٹک اٹک کر سانسیں آرہیں تھیں ۔۔
ڈاکٹر اسے بروقت آئی – سی – یو میں لے گئے تھے ۔۔۔۔۔۔
مہتاب بیگم اور سکندر صاحب حواس باختہ اس کہ پیچھے پہنچے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
___________________________
اس نے جاتے وقت دعا کی تھی کہ کاش وہ مر جائے واپس نہ آئے اور واقعی وہ مرگئی تھی ۔۔۔
ضروری تو نہیں جسموں کا مرنا ہی موت کہلائے ۔۔۔
جب جذبات ، احساسات مر جاتے ہیں تو انسان بھی مرجاتا ہے لیکن دنیا والوں کیلیے جسم زندہ رہتا ہے۔۔۔۔
اور آج وہ مکمل طور پر زندہ لاش بن گئی تھی۔۔۔۔۔
درراب کہ انتہائی فیصلہ نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا ۔۔۔۔
وہ خود تو جب سے اسے چھوڑ کر گیا تھا گھر واپس نہیں آیا تھا ۔۔۔۔
“خالہ بی آپ بھی چلی گئیں کس کو بتاوں میں اپنا دکھ ۔۔۔۔ ایک آپ تھیں جو مجھے ہر مشکل سے نکلنے میں مدد دیتیں تھیں آپ بھی چھوڑ کر چلی گئیں۔۔۔۔۔۔”
“نجانے کیسی منحوس تھی میری محبت جب سے اس شخص کہ پلے بندھی تھی غم و دکھ نے راستہ ہی دیکھ لیا ۔۔۔۔۔۔”
شاید آسمان پہ جمے بادلوں کو بھی اس کی ذات پہ بیتے غم و دکھ دیکھ کر رونا آگیا تھآ۔۔۔ چھاجو چھاج مینہ برس رہا تھا اور وہ کھلے آسمان تلے سر گھٹنوں میں دیئے چھت پہ بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔
پجارو کا ہارن سنائی دیا لیکن وہ بے حس بنی برستے پانی میں بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔
درراب گھر پہنچا تو اندھیرے نے اس کا استقبال کیا تھا۔۔ ۔۔۔۔
لائیٹیں آن کیں تو سارا گھر روشنی میں نہا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
بے نام سی خاموشی تھی جس نے اس گھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔۔۔ اس نے اسے تلاشنہ چاہا لیکن وہ وہاں کہیں نہیں تھی ۔۔۔۔ وہ پریشانی سے پورا گھر دیکھنے لگا۔۔۔۔
آخری جگہ بچی تھی وہ دو دو سیڑھیاں طے کرتا ہوا چھت پہ پہنچا اسے وہاں بیٹھا دیکھ بے اختیار سکون کا سانس لیا تھا۔۔۔۔۔۔
اتنی لاپرواہی پر وہ غصہ میں اس کے قریب پہنچا اور بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا۔۔۔
“یہ کیا پاگل پن ہے چلو نیچے ۔۔۔۔۔”
پور پور بارش میں بھیگی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔
“میں نہیں جاوں گی چھوڑو مجھے۔۔۔۔”
اپنا بازو جھٹکہ سے چھڑوایا تھا اس کی گرفت اتنی سخت نہ تھی ۔۔۔۔۔۔
“مجھے سختی کرنے پہ مجبور مت کرو اور چپ چاپ نیچے چلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“میں نے کہہ دہا نہ میری فکر میں گھلنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔”
اس بار اس نے سختی سے کہہ کر اسکہ چہرہ پہ آنکھیں گاڑھی تھیں۔۔۔
چہرہ شدت ضبط سے لال ہورہا تھا۔۔۔۔۔۔
“تم اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہو آخر ہاں کوئی پتھر ہو تم پہ کوئی اثر نہیں ہوتا ۔۔۔۔ بی بی اگر تمھیں یہ گمان ہے کہ ساری رات یہاں کھڑے رہنے سے تم صحیح سلامت رہو گی تو بھول ہے تمہاری۔۔۔۔۔”
درراب کا دل چاہ رہا تھا کہ اس کا دماغ ٹہکانے لگادے۔۔۔۔
“ہاں تو پھر کیوں آئے ہو بچانے ۔۔۔ ایک نیا ظلم توڑنے کیلئے ایک نیا دکھ دینے کیلئے ۔۔۔ بولو تمہاری تو مشکل آسان کررہی ہوں اچھا ہے جلد جان چھوٹ جائے گی تمہاری۔۔۔۔۔”
اس نے کچھ کہے بنا۔ اسکا ہاتھ پکڑا اور زینہ اترنے لگا اور وہ کسی بےجان گڑیا کی طرح کھینچی چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
____________________________
شاہ میری بچی کہاں ہے شاہ میری دانیہ کیسی ہے ۔۔۔؟؟؟
“اماں جان آپ دعا کریں ہماری گڑیا کو کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔۔”
انکھوں میں نمی لئے وہ مہتاب کو دلاسہ دے رہا تھا۔ ۔۔
ڈاکٹر کی سر توڑ کوشش بھی کسی کام نہ آسکی گولی نکل چکی تھی لیکن دانیہ سکندر حیات اپنی زندگی ہار گئی تھی۔ ۔۔
ڈاکٹر کہ انکشاف پر مہتاب بیگم صدمہ میں چلی گئیں تھیں۔۔۔۔
ڈاکٹر کہہ کر چلا گیا تھا۔۔۔ جبکہ شمشیر الدین نے اگے بڑھ کر سکندر صاحب کو گلے لگایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
” دانیہ حیات شاہ سکندر حیات سے جتنی محبت کرتی ہے اتنی کوئی بہن آپنے بھائی سے نہیں کرتی ہوگی۔۔۔”
شاہ کو اپنے ارد گرد محبت سے بھری بازگشت سنائی دی۔۔۔۔۔
اور وہ بے دم سا زمین پہ بیٹھتا چلا گیا :
دوسرے دن دانیہ کو جست خاک کردیا گیا تھا۔۔۔۔۔
“دانیہ کا شاہ جیسا اس دنیا میں کوئی نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔”
“آپ آئیں گے نہ بھائی آپ کو پتا ہے نہ آپ کہ بنا میرا دل نہیں لگتا ۔۔۔”
“دانی میری جان میری گڑیا کیوں چلی گئیں اپنے بھائی کو چھوڑ کر ۔۔ اکیلا رہ گیا تمہارا بھائی ۔۔۔ تم تو کہتی تھیں نہیں رہ سکتی میرے بنا پھر کیسے کیسے چلی گئیں مجھے چھوڑ کر ۔۔۔ تم نے جھوٹ بولا تھا نہ دانی ۔۔۔۔ دانیہ مجھے مار گئیں تم تمہارے لئے بابا کی مخالفت پہ سی ایس ایس کا ٹیسٹ دے کر آیا تھا تاکہ تمھیں یہاں سے لے جاوں میں نہیں لے جاسکا تمہارا شاہ تو بہت کمزور نکلا دانی ۔۔۔ میں مر گیا دانی تمھارے ساتھ خود کو بھی دفنا آیا ہوں ۔۔۔۔۔۔ ”
بھوکا پیاسا وہ کمرہ میں بند ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانی کی ہر لمحہ کی گئیں باتیں اس کہ ذہن پہ سوار تھیں۔۔۔۔۔وہ اس کی اچانک موت برداشت نہیں کرپارہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لمحہ اسے شدت سے کسی کہ ساتھ کی ضرورت تھی لیکن کوئی نہیں تھا یہاں تک کہ دانی بھی نہیں تھی۔۔۔۔
صائمہ مہتاب بیگم کی تیمارداری میں مصروف تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
__________________________
شادی والی حویلی ماتم کدہ بن گئی تھی ۔۔۔۔۔
ریان اور عینی کا ولیمہ موخر کردیا گیا تھا۔۔۔۔۔ جبکہ دانیہ کو گئے دو دن بیت چکے تھے۔۔۔۔ اور یہ دو دن شاہ نے کس طرح گزارے تھے اس کا بیان کرنا سوچ سے باہر تھا۔۔۔۔۔۔
لیکن ابھی تو صرف دو دن ہی گزرے تھےابھی تو پوری زندگی باقی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر حیات شاہ اور شمشیر الدین بیٹھے ہوئے تھے
پورا گاوں وہاں موجود تھا۔۔۔۔
پنچائیت لگی ہوئی تھی سب شمشیر الدین کا فیصلہ سننے آئے ہوئے تھے۔۔۔۔۔
ایک طرف معراج کھڑا تو دوسری جانب راحب کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
ضعیم آحمد سر جھکائے بیٹھے تھے جبکہ وہ وہاں ہو کر بھی وہاں نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔
جگھڑا کس بات پر ہوا تھا؟؟؟
اسی لڑکے سے پوچھا گیا جو معراج کا دوست تھا۔۔۔۔۔۔۔
“بڑے سائیں میں اور معراج آپس میں بات کررہے تھے کہ یہ لڑکا ہمارے سامنے اکر ہم پر بندوق تان لی اور کہنے لگا کہ دانیہ بی بی کہ نکاح سے انکار کردو ۔۔۔۔
لیکن معراج نے منع کردیا ۔۔۔۔
معراج کا یہ سن کر خون کھول اٹھا سائیں کہ ہماری عزت کی سر عام بات کررہا تھا تبھی انہوں نے آو دیکھا نہ تاو اور لاتوں گھوسوں سے معراج کو مارنے لگے میں نے انھیں بچانا چاہا تو ان صاحب نے دروازہ میں کھڑی دانیہ بی بی پر گولی چلادی اور یہ کہا کہ اگر یہ میری نہیں ہوسکتی تو کسی کی بھی نہیں ہوسکتی۔۔۔۔”
اس کا بیان سن کر شاہ بپھرے ہوئے شیر کی مانند راحب کہ پاس گیا اور اسے بری طرح سے مارنے لگا۔۔۔۔۔۔
” تیری اتنی ہممت کہ تو میری بہن سے شادی کرے گا تو نے میری معصوم بہن کو مار دیا میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا زندہ گاڑھ دوں گا۔۔۔۔”
شاہ جنونی انداز میں اسے ٹھوکروں سے ماررہا تھا ۔۔۔۔
سکندر صاحب اور عمیر نے اگے بڑھ کر اسے سنبھالا تھا۔۔۔۔۔۔
جبکہ ضعیم احمد بیٹے کو مار کھاتا دیکھ رہے تھے ۔۔۔ وہ کچھ نہیں بول سکتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“بابا جان چھوڑیں مجھے سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے آپ نے میری گڑیا کو قبر میں اتار دیا وہ چلی گئی مجھے چھوڑ کر بابا جان وہ میری جان تھی آپ کی پگڑی سلامت ہے بس میری بہن منوں مٹی تلے جاسوئی۔۔۔۔”
وہ ڈھاڑے مار مار کر رو رہا تھا وہاں وجود ہر مرد کی انکھیں آشک بار تھیں۔۔۔۔۔
عمیر نے بڑی مشکل سے اسے سنبھالا تھا۔۔۔۔۔۔
“سکندر میں تمہارا نقصان تو پورا نہیں کرسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم پر راحب کا قتل باقی ہے۔۔۔۔۔”
شمشیر الدین نے اونچی آواز میں بات کا آغاز کیا ۔ ۔۔ اس سارے عرصہ میں صعود نے شاہ کو سنبھالا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
:میں اپنے ہاتھ اس کے خون سے نہیں رنگوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
سکندرحیات نے کینہ توز نظروں سے راحب کو گھورا تھا۔۔۔۔ وہ تو پنچائیت کا لحاظ کرگئے تھے۔۔۔۔۔۔
کیوں کہ وہ جذبات میں آکر کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھا سکتے تھے۔ ۔۔ ۔
تو تم خون کہ عوض رقم چاہتے ہو؟؟؟
“میں بے غیرت نہیں ہوں شمشیر ۔۔۔۔”
سکندر صاحب بھڑک اٹھے تھے
“تو پھر اب ایک ہی راستہ ہے اسے اپنی بہن کو دانیہ کہ بدلے ونی کرنا ہوگا ۔۔۔۔۔”
“یعنی حیات صاحب اپنی بیٹی کو بطور ونی تمہارے بیٹے کہ نکاح میں دیں گے۔۔۔”
شمشیر الدین کی بات پر شاہ کو جھٹکا لگا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ ضعیم احمد سر جھکائے آنسو پی رہے تھے۔۔۔۔۔
وہ کچھ نہیں کرسکتے تھے وہ مجبور تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“نہیں بابا جان میں ایسا کچھ نہیں کروں گا ۔۔۔”
“تم خاموش رہو ۔۔۔۔اور ضعیم احمد تم نکاح خواں کا بندو بست کرو۔۔۔۔”
شمشیر کے فیصلہ پہ راحب کو چھوڑ دیا گیا تھا۔۔۔۔
حویلی میں موت کا سا سناٹہ چھا گیا تھا۔۔۔۔ ضعیم احمد کا فیصلہ نجمہ کہ پیروں تلے زمین کھینچ گیا تھا۔۔۔۔۔
تم اپنئ بیٹی کو ونی کررہے ہو شرم نہیں آتی تمھیں؟؟؟
“چپ کرو ورنہ بیٹے سے ہاتھ دھو بیٹھو گی۔۔۔۔نالائق نے۔ ان کی اکلوتی بیٹی کا قتل کردیا ہے۔۔۔”
“نہیں ضعیم میں اپنے بیٹے کو جانتی ہوں وہ ایسا نہیں کرسکتا تمھیں دھوکا ہوا ہے ۔۔۔”
“تمہارے بیٹے کہ ہاتھ میں گن تھی ۔۔۔۔”
ضعیم نے قطعا کہاً ۔۔۔
“میری بیٹی کا کیا قصور ہے اس میں اماں آپ ہی سمجھائیں عینو کا کیا قصور ہے ۔۔”
“نجمہ چیخ چیخ کر رونے لگیں تھیں۔۔۔ ۔ اس کی بیٹی کا بھی قصور نہیں تھا نجمہ ۔۔۔”
دادو کی بات پر عینو نے خالی انکھوں سے انھیں دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔
“ہمیں نہیں چاہییے تمہاری بیٹی ہم اپنا معاملہ خدا پہ چھوڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔”
وہ اب کافی حد تک سنبھل چکیں تھیں صائمہ نے ان کا خیال کیا تھا۔۔۔۔
بڑی بہو تھی ان کی اور وہ چھوٹی سی دانی تو اس کی بھی لاڈلی تھی۔۔۔ اسے ماہم کا ہی درجہ دیتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہتاب کی بات پر سب نے ان کی جانب دیکھا:
یہ کیا کہہ رہی ہو تم مہتاب ؟؟؟
“تم جانتی نہیں ہو یہ رسم ہے جو ہمارے بزرگوں کہ دور سے چلی آرہی ہے ۔۔۔۔”
سعیدہ بیگم بگڑ کر بولیں تھیں۔۔۔۔
“معاف کیجئے گا ماں جی میں اور میرا بیٹا ان بے ہودہ رسم و رواج کو ماننےسے انکاری ہیں۔۔۔۔۔”
مہتاب صدمہ میں تھیں لیکن اتنی بھی نہیں کہ ایک اور لڑکی ان کہ سامنے بے مول ہورہی ہو اور وہ تماشائی بنی رہیں۔۔۔۔۔
“خاموش ہوجاو جو فیصلہ پنچائیت نے کردیا ہے اسی پہ عمل کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔”
تھیں تو عورت ہی نہ سکندر کہ غصہ سے کہنے پہ چپ ہوگئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ نجمہ اپنی بیٹی کو لگائے آنسو بہارہیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر میں نکاح خواں آچکے تھے
قاضی صاحب نے نکاح شروع کیا تھا۔۔
عنایہ احمد کیا آپ کو درراب شاہ ولد سکندر حیات شاہ پانچ ہزار سکہ رائج الوقت ان سے نکاح قبول ہے ؟
عنایہ گم سم ہاتھوں کی لکیروں کو۔ گھورے جارہی تھی
نجانے کس نے اسے ٹہوکا دیا تھا اور کسی نے کہا تھا اگر تم نے یہ نکاح قبول نہیں کیا تو بدلہ میں راحب مارا جائے گا۔۔۔۔
“قبول ہے ۔۔۔۔”
“قبول ہے ”
“قبول ہے”
اپنی پوری زندگی دان کردی تھی اس نے اپنے بھائی کہ لئے۔۔۔۔۔ وہ آج کی پڑھی لکھی لڑکی رواجوں کی زنجیر میں جکڑی جا چکی تھی۔۔۔۔
کیسا نکاح تھا جس کی خوشی کسی کہ چہرہ پہ نا تھی کتنی بد بخت تھی وہ ۔۔۔۔۔
درراب سکندر ولد سکندر حیات شاہ آپ کا نکاح عنایہ ضعیم آحمد سے پانچ ہزار سکہ رائج الوقت طے کیا جاتا ہے آپ کو قبول ہے؟؟
“بھائی آپ کی دلہن میں نے پسند بھی کرلی ہے ”
دانی کی بات پر فلک شگاف قہقہہ برآمد ہوا تھا۔۔۔۔
بھائی بی سیریس ؟؟
“اوکے میری جان بی سیریس ۔۔۔”
پوچھیں کون ہے وہ خوش نصیب ؟؟
بتاو کون ہے وہ بد نصیب؟؟
شاہ نے ترکی بہ ترکی کہا تھا۔۔۔
“اللہ نہ کرے بھائی آپ کی وائف بہت نصیبوں والی ہوگی کیوں کہ میرے بھائی جیسا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔۔”
“عنایہ میم آپ کی بیوی بنیں گی میں آج ہی اماں جان سے کہوں گی۔۔۔۔۔”
اور وہ اس کی بات پہ مسکرا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“قبول ہے ۔۔۔۔”
“قبول ہے ”
“قبول ہے ”
تم تو چلی گئیں لیکن اپنی بات جاتے ہوئے بھی مکمل کرگئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ناچاہتے ہوئے بھی اسے زوجیت میں قبول کرگیا تھا۔۔۔۔۔
____________________________
“اس دن بھی میں نے تمھیں کچھ نہیں کہا تھا لیکن تم میری نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھارہی ہو۔۔۔۔ ”
کون سی نرمی ہاں اور کیوں کررہے ہیں نرمی ۔۔۔۔ ؟؟؟
آج وہ سارے حساب بے باق کرنے بیٹھی تھی
پورے دو سال ہوگئے درراب شاہ تم نے مجھے میرے بھائی سے ملنے نہیں دیا ۔۔۔۔ کس نرمی کی بات کررہے ہو تم؟؟؟
“تم میرے سامنے اپنے قاتل بھائی کا نام مت لو جس نے میری زندگی مجھ سے چھین لی اسے تو میں ایسے نہیں چھوڑوں گا۔ تختئہ دار پر پہنچا کر دم لوں گا۔۔۔۔۔”
درراب کی انکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
“اگر میرے بھائی کی وجہ سے تمہاری زندگی حرام ہوگئ تو میں بھی تمہارا ساتھ پاکر کوئی خوش نہیں ہوں ۔۔۔۔ تمہاری بہن کی کوئی غلطی نہیں تھی لیکن میرے بھائی کا بھی کوئی قصور نہیں تھا تم تو پہلی دفعہ گاوں گئے تھے تمھیں کیا پتا کہ کون کس قماش کا ہے ۔۔۔ کبھی کبھی انکھوں دیکھا۔ بھی غلط ثابت ہوتا ہے۔۔۔۔۔”
“چلی جاو یہاں سے ورنہ میں کچھ کر بیٹھوں گا۔۔۔۔۔”
درراب نے اسے دروازہ کی جانب دھکیلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور خود وہیں بیٹھ گیا ۔۔۔۔ زخم پھر سے ہرے ہوچکے تھے۔۔۔۔ کوئی نہیں تھا اس کا جو اس کہ زخموں پہ مرحم رکھتا ایک وہ ہی تھی اور وہ بھی چلی گئی۔۔۔۔
“تم غلط تھیں دانی کوئی مجھے نہیں سمجھ سکتا تمہاری میم بھی نہیں۔۔۔”
رات قطرہ قطرہ گزر رہی تھی اس گھر میں دو نفوس سانسیں لے رہے تھے لیکن جی نہیں رہے تھے ۔۔۔۔۔
اور وہ درراب کی شکستہ آواز سنتی دروازہ سے لگی بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔ جو کہ بند ہوچکا تھا۔۔۔۔۔
کپڑے ابھی بھی گیلے ہورہے تھے لیکن اسے سردی محسوس ہی نہیں ہورہی تھی اسے تو کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
____________________________
چاروں طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی ایک چھوٹا سا شکستہ سا ٹوٹا پھوٹا گھر بنا ہوا تھا جس کہ اطراف میں جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔۔۔
یہ جگہ قدرے آبادی سے ہٹ کر تھی ۔۔۔۔ ایک گھنے جنگل میں کونے پہ یہ چھوٹا سا مکان بنا ہوا تھا۔۔۔۔ مکان بھی کیا تھا کچی اینٹوں کو جما کر ایک ڈربہ نما بنا ہوتھا۔۔۔۔۔
دن میں بھی یہاں کسی آدم زاد کا کائی شبہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
بڑے لمبے چوڑے گھنے درختوں نے اس مکان کو گھیرا ہوا تھا جو اجالے میں بھی تاریکی کا پتہ دے رہے تھے۔۔۔۔۔۔
ایک لمحہ اسے یہاں آنا اپنی غلطی لگی تھی لیکن دوسرے ہی لمحے میں اس نے آنی والی سوچ کی نفی کی تھی۔۔۔۔۔۔
فضا میں اسے گھٹن کا احساس ہوا اور نا قابل برداشت بدبو اس کہ نتھنوں سے ٹکڑائی ۔۔۔۔
اس نے فورا ناک پہ ہاتھ رکھا۔۔۔۔
یقینی تھا کہ اس کی موجودگی جان کر مخالف نے اسے اس کہ مقصد سے باز رکھنے کی لئے یہ سازش رچی ہو۔۔۔ اپنا منہ نیچے جھاڑیوں کی جانب جھکا کر گھٹنوں کہ بل بیٹھ گیا۔ ۔۔۔
ناک پہ جما کر ہاتھ رکھنے کی وجہ سے منہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا تاکہ سانس کا تسلسل برقرار رہے۔۔۔۔۔۔۔
اسی مکان سے دھواں اٹھتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔ اور ساتھ ہی تپش بڑھنے لگی۔۔۔۔
اسے لگا اگر وہ تھوڑی دیر اور وہاں رہا تو واپس نہ جاسکے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر یک دم وہ بدبو آنا بند ہوچکی تھی۔۔ ۔۔
ناک سے ہاتھ ہٹایا۔۔۔ انکھیں سرخ ہورہیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔
اسے کچھ سمجھ نہیں آیا وہ کیا کرے اس مکان کہ اندر جائے یا یہیں سے ہی پلٹ جائے ابھی وہ اسی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ جیپ کہ رکتے ہی ٹائر چڑچڑانے کی آواز نے سناسان ماحول میں ارتعاش پیدا کیا ۔۔۔۔۔۔
بوسیدہ اور کچے مکان سے ایک آدمی برآمد ہوا ۔۔۔۔۔۔۔
اور جیپ کی جانب آیا۔۔۔۔
دین محمد تھوڑا اگے ہو کر ان کی حرکات و سکنات کا جائزہ لینے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاشا تم یہ ٹھیک نہیں کررہے ہو؟؟؟
“میں کیا کررہا ہوں اور کیا نہیں یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے ۔۔۔”
کرخت آواز میں کہا گیا ۔۔۔۔۔۔۔
“تمھیں باس نے منع کیا تھا یہاں آنے سے اگر اپنی سلامتی چاہتے ہو تو نکلو یہاں سے ۔۔۔۔”
کون بتائے گا باس کو….. ! تم؟؟؟
“امید کرسکتے ہو کیوں کہ اگر اس نے مجھ سے کچھ پوچھا تو میں بتادوں گا۔۔۔ اس سے پہلے کہ تمھیں کوئی اور دیکھے غائب ہوجاو ۔۔۔ ورنہ پاشا تمہارا نام و نشان مٹا دے گا دنیا سے ۔۔۔۔۔۔۔۔”
دین محمد کو ان کی باتیں تو کچھ خاص پلے نہ پڑھیں لیکن پھر بھی ریکارڈ کرنا نہ بھولا تھا۔ ۔
اگلا قدم اسکا یہاں سے نکلنے کا تھا جو کہ دو گھنٹوں میں ممکن نہ تھا۔۔۔ اس لئے بنا آہٹ کئے وہ وہیں ٹیلے پہ نیم دراز ہوگیا۔۔۔۔۔۔
جبکہ موٹا سا بھدا انسان واپس جیپ میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا ۔۔۔ اور پاشا نے اپنے قدم واپس اس مکان کی جانب موڑ لئے۔۔۔۔۔۔۔
___________________________